Surat ul Mutafifeen
Surah: 83
Verse: 25
سورة المطففين
یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾
They will be given to drink [pure] wine [which was] sealed.
یہ لوگ سر بمہر خالص شراب پلائے جائیں گے ۔
یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ ﴿ۙ۲۵﴾
They will be given to drink [pure] wine [which was] sealed.
یہ لوگ سر بمہر خالص شراب پلائے جائیں گے ۔
They will be given to drink of pure sealed Rahiq. meaning, they will be given drink from the wine of Paradise. Ar-Rahiq is one of the names of the wine (in Paradise). Ibn Mas`ud, Ibn `Abbas, Mujahid, Al-Hasan, Qatadah and Ibn Zayd all said this. Ibn Mas`ud said concerning Allah's statement,
(یسقون من رحیق محتوم…:” رحیق “ خالص شراب جس میں کھوٹ نہ ہو۔ “ (مختوم) اگرچہ جنت میں شراب کی نہریں موجود ہیں، جیسا کہ فرمایا :(وانھر من خمر لذۃ للشربین) (محمد : ١٥)” اور شراب کی کئی نہریں ہیں جوپ ینے والوں کے لئے لذیذ ہیں “ مگر یہ ایک خاص شراب ہوگی، جو بترنوں میں بند ہوگی، جن پر مہر مٹی یا راکھ کے بجائے کستوری کی ہوگی۔ ” ختمہ مسک “ کا ایک معنی یہ بیھ ہے کہ پیتے وقت آخری گھونٹ کے ساتھ کستوری جیسی خوشبو آئے گی نہ کہ دنیا کی شراب کی طرح بدبو کا بھبھوکا اٹھے گا۔
يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ ٢٥ ۙ سقی السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ : أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] ( س ق ی ) السقی والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد/ 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔ رحق قال اللہ تعالی: يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ [ المطففین/ 25] ، أي : خمر . ( ر ح ق ) رحیق ( خالص عمدہ شراب جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ ہو ) قرآن میں ہے : يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍ [ المطففین/ 25] ان کو شراب خالص سر بند پلائی جائے گی ۔ ختم الخَتْمُ والطّبع يقال علی وجهين : مصدر خَتَمْتُ وطبعت، وهو تأثير الشیء کنقش الخاتمانتهيت إلى آخره، فقوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وقوله تعالی: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام/ 46] ، إشارة إلى ما أجری اللہ به العادة أنّ الإنسان إذا تناهى في اعتقاد باطل، أو ارتکاب محظور۔ ولا يكون منه تلفّت بوجه إلى الحقّ- يورثه ذلك هيئة تمرّنه علی استحسان المعاصي، وكأنما يختم بذلک علی قلبه، وعلی ذلك : أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل/ 108] ، وعلی هذا النّحو استعارة الإغفال في قوله عزّ وجلّ : وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] ، واستعارة الكنّ في قوله تعالی: وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] ، واستعارة القساوة في قوله تعالی: وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] ، قال الجبّائيّ : يجعل اللہ ختما علی قلوب الکفّار، ليكون دلالة للملائكة علی كفرهم فلا يدعون لهم ولیس ذلک بشیء فإنّ هذه الکتابة إن کانت محسوسة فمن حقّها أن يدركها أصحاب التّشریح، وإن کانت معقولة غير محسوسة فالملائكة باطّلاعهم علی اعتقاداتهم مستغنية عن الاستدلال . وقال بعضهم : ختمه شهادته تعالیٰ عليه أنه لا يؤمن، وقوله تعالی: الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس/ 65] ، أي : نمنعهم من الکلام، وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ [ الأحزاب/ 40] ، لأنه خَتَمَ النّبوّة، أي : تمّمها بمجيئه . وقوله عزّ وجلّ : خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] ، قيل : ما يختم به، أي : يطبع، وإنما معناه : منقطعه وخاتمة شربه، أي : سؤره في الطيّب مسك، وقول من قال يختم بالمسک «3» أي : يطبع، فلیس بشیء، لأنّ الشّراب يجب أن يطيّب في نفسه، فأمّا ختمه بالطّيب فلیس ممّا يفيده، ولا ينفعه طيب خاتمه ما لم يطب في نفسه . ( خ ت م ) الختم والطبع ۔ کے لفظ دو طرح سے استعمال ہوتے ہیں کبھی تو ختمت اور طبعت کے مصدر ہوتے ہیں اور اس کے معنی کسی چیز پر مہری کی طرح نشان لگانا کے ہیں اور کبھی اس نشان کو کہتے ہیں جو مہر لگانے سے بن جا تا ہے ۔ مجازا کبھی اس سے کسی چیز کے متعلق وتوق حاصل کرلینا اور اس کا محفوظ کرنا مراد ہوتا ہے جیسا کہ کتابوں یا دروازوں پر مہر لگا کر انہیں محفوظ کردیا جاتا ہے ۔ کہ کوئی چیز ان کے اندر داخل نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ وَخَتَمَ عَلى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ [ الجاثية/ 23] اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی ۔ اور کبھی کسی چیز کا اثر حاصل کرلینے سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ مہر نقش ہوجاتا ہے اور اسی سے ختمت القرآن کا محاورہ ہے ۔ یعنی قرآن ختم کرایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور آیت : ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصارَكُمْ وَخَتَمَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنعام/ 46]( ان کافروں سے ) کہو بھلا دیکھو تو اگر خدا تمہارے کان یا دو آنکھیں چجین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ۔ میں عادت الہیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل بامحرمات کے ارتکاب میں حد کو پہنچ جاتا ہے اور کسی طرح حق کی طرف ( التفات نہیں کرنا تو اس کی ہیئت نفسانی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ گناہوں کو اچھا سمجھنا اس کی خوبن جاتی ہے ۔ گویا اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے ۔ چناچہ اس ی معنی میں فرمایا : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصارِهِمْ [ النحل/ 108] یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور کانوں پر اور آنکھوں پر خدا نے مہر لگا رکھی ہے اسی طرح آیات کریمہ : ۔ وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنا [ الكهف/ 28] اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے ۔۔۔ اس کا کہا نہ ماننا۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام/ 25] اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں ۔ وَجَعَلْنا قُلُوبَهُمْ قاسِيَةً [ المائدة/ 13] اور ان کے دلوں سخت کردیا ۔ میں اعفال کن اور قساوۃ سے بھی علی الترتیب یہی معنی مراد ہیں ۔ جبائی کہتے ہیں کہ اللہ کے کفار کے دلوں پر مہر لگانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے دلوں پر ایسی علامت قائم کردیتے ہیں کہ فرشتے انکے کفر سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے حق میں دعائے خیر نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ اگر یہ کتابت محسوس ہو تو اصحاب التشریح ( ) کو بھی اس کا ادراک ہونا ضروری ہے اور اگر سراسر عقلی اور غیر محسوس ہے تو ملائکہ ان کے عقائد باطلہ سے مطلع ہونے کے بعد اس قسم کی علامات سے بےنیاز ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مہر لگانے کے معنی ان کے ایمان نہ لانے کی شہادت دینے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلى أَفْواهِهِمْ [يس/ 65] آج ہم ان کے موہوں پر مہر لگادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ کلام نہیں کرسکیں گے اور آیت میں آنحضرت کو خاتم النبین فرمانے کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت نے اپنی آمد سے سلسلہ نبوت کی مکمل کردیا ۔ ہے ( اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ) اور آیت کریمہ :۔ خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین/ 26] جسکی مہر مسک کی ہوگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ختام کے معنی مایختم بہ کے ہیں یعنی وہ چیز جس سے مہر لگائی جائے مگر آیت کے معنی یہ ہیں کہ اس کا آخری لطف اور برین میں باقی ماندہ جھوٹ مسک کی طرح مہ کے گا اور بعض نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ اس پر کستوری کی مہر لگی ہوئی ہوگی مگر یہ بےمعنی سی بات ہے ۔ کیونکہ شراب کو بذات خود لذت ہونا چاہیے اگر وہ بذات خود لذت لذیذ نہ ہو تو اس پر مسک کی مہر لگانا چنداں مفید نہیں ہوسکتا ، اور نہ ہی اس کی لذت میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے ۔
(٢٥۔ ٢٨) اور ان کو پینے کے لیے خالص شراب جس پر مشک کی مہر ہوگی ملے گی، سو عمل کرنے والوں کو عمل اور کوشش کرنے والوں کو کوشش اور سبقت کرنے والوں کو ایسی چیز کے لیے سبقت اور خرچ کرنے والوں کو خرچ کرنا چاہیے اور اس شراب کی آمیزش تسنیم کے پانی سے ہوگی، تسنیم ایک ایسا چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پیئیں گے۔
آیت ٢٥{ یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ ۔ } ” انہیں پلائی جائے گی خالص شراب جس پر مہر لگی ہوگی۔ “ ہندوستان کے معروف اہل حدیث عالم دین مولانا صفی الرحمن مبارکپوری نے احادیث کے حوالے سے سیرت پر ایک بہت عمدہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام انہوں نے اس آیت سے اخذ کیا ہے۔ انہیں اس کتاب پر شاہ فیصل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ الرحیق المختوم کے نام سے یہ کتاب اردو میں ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔
10 One meaning of the words khltamu-hu misk is that the vessels containing the wine will carry the seal of musk instead of clay or wax. Accordingly the verse means: This will be the choicest kind of wine, which will be superior to the wine flowing in the canals, and it will be served by the attendants of Paradise in vessels sealed with musk to the dwellers of Paradise. Another meaning also can be: When that wine will pass down the throat, its final effect will be of the flavour of musk. This state is contrary to the wines of the world which give out an offensive smell as soon as the bottle opens and one feels its horrid smell even while drinking and also when it passes down the throat.
(83:25) یسقون من رحیق مختوم یہ جملہ بھی الابرار سے حال ہے اور ان کو پلائی جائے گی خالص شراب۔ یسقون مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ سقی (باب ضرب) مصدر سے ۔ ساقی شراب پلانے والا۔ رحیق مختوم موصوف صفت۔ رحیق شراب ناب، اسم جامد ہے وہ شراب صاف جس میں ذرا آمیزش نہ ہو اور جس کے پینے سے بےہوشی نہ ہو۔ مختوم یہ صفت ہے رحیق کی سربمہر، ختم و ختام (باب ضرب) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر جس پر مہر لگائی گئی ہو۔
ف 11 یعنی جس برتن میں وہ شراب ہوگی وہ سربمہر ہوگا جتنے لوگ اس کی مہر توڑیں گے۔
3۔ جیسے قاعدہ ہے کہ لاکھ وغیرہ لگا کر اس پر مہر کرتے ہیں اور ایسی چیز کو طین ختام کہتے ہیں۔ وہاں شراب کے منہ پر کستوری لگا کر اس پر مہر کردی جائے گی جو اس بات کی علامت ہوگی کہ ا شراب میں سے نہ تو کچھ نکالی گئی ہے اور نہ باہر کی کوئی چیز اس میں داخل کی گئی ہے۔
یسقون .................... مسک (25:83) ” ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہریں لگی ہوں گی “۔ رحیق ، خالص اور صاف شراب کو کہتے ہیں ، جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہوگی اور نہ کوئی کدورت ہوگی۔ شراب کی یہ صفت کہ وہ سر بند ہوگی اور اس کی مہر مشک سے بنی ہوئی ہوگی۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ برتنوں میں ہوگی اور یہ برتن سربند اور مہرزدہ ہوں گے اور پینے کے وقت ان کو کھولا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت اہتمام اور صفائی سے اسے تیار کیا جائے گا اور مشک سے مہر کرنا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ صاف اور خوش ذائقہ ہوگی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو ان اصطلاحات میں بتائے گئے ہیں جن کے ساتھ انسان اس دنیا میں مانوس ہے ، لیکن جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا ذوق اس دنیا کے ذوق سے آزاد ہوگا کیونکہ دنیا کا ذوق نہایت محدود ہے۔
اس کے بعد نیک بندوں کو شراب کا تذکرہ فرمایا ﴿ يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍۙ٠٠٢٥﴾ (انہیں خالص شراب میں سے پلایا جائے گا۔ وہ برتنوں میں لائی جائے گی ان پر مہر لگی ہوگی) ۔ مزید فرمایا ﴿ خِتٰمُهٗ مِسْكٌ ﴾ (یہ مہر مشک کی ہوگی) اس مشک کی مہر کی وجہ سے اس کی لذت چند در چند دوبالا ہوجائے گی، یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ جس شراب کی مہر مشک کی ہوگی اور مشک بھی وہاں کا ہوگا۔ اس شراب کی اپنی لذت اور کیفیت کا کیا عالم ہوگا۔ وہاں کی شراب میں نہ نشہ ہوگا نہ اس سے سر میں درد ہوگا۔ جیسا کہ سورة واقعہ میں فرمایا : ﴿ لَّا يُصَدَّعُوْنَ عَنْهَا وَ لَا يُنْزِفُوْنَۙ٠٠١٩﴾ (نہ اس کی وجہ سے سر میں درد ہوگا نہ عقل میں فتور آئے گا) ۔ ابھی شراب کا وصف بیان کرنا باقی ہے۔ درمیان میں اہل ایمان کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿ وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَؕ٠٠٢٦﴾ (اور حرص کرنے والوں کو اسی میں حرص کرنا چاہیے) ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا والے دنیا کی مرغوبات اور لذیذ چیزوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ان چیزوں کو حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔ ان چیزوں میں دنیا کی شراب بھی ہے جس کے پینے سے نشہ آتا ہے جو وجود سے عدم میں لے جاتا ہے اور اس کے گھونٹ بھی مشکل سے اترتے ہیں اور منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے۔ جہالت کی وجہ سے لوگ اسی میں دل دیئے بیٹھے ہیں۔ وہ تو کوئی چیز رغبت کی ہے ہی نہیں جس میں رغبت اور منافست کی جائے دنیا کی شراب پی کر گناہگار نہ ہوں اور آخرت کی شراب سے محروم نہ ہوں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں یہ لوگ داخل نہ ہوں گے : 1 شراب پینے کی عادت والا۔ 2 قطع رحمی کرنے والا۔ 3 جادو کی تصدیق کرنے والا۔