Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 4

سورة الانشقاق

وَ اَلۡقَتۡ مَا فِیۡہَا وَ تَخَلَّتۡ ۙ﴿۴﴾

And has cast out that within it and relinquished [it]

اور اس میں جو ہے اسے وہ اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And has cast out all that was in it and became empty. meaning, it throws out the dead inside of it, and it empties itself of them. This was said by Mujahid, Sa`id, and Qatadah. وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی اس میں جو مردے دفن ہیں، سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے جو خزانے اس کے بطن میں موجود ہیں وہ انہیں ظاہر کر دے گی، اور خود بالکل خالی ہوجائے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] جتنے مردے اس میں مدفون ہیں یا مردوں کے ذرات اس میں مل جل گئے ہیں وہ سب نکال کر باہر کردے گی اور سطح زمین پر لے آئے گی۔ اسی طرح اس میں جو معدنیات، تیل کے چشمے اور جلنے والی گیسوں کے خزانے موجود ہیں سب باہر اگل دے گی۔ اسی طرح لوگوں کے اعمال کی جو شہادتیں اس کے اندر موجود ہوں گی جنہیں موقعہ کی شہا... دت یا قرائن شہادت کہتے ہیں۔ وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آجائیں گی اور کوئی چیز اس میں چھپی ہوئی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(والقت مافیھا وتخلت : یعنی تمام فوت شدہ لوگوں کو حشر کے لئے باہر پھینک دے گی اور وہ خزانے اور بنی آدم کے اعمال کی شہادتیں جو اس کے بطن میں ہیں سب نکال باہر پھینکے گی۔ ” تخلت “ ” خلا یخلو “ (ن) (خالی ہونا) سے باب تفعل ہے جس میں مبالغہ ہوتا ہے، یعنی بالکل خلای ہوجائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ (and it will throw up whatever it contains, and will become empty...84:4) The earth will, with one convulsion, throw up whatever it contains in its belly, whether natural treasures or buried treasures, or mines, or dead human bodies and their remains and particles.

والقت مافیھا وتخلت، یعنی اگل دیگی زمین ہر اس چیز کو جو اس کے بطن میں ہے اور بالکل خالی ہو جاویگی زمین کے بط میں خزائن و دفائن اور معاون بھی ہیں اور ابتدائے دنیا سے مرنیوالے انسانوں کے اجسام و ذرات بھی زمین ایک زلزلہ کے ساتھ یہ سب چیزیں اپنے بطن سے باہر نکالدے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَلْقَتْ مَا فِيْہَا وَتَخَلَّتْ۝ ٤ ۙ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) ...  الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] ، تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ [ آل عمران/ 137] ، إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] ، مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] ، وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] ، وقوله : يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] ، أي : تحصل لکم مودّة أبيكم وإقباله عليكم . وخَلَا الإنسان : صار خَالِياً ، وخَلَا فلان بفلان : صار معه في خَلَاءٍ ، وخَلَا إليه : انتهى إليه في خلوة، قال تعالی: وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] ، وخلّيت فلانا : تركته في خَلَاءٍ ، ثم يقال لكلّ ترک تخلية، نحو : فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] ، وناقة خَلِيَّة : مُخْلَاة عن الحلب، وامرأة خَلِيَّة : مخلاة عن الزّوج، وقیل للسّفينة المتروکة بلا ربّان خَلِيَّة، والخَلِيُّ : من خلّاه الهمّ ، نحو المطلّقة في قول الشاعر : مطلّقة طورا وطورا تراجع والخلَاءُ : الحشیش المتروک حتّى ييبس، ويقال : خَلَيْتُ الخَلَاءَ : جززته، وخَلَيْتُ الدّابة : جززت لها، ومنه استعیر : سيف يَخْتَلِي، أي : يقطع ما يضرب به قطعه للخلا . ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] حالانکہ اس سے پہلے عذاب ( واقع ) ہوچکے ہیں ۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] یہ جماعت گزر چگی ۔ تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ۔ إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے ۔ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] تم کو پہلے لوگوں کی سی ۔ وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] پھر ابا کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ پھر تمہارے ابا کی محبت اور توجہ صرف تمہارے ہی لئے ۔ رہ جائے گی ۔ خلا الانسان ۔ تنہا ہونا ۔ خلافلان بفلان کسی کے ساتھ تنہا ہونا ۔ خلا الیہ کسی کے پاس خلوت میں پہنچنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں ۔ خلت فلانا کے اصل معنی کسی کو خالی جگہ میں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ پھر عام چھوڑ دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ فرمایا :۔ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ ناقۃ خلیۃ ۔ اونٹنی کو دودھ دوہنے سے آزاد چھوڑ دینا ۔ امراءۃ خلیۃ مطلقہ عورت جو خاوند کی طرف سے آزاد چھوڑ دی اور جو کشتی ملاحوں کے بغیر چل رہی ہو اسے بھی خلیۃ کہا جاتا ہے ۔ الخلی جو غم سے خالی ہو ۔ جیسا کہ مطلقۃ کا لفظ سکون و اطمینان کے معنی میں آجاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے ( طویل ) (146) تطلقۃ طورا طورا تراجع میں ( کسی اسے سکون ہوجاتا ہے اور کبھی وہ دو ( عود کر آتی ہے ) میں تطلقۃ کا لفظ اسی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الخلاء ۔ خشک گھاس ۔ کہاجاتا ہے :۔ خلیت الخلاء ۔ میں نے خشک گھاس کاٹی ۔ خلیت الدابۃ ۔ جانور کو خشک گھاس ڈالی ۔ سیف یختلی ۔ تیز تلوار جو گھاس کی طرح ہر چیز کو کاٹ ڈالے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤{ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ ۔ } ” اور وہ نکال باہر کرے گی جو کچھ اس کے اندر تھا اور خالی ہوجائے گی۔ “ سورة الزلزال میں یہی بات یوں بیان ہوئی ہے : { وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا ۔ } ” اور جب زمین اپنے سارے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی “۔ قیامت کے دن زمین اپنے اندر مدفون تمام ا... نسانوں کے اجسام اور ان کے تمام اجزاء کو نکال کر باہرکرے گی ۔ اس کے علاوہ بھی زمین میں جو کچھ معدنیات اور خزانے مخفی ہیں وہ قیامت کے دن نکال کر باہر پھینک دے گی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 That is, it will throw out aII dead bodies of men and also the traces and evidences of their deeds lying within it. so that nothing remains hidden and buried in it.

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :3 مطلب یہ ہے کہ جتنے مرے ہوئے انسان اس کے اندر پڑے ہوں گے سب کو نکال کر وہ باہر ڈال دے گی ، اور اسی طرح ان کے اعمال کی جو شہادتیں اس کے اندر موجود ہوں گی وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آ جائیں گی ، کوئی چیز بھی اس میں چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس سے مراد وہ مُردے ہیں جو قبروں میں مدفون ہیں کہ ان کو قبروں سے باہر نکال دیا جائے گا۔ البتہ آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لئے یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ زمین اندر جو اور چیزیں مثلاً معدُنیات وغیرہ ہیں، اُنہیں بھی باہر نکال دیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:4) والقت ما فیہا۔ یہ جملہ بھی معطوف ہے جس کا عطف سابقہ جملہ پر ہے۔ القت ماضی واحد مؤنث غائب القاء (افعال) مصدر سے جس کے معنی ڈالنا۔ نکال ڈالنا۔ دونوں کے ہیں۔ ما موصولہ فیہا۔ اس کا صلہ موصول اور صلہ مل کر مفعول انشقت کا۔ اور وہ (زمین) نکال پھینکے گی جو کچھ اس میں ہے (از قسم مردہ انسان ، حیوان،...  جن ، دفینے، خزانے وغیرہ۔ جیسا کہ اور جگہ ہے واخرجت الارض اثقالہا (99:2) جب زمین اپنے بوجھ۔ یعنی دفینے وغیرہ نکال پھینکے گی۔ وتخلت : اس کا عطف والقت پر ہے۔ تخلت ماضی واحد مؤنث غائب تخلی (تفعل) مصدر سے بمعنی خالی ہونا۔ تفعل کے وزن پر فعل میں تکلف کی خاصیت پائی جاتی ہے لہٰذا ترجم ہوگا :۔ اور (زمین) بہ تکلف (اپنی اپنی کوشش سے) اپنے مافیہا سے خالی ہوجائے گی (کہ کوئی چیز اندر نہ رہ جائے)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والقت ............................ وتخلت (4:84) ” جو کچھ اس کے اندر ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی “۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے کہ یہ زمنی گویا ایک زندہ اور صاحب ارادہ چیز ہے ، اور یہ وہ اپنے اندر کی چیزوں کو باہر پھینک کر خالی ہورہی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر بہت کچھ ہے۔ مثلاً یہ مخلوقات جن کا گننا ... مشکل ہے ، جو صدیوں سے اس کے اندر دفن ہورہی ہیں اور نہ اس کے زمانے کا علم ہے اور نہ لوگوں کی تعداد کا۔ زمین کے پیٹ کے اندر جو معدنیات ، پانی اور دوسری چیزیں ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہوے ، سب باہر آجائیں گی۔ صدیوں سے یہ زمین ان چیزوں کو اٹھائے ہوئے ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو یہ سب چیزوں اور سب رازوں کو اگل دے گی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور جو کچھ اس میں ہے اسے وہ زمین نکال پھینکے اور خالی ہوجائے۔