Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 7

سورة الإنفطار

الَّذِیۡ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ ۙ﴿۷﴾

Who created you, proportioned you, and balanced you?

جس ( رب نے ) تجھے پیدا کیا ، پھر ٹھیک ٹھاک کیا پھر ( درست اور ) برابر بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Who created you, fashioned you perfectly, and gave you due proportion. meaning, `what has deceived you concerning the Most Generous Lord' الَّذِى خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ Who created you, fashioned you perfectly, and gave you due proportion. meaning, `He made you complete, straight, and perfectly balanced and proportioned in stature. He fashioned you in the best of forms and shapes.' Imam Ahmad recorded from Busr bin Jahhash Al-Qurashi that one day the Messenger of Allah spat in his palm and placed his finger on it. Then he said, قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا ابْنَ ادَمَ أَنْى تُعْجِزُنِي وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هذِهِ حَتْى إِذَا سَوَّيْتُكَ وَعَدَلْتُكَ مَشَيْتَ بَيْنَ بُرْدَيْنِ وَلِلَْرْضِ مِنْكَ وَيِيدٌ فَجَمَعْتَ وَمَنَعْتَ حَتْى إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ قُلْتَ أَتَصَدَّقُ وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ Allah the Mighty and Sublime says: "O Son of Adam! How can you escape Me when I created you from something similar to this (spit) Then I fashioned you and made your creation balanced so that you walked between the two outer garments. And the earth has a burial place for you. So you gathered (wealth) and withheld it until your soul reached your collarbone (i.e., death comes). Then, at that time you say, `I will give charity now.' But how will there be time for charity" This Hadith has also been recorded by Ibn Majah . Concerning Allah's statement, فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاء رَكَّبَكَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی حقیر نطفے سے، جب کہ اس کے پہلے تیرا وجود نہیں تھا۔ 7۔ 2 یعنی تجھے ایک کامل انسان بنادیا، تو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور عقل فہم رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الذی خلقک فسوئک…:) وہ تجھے بےڈھب بنا سکتا تھا، بندر، خنزیر یا کوئی اور جانور بھی بنا سکتا تھا۔ اتنی اچھی ترکیب سے جب پہلے بنادیا تو جزائے اعمال کے لئے دو بارہ کیوں نہیں بنا سکتا ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ خَلَقَكَ فَسَوّٰىكَ فَعَدَلَكَ۝ ٧ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰٹکَ فَعَدَلَکَ ۔ } ” جس نے تمہیں تخلیق کیا ‘ پھر تمہارے نوک پلک سنوارے ‘ پھر تمہارے اندر اعتدال پیدا کیا۔ “ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قوائے جسمانی اور قوائے نفسیاتی میں ہر طرح سے اعتدال اور توازن پیدا کیا ہے۔ گویا تمہاری تخلیق اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کی مظہر ہے۔ تمہاری تخلیق کے اندر توازن اور خوبصورتی کا یہ پہلو گویا اس حقیقت پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں عدل و اعتدال کو پسند فرماتا ہے اور یہ کہ وہ تم انسانوں کے ساتھ آخرت میں بھی عدل و انصاف کا معاملہ فرمائے گا ‘ تاکہ گناہگاروں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور نیکوکار اپنی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ پائیں ۔ تمہاری مبنی براعتدال تخلیق و ترکیب کا تقاضا تو یہ تھا کہ تمہارے خیالات و اعمال بھی اعتدال اور توازن کا مظہر ہوتے ‘ مگر تم لوگ ہو کہ اپنے خالق کے بارے میں ہی دھوکے میں مبتلا ہوگئے ہو۔ تم اس کی شان غفاری کو تو بہت اہتمام سے یاد رکھتے ہو جبکہ اس کی صفت عدل سمیت بہت سی دوسری صفات کو بالکل ہی بھولے ہوئے ہو ۔ تمہاری یہ بےاعتدالی تمہارے اس خالق کو بالکل پسند نہیں ہے جس نے تمہاری تخلیق کا خمیر ہی اعتدال سے اٹھایا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:7) الذی خلقک : الذی اسم موصول خلق ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ اس کا صلہ۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ جس نے تجھے پیدا کیا۔ یہ رب کی صفت ثانیہ ہے یا الکریم صفت ہے رب کی۔ اور الذی خلقک فسوک فعد لک فی ای صورۃ ماشاء رکبک اس کی کرم نوازیاں ہیں۔ فسوک ف عاطفہ ہے اور سوک کا عطف خلقک پر ہے پھر اس نے تجھ کو برابر کیا پورا پورا بنایا۔ سوی تسویۃ (تفعیل) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب (س و ی مادہ) تسویہ کے معنی کسی چیز کے پستی یا بلندی میں برابر بنانے کے ہیں۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہارے اعضاء کو درست بنایا اور اس قابل کردیا کہ وہ اپنے اپنے فرائض بخوبی ادا کرسکیں ۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر) ۔ فعدلک : ف عاطفہ ہے اس کا عطف خلقک پر ہے عدل ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ عدل (باب ضرب) مصدر سے جس کے معنی ہیں برابر کرنا۔ لوٹنا۔ پھرنا۔ ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عدلک کے معنی ہیں کہ تیرے بعض اعضاء کو بعض اعضاء کے ساتھ اس طرح برابر کردیا کہ سب میں اعتدال آگیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی متناسب اعضاء دیئے یہ نہیں کہ ایک ٹانگ لمبی دی اور دوسری چھوٹی یا ایک آنکھ بڑی دی اور دوسری چھوٹی شاہ صاحب فرماتے ہیں : ” یعنی ٹھیک کیا بدن میں برابر کیا (خوبصورتی کے ساتھ بنایا) خصلت میں “ موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذی ........................ فعدلک (7:82) ” جس نے تمہیں پیدا کیا ، تمہیں نک سک سے درشت کیا اور متناسب بنایا “۔ اور یہ خطاب یایھا الانسان سے شروع کیا۔ مثلاً انسان کی قوت مدرکہ جو عقل میں ہے ، ہم اس کی حقیقت کو نہیں جانتے ، اس قدر جانتے کہ یہ ادراک قوت عقلیہ کے ذریعے ہوتا ہے اور قوت عقلیہ ہی آلہ ادراک ہے۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے ، ہم نے اسے جانتے ہیں اور نہ یہ جانتے ہیں کہ اس قوت کا عمل ادراک کس طرح کام کرتا ہے۔ ہماری معلومات اور مدرکات کس طرح دماغ میں رہتی ہیں ، ہم بس اس قدر فرض کرلیتے ہیں کہ نہایت ہی لطیف دماغی اور اعصابی ریشوں کے ذریعہ یہ معلومات اور مدرکات ذہن اور عقل میں منتقل ہوتی ہیں۔ لیکن عقل اسے کہاں سٹور کرتی ہے ؟ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ دماغ کے اندر ریکارڈ کرنے کا کوئی فیتو ہے تو پھر ساٹھ (60) سال کے لئے کئی ملین میٹر طویل فیتہ ونا چاہئے کہ وہ ساٹھ سالہ زندگی میں انسانی مشاہدات کو ریکارڈ کرے۔ ساٹھ سال کا ذکر ہم اس لئے کرتے ہیں کہ بالعموم اوسط عمر ساٹھ سال ہوتی ہے۔ ان ساٹھ سالوں میں انسان الفاظ ومعانی ، تاثرات اور شعور اور مناظر ومشاہد کے لاتعداد چیزیں اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتا ہے۔ انفرادی الفاظ ومعانی پھر کس طرح مرکب ہوکر نتائج پیدا کرتے ہیں۔ انفرادی حادثات اور انفرادی تصاویر کس طرح کمپوز ہوکر علم اور کلچر پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایک الگ دنیا ہے اور معلومات علوم اور اصول میں بدل جاتی ہیں۔ مدرکات اور ادراک کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور تجربات سے علم وسائنس وجود میں آتے ہیں۔ یہ اپنی جگہ دنیا کے عجائبات ہیں۔ یہ تو ہوئی انسان کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ، جو اس کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اس کی وجہ سے انسان ممتاز ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیات میں سے یہ کوئی بڑی خصوصیت نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر اللہ کی روح سے جلا ہوا ایک چراغ بھی ہے جسے انسان روح کہا جاتا ہے ۔ انسان کی یہ روح انسان کو جمال کائنات کے ساتھ جوڑتی ہے اور یہی روح ہر انسان کو خالق کی روح سے مربوط کرتی ہے۔ اور انسان کو وہ لمحات نصیب کرتی ہے جن میں انسان حقیقت کبریٰ کے ساتھ جڑ جاتا ہے ، جو اپنی جگہ لامحدود ہے اور اس اتصال میں پھر انسان جمال حقیقت کبریٰ کی کچھ جھلکیاں پالیتا ہے۔ انسان اس روح کی حقیقت سے بھی بیخبر ہے۔ روح تو ایک بڑی چیز ہے ، انسان جن محسوسات کا ادراک کرتا ہے ، وہ تو ان کی حقیقت سے بھی بےبہرہ ہوتا ہے۔ لیکن یہ روح ہی ہے جو اسے خوشی اور سعادت مندی کے وہ لمحات اور وہ جھلکیاں عطا کرتی ہے جن کی وجہ سے وہ اس زمین پر ہوتے ہوئے بھی عالم بالا سے مربوط ہوجاتا ہے۔ اور یوں وہ جنت کی ابدی زندگی کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ حقیقت کبریٰ کے جمال کو دیکھ سکے۔ یہ روح ، انسان کے لئے اللہ کا مخصوص تحفہ ہے۔ اور اس روح ہی کی وجہ سے انسان ، انسان قرار پایا ہے۔ اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے یوں مخاطب کیا۔ یایھا الانسان اور پھر اسے اس قدر محبت آمیز سرزنش کی۔ ماغرک ................ الکریم (6:82) ” تجھے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے غرے میں ڈال دیا ہے “۔ یہ اللہ کی طرف سے انسان کے لئے براہ راست سرزنش ہے۔ اللہ بذات خود انسان کو پکارتا ہے اور انسان جب نظریں اٹھاتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے ایک گنہگار ، غافل ، اللہ کے فضل وکرم کی قدر نہ کرنے والا ، بلکہ اللہ کے ہاں ایک گستاخ شخصیت کی صورت میں کھڑا نظر آتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اسے اپنی عظیم نعمت اور اپنے فضل وکرم سے آگاہ فرماتا ہے۔ اور اس کو اس کی ناقدری ، اور اس کی تقصیرات اور گستاخیوں سے مطلع فرماتا ہے۔ یہ ایک انسانی سرزنش ہے کہ اگر انسان میں احساس ہو تو وہ پانی پانی ہوجائے۔ اگر انسان اپنی انسانیت کے سر چشمے کو تلاش کرے ، اور اللہ کی اس اطلاع اور اللہ کی ذات پر غور کرے اور یہ دیکھے کہ وہ کس بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے۔ اسے کس قدر عظیم ذات پکاررہی ہے ، اور اس کی سرزنش کررہی ہے اور اس پر یہ عتاب ہورہا ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ انسان پگھل کر رہ جائے۔ ذرا غور کرو۔ یایھا الانسان ................................ رکبک (6:82 تا 8) ” اے انسان ، کس چیز نے تجھے اپنے رب کریم کی طرف سے دھوکے میں ڈال دیا ، جس نے تجھے پیدا کیا ، تجھے نک سک سے درست کیا ، تجھے متناسب بنایا ، اور جس صورت میں چاہا ، تجھ کو جوڑ کر تیار کیا “۔ اب اگلے پیرے میں یہ بتایا ہے کہ انسان کیوں غافل ہوجاتا ہے اور اس سے تقصیرات کیوں سرزد ہوتی ہیں۔ ان کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن کا یقین نہیں رکھتا۔ بتایا جاتا ہے کہ حساب و کتاب ایک حقیقت ہے اور اس کی کیفیات اور مناظر یوں ہوں گے۔ اور یہ کہ لوگوں کا انجام یکساں نہ ہوگا اور اس حقیقت کو نہایت تاکید کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) وہ پروردگار جس نے تجھ کو بنایا پھر تجھ کو درست کیا اور تیری بناوٹ میں ایک خاص تناسب و اعتدال رکھا۔