Surat ul Inshiqaaq
Surah: 84
Verse: 9
سورة الانشقاق
وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾
And return to his people in happiness.
اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔
وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾
And return to his people in happiness.
اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔
And will return to his family Masrur! This means that he will return to his family in Paradise. This was said by Qatadah and Ad-Dahhak. They also said, "Masrur means happy and delighted by what Allah has given him." Allah said; وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاء ظَهْرِهِ
9۔ 1 یعنی جو اس کے گھر والوں میں سے جنتی ہونگے۔ یا مراد وہ حور عین اور دلدان ہیں جو جنتیوں کو ملیں گے۔
[٦] اہل سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا اس سے پہلے اسی طرح کا آسان سا حساب لیا جاچکا ہوگا اور انہیں جنت کا پروانہ مل چکا ہوگا اور اگر اس کے اپنے اہل و عیال فی الواقع ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں گے تو یہ اس کے لیے اور زیادہ خوشی کی بات ہوگی۔
وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا ٩ ۭ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ سُّرُورُ : ما ينكتم من الفرح، قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] ، وقال : تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة/ 69] ، وقوله تعالیٰ في أهل الجنة : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 9] ، وقوله في أهل النار :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 13] ، تنبيه علی أنّ سُرُورَ الآخرة يضادّ سرور الدّنيا، والسَّرِيرُ : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن» السرور قلبی فرحت کو کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11]( تو خدا ) ان کو تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا ۔ تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة/ 69] کہ دیکھنے والے ( دل ) کو خوش کردیتا ہو ۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق فرمایا : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 9] اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے ۔ اور اہل نار کے متعلق فرمایا :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 13] یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا ۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ آخرت کی خوشی دنیا کی خوشی کے برعکس ہوگی ۔ السریر ( تخت ) وہ جس پر کہ ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی کے بنا دئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہا جاتا ہے تو یہ سریر ( تخت ) کے ساتھ صوری مشابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پا کر جوار الہی میں خوش و خرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن : کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے
آیت ٩{ وَّیَنْقَلِبُ اِلٰٓی اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا ۔ } ” اور وہ لوٹے گا اپنے گھر والوں کی طرف شاداں وفرحاں۔ “ عدالت کے کٹہرے سے وہ شخص جب اپنے ان اہل و عیال ‘ رشتہ دار اور ساتھیوں کی طرف واپس لوٹے گا جو اسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے تو بہت خوش ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے میری بھی خلاصی ہوگئی۔
7 "His kinsfolk": his family and relatives and companions who will have been pardoned even like himself.
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :7 اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال ، رشتہ دار و ساتھی ہیں جو اسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے ۔
(84:9) وینقلب الی اہلہ مسرورا۔ واؤ عاطفہ، ینقلب مضارع واحد مذکر غائب انقلاب (انفعال) مصدر سے وہ لوٹے گا۔ قلب الشیء کے معنی کسی چیز کو پھیرنے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ انقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ۔ انسان کے دل کو قلب اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ کثرت سے الٹتا لپٹتا رہتا ہے۔ اہلہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کے اہل ۔ اپنے لوگ۔ اپنے اہل۔ اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال، رشتیہ دار، ساتھی جو اسی کی طرح معاف کئے گئے ہوں گے۔ (تفہیم القرآن) نیز ملاحظہ ہو 83:31 ۔ ینقلب کا عطف یحاسب پر ہے۔ مسرورا : سرور (باب نصر) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر (بحالت نصب) خوش کیا ہوا۔ خوش، اترایا ہوا۔ جو خوشی اندر چھپ رہی ہو وہ سرور ہے۔ (نیز ملاحظہ ہو 76:11) ۔ مسرورا حال ہے من سے۔
وینقلب .................... مسرورا (9:84) ” اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش پلٹے گا “۔ یعنی ان لوگوں کی طرف جو اس سے پہلے جنت میں جاچکے ہوں گے۔ اس انداز تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں بھی ہم خیال لوگ آئے ہوں گے۔ اور ہر شخص اپنے صالح اہل و عیال اور دوستوں میں ہوگا۔ نجات پانے والے شخص کی تصویر کشی اسی طرح ہے کہ یہ یاروں ، دوستوں اور اپنے خاندان والوں کی طرف فرحاں و شاداں جارہا ہوگا اور اسے نجات اور ملاقات کی دوہری خوشی ہوگی اور پھر جنتوں میں۔ یہ تو تھی دائیں بازو والوں کی صورت حالات ، اس کے مقابلے میں بالکل ایک مختلف صورت حالات بھی ہے ان لوگوں کی جو پکڑے جائیں گے ، اپنے برے اعمال کی پاداش میں۔ یہ لوگ تو اپنا اعمال نامہ لینا بھی نہ چاہیں گے۔
(9) اور وہ اپنے متعلقین کے پاس خوش اور مسرور واپس آئے گا مطلب یہ ہے کو حساب کتاب شروع ہوتے وقت جس شخص کی کا ب اس کے داہنے ہاتھ میں دی گئی تو اس سے حساب یسیر یعنی آسان حساب لیا جائے گا اور چونکہ حساب یسیر علامت ہے دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے کی اس لئے وہ نہایت خوش اور ہنستا ہوا اپنے گھر والوں میں یعنی اپنے متعلقین کے پاس لوٹے گا حساب یسیر کی تفسیر احادیث میں ہے کہ قیامت میں بعض بندہ اپنے نامہ اعمال کو دیکھ رہا ہوگا کہ ایک ندا سے اس کو نوازا جائے گا کہ بندے نے جو نیکیاں کیں وہ ہم نے قبول کرلیں۔ اور جو خطائیں کیں وہ ہم نے اپنی رحمت سے معاف کردیں۔ خلاصہ : یہ کہ صرف پیشی ہو اور کوئی مناقشہ نہ ہو یعنی یہ نہ کہا جائے کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہ کیا صرف معمولی پوچھ گچھ کے بعد معانی کا اعلان کردیاجائے یہ سلوک غیر معذب ہونے کی علامت ہے اور جس پیشی میں مناقشہ ہوا تو وہ ہلاک ہونے کی علامت ہے۔ من نوقش فقد ھلک۔ یہی وجہ ہے کہ حساب یسیر دینے والا اپنے متعلقین کے پاس شادماں اور خوش خوش لوٹے گا۔