Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 1

سورة المطففين

وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾

Woe to those who give less [than due],

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Increasing and decreasing in the Measure and Weight will be a Cause for Regret and Loss An-Nasa'i and Ibn Majah both recorded from Ibn Abbas that he said, "When the Prophet came to Al-Madinah, the people of Al-Madinah were the most terrible people in giving measurement (i.e., they used to cheat). Thus, Allah revealed, وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ Woe to Al-Mutaffifin. After this, they began to give good measure." The meaning of the word Tatfif here is to be stingy with measurement and weight, either by increasing it if it is due from the others, or decreasing it if it is a debt. Thus, Allah explains that the Mutaffifin those whom He has promised loss and destruction, whom are meant by "Woe" are

ناپ تول میں کمی کے تنائج نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے ۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ Ǻ۝ۙ ) 83- المطففين:1 ) ہے ۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا ۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں ۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے ۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے ۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا 35؀ ) 17- الإسراء:35 ) یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو ۔ اور جگہ حکم ہے ۔ آیت ( وَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ بِالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ١٥٢؀ۙ ) 6- الانعام:152 ) ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو ، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا آیت ( وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ Ḍ؀ ) 55- الرحمن:9 ) یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے ۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے ۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر ، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا ۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا ، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہو گا ۔ ( موطا مالک ) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائیگا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مدد گار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ سنن ابو داؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگام میں چڑھی ہوئی ہوں گی ۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے ( ابن جریر ) ابو داؤد ، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے ، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے ، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے ، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے ۔ پھر کہتے دعا ( اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی ) اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] تطفیف کا لغوی مفہوم :۔ مُطَفِّفِیْنَ ۔ طفیف بمعنی معمولی اور حقیر چیز اور طفّف بمعنی ناپ کا پیمانہ بھرتے وقت تھوڑا سا کم بھرنا یا پیمانہ ہی تھوڑا سا چھوٹا رکھنا تاکہ غلہ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہوسکے کہ اسے اس کا حق تھوڑا سا کم دیا جارہا ہے۔ عرب میں زیادہ تر اشیاء کو ناپ کردینے کا رواج تھا۔ تول کردینے کا کم تھا۔ تاہم تھا ضرور۔ ہمارے ہاں زیادہ تر تول کردینے کا رواج ہے۔ تول کر کم دینے کے لیے ہمارے ہاں ڈنڈی مارنے کا محاورہ عام ہے۔ اسی لیے اس کا ترجمہ ڈنڈی مارنے سے کیا گیا ہے پھر ڈنڈی مارنا اس لحاظ سے زیادہ ابلغ ہے کہ دیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز کم دی جاسکتی ہے اور لیتے وقت ڈنڈی مار کر چیز تھوڑی سی زیادہ لی جاسکتی ہے۔ نیت کا بگاڑ ہونے کے لحاظ سے کسی کو حق سے کم دینا اور خود لیتے وقت حق سے زیادہ لینا دونوں ہی ایک جیسے جرم یعنی کبیرہ گناہ ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ویل للمطففین :) (” التطفیف “ ماپ یا تول میں کمی کرنا۔ ماپ تول کے علاوہ لین دین کے جتنے بھی دیگر پیمانے ہیں ان میں کمی بھی ” التطفیف “ ہے۔” الطفیف “ بالکل تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ ” صاع “ بھرا ہوا ہو، مگر پورا بھرنے سے کم ہو تو اس کی کمی کو ” طف الصاع “ کہتے ہیں۔ چونکہ ماپ تول میں کمی کرنے والا کوئی بڑا مال نہیں چراتا بلکہ تھوڑی سی چیز چراتا ہے، اس لئے اسے ” المطفف “ کہتے ہیں۔ یہ فعل کمینگی کی انتہا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اتنی تھوڑی تھوڑی چیز کی چوری کرنے والا شخص بڑا مال اڑانے سے بھی پرہیز کرنے والا نہیں، صرف اپنی کم ہمتی یا پکڑے جانے کے خوف سے اتنی چوری پر صبر کئے بیٹھا ہے، ورنہ اس کی طبیعت کے فاسد ہوجانے اور امانت سے خلای ہوجانے میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں کو ” ویل “ کی وعید سنئای ہے، جس کا معنی ہلاکت ہے۔ آخرت میں ہونے والی ہلاکت کا تو کچھ شمار ہی نہیں، اس کی کچھ تفصیل اسی سورت میں آرہی ہے۔ اگرچہ وہ مکذبین (جھٹلانے والوں) کے لئے ہے، مگر یہ فعل بھی آخرت کی تکذیب ہی سے سر زد ہوتا ہے، جبکہ دنیا میں اس سے ہونے والی ہلاکت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی، حدیث لمبی ہے، اس کا ایک فقرہ یہ ہے :(ولم ینفصوا المکیال والمیزان، الا اخذوا بالسنین ، وشدۃ الموونۃ وجور السلطان علیھم) (ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات : ٣٠١٩)” جو قوم بھی ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالیوں، سخت مشقت اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے۔ “ شیخ البانی (رح) نے مستدرک حاکم کی سند کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ (دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ : ١٠٦) شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ تنبیہ : ترمذی کی روایت کہ ” ویل جہنم کی ایک وادی ہے …“ صحیح نہیں۔ (دیکھیے ضعیف ترمذی، سورة الانبیاء : ٣٣٨٩)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary According to Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) ، Surah Tatfif was revealed in Makkah. Therefore, most of the copies of the Qur&an refer to it as the Makki Surah. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Qatadah, Muqatil and Dahhak رحمۃ اللہ علیہم ، it is a Madani Surah, but only about eight verses are Makki. Imam Nasa&i (رح) transmits a narrative from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) arrived in Madinah, the people of Madinah whose most transactions were based on measurements used to cheat and short measure. For this reason, Allah revealed the Surah. It is reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that this is the first Surah that was revealed as soon as the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) arrived at Madinah. The reason is that it was a common practice in Madinah that the people used to be very strict in measuring when they had to receive something from others, but when they sold something, they used to cheat the buyers. After the revelation of this Surah, all of them abandoned this bad custom totally, and mended themselves in a way that they are now well-known in their honesty in weighing and measuring. (Reported by Hakim, Nasa&i, and Ibn Majah, with sound chain of narrators) وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ (Woe to the curtailers...83:1) The word mutaffifin &those who give short measure or weight& is derived from Tatfif &to give short measure or short weight&. The Qur&anic expression &Woe to the curtailers& is indicative of the injunction that this practice is prohibited. Tatjif has a Wider Scope The Qur&an and Sunnah have prohibited Tatfif which primarily signifies &giving short measure and weight&, because generally all transactions are carried out by things that can be measured or weighed. But the basic purpose of weighing or measuring is none else but to give a person what he deserves. It, therefore, indicates that the rule is not restricted to weights and measures only, but it includes all other means through which the rights of someone are evaluated, assessed or appraised. It is obligatory that all rights are given to the deserving persons in full, whether they are assessed by weight, measure, number or any other means. In terms of this concept of Tatfif, it is prohibited to give to any person less than his due. It is recorded in Muwatta& of Imam Malik that Sayyidna ` Umar Ibn-ul-Khattab (رض) saw a person curtailing [ cutting short ] his bowing and prostration postures in prayers, he said to him: لَقَد طَفَّفتَ &You have committed Tatfif (curtailed the right) of Allah.& Having cited this statement of Sayyidna ` Umar Ibn-ul-Khattab (رض) ، Imam Malik (رح) formulates the following postulate: لکلّ شیءٍ &Everything has a full due and a short measure.& This postulate can apply even to prayers, ablution, cleanliness and all the rights of Allah and the ways of worship. If someone is deficient in fulfilling these rights of Allah, he is guilty of Tatfif. Similarly if one cuts short human rights [ by failing to perform duties imposed upon him or keeping to the terms of agreement duly ], he is covered by the rule laid down by the verse regarding Tatfif. For example, if an employee has entered into a contract with the employer that he shall work for specified time, it is imperative for him to work for the stipulated hours. If he curtails the hours, he is guilty of Tatiff. Generally, people - even scholars - are lax in this matter. They do not regard curtailment of their obligations relating to service or labour as sin. May Allah protect us from it! HADITH: Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) has narrated that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: حمس بخمس &There are five sins, for which there are five punishments.& [ 1] He who breaks his covenant, Allah will cause his enemy to subdue him. [ 2] The nation that abandons the sacred laws of Allah, and decides cases according to other laws, poverty will prevail commonly among them. [ 3] The nation among whom promiscuity and zina (fornication or adultery) becomes rampant, Allah will punish them with epidemics and endemic diseases. [ 4] Those who curtail measures and weights, Allah will cause famine to break out amongst them. and [ 5] Those who fail to pay their Zakah, Allah will withhold rain from them. [ Cited by Qurtubi who said that Al-Bazzar has narrated the over-all sense of this lzadith, though with different words; and Malik Ibn Anas has also narrated it from Ibn ` Umar (رض) ]. Tabarani narrates from Ibn ` Abbas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"When it becomes rampant in a community to steal from the spoils of war, Allah will cast terror of enemies into their hearts; when usury becomes a common practice in a community, death becomes a frequent occurrence in that society; a community that gives short measure and weight, Allah cuts off their sustenance; those who decide against the truth, murder becomes common among them; and those who betray their agreement, Allah causes their enemies to prevail upon them.|" [ Malik has also transmitted it, but as a saying of Ibn ` Abbas (رض) . See Mazhari ]. Various Forms of Poverty, Famine and Curtailment of Sustenance The Hadith (cited above) states that people&s &sustenance& may be Cut Off as a punishment to short measuring: This can take different forms. They may be completely deprived of their sustenance; or sustenance may be available, but they may not be able to eat or use it, as it commonly happens nowadays in the case of many diseases. Likewise, &famine& might take different forms: Items of necessity might be lacking; or they might be available abundantly, but it might be difficult to purchase them, because the prices are unbearably exorbitant, as is experienced nowadays. The Hadith says that in certain situations faqr will prevail in the society. Faqr is generally translated as &poverty&, but its real meaning in Arabic is &being in need& or &being dependent on someone&. Keeping this meaning in view, the situation of faqr pointed out in the Hadith is not confined to lack of money and other necessary things, but it also includes a situation where people depend on others in their business and other necessities of life. The more a person is in need of others, the greater is his degree of faqr. Let us consider the conditions of the present age. Man is bound by the most complicated laws that restrict his living, his movement and his intentions, so that he is unable to eat what he wants to eat, or utter what he wants to utter. He possesses money, but he is not free to buy of his choice from where he wants to. He is not free to undertake a journey [ or to travel ] as and when he wants to. He is bound so much by these restrictive laws that he has no choice but to follow the official procedure for which he has to flatter the officials [ at every level ] including the peons. Without this, life is difficult. This entire system of dependence on others is a part of faqr. This elaborate explanation should dispel the doubts that might apparently arise regarding the statement of the Hadith.

خلاصہ تفسیر بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے (اپنا حق) ناپ کرلیں تو پورے لے لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا دیں (گو لوگوں سے اپنا حق پورا لینا مذموم نہیں ہے مگر اسکے ذکر کرنے سے مقصود خود اس پر مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ کم دینے پر مذمت کی تاکید وتقویت ہے یعنی کم دینا اگرچہ فی نفسہ مذموم ہے لیکن اس کے ساتھ اگر دوسروں کی ذرا رعایت نہ کی جاوے تو اور زیادہ مذموم ہے، بخلاف رعایت کرنے والے کے کہ اگر اس میں عیب ہے تو ایک ہنر بھی ہے اس لئے اول شخص کا عیب اشد ہے اور چونکہ اصل مقصود ومذمت ہے کم دینے کی اس لئے اس میں ناپ اور تول دونوں کا ذکر کیا تاکہ خوب تصریح ہوجاوے کہ ناپنے میں بھی کم دیتے اور تولنے میں بھی کم دیتے ہیں اور چونکہ پورا لینا فی نفسہ مدار مذمت کا نہیں اس لئے وہاں ناپ اور تول دونوں کا ذکر نہیں بلکہ ایک ہی کا ذکر کیا پھر تخصیص ناپ کی شاید اس لئے ہو کہ عرب میں زیادہ دستور کیل کا تھا خصوصاً اگر آیت مدنی ہو جیسا روح المعانی میں بروایت نسائی وابن ماجہ و بیہقی اس کا نزول اہل مدینہ کے باب میں لکھا ہے تو اس وقت اس تخصیص کی وجہ زیادہ ظاہر ہے کیونکہ مدینہ میں کیل کا دستور مکہ سے بھی زیادہ تھا، آگے ایسا کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے کہ) کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کرکے اٹھائے جاویں گے جس دن تمام آدمی رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (یعنی اس روز سے ڈرنا چاہئے اور تطفیف یعنی لوگوں کی حق تلفی سے توبہ کرنا چاہئے اس بعث وجزا کو سنکر جو مومن تھے وہ ڈرگے اور جو کافر تھے وہ انکار کرنے لگے، اس لئے آگے انکار پر تنبیہ فرما کر فریقین کی جزاء کی تفصیل فرماتے ہیں کہ جیسا کفار لوگ جزا وسزا کے منکر ہیں) ہرگز (ایسا) نہیں (بلکہ جزا وسزا ضروری الوقوع ہے، جن اعمال پر جزا وسزا ہوگی وہ منضبط اور محفوظ ہیں اور اس مجموعہ کا بیان یہ ہے) بدکار (یعنی کافر) لوگوں کا نامہ عمل سجین میں رہے گا ( وہ ایک مقام ساتویں زمین میں ہے جو مقام ہے ارواح کفار کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب وفی الدر المنثور عن ابن عباس و مجاہد وفرقد وقتادة میں منقول ہے، آگے ڈرانے کے لئے سوال ہے کہ) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ سجین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے (نشان سے مراد مہر ہے کمافی الدر المنثور عن کعب الاحبار فیختم ویوضع ای بعدالموت مقصود یہ ہوگا کہ اس میں تغیر و تبدیل کا کچھ احتمال نہیں پس حاصل اس کا اعمال کا محفوظ ہونا ہے جس سے جزا کا بحق ہونا ثابت ہوا آگے ان اعمال کی جزاء کا بیان ہے کہ) اس روز ( یعنی قیامت کے روز) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو کہ روز جزاء کو جھٹلاتے ہیں اور اس (یوم جزا) کو تو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حد ( عبدیت) سے گزرنے والا ہو مجرم ہو (اور) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاویں تو یوں کہہ دیتا ہو کہ یہ بےسند باتیں اگلوں سے منقول چلی آتی ہیں (مطلب یہ بتلانا ہے کہ جو شخص روز قیامت کی تکذیب کرتا ہے وہ معتدی، اثیم، مکذب بالقرآن ہے آگے تکذیب روز جزاء پر جو صراحة مذکور ہے تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ لوگ اس کو غلط سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں ( اور کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ شاید ان کے پاس کوئی دلیل نفی کی ہوگی جس سے یہ استدلال کرتے ہوں گے ہرگز نہیں) بلکہ ( اصل وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے (اس سے استعداد قبول حق کی فاسد ہوگئی اسلئے براہ عناد انکار کرنے لگے آگے پھر انکار پر زجر ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں (آگے ویل کی کچھ تفصیل ہے کہ وہ خرابی یہ ہے کہ) یہ لوگ اس روز (ایک تو) اپنے رب (کا دیدار دیکھنے) سے روک دیئے جائیں گے پھر (صرف اسی پر اکتفا نہ ہوگا بلکہ) یہ دوزخ میں داخل ہوں گے پھر (ان سے) کہا جاوے گا کہ یہی ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اور چونکہ یہ لوگ یوم دین کی تکذیب میں جس طرح اپنی سزا کو جھٹلاتے تھے اسی طرح مومنین کی جزا کو بھی جھٹلاتے تھے، آگے اس پر تنبیہ فرماتے ہیں کہ یہ جو مومنین کے اجروثواب کے منکر ہیں) ہرگز ایسا نہیں، (بلکہ ان کا اجر وثواب ضرور ہونے والا ہے جسکا بیان یہ ہے کہ) نیک لوگوں کا نامہ عمل علیین میں رہیگا (وہ ایک مقام ہے ساتویں آسمان میں جو مستقر ہے ارواح مومنین کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب) اور (آگے تفحیم کے لئے سوال ہے کہ) آپ کو کچھ معلوم ہے کہ علیین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے جس کو مقرب فرشتے (شوق سے) دیکھتے ہیں (اور یہ مومن کا بہت بڑا اکرام ہے جیسا کہ روح المعانی ہیں بتخریج عبد بن حمید حضرت کعب سے روایت ہے کہ جب ملائکہ مومن کی روح کو قبض کرکے لیجاتے ہیں تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اسکے ہاتھ ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ کر اس روح کو رکھ دیتے ہیں، پھر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہم اس کا نامہ اعمال دیکھنا چاہتے ہیں چناچہ وہ نامہ عمل کھول کر دکھلایا جاتا ہے (مختصراً ) آگے ان کی جزاء آخرت کا بیان ہے کہ) نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے مسہریوں پر (بیٹھے بہشت کے عجائب) دیکھتے ہوں گے (اے مخاطب) تو ان کے چہروں میں آسائش کی بشاشت پہچانے گا (اور) ان کو پینے کیلئے شراب خالص سربمہر جس پر مشک کی مہر ہوگی ملے گی اور حرص کرنے والوں کو ایسی چیز کی حرص کرنا چاہئے ( کہ حرص کے لائق یہی ہے خواہ صرف شراب مراد لیجاوے خواہ کل نعمائے جنت یعنی شوق ورغبت کی چیز یہ نعمتیں ہیں، نہ کہ دنیا کی ناقص اور فانی لذتیں اور ان کی تحصیل کا طریق نیک اعمال ہیں، پس اس میں کوشش کرنا چاہئے) اور اس (شراب) کی آمیزش تسنیم (کے پانی سے) ہوگی (عرب عموماً شراب میں پانی ملا کر پیتے تھے تو اس شراب کی آمیزش کے لئے تسنیم کا پانی ہوگا، آگے تسنیم کی شرح ہے) یعنی ایک ایسا چشمہ جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے، (مطلب یہ کہ سابقین یعنی مقربین کو تو خالص پینے کو اس کا پانی ملے گا اور اصحاب الیمین یعنی ابرار کو اس کا پانی دوسری شراب میں ملا کر ملے گا، کذافی الدر المنثور عن قتادہ ومالک ابن الحارث وابن عباس وابن مسعود وحذیفہ، اور یہ مہر لگنا علامت اکرام کی ہے ورنہ وہاں ایسی حفاظت کی ضرورت نہیں، اور مشک کی مہر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قاعدہ ہے کہ لاک وغیرہ لگا کر اس پر مہر کرتے ہیں اور ایسی چیز کو طین ختام کہتے ہیں وہاں شراب کے برتن کے منہ پر مشک لگا کر اس پر مہر کردی جاوے گی، یہاں تک فریقین کی جزائے اخروی کا الگ الگ بیان تھا آگے مجموعہ فریقین کا مجموعہ حال دنیا وآخرت مذکور ہے یعنی) جو لوگ مجرم (یعنی کافر) تھے وہ ایمان والوں سے (دنیا میں تحقیرا) ہنسا کرتے تھے اور یہ (ایمان والے) جب ان کافروں کے سامنے سے ہو کر گزرتے تھے تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے ( مطلب یہ کہ انکے ساتھ استہزا و تحقیر سے پیش آتے تھے) اور جب اپن گھروں کو جاتے تو (وہاں بھی ان کا تذکرہ کرکے) دل لگیاں (اور تمسخر) کرتے (مطلب یہ کہ غیبت و حضور ہر حالت میں انکی تحقیر و استہزاء کا مشغلہ رہتا، البتہ حضور میں اشارے چلا کرتے اور غیبت میں صراحة تذکرہ کرتے اور جب انکو دیکھتے تو یوں کہا کرتے کہ یہ لوگ یقیناً غلطی پر ہیں (کیونکہ کفار اسلام کو غلطی پر سمجھتے تھے) حالانکہ یہ (کافر) ان (مسلمانوں) پر نگرانی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ( یعنی ان کو اپنی فکر کرنا چاہئے تھا، ان کے پیچھے کیوں پڑگئے پس ان سے دو غلطیاں ہوئیں اول اہل حق کے ساتھ استہزاء پھر اپنی اصلاح سے بےفکری) سو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہوں گے، مسہریوں پر (بیٹھے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے (درمنثور میں قتادہ سے منقول ہے کہ کچھ دریچے جھرو کے ایسے ہوں گے جن سے اہل جنت اہل نار کو دیکھ سکیں گے، پس ان کا برا حال دیکھ کر بطور انتقام کے ان پر ہنسیں گے آگے تقریر ہے اس سزا کی یعنی) واقعی کافروں کو انکے کئے کا خوب بدلہ ملا۔ معارف ومسائل سورة تطفیف حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول پر مکی سورت ہے عام مصاحف قرآن میں اسی بنا پر اس کو مکی لکھا ہے اور حضرت ابن عباس، قتادہ، مقاتل، ضحاک کے نزدیک مدنی سورت ہے مگر اس کی صرف آٹھ آیتیں مکی ہیں، امام نسائی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ کے لوگ جن کے عام معاملات کیل یعنی ناپ کے ذریعہ ہوتے تھے وہ اس معاملہ میں چوری کرنے اور کم ناپنے کے بہت عادی تھے اس پر یہ سورت وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ طیبہ پہنچتے ہی نازل ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ اہل مدینہ میں یہ رواج اس وقت عام تھا کہ جب خود کسی سے سودا لیتے تو ناپ تول پورا پورا لیتے تھے اور جب دوسروں کو بیچتے تو اس میں کمی اور چوری کیا کرتے تھے۔ اس سورت کے نازل ہونے پر یہ لوگ اس رسم بد سے باز آگئے اور ایسے باز آئے کہ آج تک اہل مدینہ ناپ تول پورا پورا کرنے میں معروف و مشہور ہیں (رواہ الحاکم والنسائی وابن ماجہ بسند صحیح از مظہری) وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ، مطففین تطفیف سے مشتق ہے جس کے معنے ناپ تول میں کمی کرنے کے ہیں اور ایسا کرنے والے کو مطفف کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ تطفیف کرنا حرام ہے۔ تطفیف صرف ناپ تول ہی میں نہیں بلکہ حقدار کو اس کے حق سے کم دینا کسی چیز میں ہو تطفیف میں داخل ہے قرآن و حدیث میں ناپ تول میں کمی کرنے کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ عام طور سے معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں سے ہوتا ہے انہی کے ذریعہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حقدار کا حق ادا ہوگیا یا نہیں، لیکن یہ معلوم ہے کہ مقصود اس سے ہر ایک حقدار کا حق پورا پورا دینا ہے اس میں کمی کرنا حرام ہے، تو معلوم ہوا کہ یہ صرف ناپ تول کیساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس سے کسی کا حق پورا کرنا یا نہ کرنا جانچا جاتا ہے اس کا یہی حکم ہے خواہ ناپ تول سے ہو یا عدد شماری سے یا کسی اور طریقے سے ہر ایک میں حقدار کے حق میں کم دینا بحکم تطفیف حرام ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کے رکوع سجدے وغیرہ پورے نہیں کرتا جلدی جلدی ختم کر ڈالتا ہے تو اس کو فرمایا لقد طففت یعنی تو نے اللہ کے حق میں تطفیف کردی، فاروق اعظم کے اس قول کو نقل کرکے حضرت امام مالک (رح) نے فرمایا لک شیئٍ وفاء وتطفیف یعنی پورا حق دینا یا کم کرنا ہر چیز میں ہے یہاں تک کہ نماز، وضو طہارت میں بھی اور اسی طرح دوسرے حقوق اللہ اور عبادات میں کمی کوتاہی کرنے والا تطفیف کرنے کا مجرم ہے اسی طرح حقوق العباد میں جو شخص مقررہ حق سے کم کرتا ہے وہ بھی تطفیف کے حکم میں ہے۔ مزدور ملازم نے جتنے وقت کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے اس میں سے وقت چرانا اور کم کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ وقت کے اندر جس طرح محنت سے کام کرنے کا عرف میں معمول ہے اس میں سستی کرنا بھی تطفیف ہے اس میں عام لوگوں میں یہاں تک کہ اہل علم میں بھی غفلت پائی جاتی ہے، اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کرنے کو کوئی گناہی نہیں سمجھتا۔ اعاذنا اللہ منہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خمس بخمس یعنی پانچ گناہوں کی سزا پانچ چیزیں ہیں۔ (١) جو شخص عہد شکنی کرتا ہے اللہ اس پر اس کے دشمن کو مسلط اور غالب کردیتا ہے۔ (٢) جو قوم اللہ کے قانون کو چھوڑ کر دوسرے قوانین پر فیصلے کرتے ہیں ان میں فقرواحتیاج عام ہوجاتا ہے۔ (٣) جس قوم میں بےحیائی اور زنا عام ہوجائے اس پر اللہ تعالیٰ طاعون (اور دوسرے وبائی امراض) مسلط کردیتا ہے۔ (٤) اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں اللہ تعالیٰ ان کو قحط میں مبتلا کردیتا ہے۔ (٥) جو لوگ زکوٰة ادا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے بارش کو روک دیتا ہے (ذکرہ القرطبی وقال خرجو البزار بمعناہ ومالک بن انس ایضا من حدیث ابن عمر) اور طبرانی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قوم میں مال غنیمت کی چوری رائج ہوجائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمن کا رعب اور ہیبت ڈال دیتے ہیں۔ اور جس قوم میں دبوا یعنی سود خوری کا رواج ہوجائے ان میں موت کی کثرت ہوجاتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ انکا رزق قطع کردیتے ہیں اور جو لوگ حق کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ان میں قتل وخون عام ہوجاتا ہے اور جو لوگ معاہدات میں غداری کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمن مسلط کردیتا ہے (رواہ مالک موقوفا، ازمظہری) فقر وفاقہ اور قحط وقطع رزق کو مختلف صورتیں حدیث میں جن لوگوں کا رزق قطع کردینے کا ارشاد ہے اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اس کو رزق سے بالکل محروم کردیا جائے اور یہ صورت بھی قطع رزق ہی میں داخل ہے کہ رزق موجود ہوتے ہوئے وہ اس کو کھا نہ سکے یا استعمال نہ کرسکے جیسے بہت سی بیماریوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس زمانے میں بہت عام ہے۔ اس طرح قحط کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ اشیاء ضرورت مفقود ہوجائیں، اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ موجود بلکہ کثیر ہونے کے باوجود ان کی گرانی اتنی بڑھ جائے کہ خریداری مشکل ہوجائے جیسا کہ آجکل اس کا مشاہدہ اکثر چیزوں میں ہورہا ہے۔ اور حدیث میں فقر مسلط کرنے کا ارشاد ہے اسکے معنے صرف یہی نہیں کہ روپیہ پیسہ اور ضرورت کی اشیاء اسکے پاس نہ رہیں بلکہ فقر کے اصلی معنے محتاجی اور حاجتمندی کے ہیں۔ ہر شخص اپنے کاروباری اور ضروریات زندگی میں دوسروں کا جتنا محتاج ہو وہ اتنا ہی فقیر ہے۔ اس زمانے کے حالات پر غور کیا جائے تو انسان اپنے رہن سہن اور نقل و حرکت اور اپنے ارادوں کے پورا کرنے میں ایسے ایسے قوانین میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے کہ اس کے لقمہ میں کلمہ تک پر پابندیاں ہیں، اپنا مال موجود ہوتے ہوئے خریداری میں آزاد نہیں کہ جہاں سے چاہے کچھ خریدے، سفر میں آزاد نہیں کہ جب کہیں جانا چاہے چلا جائے۔ ایسی ایسی پابندیوں میں انسان جکڑا گیا ہے کہ ہر کام کے لئے دفتر گردی اور افسروں سے لے کر چپراسیوں تک کی خوشامد کئے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے یہ سب محتاجی ہی تو ہے جسکا دوسرا نام فقر ہے۔ اس تفصیل سے وہ شبہات رفع ہوگئے جو حدیث کے ارشاد کے متعلق ظاہری حالات کے اعتبار سے ہوسکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ۝ ١ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔ طف الطَّفِيفُ : الشیءُ النَّزْرُ ، ومنه : الطَّفَافَةُ : لما لا يعتدّ به، وطَفَّفَ الكيلَ : قلّل نصیب المکيل له في إيفائه واستیفائه . قال تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] . ( ط ف ف ) الطفیف : کے معنی حقیر اور تھوڑی سی چیز کے ہیں اسی سے ناقابل اعتناء چیز کو طفافۃ کہا جاتا ہے اور طفف الکیل کے معنی ہیں : اس نے پیمانے کو پورا پھر کر نہیں دیا ۔ اسمیں کمی کی قرآن میں ہے ؛وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) رسول اکرم کی تشریف آوری سے پہلے مدینہ والے ماپ تول میں کمی کیا کرتے تھے، جب آپ مدینہ منورہ تشریف لا رہے تھے تب راستہ میں یہ سورت نازل ہوئی کہ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہے، جب لوگوں سے کوئی چیز خریدتے ہیں یا اپنا حق تول کرلیتے ہیں تو خوب پورا وزن کر کے لیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ۔ } ” ہلاکت ہے کمی کرنے والوں کے لیے۔ “ وَیْل کے معنی تباہی ‘ بربادی اور ہلاکت کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔ ’ طف ‘ لغوی اعتبار سے حقیر سی چیز کو کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ کم تولنے یا کم ماپنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مُطَفِّف وہ ہے جو حق دار کو اس کا پورا حق نہیں دیتا بلکہ اس میں کمی کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جو شخص ماپ تول میں کمی کرتا ہے وہ اپنے اس عمل کے ذریعے متعلقہ چیز کی بہت تھوڑی سی مقدار ہی ناحق بچا پاتا ہے۔ اس کے باوجود اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اتنی حقیر سی چیز کے لیے اپنا ایمان فروخت کر رہا ہے ۔ بہرحال اس آیت میں کم تولنے یا کم ماپنے والوں کو آخرت میں بربادی اور جہنم کی نوید سنائی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 In the original the word mutaffifin has been used, which is derived from tatfif, a word used for an inferior and base thing in Arabic. Terminologically, tatfif is used for giving short weight and short measure fraudulently, for the person who acts thus while measuring or weighing, does not defraud another by any substantial amount, but skimps small amounts from what is due to every customer cleverly, and the poor customer dces not know of what and of how much he is being deprived by the seller.

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :1 اصل لفظ مطففین استعمال کیا گیا ہے جو تطفیف سے مشتق ہے ۔ عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطفیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٦۔ معتبر سند سے نسائی ١ ؎ اور ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ میں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو مدینہ کے لوگوں کو کم تولنے اور کم ناپنے کی بہت عادت تھی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة نازل فرمائی اور فرمایا کہ کیا یہ لوگ حساب و کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے رو برو کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتے جو انہوں نے کم تولنے اور کم ناپنے کا شیوہ اختیار کیا ہے اس سورة کے نازل ہونے کے بعد اکثر لوگ تو پورا تولنے اور ناپنے لگے اور کچھ لوگ اسی حال پر رہے۔ (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٨٣ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:1) ویل للمطففین ۔ مطففین کے لئے ویل ہے۔ ویل بمعنی ہلاکت عذاب، دوزخ کی ایک وادی، عذاب کی شدت۔ ویل کے کئی معانی ہیں :۔ (1) شر اور بدی میں داخل ہونا۔ (2) درد مند کرنا۔ (3) مصیبت زدہ بانا۔ (ان معانی میں ویل مصدر ہے) افسوس، سختی، کلمہ و عید و زجر، کلمہ عذاب، عذاب ، جہنم کی ایک وادی کا نام، جہنم کے کنویں کا نام۔ جہنم کے ایک دروازہ کا نام، کلمہ حسرت و ندامت ، ویلۃ رسوائی، تباہی۔ ویل یا ویلۃ کی اضافت اگر ضمیر کی جانب ہو تو غیبت اور خطاب اور تکلم کی علامات بدلتی رہتی ہیں اور ویل پر ہمیشہ نصب رہتا ہے۔ ہاں یاء متکلم کی جانب اضافت ہو تو یاء کی وجہ سے مجبورا ویل کے لام کو کسرہ دیا جاتا ہے۔ نصب کی وجہ علما نے یہ فرض کی ہے کہ ویل اور ویلۃ بصورت اضافت فعل محذوف کے مصدر (یعنی مفعول مطلق) ہوتے ہیں۔ المطففین : تطفیف (تفعیل) مصدر سے اسم فاعل جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ تول ناپ میں کم دینے والے۔ طفیف تھوڑی چیز۔ فطافۃ ناقابل اعتناء چیز۔ حقوق العباد میں جن بوجھ کر، دیدہ دانستہ کمی بیشی کرنا۔ عربی میں اسے تطفیف کہتے ہیں اور اس کے مرتکب کو مطفف خصوصا لین دین میں زیادہ لینا اور کم دینا تول یا پیمانہ کے ذریعہ سے۔ علامہ تشیری (رح) اور دیگر بزرگوں نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ (تطفیف) کثیر المعانی سے پیمائش اور تول میں خیانت کو بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ ہر قسم کی خیانت اور خست کو بھی۔ آپس کے معاملات میں بھی اور اللہ تعالیٰ کے معاملات میں بھی۔ ویل مبتداء اور مطففین اس کی خبر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 ۔ بیان ہوچکا ہے ویل دوزخ کی ایک وادی کا نام بھی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة مطففین آیات ١ تا ٣٦۔ اسرار ومعارف۔ بربادی ہے لوگوں کے حقوق پوری طرح ادا نہ کرنے والوں کے لیے کہ جب اپنا حق حاصل کریں تو پورا پورا حاصل کریں اور جب دوسروں کو دینے کی باری آئے تو انہیں پورا نہ دیں۔ حقوق وفرائض۔ زندگی کا مداردینے پر ہے جس طرح سورج چاند بادل ہواسب کی خاصیت دینا ہے ہر شے دیتی ہے دل خون پہنچاتا ہے توہررگ ہر شریان آگے دیتی ہے کہیں رک جائے توخرابی پیدا ہوتی ہے یہ بھی ضروری ہے کہ دینے والے کے بھی حقوق دوسروں پر ہیں جو انہیں بھی ادا کرنا ہیں یہی حال معاشرے کے نظام کا ہوتا ہے جو حقوق وفرائض سے عبارت ہے اور حکومت وہ ادارہ ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے کوتاہی یاقصور کرنے والے کو روکتا ہے جرائم پر سزا دیتا ہے جسے عدل کہا جاتا ہے اسلام نے معاشرے کا یہی بنیادی کام بہت خوبصورتی سے کیا ، حقوق فرائض کی خوبصورت تعین کی اور ان میں دینے پر پورا زور دیا کہ کوئی کسی کا حق روک نہیں سکتا ہاں لینے میں رعایت کی گنجائش رکھی کہ اپناحق چاہے تو تھوڑا بہت یا سارا کسی کو معاف کرسکتا ہے پھر اس پر نظام عدل دیا جو کسی رورعایت کے بغیر فیصلہ کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ پانچ گناہوں کی سزا پانچ طرح سے دی جاتی ہے کہ جو قوم وعدہ خلافی کرتی ہے اس پر دشمن غالب آجاتا ہے اور جو لوگ اللہ کا قانون چھوڑ کر دوسرے قوانین پہ فیصلے کرتے ہیں ان کو فقر وفاقہ میں مبتلا کردیاجاتا ہے۔ جیسے اشیاء نایاب ہوں یا گرانی کمر توڑ دے یامرض کھانے سے روک دے جس قوم میں زناعام ہو اس پر وبائیں آتی ہیں جو زکوۃ ادا نہیں کرتے ان سے بارش روک دی جاتی ہے یا بےموقع برستی ہے اور جو ناپ تول میں کمی کریں ان پر قحط مسلط ہوتا ہے یہ سب صورتیں آج کی دنیا میں اور خود اپنے ملک میں دیکھی جاسکتی ہیں اللہ کریم ہمیں اس سے نجات حال کرنے کی قوت عطا فرمائے۔ آمین۔ تو کیا ایسا کرنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ یوم حشر انہیں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر جواب دینا ہے جب سارے کے سارے لوگ جواب دہی کے لیے حاضر ہوں گے تو یاد رکھو بدکاروں کے اعمال نامے سجین میں ہوں گے حدیث شریف کے مطابق کفار کے اعمال نامے اور ارواح قیامت تک کے لیے سجین میں رکھے جاتے ہیں جو ساتویں زمین کے نیچے ہے اور اے مخاطب جانتے ہو سجین کیا ہے ایک بہت بڑا دفتر ہے باقاعدہ بنا ہوا ہے جو منکرین کے لیے بربادی کا باعث بنے گا وہ بدنصیب جو قیامت کے دن کا انکار کرتے ہیں اور اس کا انکار صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو حد سے گزر نے والے اور بدکار ہوتے ہیں اور جب انہیں ہماری آیات سنائی جائیں تو کہتے ہیں بس اگلے وقتوں کے قـصے ہیں درحقیقت ان کے کردار اور بدعملی کے باعث ان کے دل زنگ خوردہ ہوگئے لہذا وہ درست کام نہیں کر رہے ۔ معرفت باری اور انسانی قلب۔ ہر انسان میں فطری طور پر اللہ کی طلب رکھی گئی ہے اسی لیے معلوم تاریخ انسان میں کبھی کوئی قوم مذہب سے بیگانہ نہیں رہی بلکہ مذہب کے نام پر کچھ نہ کچھ رسومات ہی سہی ہر قوم نے اختیار کی ہیں اور اس بارے میں حق تک پہنچنے کے لیے دل کی سلامتی شرط ہے جو گناہ سے متاثر ہوکرزنگ خوردہ ہوجاتی ہے اور قبول حق کی استعداد ضائع کردیتی ہے جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مومن بھی گناہ کرے تو دل پہ سیارہ نکتہ پیدا ہوجاتا ہے اس کا مشاہدہ بھی آج کل کے ماحول میں عام ہے ۔ لہذا قلب کی صفائی کے لیے ذکر قلبی ضروری ہے بدکار کو توبہ اور نیک کو درجات معرفت نصیب ہوتے ہیں لہذا جو فطری طلب رویت باری کی ہے وہ نصیب ہوگی جبکہ بدکاروں کو اس سے روک دیاجائے گا اس سے پتہ چلتا ہے کہ فطرتا ہر شخص کو دیدار باری کی طلب عطا کی گئی اگر ایسا نہ ہوتا تو کفار کو روک دینے سے دکھ نہ ہوگا ، اور انہیں جہنم میں ڈال کر کہاجائے گا کہ لواب یقین کرلو کہ دنیا میں تو تم انکار کرتے تھے ایسے نیک لوگوں کے اعمال نامے علیین میں ہوں گے جو ایک عالیشان دفتر ہے جہاں اللہ کے مقرب فرشتے نگہبان ہیں ۔ حدیث شریف کے مطابق یہ ساتوں آسمانوں سے اوپر عرش کے نیچے ہے جہاں نیک لوگوں کے اعمال نامے جمع ہوتے ہیں اور ان کی ارواح رہتی ہیں یاد رہے کہ روح سجین میں ہو یا علیین میں ہر ذرہ بدن سے اس کا تعلق رہتا ہے اللہ کے نیک بندے اس روز مزے میں ہوں گے ۔ تختوں پر براجمان نظارے کرتے ہوں گے اور آرام کی بشاشت ان کے چہروں سے عیاں ہوگی انہیں ایسے خصوصی مشروب پیش کیے جائیں گے جو ان کے لیے سربمہر کیے ہوں گے اور ان کی مہر تک مشک خالص پہ لگی ہوگی پھر ان کو نظافت کا اندازہ کرلو لوگو اگر کچھ حاصل کرنے کا شوق ہے تو ان نعمتوں کے لیے پوری کوشش کرو کہ ان میں تسنیم کی آمیزش ہوگی جو ایک خاص چشمہ ہے اللہ کے مقرب بندوں کے مشروب کا کہ اس سے پئیں گے۔ بدکاروں کی مصیبت کا سبب ، ان کا نیک لوگوں کا مذاق اڑانا تھا جب ان پر گزرہوتا تو ایک دوسرے کو اشارے کرتے اور جب آپس میں گپ شپ میں بیٹھتے تو گھروں میں ان کا مذاق اڑاتے تھے اور انہیں دیکھ کر کہتے یہ لوگ بالکل بدھو ہیں اور بہک گئے ہیں۔ اہل اللہ کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ بزرگوں کے ارشادات میں ملتا ہے کہ اہل اللہ کا انکار انکی برکات سے محروم کردیتا ہے لہذا اس سے بچناچاہیے لیکن ان کا مذاق اڑانا ایسا گناہ ہے جو توبہ کی توفیق سلب کرادیتا ہے لہذا ہرگز ہرگز مذاق نہ اڑایا جائے کہ بدکاروں کے ذمہ اللہ کے نیک بندوں کی نگرانی تو ہے نہیں اگر باز نہ آئے تو پھر یوم حشر کو دیکھ لیں گے جب اللہ کے بندے تختوں پر جلوہ افروز ان کی نادانی پہ ہنستے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کفار نے کیا پورا پورا بدلہ پالیا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ المطففین۔ کم تولنے والے گھٹانے والے۔ اکتالوا۔ انہوں نے ماپ کرلیا۔ یستوفون۔ وہ پورا پورا لیتے ہیں۔ کالوا۔ ماپ کردیں۔ اوزنوا۔ انہوں نے وزن کیا۔ یخسرون۔ وہ گھٹا کردیتے ہیں۔ سجین (سجن) حفاظت سے رکھی جانے والی چیز۔ مرقوم۔ لکھا ہوا۔ ران۔ زنگ جم گیا۔ یکسبون۔ وہ کماتے ہیں۔ محجوبون۔ روک دئیے جائیں گے۔ علیین۔ بلند مقام) جہاں نیک لوگوں کے اعمال نامے محفوظ ہیں) ۔ یشھدہ۔ اس کو دیکھتے ہیں۔ یسقون۔ وہ پلائے جائیں گے۔ رحیق۔ خالص اور بہترین مشروب مختوم۔ مہر لگا دی گئی۔ مسک۔ مشک۔ یتنافس۔ آگے بڑھتا ہے۔ تسنیم۔ جنت کا نام ہے۔ مروا۔ وہ گزرے۔ یتغامزون۔ آنکھوں سے آپس میں اشارے کرتے ہیں۔ فکھین۔ دل لگی کرنے والے۔ ثوب۔ بدلہ دیا گیا۔ تشریح : تطفیف کے معنی ماپ تول میں چوری چھپے کمی کرنا ہے۔ لیکن مطفف ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے حق میں کمی کرتا ہے اللہ کا حق ہو یا بندوں کا۔ ہر طرح کی تطفیف ناجائز ہے۔ بندوں پر اللہ کا ٰیہ حق ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت و بندگی نہ کریں۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ ہر معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کریں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے آداب، احکامات اور فرائض کو پوری طرح ادا کریں اور اس نے جیسا حکم دیا ہے اس کام کو اسی طرح ادا کریں۔ بندوں کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ معاملات زندگی، لین دین اور تجارت میں احکامات الٰہی کے مطابق عمل کریں اور کسی کو کسی طرح کی کمی کا احساس نہ ہونے دیں کیونکہ جس معاشرہ میں اللہ کے ساتھ شرک اور ماپ تول میں کمی کی جاتی ہے وہ معاشرہ باہمی اعتماد کھو بیٹھتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں جو اپنی ذاتی مفادات کے لئے پوری قوم کے اخلاق و کرار کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر وشرک جتنا بڑا جرم ہے۔ تجارتی بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ، دھوکہ دہی اور بےایمانی بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جس کی سزا اس قوم کی مکمل تباہی اور بربادی ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم بہت خوش حال تھی ان کی پاس مال و دولت اور وسائل کی کمی نہ تھی مگر ان میں دو ایسی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں جن کی وجہ سے اس قوم پر اللہ نے عذاب نازل کیا۔ ایک تو کفرو شرک اور دوسرے ماپ تول میں کمی یعنی تجارتی بددیانتی، حضرت شعیب (علیہ السلام) جن کو ” خطیب الانبیائ “ کہا جاتا ہے انہوں نے اپنے پر جوش خطبات سے اپنی قوم کو ہر طرح سمجھایا۔ انہیں کفرو و شرک اور ماپ تول میں کمی سے بچنے کی ترغیب دی مگر پوری قوم نے ساتھ دینے کے بجائے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو طرح طرح سے تایا اور ان کو دھمکیاں تک دیں مگر حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کو برابر سمجھاتے رہے جب یہ قوم اپنے کفرو شرک اور تجارتی لوٹ کھسوٹ اور ماپ تول میں کمی سے باز نہ آئی، تو آخر کار اس قوم پر اللہ کا فیصلہ آگیا اور اور وہ پوری قوم تباہی سے دو چار ہوگئی۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر ماپ تول میں کمی کو انتہائی قابل نفرت اور حرام فعل قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ وزن کرو اور تولنے میں دوسروں کو نقصان نہ پہنچائو ( سورة الرحمن) جب ناپوتو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو (بنی اسرائیل) ۔ انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو) ( الانعام) ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بی ماپ تول میں کمی کرنے کو ایسی نحوست قرار دیا ہے جس سے انسانوں کا رزو رک جاتا ہے اور قحط پڑجاتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے وہ قوم قحط جیسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ دوسری حدیث میں ارشاد گرامی ہے جو قوم ماپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کے رزق کا سلسلہ ختم کردیتے ہیں (قرطبی ) یعنی ہر نعمت سامنے موجودہوتی ہے مگر آدمی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ وہ اس نعمت سے پورا فائدہ حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ماپ تول میں کمی سے معاشرہ میں کئی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس معاشرہ میں دھوکا، فریب، لالچ، چوری ، ڈاکہ اور رشوت عام ہوجاتی ہے جس سے پورے معاشرہ کا سکون تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماپ تول میں کمی کو حرام قرار دیا ہے۔ عربوں میں ماپ تول اور لین دین کے دو طریقے رائج تھے، وزنی اور کیلی۔ جن چیزوں کا لین دین تول کر کیا جاتا تھا اس کو وزنی کہتے تھے اور جن چیزوں کی خریدو فروخت کسی پیمانے (برتن) سے کی جاتی اس کو کیلی کہا جاتا تھا۔ کسی نے تو وزن کرنے کے دو طرح کے بٹے (پتھر کے ٹکڑے) بنا رکھے تھے۔ لینے کے اور دینے کے اور۔ اسی طرح دو طرح کے پیمانے (برتن ) بنا رکھے تھے جس سے دیتے وقت کم ناپتے اور لیتے وقت پورا لیتے تھے۔ شریعت نے اس عادت کو ناجائز اور حرام قرا ردیا ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دور میں ترقی یافتہ اور نیم ترقی یافتہ ملکوں میں ماپ تول کے آلات بہت مختلف بنا دئیے گئے ہیں۔ اس کے لئے بڑی بڑی مشینوں کے ذریعہ چیزوں کو ماپا اور تولا جاتا ہے۔ اس میں کوئی بےایمان کا بظاہر امکان نہیں ہوتا لیکن ہوشیار اور چالاک لوگوں نے ان مشینوں میں بھی بہت سے ایسے طریقے اختیار کر رکھے ہیں کہ گاہک کو پتہ ہی نہیں چلتا اور وہ بڑی چالاکی سے آنکھوں میں دھول جھونک کر ماپ تول میں کمی کردیتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے ایسے تمام طریقوں سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا ہے جن سے لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔ اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ وہ وقتی نفع کمانے کے لئے اپنی آکرت کو برباد نہ کریں اور اپنے معاشرہ کو تجاریت بددیانتیوں سے پاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرت رہیں۔ الحمد اللہ اہل ایمان نے ہمیشہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جس طرح ایک مچھلی پورے تالاب کو گندہ کردیتی ہے اسی طرح کچھ لوگ لالچ اور ذاتی مفاد میں اسلامی تعلیمات کو بھلا کر ماپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان کے سامنے دین کی سچی تعلیمات ہوتیں تو وہ کبھی اس بددیانتی کا مظاہرہ نہ کرتے۔ آخرت سے بےنیاز ہو کر چلنے وال ہی اس خرابی میں مبتلا ہوتے ہیں جو سراسر ان کا اپنا ذاتی فعل ہوتا ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال بےایمان کی تمام صورتیں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک سخت ناپسندیدہ اور قابل ملامت ہیں۔ مکہ مکرمہ چونکہ ” وادی غیر زرع “ رہا ہے یعنی ایسی وادی جہاں زراعت نہیں ہوتی تھی ان کا گزر بسر تجارت اور لین دین پر تھا۔ جب کہ مدینہ کے تمام انصار عام طور پر زراعت پیشہ تھے یعنی کھیتی باڑی کرکے وہ اپنا پیٹ پالتے تھے۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو صورت حال یہ تھی کہ مدینہ منورہ کی پوری مارکیٹ پر یہودیوں کا قبضہ تھا وہ جس طرح چاہتے مارکیٹ کو اوپر نیچے کرتے رہتے تھے۔ انصار سیدھے سادھے مسلمان تھے وہ کھیتوں میں محنت کرتے تھے اور اپنے خون پسینے کی پیداوار کو جب مارکیٹ میں لا کر فروخت کرتے تو ان کو ان کی محنت کا پوراصلہ نہ ملتا تھا۔ ان کے لینے اور دینے کے پیمان الگ الگ تھے۔ جب مہاجرین مکہ نے مارکیٹ کی طرف رخ کیا اور اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیانت، امانت، اور انسانی ہمدردی کا معاملہ کیا تو وہ مارکیٹ پر چھاتے چلے گئے کیونکہ ان کو دنیا سے زیادہ اپنی آخرت کی فکر تھی اور یہ اصول کی بات ہے کہ جس آدمی کو اس بات کی فکر لگی رہتی ہے کہ اس سے کوئی ایسا کام نہ ہوجائے جس سے اس کی آکرت تباہ ہو کر رہے جائے تو اس کے ہر عمل میں دیانت و امانت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن جس کو اس بات کا یقین ہی نہ ہو کہ اس کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ہے اور اللہ کے سامنے حاضر ہو کر ایک ایک پائی اور ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہے تو وہ دنیا کمانے میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اس کو دینات داری اور انسانیت سے زیادہ مال اکٹھا کرنے اور جمع کرنے کا شوق تسکین دیتا ہے۔ زیر مطالعہ سورت میں اللہ نے اسی اصولی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ جنہیں آخرت کی فکر نہیں ہے اور وہ تجارتی بددیانتیوں میں لگے رہتے ہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے کرتوت کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ اللہ نے ہر شخص کے ساتھ دو ایسے فرشتوں کو مقرر کیا ہوا ہے جو اس کی ہر بات کو نوٹ کرتے چلے جارہے ہیں۔ جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو فرشتے کافرو مشرک اور گناہ گار کی روح کو سجین تک پہنچا دیتے ہیں اور اس کا نامہ اعمال بھی اسی دفتر میں محفوظ کردیا جاتا ہے۔ روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ سجین زمین کے نیچے ساتویں طبقے میں واقع ہے۔ اور جو لوگ دیانت و امانت اور حسن عمل کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ان کی روح کو علیین میں پہنچ دیا جاتا ہے جو کہ عرش الٰہی کے نیچے ساتویں آسمان کے اوپر واقع ہے اسی میں میں ان کے نامہ اعمال کو محفوظ کردیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ قیامت کے دن وہ لوگ جنہوں نے تقوی، پرہیز گاری، دیانت اور امانت کے ساتھ زندگی گزاری ہوگی ان کے چہرے خوشی اور مسرت سے تروتازہ ہوں گے ان کی مہمان نوازی ایسی شراب سے کی جائے گی جو مہر لگی ہوئی اور تسنیم جو جنت کی ایک نہر ہے اس کے پانی کی آمیزش ہوگی۔ وہ شاہانہ انداز سے خوبصورت اونچے تخت اور مسہریون پر بیٹھے بہترین، لذیر اور اعلیٰ ترین شراب پی رہے ہوں گے جس کی تمنا ہر دل میں ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ لیکن وہ لوگ جو قیامت کو جھٹلاتے، اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے اور اللہ کی آیات کے متعلق کہ کہتے تھے کہ یہ تو پرانے زمانے کے قصے ہیں جو نجانے ہم کب سے سنتے آرہے ہیں۔ جب اہل ایمان سچائیوں پر چلتے ہوئے ہر طرح کے گناہوں سے دور رہ رکر اپنی عاقبت کی فکر میں دنیا کے وقتی فائدوں کو ٹھکرا دیتے تھے تو وہ کفار ان ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور آنکھوں سے اشارے کرکے ان کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ گھر میں جاتے تو وہاں بھی ان اہل ایمان کا ذکر مذاق اڑانے کے ادانز میں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اصل میں یہ لوگ بہکے ہوئے ہیں۔ فرمایا کہ قیامت کے دن ان کفار کو جب جہنم میں داخل کیا جائے گا تو اس وقت وہ پچھتائین گے اور شرمندگی کا اظہار کریں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ دنیا میں جس طرح کفار اہل ایمان کا مذاق اڑاتے تھے قیامت میں اس کے بالکل برعکس معاملہ ہوجائے گا اور وہ یہ کہ ان کفار کی حالت دیکھ کر اب اہل ایمان ان کا مذاق اڑائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الانفطار اس بات پر ختم ہوئی کہ قیامت کے دن نیکوں اور بروں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا اور اس دن پورے کا پورا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا۔ قیامت کو جھٹلانے والا شخص نہ صرف اپنے رب سے منہ موڑتا ہے بلکہ وہ لوگوں کے ساتھ بےمروتی بھی اختیار کرتا ہے اور اسی بےمروتی کی وجہ سے لوگوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس لیے ” اَلْمُطَفِّفِیْنَ “ کے آغاز میں ماپ تول کے ذریعے لوگوں کے حقوق مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ ” تطفیف “ کا معنٰی ہے ناپ تول میں کمی بیشی کرنا۔ جب انسان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجائے اور اس کی حرص حد سے بڑھ جائے تو وہ کمینگی پر اتر آتا ہے۔ کسی انسان کی کمینگی اور حرص کی انتہا یہ ہے کہ وہ لیتے ہوئے ماپ تول میں زیادہ لے اور دیتے ہوئے اس میں کمی کرے یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس سے آپس میں شدید نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور نفرت باہمی جنگ وجدال کا سبب بنتی ہے اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا تھا۔ ” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ، تول میں کمی نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور بیشک میں تمہارے بارے میں ایک ہمہ گیر عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اے میری قوم ! انصاف کے ساتھ ماپ تول پورا رکھو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں دنگا و فساد نہ مچاؤ۔ “ (ھود : ٨٤، ٨٥) ماپ تول میں کمی یا بیشی کرنے والا شخص عملاً قیامت کے دن کا انکاری ہوتا ہے، ایسا شخص نہ صرف آخرت میں سزا پائے گا بلکہ بالآخر دنیا میں بھی ذلیل ہوگا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ کیا لوگ نہیں جانتے کہ انہیں ایک بڑے دن سے واسطہ پڑے گا۔ جس دن ہر شخص کو رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے وہاں یہ شخص اپنے رب اور لوگوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ قیامت کے دن کو اس لیے عظیم کہا گیا ہے کیونکہ یہ دن اپنی طوالت کے لحاظ سے پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس میں تمام جن وانس کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے اور اس دن سب بڑی عدالت قائم ہوگی، اور یہ اپنی ہیبت کے اعتبار سے بڑا بھاری ہوگا۔ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَاب اللّٰہِ شَدِیْدٌ) (الحج : ١، ٢) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے، اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور لوگ تمہیں مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔ “ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ ) (السلسلۃ الصحیحۃ البانی : ١٠٧) ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے والے کے لیے دنیا میں تباہی اور آخرت میں جہنم ہے۔ ٢۔ ماپ، تول میں کمی بیشی کرنے والے کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا۔ ٣۔ قیامت کا دن اپنی طوالت اور سختی کے لحاظ سے بہت بڑا ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے دن ہر شخص کو رب العالمین کے حضور کھڑا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ ماپ کو پورا کرو اور سیدھے ترازو سے تولو۔ (بنی اسرائیل : ٣٥) ٢۔ ماپ تول انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ماپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ۔ (الاعراف : ٨٥) (الشعراء : ١٨٢) (ھود : ٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورت کا آغاز ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں پر تنقیدی حملے سے ہوتا ہے کہ ان ڈنڈی مارنے والوں (مطففین) کے لئے تباہی اور ہلاکت ہے۔ یہاں بطور فیصلہ یہ بات بتائی جارہی ہے کہ ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہو یا یہ ان کے حق میں بددعا ہو ، مطلب دونوں کا ایک ہی ہے کیونکہ اللہ کی جانب سے بددعا بھی ایک فیصلہ ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں سے سوہٴ تطفیف شروع ہو رہی ہے، یہ لفظ طفف سے باب تفعیل کا مصدر ہے اور مطففین اسی سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ تطفیف کا معنی ہے گھٹانا اور کم کرنا۔ لفظ کالوا کیل سے لیا گیا ہے ماضی معروف جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ عربی میں برتن کے بنائے ہوئے پیمانہ سے بھر کردینے کو کیل کہتے ہیں اور اکتالوا لفظ کیل سے باب افتعال سے ماضی کا صیغہ ہے۔ اس آیت شریفہ میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے جو لوگ دوسروں کے ہاتھ مال بیچتے ہیں تو کم ناپتے ہیں یا کم تولتے ہیں۔ تولتے وقت ڈنڈی مار دیتے ہیں اور ایک طرف کسی ترکیب سے پلڑا جھکا دیتے ہیں اور لوگوں سے مال لیتے ہیں تو پورا تلواتے ہیں اور پورا نپواتے (یعنی پیمائش میں پورا لیتے) ہیں۔ ان لوگوں کو قیامت کے دن کی پیشی یاد دلائی ہے اور فرمایا ہے کہ تطفیف کرنے والوں کے لیے اس دن بڑی خرابی ہوگی جس دن رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے ذرا سی حقیر دنیا کے لیے اپنے ذمہ حقوق العباد لازم کرتے ہیں اور دھوکہ فریب دے کر تجارت کرتے ہیں اس کا وبال آخرت میں بھی ہے اور دنیا میں بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناپ تول کرنے والوں سے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں تمہارے سپرد کی گئیں ہیں ان دونوں کے بارے میں گزشتہ امتیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح) ناپ تول میں کمی کرنے کا رواج حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم میں تھا۔ انہوں نے ان کو بارہا سمجھایا وہ نہ مانے بالآخر عذاب آیا اور ہلاک ہوگئے جیسا کہ سورة شعراء میں اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کا رزق کاٹ دیا جائے گا یعنی ان کے رزق میں کمی کردی جائے گی یا رزق کی برکت اٹھا لی جائے گی، ناپ تول میں کمی کر کے دینا حرام ہے۔ ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی برخلاف اس کے جھکا کر تولنے کا حکم ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جا رہے تھے ایک ایسے شخص پر گزر ہوا جو مزدوری پر تول رہا تھا (یعنی بیچے والے کا مال زیادہ مقدار میں تھا ایک شخص اس کی طرف سے تول رہا تھا اور اس نے اپنے اس عمل کی مزدوری طے کرلی تھی) ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زن وارجع کہ تم تولو اور جھکا کر تولو۔ جس طرح ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے اسی طرح سے دیگر امور میں کمی کرنے سے کہیں گناہ ہوتا ہے اور کہیں ثواب میں کمی ہوجاتی ہے۔ مومن ہونے کے اعتبار سے جو ذمہ داری قبول کی ہے ہر شخص اسے پوری کرے۔ حقوق اللہ بھی پورے کرے اور حقوق العباد بھی، کسی قسم کی کٹوتی نہ کرے۔ موطا امام مالک (رح) میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نماز عصر سے فارغ ہوئے تو ایک شخص سے ملاقات ہوئی وہ نماز عصر میں حاضر نہیں ہوا تھا اس سے دریافت فرمایا کہ تم نماز عصر سے کیوں بچھڑ گئے ؟ اس شخص نے کچھ عذر پیش کیا۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : طففت کہ تو نے اپنے حصے میں کمی کردی، یعنی جماعت کا جو ثواب ملتا اس سے محروم رہ گیا اور اپنا نقصان کر بیٹھا۔ یہ روایت لکھ کر حضرت امام مالک (رح) فرماتے ہیں : ویقال لکل شی وفاء وتطفیف (کہ ہر چیز کے لیے پورا کرنا بھی ہے اور کم کرنا بھی ہے) ۔ نماز کی ایک تطفیف اوپر مذکور ہوئی (جس شخص کو تنبیہ کی تھی کہ نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوا تھا) ۔ نماز کی یا حج کی سنتیں چھوڑ دینا روزہ رکھنا لیکن اس میں غیبتیں کرنا، تلاوت کرنا لیکن غلط پڑھنا یہ سب طفف میں شامل ہے۔ یعنی ثواب میں کمی ہوجاتی ہے اور بعض مرتبہ تلاوت غلط ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہیں ہوتی، اگر زکوٰۃ پوری نہ دے تو یہ بھی طفف ہے۔ جو لوگ حکومت کے کسی بھی ادارہ میں یا کسی انجمن یا مدرسہ وغیرہ میں ملازم ہیں انہوں نے معروف اصول و قواعد یا معاملہ اور معاہدہ کے مطابق جتنا وقت طے کیا ہے اس وقت میں کمی کرنا اور تنخواہ پوری لینا یہ سبب طفف ہے۔ جو لوگ اجرت پر کسی کے ہاں کام کرتے ہیں ان کے ذمہ لازم ہے کہ جس کام پر لگا دیا گیا ہے اسے صحیح کریں اور پورا کریں۔ اگر غلط کریں گے یا پورا نہ کریں گے تو طفف ہوگا اور پوری اجرت لینا حرام ہوگا۔ یہ جو مزدوری کا طریقہ ہے کہ کام لینے والا دیکھ رہا ہے تو ٹھیک طرح کام کر رہے ہیں اگر وہ کہیں چلا گیا تو سگریٹ سلگا لی یا حقہ پینے لگے یا باتیں چھوڑنے لگے یا عالمی خبروں پر تبصرہ کرنے لگے یہ سب طفف ہے، ہر مزدور اور ملازم پر لازم ہے کہ صحیح کام کرے اور وقت پورا دے۔ جو شخص کسی کام پر مامور ہے اور اس کام کرنے کے لیے ملازمت کی ہے اگر مقررہ کام کے خلاف کرے گا اور رشوت لے گا تو یہ طفف ہے۔ رشوت تو حرام ہے ہی تنخواہ بھی حرام ہوگی۔ چونکہ جس کام کے لیے دفتر میں بیٹھایا گیا وہ کام اس نے نہیں کیا۔ (پورے مہینہ میں کتنی خلاف ورزی کی اسی حساب سے تنخواہ حرام ہوگی) ۔ آیت شریفہ میں فکر آخرت کی طرف متوجہ فرمایا۔ ارشاد ہے ﴿ اَلَا يَظُنُّ اُولٰٓىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ٠٠٤ لِيَوْمٍ عَظِيْمٍۙ٠٠٥ يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ٠٠٦﴾ (کیا یہ لوگ یہ یقین نہیں رکھتے کہ یہ ایک بڑے دن کے لیے اٹھائے جائیں گے جس دن لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” ویل للمطففین “ یہ زجر ہے۔ ” علی الناس “ کا متعلق محذوف ہے جو ” اکتالوا “ کے فاعل سے حال ہے ای مضرین علی الناس۔ یا یہ ” اکتالوا “ سے متعلق ہے۔ قال الفراء من وعلی یعتقیان فی ھذا الموضع لانہ حق علیہ فاذا قال اکتلت علیک فکانہ قال اخذت ما علیک (مدارک) ۔ ان کم تولنے والوں کے لیے ہلاکت اور ویل ہے جو لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا وصول کرلیتے ہیں، بلکہ اپنے حق سے زیادہ لے لیتے ہیں، اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو ان کے حق سے ان کو کم دیتے ہیں ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے انہیں چاہئے کہ وہ خدا سے ڈریں جو ظلم و زیادتی کی ان کو سخت سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔