Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 7

سورة الانشقاق

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾

Then as for he who is given his record in his right hand,

تو ( اسوقت ) جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

٩(فاما من اوتی کتبہ بیمینہ…: آسان حساب کا مطلب یہ ہے کہ کرید کرید کر اصلی حساب نہیں ہوگا، فقط اعمال نامہ پیشہ و گا اور غلطیاں بھی سامنے لائی جائیں گی، پھر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لیس احد یحاسب الا ھلک قالت قلت یا رسول اللہ ! جعلنی اللہ فذائک الیس یقول اللہ عزو جل :(فاما من اوتی کتبہ بیمینہ، فسوق یحاسب حساباً یسیراً ) (الانشقاق : ٨، ٨) قال ذالک العرض یعرضون، ومن نوقش الحساب ھلک) (بخاری، التفسیر، باب :(فسوق یحاسب حسابا یسیرا): ٣٩٣٩)” جس کسی کا بھی حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوگیا ۔ “ عائشہ (رض) نے عرض کی :” یا رسول اللہ ! اللہ مجھے آپ پر فدا کرے ! کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتے کہ جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اس کا حساب آسان ہوگا ؟ “ آپ نے فرمایا :” یہ صرف پیشی ہے (جس میں صرف اس کے اعمال) پیش کئے جائیں گے اور جس سے حساب میں پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہو یا۔ “ جن بندوں پر اللہ کی نظر عنایت ہوگی ان کے آسان حساب کی ایک صورت وہ ہوگی جو ابن عمر (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یدنواحدکم من ربہ حتی یضع کنفہ علیہ فیقول عملت کذا و کذا ؟ فیقول نعم و یقول عملت کذا و کذا ؟ فیقول نعم، فیقررہ ثم یقول انی سترت علیک فی الدنیا، فانا اغفرھا لک الیوم) (بخاری، الادب، باب ستر المومن علی نفسہ : ٦٠٨)” تم میں سے ایک (بندہ) اپنے رب کے قریب ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنا دامن اس پر رکھے گا (کہ کسی اور کو خبر نہ ہو ) ، پھر فرمائے گا :” تو نے یہ کام کئے ؟ “ وہ کہے گا :” ہاں ! “ اور فرمائے گا :” تو نے یہ یہ کام (بھی ) کئے ؟ “ وہ کہے گا :” ہاں ! “ پس اللہ تعالیٰ اس سے اقرار کروا لے گا، پھر فرمائے گا :” میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا، سو آج میں تمہیں وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ “ آسان حساب کی ایک صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا تھوڑی نیکی کا ثواب بہت زیادہ عطا فرما دے گا جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کی امت کے ایک آدمی کے گناہوں کے حد نگاہ تک پھیلے ہوئے نانوے (٩٩) دفتر کاغذ کے ایک پرزے کے مقابلے میں ہلکے ہوجائیں گے جس پر ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ “ لکھا ہوگا۔ (دیکھیے ترمذی، الایمان، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا الہ الا اللہ : ٢٦٣٩ و صحیحہ الالبانی) غرض اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا حساب آسان کر دے گا، مگر شرط یہے کہ آدمی ہر طرح کے شرک ظاہری اور شرک باطنی یعنی ریا سے پاک ہو، پھر اگر گناہ گار توبہ کے بغیر بھی مرگیا تو اللہ کی ذات سے رحمت اور آسانی حساب کی توقع ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ان اللہ لایغفران یشرک بہ وغفر مادون ذلک لمن یشآئ) (النسائ : ٣٨)” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے جسے چاہے گا بخش دے گا۔ “ مشرک کے لئے معافی نہیں، دوسروں کی مغفرت اللہ کی مشیت پر ہے۔ اس لئے نہ اس کے غضب سے بےخوف ہونا چاہیے اور نہ اس کی رحمت سے مایوس ہونا چاہیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ ﴿٧﴾ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ﴿٨﴾ وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُورًا ﴿٩﴾ (So, as for him whose book [ of deeds ] will be given to him in his right hand, he will be called to account in an easy manner, and he will go back to his people joyfully....7-9) This verse describes the condition of the believers. Their books of deeds will be given to them in their right hands. An easy reckoning will be taken from them and the welcome news of Paradise will be given to them. They will return to their families joyfully. It is reported in the Sahih of Bukhari from Sayyidah ` A&shah (رض) that the Holy Prophet has said: من حوسب یوم القیامۃ عزّب |"He who is required to account for [ or questioned about ] his deeds will have to be punished.|" At this Sayyidah ` A&ishah (رض) asked, |"What is the meaning of the [ following ] verse?” يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا (he will be called to account in an easy manner,..84:8). The Holy Prophet explained that the verse signifies &the deeds will merely be presented before Allah without being questioned. As for the person whose deeds are scrutinised, he will never be able to escape torment&. This explanation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) clarifies that the deeds of the believers will also be presented before Allah, but by virtue of their faith, not all of their actions will be scrutinised. This is referred to as &account in an easy manner&. The words &he will go back to his people joyfully& may be interpreted in one of two ways. This may refer to the Houris who will be his family members in Paradise, or it may refer to his family members in the world who will be present in the Plain of Gathering, and he, after knowing about his success, will impart to them, according to the custom of this life, the welcome news of his achievement. The commentators have mentioned both possibilities in interpreting this sentence. [ Qurtubi ].

فاما من اوتی کتبہ بیمینہ فسوف یحاسب حسابا یسیرا و ینقلب الی اھلہ مسرورا :۔ اس میں مومنین کا حال بیان فرمایا ہے کہ ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جاویں گے اور انسے بہت آسان حساب لے کر جنت کی بشارت دے دیجائے گی اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوش خوش واپس ہوگا۔ صحیح کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من حوسب یوم القیمتہ عذب یعنی قیامت کے روز جس سے حساب لیا جائے وہ عذاب سے نہ بچے گا۔ اس پر حضرت صدیقہ عائشہ نے سوال کیا کہ کیا قرآن میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے یحاسب حسابایسرا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس آیت میں جس کو حساب یسیر فرمایا وہ درحقیت مکمل حساب نہیں بلکہ صرف رب اعلزت کے سامنے پیشی ہے اور جس شخص سے اس کے اعمال کا پورا پورا حساب لیا گیا وہ ہرگز عذاب سے نہ بچے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مؤمنین کے اعمال بھی رب العزت کے سامنے پیش تو سب ہوں گے مگر ان کے ایمان کی برکت سے ان کے ہر ہر عمل پر مناقشہ نہیں ہوگا، اسی کا نام حساب یسیر ہے اور اپنے گھر والوں کی طرف خوش خوش واپس ہونیکے دو معنے ہو سکتے ہیں، یا تو گھرو والوں سے مرادجنت کی حوریں ہیں جو وہاں اس کے اہل ہوں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں جو اس کے اہل و عیال تھے محشر کے میدان میں جب حساب کے بعد کامیابی ہوگی تو دنیا کی عادت کے مطابق اس کی خوشخبری سنانے ان کے پاس جائے، ائمہ تفسیر نے دونوں احتمال بیان فرمائے ہیں۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَہٗ بِيَمِيْنِہٖ۝ ٧ ۙ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل :إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧۔ ٩) سو جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں ملے گا مثلا ابو سلمہ سو اس کے حساب کی صرف پیشی ہوگی اور وہ آخرت میں اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:7) فاما من اوتی کتبہ بیمینہ۔ ف بمعنی پھر، پس۔ اما تفصیل کے لئے ہے بمعنی یا۔ سو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ فاما الذین منوا فیعلمون انہ الحق من ربھم واما الذین کفروا فیقولون ماز اراد اللہ بھذا مثلا (2:26) سو جو لوگ ایمان کائے ہیں تو وہ یہی سمجھیں گے کہ وہ (مثال) یقینا حق ہے ان کے پروردگار کی طرف سے اور جو لوگ کفر اختیار کئے ہوئے ہیں وہ یہی کہتے رہیں گے کہ اللہ کا اس مثال سے مطلب کیا تھا ؟ من شرطیہ ہے اور اوتی کتبہ بیمینہ جملہ شرط ہے اوتی ماضی مجہول واحد مذکر غائب ایتاء (افعال) مصدر سے وہ دیا گیا۔ اس کو ملا۔ کتبہ مضاف مضاف الیہ اس کی کتاب، اس کا اعمال نامہ۔ یمینہ اس کا دایاں ہاتھ۔ اس کا سیدھا ہاتھ۔ ترجمہ :۔ پھر جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان جب اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا تو اس وقت اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ہر انسان اپنے اعمال نامے کے مطابق اپنے رد عمل کا اظہار کرے گا۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل خانہ کے پاس خوش وخرم جا کر کہے گا کہ یہ میرا اعمال نامہ ہے اس کے بارے میں مجھے پہلے سے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ملنے والا ہے وہ بڑی عیش کی زندگی میں ہوگا اور اسے جنت عالیہ میں داخل کیا جائے گا۔ (الحاقہ : ١٩ تا ٢٢) اور جس کو اس کے پیچھے سے اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنی موت کو آواز دے گا لیکن اسے موت نہیں آئے گی اور اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ان آیات میں ثابت کیا گیا ہے کہ اعمال نامے ملنے پر دونوں فریق اپنا اپنا رد عمل ظاہر کریں جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے کہ ہمارا حساب نہایت آسان ہوگا اور جنہیں ان کی پشت کی طرف سے اعمال نامہ دیا جائے گا وہ سمجھے گا کہ میں تباہی کے گھاٹ اترنے والا ہوں۔ جن کا آسان حساب ہوگا ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ انہیں ہلکی پھلکی پوچھ گچھ کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا اور جس سے اس کے اعمال نامے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ مارا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ ) (رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں ؟ کہ ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔ “ مسائل ١۔ جسے اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا اور وہ اپنے اہل و عیال کے پاس خوش وخرم آئے گا۔ ٢۔ جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کی طرف سے دیا گیا وہ اپنی موت کو پکارے گا اور اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنتی اور جہنمی کے درمیان فرق : ١۔ جب فرشتے نیک لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ حکم ہوگا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ (ق : ٣٤) ٣۔ کاش آپ دیکھیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے وقت ان کے منہ اور پیٹھوں پر ماریں گے۔ (الانفال : ٥٠) ٤۔ اس وقت دیکھیں جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھا کر کہیں گے اپنی جان نکالو۔ آج تمہیں رسوا کن عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ ( الانعام : ٩٤) ٥۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٦۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٢) ٧۔ جہنمی کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٨۔ جہنمی کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٩۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیہ : ٥) ١٠۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ١١۔ ملائکہ جنتی کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣، ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وہ لوگ جن کو ان کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ، ان سے اللہ راضی ہوگا ، یہ ایک بخت ہوں گے ، ایمان دار اور نیکوکار ہوں گے ، اللہ ان سے راضی ہوجائے گا اور ان کی نجات کا فیصلہ ہوجائے گا۔ ان لوگوں کے ساتھ نرمی کے ساتھ حساب ہوگا۔ اللہ کے کارندے زیادہ بازپرس نہیں کریں گے اور نہ حساب میں گہرائیوں تک جائیں گے۔ اس کی تصویر کشی احادیث رسول میں کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان احادیث کو پڑھ لیاجائے تو مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے ساتھ حساب میں مناقشہ کیا گیا اسے ضرور سزا ہوگی۔ فرماتی ہیں میں نے کہا : اللہ نے نہیں کہا ” اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا “ ۔ تو آپ نے فرمایا : ” یہ کامیابی حساب سے نہیں ہوگی بلکہ صرف پیشی سے ہوگی ، قیامت میں صورت یہ ہوگی کہ جس سے حساب لیا گیا ، اس کو سزا ہوگئی “۔ (بخاری ، مسلم ، ترمذی ، نسائی) حضرت عائشہ (رض) سے ایک دوسری روایت ہے ، فرماتی ہیں کہ میں ایک نماز میں حضور اکرم سے سنا ” اے اللہ میرے ساتھ ہلکا حساب فرمانا “۔ جب حضور نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا کہ حضور ہلکا حساب کیا ہوتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ حساب کی کتاب کو دیکھ کر چشم پوشی کردی جائے اور جانے دیا جائے ۔ عائشہ (رض) اس دن جس سے پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ تو مارا گیا “۔ (احمد بشرط مسلم از عبداللہ ابن زبیر (رض) غرض اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا ، اس کے ساتھ حساب یسیر ہوگا اور وہ نجات پاجائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” فاما من اوتی “ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ جو لوگ دنیا میں ایمان لائے اور نیک کام کیے قیامت کے دن ان کے اعمالنامے ان کے داہنے ہاتھوں میں دئیے جائیں گے اور ان کا حساب نہایت آسان ہوگا اور وہ خوش و خرم اور شاداں وفرحان جنت میں اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔ ” و اما من اوتی کتبہ وراء ظہرہ “ کفار و مشرکین کو ان کے اعمالنامے بائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے اور وہ ہلاکت و موت کی تمنا کریں گے تاکہ ان کو عذاب نہ ہو، لیکن ان کی یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی اور ان کو جہنم میں داخل کردیا جائیگا۔ ” وراء ظہرہ “ سے مراد یہ ہے کہ اس کا سینہ چیر کر اس کا بایاں ہاتھ پیٹ سے باہر نکال دیا جائے گا اور اس طرح بائیں ہاتھ میں اس کو نامہ اعمال دیا جائے (قرطبی، مظہری) ۔” ثبور “ ہلاکت۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) پس جس شخص کا نامہ اعمال اور لکھنا اس کے داہنے ہاتھ میں دیا گیا۔