Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 36

سورة المطففين

ہَلۡ ثُوِّبَ الۡکُفَّارُ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳۶﴾٪  8

Have the disbelievers [not] been rewarded [this Day] for what they used to do?

کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پا لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Are not the disbelievers paid for what they used to do, meaning, `will the disbelievers be recompensed for their mockery and belittlement against the believers, or not' This means that they surely will be paid in full, completely and perfectly (for their behavior). This is the end of the Tafsir of Surah Al-Mutaffifin, and all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 کافروں کو، جو کچھ وہ کرتے تھے، اس کا بدلہ دے دیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] کفار مکہ مسلمانوں سے ایسی بدسلوکی اپنے دین کی حمایت میں ایک اچھا کام یعنی کار ثواب سمجھ کر کرتے تھے۔ قیامت کے دن ان کافروں کو ان کے اس کار ثواب کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا جب یہی خستہ حال مومن جنت میں اونچی مسندوں پر براجمان ہوں گے اور وہیں سے ان کافروں کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ ان کا مضحکہ اڑا... ئیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ بتاؤ احمق دیوانے اور گمراہ تم تھے یا ہم ؟   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ھل ثوب…:) کافر جو جو کچھ کرتے تھے جہنم میں انہیں ہر چیز کا بدلا مل گیا، ایک مسلمانوں سے مذاق رہ گیا تھا، آج مسلمانوں کے ان سے جوابی مذاق کے ساتھ وہ بدلا بھی پورا ہوگیا ۔ “ ھل ثوب الکفار “ میں سوال بھی کافروں کو ذلیل کرنے کے لئے ہے، پوچھنے کے لئے نہیں۔ ان آیات سے ملتی جلتی آیات کے لئے دیکھیے سورة مو... منوں کی آیات (١٠٨ تا ١١١)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۝ ٣٦ ۧ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أ... َوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ ثوب أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] ( ث و ب ) ثوب کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر/ 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 There is a subtle satire in this sentence. In the world, the disbelievers used to persecute the believers, thinking it was an act of virtue. In the Hereafter, the believers will be enjoying life in Paradise, and watching the disbelievers being punished in Hell, will say to themselves what a reward they have earned for their acts of virtue!

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :15 اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ۔ چونکہ وہ کفار ثواب سمجھ کر مومنوں کو تنگ کرتے تھے ، اس لیے فرمایا گیا کہ آخرت میں مومن جنت میں مزے سے بیٹھے ہوئے جہنم میں جلنے والے ان کا فروں کا حال دیکھیں گے اور اپنے دلوں میں کہیں گے کہ خوب ثواب انہیں ان کے اعمال کا مل گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:36) ہل ثوب الکفار ما کانوا یفعلون : ہل حرف استفہامیہ ثوب ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب تطویب (تفعیل) مصدر سے بدلہ دیا گیا۔ تثویب کا استعمال قرآن مجید میں برے اعمال کی جزاء ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ثواب۔ انعام ، جزائ، بدلہ، ثواب۔ ثوب (مادہ) سے مشتق ہے۔ انسان کے اعمال کی جزا کو ثواب کہا جات... ا ہے۔ لغوی حیثیت سے گو ثواب کا استعمال اچھے اور برے اعمال دونوں کی جزاء کے لئے ہوتا ہے لیکن عرف میں زیادہ تر یہ نیک اعمال کی جزاء کے لئے مستعمل ہے۔ اور باب تفعیل سے برے اعمال کی جزاء کے لئے آیا ہے۔ ما موصولہ۔ کانوا یفعلون اس کا صلہ۔ جو فعل وہ کیا کرتے تھے۔ ہل (استفہامیہ) کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ (1) یہ استفہام تقریری ہے یعنی کافروں کو اسی استہزاء کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ دنیا میں کرتے تھے۔ (تفسیر مظہری) (2) اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے چونکہ وہ کفار کار ثواب سمجھ کر مومنوں کو تنگ کرتے تھے اس لئے فرمایا گیا کہ آخرت میں مومن جنت میں مزے سے بیٹھے ہوئے جہنم میں جلنے والے ان کافروں کا حال دیکھیں گے اور اپنے دلوں میں کہیں گے کہ خوب ثواب انہیں ان کے اعمال کامل گیا۔ (تفہیم القرآن) (3) ہل یہاں سوالیہ نہیں مؤکدہ ہے قد کے معنی میں آیا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ واقعی کافروں کا ان کے کرتوتوں کا خوب بدلہ مل کر رہا۔ (تفسیر ماجدی) (4) یہ سوالیہ ہے جواب محذوف ہے ای ہل جوزی الکفار بما کانوا یفعلون من الکفر والشر والفساد۔ کیا کفار کو جو وہ کفر و شر اور فساد کے کام کیا کرتے تھے ان کی جزاء مل گئی۔ والجواب نعم۔ نعم : نعم۔ جواب ہوگا ہاں۔ ہاں۔ ہاں۔ (السیر التفاسیر)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی جو ندیا میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ اب اس کا مزا چکھا کہ نہیں ؟ بدبخت لوگ اگر پہلے ہی سمجھ جاتے تو آج اس انجام بد سے دوچار تو نہ ہوتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایک بار پھر قرآن نہایت سنجیدہ مزاح کرتا ہے۔ ھل ثوب .................... یفعلون (32:83) ” مل گیا نا کافروں کو ان حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے “۔ ہاں کیا ان کو بدلہ مل گیا ؟ وہ جو کچھ کرتے تھے اس کا ثواب مل گیا ؟ ان کو ثواب تو نہ ملا تھا۔ لفظ ثواب کا مفہوم تو حسن جزا ہے اور ان کو ہم ابھی جہنم می... ں چھوڑ کر آئے ہیں ، اور انہوں نے اپنے کیے کی سزا پالی ہے۔ تو یہ سزا گویا ان کے لئے ثواب ہے۔ لفظ ثوب استعمال کرکے قرآن کریم نے ان کے ساتھ ایسا مذاق کیا جس کی چبھن وہ دل کی گہرائی میں محسوس کرتے ہیں۔ اب ہم اس منظر کے سامنے قدرے کھڑے ہوتے ہیں ، جس کے مناظر حرکت سے بھرپور ہیں۔ یہ ان لوگوں کا منظر ہے جنہوں نے اس دنیا میں مسلمانوں اور تحریک اسلامی کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ اس سے قبل ابرار اور نیک لوگوں کی جزا کے بیان میں قرآن کریم نے قدرے طوالت سے کام لیا تھا ، اور ان کی عیش و عشرت کے مناظر میں طوالت سے کام لیا تھا۔ یہ طویل بیان اور تفصیلات تاثیر کے لحاظ سے اعلیٰ خوبیوں کا مالک تھا ، اور شعور اور نفسیاتی لحاظ سے مکہ کے مشکل حالات میں کام کرنے والے مسلمانوں کے لئے بہترین تسلی تھی۔ مکہ میں یہ مٹھی بھر مسلمان سخت مشکلات سے دوچار تھے۔ ان کو اذیت دی جارہی تھی اور ان پر قسم قسم کے تشدد ہورہے تھے اور ان باتوں کا ان پر بہرحال گہرا اثر ہوتا تھا۔ ان کی ضرورت تھی کہ ان کی ڈھارس بندھائی جائے اور ان کے حوصلوں کو بلند رکھا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کو جو اذیت دی جارہی تھی۔ اس کی یہ تفصیلات مسلمانوں کے لئے اہم تھی۔ ایک گونہ تسلی تھی کہ ان کا رب بہرحال دیکھ رہا ہے اور وہ ان تکالیف کو یونہی نہ چھوڑ دے گا۔ اگرچہ وقتی طور پر کافروں کو مہلت دی جارہی تھی اور یہ تصور کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اہل ایمان کے دلوں کی تسلی کے لئے کافی تھا ، اس سے اہل ایمان کے رحم مند مل ہوجاتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے کہ اہل ایمان کے ساتھ مزاح کرنے والے کس طرح مزاح کررہے ہیں اور اہل مکہ ان کو کیا کیا اذیتیں دے رہے ہیں۔ اور ان کے آلام اور ان کی تکالیف سے کس طرح وہ لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ کمینے کس طرح گھٹیا پن کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ان کو کوئی شرم بھی نہیں آتی لیکن اہل ایمان کا رب یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور قرآن میں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کررہا ہے۔ اس لئے کہ یہ صورت حالات اللہ کے ہاں اس قابل ہے کہ اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ریکارڈ کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اہل ایمان کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوگیا تو ان کے تمام غم اور آلام دور ہوگئے۔ تمام رنج والم ختم ہوگئے۔ پھر ان کا رب ان مجرموں کے ساتھ ایک سنجیدہ مذاق کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ جری مجرم اس مزاح کو محسوس نہ کریں کیونکہ ان کو فطرت مسخ ہوچکی ہے اور ان کے قلوب ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے زنگ آلود ہوچکے ہیں بلکہ سیاہ چکے ہیں لیکن اہل ایمان کے حساس دل اور خوف خدا سے کانپنے والے دل ، اس مزاح کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں اور یہ ان کے دکھوں اور دردوں کے لئے سکون بخش دوا ہے اور اس سے ان کی خوشی ہوتی ہے۔ یہ مومن اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ ان کے رب کے ہاں ان کا ایک مقام ہے۔ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جنتوں میں ان کے لئے نعمتیں ہیں اور عالم بالا میں ، درگاہ الٰہی میں ان کے لئے بلند مرتبہ ومقام ہے اور عزت ہے۔ پھر وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کے دشمنوں کا آخرت میں کیا حال ہے ؟ اور اللہ کے ہاں وہ ذلیل و خوار ہیں۔ بےوقعت ہیں اور ان مناظر قیامت میں ان کے لئے کیسا توہین آمیز عذاب ہے۔ یہ مناظر وہ دیکھتے ہیں اور ان سے وہ یہ یقین حاصل کرتے ہیں کہ قیامت میں ان کی حالت کیا ہوگی۔ اس وقت مسلمان قلیل تھے ، ان پر تشدد ہورہا تھا ، وہ کمزور تھے ، ان کے ساتھ مزاح ہورہا تھا اور وہ قلت تعداد کی وجہ سے اور کمزوری کے سبب ہر قسم کے مصائب جھیل رہے تھے ، چناچہ ان مناظر کے تاثرات اور یقین سے ان کی یہ تمام تلخیاں کم ہوجاتی تھیں اور دکھ اور درد کم ہوجاتے تھے۔ ان حالات اور مناظر اور ان کے نتیجے میں حاصل ہونے والے یقین کی وجہ سے بعض اہل ایمان ان تلخیوں میں بھی شیرینی محسوس کرتے اور وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کو وہ دنیا ہی میں حقیقتاً دیکھ رہے ہیں ، جن کا ان آیات میں ذکر ہے۔ لیکن سیرت صحابہ (رض) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ جس قدر اذیتیں جھیل رہے تھے اور جس قدر مجرمین ان پر تشدد کررہے تھے اور ان کے ساتھ گھٹیا مزاح کرتے تھے ان سب مشکلات کو وہ صرف ایک ہی نصب العین کے لئے برداشت کررہے تھے کہ ان کو جنت ملے گی اور ان کے مخالف کافروں کو جہنم ملے گی۔ اور اس دنیا میں ان دو گروہوں کے جو حالات ہیں وہ آخرت میں یکسر بدل جائیں گے۔ یہی وہ بات ہے جس کا اہل ایمان کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعدہ فرمایا تھا ، جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور جس راہ وہ اپنے مال اور اپنی جان کھپا رہے تھے۔ رہی یہ بات کہ اس دنیا میں بھی تمہیں غلبہ نصیب ہوگا۔ اور تم ملکوں کو فتح کرلوگے تو اس کا تذکرہ قرآن مجید میں مکی دور میں بہت ہی کم ملتا ہے۔ یعنی اس غرض کے لئے کہ اہل ایمان کو اس سے تسلی دی جائے اور ان کے حوصلے بڑھانے چاہئیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مکہ میں قرآن مجید ایسے افراد تیار کررہا تھا جو وہ اس امانت اور اس نظریہ کی ذمہ داریوں کے اٹھانے کے قابل ہوجائیں اور یہ افراد اس قدر مضبوط ، اس قدر قوی ، اس قدر مخلص اور اس قدر باکردار ہوں کہ وہ اس دنیا کے تمام مفادات کو اس راہ میں قربان کردیں۔ اور ان کے پیش نظر صرف آخرت کی کامیابی ہو اور صرف اللہ کی رضامندی کے وہ طالب ہوں ایسے لوگ جو اس دنیا میں گزرنے والی پوری زندگی کو مصیبت اور مشقت میں کاٹنے کے لئے تیار ہوں۔ تشدد اور ظلم برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں ، ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوں اور اس جہاں میں وہ کسی اجر کے طالب نہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس جہاں میں اسلامی انقلاب اور اسلام کے غلبے کے طلبگار بھی نہ ہوں ، اور ان کے دلوں میں یہ خواہش بھی نہ ہو کہ وہ برسراقتدار آجائیں ، قرآن کے پیش نظر ایک ایسی مخلص جماعت کی تیاری تھی۔ اور جب ایک ایسی جماعت تیار ہوگئی جس کے پیش نظر اس دنیا کے مختصر سفر کے اغراض ومقاصد میں سے کوئی مقصد نہ تھا ، الایہ کہ کوئی بات بغیر خواہش کے مل جائے اور ان کا نصب العین صرف جزائے اخروی کا حصول تھا ، اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ حق و باطل کا اصل فیصلہ آخرت میں ہوگا ، جب ایسی جماعت تیار ہوگئی اور اللہ نے جان لیا کہ یہ جماعت سچی ہے اور اس کی نیت خالص ہے اور اس نے جس مقصد کے لئے بیعت کی تھی ، اسے سچ کر دکھایا تو پھر اس دنیا میں بھی اس کی نصرت کے لئے اللہ کی مدد آگئی۔ اور یہ نصرت بھی اس لئے آئی تاکہ وہ دعوت اسلامی کی امانت کا حق ادا کرے ، اسلامی نظام حیات کا حق ادا کرے ، نہ ایسی جماعت کے ساتھ دنیا کے مفادات کا کوئی وعدہ کیا گیا تھا اور نہ اس جماعت کے دل میں دنیاوی مفاد کا کوئی تقاضا تھا کہ اسے یہ دیا جائے یا وہ ، یہ جماعت اس قدر مخلص ہوگئی تھی کہ اس کے پیش نظر رضائے الٰہی کے سوا کوئی اور مقصد نہ تھا۔ جن آیات میں اس کرہ ارض پر کامیابیوں کا ذکر ہے۔ یہ سب مدنی آیات ہیں اور مدنی حالات اس وقت پیدا ہوئے جب اہل ایمان کے دلوں میں ایسے حالات کی کوئی خواہش ہی نہ تھی نہ وہ ان کا انتظار کرتے تھے۔ یہ نصرت اس وقت آئی جب اللہ کی مشیت کا یہ تقاضا ہوا کہ اسلامی نظام حیات ایک عملی شکل میں دنیا اور زمین پر قائم ہوجائے اور اس وقت کے لوگ اور آنے والے لوگ عملاً اسلام کو دیکھ لیں۔ یہ نصرت اہل ایمان کی مشکلات ، مشقتوں اور اذیتوں اور قربانیوں پر بطور جزانہ تھی۔ بس یہ اللہ کا ایک فیصلہ تھا اور اس کی حکمت کو اب ہم سجھنے کی سعی کررہے ہیں۔ (١) (١) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سید قطب کے سامنے سید مودودی (رح) کا لٹریچر تھا ، اور ان کی یہ رائے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے تبلیغی افکار پر مبنی ہے۔ تبلیغی حضرات یہی انداز رکھتے ہیں۔ فی ظلال القرآن کا پہلا ایڈیشن چار جلدوں میں تھا۔ جب انہوں نے اس پر نظر ثانی کی تو آٹھ جلدوں میں مفصل ایڈیشن شائع ہوا۔ یہ 1966 ۔ 67 ء کا ایڈیشن تھا۔ نظرثانی شدہ ایڈیشن میں سید قطب صاحب نے سید مودودی کے افکار کو سمیٹا اور مفصل حوالے بھی دیئے ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش نظر کیا مکمل اسلامی انقلاب نظریہ تھا یا نہیں ، اس کی تفصیلات دیکھئے میری کتاب ” قرآن سیرت اور انقلاب “ جو قرآن مجید کا خلاصہ ہے اور 114 سورتوں کا خلاصہ ترتیب نزولی کے مطابق ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو بھی نہایت ہی احتیاط کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ جب صرف تین افراد مسلمان تھے ، حضرت اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت علی (رض) تو اس وقت بھی حضور نے قیصر کسریٰ کو فتح کرنے کی بات کی تھی۔ (شیرازی)  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) واقعی کافروں کو ان کے کئے خوب پاداش اور بدلا ملا یعنی جو کچھ کیا کرتی تھے کافروں نے اس کا خوب بدلا پایا۔ مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے۔ ھل جوزی الکفار مایفعلونہ یالمومینن کہ جو کچھ کفار مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اس کا بدلہ انہوں نے پالیا ہے۔ تم تفسیر سو رہ المطففین