Surat ul Burooj

Surah: 85

Verse: 15

سورة البروج

ذُو الۡعَرۡشِ الۡمَجِیۡدُ ﴿ۙ۱۵﴾

Honorable Owner of the Throne,

عرش کا مالک عظمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ذُو الْعَرْشِ ... Owner of the Throne, meaning, the Owner of the Mighty Throne that is above all of the creation. Then He says, ... الْمَجِيدُ Al-Majid (the Glorious). This word has been recited in two different ways: - either with a Dhammah over its last letter (Al-Majidu), which is an attribute of the Lord, or - with a Kasrah under ... its last letter (Al-Majid), which is a description of the Throne. Nevertheless, both meanings are correct. فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی تمام مخلوقات سے معظم اور بلند ہے اور عرش، جو سب سے اوپر ہے وہ اس کا مستقر ہے جیسا کہ صحابہ وتابعین اور محدثین کا عقیدہ ہے۔ المجید صاحب فضل و کرم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] عرش کا مالک ہونے سے مراد پوری کائنات کا مالک ہونا ہے اس لیے کہ اس کا عرش پوری کائنات کو محیط ہے اور مجید بمعنی شان و شوکت میں بڑا کہہ کر انسان کو اس بات پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخانہ رویہ چھوڑ دے ورنہ اسے اس کا بہت برا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذوالعرش المجید…: وہ تمہاری طرح معمولی اور عارضی اقتدار والا نہیں، بلکہ اس عرش عظیم کا مالک ہے جو زمین و آسمان اور ان کے مابین سے بھی بڑا ہے، نہ وہ تمہاری طرح کم ظرف ہے کہ معمولی سی قدرت ملے تو ظلم پہ اترا آئے، بلکہ وہ بڑی شان ولا ہے اور نہ وہ تمہاری طرح بےبس ہے کہ مجبور ہو کر اسے اپنے ارادے ترک کرنا...  پڑیں، بلکہ وہ جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ ایسے زبردست قوت والے پروردگار سے تمہیں ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور اس کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ یہاں ” ذوالعرش “ کے بعد ” المجید “ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس لئے اس پر رفع ہے، یہ ” العرش “ کی صفت نہیں، ورنہی ہ مجرور ہوتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ۝ ١٥ ۙ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال :...  ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ مجد الْمَجْدُ : السّعة في الکرم والجلال، وقوله في صفة القرآن : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق/ 1] ( م ج د ) مجد یمجد مجدا ومجا دۃ کے معنی کرم وشرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ ق/ 1] قرآن مجید کی قسم ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(85:15) ذوالعرش مضاف مضاف الیہ۔ صاحب عرش، عرش والا۔ تخت والا۔ المجید بڑی شان والا۔ یہ دونوں بھی اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہیں۔ مجد یمجد مجد ومجادۃ۔ کے معنی کرم و شرف اور بزرگی میں وسعت اور پہنائی کے ہیں۔ یہ دراصل مجدت الابل کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں اونٹوں کا کسی وسیع اور زیادہ چارے...  والی چراگاہ میں پہنچ جانا۔ المجید کے معنی ہیں وہ ذات جو اپنے فضل و کرم سے نوازنے میں نہایت وسعت اور فراخی سے کام لینے والی ہو۔ قرآن مجید کی صفت میں بھی المجید آیا ہے کیونکہ قرآن پاک بھی تمام دنیوی و اخروی مکارم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جلیل القدر کتاب ہے۔ چناچہ اسی سورة میں ارشاد باری تعالیٰ ہے بل ھو قرآن مجید۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اورعرش کا مالک اور بڑی شان والا ہے۔