Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 14

سورة الانشقاق

اِنَّہٗ ظَنَّ اَنۡ لَّنۡ یَّحُوۡرَ ﴿۱۴﴾ۚ ۛ

Indeed, he had thought he would never return [to Allah ].

اس کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہ جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, he thought that he would never return! meaning, he used to believe that he would not return to Allah, nor would Allah bring him back (to life) after his death. This was said by Ibn Abbas, Qatadah and others. Allah then says, بَلَى إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] حار کا لغوی مفہوم :۔ یَحُوْر : حار بمعنی گھوم پھر کر اسی جگہ واپس آجانا جہاں سے چلا تھا۔ گویا اس لفظ کے معنی میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (١) گھومنا (٢) رجوع & کہتے ہیں۔ حار الماء فی الغدیر یعنی پانی حوض میں گھومنے لگا اور محور اس ڈنڈے کو کہتے ہیں جس کے گرد چرخی گھومتی ہے۔ یعن... ی اسے یہ خیال تک نہیں تھا کہ دنیا کے ان مختلف اقسام کے دھندوں کے بعد بالآخر مجھے اپنے پروردگار کے پاس ہی پہنچنا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

انہ ظن ان لن یحور…:” حار یحور حوراً “ (ن) لوٹنا۔ پیٹھ کے پیچھے اعمال نامہ ان لوگوں ملے گا جن کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے اور نہ کوئی حساب کتاب ہوگا۔ فرمایا، کیوں نہیں ! یقیناً تمہارا حساب ضرور ہونا تھا، تمہارا رب تمہارے اعمال و اقوال اور احوال سب کچھ خوب دیکھ رہا تھا اور تمہارا اعمال ن... امہ بھی تیار کروا رہا تھا، مگر اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت تمہیں مہلت دے رکھی تھی، اب وہ مہلت ختم ہوگئی، اب اپنے انکار اور بےفکری کا نتیجہ بھگتو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ۝ ١٤ ۚ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت...  کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ حور الحَوْرُ : التّردّد إمّا بالذّات، وإمّا بالفکر، وقوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] ، أي : لن يبعث، وذلک نحو قوله : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] ، وحَارَ الماء في الغدیر : تردّد فيه، وحَارَ في أمره : تحيّر، ومنه : المِحْوَر للعود الذي تجري عليه البکرة لتردّده، وبهذا النّظر قيل : سير السّواني أبدا لا ينقطع «1» ، والسواني جمع سانية، وهي ما يستقی عليه من بعیر أو ثور، ومَحَارَة الأذن لظاهره المنقعر، تشبيها بمحارة الماء لتردّد الهواء بالصّوت فيه کتردّد الماء في المحارة، والقوم في حَوْرٍ أي : في تردّد إلى نقصان، وقوله : «نعوذ بالله من الحور بعد الکور» أي : من التّردّد في الأمر بعد المضيّ فيه، أو من نقصان وتردّد في الحال بعد الزّيادة فيها، وقیل : حار بعد ما کار . والمُحاوَرَةُ والحِوَار : المرادّة في الکلام، ومنه التَّحَاوُر، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] ، وكلّمته فما رجع إليّ حَوَاراً ، أو حَوِيراً أو مَحُورَةً أي : جوابا، وما يعيش بأحور، أي بعقل يحور إليه، وقوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] ، جمع أَحْوَرَ وحَوْرَاء، والحَوَر قيل : ظهور قلیل من البیاض في العین من بين السّواد، وأَحْوَرَتْ عينه، وذلک نهاية الحسن من العین، وقیل : حَوَّرْتُ الشّيء : بيّضته ودوّرته، ومنه : الخبز الحُوَّارَى، والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل : کانوا قصّارین وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] . ( ح و ر ) الحور ( ن ) کے اصل معنی پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات کے ہو یا بلحاظ فکر کے اور آیت کریمہ ؛إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] اور خیال کر تھا کہ ( خدا کی طرف ) پھر کر نہیں آئے گا ۔ لن یحور ( سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا مرا د ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاو گے ۔ حار الماء فی الغدید پانی کا خوض میں گھومنا ۔ حارفی امرہ کسی معاملہ میں متحری ہونا ۔ اسی سے محور ہے ۔ یعنی وہ لکڑی جس پر چرخی گھومتی ہے اور گھومنے کے معنی کے لحاظ سے کہاجاتا ہے ۔ سیر السوانی ابدا لا ینقطع کہ پانی کھیننچے والے اونٹ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ۔ محارۃ الاذن کان کا گڑھا ۔ یہ محارۃ الماء کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس میں آواز سے ہو اس طرح چکر کاٹتی ہے ۔ جیسے گڑھے میں پانی گھومتا ہے ۔ القوم فی حوار یعنی زیادتی کے بعد نقصان کیطرف لوٹ رہے ہیں حدیث میں ہے :۔ (101) نعوذ باللہ من الحور بعد الکور ہم زیادتی کے بعد کمی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یا کسی کام کا عزم کرلینے کے بعد اس میں تردد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اسہ طرح کہا جاتا ہے ( مثل) حار بعد ماکار زیادہ ہونے کے بعد کم ہوگیا ۔ المحاورۃ رالحوار ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا اسی سے تحاور ( تبادلہ گفتگو ) ہے قرآن میں ہے ۔ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ کلمتہ فما رجع الی حوار احویرا ومحورۃ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مایعیش باحور وہ عقلمند سے زندگی بسر نہیں کر رہا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں مستور ہیں ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ میں حور ، احور اور حواراء کی جمع ہے ۔ اور حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی بقول بعض آنکھ کی ساہی میں تھوڑی سی سفیدی ظاہر ہونے کے ہیں ۔ کہا جتا ہے ۔ احورث عینہ یعنی اس کی آنکھ بہت سیاہی اور سفیدی والی ہے ۔ اور یہ آنکھ کا انتہائی حسن سمجھاجاتا ہے جو اس سے مقصود ہوسکتا ہے حورت الشئی کسی چیز کو گھمانا ۔ سفید کرنا ( کپڑے کا ) اسی سے الخبز الحوار ہے جس کے معنی امید سے کی روٹی کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤۔ ١٥) اس نے خیال کر رکھا تھا کہ آخرت میں اللہ کی طرف لوٹنا نہیں، کیوں نہ ہوتا اس کا رب اس کی پیدائش کے دن سے، اسے خوب دیکھتا تھا کہ اس کو مرنے کے بعد ہمارے پاس آنا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:14) انہ ظن ان لن یحور۔ تحقیق اس نے سمجھ رکھا تھا کہ اس نے کبھی پلٹ کر جانا ہی نہیں ہے۔ ظن : ظن (باب نصر) مصدر سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اس نے خیال کیا۔ اس نے سمجھا۔ اس نے گمان کیا۔ ان مصدریہ لن یحور مضارع منفی تاکید بلن واحد مذکر غائب حور (باب نصر) مصدر سے بمعنی پلٹنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اپنے اعمال کی کسی باز پرس کا اندیشہ نہ تھا، اس لئے جو دل میں آتا کرتا تھا۔” حور “ کے لفظی معنی پلٹنے کے بھی ہیں اور کایا پلٹ ہونے کے بھی اس لئے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سمجھتا تھا کہ اسے جو دولت اور خوشحالی حاصل ہے، وہ کبھی کم نہ ہوگی اور اسے کبھی غریبی و بدحالی کا منہ نہ دیکھنا پڑے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہ کان ........................ یحور (14:84) ” وہ اپنے گھر والوں میں مگن تھا۔ اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے “۔ یہ حالت تو اس کی دنیا میں تھی اور وہ تو چلی گئی۔ آج تو قرآن ہمیں قیامت کے میدان میں لے گیا ہے اور دنیا تو بیت گئی ہے اور یہاں حساب و کتاب ہورہا ہے اور قرآن انداز نے زمان ومکان ... کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ انہ طن .................... یحور (14:84) ” اس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں ہے “۔ رب کی طرف پلٹ کر نہیں جانا ہے۔ اگر اس نے یہ سمجھا ہوتا کہ اللہ کے سامنے جانا ہے تو یہ اس حاضری کے لئے تو تیاری کرتا اور آخرت کو کچھ تو اہمیت دیتا لیکن اس کو یقین نہ تھا بلکہ ظن یہ تھا کہ قیامت ہی نہیں ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ پلٹ کر نہیں جائے گا۔