Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 10

سورة الانشقاق

وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ﴿ۙ۱۰﴾

But as for he who is given his record behind his back,

ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But whosoever is given his Record behind his back, meaning, he will be given his Book in his left hand, behind his back, while his hand is bent behind him. فَسَوْفَ يَدْعُو ثُبُورًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] سورة الحاقہ میں فرمایا کہ اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہاں یہ فرمایا کہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں اور ان میں تطبیق کی صورت یہ ہوگی کہ بدبختوں کو یہ تو پہلے ہی معلوم ہوگا کہ انہیں ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جانے والا ہے اس لیے کہ انہیں اپنے کرتوتوں کا پورا علم ہوگا لہذا وہ اپنا بایاں ہاتھ پیٹھ کے پیچھے کرلیں گے۔ تاکہ اعمال نامہ پکڑتے وقت کم از کم سامنے والے لوگوں کے سامنے ان کی رسوائی نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(واما من اوتی کتبہ…: یہاں پیٹھ کیپ یچھے اعمال نامے ملنے کا ذکر ہے اور سورة حاقہ (٢٥) میں بائیں ہاتھ میں، غور کریں تو صاف سمجھ میں آرہا ہے کہ ان مجرموں کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہوں گے، جہاں انہیں بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ وَرَاۗءَ ظَہْرِہٖ۝ ١٠ ۙ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی وراء ( وَرَاءُ ) إذا قيل : وَرَاءُ زيدٍ كذا، فإنه يقال لمن خلفه . نحو قوله تعالی: وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] ، ( و ر ی ) واریت الورآء کے معنی خلف یعنی پچھلی جانب کے ہیں مثلا جو زہد کے پیچھے یا بعد میں آئے اس کے متعلق ورآء زید کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ وَراءِ إِسْحاقَ يَعْقُوبَ [هود/ 71] اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوش خبری دی ۔ ظهر الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] ( ظ ھ ر ) الظھر کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق/ 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١٣) اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں ملے گا مثلا اسود بن عبدالاسد سو وہ موت کو پکارے گا اور جہنم میں داخل ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ وَرَآئَ ظَہْرِہٖ ۔ } ” اور جس کو دیا جائے گا اس کا اعمالنامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے۔ “ قرآن کریم کی اکثر آیات میں ایسے لوگوں کو بائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جانے کا ذکر ہے۔ اس سیاق وسباق میں یہاں وَرَآئَ ظَہْرِہٖ کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ فرشتہ ایک مجرم شخص کو جب اس کا اعمالنامہ پکڑانے لگے گا تو وہ اس سے بچنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے چھپالے گا۔ چناچہ اسی حالت میں اعمالنامہ پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں تھما دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 In Surah Al Haaqqah: 25, it was said that his record will be given him in his left hand but here "behind his back. ! This will probably be for the reason that he would already have lost aII hope that he would be given his record in his right hand, for he would be well aware of his misdeeds and sure to receive his record in his left hand. However, in order to avoid the humiliation of receiving it iu the left hand, in front of all mankind, he will withdraw his hand behind and so would receive it 'behind his back."

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :8 سورۃ الحاقۃ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا ۔ غالباً اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ شخص اس بات سے تو پہلے ہی مایوس ہو گا کہ اسے دا ئیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملے گا ، کیونکہ اپنے کرتوتوں سے وہ خوب واقف ہو گا اور اسے یقین ہو گا کہ مجھے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ملنے والا ہے ۔ البتہ ساری خلقت کے سامنے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال لیتے ہوئے اسے خفت محسوس ہو گی ، اس لیے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لے گا ۔ مگر اس تدبیر سے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ اپنا کچا چٹھا اپنے ہاتھ میں لینے سے بچ جائے ۔ وہ تو بہرحال اسے پکڑایا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر لے یا پیٹھ کے پیچھے چھپا لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: سورۃ الحاقہ (۶۹:۲۵) میں فرمایا گیا ہے کہ بُرے لوگوں کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ میں بھی پیچھے کی طرف سے دیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:10) وراء ظھور۔ ظھرہ مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف ہے ورآء مضاف الیہ کا۔ اس کی پشت کے پیچھے سے۔ ورآء مصدر ہے لیکن اس کا معنی ہے آڑ، حد فاصل۔ کسی چیز کا آگے ہونا پیچھے ہونا۔ چاروں طرف ہونا۔ سوا۔ علاوہ۔ فصل اور حد بندی پر دلالت کرتا ہے اس لئے سب معنی میں مستعمل ہے۔ ظھر بمعنی پشت۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے واما من اوتی کتبہ بشمالہ (69:25) اور جسے اس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ اس کی تشریح میں علامہ بیہقی نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ پشت کے پیچھے کردیا جائے گا۔ اور اعمال نامہ کو وہ بائیں ہاتھ سے لے گا۔ واما من اوتی کتبہ ورآء ظھرہ جملہ شرط ہے اور اگلا جملہ اس کا جواب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 17 یہ انتہائی کراہت کا اظہار ہے گویا فرشتے اس کی صورت دیکھنا پسند کریں گے۔ اس لئے اس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں تھمائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مراد اس سے کفار ہیں اور پشت کی طرف سے ملنے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں گی تو بایاں ہاتھ بھی پشت کی طرف ہوگا۔ دوسری صورت مجاہد کا قول ہے کہ اس کا ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جائے گا۔ کذا فی الدر المنثور۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واما من .................................... سعیرا (10:84 تا 12) رہے وہ لوگجن کا نامہ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ ایسے مناظر کی تصویر کشی اس سے قبل قرآن کریم میں اس طرح کی گئی ہے کہ کامیاب ہونے والوں کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اور اہل جہنم کا بائیں ہاتھ میں۔ لیکن یہاں کی تصویر ذرا مختلف ہے۔ یہاں تصویر میں نظر یوں آتا ہے کہ اہل جہنم کو ان کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ لہٰذا تصویر میں کوئی تضاد نہیں ہے بائیں ہاتھ میں پیچھے سے دیا جارہا ہے۔ یہ ایسے شخص کی تصویر ہے جو نامہ اعمال نہیں لینا چاہتا ہے ، وہ سامنا نہیں کرسکتا ، سخت پریشان وگریزاں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ اعمال نامے ، دائیں ہاتھ میں دیئے جانے اور بائیں ہاتھ میں دیئے جانے کی کیفیات سے واقف نہیں ہیں ۔ ہم صرف یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے لوگ نجات پانے والے ہیں اور جنت میں جائیں گے اور دوسرے لوگ ناکام ونامراد ہونے والے ہیں اور جہنم میں جائیں گے اور ہلاک ہوں گے۔ اصل مقصود یہی بات ہے نہ یہ کہ کیفیت کیسی ہوگی۔ اور قرآن کریم نے جو شکل و صورت بیان کی ہے اس سے بہرحال انسان پر گہرے اثرات پڑے ہیں۔ اور انسان خوف کے مارے کانپ اٹھتا ہے۔ حقیقت احوال اللہ ہی کے علم میں ہے کہ یہ مراحل کس طرح طے ہوں گے۔ یہ بدبخت جس نے زمین پر بھی اپنی زندگی ان تھک جدوجہد میں گزاری اور تھک تھکا کر اللہ کے سامنے پہنچا لیکن معصیت اور نافرمانی میں اوبا ہوا ، گناہوں کے بوجھ سے لدا پھندا۔ اب یہاں آکر اپنے انجام کو جان لیتا ہے۔ انجام بد سے دوچار ہوتا ہے۔ اب جانتا ہے کہ اب تو اس کی نہ ختم ہونے والی مشقت شروع ہوگئی ، تو یہ بدبخت اب موت کو پکارتا ہے ، موت دائمی موت اور فنا کی استدعا کرتا ہے تاکہ وہ اس بدبختی سے بچ جائے جو سا پر آنے ہی والی ہے۔ یاد رہے کہ انسان موت کی آغوش میں پناہ اس وقت لیتا ہے جب وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور راہ نجات نہیں ہے۔ نہ کوئی جائے فرار ہے تو اس وقت موت اس کی آخری تمنا ہوتی ہے ، یہ مفہوم متنبی نے اس شعر میں سمودیا ہے۔ کفی بک داء ان تری الموت شافیا وحسب المنایا ان یکن امانیا ” اس سے بڑی اور کیا ہوگی کہ تم موت کو شفا سمجھنے لگو اور یہ مشقت کافی ہے کہ موت آرزو بن جائے ( اور آئے نہیں) “۔ لہٰذا اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوگی ، اور اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہوگی کہ وہ ویصلی سعیرا (12:84) ” اور بڑھکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا “۔ اور یہ شخص اب موت کی تمنا کرے گا جو کبھی پوری نہ ہوگی .... اب ذرا ایک جھلک اس شخص کے ماضی کی یہاں دکھادی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ اس انجام تک پہنچا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور جس شخص کو اس کا نامہ اعمال اور لکھا اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا یعنی بائیں ہاتھ میں مگر پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا۔ سینے کو چیر کر بائیں ہاتھ کو باہر نکال دیا جائے گا یا مشکیں بندھی ہوئی ہوں گی اور دونوں ہاتھ پیچھے ہوں گے اس لئے پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔