Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 8

سورة الإنفطار

فِیۡۤ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ ؕ﴿۸﴾

In whatever form He willed has He assembled you.

جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

In whatever form He willed, He put you together. Mujahid said, "In which resemblance: the father, the mother, the paternal uncle, or the maternal uncle." In the Two Sahihs it is recorded from Abu Hurayrah that a man said, "O Messenger of Allah! Verily, my wife has given birth to a black boy." The Prophet said, هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ Do you have any camels? The man said, "Yes." The Prophet then said, فَمَا أَلْوَانُهَ What color are they? The man said, "Red." The Prophet said, فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَق Do any of them have patches of gray? The man said, "Yes." The Prophet asked him, فَأَنْى أَتَاهَا ذلِك How did this happen to them? The man replied, "It is probably an inherited genetical strain." The Prophet then said, وَهَذَا عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْق Likewise, this (with your son) is probably an inherited genetical strain. Concerning Allah's statement, كَلَّ بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی اس نے رحم مادر میں تجھے پیدا کیا تو یہ نہیں کیا کہ تمہاری ایک ٹانگ چھوٹی ہو اور دوسری بڑی۔ یا ناک کا ایک نتھنا لمبوترا ہو اور دوسرا چپٹا ہو۔ بلکہ تیرے سب اعضاء متوازن بنائے۔ اسی ایک بات سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں کہ انسان از خود بنا ہے اور یہ سب فطرت کے اتفاقات کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اندھی فطرت یا اتفاقات میں اتنا شعور ہے کہ انسان کے اعضاء کی تخلیق میں اس قدر یکسانیت اور موزونیت کا لحاظ رکھ سکے ؟ پھر اس نے اعضاء کی تخلیق کے بعد تم میں وہ قوتیں اور استعدادیں پیدا کیں جو تمہاری زندگی کے لیے ضروری تھیں۔ پھر ہر انسان کو الگ الگ شکل و صورت عطا کی اور وہ شکل دی اور نقش بنائے جو اللہ خود چاہتا تھا۔ اس طرح ظاہری اور باطنی قوتوں میں حسین امتزاج پیدا کرنے کے بعد تجھے ماں کے پیٹ سے باہر نکالا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فِي أَيِّ صُورَ‌ةٍ مَّا شَاءَ رَ‌كَّبَكَ (He composed you in whichever form He willed....82:8). This is to indicate that since the basic structure of all human beings is the same, it was expected that the zillions of members of the human society would have shared the same shape, size and features, but the perfect mastery and the wonderful acumen of the Supreme Creator has created them so differently that each one of them has its own unique features that make him clearly distinct from all others, and no one is confused with another. Having stated the creative acumen of the Great Creator, the verse states: يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّ‌كَ بِرَ‌بِّكَ الْكَرِ‌يمِ (0 man! What has deceived you about your Gracious Lord,...82:6). Allah has endowed man with such natural faculties and abilities that every limb and every joint of his body was enough to remind him of His Creator, and to make him obedient. But he is lured away from his gracious Lord, has forgotten Him and disobeyed Him. The question is: How did he forget his Lord, how did he become heedless of Him, and how is he lured away from his Lord? On this occasion, the adjective karim (Gracious) used for the &Lord& points to the answer. The reason for such an ungrateful attitude is that Allah is Gracious and does not punish man immediately after his committing a sin. Rather, his sustenance, welfare and well-being, and worldly comforts [ and pleasures ] are not curtailed. He misinterprets Allah&s magnanimity, and thus falls into deception. If man were to think rationally, he would adopt a grateful attitude and obedient behaviour, rather than adopting an ungrateful attitude and impudent behaviour. Sayyidna Hasan Al-Basri (رح) says: کم من مغرور تحت السّتر و ھو لا یشعر &How many humans are there whose faults are put [ by Allah ] under cover, (i.e. He did not disgrace them), yet they do not appreciate (and are deluded by His grace.&

(آیت) فِيْٓ اَيِّ صُوْرَةٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ ، یعنی باوجود اس کے کہ تخلیق سب انسانوں کی ایک خاص وضع اور ہیت اور مزاج پر ہونے کی وجہ سے سب میں اشتراک ہے اس کا نتیجہ بظاہر یہ ہونا چاہئے تھا کہ سب ایک ہی شکل و صورت کے ہوتے باہمی امتیاز دشوار ہوجاتا، مگر حق تعالیٰ جل شانہ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ نے کروڑوں بلکہ اربوں پدموں انسانوں کی شکل و صورت میں ایسے امتیازات پیدا فرمادیئے جو ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں ہوتے صاف اور نمایاں امتیاز رہتا ہے۔ انسان کی ابتدائی تخلیق کے یہ کمالات قدرت بیان فرما کر ارشاد فرمایا مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيْم کہ اے غافل انسان جس پروردگار نے تیرے وجود میں ایسے ایسے کمالات ودیعت فرمائے اسکے معاملے میں تو نے کیونکر دھوکہ اور فریب کھایا کہ اسی کو بھول بیٹھا اسکے احکام کی نافرمانی کرنے لگا، تجھے تو خود تیرے جسم کا جوڑ جوڑ اللہ کی یاد دلانے اور اس کی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کافی تھا پھر یہ بھول اور غفلت پر غرور اور دھوکہ کیسے لگا، اس جگہ رب کی صفت کریم ذکر کرکے اسکے جواب کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ انسان کے بھول اور دھوکہ میں پڑنے کا سبب حق تعالیٰ کا کریم ہونا ہے کہ وہ اپنے لطف وکرم سے انسان کے گناہ پر فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ اسکے رزق اور عافیت اور دنیوی آسائش میں بھی کوئی کمی نہیں کرتا، یہ لطف وکرم اسکے غرور اور دھوکے کا سبب بن گیا حالانکہ ذرا عقل سے کام لیتا تو یہ لطف وکرم غرور و غفلت کا سب بننے کے بجائے اور زیادہ اپنے رب کریم کے احسانات کا ممنون ہو کر اطاعت میں لگ جانیکا سبب ہونا چاہئے تھا۔ حضرت حسن (رح) بصری نے فرمایا کہ کم من مغرور تحت الستر وھولا یشعر یعنی کتنے ہی انسان ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے عیبوں اور گناہوں پر پردہ ڈال ہوا ہے ان کو رسوا نہیں کیا، وہ اس لطف وکرم سے اور زیادہ غرور اور دھوکے میں مبتلا ہوگئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْٓ اَيِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَاۗءَ رَكَّبَكَ۝ ٨ ۭ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ صور الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران/ 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع . ( ص و ر ) الصورۃ : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف/ 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر/ 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار/ 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل/ 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ ركب الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ ) رک ب ) الرکوب کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل/ 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت/ 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ ۔ } ” پھر جس شکل میں اس نے چاہا تجھے ترکیب دے دیا۔ “ اللہ تعالیٰ ہر انسان کی شکل اور اس کے مختلف اعضاء اپنی مرضی و مشیت کے مطابق بناتا ہے۔ ظاہر ہے اس معاملے میں کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے مجھے حضرت حسان بن ثابت (رض) کے نعتیہ اشعار یاد آگئے ہیں۔ آپ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں فرماتے ہیں : وَاَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ وَاَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائُ خُلِقْتَ مُبَرَّئً ‘ ا مِنْ کُلِّ عَیْبٍ کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَائُ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر جمیل عورتوں نے جنا ہی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر عیب اور نقص سے مبراپیدا ہوئے ہیں۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح پیدا ہوئے ہیں جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود چاہا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, "In the first place, the bounty and favour of your Beneficent Sustainer required that you should have acknowledged his bounties and become an obedient servant and should have felt shy of disobeying Him, but you were deluded into thinking that you have become whatever you are by your own effort, and you never thought that you should acknowledge that favour of Him Who gave you life. Secondly, it is your Lord's bounty and kindness that you can freely do whatever you like in the world and it never so happens that whenever you happen to commit an error, He should punish you with paralysis, or blind your eyes, or cause lightning to strike you. But you took His bountifulness for weakness and were beguiled into thinking that the Kingdom of your God was devoid of justice "

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :4 یعنی اول تو اس محسن پروردگار کے احسان و کرم کا تقاضا یہ تھا کہ تو شکر گزار اور احسان مند ہو کر اس کا فرمانبردار بنتا اور اس کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم آتی ، مگر اس دھوکے میں پڑ گیا کہ تو جو کچھ بھی نا ہے خود ہی بن گیا ہے اور یہ خیال تجھے کبھی نہ آیا کہ اس وجود کے بخشنے والے کا احسان مانے ۔ دوسرے ، تیرے رب کا یہ کرم ہے کہ دنیا میں جو کچھ تو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ جونہی تجھ سے کوئی خطا سر زد ہو وہ تجھ پر فالج گرا دے یا تیری آنکھیں اندھی کر دے ، یا تجھ پر بجلی گرا دے ۔ لیکن تو نے اس کریمی کو کمزوری سمجھ لیا اور اس دھوکے میں پڑ گیا کہ تیرے خدا کی خدائی میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:8) فی ای صورۃ ما شاء رکبک۔ یہ کلام عدلک کا بیان ہے اس لئے اس کو کسی کی طرف معطوف نہیں کیا گیا اور دونوں جملوں کے درمیان حرف عطف نہیں لایا گیا۔ صورۃ میں تنوین تنکیر ہے اور تنکیر کی تاکید میں ما کو لایا گیا ہے اور اس جگہ تنکیر مفید تکثیر ہے یعنی جس جس صورت میں چاہا تمہیں جوڑ دیا۔ الذی سے لے کر رکبک تک پورا کلام ربک کی دوسری صفت ہے جس سے رب کی ربوبیت کا ثبوت اور کریم کے کرم کی وضاحت ہو رہی ہے اور اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ جو خدا اول تخلیق میں ایسے ایسے کام کرسکتا ہے وہ دوسری تخلیق پر بھی قادر ہے اس سے مخالفت کفران کی تاکید اور غرور و کفران پر زجر کرنی بھی مقصود ہے کیونکہ جس کی شان ایسی ہو اس کی ناشکری جائز نہیں ۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ہر ایک کو الگ رنگ الگ شکل اور الگ روپ دیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی باوجود اشتراک خلق و تسویہ و تعدیل کے پھر الگ الگ طور پر پیدا کیا، ماغرک سے پہلے معاد کا اور اس کے بعد مبدا کا ذکر اشارہ ہے کہ گو امر مانع اغترار ہو پھر بھی غرور سے باز نہیں آتا اور کریم کی صفت میں تلقین حجت نہیں، بلکہ تقویت ہے مانع کی یعنی کریم ہونا مقتضی ہے کہ اس کی طرف زیادہ توجہ کی جائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) نیز جس صورت میں چاہا تجھ کو ترکیب دے دیا۔ یعنی ایسا کریمجس نے تجھ کو نیستی سے وجود بخشا نیست سے ہست کیا پھر تیری ساخت اور بناوٹ میں دوسرے حیوانات سے خاص امتیاز رکھا کائنات میں تیرا نقشہ تمام مخلوق سے بہتر بنایا تیرے اعضا کو درست کیا ہرچیز کو ایک ایسے موقع سے رکھاجس موقع کے وہ چیز قابل تھی پھر تیری ہرچیز میں اعتدال رکھا۔ جیسا حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ٹھیک کیا بدن میں برابر کیا خصلت میں۔ یعنی تمام اخلاط میں اعتدال رکھا جمے ہوئے خون سے جو لوتھڑا بنایا اس لوتھڑے کو جو ایک گلی کی شکل میں تھا اس گلی کو درست کیا پھر اس سے جو اعضا پھوٹے اور نکلے وہ نہایت تناست سے نکلے پھر جس صورت میں چاہا ترکیب دے دیا یعنی بچہ کبھی ماں کی اور کبھی باپ کی صورت پر پیدا ہوتا ہے کبھی ننھیال اور کبھی ددھیال میں سے کسی کی شکل پر پیدا ہوتا ہے اور ہر ملک اور مقام کے اعتبار سے بہترین شکل و صورت عطا فرمائی۔ ھوالذیی یصورکم فی الارحام کیی یشائ۔ ایسے رب کریم سے جس کے اس قدر احسانات ہیں اے انسان تو دھوکے میں پڑا ہوا ہے اور غفلت وبھول میں مبتلا ہے۔