Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 2

سورة المطففين

الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾

Who, when they take a measure from people, take in full.

کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُواْ عَلَى النَّاسِ ... Those who, when they have to receive by measure from men, meaning, from among the people. ... يَسْتَوْفُونَ demand full measure, meaning, they take their right by demanding full measure and extra as well. وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] ڈنڈی مارنے کی مختلف صورتیں :۔ ناپ کر اپنا حق پورا لینا کوئی جرم کی بات نہیں۔ یہ جرم صرف اس وقت بنتا ہے جب اپنا حق تو پورا لیا جائے اور دوسروں کو کم دیا جائے۔ پھر اس جرم میں کمی بیشی کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنا حق بھی کم لے اور دوسروں کو بھی کم دے۔ بالفاظ دیگر اس کا پیمانہ یا باٹ ہی چھوٹاہو اسی سے وہ لاتا بھی ہو اور دیتا بھی ہو اور ڈنڈی بھی نہ مارتا ہو۔ اس صورت میں بھی یہ جرم ہے مگر جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ آدمی لیتے وقت پورا یا زیادہ لے اور دیتے وقت کم دے۔ اس صورت میں جرم دگنا بلکہ تگنا ہوجاتا ہے۔ لین دین کی اصل بنیاد عدل ہے یعنی پورا پورا دو ۔ اور قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اس کی سخت تاکید آئی ہے کہ جب تولو تو سیدھی ڈنڈی سے تولو اور اور کسی کو اس کا حق کم نہ دو ۔ پورا یا زیادہ لینا اور دوسروں کو کم دینا اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجہ یعنی احسان یا ایثار کی ہدایت فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق لیتے وقت تھوڑے سے کم پر اکتفا کرلے اور دیتے وقت تھوڑا سا زیادہ دے دے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ مدینہ کی منڈی میں تشریف لے گئے۔ ایک تولا غلہ تول رہا تھا اسے آپ نے ہدایت فرمائی کہ && زِن وارجح && (نسائی، کتاب البیوع) یعنی تول اور تھوڑا سا جھکتا تول۔ غور فرمائیے جس معاشرہ میں ایسا دستور رواج پا جائے اس میں کوئی لین دین کا تنازعہ پیدا ہوسکتا ہے ؟ خ جھکتا تولنے کی ہدایت :۔ اور جو شخص جھکتا تول کر دے رہا ہے اسے جب اس کا حق ملے گا تو وہ بھی جھکتا ہی ملے گا۔ اور اسے بھی کوئی کسر نہ رہے گی پھر ایسے معاشرہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتوں کا جو نزول ہوگا اس کا اندازہ تجربہ سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ۝ ٢ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) كيل الْكَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ( ک ی ل ) الکیل ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں ) اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے منعی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے منعی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے منعی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ وفی پورا الوَافِي : الذي بلغ التّمام . يقال : درهم وَافٍ ، وكيل وَافٍ ، وأَوْفَيْتُ الكيلَ والوزنَ. قال تعالی: وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] ( و ف ی) الوافی ۔ مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے : درھم واف کیل واف وغیرہ ذالک اوفیت الکیل والوزن میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ [ الإسراء/ 35] اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا پھرا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:2) الذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفون : یہ جملہ مطففین کی صفت ہے۔ یہ لوگ (مطففین) وہ ہیں کہ اگر لوگوں سے اپنا حق ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا ناپتے ہیں۔ اکتالوا ماضی جمع مذکر غائب اکتیال (افتعال) مصدر سے۔ جب وہ پیمانہ سے ناپ کرلیتے ہیں اکتال کے معنی ہیں پیمانہ سے تول کرلینا۔ الکیل (باب ضرب) غلہ ناپنا، تولنا، کیل بغیر (12:65) اونٹ کے بوجھ کے برابر غلہ۔ مکیال المطر بارش مانپنے کا آلہ۔ علی الناس (جو ان کا حق لوگوں کے ذمہ ہے) بجائے من الناس (لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں) کے بجائے علی الناس (لوگوں پر) فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ علی الناس کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر ان کا جو حق ہوتا ہے اس کو وہ پورا پورا لیتے ہیں۔ یا یوں کہو کہ لوگوں پر اپنا حق ٹھونس کر وصول کرتے ہیں۔ یستوفون : مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب استیفاء (استفعال) مصدر سے۔ وہ پورا پورا لیتے ہیں۔ و ف ی مادہ الوافی مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں۔ اوفی (وفاء باب ضرب) بعھدہ بمعنی اس نے عہد و پیمان کو پورا کیا۔ لیکن قرآن مجید میں اوفی (افعال) سے استعمال ہوا ہے۔ چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم (2:40) تم اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا۔ اور میں اس اقرار کو پورا کردوں گا جو میں نے تم سے کیا تھا۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ جو جب لوگوں سے اپنا حق لیتے ہیں تو ٹھوک بجا کر پورا پورا ناپ لیتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اگلی دو آیات میں مطففین کی تعریف کی گئی ہے کہ مطفف ، ڈنڈی مارنے والا کون ہوتا ہے۔ الذین اذا ........................ یخسرون (3-2:83) ” یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھاٹا دیتے ہیں “۔ جب وہ مشتری ہوں تو بہت ہشیاری سے پورا پورا لیتے ہیں اور اگر بیچنے والے ہوں تو کم دیتے ہیں۔ اس مکی سورت میں اس اہمیت کے ساتھ ناپ تول میں کمی کے مسئلہ پر بحث تعجب خیز ہے اور ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ مکی سورتوں میں بالعموم کلی اور اصولی عقائد اور نظریات سے بحث کی گئی ہے۔ مثلاً توحید کا ثبوت ، اللہ کی بےقید مشیت ، عام مخلوق اور پوری کائنات پر اللہ کا کنٹرول ، وحی کی حقیقت اور نبوت کا منصب ، آخرت کی حقیقت اور حساب و کتاب اور عمومی انداز میں اخلاقی احساسات پیدا کرنا ، خصوصاً ایسے احساسات جن کا ان بنیادی عقائد ونظریات کی ساتھ خاص ربط اور تعلق ہو۔ رہی یہ بات کہ کسی اخلاقی مسئلہ پر خاص طور پر بحث کرنا تو یہ بات مکی سورتوں میں نہیں ہے مثلاً کم ناپنے اور کم تولنے کا مسئلہ ، اور دوسری معاملاتی بےقاعدگیاں۔ یہ تمام امور مدنی سورتوں میں آئے جبکہ اسلامی نظام حکومت قائم ہوگیا تھا اور اس نے معاشی ، معاشرتی اور سماجی مسائل کو حل کرنا شروع کیا تھا کیونکہ یہی انداز اسلامی منہاج کا عمومی انداز تھا۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اس عمومی قاعدے سے ہٹ کر قرآن نے اس مسئلے کو کیوں لیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چند اور مختصر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بعض وجوہات تھیں۔ ان آیات سے ایک بات قہ معلوم ہوتی ہے کہ جب اسلام آیا تو مکہ میں ناپ تول میں کمی کا ایک ظالمانہ نظام ایک خوفناک شکل میں موجود تھا۔ مکہ کے کبراء یہ کام کرتے تھے۔ ان لوگوں کا پورے عرب بلکہ شرق وغرب کی تجارت پر قبضہ تھا۔ اور یہ اکابر وسیع کاروبار کے مالک تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ذخیرہ اندوزی کا جال پھیلا رکھا تھا۔ یہ لوگ گرمیوں اور سردیوں کے سفر شام اور یمن کے ساحل کی طرف کرتے تھے اور انہوں نے مختلف مواقع پر تجاری میلے بھی منظم کر رکھے تھے۔ مثلاً حج کے موقعہ پر عکاظ کا بازار لگتا تھا جس میں وسیع تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی اور تاریخی سرگرمیاں بھی زوروں پر ہوتی تھیں۔ لوگ مفاخر اور اشعار بھی پڑھتے۔ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ان اکابر مجرمین کو سخت دھمکی دیتا ہے کہ تباہی تمہارے سر پر ہے۔ اسی طرح ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برا کام کرنے والے لوگ اونچے طبقات کے لوگ تھے۔ اور ان کو ایسا معاشرتی مقام حاصل تھا کہ یہ لوگوں کو اس پر مجبور کرتے تھے کہ ان کو کم دیں۔ قرآن نے لفظ (یکتالون علی الناس) استعمال کیا جس میں لفظ ” علی “ برتری کے مفہوم میں ہے یعنی اپنی اونچی پوزیشن کی وجہ سے لوگوں پر کم ناپ وتول ٹھونستے تھے اور جب ان سے وہ کچھ لیتے تھے تو جبراً زیادہ لیتے تھے۔ اگر وہ پورا لیتے تو یہ بات قابل اعتراض نہ ہوتی اور اس کا ذکر ہی نہ کیا جاتا ۔ یعنی وہ جو چاہتے ، جبراً زیادہ لیتے تھے۔ اگر وہ پورا لیتے تو یہ بات قابل اعتراض نہ ہوتی اور اس کا ذکر ہی نہ کیا جاتا۔ یعنی وہ جو چاہتے ، جبراً لے لیتے۔ اور جب لوگوں کو دیتے تو اپنی سیاسی اور سماجی پوزیشن کی وجہ سے کم دیتے ۔ کیونکہ وہ لوگ اپنے حقوق پورے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اس لئے کہ ان کبراء کو سیاسی اور قبائلی برتری حاصل تھی اور معاشی برتری کی وجہ سے لوگ مجبور ہوتے تھے کہ ان کے اس ظلم پر راضی ہوں۔ یہ ذخیرہ اندوزی کرتے تھے اور پھر لوگوں کو مہنگا فروخت کرکے ان کو دیتے تھے۔ جیسا کہ آج کل کے تجارتی نظام کی خصوصیت ہے۔ غرض ایک واضح ظالمانہ نظام تطفیف مکہ میں کام کررہا تھا ، اس لئے اسے چیلنج کیا گیا۔ اس مکی معاشرہ میں دعوت اسلامی کے نہایت ہی ابتدائی ایام میں اس مسئلے کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کا مزاج کیا ہے ، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین ایک مکمل نظام زندگی ہے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے خواہ نظریاتی ہو یا عملی۔ اور اس نظام کی اٹھان گہرے اخلاقی اصولوں پر ہے جو اس نظام کے اندر نہایت ہی گہرائی میں رکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان ابتدائی ایام ہی میں اس غلط روش کو ناپسند کیا کیونکہ باہم معاملات میں یہ کھلی بداخلاقی تھی۔ حالانکہ اس دور میں اسلام کو اجتماعی قیادت اور اختیارات حاصل نہ تھے ، نہ حکومت تھی اور نہ اسلامی شریعت نافذ تھی۔ لیکن اسلام نے اپنے مزاج کے عین مطابق اس برائی کے خلاف یہ آواز بلند کی۔ اور اعلان کردیا کہ ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے وہ مکہ کے سردار ، برسر اقتدار اور بااختیار تھے۔ ان کو لوگوں پر روحانی سیادت حاصل تھی۔ اور یہ عقیدہ شرک کے محافظ تھے اور ان کو مکہ میں معاشی برتری بھی حاصل تھی۔ اسلام نے ان لوگوں کی قیادت وسیادت کے باوجود ان کے اس ظلم اور دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی۔ اور غریب عوام کے حق میں آواز بلند کی جن کا استحصال کیا جارہا تھا اور یہ استحصال وہ ان مذہبی خیالات کی بنا پر کررہے تھے جو انہوں نے ان عوام کے ذہنوں پر بٹھا دیئے تھے۔ اسلام نے جو آواز اٹھائی وہ اسلام کی فطری آواز تھی۔ اسلامی نظام کے مزاج کے عین مطابق تھی ، اور یہ ایک ایسی آواز تھی جو سوئے ہوئے عوام کو جگارہی تھی اور تحریک اسلامی نے یہ آواز اس وقت اٹھائی جب اس کے ماننے والے اس وقت مکہ میں مقہور ومحصور تھے اور جن لوگوں کے خلاف یہ اٹھائی گئی وہ معاشرے پر چھائے ہوئے تھے اور ان کو معاشی ، دینی اور مالی برتری حاصل تھی۔ اس سے ہمیں ایک نہایت ہی حقیقت پسندانہ سبب ملتا ہے۔ اس بات کا کہ مشرکین مکہ اسلام اور دعوت اسلامی کے معاملے میں کیوں ایک ناقابل عبور رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ نیا نظریہ جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش فرما رہے ہیں۔ یہ فقط عقیدہ اور زبانی اقرار ہی نہیں ہے کہ اللہ ایک ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور بتوں اور مورتیوں کو چھوڑ کر فقط ایک خدا کی عبادت اور بندگی کرنا ہے۔ ایسا نہ تھا بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ عقیدہ اور نظریہ جاہلیت کی تمام بنیادو کو اکھاڑ کر پھینک رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے تمام مفادات بھی ختم ہورہے ہیں اور اس عقیدے سے ان کی عزت ، مقام اور اقتدار کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس نظام کا مزاج ہی دوئی قبول نہیں کرتا۔ یہ نظام ایسے سیکولر عناصر سے بھی نہیں ملتا جن کا ربط آسمانی ہدایات و تصورات سے نہ ہو ، اور یہ نظام اس تمام زمینی مواد کو ختم کرتا ہے جس کے اوپر جاہلیت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل مکہ نے اس نئے نظام کے خلاف چومکھی لڑائی شروع کردی اور یہ لڑائی نہ ہجرت سے قبل کے زمانے میں کبھی رکی اور نہ بعد کے زمانوں میں ، یہ کبھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ جنگ دراصل کلچر کی جنگ تھی۔ یہ لوگ ، اسلامی کلچر کے خلاف برسرپیکار تھے۔ یہ محض دینی نظریاتی جنگ نہ تھی۔ جو لوگ اسلامی نظام کے اقتدار کی راہ روک رہے ہیں۔ ان لوگوں نے ہر دور اور ہر مقام پر اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھا ہے۔ انہوں نے اسلامی نظام کے غلبے کے نتائج کو اچھی طرح جانا ہے تب ہی تو انہوں نے اسلامی نظام کے غلبے کو روکنے کی کوشش کی۔ یہ لوگ جانتے تھے اور ہیں کہ ان کے باطل طور طریقے اور ان کے جابرانہ مفادات اور خود انی کی کھوئی قوت اور ان کی بےراہ روی ، غرض یہ سب چیزیں اسلام نظام کے غلبے کے نتیجے میں ختم ہونے والی ہیں کیونکہ یہ تو ایک سیدھا اور نہایت ہی شریفانہ نظام ہے۔ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں یہ باغی اور سرکش اور ڈنڈی مارنے والے ، خواہ اس ڈنڈی مارنے اور ظلم کی جو صورت بھی ہو ، مالی ظلم ہو یا دوسرے حقوق وفرائض میں ظلم ہو ، یہ باغی اور سرکش دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اسلامی نظام سے زیادہ خائف رہتے ہیں کیونکہ یہ نہایت منصفانہ اور پاک وصاف نظام ہے۔ یہ نظام انسانی حقوق پر کوئی سودا بازی اور کوئی مداہنت قبول نہیں کرتا اور نہ نصافا نصف اور کچھ لو اور کچھ دو کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہجرت سے قبل جن لوگوں نے عقبہ ثانیہ کی بیعت کی تھی۔ انہوں نے اسی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : ” اور مجھے عاصم ابن عمر ابن قتادہ نے بتایا کہ جب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کے لئے جمع ہوئے تو اس موقعہ پر عباس ابن عبادہ ابن نضلہ انصاری ، بنی سالم ابن عوف کے فرد نے کہا : ” اے اہل خزرج ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم اس شخص کے ساتھ کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ “ تو انہوں نے کہا : ” ہاں ہم جانتے ہیں “۔ تو اس نے کہا : ” حقیقت یہ ہے کہ تم اور ہم اسودواحمر کے ساتھ لڑنے جارہے ہیں۔ اگر تمہاری رائے یہ ہے کہ جب ہمیں مالی تاوان لاحق ہوگا ، اور ہمارے شرفاء قتل ہوں گے اور ہم پھر اس کی حمایت سے دست بردار ہوجائیں گے تو ابھی سے اسے چھوڑ دو ، اگر بعد میں تم اسے چھوڑو گے تو دنیا وآخرت میں تباہ ہوجاﺅ گے اور اگر تم اس بات پر تل گئے ہو کہ مال لٹانا اور اثراف کا قتل ہونا ہمیں منظور ہے تو بیعت کرلو۔ خدا کی قسم ! یہ دنیا وآخرت سے بہتر ہیں “ تو بیعت کرنے والوں نے کہا کہ ” ہم مال لٹانے اور اثراف کے قتل پر بھی اسے ہی قبول کرتے ہیں “۔ اس پر اس شخص نے کہا : ” رسول خدا اس پر ہمیں کیا اجر ملے گا۔ اگر ہم نے یہ عہد پورا کردیا “ تو آپ نے فرمایا :” جنت “ تو انہوں نے کہا : ” لائیے ہاتھ “ آپ نے بھی ہاتھ بڑھایا اور لوگوں کی بیعت کی۔ غرض بیت عقبہ کرنے والوں نے بھی اس دین کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اور کبرائے قریش نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یہ دین تلوار کی دھار کی طرح عدل و انصاف کے اصولوں پر سیدھاقائم ہے۔ یہ زیادتی اور سرکشی کسی طرح بھی برداشت نہیں کرتا۔ نہ حد سے تجاوز اور بغاوت کو برداشت کرتا ہے اور نہ کبروغرور کو اور نہ یہ دین کے نام پر ظلم ، زیادتی اور دھوکہ بازی اور استحصال کو برداشت کرتا ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو سرکش ہو ، باغی ہو ، متکبر ہو ، استحصالی ہو ، وہ اس دین ، اس کی دعوت اور اس کے داعیون کا دشمن ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) کہ جب لوگوں سے پیمانہ ناپ کرلیں تو پیمانہ کو پوری طرح بھر کرلیں۔