Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 3

سورة الانشقاق

وَ اِذَا الۡاَرۡضُ مُدَّتۡ ۙ﴿۳﴾

And when the earth has been extended

اور جب زمین ( کھینچ کر ) پھیلا دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when the earth is stretched forth, meaning, when the earth is expanded, spread out and extended. Then He says, وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی اس کے طول و عرض میں مزید وسعت کردی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس پر جو پہاڑ وغیرہ ہیں، سب کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کر کے بچھایا جائے گا۔ اس میں میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] زمین کو کھینچ کر لمبا کرنے کا مفہوم :۔ مُدَّتْ ۔ مَدَّ بمعنی کسی چیز کو لمبائی میں کھینچ کر پھیلانا اور اسے لمبا کردینا۔ جیسے اللہ تعالیٰ سایوں کو یا بادلوں کو لمبا کرتا اور پھیلا دیتا ہے واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ زمین کو کھینچ کر چپٹی بنادے گا۔ زمین کو اللہ نے پہلے ہی پھیلا دیا اور لمبا کردیا ہے۔ اس دن صرف یہ ہوگا کہ سارے سمندر خشک کرکے زمین میں شامل کردیے جائیں گے جس سے زمین کا رقبہ چار گنا ہوجائے گا پھر پہاڑوں کو زمین بوس کردیا جائے گا اس کی اونچی اور نیچی سب جگہیں برابر کردی جائیں گی۔ اس طرح اسی زمین کا رقبہ اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسی زمین پر سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں اور قیامت تک جنوں کی تمام نسل کو یکجا اکٹھا کردیا جائے گا۔ یہی زمین میدان محشر بن جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ میدان محشر کے لیے اللہ اس زمین کے علاوہ کوئی دوسری زمین پیدا کردے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت ( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48 ۔ ) 14 ۔ ابراھیم :48) سے معلوم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واذا الارض مدت :” مدت “” مدیمد “ (ن) کھینچنا، پھیلانا، یعنی جس طرح چمڑے کو کھینچا جائے تو اس کی اونچ نیچ اور تمام شکنیں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ طول و عرض میں پھیل جاتا ہے، اسی طرح زمین سے پہاڑ، سمندر اور ہر قسم کی بلندی و پستی ختم ہوجائے گی، جس سے وہ ہموار ہو کر پھیل جائے گی اور اس میں آدمیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش بہت زیادہ ہوجائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (and when the earth will be stretched [ to give room to more people ]...84:3) The word madda means &to stretch, spread, expand out&. Sayyidna Jabir ibn ` Abdullah (رض) narrates that the Holy Prophet said that on the Day of Judgment the earth will be stretched out like leather (or rubber) and expanded into a smooth plain, and there will be just enough space on it for all individuals of human race to keep their feet. To understand this tradition, it is necessary to keep in mind that on the Day of Resurrection all individuals who will have been born from the inception of creation till resurrection will be brought back to life simultaneously. Thus each individual will have just enough space on the earth where he could place his feet. [ Transmitted by Hakim with a good chain of authorities - Mazhari ].

واذا الارض مدت، مد کے معنے کھینچنے اور دراز کرنے کے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز زمین کو اس طرح کھینچ کر پھیلایا جائے گا جیسے چمڑے (یا ربڑ) کے کھینچ کر بڑا کردیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود میدان حشر جو اس زمین پر ہوگا اس میں ابتداء دنیا سے قیامت تک کہ تمام انسان جمع ہوں گے تو صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی کے حصہ میں صرف اتنی زمین ہوگی جس پر اس کے پاؤں ہیں (رواہ الحاکم بسند جید، مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ۝ ٣ ۙ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٥) اور جب زمین کھینچ کر بڑھا دی جائے گی، یا یہ کہ اپنے اماکن سے علیحدہ کر کے برابر کردی جائے گی اور وہ مردوں اور خزانوں کو باہر اگل دے گی اور بالکل خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کا حکم سن لے گی اور اس پر اس کا سننا ضروری ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 "When the earth is spread out": when the oceans and rivers are filled up, the mountains are crushed to pieces and scattered away, and the earth is levelled and turned into a smooth plain. In Surah Ta Ha, the same thing has been expressed, thus: "He will turn the earth into an empty level plain, wherein you will neither see any curve nor crease." (vv 106-107) Hakim in Mustadrak has related through authentic channels on the authority of Hadrat Jabir bin 'Abdullah a saying of the Holy Prophet (upon whom be peace) to the effect: "On the Resurrection Day the earth will be flattened out and spread out like the table-cloth; then there will hardly be room on it for men to place their feet." To understand this saying one should keep in mind the fact that ou that Day aII men who will have been born from the first day of creation till Resurrection, will be resurrected simultaneously and produced in the Divine Court. For gathering together such a great multitude of the people it is inevitable that the oceans, rivers, mountains, jungles, ravines and aII high and low areas be levelled and the entire globe of the earth be turned into a vast plain so that aII individuals of human race may have room on it to stand on their feet.

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :2 زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائیں گے ، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں گے ، اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا ۔ سورہ طہ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی اسے ایک چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ پاؤ گے ۔ ( آیات106 ۔ 107 ) ۔ حاکم نے مستدرک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز زمین ایک دستر خوان کی طرح پھیلا دی جائے گی ، ۔ پھر انسانوں کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہو گی ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو روز اول آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے ، بیک وقت زندہ کر کے عدالت الہی میں پیش کیا جائے گا ۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر ، دریا ، پہاڑ ، جنگل ، گھاٹیاں اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: روایات سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ قیامت میں زمین کو ربر کی طرح کھینچ کر موجودہ سائز سے بڑا کردیا جائے گا، تاکہ اُس میں تمام اگلے پچھلے لوگ سما سکیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:3) واذا الارض مدت اس کا عطف بھی آیت نمبر 1 پر ہے مدت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب مد (باب نصر) مصدر سے ۔ وہ پھیلا دی گئی۔ وہ ہموار کردی گئی۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی ربڑ کی طرح کھینچ کر پھیلا دی جائے۔ یہاں تک کہ اس میں کوئی اونچ نیچ باقی نہ رہے اور پھر تمام اگلے اور پچھلے لوگ اس پر کھڑے ہو سکیں۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن زمین چمڑے کی طرح تان کر پھیلا دی جائے گی، پھر بھی ہر آدمی کو اس میں صرف پائوں رکھنے کی جگہ مل سکے گی (کیونکہ اگلے پچھلے تمام لوگ جمع ہوں گے۔ “ ) (فتح القدیر بحوالہ سیوطی بسید جید)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جس طرح چمڑا یا ربڑ کھینچا جاتا ہے پس زمین اپنی موجودہ مقدار سے بہت زیادہ وسیع ہوجائے گی تاکہ سب اولین و آخرین اس پر سما سکیں جیسا کہ در منثور میں بسند جید حاکم کی روایت سے مرفوعا وارد ہے، تمد الارض یوم القیامة مد الادیم الخ، پس یہ انشقاق اور یہ امتداد دونوں حساب کے مقدمات میں سے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا الارض مدت (3:84) ” اور جب زمین پھیلا دی جائے گی “۔ یہ بھی ایک جدید منظر اور مفہوم ہے۔ زمین کے پھیلنے اور اس کی لمبائی کا مفہوم کیا ہے ؟ یعنی وہ قوانین قدرت معطل ہوجائیں گے جو اس زمین کو کنٹرول کرتے ہیں اور جو اسے اس کی موجودہ شکل میں قائم رکھتے ہیں۔ یعنی موجودہ گول یا بیضوی شکل میں قائم رکھتے ہیں۔ انداز کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے اندر یہ تبدیلی باہر کے عوامل سے پیدا ہوگی کیونکہ اس کے لئے صیغہ مجہول استعمال ہوا ہے یعنی لفظ مدت۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” واذا الارض “ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی۔ قیامت کے دن زمین کی وسعت میں اضافہ کردیا جائے گا تاکہ اولین و آخرین اس میں سما سکیں۔ ” والقت ما فیہا “ زمین اپنے اندر مدفون مردوں کو باہر پھینک دے گی۔ اور اپنے پیٹ کی ہر چیز کو باہر نکال کر خالی ہوجائے گی۔ یہ بھی امر الٰہی ہوگا اور کیا مجال زمین کی کہ وہ امر الٰہی سے سرتابی کرے۔ ” اذا “ کا جواب محذوف ہے جس پر مابعد قرینہ ہے ای یلاقی الانسان ما کدح الخ “ (مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور جب زمین پھیلادی جائی گی۔