Surat ut Tariq
Surah: 86
Verse: 1
سورة الطارق
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾
By the sky and the night comer -
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی ۔
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾
By the sky and the night comer -
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی ۔
Swearing by the Existence of Humanity surrounded by the Organized System of Allah Allah swears by the heaven and what He has placed in it of radiant stars. Thus, He says, وَالسَّمَاء وَالطَّارِقِ By the heaven, and At-Tariq; Then He says, وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ
تخلیق انسان اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھتا ہے طارق کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بےخبر آ جائے یہاں بھی لفظ طروق ہے ، آپ کی ایک دعا میں بھی طارق کا لفظ آیا ہے ثاقب کہتے ہیں چمکیلے اور روشنی والے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے جیسے اور جگہ ہے کہ آیت ( لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ 11 ) 13- الرعد:11 ) یعنی آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا جیسے فرمایا آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27ۧ ) 30- الروم:27 ) یعنی جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تریبہ کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے ۔
٤(١) والسمآء و الطارق…:” طرق یطرق “ (ن) کا اصل معنی زور سے مارنا ہے جس سے آواز پیدا ہو۔ ” مطرفۃ “ (ہتھوڑا) اور ” طریق “ (راستہ) اسی سے مشتق ہیں، کیونکہ راستے پر چلنے والوں کے قدم زور سے پڑتے ہیں تو آواز دیتے ہیں۔ ” الطارق “ رات کو آنے والے کو کہتے ہیں، کیونکہ عام طور پر اسے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔” النجم الثاقب “ میں الف لام جنس کے لئے ہے، اس لئے اگرچہ لفظ واحد ہے مگر اس میں تمام ستارے آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ شیطانوں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ (دیکھییص افات : ٦، ٧) ” ان “ نی کے معنی میں ہے اور ” لما “ بمعنی ” الا “ ہے۔ (٢) قسم کسی بات کی تاکید کے لئے اٹھائی جاتی ہے اور عموماً اس بات کی شہادت ہوتی ہے جس کے لئے قسم اٹھائی گئی ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور چمک دار ستارے کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ہر جان کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور ستاروں کا یہ عظیم الشان سلسلہ جو بغیر کسی سہارے کے قائم ہے اور جس میں کوئی خرابی یا حادثہ پیش نہیں آتا، اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ جس قادر مطلطق نے ان کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے وہی ہر جان کی بھی حفاظت کر رہا ہے اور ہر چیز کا اصل حافظ وہی ہے ، اگر وہ ایک ملحقہ کے لئے اپنی توجہ ہٹا لے تو سب کچھ فا ہوجائے۔ جس طرح اس نے شیطانوں سے آسمانوں کی حفاظت ستاروں کے ذریعے سے کی ہے، اسی طرح آفات سے حفاظت کیلئے ہر شخص پر باری بایر آنے والے فرشتے مقرر کئے ہیں (دیکھیے رعد : ١١) اور اس کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرنے کے لئے کراماً کاتبین مقرر کئے ہیں۔ دیکھیے سورة انفطار (١٠ تا ١٣) ۔
Commentary After swearing an oath by the sky and stars, in this Surah, Allah asserts that He has assigned a guardian angel to every human being who watches over his deeds and actions, and accurate and immediate record is kept on the basis of which the reckoning will be made, and on the Day of Reckoning, all secrets will be revealed. The rational conclusion is that man must ponder over the consequences of the deeds he is doing in this life. Therefore, he should not, at any moment of his life, lose sight of what is to happen on the Day of Reckoning. Thereafter, the verse disposes of a doubt that the Satan perennially casts into the people&s hearts. When they are dead and have become dust and decomposed particles, how will they be recomposed and life be brought back? This seems to be an imaginary thought, rather, in the view of the general public, it is impossible. In answer to this doubt, man is invited to reflect on his origin. At the inception, he was created from various elements collected from throughout the world, and Allah&s Power transformed them into a human being who is able to listen and see. Allah Who has created him and looked after him is well able to bring him back to life after death. Then some events of the Day of Judgment are mentioned. Then, after swearing an oath by the earth and the sky, the negligent man is told that the Hereafter he is urged to care about is no joke or amusement, but it is a reality that has to come to pass. Towards the end of the Surah, the unbelievers pose the question: If Allah abhors disbelief, idolatry and sins, why then does He not punish us in this life? The Surah ends with a rebuttal to this question. Let us now explain some expressions used in the Surah: The first oath, in the beginning of the Surah, is by the sky and tariq. The word tariq means the &Night-Corner&. Stars normally disappear during the day and only appear at night, therefore they are called tariq. The Qur&an itself raises the question: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الطَّارِقُ (and what may let you know what the Night-Comer is?...86:2) and then answers the question thus: النَّجْمُ الثَّاقِبُ (The star of piercing brightness!...86:3). The word najm means &star&. The Qur&an does not specify any particular &star&. Therefore, it may be applied to any star. Some of the commentators say that najm refers to the Pleiades or Saturn, and they quote specimens of Arabic speech to confirm their argument. The word thaqib means &piercing brightness&.
خلاصہ تفسیر قسم ہے آسمان کی اور اس چیز کی جو رات کو نمودار ہونے والی ہے اور آپ کو کچھ معلوم ہے وہ رات کو نمودار ہونے والی چیز کیا ہے وہ روشن ستارہ ہے (کوئی ستارہ ہو کقولہ تعالیٰ والنجم اذا ھوی آگے جو اب قسم ہے کہ) کوئی شخص ایسا نہیں کہ جس پر کوئی اعمال کا یاد رکھنے والا (فرشتہ) مقرر نہ ہو (کقولہ تعالیٰ و ان علیکم لحفظین کراماً کتبین یعلمون ماتفعلون، مطلب یہ کہ ان اعمال پر محاسبہ ہونے والا ہے اور اس قسم کو مقصود سے مناسبت یہ ہے کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص شب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اعمال سب نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص قیامت میں ہوگا جب یہ بات ہے) تو انسان کو (قیامت کی فکر چاہئے اور اگر اس کے استبعاد کا شبہ ہو تو اس کو) دیکھنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پشت اور سینہ (یعنی تمام بدن) کے درمیان سے نکلتا ہے (مراد اس پانی سے منی ہے خواہ صرف مرد کی یا مرد و عورت دونوں کی اور عورت کی منی میں گوا ند فاق (اچھلنا) مرد کی منی کی برابر نہیں ہوتا لیکن کچھ اندفاق ضرور ہوتا ہے اور دوسری تقدیر پر یعنی جبکہ مار سے مراد و عورت دونوں کا نطقہ .... ہو تو لفظ ماء کا مفرد لانا اس بناء پر ہے کہ دونوں مادے مخلوط ہو کر مثل شئی واحد کے ہوجاتے ہیں اور پشت اور سینہ چونکہ بدن کے دو طرفین ہیں اس لئے کنایہ جمیع بدن سے ہوسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ نطفہ سے انسان بنادینا زیادہ عجیب ہے یہ نسبت دوبارہ بنانے کے اور جب عجیب تر امر اس کی قدرت سے ظاہر ہو رہا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ) وہ اس کے دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے (پس وہ استبعاد قیامت کا شبہ دفع ہوگیا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس روز ہوگا) جس روز سب کی قلعی کھل جاوے گی (یعنی سب مخفی باتیں عقائد باطلہ دنیات فاسدہ ظاہر ہوجاویں گی اور دنیا میں جس طرح موقع پر جرم سے مکر جاتے ہیں اس کو چھپا لیتے ہیں یہ بات وہاں ممکن نہ ہوگی) پھ رسا انسان کہ امکان قیامت کا گوعقلی ہے مگر وقوع نقلی ہے اور دلیل نقلی قرآن ہے اور وہ ہنوز محتاج اثبات ہے تو اس کے متعلق سنو کہ) قسم ہے آسمان کی جس سے پیالے بارش ہوتی ہے اور زمین کی جو (بیج نکلنے کے وقت) پھٹ جاتی ہے (ٓگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن حق و باطل میں ایک فیصلہ کردینے الا کلام ہے اور وہ کوئی لغو چیز نہیں ہے (اس سے قرآن کا کلام حق منجانب اللہ ہونا ثابت ہوگیا مگر باوجود اثبات حق کے ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) یہ لوگ (نفی حق کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہغے ہیں اور میں بھی (ان کی ناکامی اور سزا کے لئے) طرح طرح کی تدبیریں کر رہا ہوں (اور ظاہر ہے کہ میری تدبیر غالب آوے گی اور جب میرا تدبیر کرنا سن لیا) تو آپ ان کافروں (کی مخالفت سے گھبرائیے نہیں اور ان پر جلدی عذاب آنے کی خواہش نہ کیجئے بلکہ ان) کو یوں ہی رہنے دیجئے (اور زیادہ دن نہیں بلکہ) ان کو تھوڑے ہی دنوں رہنے دیجئے (پھر میں ان پر عذاب نازل کر دوں گا، خواہ قبل الموت یا بعد الموت، اخیر کی قسم کو اخیر کے مضمون سے یہ مناسبت ہے کہ قرآن آسمان سے آتا ہے اور جس میں قابلیت ہوتی ہے اس کو مالا مال کرتا ہے جیسے بارش آسمان سے آتی ہے اور عمدہ زمین کو فیضیاب کرتی ہے۔ معارف و مسائل اس سورت میں حق تعالیٰ نے آسمان اور ستاروں کی قسم کھا کر یہ ارشاد فرایا ہے کہ ہر انسان پر ایک محافظ نگراں ہے جو اس کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات کو دیکھتا جانتا ہے اس کا تقاضائے عقلی یہ ہے کہ انسان اپنے انجام پر غور کرے کہ دنیا میں و جو کچھ کر رہا ہے وہ اللہ کے یہاں محفوظ ہے اور یہ محفوظ کھنا حساب کے لئے ہے جو قیامت میں ہوگا، اس لئے کسی وقت آخرت اور قیامت کی فکر سے غافل نہ ہو، اس کے بعد اس شبہ کا جواب ہے جو شیطان لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ مر کرمٹی اور ذرہ ہوجانے کے بعد پھر سب اجزاء کا جمع ہونا اور اس میں زندگی پیدا ہونا ایک موہوم خیال بلکہ عوام کی نظر میں محال و ناممکن ہے۔ جواب میں انسان کی ابتدائی تخلیق پر غور کرنے کی ہدایت ہے کہ وہ کس طرح مختلف ذرات اور مختلف مواد سے ہوتی ہے جیسے ابتدائی تخلیق میں دنیا بھر کے مختلف ذرات کو جمع کر کے ایک زندہ سمیع وبصیر انسان بنادیا، اس کو اس پر بھی قدرت کیوں نہ ہوگی کہ پھر اس کو اسی طرح لوٹاوے، اس کے بعد کچھ حال قیامت کا بیان فرما کر دوسری قسم زمین اور آسمان کی کھا کر غافل انسان کو یہ جتلایا کہ جو کچھ اس کو فکر آخرت کی تلقین کی گئی ہے اس کو مذاق ودل لگی نہ سمجھے یہ ایک حقیقت ہے جو سامنے آکر رہے گی۔ آخر میں کفار کے اس شبہ کا جواب دیا گیا کہ کفر و شرک اور معاصی اگر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تو پھر دنیا ہی میں ان پر عذاب کیوں نہیں آجاتا، اس پر سورت ختم کی گئی ہے۔ پہلی قسم میں آسمان کے ساتھ طارق کی قسم ہے، طارق کے معنے رات کو آنے والے کے ہیں، ستارے چونکہ دن کو چھپے رہتے ہیں اس لئے ستارہ کو طارق فرمایا اور خود قرآن نے اس کی تفسیر کردی وما ادرٰک ما الطارق، یعنی تمہیں کیا خبر کہ طارق کیا چیز ہے پھر فرمایا النجم الثاقب، یعنی ستارہ روشن، نجم کے معنی ستارہ کے ہیں، قرآن نے کوئی ستارہ متعین نہیں کیا، اس لئے ہر ستارہ اس کا مصداق ہوسکتا ہے، بعض حضرات مفسرین نے نجم سے خاص ستارہ ثریا یا زحل مراد لیا ہے اور کلام عرب سے لفظ نجم کا اسپراطلاق ثابت کیا ہے ثاقب کے معنے روشن چکمدار کے ہیں۔
وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ ١ ۙ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : نحن بنات طَارِق وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔
(١۔ ٤) قسم ہے آسمان کی اور طارق کی اور آپ کو کچھ علم ہے کہ طارق کیا چیز ہے، وہ روشن ستارہ ہے یعنی زحل ہے کہ رات کو نکلتا ہے اور دن کو غائب ہوجاتا ہے۔ کوئی شخص ایسا ہیں خواہ نیک ہو یا گنہگار جس پر کوئی اس کے اعمال کا یاد رکھنے والا فرشتہ مقرر نہ ہو۔
1: یہ ’’طارق‘‘ کا ترجمہ ہے، او راسی کے نام پر سورت رکھا گیا ہے۔ اور اگلی دو آیتوں میں اس کا مطلب خود بتادیا گیا ہے کہ اس سے مراد چمکتا ہوا ستارا ہے، کیونکہ وہ رات ہی کہ وقت نظر آتا ہے۔ اُس کی قسم کھاکر فرمایا گیا ہے کہ کوئی اِنسان ایسا نہیں ہے جس پر کوئی نگراں مقرّر نہ ہو، ستارے کی قسم کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ جس طرح ستارے آسمان پر دُنیا کی ہر جگہ نظر آتے ہیں، اور دُنیا کی ہر چیز اُن کے سامنے ہوتی ہے، اسی طرح اﷲ تعالیٰ خود بھی ہر اِنسان کے ہر قول وفعل کی نگرانی فرماتا ہے اور اُس کے فرشتے بھی اس کام پر مقرّر ہیں۔
١۔ ١٠۔ طارق رات کو آنے والی چیز کو کہتے ہیں صبح کا تارا اور تاروں کی طرح شام سے نہیں نکلتا بلکہ رات کا بڑا حصہ گزر جانے کے بعد نکلتا ہے اس واسطے اس کو بھی طارق کہتے ہیں ثاقب چمک دار چیز کو کہتے ہیں یہ تارا خوب روشن اور چمک دار ہوتا ہے اس لئے اس کو ثاقب فرمایا اس قسم کے بعد یہ بات فرمائی کہ ہر جاندار کے لئے اللہ کی طرف سے محافظ اور نگہبان مقرر ہیں سورة رعد میں صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ حفاظت اور نیکی بدی لکھنے کے لئے رات اور دن کے الگ الگ فرشتے ہر انسان پر خدا کی طرف سے مقرر ہیں صبح کی نماز کے وقت دن کو تعینات رہنے والے فرشتے اور عصر کے وقت رات کو تعینات رہنے والے فرشتے چوکی بدلوا دیتے ہیں اور ہر وقت انسان کے تمام جسم کی ہر طرح کی آفت سے اس وقت تک آدمی کی حفاظت کرتے ہیں جب تک تقدیری کوئی آفت پیش نہ آئے۔ زیادہ تفصیل اس کی سورة رعد کی تفسیر میں ہے اہل مکہ میں ایک شخص بڑا شہ زور ابوالاسد تھا اونٹ کی کھال پر جب وہ کھڑا ہوجاتا تو دس دس آدمی اس کھال کو پکڑ کر کھینچتے تھے یہاں تک کہ وہ کھال پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی تھی مگر وہ اپنی جگہ سے جنبش نہیں کرتا تھا سورة مدثر میں جب یہ آیت نازل ہوئی کہ دوزخ پر انیس فرشتے تعینات ہیں جن کو دوزخ کا خازن کہتے ہیں تو ابو الاسد نے کہا تھا کہ ان میں سے دس کو میں اکیلا کافی ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی آیت نازل فرما کر فرمایا کہ انسان کی کیا حقیقت ہے جو اللہ کے فرشتوں سے مقابلہ کرے گا ایک بوند پانی سے انسان پیدا ہوا اور پھر جب شہ زور کہلایا تو ہر وقت اللہ کے فرشتے ہر طرح کی آفت سے اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اس پر اس کی یہ جرأت کہ اللہ کے فرشتوں سے مقابلہ کر دعویٰ کرتا ہے۔ ترائب عورت کی چھاتیوں کے بیچ میں جو جگہ ہوتی ہے اس کو کہتے ہیں انہ علی رجعہ لقادر کی تفسیر علماء مفسرین ٢ ؎ نے دو طرح کی ہے۔ ایک تو یہ کہ جن اعضاء سے اللہ تعالیٰ نے منی کو نکالا ہے پھر ان اعضاء میں ہی منی کو پھیر دینا اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ چاہے تو اس کو پھر ان اعضاء میں پھیر دے اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ انسان کو پانی جیسی پتلی چیز سے دنیا میں سب کی آنکھوں کے سامنے پیدا کیا ہے حشر کے دن مٹی سے اس انسان کا پیدا کرنا بھی اس کی قدرت میں ہے منکرین حشر کی عقل ناقص ہے ورنہ عقل کا یہ کام نہیں ہے کہ پانی جیسی پتلی چیز سے انسان کے پتلے کے بن جانے کو دیکھ کر مٹی جیسی چیز سے اس پتلے کے بن جانے کا انکار کرے۔ پہلی تفسیر اگرچہ مجاہد کی ہے اور اوپر گزرچکا ہے کہ مجاہد کی تفسیر کے مقابلہ میں سلف میں سے دوسرے تابعین کا قول کم لیا جاتا ہے لیکن قرآن شریف کے آگے کی آیت میں قیامت کا ذکر تھا اور اس ذکر سے دوسری تفسیر کو زیادہ مناسبت تھی اس مناسبت کے سبب سے ابوجعفر ابن جریر ٣ ؎ اور مفسروں نے دوسری تفسیر کو یہی صحیح قراردیا ہے یہ دوسری تفسیر ضحاک کے قول کے موافق ہے۔ اگرچہ ضحاک بن مزاحم کے حضرت عبد اللہ بن عباس سے ملاقات کے ہونے اور ان سے تفسیر قرآن کے سیکھنے میں علماء کو کلام ہے مگر سعید بن جبیر سے ضحاک کی تفسیر کے حاصل کرنے میں کسی کو کلام نہیں۔ اس واسطے امام احمد بن معین اور ابوذرعہ وغیرہ نے ضحاک کو ثقہ اور فن تفسر میں بڑا معتبر قرار دیا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخایر باب قول اللہ تعرج الملئکۃ والروح الیہ الایۃ ص ١١٠٥ ج ٢ و صحیح مسلم باب فصل صلاتی الصبح والعصر الخ ص ٢٢٧ ج ١) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٩٨ ج ٤۔ ) (٣ ؎ ایضا۔ )
(86:1) والسماء والطارق۔ واؤ قسمیہ، السماء مقسم بہ واؤ قسمیہ الطارق مقسم بہٖ ۔ السماء معطوف علیہ۔ الطارق معطوف، قسم ہے آسمان کی اور رات کے آنے والے کی۔ الطارق اصل مغت کے اعتبار سے راستہ پکڑنے والا۔ رات کو آنے والا۔ طریق (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واضد مذکر۔ رات کا راہ گیر۔ صبح کا ستارہ۔ عام استعمال میں رات کو نمودار ہونے والے کو طارق کہتے ہیں۔
سورة الطارق۔ آیات ١ تا ١٧۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے آسمان کی اور اندھیروں میں چمکنے والے ستارے کی ، وہ جو تاریکی میں ظاہر ہوتا ہے یعنی جس طرح آسمان پرستارے موجود ہیں مگر جب دن ختم ہوتا ہے توجگمگانے لگتے ہیں ایسے ہی انسانی اعمال کا نظام ہے کہ ہر عمل محفوظ ہے جب موت کا اندھیراچھائے تو سامنے آجاتا ہے اور یقینا ہر متنفس پر نگہبان فرشتے جو اس کے کردار کو لکھتے ہیں۔ حدیث شریف میں یہ بھی ارشاد ہے کہ ہر متنفس پہ محافظ فرشتے مقرر ہیں جو اسے ہر بلا سے محفوظ رکھتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی اللہ کی طرف سے اس پر آئے۔ ذرادوبارہ زندگی کا انکار کرنے والا انسان یہ تو دیکھے کہ اسے کس طرح پیدا فرمایا اور کس چیز نے اسے وجود بخشا ایک اچھلتے ہوئے پانی یعنی ایک نطفے سے جو انسان کے بدن سے کشید ہو کر بنتا ہے کہ صلب اور سینے سے سارابدن مراد ہوسکتا ہے یعنی کتنا طویل عمل ہے کہ روئے زمین سے ایک ایک ذرہ جمع فرما کر مختلف چیزوں میں ڈھال کر انسانی بدن میں پہنچاتا ہے اور پھر کشیدکرکے نطفہ بنادیتا ہے اور پھر اسے انسانی قالب میں ڈھال کر کتنی خوبیوں سے سجا دیتا ہے بلاشبہ وہ اسے دوبارہ وجود بخشنے پر قادر ہے۔ اور نہ ماننے والوں کو بھی اس روز خبر ہوجائے گی جب ہر کسی کے پوشیدہ رازوں تک سے پردہ ہٹا دیاجائے گا یعنی روز حشر جب سب کے اعمال نامے سامنے آجائیں گے۔ منکرین میں نہ تو خود کوئی قوت ہوگی اور نہ کوئی دوسرا ان کی مدد کرسکے گا۔ یہ آسمان سے باربار پرستی بارش اور ہر بار زمین کا سینہ پھاڑ کرنکلتی روئیدگی بھی تو اس بات پہ گواہ ہے کہ ایک ہی بار نہیں وہ جتنی بار چاہے پیدا کرے اور یہ بالکل دوٹوخ بات ہے ہرگز مذاق نہیں ہے ہاں کفار اپنے خیال میں اپنے لیے بہت تدبیریں کرتے ہیں مگر اللہ کا نظام موجود ہے جوہر ایک کو اس کے منطقی انجام تک پہنچاتا ہے ۔ کفار کو چندے مہلت ہے کہ اپنے لیے راہ عمل متعین کرلیں۔
لغات القرآن۔ الطارق۔ اندھیرے میں آنے والا۔ چمکنے والا۔ دافق۔ اچھلنے والا۔ الصلب۔ پیٹھ۔ الترائب (تریبۃ) ۔ سینے کے اوپر کا حصہ۔ سرائر (سریر) ۔ پلنگ۔ مسہریاں۔ ذات الرجع۔ بار بار لوٹنے والا۔ ذات الصدع۔ پھٹ جانے والا۔ چکر لگانے والا۔ الھزل۔ ہنسی کھیل ۔ مذاق۔ اکید۔ میں تدبیر کرتا ہوں۔ مھل۔ مہلت دیدے۔ روید۔ کچھ دن۔ تھوڑے دن۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے سورة الطارق میں چار اہم باتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ ” الطارق “ یعنی ستارے کیا ہیں ؟ خود ہی جواب عنایت فرمایا کہ وہ روشن ستاروں کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ ہر شخص رات کے وقت ستاروں کی جگمگاہٹ اور روشنی میں ایک خاص نظم و ترتیب کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اگر انسان میں ذرا بھی دیانت کا جذبہ زندہ ہے تو وہ کہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس اتنی بڑی کائنات کو چلانے والی ضرور کوئی ایسی ہستی موجود ہے جو ان ستاروں کو کروڑوں اربوں سال سے ایک تسلسل کے ساتھ ایک ہی طرح چلا رہی ہے اور ان میں کبھی ذرا سا بھی فرق نہیں آتا۔ فرمایا کہ اللہ وہ ہے جو اس پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے اسے کائنات کے ذرے ذرے کا علم ہے۔ وہ اس زمین و آسمان اور پوری کائنات میں جہاں بھی کوئی موجود ہے وہ خود اور اس کے فرشتے اس کی پوری نگرانی کر رہے ہیں۔ اللہ کے حکم سے ہر شخص کے ساتھ اس فرشتے کو مقرر کیا گیا ہے جو اس کے ایک ایک عمل کو لکھ کر اس کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ قیامت قائم ہونے کے بعد ہر شخص کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اس نے جو عمل بھی دنیا سے چھپ کر کیا ہے یا اسے چھپا کر دنیا کی نظروں سے دور رکھا ہے وہ خود اس کو پڑ ھ لے گا اور اس کے مطابق جزا یا سزا کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اپنی آخرت کی فکر کرے اور اپنے برے انجام سے بچ سکے۔ 2۔ قرآن کریم میں کفار و مشرکین کے اس قول کو نقل کیا گیا ہے کہ ” جب ہم مر کر خاک ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں گی اور ہمارے جسم کے اجزاء بکھر جائیں گے تو ہم دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے “۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کو بھرپور جواب دیا ہے (اس موقع پر بھی ان کا یہ سوال نقل کئے بغیر ارشاد فرمایا ہے کہ) انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ فرمایا کہ وہ اچھلتے پانی یعنی نطفہ سے بنایا گیا ہے جو آدمی کے سینے اور پیٹھ کے درمیان سے نکلتا ہے۔ جب اللہ نے اس کو ایک حقیر طرے سے پہلی مرتبہ وجود عطا کیا ہے تو دوسری دفعہ اس کو پیدا کرنا کون سا مشکل اور ناممکن کام ہے۔ کیونکہ پہلی مرتبہ کسی چیز کو بنانا مشکل ہوتا ہے لیکن اسی کو دوسری مرتبہ بنانا مشکل نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ارشاد فرمادیا کہ جس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدا ہونا مشکل ہے یا نہیں بلکہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورتر ہے کہ جب سارے انسان دوبارہ پیدا کئے جائیں گے تو اس دن ہر شخص کے کئے ہوئے سارے اعمال اس کے سامنے ہوں گے اور اس دن وہ اپنے کسی عمل کو چھپا نہ سکے گا اور کسی طرف سے اس کی کو یء مدد بھی نہ ہوگی اگر اس نے دنیا میں حسن عمل نہیں کیا تو اس ہیبت ناک دن میں سوائے حسرت و افسوس کے اور کچھ بھی نہ ہوگا۔ 3۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ بلندی سے اتاری جانے ولای بارش اور نباتات کی قسم کہ یہ قرآن کریم حق و باطل کے درمیان فیصلے کی چیز ہے یعنی یہ قرآن تمام انسانوں کی روحانی اور اخلاقی تعلیم کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص کو صحیح اور غلط کی پوری طرح پہنچان ہوجائے۔ یہ ایک سنجیدہ اور باوقار کلام ہے کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ 4۔ چوتھی بات یہ ارشاد فرمائی کہ قیامت ایسی سچائی اور اٹل حقیقت کا نام ہے جس کے واقع ہونے میں شک کرنا بالکل غلط ہے۔ جب وہ وقت آئے گا تو سارے نطام کائنات کو توڑ دیا جائے گا۔ اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ قیامت کے دن پر سنجیدگی سے غوروفکر نہیں کرتے اور قرآن کے پیغام اور اس پر چلنے والوں کو ناکام بنانے کے تدبیریں اور سازشیں کرتے ہیں ان جیسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے مکرو فریب، سازشوں اور تدبیروں کے مقابلے میں اللہ بھی اپنی خفیہ تدبیریں کررہا ہے جو آخر غالب آکر رہیں گی اور کفار کی سازشیں دم توڑ دیں گی چناچہ تاریخ کے اوراق اس بات پر گوا ہیں کہ کافروں کی بڑی بڑی تدبیروں اور سازشوں کے باوجود وہ اسلام کے غلبے کو نہ روک سکے۔ البتہ منکرین اپنی تباہی کو دعوت دے کر دنیا اور آخرت میں دوبارہ برباد ہوگئے۔
فہم القرآن ربط سورت : البروج کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ ” اللہ “ کے ارشادات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں وہ انہیں ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہے۔ الطّارق میں نجم ثاقب کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس پر نگران مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے اسے اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جس رب نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے وہی رب قیامت کے دن انسان کو دوبارہ عدم سے وجود میں لائے گا۔ آسمان اور رات کے وقت نمودار ہونے والے ستارے کی قسم ! آپ کیا جانیں کہ رات کے وقت طلوع ہونے والا کیا ہے ؟ وہ ایک چمکنے والا ستارہ ہے۔ اہل علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو صبح صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے اور دیکھنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ میں لیمپ لیے ہوئے مشرق سے مغرب کی طرف جارہا ہو۔ جوں جوں اس ستارے کے غروب ہونے کا وقت آتا ہے اسی رفتار سے صبح روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس ستارے کی قسم کھا کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح یہ ستارہ نمودار اور غروب ہوتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلند وبالا آسمان اور اس ستارے کی قسم کھا کر انسان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اے انسان ! تجھے کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ تو آسمان کے نیچے مقید ہے اور تجھ پر نگران مقرر کیے گئے ہیں، ان میں کچھ ملائکہ ہیں جو تیری حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو تیری حفاظت پر مامور ہیں۔ جب تک انہیں حفاظت کرنے کا حکم ہوتا ہے اس وقت تک تو انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب اللہ کا لکھا ہوا غالب آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جونہی وہ پیچھے ہٹتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر انسان پر نافذ ہوجاتی ہے اور اس کے نفاذ کے وقت کوئی طاقت انسان کو بچا نہیں سکتی پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ” اللہ “ چاہتا ہے۔ (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ ) (الرعد : ١١) ” اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَ اٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے فرشتے آتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب سوال کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس ہوئے تو پھر بھی وہ نماز کی حالت میں تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور ستارے کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اس نے ہر انسان پر نگران مقرر کر رکھے ہیں۔ ٢۔ کچھ ملائکہ انسان کی حفاظت کرتے ہیں اور کچھ اس کے اعمال لکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر نگر ان مقرر کر رکھے ہیں : ١۔ بیشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود : ٥٧) ٢۔ اللہ ہی سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔ (الانبیاء : ٨٢) ٣۔ ہر ایک کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ (الرعد : ١١) ٤۔ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ” اللہ “ نے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١)
سورة الطارق ایک نظر میں اس پارے کے ابتدائیہ میں ہم نے بتایا تھا کہ یہ سورت دراصل انسان کے خوابیدہ احساس پر پے درپے شدید ضربات ہیں ، شدید ترین ضربات اور ایسی بےساختہ چیخ و پکار پر مشتمل ہے ، جو کسی ایسے شخص کو جگانے کے لئے کی جاتی ہے جو غفلت کی نیند میں غرق ہو ، یہ ضربات اور ان کے ساتھ یہ بےساختہ آوازیں کچھ اس مضمون کی ہیں۔ اٹھو ، جاگو ، دیکھو ، توجہ کرو ، غور کرو ، گہری سوچ سے کام لو۔ آخر اس کارخانہ قدرت کا ایک چلانے والا ہے۔ اس کائنات کی پشت پر ایک حکیمانہ قوت کام کررہی ہے۔ یہ پوری کائنات ایک لگے بندھے ضابطے کے مطابق چل رہی ہے۔ دیکھو اس جہاں میں تمہارا امتحان ہورہا ہے۔ تم اپنے اقوال وافعال کے ذمہ دار ہو ، پوری زندگی کا حساب و کتاب تم نے پیش کرنا ہے۔ ایک شدید عذاب بھی تیار ہے اور ایک عظیم نعمتوں بھری جنت بھی موجود ہے جس کا ایک عظیم مملکت کی طرح نظام ہے۔ یہ سورت ان خصوصیات کا نمونہ ہے۔ اس کی ضربات میں اسی طرح شدت ہے جس طرح ان کے مناظر شدید ہیں۔ موسیقی کا انداز بھی شدید ہے۔ الفاظ کا ترنم بھی شدید ہے ، اور معنوی اشارات میں بھی شدت ہے۔ مثلا الطارق ، الثاقب ، الدافق ، الرجع اور الصدع کے الفاظ لفظی اور معنوی اور ترنم میں شدت رکھتے ہیں۔ معنوی سختی کا نمونہ یہ ہے کہ ہر نفس کی نگرانی ہورہی ہے۔ ان کل .................... حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ اور قیامت کے دن ایسے شدید حالات ہوں گے کہ کسی کے پاس نہ کوئی اپنی طاقت ہوگی اور کوئی مددگار ہوگا۔ یوم تبلی ............................ ولا ناصر (10:86) ” جس روز پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی اس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا “۔ اور یہ قرآن کا آخری اور فیصلہ کن بات ہے۔ انہ لقول ........................ بالھزل (14:86) ” یہ ایک جچی تلی بات ہے یعنی مذاق نہیں ہے “۔ پھر اس سورة میں جو دھمکی دی گئی اس میں شدت اور سختی کا انداز شامل ہے۔ انھم ............................ رویدا (17:86) ” یہ لوگ کچھ چالیں چل رہے ہیں۔ میں بھی ایک چال چل رہا ہوں ، پس چھوڑ دو اے نبی ان کافروں کو ایک ذرا کی ذرا ان کے حال پر “۔ جس طرح ہم نے پارے کے مقدمہ میں کہا تھا اس میں وہ تمام موضوعات پائے جاتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک الٰہ ہے ، یہ کائنات ایک تدبیر اور تقدیر کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ زندگی ایک آزمائش ہے ، انسان یہاں اپنے افعال واقوال کا ذمہ دار ہے اور ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جہاں جزاء وسزا ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ جن کائناتی مناظر کو پیش کیا گیا ہے اور جن نظریاتی مقاصد کو پیش کیا گیا ہے ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ اور اس کی تفصیلی فصاحت اس وقت ہوگی جب ہم قرآن کریم کی آیات بھی بحث کریں گے۔ اپنے انداز بیان کے اعتبار سے قرآن کی آیات بو بےمثال حسن رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آسمان کی اور چمکتے ہوئے ستارہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ دنیا میں جو لوگ بھی رہتے اور بستے ہیں ان کے اعمال کی نگرانی کے لیے ہم نے فرشتے لگا رکھے ہیں ہر جان کے ساتھ فرشتہ لگا ہوا ہے۔ یہ فرشتے انسانوں کے اعمال کو لکھتے ہیں اور اعمالنامہ کو محفوظ کرلیتے ہیں پھر جب قیامت کا دن ہوگا تو یہ اعمال نامے انسانوں کے سامنے آجائیں گے۔ یہ حافظ ( کی ایک تفسیر ہے جو آیت کریمہ ﴿ وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَۙ٠٠١٠﴾ کے مطابق ہے بعض مفسرین نے فرمایا ہے اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو ہر انسان کی حفاظت کے لیے مقرر ہیں جس کا سورة ٴ رعد کی آیت ﴿ لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ﴾ میں ذکر ہے یعنی اللہ پاک نے ہر انسان کے لیے فرشتے مقرر فرما دیئے ہیں جو رات دن آفات سے انسان کی حفاظت فرماتے ہیں البتہ جو تکلیف مقدر ہے وہ تو پہنچ کر ہی رہے گی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے پہلا معنی مراد لینا ہی اظہر و اقرب ہے کیونکہ قیامت کے دن کی آزمائش اور پیشی کا ذکر ہے چونکہ انسانوں کی موت کے بعد زندہ کرنے کے بارے میں شک و شبہ رہتا ہے اس لیے ان کے شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ فرمایا، پھر فرمایا : ﴿ فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ٠٠٥﴾ (سو انسان غور کرے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے) ۔ پھر خود ہی اس کا جواب ارشاد فرمایا ﴿ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍۙ٠٠٦﴾ وہ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔
2:۔ ” والسماء “ یہ تخویف اخروی پر شاہد ہے۔ یعنی آسمان پر رات کو چمکنے والا ستارہ شاہد ہے کہ جس طرح وہ ستارہ روشن اور قائم رہتا ہے اسی طرح تم میں سے ہر ایک پر فرشتے نگران مقرر ہیں جو اس کے تمام اعمال خیر و شرکو لکھتے رہتے ہیں۔ ” ان کل نفس الخ “ جواب قسم ہے۔ ھو من یحفظ عملہا من الملائکۃ (علیہم السلام) و یحصی علیہا ما تکسب من خیر او شر الخ “ (روح ج 30 ص 96) ۔ ” النجم الثاقب “ چمکتا ستارہ سے روشن ستارہ مراد ہے جو نمایاں طور پر دوسرے ستاروں کی نسبت زیادہ روشن ہو یا مراد ثریا ہو یا زحل (مظہری) ۔