Surat ut Tariq

The Morning Star

Surah: 86

Verses: 17

Ruku: 1

Listen to Surah Recitation
Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تعارف : قرآن کریم میں بار بار اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور مرنے کے بعد ہر انسان کع اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر زندگی میں کئے گئے تمام اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اس سورت میں بھی اسی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے۔ دوسری بات قرآن کریم سے متعلق فرمائی گئی ہے کہ قرآن ایک ایسی روشنی ہے جس کی چمک دمک بڑھتی ہی جائے گی۔ کافروں کی کوشش اور خفیہ تدبیریں اس شمع کو بجھا نہ سکیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کافرون کی اذیتوں پر صبر سے کام لیجئے کیونکہ بہت زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اللہ تعوالیٰ ان کفار کی ساری تدبیروں کو ان پر ہی الٹ کر رکھ دے گا۔ انہی باتوں کو اس سورت میں بیان کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔ آسمان کی اور رات کے وقت آنے والے تارے کی قسم۔ وہ تارہ کیا ہے ؟ وہ چمکتا ہو درخشاں ستارہ ہے۔ فرمایا کہ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس پر کوئی نگراں مقرر نہو۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اسکو اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا ہے ؟ اس کو اللہ نے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ جس اللہ نے اس کو ایک حقیر بوند سے پیدا کیا وہی اس بات کی پوری قدرت رکھتا ہے کہ اس کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کردے۔ لیکن جس دن اس کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اس دن اس کے تمام چھپے ہوئے راز ظاہر کردیئے جایں گے اور اس کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔ یہ وہ دن ہوگا جب اس کی اپنی کوئی اقت نہ ہوگی اور کوئی اس کی مدد بھی نہ کرسکے گا۔ اللہ نے فرمایا بارش برسانے والے آسمان کی قسم اور اس زمین کی قسم جو پھٹ کر ہر اس طرح کے نباتات کو اگاتی ہے۔ یہ کلام قرآن مجید ایک قول فیصل ہے یعنی جو حق اور باطل کو الگ الگ کردیتا ہے۔ یہ کوئی لغو یا ہنسی مذاق نہیں ہے۔ یہ کفارہ اپنی سی چالیں چل رہے ہیں اور میں اپنی تدبیریں کر رہا ہوں۔ اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ صبر کیجئے۔ ان کفار کو اپنے حال میں مست رہنے دیجئے اللہ خود ان سے انتقام لے لے گا اور ان کی چالوں کو اپنی تدبیروں سے ان پر اہی الٹ دے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

سورة الطّارق کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے دوسرے لفظ پر رکھا گیا ہے۔ اس کی سترہ آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے یہ مکہ میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس میں آسمان اور صبح صادق کے وقت طلوع ہونے والے ایک ستارے کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اے انسان اللہ تعالیٰ نے ہر جان پر ایک محافظ مقرر کر رکھا ہے۔ جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی پیدائش پر غور کرنا چاہیے۔ جس سے ثابت ہوگا جو خالق انسان کی تخلیق کی ابتداء اس کے باپ کی پیٹھ اور اس کی ماں کی سینے کی ہڈیوں سے کرتا ہے، وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر بارش برسانے والے آسمان کی قسم اٹھا کر واضح فرمایا ہے کہ جس طرح نباتات اگنے کے وقت زمین پھٹ جاتی ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے نکل کھڑے ہوں گے یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے جس میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکتا جو لوگ اتنے واضح دلائل اور حقیقت کو نہیں مانتے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الطارق ایک نظر میں اس پارے کے ابتدائیہ میں ہم نے بتایا تھا کہ یہ سورت دراصل انسان کے خوابیدہ احساس پر پے درپے شدید ضربات ہیں ، شدید ترین ضربات اور ایسی بےساختہ چیخ و پکار پر مشتمل ہے ، جو کسی ایسے شخص کو جگانے کے لئے کی جاتی ہے جو غفلت کی نیند میں غرق ہو ، یہ ضربات اور ان کے ساتھ یہ بےساختہ آوازیں کچھ اس مضمون کی ہیں۔ اٹھو ، جاگو ، دیکھو ، توجہ کرو ، غور کرو ، گہری سوچ سے کام لو۔ آخر اس کارخانہ قدرت کا ایک چلانے والا ہے۔ اس کائنات کی پشت پر ایک حکیمانہ قوت کام کررہی ہے۔ یہ پوری کائنات ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق چل رہی ہے۔ دیکھو اس جہاں میں تمہارا امتحان ہورہا ہے۔ تم اپنے اقوال وافعال کے ذمہ دار ہو ، پوری زندگی کا حساب و کتاب تم نے پیش کرنا ہے۔ ایک شدید عذاب بھی تیار ہے اور ایک عظیم نعمتوں بھری جنت بھی موجود ہے جس کا ایک عظیم مملکت کی طرح نظام ہے۔ یہ سورت ان خصوصیات کا نمونہ ہے۔ اس کی ضربات میں اسی طرح شدت ہے جس طرح ان کے مناظر شدید ہیں۔ موسیقی کا انداز بھی شدید ہے۔ الفاظ کا ترنم بھی شدید ہے ، اور معنوی اشارات میں بھی شدت ہے۔ مثلا الطارق ، الثاقب ، الدافق ، الرجع اور الصدع کے الفاظ لفظی اور معنوی اور ترنم میں شدت رکھتے ہیں۔ معنوی سختی کا نمونہ یہ ہے کہ ہر نفس کی نگرانی ہورہی ہے۔ ان کل .................... حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ اور قیامت کے دن ایسے شدید حالات ہوں گے کہ کسی کے پاس نہ کوئی اپنی طاقت ہوگی اور کوئی مددگار ہوگا۔ یوم تبلی ............................ ولا ناصر (10:86) ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔ اور یہ قرآن کا آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔ انہ لقول ........................ بالھزل (14:86) ” یہ ایک جچی تلی بات ہے یعنی مذاق نہیں ہے “۔ پھر اس سورة میں جو دھمکی دی گئی اس میں شدت اور سختی کا انداز شامل ہے۔ انھم ............................ رویدا (17:86) ” یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ میں بھی ایک چال چل رہا ہوں ، پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ایک ذرا کی ذرا ان کے حال پر “۔ جس طرح ہم نے پارے کے مقدمہ میں کہا تھا اس میں وہ تمام موضوعات پائے جاتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک الٰہ ہے ، یہ کائنات ایک تدبیر اور تقدیر کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ زندگی ایک آزمائش ہے ، انسان یہاں اپنے افعال واقوال کا ذمہ دار ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جہاں جزاء وسزا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ جن کائناتی مناظر کو پیش کیا گیا ہے اور جن نظریاتی مقاصد کو پیش کیا گیا ہے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اور اس کی تفصیلی فصاحت اس وقت ہوگی جب ہم قرآن کریم کی آیات بھی بحث کریں گے۔ اپنے انداز بیان کے اعتبار سے قرآن کی آیات بو بےمثال حسن رکھتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi