تعارف : سورة البروج مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل کی گئی جب کفار و مشرکین اہل ایمان پر ہر طرح کے ظلم و ستم ڈھا رہے تھے۔ مومنوں کو بتایا گیا ہے کہ دین کی سچائیوں کو قائم کرنے کے لئے زبردست قربانیاں دینا پڑتی ہیں تب وہ حقیقی کامیابی نصیب ہوتی ہے جس سے آخرت کی لازوال نعمتوں سے ہم کنار کیا جاتا ہے۔ فرمایا کہ اصحاب الاخدود وہ لوگ تھے جنہوں نے مومنوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں جلا کر راکھ بنا دیا تھا۔ ان اہل ایمان نے آگ میں جلنا گوارا کیا مگر وہ اپنے ایمان سے نہیں پھرے۔ صحابہ کرام (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ کفار کے ظلم و ستم کے مقابلے میں ثابت قدم رہے تو ان کو دنیا اور آخرت کا عظیم اجرو ثواب عطا کیا جائے گا اور یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اسی بات کو سورة البروج میں فرمایا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے برجوں والے آسمان اور جس دن کس وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیامت) دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ گرھے (خندق) والے تباہ و برباد ہو کر رہے۔ ان گڑھوں میں بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ اہل ایمان کے ساتھ ظلم و ستم ہو رہا تھا وہ اسے دیکھ کر مزے لے رئے تھے۔ ان مومنووں سے عداوت اور دشمنی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ اللہ جو زبردست طاقتون کا مالک، اپنی ذات میں قابل ستائش، آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے وہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جن لوگوں نے مومن مردوں اور مون عورتوں کو اذیت پہنچائی اور اس سے توبہ نہ کی یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کا عذاب بھی ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ان کے لئے جنت کے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جس کا ملنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے یعنی جب وہ کسی قوم یا فرد کی گرفت کرتا ہے تو اس کو اللہ سے کوئی چھڑانے والا نہیں ہوتا۔ اسی اللہ نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ اللہ بخشنے والا، محبت کرنے والا، عرش عظیم کا مالک، وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے تو اسے کر ڈالتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرعون اور قوم ثمود کے لشکروں کا حال معلوم ہے ؟ جب انہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہر طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ اپنے برے انجام سے بچ نہ سکے۔ فرمایا کہ اگر آج مکہ والے قرآن کو سچائیوں کو جھٹلا رہے ہیں تو اس سے قرآن کو کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ وہ باعظمت قرآن لوح میں محفوظ ہے۔
سورة البروج کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کا ایک رکوع ہے جو بائیس آیات کا احاطہ کرتا ہے اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس میں اصحاب الاخدود کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جن پر اس لیے ظلم کیا گیا کہ وہ اپنے ” اللہ “ پر ایمان لائے تھے جو بڑا غالب اور لائق تعریف ہے۔ جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ظلم کیا اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو ان کے لئے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ جنہوں نے ایمان کی خاطر ظلم برداشت کیا ان کے لیے جنت ہوگی جو ان کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی پہلی اور دوسری بار پیدا کرنے والا ہے جو معاف فرمانے والا اور نیک لوگوں سے محبت کرنے والا ہے۔ البتہ وہ ظالموں کے لیے بڑا سخت ہے جو اس کی سختی کا اندازہ لگانا چاہیں انہیں فرعون، ثمود اور اس قسم کے لوگوں کے انجام پر غور کرنا چاہیے۔
سورة البروج ایک نظر میں یہ مختصر سورت اسلامی نظریہ حیات کے حقائق بیان کرتی ہے کہ ایمانی تصورات کے بنیادی عناصر کیا ہوتے ہیں ، جو ایک عظیم موضوع ہے۔ یہ سورت دور دور تک اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں اسرار و رموز کا وہ ذخیرہ ہے کہ اس کی آیات بلکہ کلمات بھی دور رس حقائق ومعانی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ یہ سورت ایک محل ہے جس کے روشن دانوں سے نور کی لہریں دور دور تک پھیل رہی ہیں۔ براہ راست موضوع تو اصحاب الاخدود کا ایک انفرادی واقعہ ہے۔ اسلام سے قبل کے زمانے میں اہل ایمان کا ایک گروہ ، غالباً عیسائی موحدین ، دشمنوں کے ظلم وستم کا شکار ہوئے تھے۔ یہ دشمن سخت سرکش اور شرپسند تھے ، اور یہ ظالم ان مومنین پر ظلم اس لئے کررہے تھے کہ مشرکوں نے صحیح دین چھوڑ کر شرکیہ عقائد اپنا لیے تھے اور یہ لوگ اپنے اصل عقیدے پر جمے ہوئے تھے اور اس بات کے لئے تیار نہ تھے کہ نیا شرکیہ عقیدہ اپنائیں۔ پس ان سرکشوں نے زمین میں گڑھے کھدوائے ، ان گڑھوں میں آگ جلائی گئی ، اور اس آگ میں ان مومنین کو گرایا گیا اور وہ جل کر راکھ ہوگئے۔ اور یہ کام ایسے حالات میں ہوا کہ ان سرکشوں نے پوری آبادی کو یہ منظر دیکھنے کے لئے جمع کررکھا تھا تاکہ وہ اہل ایمان کے اس انجام کو دیکھ کر ڈر جائیں اور یہ سرکش اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوں۔ انسانوں کو جلا کر خوش ہوں۔ وما نقموا ................................ الحمید (8:85) ” اور ان اہل ایمان کے ساتھ ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں محمود ہے “۔ سورت کا آغاز قسم سے ہوتا ہے۔ والسمائ ................................ الاخدود (1:84 تا 4) ” قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی ، اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے ، اور دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے “۔ یہاں آسمانوں اور ان کے درمیان پائے جانے والے عظیم قلعوں اور قیامت کے دن کو باہم مربوط کیا جاتا ہے کہ یہ قلعے بھی عظیم ہیں اور قیامت کے واقعات بھی بہت عظیم ہوں گے۔ اور قیامت کے دن لوگوں کی عظیم تعداد حاضر ہوگی اور بڑے بڑے واقعات ہوں گے۔ ان واقعات کو پھر اس عظیم دردناک واقعہ سے مربوط کیا جاتا ہے جس کے سرکش کرداروں پر اللہ کا عذاب لازم ہے۔ اس کے بعد اس دردناک واقعہ کا سرسری بیان ہے ، یہ بیان نہایت مختصر ہے لیکن پردہ شعور پر اس واقعہ کی بربریت کو اچھی طرح نقش کردیتا ہے۔ اور یہ اشارہ بھی دے دیا جاتا ہے کہ عقیدہ اور نظریہ کس قدر عظیم شے ہے اور عقیدے کے اندر کس قدر قوت ہوتی ہے کہ وہ بڑے سے بڑے تشدد پر بھی فتح پالیتا ہے ، اور اس کی راہ میں زندگی تک قربان کردیا جاتا ہے۔ اور وہ آگ کا مقابلہ کرکے اس کو ٹھنڈا کرسکتا ہے۔ اور وہ اس قدر بلندی تک پہنچ سکتا ہے کہ اس بلندی کو نسلوں تک یادرکھا جاتا ہے۔ اس میں اسی طرف اشارہ بھی ہے کہ یہ واقعہ نہایت ہی بدترین واقعہ تھا اور یہ فعل کرنے والے شر ، فساد اور ظلم و زیادتی میں مست تھے ، ان کے مقابلے میں اہل ایمان سربلند ، پاک اور معصوم تھے۔ النار ذات ................................ شھود (5:85 تا 7) ” اس گڑھے میں بڑھکتی ہوئی آگ تھی جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے “۔ اس کے بعد مختصر فقروں میں اسلامی نظریہ حیات کے سلسلے میں تبصرے اور نتائج آتے ہیں جن میں اسلامی انقلاب کی تحریک کے سلسلے کی بہت ہی اہم اور اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی دعوت ومنشور کے سلسلے کی نہایت ہی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں : یہ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ کی ہے اور زمین و آسمان میں جو واقعات ہوتے ہیں ، اللہ انہیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ الذی لہ ................................ شھید (9:85) ” اللہ جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے ، اور وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے “۔ یہ کہ جہنم میں جلنے کا عذاب ان سرکشوں کا بڑی بےچینی سے انتظار کررہا ہے۔ جو ظلم اور بربریت میں نہایت ہی گھٹیا مقام تک اتر گئے ہیں۔ اور پھر جنت کے مزوں کا بھی ذکر ہے جو اہل ایمان کے لئے مخصوص ہیں اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اس لئے کہ ان لوگوں نے اپنی زندگی پر اپنے ایمان اور اپنے عقیدے کو ترجیح دی۔ اور انہوں نے آگ میں جلائے جانے کے عذاب کو برداشت کیا۔ ان الذین ................................ الفوز الکبیر (10:85 تا 11) ” جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کی سزا ہے ، جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ، یقینا ان کے لئے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، یہ ہے بڑی کامیابی “۔ ان تبصروں میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہوتی ہے کیونکہ وہی خالق ہے ، پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا ، دوبارہ بھی وہی پیدا کرے گا۔ ان بطش ............ لشدید (12:85) ” درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ، وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے ، وہی دوبارہ پیدا کرے گا “۔ اس حقیقت کا تعلق ان مظلوم جانوں سے ہے جو اس حادثے میں تلف ہوئیں لیکن اس تبصرے میں اس سزا سے آگے مزید دور تک روشنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد اللہ کی کچھ صفات کا ذکر ہے اور ان میں سے ہر صفت ایک متعین مقصد کے لئے لائی گئی ہے۔ وھوالغفور الودود (14:85) ” وہ اللہ بخشنے والا اور محبت کرنے والا ہے “۔ وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے ، اگرچہ وہ بہت بڑے گناہ ہوں بشرطیکہ کہ ان کا مرتکب تائب ہوجائے۔ اور وہ ان لوگوں سے بہت محبت کرتا ہے جو اس اللہ کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیں۔ مثلاً جن لوگوں پر اس واقعہ میں شدید تشدد ہو یا مکہ میں جو تشدد ہورہا تھا ، ان کے زخموں کے لئے یہ محبت کی نہایت ہی کارگر مرہم ہے کہ اللہ غفور وودود ہے۔ ذوالعرش ................................ لما یرید (16:85) ” عرش کا مالک ہے ، بزرگ اور برتر ہے ، اور جو کچھ چاہے کروانے والا ہے “۔ یہ صفات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات پر مکمل کنٹرول ہے۔ وہ قادر مطلق ہے ، اس کا ارادہ بےقید ہے ، یہ تمام صفات اس واقعہ کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں۔ اور اس واقعہ سے آگے بھی دور تک روشنی ڈالتی ہیں۔ آخر میں بتایا جاتا ہے کہ ان کافروں کا رویہ کیسا ہے اور یہ کہ اللہ تو انہیں گھیرے ہوئے ہے لیکن یہ جانتے نہیں ہیں۔ بل الذین ........................................ محیط (19:85 تا 20) ” مگر جنہوں نے کفر کیا ہے وہ جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ، حالانکہ اللہ نے انہیں گھیرے میں لے رکھا ہے “۔ اور اس قرآن کی حقیقت اور اس کی اصلیت اور حفاظت کی بات بھی کی گئی ہے۔ بل ھو ............................ محفوظ (22:85) ” بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے اور لوح محفوظ میں درج ہے “۔ غرض یہ تھے اس سورت کے چند تبصرے جو دور دور تک روشنی پھیلاتے ہیں۔ اب ہم ذرا ان تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔