Surat ul Aala

Surah: 87

Verse: 1

سورة الأعلى

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾

Exalt the name of your Lord, the Most High,

اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to pronounce Tasbih and its Response Imam Ahmad recorded from Ibn `Abbas that whenever the Messenger of Allah would recite سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَْعْلَى Glorify the Name of your Lord, the Most High. he would say, سُبْحَانَ رَبِّيَ الاَْعْلَى Glory to my Lord, the Most High. Ibn Jarir recorded from Ibn Ishaq Al-Hamdani that whenever Ibn `Abbas would recite سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاّعْلَى (Glorify the Name of your Lord, the Most High.) he would say, "Glory to my Lord, the Most High," and whenever he would recite لااَ أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَـمَةِ (I swear by the Day of Resurrection.) and then reach the end of it أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يُحْيِىَ الْمَوْتَى (Is not He able to give life to the dead) (75:1,40) he would say, "Glory to You, of course." Qatadah said, "It has been mentioned to us that whenever the Prophet of Allah used to recite سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاّعْلَى (Glorify the Name of your Lord, the Most High), he would say, سُبْحَانَ رَبِّيَ الاَْعْلَى Glory to my Lord, the Most High." The Creation, the Decree, and the Bringing Forth of Vegetation Allah says, الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّى

مسند احمد میں ہے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ( فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74۝ۧ ) 56- الواقعة:74 ) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے تم اپنے رکوع میں کر لو جب آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) اتری تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں کر لو ابو داؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیت ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى Ǻ۝ۙ ) 87- الأعلى:1 ) پڑھتے تو کہتے سبحان ربی الاعلی حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے اور آپ جب آیت ( لا اقسم بیوم القیامۃ ) پڑھتے اور آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40؀ۧ ) 75- القيامة:40 ) پر پہنچتے تو فرماتے سبحانک و بلی اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے اپنے بلندیوں والے پرورش کرنے والے اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے جیسے اور جگہ ہے آیت ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى 50؀ ) 20-طه:50 ) یعنی ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا جس نے ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں موخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ زیادہ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں پھر فرماتا ہے کہ تجھے ہم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا پڑھائیں گے جسے تو بھولے نہیں ہاں اگر خود اللہ کوئی آیت بھلا دینا چاہے تو اور بات ہے امام ابن جریر تو اسی مطلب کو پسند کرتے ہیں اور مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ جو قرآن ہم تجھے پڑھاتے ہیں اسے نہ بھول ہاں جسے ہم خود منسوخ کر دیں اس کی اور بات ہے اللہ پر بندوں کے چھپے کھلے اعمال احوال عقائد سب ظاہر ہیں ہم تجھ پر بھلائی کے کام اچھی باتیں شرعی امر آسان کر دیں گے نہ اس میں کجی ہو گی نہ سختی نہ جرم ہو گا تو نصیحت کر اگر نصیحت فائدے دے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نالائقوں کو نہ سکھانا چاہیے جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دوسروں کے ساتھ وہ باتیں کرو گے جو ان کی عقل میں نہ آ سکیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہاری بھلی باتیں ان کے لیے بری بن جائیں گی اور باعث فتنہ ہو جائیں گی بلکہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق بات چیت کرو تاکہ لوگ اللہ اور رسول کو نہ جھٹلائیں ۔ پھر فرمایا کہ اس سے نصیحت وہ حاصل کریگا جس کے دل میں اللہ کا خوف ہے جو اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے اور اس سے وہ عبرت و نصیحت حاصل نہیں کر سکتا جو بد بخت ہو جو جہنم میں جانے والا ہو جہاں نہ تو راحت کی زندگی ہے نہ بھلی موت ہے بلکہ وہ لازوال عذاب اور دائمی برائی ہے اس میں طرح طرح کے عذاب اور بدترین سزائیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئیگی نہ کار آمد زندگی ملے گی ہاں جن کے ساتھ اللہ کا ارادہ رحمت کا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل کر مر جائیں گے پھر سفارشی لوگ جائیں گے اور ان میں سے اکثر کو چھڑا لائیں گے پھر نہر حیاۃ میں ڈال دئیے جائیں گے جنتی نہروں کا پانی ان پر ڈالا جائیگا اور وہ اس طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانہ نالی کے کنارے کوڑے پر اگ آتا ہے کہ پہلے سبز ہوتا ہے پھر زرد پھر ہرا لوگ کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں یہ حدیث مختلف الفاظ سے بہت سی کتب میں مروی ہے قرآن کریم میں اور جگہ وارد ہے آیت ( وَنَادَوْا يٰمٰلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ ۭ قَالَ اِنَّكُمْ مّٰكِثُوْنَ 77؀ ) 43- الزخرف:77 ) یعنی جہنمی لوگ پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک داروغہ جہنم اللہ سے کہہ وہ ہمیں موت دے دے جواب ملے گا تم تو اب اسی میں پڑے رہنے والے ہو اور جگہ ہے آیت ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) یعنی نہ تو ان کی موت آئیگی نہ عذاب کم ہوں گے اس معنی کی آیتیں اور بھی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبَّیَ ا لاَّعْلَیٰ (مسند احمد 232۔ 1)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] سبحان کا لغوی مفہوم : سَبَّحَ : ابن الفارس کے نزدیک لفظ سَبَّحَ کے بنیادی معنی دو ہیں (١) عبادت کی قسم، اور (٢) دوڑنے کی قسم، اور امام راغب کے نزیک سبح کا معنی کسی چیز کا پانی، ہوا میں تیرنا یا تیزی سے گزر جانا اور سَبَّاح یعنی تیراک ہے اور سبحان سبح سے مصدر ہے جیسے غفر سے غُفْرَان۔ فضا میں لاکھوں کروڑوں سیارے نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لرزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ تصادم یا ٹکراؤ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر و تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بےتدبیری، عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی مدبر ہستی جو اپنی تدبیر محکم سے کائنات کا انتظام چلا رہی ہے وہ اس انتظام و انصرام میں بلاشرکت غیرے مختار کل ہو۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے کا عمل دخل اس کائنات کے انتظام میں خلل انداز ہو کر اس میں گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے لہذا سُبْحَانَ سے مراد وہ ہستی ہوسکتی ہے جو ١۔ ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ہو۔ ٢۔ وہ بلاشرکت غیرے مختار کل بھی ہو اور ٣۔ کائنات کی تمام اشیاء پر پورا پورا کنٹرول بھی رکھتی ہو۔ اور تسبیح کرنے سے مراد ایسی ہستی کو ان صفات کے ساتھ یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو نماز کا حصہ بنادیا اور فرمایا کہ اجعلوھا فی سجودکم (یعنی اس کو اپنے سجدوں میں رکھو) پھر ہدایت فرمائی کہ سجدہ کی حالت میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرو۔ عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کے مطابق سجدے میں (سبحان ربی الاعلی) اور سورة واقعہ کی آخری آیت ( فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ 74۝ۧ) 56 ۔ الواقعة :74) کے مطابق رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) سبح اسم ربک الاعلی :” تسبح “ کا معین ہے ” ہر برائی سے پاک کرنا۔ “ رب الاعلیٰ کے نام کو پاک کرنے کے حکم کے مفہوم میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ ” سبحان ربی الاعلی “ کہو۔ چناچہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ” سبح اسم ربک الاعلیٰ “ پڑھتے تو کہتے :(سبحان ربی الاعلی) (ابوداؤد الصلاۃ باب الدعاء فی الصلاۃ ، ٨٨٣، وصححہ الالبانی)” پاک ہے میرا رب جو سب سے بلند ہے۔ “ اس کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں اس حکم پر عمل کے لئے ” سبحان ربی الاعلی “ کم از کم تین دفعہ پڑھتے تھے۔ (دیکھیے نسائی، التطبیق، باب نوع اخر : ١١٣٣، صحیح) ’ وسری یہ کہ اپنے رب کو ہر قسم کے نقص، عیب، کمزوری اور کسی بھی شریک سے پاک سمجھو اور اس کا اعلان کرتے رہو، تاکہ مشرکین اور باطل عقیدہ لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے۔ تیسری یہ کہ رب تعالیٰ کے نام کی تعظیم کرتے رہو، اسے ایسے طریقے سے یا ایسی جگہ یا ایسے الفاظ میں یاد نہ کرو جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، یا جس سے اس کی بےادبی ہوتی ہو یا استہزا کا پہلو نکلتا ہو یا اس کے ساتھ کسی کے شریک ٹھہرائے جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے لئے سب سے زیادہ سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس کیلئے وہی نام ساتعملا کئے جائیں جو خود اس نے اپنے لیء استعمال کئے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اللہ کا نام کسی مخلوق پر نہ بولو، مثلاً عبدالرحمٰن کو رحمان مت کہو۔ اگر لفظ مشترک ہو تو مخلوق پر اس انداز سے نہ بولو جس سے خلاق کو یاد کرنا چاہیے۔ (٢) ” اپنے رب کے نام کی تسبیح کر “ یا ” اپنے رب کی تسبیح کر “ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ ” رب “ بھی اس کا نام ہے۔ لفظ ” نام “ اسلئے بڑھایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ تک تو پہنچ ہی نہیں سکتے، تمہاری رسائی اس کے نام تک ہے، سو اس کی تسبیح کرتے رہو۔ بعض نے فرمایا کہ جب نام کی تسبیح ضرور i ٹھہری تو اس کی ذات تو بالا ولیٰ تسبیح کی حق دار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Ruling [ 1] Scholars have ruled that when anyone recites the verse: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (Pronounce the purity of the name of your most exalted Lord...87:1) it is commendable to say: سُبحانَ رَبِِّیَ الْأَعْلَى &I pronounce the purity of my most exalted Lord.& This was the practice of all the noble Companions, like Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbaa, Ibn ` Umar, Ibn Zubair, Abu Musa and ` Abdullah Ibn Masud (رض) Whenever they started reciting the Surah, they would recite: سُبحانَ رَبِِّیَ الْأَعْلَى &I pronounce the purity of my most exalted Lord.& [ Qurtubi ]. It should be noted that the desirability of reciting this is outside of the prayer. Ruling [ 2] Sayyidna &Uqbah Ibn ` Amir Al-Juhani (رض) narrates that when the Surah Al-A` la was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) instructed: اجعلوا فی سجودکم &Say this (SubhanaRabbiyal-A` 1a) in your sujud [ prostrations ] & سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (Pronounce the purity of the name of your Most exalted Lord.) The word tasbih means &to pronounce the purity& and سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ signifies to &honour the name of your Lord&. When the name of Allah is pronounced, it should be done with utmost humility and respect. His name should be kept pure and free from anything that is unbecoming to His sublime status. Allah should be called by the names He Himself has stated or taught the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It is not permitted to call Him by any other name. Ruling [ 3] Besides, it is also included in the above imperative that there are some names exclusively meant for Allah; calling human beings or any other creation by those specific names is contrary to declaring the purity of Allah. Therefore, it is not permissible. [ Qurtubi ]. Nowadays, people are not particular about names like ` Abdur Rahman, ` Abdur Razzaq, ` Abdul Ghaffar and ` Abdul Quddus. They call the persons bearing these names &Rahman&, &Razzaq&, &Ghaffar&, &Quddus& and so on, for short. People have got into the habit of shortening such names without realising that the speakers as well as the listeners are committing a sin. People commit this joyless sin day and night without any reason. Some commentators interpret the word &ism& does not mean &name& in this verse. Instead, they say, it is referring to the Dhat or the &Being& of Allah. According to the Arabic expressions, this interpretation is not unlikely, and the Qur&an has used the word &ism& in that sense also. The Hadith that instructs us to recite the tasbih in sajdah [ prostration ] is not |"I pronounce the purity of the name of my most exalted Lord, but |"I pronounce the purity of my most exalted Lord|". This indicates that in this context &ism& is not used in the sense of &name& but it refers to the Being of Allah Himself. [ Qurtubi ]

خلاصہ تفسیر (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (اور جو مومن آپ کے ساتھ ہیں) اپنے پروردگار عالیشان کے نام کی تسبیح (و تقدیس) کیجئے جس نے (ہر شی کو) بنایا پھر (اس کو) ٹھیک بنایا ( یعنی ہر شی کو مناسب طور پر بنایا) اور جس نے (جانداروں کے لئے ان کے مناسب چیزوں کو) تجویز کیا پھر (ان جانداروں کو ان چیزوں کی طرف) راہ بتلائی (یعنی ان کی طبائع میں ان اشیاء کا تقاضا پیدا کردیا) اور جس نے (سبز خوشنما) چارہ (زمین سے) نکالا پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا (اول عام تصرفات مذکور ہیں، پھر حیوانات کے متعلق پھر نباتات کے متعلق مطلب یہ ہے کہ طاعات کے ذریعہ آخرت کی تیاری کرنا چاہئے جہاں اعمال پر جزا و سزا ہونے والی ہے اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور آپ کو اس کی تبلیغ کے لئے مامور کیا ہے سو اس قرآن کی نسبت ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) ہم (جتنا) قرآن (نازل کرتے جاویں گے) آپ کو پڑھادیا کریں گے (یعنی یاد کرادیا کریں گے) پھر آپ ( اس میں سے کوئی جز) نہیں بھولیں گے مگر جسقدر (بھلانا) اللہ کو منظور ہو ( کہ نسخ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کما قال تعالیٰ ما ننسخ من ایة اوننسھا سو وہ البتہ آپ کے اور سب کے ذہنوں سے فراموش کردیا جاوے گا، اور یہ یاد رکھانا اور فراموش کردینا سب قرین حکمت ہوگا کیونکہ) وہ ہر ظاہر اور مخفی کو جانتا ہے (اس لئے اس سے کسی چیز کی مصلحت مخفی نہیں، تو جب کسی چیز کا محفوظ رکھنا مصلحت ہوتا ہے محفوظ رکھتے ہیں، اور جب بھلادینا مصلحت ہوتا ہے تو بھلا دیتے ہیں) اور (جیسا ہم آپ کے لئے قرآن کا یاد ہونا آسان کردیں گے اسی طرح) ہم اس آسان (شریعت کے ہر حکم پر چلنے) کے لئے آپ کو سہولت دیدیں گے (یعنی سمجھنا بھی آسان ہوگا اور عمل بھی آسان ہوگا اور تبلیغ بھی آسان ہوجاوے گی اور مزاحمتوں کو دفع کردیں گے، اور شریعت کی صفت یسری لانا بطور مدح کے ہے یا اسلئے کہ وہ سبب ہے یسر کا، اور جب ہم آپ کے لئے وحی کے متعلق ہر کام آسان کردینے کا وعدہ کرتے ہیں) تو آپ (جس طرح خود تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اس طرح دوسروں کو بھی) نصیحت کیا کیجئے اگر نصیحت کرنا مفید ہوتا ہو (مگر جیسا کہ ظاہر اور معلوم ہے کہ نصیحت اپنی ذات میں ہمیشہ مفید ہی ہوتی ہے کما قال تعالیٰ فان الذکری تنفع المومنین حاصل یہ ہوا کہ جب نصیحت نفع کی چیز ہے تو آپ نصیحت کرنے کا اہتمام کریں، مگر باوجود اسکے کہ نصیحت اپنی ذات میں نافع و مفید ہے اس سے یہ نہ سمجھئے کہ وہ سب ہی کے لئے مفید ہوگی اور سب ہی اس کو مان لیں گے بلکہ) وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو (خدا سے) ڈرتا ہے اور جو سخت بدنصیب ہے وہ اس سے گریز کرتا ہے جو (آخر کار) بڑی آگ میں (یعنی آتش دوزخ میں جو دنیا کی سب آگوں سے بڑی ہے) داخل ہوگا پھر (اس سے بڑھ کر یہ کہ) نہ اس میں مرہی جاوے گا اور نہ (آرام کی زندگی) جئے گا ( یعن یجس جگہ نصیحت قبول کرنے کی شرط موجود نہیں ہوتی وہاں اگرچہ اس کا اثر ظاہر نہ ہو مگر نصیحت فی نفسہ نافع ومفید ہی ہے، اور آپ کے ذمہ اسکے واجب ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ خلاصہ اول سورت سے یہاں تک کا یہ ہوا کہ آپ اپنی بھی تکمیل کیئجے اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کیجئے کہ ہم آپ کے معاون ہیں۔ آگے اس کی تفصیل ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں) بامراد ہوا جو شخص (قرآن سنکر عقائد باطلہ اور اخلاق ذیلہ سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا (مگر اے منکرو تم قرآن سن کر اس کو نہیں مانتے اور آخرت کا سامان نہیں کرتے) بلکہ تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور پائیدار ہے ( اور یہ مضمون صرف قرآن ہی کا دعویٰ نہیں بلکہ) یہ مضمون اگلے صحیفوں میں بھی ہے، یعنی ابراہیم و موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں (روح المعافی میں عبدبن حمید کی روایت سے حدیث مرفوع مذکور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر دس صحیفے نازل ہوئے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کے نزول سے پہلے دس صحیفے نازل ہوئے) معارف ومسائل مسئلہ : علماء نے فرمایا ہے کہ قاری جب سبح اسم ربک الاعلے ٰ کی تلاوت کرے تو مستحب ہے کہ یہ کہے سبحان ربی الاعلی، صحابہ کرام حضرت عبداللہ بن عباس، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسیٰ اور عبداللہ بن مسعود (رض) اجمعین کا یہی معمول تھا کہ جب یہ سورت شروع کرتے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرتے تھے (قرطبی) یعنی نماز کے سوا جب تلاوت کریں تو ایسا کہنا مستحب ہے۔ مسئلہ : حضرت عقبہ بن عامرجہنی سے روایت ہے کہ جب سورة سبح اسم ربک الاعلی نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اجعلوھا فی سجود کم یعنی یہ کلمہ سبحان ربی الاعلیٰ اپنے سجدہ میں کہا کرو سبح اسم ربک الاعلیٰ ، تسبیح کے معنی پاک رکھنے اور پاکی بیان کرنے کے ہیں، سبح اسم ربک کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو پاک رکھئے، اور ہر ایسی چیز سے اس کے نام کو پاک رکھئے جو اسکے شایاں نہیں، اس میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان ناموں سے پکاریئے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے بیان فرمائے ہیں یا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلائے ہیں ان کے سوا کسی اور نام سے اس کو پکارنا جائز نہیں۔ مسئلہ : اسی طرح اس حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے وہ کسی مخلوق کیلئے استعمال کرنا اس کی تنزیہہ و تقدیس کے خلاف ہے اسلئے جائز نہیں (قرطبی) جیسے رحمن، رزاق، غفار، قدوس وغیرہ آجکل اس معاملے میں غفلت بڑھتی جارہی ہے، لوگوں کو ناموں کے اختصار کا شوق ہے، عبدالرحمن کو رحمن، عبدالرزاق کو رزاق، عبدالغفار کو غفار بےتکلف کہتے رہتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ اس کا کہنے والا اور سننے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں اور یہ گناہ بےلذت رات دن بلاوجہ ہوتا رہتا ہے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ اسم سے مراد خود مسمی کو ذات مراد لی ہے اور عربی زبانکے اعتبار سے اس کی گنجائش بھی ہے اور قرآن کریم میں بھی اس معنے کے لئے استعمال ہوا ہے، اور حدیث میں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلمہ کو نماز کے سجدے میں پڑھنے کا حکم دیا اس کی تعمیل میں جو کلمہ اختیار کیا گیا وہ سبحان اسم ربک الاعلیٰ نہیں بلکہ سبحان ربی الاعلیٰ ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسم اس جگہ مقصود نہیں خود مسمیٰ مراد ہے۔ (قرطبی) واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝ ١ ۙ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) آپ اپنے پروردگار کے حکم سے نماز پڑھیے، یا یہ کہ اس کی توحید بیان کیجیے، یا یہ کہ سجدہ میں سبحان ربی الاعلی کہیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی ۔ } ” پاکی بیان کرو اپنے رب کے نام کی جو بہت بلند وبالا ہے۔ “ یہ حکم یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ” اپنے رب کی پاکی بیان کرو “ لیکن یہاں خصوصی طور پر اسم (نام) کا لفظ اس لیے آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے تصور سے وراء الوراء ‘ ثم وراء الوراء ہے۔ اس کی ذات کے ساتھ ہمارا ذہنی و قلبی تعلق صرف اور صرف اس کے ناموں کے حوالے سے ہے۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے : { وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص } (الاعراف : ١٨٠) ” اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اسے اُن (اچھے ناموں) سے “۔ چناچہ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو ظاہر ہے اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 Literally: "Purify the name of your Lord, the Highest." This can have several meanings and all are implied: (1) Allah should be remembered by the names which fit Him, and no such name should be used for His exalted Being which, with regard to its meaning and sense, does not fit Him, or which reflects some aspect of deficiency, lack of reverence, polytheism about Him, or which refers to some wrong belief in respect of His Being, attributes, or works. For this purpose, the safest way is that only such names be used for Allah, which He himself has mentioned in the Qur'an, or which are a correct translation of these names in other languages. (2) Allah should not be remembered by the names as are used generally for the created beings, or the created beings should not be called by names as are specifically meant for AIlah. And if there are some attributive names which are not specifically meant for Allah, but may also be used for the created beings, such as Ra'uf (Kind) , Rahim (Compassionate) , Karim (Generous) , Sami`( I Hearing) , Basir (Seeing) , etc. one should exercise due care not to use them for man as they are used for Allah. (3) AIlah should not be mentioned in a way or in a state which reflects lack of respect for Him; for example, to mention His name when engaged in mockery or jest, or when in the lavatory, or while committing a sinful act, or before the people who might behave insolently in response or in assemblies where the people are engaged in absurd things and might laugh off His mention, or on an occasion when it is feared that the hearer will hear it disdainfully. About Imam Malik, it is related that when a beggar begged him for something and he did not have anything to give, he would not turn away the beggar, saying that Allah would help hisn, as is commonly done by the people, but he would excuse himself in some other way. When asked why he did so, he replied: "When the beggar is not given anything and one makes an excuse, it inevitably displeases him. On such an occasion, I do not like to mention Allah's name, for I do not like that somebody should hear His name in a state of annoyance and displeasure." In the Hadith, it has been reported from Hadrat `Uqbah bin `Amir Juhani that the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) had enjoined recitation of Subhana Rabbi yal-A Ya in the sajdah on the basis of this very verse, and the recitation of Subhana Rabbi yal-'Azim in ruku `on the basis of the last verse of Surah AI-Waqi'ah, viz. Fa-sabhih bi-isrni-Rabbi-kal- Azim." (Musnad Ahmad, Abu Da'ud, lbn Majah, Ibn Hibban, Hakim, Ibn al-Mundhir) .

سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :1 1 ۔ لفظی ترجمہ ہو گا اپنے ربِ برتر کے نام کو پاک کرو ۔ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں ۔ ( 1 ) اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کیا جائے جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں ہیں ، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے ، یا جن میں اس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ اس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ، یا جو دوسری زبان میں ان کا صحیح ترجمہ ہوں ۔ ( 2 ) اللہ کے لیے مخلوقات کے نام ، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں ۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے ، مثلاً رؤف ، رحیم ، کریم ، سمیع ، بصیر وغیرہ ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔ ( 3 ) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو ، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا ، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں ، یا ایسی مجلسوں میں اس کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں ، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا ۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے ۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے ۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سنے ۔ احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا ، اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنے کا جو طریقہ حضور نے مقرر فرمایا تھا وہ سورہ واقعہ کی آخری آیت فسبخ باسم ربک العظیم ۔ پر مبنی تھا ( مسند احمد ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، حاکم ، ابن المنذر ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٣۔ ہجرت سے پہلے بلکہ فتح مکہ تک جو کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات صفات اور احکام میں شرک کا رواج تھا وہ تو سب کو معلوم ہے اس مکی سورة کے اول میں فرمایا کہ اہل مکہ کی شرک کی باتوں سے اے نبی اللہ کے تم اور تمہارے ساتھی اللہ کی توحید ہر دم ورد زبان رکھو تاکہ ان مشرک اہل مکہ کے کان بھی ذرا توحید کی آواز سے آشنا ہوجائیں اسی واسطے اکثر صحابہ ١ ؎ جب اس آیت کو پڑھا کرتے تھے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرتے تھے۔ خلق نسوی کا یہ مطلب ہے کہ انسان حیوان سب کو مناسب اعضا مناسب حالت میں پیدا کیا والذی قدر فھدیٰ کی تفسیر کے طور پر مسند امام احمد صحیح مسلم ٢ ؎ وغیرہ میں جو صحابہ کی ایک جماعت سے روایت ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے اس سب کو دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے اندازہ کے طور پر معلوم کرلیا ہے اب جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اخیر کو اسی راہ سے جا لگتا ہے جو راہ اندازہ کے طور پر علم ازلی میں قرار پا چکی ہے لیکن جس طرح پر بیمار کی موت اور تندرستی تقدیر الٰہی ٹھہر چکی ہے اور پھر شریعت میں ہر بیماری کے علاج کرنے کا بھی حکم ہے اور جس بیمار کا علاج تقدیر الٰہی کے موافق پڑتا ہے وہ بیمار علاج سے تندرست بھی ہوجاتا ہے اسی طرح شریعت میں ہر آدمی کو نیک کام کرنے کا حکم ہے جو شخص علم ازلی میں نیک ٹھہر چکا ہے وہ نیک حالت میں دنیا سے اٹھتا ہے اور جو شخص علم ازلی میں بدقرار پا چکا ہے جیسے مرنے والے بیمار کو کوئی علاج مفید نہیں پڑتا اور اخیر کو وہ بیمار مرجاتا ہے اسی طرح اس بد شخص کو ابتدائے عمر سے یا اخیر عمر میں نصیحت شرعی مفید نہیں پڑتی اور عمر بھر یا آخری عمر میں ایسے بدکام کرکے وہ شخص دنیا سے اٹھ جاتا ہے جس سے اس کی عقبیٰ خراب ہوجاتی ہے بہت سی صحیح حدیثوں میں یہ مطلب تفصیل سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اس اندازہ کے موافق کسی فعل کے کرنے پر اللہ نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے لیکن وہ خدا غیب دان کا کیا ہوا اندازہ ہے اس واسطے اپنے اختیار سے انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اخیر کو اس اندازہ کے مطابق پڑتا ہے۔ چوپاؤں پر انسان کی طرح کچھ تکلیف شرعی نہیں ہے بلکہ وہ فقط انسان کی ہر طرح کی ضرورت کے لئے دنیا میں پیدا کئے گئے ہیں ان کے کھانے پینے کا انتظام دنیا میں کیا جانا اور اس کے برتاؤ کی سمجھ ان کو دے کر پھر ان کو دنیا میں پیدا کردینا یہی ان کا اندازہ تقدیری تھا اس لئے ان کے چارہ کا ذکر الگ فرمایا۔ گھانس کے پہلے سرسبز اور پھر خشک ہو کر سیاہی مائل اور بالکل کوڑے کے مانند ہوجانے کے تذکرہ میں یہ اشارہ ہے کہ یہی حال دنیا کی تمام چیزوں کا ہے کہ اس کی ہر ایک چیز کا کمال زوال سے خالی نہیں اور جب یہ بات ہے تو دنیا فقط اس لئے نہیں پیدا کی گئی ہے کہ اس کا کمال وزوال بغیر کسی نتیجہ کے ایک تماشے کے طور پر ہو بلکہ دنیا کے بعد اس کا ایک بہت بڑا نتیجہ یہی ہے جس کا نام قیامت ہے۔ اسی کے یہ لوگ منکر اور کم عقلی سے دنیا کی پیدائش کو بغیر نتیجہ کا ایک تماشا ٹھہراتے ہیں۔ طبرانی ١ ؎ تفسیر کلبی وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) جب وحی لاتے اور آیات قرآن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رو برو پڑھنا شروع کرتے تو حضرت جبرئیل کی قرأت کے ختم ہونے سے پہلے آیت کے کچھ لفظ بھول جانے کے خوف سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ادھوری آیت کے لفظوں کو حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اللہ تعالیٰ نے آیت سنقرئک فلاتنسی الاماشاء اللہ نازل فرما کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ فرمایا کہ وحی کے لفظوں میں سے جو کچھ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بھولیں گے اس وعدہ میں یہ جو فرمایا کہ الاماشاء اللہ اس کا مطلب سورة بقر میں گزر چکا ہے کہ قرآن شریف کی آیتوں کے منسوخ ہوجانے میں ایک صورت یہ بھی ہے کہ دل سے ان آیتوں کے لفظوں کی یاد اڑ جاتی ہے چناچہ صحیح ٢ ؎ مسلم میں ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں سورة برأت کے برابر ایک سورة صحابہ پڑھا کرتے تھے اب اس میں کا فقط یہ ٹکڑا یاد ہے لوکان لا بن ادم وادیان من مال لتبغی وادیا ثالثا ولا یملاء جو فہ الا التراب حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ وحی کے نہ بھولنے کا وعدہ ان آیتوں کے حق میں ہے جو آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں۔ منسوخ آیتوں کے حق میں یہ وعدہ نہیں ہے جن کو الا ماشاء اللہ فرما کر اس وعدہ سے الگ کردیا گیا ہے انہ یعلم الجھر و ما یخفیٰ کا مطلب یہ ہے کہ جن آیتوں کی قرأت اللہ کو دنیا میں باقی رکھنی ہے اور جن کی قرأت باقی نہیں رکھنی ہے یہ سب حال خدا کو معلوم ہے اس لئے اس غیب دان نے الا ماشاء اللہ فرما کر بعضی آیتوں کو اس وعدہ سے الگ کردیا ہے پھر فرمایا اے نبی اللہ کے اس وحی کے لفظوں کو یاد رکھنا اور ان کے موافق لوگوں کو نصیحت کا کرنا ہم تمہارے لئے ایسا آسان کردیں گے جس سے تم کو کوئی دقت باقی نہ رہے گی اور اس نصیحت کا اثر سب لوگوں پر یکساں ہو یہ تمہارا کام نہیں تمہارا کام یہی ہے کہ تم سب کو نصیحت کرتے لے جاؤ۔ تقدیر الٰہی کے موافق جو لوگ راہ راست پر آنے والے ہیں وہ خود راہ راست پر آجائیں گے اور جن کی قسمت میں دوزخ ہے وہ اس نصیحت سے بھاگیں گے اور آخر دوزخ میں جائیں گے اور پھر دوزخ میں جانے کے بعد ان پر یہ مصیبت پڑے گی کہ نہ وہ وہاں مریں گے کہ مر کر چھٹکارا ہوجائے نہ ایسی زیست جئیں گے جس زیست سے ان کو کچھ راحت ملے۔ صحیح ١ ؎ بخاری ومسلم و ترمذی وغیرہ کی ابوہریرہ (رض) کی حدیث اور گزر چیک ہے کہ دوزخ کی آگ کی تیزی دنیا کی آگ سے اونہتر حصے بڑھی ہوئی ہے اس واسطے دوزخ کی آگ کو بڑی آگ فرمایا۔ ثم لا یموت فیھا ولا یحییٰ ان کے حق میں ہے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کے قابل ہیں ورنہ بعض کلمہ گو جنہوں نے نیک عمل کچھ نہیں کئے دوزخ میں مر کر کوئلے ہوجائیں گے اور سب شفاعتوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کی لاشیں لپ پھر کر دوزخ سے باہر نکالے گا اور نہر حیات میں غوطہ دینے سے وہ لوگ پھر زندہ ہو کر جنت میں جائیں گے چناچہ ابو سعید خدری (رض) کی روایت سے بہت بڑی حدیث جو بخاری ٢ ؎ و مسلم میں ہے اس میں اس کا ذکر ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ النار و انھا مخلوقۃ ص ٤٦٢ ج ١۔ ٢ ؎ صحیح بخاری کتاب الرد علی الجھمیۃ ص ١١٠٧ جلد ٢ و صحیح مسلم باب اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربہم الخ ص ١٠٢ ج ١۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٢٦ ج ٦) (٢ ؎ صحیح مسلم باب کراھۃ الحرص علی الدنیا ص ٣٣٥ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(87:1) سبح اسم ربک الاعلی : سبح فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تسبیح (تفعیل) مصدر سے۔ تو تسبیح کر، تو پاکی بیان کر۔ تو عبادت کر۔ اسم مفعول سبح کا مضاف ربک مضاف مضاف الیہ ۔ مل کر اسم کا مضاف الیہ اپنے رب کے نام کی۔ الاعلی صفت ہے رب کی۔ علو (باب نصر) مصدر سے اور علا یعلوا کا مصدر ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ (اے پیغمبر) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو۔ بعض علماء کا قول ہے کہ آیت میں اسم سے مراد ذات مسمی ہے جیسے آیت ما تعبدون من دونہ الا اسماء سمیتموھا انتم واباء کم (12:40) جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں ۔ جو تم نے اور تمہارے باپ داد نے رکھ لئے ہیں (یہاں اسماء سے مراد مسمی ہیں) یعنی بت۔ بعض علماء کے نزدیک لفظ اسم زائد ہے ۔ مراد یہ ہے کہ زبان سے اپنے رب کی پاکی بیان کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی جو باتیں اس کی شان کے لائق نہیں ہیں (جیسے شرک یا بندوں جیسی کمزوریاں وغیرہ) ان سے اس کی پاکی بیان کیا کرو۔ حضرت عتبہ بن عامر کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اسے اپنے سجدوں کے لئے مخصوص کرلو۔ “ اس لئے سجدہ میں ’ دسبحان ربی الاعلی کہا جاتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الاعلی۔ آیات ١ تا ١٩۔ اسرار ومعارف۔ اپنے پروردگار کے اعلی نام کی پاکی بیان کیجئے جس نے مخلوق کو عدم سے وجود بخشا کچھ بھی نہ تھا پھر سب کچھ پیدا فرمایا۔ مسئلہ : جب یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی تو آپ نے اسے سجدے کے لیے مقرر فرمایا۔ پھر تمام اجسام کو ایک انتہائی مناسب اندازے کے مطابق شکل و صورت دی اور جس کو جس کام کے لیے بنایا اسے اس کام کی استعداد بھی بخشی اور اس کی طرف میلان بھی عطا فرمایا۔ قدرت کا عطیہ۔ یہ سارے نظام کائنات میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ہر ذرے کو صورت ، شعور ، اور فطری کام کی استعداد عطا کرکے ایسا میلان بخشا کہ سوج ، چاند ، ستارے ، بادل ، ہوا ، جمادات ونباتات ہر ایک شے اپنے وقت پر اپنا کام کررہی ہے اسی طرح حیوانات کو ان کے کاموں کا فطری شعور بخشا پرندے اڑتے ہیں پانی کے جانور تیرتے ہیں ، جنگلی حیات اپنے تحفظ ، غذا اور بقائے نسل کے لیے کیسے کیسے اہتمام کرتی ہے۔ سائنس۔ اسی طرح انسان کو دنیا کی اشیاء کا استعمال اور اس کے استعمال کے طریقے جاننے کی استعداد عطا کردی جو ان طریقوں کو جان لیتا ہے سائنسدان کہلاتا ہے کہ سائنس نئی شے تخلیق نہیں کرتی انہی اشیاء کو جوڑ کر کچھ بناتی ہے اسی طرح انسانی فطرت میں اللہ کی طلب اس کے قرب کے حصول کی استعداد بھی رکھ دی اور سامان ہدایت بھی مہیا فرمایا ، فتبارک اللہ احسن الخالقین ، سب اسی کی قدرت ہے کہ سرسبزچارہ اگاتا ہے اور پھر وہ فرسودہ ہوکرسیاہ کوڑا بن جاتا ہے ہر زندگی کا جو دنیا میں ہے انجام سامنے ہے جلدی یابدیر ایسا ہی ہونے والا ہے اور اے حبیب ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے جو کبھی آپ کو بھولے گا نہیں یعنی آپ فکرنہ کیجئے کہ جبرائیل امین کے جانے کے بعد آپ کے وحی بھول جائے گا ایسانہ ہوگا۔ عالم اسباب کا قانون۔ عالم اسباب میں فرشتے کا آناسبب ہے کہ یہ عالم اسباب کا قانون ہے ورنہ آپ کو کلام الٰہی یاد کر انایہ خود اللہ کا کام ہے ہاں وہ آیات جو اللہ منسوخ کردے وہ بھول جائیں تو الگ بات ہے کہ ان کا بھلانا ہی اللہ کو منظور ہے ، علماء کا ارشاد ہے کہ نسخ کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ آیت آپ اور مسلمانوں کے حافظہ سے محو کردی جاتی ، کہ اللہ ہر بات سے باخبر ہے وہ ظاہر ہو یا بہت پوشیدہ کی گئی ہو۔ شریعت کا طبیعت ثانیہ بن جانا۔ ہم زندگی کی آسان راہ یعنی دین یا شریعت کو آپ کے لیے آسان تر کردیں گے یعنی طبیعت ثانیہ بنادیں گے یہ کمال ہے نبی اکرم کا کہ دین پر عمل آپ کا مزاج مبارک تھا یہی نعمت والی اللہ کو بقدر استطاعت اتباع ، نبوت سے نصیب ہوتی ہے اور آپ نصیحت کیجئے کہ اسی سے فائدہ متوقع ہے۔ نصیحت اور ذکرالٰہی۔ اور یہ بھی مراد ہے کہ اللہ کا ذکر کیا جائے کہ شریعت مطہرہ کا مزاج اور طبیعت ثانیہ بنانے کا نسخہ ہے اس سے چھوڑ کر الگ ہونے والا وہی ہوسکتا ہے یعنی شریعت اور ذکر الٰہی کو کہ جو بہت ہی بدقسمت ہوگا اور جہنم کا ایندھن بنے گا جہاں نہ تو کوئی زندگی کا تصور ہوگا اور نہ موت ہی آئے گی یقینا اس نے کامیابی حاصل کی جس نے آپ آپ سنوار لیا۔ ذکر اسم ذات۔ اور خود کو عقیدے اور عمل کی نجاست سے پاک کرلیا کہ اللہ کے نام کا ذکر کیا ، اللہ اللہ کی تکرار کرتا رہا جس سے توفیق عبادت اور عبادت میں خشوع و خضوع نصیب ہوا اور عملی زندگی ، کاروبار ، صلح اور جنگ ، گھر اور خاندان سے لے کر قومی زندگی تک ہر عمل عبادت کی شکل اختیار کر گی اور نہ جو لوگ اللہ کے ذکر سے محروم رہے وہ دنیا کی محبت میں گرفتار ہوئے اور دنیا حاصل کرنے کے لیے آخرت سے ہاتھ دھوبیٹھے حالانکہ دنیا اور اس کی لذتیں فانی تھیں اور ہیں اور آخرت اس سے بہت ہی بہتر ہے اور ہمیشہ رہنے والی بھی۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ ذکر الٰہی سے توفیق اطاعت نصیب ہو کر حصول آخرت کی توفیق کا سبب بنتی ہے جو صحیفوں اور آسمانی کتابوں میں بھی بتادی گئی تھی خواہ کتابیں ابراہیم (علیہ السلام) پر اتریں یاموسی (علیہ السلام) پر۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ سنح۔ تسبیح کر۔ قدر۔ اندازہ کیا۔ المرعی۔ چارہ (جانوروں کی غذا) ۔ غثائ۔ کوڑا۔ کباڑ۔ احوی۔ سیاہ۔ نقری۔ ہم پڑھائیں گے۔ لا تنسی۔ تو نہ بھولے گا۔ یسری۔ آسانی۔ ذکر۔ سمجھا دے۔ ذکر کر۔ یتجنب۔ وہ بچے گا۔ الاشقی۔ بدنصیب۔ بدقسمت۔ افلح۔ کامیاب ہوا۔ تزکی۔ جس نے تزکیہ کیا۔ اپنے آپ کو پاک صاف کیا۔ تو ثرون۔ تم ترجیح دیتے ہو۔ اختیار کرتے ہو۔ ابقی۔ باقی رہنے والا۔ تشریح : ان آیات ہی میں شروع سے لے کر آخر تک نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرے ہوئے چند بنیادی اصولوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ فرمایا۔ ٭اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے اس پروردگار کی پاکیزگی یعنی حمدو ثنا بیان کرتے رہییے جو سب سے بلندو برتر اور اعلیٰ ہے۔ ٭اسی نے انسان کو بالکل ٹھیک اور درت بنا کر اس کی ایک انداز پر رہنمائی کی ہے۔ یعنی وہی پیدا کرنے والا ہے لیکن وہ پیدا کرکے بھول نہیں گیا بلکہ اس کی تقدیر لکھ کر اس کو راستہ دکھایا اور اس کی اصلاح کے اصول نازل فرمائے تاکہ وہ اپنے کاموں کو اسی طرح انجام دے جس طرح اس کو ہدایت دی گئی ہے۔ ٭اسی نے انسانوں کی رہمنائی کے لئے اپنا کلام اور ان کے جسم کی بقا کے لئے اگر اسبابِ رزق پیدا کئے ہیں تو اس نے جانوروں کے لئے ایسا چارہ پیدا کیا ہے کہ اگر وہ تروتازہ رہتا ہے تو اس کا اپنا لطف ہے اور اگر وہ خشک ہو کر سیاہ کوڑا بن جائے تب بھی وہ جانوروں کے لئے وہی لطف دیتا ہے جس طرح ہرا چارہ۔ ٭اسی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنا کلام نازل کیا جس کی حفاظت کی ذمہ داری اس نے خود اپنے اوپر لے رکھی ہے۔ وہی اس کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کی طرف سے نازل کی گئی وحی کو یاد کرنے کی کوشش کرتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اندیشہ رہتا کہ کہیں میں اس کو بھول نہ جاؤں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس کی پرواہ نہ کریں ہم آپ کی طرف جو وحی بھیجیں گے اس کو ہم اس طرح آپ کو سکھائیں گے اور پڑھائیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے۔ ہاں خود ہم ہی چاہیں گے تو اس کلام کو واپس بھی لے سکتے ہیں یا اس کو منسوخ کرکے دوسرا کلام بھی بھیج سکتے ہیں۔ اس بات کو اللہ بہتر جانتا ہے جو ہر چیز کے پوشیدہ اور کھلے ہوئے ہر راز سے واقف ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس کی فکر نہ کریں کہ قرآن یعنی وحی الٰہی کی حفاظت کیسے ہوگی ؟ ٭وہی اللہ آپ کو دی کے فروگ اور ترقی کے لئے ہر طرح کی آسانیاں عطا فرمائے گا۔ آپ تو اس کلام کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیے۔ جس کے مقدر میں یہ سعادت ہے کہ وہ سن کر اس پر عمل کرے گا۔ سوچ سمجھ کر اور غوروفکر کرکے جو اس کا اثر قبول کرے گا وہی خوش نصیب ہے۔ آپ تو نصیحت کرتے رہیے اگر نصیحت کرنا مفید ہو۔ اور یقینا نصیحت تو انسان کو فائدہ ہی دیتی ہے جو بھی تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی کو اختیار کرتا ہے وہ آپ کی نصیحت سے پورا پورا فائدہ حاصل کرے گا لیکن بد نصیب انسان آپ کی نصیحت کو قبول کرنے کے بجائے اس سے بھاگے گا۔ فرمایا کہ ایسے بدنصیب لوگوں کا انجام یہ ہے کہ ان کو اس بڑی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں نہ وہ مریں گے نہ جبیں گے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامیاب تو صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو عقیدہ، عمل اور اخلاق کی گندگی سے دور رکھ کر اپنے رب کو یاد کیا اور نمازوں کو قائم کیا۔ لیکن وہ سخت بدنصیب اور ناکام لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی زیب وزینت، خوبصورتی ترجیح دی حالانکہ آخرت کی زندگی تو وہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ دنیا کی زندگی تو وقتی اور عارضی ہے اس میں کسی چیز کو بھی بقا نہیں ہے بقا تو صرف آخرت کی زندگی کو ہے۔ ٭ فرمایا کہ یہ سچائیاں جو قرآن کریم میں ہیں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ان ہی سچائیوں کو لے کر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے صحیفوں یعنی کتابوں میں ان ہی سچائیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دس (10) صحیفے دئیے گئے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت کے علاوہ دس (10) صحیفے اور عطاکئے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) پر نازل کی گئی سچائیوں کا اختیار کرکے اپنی عاقبت درست کرنے کی تو فقی عطا فرمائے۔ آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : الطارق میں انسان کو اس کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت دیا ہے اور سورة الاعلیٰ میں ہر جاندار کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت دیا گیا ہے کہ وہی ذات انسان کو دوبارہ زندہ کرے گی جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اسی نے اس کی رہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ لہٰذا ہر دم اسے یاد رکھنا چاہیے۔ یہ سورت مسبّحات میں سے چھٹی سورت ہے جس کی ابتدا باب ” سَبَّحَ یُسَبِّحُ “ کے صیغہ امر ” سَبِّحْ “ سے ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھنے میں یہ بات لازم ہے کہ اس کی ذات کے لیے وہی الفاظ استعمال کیے جائیں اور ایسا طریقہ اور انداز اختیار کیا جائے جس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی مادری زبان میں ” اللہ “ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتا ہے تو اس کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے الفاظ، انداز اور مفہوم قرآن و سنت کے مطابق ہونے ہیں۔ البتہ نماز میں وہی الفاظ بولنے چاہیں جن کی قرآن اور حدیث میں پائے جاتے ہیں کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے کا افضل اور مقبول ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ نماز قرآن وسنت کے مطابق ہونی چاہیے۔” سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی “ کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع اور سجدے میں یہ الفاظ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ” عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ) پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی) پڑھتے۔ (رواہ مسلم : باب استحباب تطویل القراء ۃ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیں ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع و سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ( ُ سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوح) “ (رواہ مسلم : باب ما یقال فی الرکوع والسجود) مسائل ١۔ ہر انسان کو اپنے رب کی تسبیح کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ اور عظیم الشان ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سبح اسم ..................... احوی سورت کا آغاز نہایت ہی نرم اور نہایت لمبے آہنگ سے ہوتا ہے ، اس لمبے ٹون کے ذریعہ فضا میں تسبیح کی خوشگوار اور خوشبودار آواز بکھیر دی گئی ہے۔ اس کے بعد پھر تسبیح کا حکم اور پھر وہ صفات جن کو تسبیح کے بعد لایا گیا ہے۔ سبح اسم……………. احوی (1:87 تا 5) ”(اے نبی ! ) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ، جس نے نباتات اگائیں پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا “۔ تاکہ اس تسبیح کے ذریعہ اس پوری کائنات کے اطراف واکناف میں تسبیح کی یہ آوازگونجاٹھے اور پوری کائنات ایک معبد نظر آئے اور ایک عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ پوری کائنات صانع قدرت کی مصنوعات کی نمائش گاہ بھی بن جائے۔ الذی…………فھدی (3:87) ” جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بناکر اسے ہدایت بخشی “۔ تسبیح کے کیا معنی ہیں ۔ اللہ کی برتری ذہن میں بسانا ، اللہ کو ہر عیب سے پاک سمجھنا اور ذہن میں اللہ کی صفات حسنی کا استحضار اور ان چیزوں کی روشنی ، چمک اور نورانیت سے اپنے ذوق ووجدان اور قلب و شعور کو روشن رکھا ، نام ہے تسبیح کا۔ محض زبان سے سبحان اللہ جپنے کو تسبیح نہیں کہتے۔ سبح……………. الاعلیٰ (1:87) ” اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو “۔ یہ الفاظ انسانی وجدان اور شعور پر ایک حالت طاری کردیتے ہیں۔ یہ وجدانی حالت ایسی ہوتی ہے جس کا اظہار الفاظ کے اندر ممکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک وجدانی اور ذوقی چیز ہے اور ایک ایسی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کا تعلق کچھ معانی اور کچھ صفات کے استحضار سے ہے نہ کہ کچھ الفاظ رٹنے سے۔ یہ معانی وصفات کیا ہیں ؟ پہلی صفت ، صفت ربوبیت ہے۔ اور دوسری صفت اعلیٰ ہے ۔ رب کے معنی مربی ، نگران اور پالنے والے کے ہیں۔ ان صفات کے سائے اور پرتو اس سورت کی فضا اور اس کے اندر بیان کی جانے والی خوشخبریوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ، خصوصاً اس کے نرم انداز کے ساتھ۔ صفت اعلیٰ پردہ شعور پر ایسی تصاویر لاتی ہے جن سے علو ، برتری اور غیر متناہی اور غیر محدود وآفاق کا اظہار ہوتا ہے۔ انسانی روح دور تک تسبیحات کرتی ہے اور اس تصور علو سے تسبیح میں پاکی اور عظمت کے ساتھ مناسبت پیدا ہوتی ہے اور تسبیح اپنے بنیادی عناصر کے اعتبار سے تصور علو رب کا نام ہے۔ ابتدائی خطاب ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے ، اور یہ براہ راست اللہ کی طرف سے آپ کو خطاب ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس حکم ربی کو پڑھتے تھے۔ سبح ” پاکی بیان کرو “ تو اگلی آیات پڑھنے سے پہلے آپ اس حکم پر عمل کرلیتے اور آپ فرماتے : سبحان ربی الاعلیٰ ” میں اپنے رب اعلیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں “۔ یوں حکم اور جواب حکم یا تعمیل حکم ہوجاتا ۔ امر کی اطاعت ہوجاتی اور اللہ کے ساتھ مناجات اور سوال و جواب ہوجاتا۔ کیونکہ حضور رب کے سامنے کھڑے ہوتے۔ براہ راست یہ کلام رب تعالیٰ سے لے رہے ہوتے تھے اور اس اتصال اور قرب کی حالت میں جواب دے دیتے۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ یہ تسبیح سجدے میں پڑھا کرو۔ (اجعلوانی سجودکم) اور اس سے قبل جب یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ فسبح……………. العظیم ” اپنے رب عظیم کے نام کا تسبیح کرو “۔ تو آپ نے حکم دیا کہ اس کو رکوع میں پڑھو چناچہ رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنا شروع کیا گیا۔ پس رکوع و سجود کی یہ تسبیح ایک زندہ تسبیح ہے ، محض مردہ کلمات نہیں ، جس طرح ایک زندہ چیز کا جسم حیات اور زندگی سے گرم ہوتا ہے ایسی ہی تسبیح نماز میں مطلوب ہے تاکہ اس تسبیح سے براہ راست حکم خداوندی کی تعمیل ہوجائے یا بالفاظ دیگر اجازت خداوندی کی تعمیل ہو ، کیونکہ اللہ کا اپنے بندوں کو یہ اجازت دینا کہ اس کی حمدوثنا کرو ، یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہے۔ کیونکہ اس طرح انسان کو یہ اجازت ملتی ہے کہ وہ اپنے حد تصور کے مطابق اللہ کے قریب ہوجائے۔ کیونکہ انسان اللہ کی ثنا اللہ کی ذات وصفات میں اپنے محدود تصور کے مطابق ہی کرسکتا ہے۔ اور یہ اللہ کے فضل وکرم کی ایک شکل ہے کہ اللہ اپنی ذات کی معرفت اپنے بندوں کو اپنی صفات کے ذریعہ کرواتا ہے۔ ایسی حدود میں کہ جن کے اندر وہ اللہ کی معرفت کا تصور کرسکتے ہیں۔ اللہ اپنی ذات تک پہنچنے کے لئے اپنے بندوں کو جس شکل و صورت میں بھی اجازت دیتا ہے ، یہ ان پر فضل وکرم کی ایک صورت ہوتی ہے۔ سبح اسم……………. فھدی (1:87 تا 3) ” اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو ، جس نے پیدا کیا ، اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی ، پھر راہ دکھائی “۔ یعنی ہر چیز کو پیدا کیا اور نہایت مناسب شکل میں پیدا کیا اور اس تخلیق کے ہر پہلو کو کامل بنایا۔ اس حد تک کامل کہ کوئی اس میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی فلاں چیز اس کے لئے مناسب نہیں ہے۔ اللہ نے تقدیریوں بنائی کہ ہر چیز کے لئے اس کا فرض منصبی مقرر کردیا اور اس کا مقصد تخلیق اور اس مقصد کو پورا کرنے کا طریقہ بھی اسے سمجھا دیا۔ ہر چیز کو عجیب الہامی انداز میں یہ تعلیم دی گئی۔ ہر چیز کو یہ شعور بھی بذریعہ الہام دے دیا کہ اس کی مقررہ زندگی کے لئے اس کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ یہ ایک عظیم حقیقت ہے اور اس کائنات کی جس چیز کا تجزیہ کیا جائے اس کے اندر یہ حقیقت موجود ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز میں ، خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو ، اہم ہو یا حقیر ہو ، ہر چیز کی تخلیق میں تسویہ اور تناسب موجود ہے۔ ہر چیز کامل الخلقت ہے اور ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اس کی تقدیر ہے ، اور ہر چیز کو اللہ نے اپنا مقصد وجودپورا کرنے کے لئے نہایت ہی آسان طریقہ کار فراہم کردیا ہے۔ غرض اللہ کی ہر مخلوق مکمل اور متناسب ہے۔ اور ہر چیز اپنا انفرادی فریضہ ادا کرتی ہے۔ مثلاً ایٹم ایک اکیلا ایٹم ، پر ٹون اور الیکٹرون کی برقی رفتار کے اندر اسی قدر توازن رکھتا ہے جس طرح ایک کہکشاں اپنے سورج اور اس کے تابع ستاروں کے درمیان توازن رکھتی ہے۔ ایک ایٹم اپنے مقصد اور فریضے کو اسی طرح پورا کرتا ہے جس طرح ایک کہکشاں پورا کرتی ہے۔ دونوں کو انپا مقصد اور طریقہ حصول مقصد معلوم ہوتا ہے۔ ایک منفرد خلیہ ایک مکمل تخلیق ہے۔ اور اس کے اندر اپنا مقصد تخلیق پورا کرنے کی پوری استعداد ہوتی ہے اور وہ اپنا مقصد اسی طرح پورا کرتا ہے جس طرح کوئی اعلیٰ مرکب اور پیچیدہ مخلوق کرتی ہے۔ پھر ایک منفرد ایٹم اور کسی کہکشاں کے درمیانی درجات پر الگ الگ مخلوق ہے۔ جس طرح ایک منفرد خلیہ اور پیچیدہ ترین مخلوقات کے درمیان زندہ مخلوقات کے مختلف درجے اور ان کی تنظیم ہے۔ اور ہر درجے اور ہر تنظیم کی تخلیق میں کمال اور تسویہ ہے اور ہر ایک کے لئے انفرادی فرائض اور اجتماعی مقاصد ہیں۔ دست قدرت الہامی طریقے سے ان سے یہ کام کراتا ہے اور اس گہری حقیقت یعنی تخلیق وتسویہ کا یہ کام پوری کائنات پر شاہد عادل ہے۔ اس حقیقت کو انسانی قلب پاسکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کائنات کے اشارات اخذ کرنے کے لئے تیار ہو اور کھلے دل سے وہ اس کائنات کی موجودات پر غور کرے۔ انسان کا اکتسابی علم جس درجے کا بھی ہو اور وہ ترقی یافتہ معاشرے کافرد ہو یا پسماندہ معاشرے کا فرد ہو وہ کائنات کی ان اشیاء سے یہ الہامی اشارات اخذ کرسکتا ہے بشرطیکہ اس کے دل و دماغ کے دریچے بھی ان اشارات کو پانے کے لئے تیار ہوں اور کھلے ہوں اور کسی عقل وخرد کے تار اس قابل ہوں کہ وہ مضراب حقیقت کے جواب میں نغمہ بار ہوسکیں۔ اس کے بعد کائنات کا مشاہدہ اور کسی علم آتے ہیں اور انسان مطالعہ فطرت میں پہلی نظر سے جو الہام پاتا ہے ، تمام مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں ، بعض لوگوں نے مشاہدہ کائنات کے ذریعہ ایسے اشارات جمع کیے ہیں جو اس کائنات کے اندر پوشیدہ مجموعی حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ نیویارک کی سائنسی علوم کی اکیڈمی کے صدر کریسی موریسن اپنی کتاب ” انسان اکیلا نہیں کھڑا “ میں اپنے مشاہدات یوں قلم بند کرتے ہیں۔ ” پرندوں میں وطن لوٹنے کا ایک ملکہ ہوتا ہے ، ایک خاص چڑیا جو دروازوں پر گھونسلے بناتی ہے ، خزاں کے موسم میں جنوب کی طرف ہجرت کرجاتی ہے اور اگلے سال بہار میں اپنے اسی مقام کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ کے اکثر پرندے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور وہ سمندروں اور صحراﺅں پر سے پرواز کرتے ہوئے ہزاروں میل سفر کرتے ہیں اور کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتے۔ اور پیغام رساں کبوتر پنجرے میں طویل سفر کرتے ہیں اور جب ان کو پیغام کر چھوڑا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لئے حیران ہوکر چکر لگاتے ہیں اور اس کے بعد وہ سیدھے اپنے وطن کی طرف پرواز کرتے ہیں اور کبھی راہ نہیں بھٹکتے ۔ شہد کی مکھی اگر کسی طرف جائے اور اس کے پیچھے نشانات راہ کسی طوفان کی وجہ سے مٹ جائیں تو بھی وہ راہ نہیں بھولتی اور سیدھی چھتے پر آجاتی ہے۔ البتہ انسان کے اندر یہ جبلت کمزور ہے اور انسان اس کمی کو اپنے آلات اور عقل کے ذریعہ پوری کردیتا ہے۔ باریک کیڑے مکوڑے بھی نہایت ہی چھوٹی اور خوردبینی آنکھیں رکھتے ہیں اور یہ نہایت ہی مکمل آنکھیں ہوتی ہیں۔ باز اور عقاب وغیرہ کی آنکھیں دور بین کی طرح ہوتی ہیں ، انسانی آنکھ ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس کمی کو بھی انسانی عقل و تجربہ نے پورا کیا ہے۔ چناچہ ان دوربینوں کے ذریعہ انسانسحابیوں کو دیکھ لیتا ہے اور اس نے ان کو دیکھنے کے لئے انسانی نظر کو بیس لاکھ گنا تیز کیا۔ نیز انسان نے ایسی خورد بینیں ایجاد کیں جن کے ذریعے وہ بیکٹریا اور دوسرے نہ نظر آنے والے کیڑے مکوڑے دیکھتا ہے۔ اب ذرا تم اپنے بوڑھے گھوڑے کو راستہ پر چھوڑدو۔ جس قدر اندھیرا بھی ہو وہ راستہ نہ بھولے گا۔ وہ سخت تاریکی میں بھی دیکھ سکتا ہے اگرچہ بہت واضح نہ سہی۔ وہ راستہ میں اور اس کے دونوں جانب درجہ حرارت کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ درجہ حرارت اس کی آنکھیں انفراریڈ شعاعوں کے ذریعہ معلوم کرلیتی ہیں۔ الو ایک گرم چوہے کو سردگھاس کے نیچے چلتا پھرتا دیکھ لیتا ہے اگرچہ سخت اندھیرا ہو اور انسانوں نے تو بجلی کے قمقموں کے ذریعہ تاریک رات کو دن بنادیا ہے “۔ ” شہد کی مکھیوں کی دنیا بھی عجیب ہے۔ کارکن مکھیاں چھتے میں مختلف قسم کے کمرے بناتی ہیں۔ یہ تربیت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ چھوٹے کمرے کارکنوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور بڑے کمرے مردوں کے لئے اور ملکہ کے لئے خاص کمرے تیار ہوتے ہیں۔ یہ ملکہ مجھی جب غیر بار آورانڈہ دیتی ہے تو اسے مردوں کے کمرے میں رکھ دیتی ہے اور جب بار آور انڈہ دیتی ہے تو اسے اس کمرے میں رکھ دیتی ہے جس میں مونث کارکن مکھیاں ہوتی ہیں جو آگے جاکر ملکہ مکھی بننے والی ہوتی ہیں اور وہ کارکن مکھیاں جو مزدور ہوتی ہیں جب وہ ایک طویل عرصہ تک نسل تیار کرنے کا کام کرلیتی ہی تو ان کو بدل دیا جاتا ہے۔ یہ کارکن مکھیاں بچوں کے لئے غذا تیار کرنے کا کام بھی کرتی ہیں۔ یہ شہد اور پھولوں کو چبا کر ہضم کے قابل بناتی ہیں اور بچوں کے اندر نر اور مادے کا ظہور ہوجاتا ہے تو پھر یہ مذکورہ بالا طریقے سے غذاہضم کے لئے تیار کرنے کا عمل ترک کردیتی ہیں۔ اس کے بعد ان کو شہد اور پھولوں کا بور دیا جاتا ہے اور بچوں میں سے جو مونث اس طریقے سے تربیت پاتی ہیں وہ بعد میں کارکن مکھیاں بن جاتی ہیں “۔ جو مونث مکھیاں ملکہ مکھیوں کے حجروں میں ہوتی ہیں ، تو ان کو شہد اور پھولوں کے بورے کو ابتدائی طور پر قابل ہضم بناکر غذا دینے کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے ، اور جن مونث مکھیوں سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے بعد میں وہ ملکہ مکھن بن جاتی ہیں۔ صرف یہ ملکہ ہی ایسے انڈے دیتی ہیں جو پار آور ہوتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے مطابق جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان کے لئے خاص قسم کے حجروں ، ایک خاص قسم کے انڈوں اور ایک خاص قسم کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور غذا کے اندر تبدیلی کا اثر بھی عجیب ہوتا ہے۔ اس قسم ٹیکنالوجی کے لئے مکھیوں کو ایک طویل عرصہ تک انتظار کی ضرورت پڑی ہوگی جنہوں نے ان اصولوں کے اندرتمیز کرکے ان کو نافذ کیا ہوگا اور غذا کے اثرات معلوم کیے ہوں گے۔ اور ان اثرات معلوم کیے ہوں گے۔ اور ان اثرات کو اجتماعی طور پر نافذ کیا ہوگا جو ان کے وجود کے لئے ضروری ہوگا۔ مکھیوں نے جب اجتماعی زندگی کا آغاز کیا ہوگا تب ان کو یہ اصول معلوم ہوئے ہیں گے ، کیونکہ مکھی کے وجود اور زندگی کی بقا کے لئے ان اصولوں کی دریافت ضروری نہ تھی۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھی نے غذا کے اثرات کے سلسلے میں انسان سے زیادہ تحقیق کی ہے “۔ (مغربی فکر میں ڈوبا ہوا مصنف یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اللہ نے جب مکھی کو پیدا کیا تو یہ سب کچھ سکھا دیا۔ ان کے دماغوں پر ڈارون کا فلسفہ ارتقاء ہی بیٹھا ہوا ہے حالانکہ قرآن صاف کہتا ہے وعلم آدم الاسماء کلھا ” اللہ نے آدم کو تمام نام سکھادیئے “ اسی طرح اللہ نے مکھی کو بھی تمام بنیادی تعلیم دے دی تھی (مترجم) ۔ ” کتے کو ایک اضافی ناک دی گئی ہے جس کے ذریعہ وہ تمام جانوروں کی بوسونگھ لیتا ہے جو کسی راستے سے گزرے ہوں ، انسان کی قوت شامہ کتوں کے مقابلے میں کمزور ہے اور آج تک انسان نے کوئی ایسا آلہ بھی ایجاد نہیں کیا جو اس کی قوت شامہ کو ترقی دے ، لیکن ہماری یہ کمزور قوت شامہ بھی اس قدر چھوٹے ذرات کو محسوس کرلیتی ہے جیسے مائیکروسکوپ کے ذریعہ ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ اکثر حیوانات ایسی آوازیں سن لیتے ہیں جو ہمارے کانوں کے پردوں کے اندر ارتعاش پیدا نہیں کرسکتے ، کیونکہ یہ ہماری سماعت کی حد سے بہت ہی دقیق اور باریک ہوتے ہیں۔ انسان نے ایسے آلات ایجاد کرلیے ہیں کہ وہ کئی میل دور اڑنے والی مکھی کے پروں کی آواز بھی سن لے ، اس طرح کہ گویا وہ اس کے کان کے پردے کے اوپر بیٹھی ہے۔ ایسے ہی آلات کے ذریعہ سورج کی شعاعوں کی رفتار کی آواز بھی ریکارڈ کی جارہی ہے “۔ ” پانی کی مکڑیوں کی ایک قسم ایسی ہے جو پانی کے اندر غبارے کی طرح ایک گھونسلہ تیار کرتی ہے ، یہ تار عنکبوت سے بنایا جاتا ہے اور اسے پانی کے نیچے کسی چیز سے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعدیہ مکڑی اپنے جسم کے بالوں کے ساتھ پانی کا ایک بلبلہ باندھتی ہے اور اسے لے جاکر اس گھونسلے سے باندھ دیتی ہے یہاں تک کہ گھونسلے کے گرد ہوا کے بلبلوں کا حصار بن جاتا ہے ، اس کے بعد وہ گھونسلے کے اندر بچے دیتی ہے کہ وہ ہوا کے طوفان سے محفوظ رہیں۔ اس گھونسلے کی ساخت میں ایک تو باریک بننے کا عمل ہے ، اس کے بعد دقیق انجینئرنگ اور ہوا بازی کا گہرا ادراک ہے “۔ ” سالمن مچھلی ، جو چھوٹی سی ہوتی ہے اور سمندر میں کئی سال تک گھومتی پھرتی ہے ، اس کے بعد وہ اس دریا کی طرف واپس ہوتی ہے جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔ آخر وہ کیا قوت ہے جو اسے اس کی جائے پیدائش تک رہنمائی کرتی ہے۔ یہ جب اپنی جائے پیدائش کی طرف بڑھتے ہوئے کسی غلط دریا کی طرف چلی جائے تو اسے فوراً معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ دریا اس کی جائے پیدائش نہیں ہے۔ چناچہ وہ دریا میں چلتی ہے اور پانی کے بہاﺅ کے بالمقابل چل کر اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ پانی کے سانپوں کا معاملہ تو بہت ہی عجیب ہے۔ ان کا قصہ سالمن مچھلی کے برعکس ہے۔ اس مخلوق خدا کی عمر جب پوری ہوتی ہے تو یہ مختلف تالابوں اور دریاﺅں سے سفر کرکے گہرے سمندروں کی طرف جاتے ہیں۔ اگر یورپ میں ہوں تو یہ ہزاروں میل کا سفر طے کرکے جنوبی برمودا کی گہرائیوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ وہاں پھر یہ انڈے دے کر مرجاتے ہیں ، اب ان کے جو بچے پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ نہایت گہرے پانیوں میں ہیں ، لیکن یہ بچے اسی راستے سے ساحل کی طرف جاتے ہیں جس طرح ان کی ماں ساحل سے پانی کی طرف آئی تھی اور ساحل سے پھر یہ کسی دریا ، یا نہر یا حوض اور تالاب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ چناچہ پانیوں کی ہر قسم بحری سانپوں کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ کیونکہ انہوں نے بڑی بڑی موجیں ، طوفان اور سمندری تلاطم دیکھے ہوئے ہیں اور ان کا مقابلہ کیا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ ساحلوں پر چلتے ہیں اور جب یہ مکمل ہوجاتے ہیں تو کوئی خفیہ قانون ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ پھر واپسی کا سفر کریں اور گہرے سمندروں میں چلے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ جذبہ ان کے اندر کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی شکاری یا مچھیرے نے یورپی سمندروں میں امریکی بحری سانپ پکڑا ہو ، یا کسی امریکی مچھیرے کے جال میں یورپی سانپ آگیا ہو ، یورپی بحری سانپ کو چونکہ گہرے سرندروں تک لمبا سفر کرنا پڑتا ہے اسی لئے قدرت نے اسے ایک سال کی لمبی عمر عطا کی۔ یا اس سے بھی زیادہ تاکہ وہ مرنے سے قبل اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکے۔ کیونکہ یورپی بحری سانپ کو امریکی بحری سانپ سے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی کہ کون سے ایٹم اور کیا سالمے ہیں ؟ جب بحری سانپ مچھلیوں کی شکل میں جمع ہوئے تو ان کے اندر اس قسم کی قوت ارادی پیدا ہوجاتی ہے جو ایسے دور دراز سفر کراتی ہے ؟ ” جب مادہ پروانہ ہوا کے دباﺅ میں تمہارے کسی روشن دان سے اندر آجاتا ہے تو وہ اپنے نر کو ایک سگنل بھیجتی ہے ، چاہے وہ جتنا بھی دور ہو۔ بعض اوقات وہ بہت دور ہوتا ہے۔ وہ اس اشارے کو وصول کرلیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے۔ اس کو گمراہ کرنے کی انسان جس قدر کوشش بھی کرے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ غلطی کرے۔ کیا ان کے پاس کوئی ریڈیو اسٹیشن ہے یا اس مرد کے پاس کوئی ریڈیو یا مشین ہے جو اس سے سگنل وصول کرتا ہے۔ ایریل کا ہونا تو بڑی بات ہے کیا اس کے پاس کوئی ایتھر ہے جس کے ذریعہ وہ ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ ٹیلی فون اور ریڈیو ہمارے پاس سریع الحرکت مواصلاتی آلات ہیں لیکن یہ تاروں کے ذریعے ایک جگہ کو دوسری جگہ سے منسلک کرتے ہیں۔ اس طرح تو یہ پروانہ ہم پر فوقیت رکھتا ہے “۔ نباتات اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کئی چیزوں سے خدمت لیتے ہیں ، بغیر ان کے علم و ارادہ کے۔ مثلاً حشرات پھولوں کا بورا ان کے لئے منتقل کرتے ہی ، ہوا یہی کام کرتی ہے ، وحوش وطیور بھی یہی کام کرتے اور ان کا بورا اور بیج بکھیرتے ہیں۔ سب سے آخر میں ان نباتات نے انسان کو بھی اپنے جال میں پھانس لیا۔ اس نے فطرت کو حسن بخشا اور فطرت نے اسے اس کا اجردیا۔ لیکن انسان بھی تو کسی حد پر رکنے والا نہیں۔ ھل من مزید کا قائل ہے۔ اس نے ہل چلایا ، بیج بویا ، فصل کاٹی ، انبار بھرے ، پھر اس نے فصلوں کو ترقی دی ، شاخ تراشی کی اور خوراک کا بندوبست کیا۔ اگر وہ یہ کام چھوڑ دے تو بھوک سے مرجائے اور دنیا سے تہذیب و تمدن کا خاتمہ ہوجائے اور انسانیت پتھر کے دور میں واپس چلی جائے۔ “ پانی کے بیشمار جانور مثلاً جھینگا مچھلی کا ایک بازو اگر کٹ جائے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے جسم کا ایک حصہ ضائع ہوگیا ہے ، اس کے خلیے اور جینز اس عضو کو دوبارہ بنانا شروع کردیتے ہیں اور جب وہ عضو مکمل ہوجاتا ہے تو خلیے یہ کام بند کردیتے ہیں اور ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کی ڈیوٹی ختم ہے۔ پانی کے وہ کیڑے جن کے کئی پاﺅں ہوتے ہیں ، جب دوٹکڑے ہوجائے تو وہ ان میں سے ایک ٹکڑے کی مدد سے اپنے آپ کو مکمل کرلیتا ہے۔ اگر تم اس کیڑے کا سرکاٹ دو تو وہ دوسرا سر بنالیتا ہے۔ ہم زخموں کو مندمل کرسکتے ہیں لیکن ہمارے سرجن ابھی تک یہ بات نہیں جانتے کہ وہ خلیوں کو متحرک کریں اور وہ ایک نیا بازو بنا ڈالیں یا گوشت پوشت ، ناخن اور اعصاب بنادیں ، اگر ایسا ممکن ہو۔ اور ایک عجوبہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی خلیہ ابتدائی ایام ہی میں دو مکمل حصوں میں تقسیم ہوجائے تو اس سے دو مکمل حیوان تیارہوجاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ توام ہم شکل ہوتے ہیں ، اس کی تشریح اس طرح کی جاسکتی ہے کہ حمل کے ابتدائی مرحلہ میں خلیہ منقسم ہوگیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں خلیہ کمل فرد ہوتا ہے۔ اور اسی طرح ایک فرد بھی ہر خلیہ میں ہوتا ہے۔ ایک دوسری فصل میں یہی مصنف لکھتا ہے : شاہ بلوط کا بھورا بیج زمین پر گراتا ہے ، اس کا بھورا چھلکا اسے محفوظ رکھتا ہے ، اور یہ گرتا پڑتا زمین میں کسی دراڑ میں اٹک جاتا ہے۔ موسم بہاں میں اس کے اندر کا جرثومہ جاگتا ہے۔ وہ اس چھلکے کو پھاڑ دیتا ہے اور یہ اس مغز سے خوراک حاصل کرتا ہے جو اس چھلکے کے اندر جمع کردی گئی ہوتی ہے۔ جس کے اندر اس کے موروثی جینز ہوتے ہیں۔ اس کی جڑیں زمین میں جاتی ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ پودا نمودار ہوتا ہے ، چھوٹا درخت اور پھر کامل درخت بن جاتا ہے۔ اس کے اندر کئی ملین جینز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اپنی جڑوں ، چھلکے ، پھل اور تنوں اور شاخوں میں بھی اس درخت کے مماثل ہوتا ہے جس سے وہ بیج نکلا۔ کروڑوں سال پہلے جو بلوط کا درخت پیدا ہوا تھا ، اس کے پھل آج تک اپنے ذرات کی ترتیب اس طرح رکھتے ہیں جس طرح پہلے بلوط کے پھل نے رکھا تھا۔ یہی مصنف تیسری فصل میں لکھتا ہے : ” ہر خلیہ جو کسی زندہ مخلوق میں پیدا ہوتا ہے ، اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھالے کہ گوشت کا حصہ ہو یا چمڑے کا حصہ ہو اور فنا ہوجائے ، یا دانت کی چمک بن جائے یا آنکھ کا سیال مادہ بن جائے یا ناک اور کان بن جائے۔ ہر خلیہ اپنے آپ کو ایسی شکل میں ڈھالتا ہے کہ وہ اپنا فرض منصبی پوری طرح ادا کرے۔ یہ بات نہایت ہی مشکل ہے کہ کوئی تعین کرے کہ کون سا خلیہ دائیں ہاتھ ہے یا بائیں ہاتھ کا۔ لیکن ازروئے فطرت یہ بات متعین ہے کہ یہ خلیہ دائیں کان کا ہے اور یہ بائیں کان کا ہے۔ غرض ہزار ہا خلیات چلائے جاتے ہیں کہ وہ ایک صحیح کام کریں ، صحیح وقت پر کریں اور صحیح جگہ پر کریں “۔ چوتھی فصل میں یہ شخص کہتا ہے : ” مختلف قسم کی مخلوقات میں بعض مخلوقات ایسے کام کرتی ہیں جو دانش مندی کے اعلیٰ مرتبہ کے ہیں۔ جن کی کوئی تشریح ہم نہیں کرسکتے۔ مثلاً بھڑ ، ٹڈے کو شکار کرتی ہے ، زمین میں ایک گڑھا کھودتی ہے اور ایک مناسب جگہ اسے دفن کردیتی ہے۔ یہ شکار کرتے وقت اس کے ایسے مخصوص مقام پر ڈنگ مارتی ہے کہ وہ بےہوش ہوجاتا ہے لیکن اس کا گوشت صحیح وسالم زندہ رہتا ہے۔ اب مادہ بھڑ اس کے قریب ایک متعین مقام پر انڈے دیتی ہے۔ اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جب اس کے بچے پیدا ہوں گے تو اس ٹڈے کا گوشت کھائیں گے۔ لیکن اسے قتل نہ کریں گے کیونکہ یہ گوشت ان کی غذا ہے اور گوشت خراب ہوکر زہریلا بن جائے ۔ لازماً بھڑ نے ابتدا سے یہ کام شروع کیا ہوگا اور ہمیشہ وہ اسے دہراتی ہوگی ورنہ دنیا میں سے بھڑوں کا وجود ہی ختم ہوجاتا۔ سائنس کے پاس ایسی کوئی تشریح نہیں ہے کہ وہ بھڑوں کے اس مسلسل فعل کا سبب بیان کرے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ یہ کام بھڑیں محض اتفاق سے کرتی ہیں ، کیونکہ مادہ بھڑ تو زمین کے اندر کھودے ہوئے گڑھے کو بھر کر چلی جاتی ہے اور مرجاتی ہے ، نہ وہ اس کے اسلاف یہ جانتے تھے کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے۔ نہ اسے اس کا علم اور مشاہدہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس کے بچوں کو کیا پیش آنا ہے بلکہ بھڑ کو تو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کوئی چیز آنے والی ایسی ہے جسے وہ اپنا بچہ کہتی ہو ، بلکہ اسے یہ تک علم نہیں ہے کہ وہ یہ کام نوع کی حفاظت کے لئے کرتی ہے۔ چیونٹیوں میں سے بعض کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ سردیوں کے موسم میں اپنی کالونی کو خوراک مہیا کرنے کے لئے حیوانات جمع کریں۔ پھر وہ ایک سٹور قائم کرتی ہیں جہاں یہ خوراک پیس کر رکھی جاتی ہے۔ پھر بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو قدرت نے پیسنے کی جبڑے دیئے ہوتے ہیں۔ ان کا کام صرف خوراک کو پیسنا ہوتا ہے۔ جب سردیوں کا موسم آتا ہے اور تمام غلہ پیسا جاچکا ہوتا ہے تو اس کی سپلائی یوں ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد کو فائدہ پہنچایا جاسکے تاکہ سپلائی جاری رہ سکے۔ اب چونکہ اگلی نسل میں مزید پیسنے والی چیونٹیاں پیدا ہوں گی۔ اس لئے چیونٹیوں کی فوج ان پیسنے والیوں پر حملہ آور ہوتی ہے اور ان کو قتل کردیتی ہے۔ شاید ان کا ضمیر مطمئن ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کی خوراک پیسنے کے دوران کھالی ہے کیونکہ انہوں نے اس موپعہ سے ضرور فائدہ اٹھایا ہوگا۔ بعض چیونٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی جبلت یا ان کی عقل ان کو کھانوں کے باغ بنانے پر آمادہ کرتی ہیں اور یہ چیونٹیاں ابتدائی کیڑوں کو اور پودوں کے چھلکوں پر پائے جانے والے کیڑوں کو گرفتار کرلیتی ہیں۔ یہ گویا ان کے لئے گائے اور بکریوں کا کام دیتے ہیں۔ ان کیڑوں سے یہ چیونٹیاں ایسا محلول لیتی ہیں جو شہد کی طرح ہوتا ہے اور یہ چیونٹیوں کی خوراک کا کام دیتا ہے۔ چیونٹیاں بعض دوسری چیونٹیوں کو غلام بھی بنالیتی ہیں ، اور جب یہ اپنے گھونسلے بناتی ہیں تو یہ پتوں کو مناسب حجم میں کاٹتی ہیں۔ جب کارکن چیونٹیاں ان پتوں کو ایک طرف سے پکڑ کر اپنے مقام پر رکھتی ہیں تو اس وقت یہ ان بچوں سے بھی کام لیتی ہیں جو ابھی ارتفائی دور میں ہوتے ہیں لیکن ان کے ریشمی مواد سے یہ پتوں کو جوڑتی ہیں ، یوں یہ بچہ اپنے لئے گھونسلا بنانے سے محروم رہتا ہے لیکن اپنے بنی نوع کے لئے ایک مفید کام کرچکا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ذروں سے چیونٹی بنتی ہے ان ذروں میں یہ کام کرنے کی صلاحیت کس طرح پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ان کا ایک خالق ہے جس نے ان کو اس طرح کرنے کی ہدایت کی “۔ (اقتباسات ختم ہوئے) اس میں شک نہیں ہے کہ ایک خالق ہے جس نے اپنی تمام مخلوقات کو ہدایات دیں ، خواہ وہ بڑی مخلوق ہو یا چھوٹی ہو ، اور یہ وہی خالق ہے جو الاعلیٰ…………فھدی (1:87 تا 3) ” جو برتر ہے ، جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی “۔ ہم نے اوپر جو اقتباسات دیئے ہیں ، یہ تو اصل حقیقت کے ایک معمولی حصے کے مشاہدات ہیں ، جو انسانوں نے نباتات ، حشرات الارض ، پرندوں اور دوسرے حیوانات کے سلسلے میں ریکارڈ کیے ہیں۔ لیکن اس سے آگے علم ومشاہدہ اور بھی جہاں ہیں اور جو کچھ ہمارے علم میں ہے وہ اس قول باری کے مدلول اور مفہوم کا ایک نہایت ہی مختصر حصہ ہے۔ الذی خلق…………فھدی (2:87 تا 3) ” جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا ، جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی “۔ یہ قابل مشاہدہ کائنات جس کے ایک معمولی حصے کو ہم جانتے ہیں ، اس سے آگے عالم غیب کے جہاں پوشیدہ ہیں۔ ہمیں تو اپنی بشری قوتوں کے مطابق بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ یہ چند اشارات ہیں جو اللہ نے ہماری محدود قوت ادراک کے لئے کردیئے ہیں۔ اس عظیم کائنات کا ایک وسیع صفحہ پیش کرنے اور اس کی وادیوں میں اللہ کی تسبیح وثنا کی گونج پیدا کرنے کے بعد ، اللہ کی اس عظیم تسبیح کو مکمل کرنے کے لئے یہاں نباتات کی دنیا کی طرف اشارہ کردیا جاتا ہے اور یہاں اس اشارے کے اندر جہان معانی ہے۔ والذی اخرج…………احوی (5:87) ” جس نے نباتات اگائیں اور پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا “ المرعی ، ہر اس چیزکو کہا جاتا ہے جو زمین سے اگتی ہے ، اس لئے کہ ہر اگنے والی چیز کسی نہ کسی مخلوق کے لئے خوراک ہے۔ لہٰذا مرعی کا مفہوم یہاں اس سے کہیں وسیع ہے کہ کوئی چیز ہمارے مویشیوں کے چرنے کی ہے تو مرعی ہے۔ کیونکہ اللہ نے زمین کو پیدا کیا اور اس زمین کے اوپر چلنے والی ہر مخلوق کے لئے اس کے اندر اس کی خوراک پیدا کی ، چاہے یہ مخلوق زمین کے اوپر چلتی ہو ، یا اندر چھپی رہتی ہو یا اس کی فضاﺅں میں اڑتی ہو۔ نباتات ابتداء میں سبز ہوتے ہیں ، پھر یژمردہ ہوکر سیاہ ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ سبزی کی حالت ہی میں خوراک کے قابل ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ پک کر سیاہ ہوتے ہیں تو خوراک کا کام دیتے ہیں۔ درمیانی حالت میں بھی وہ کسی نہ کسی خوراک کا کام دیتے ہیں۔ بہرحال نباتات کی ہر حالت ، اللہ کی تخلیق اور تسویہ کے مطابق کسی مخلوق کے لئے خوراک بنتی ہے۔ یہاں نباتاتی زندگی کے منظر کو پیش کرکے ایک اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ جس طرح ہر نبات کوڑا کرکٹ بن کر انجام تک پہنچتا ہے۔ اس طرح ہر زندہ مخلوق بھی اس دنیا میں اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ اور یہ اشارہ ہے اس حیات ودنیا اور حیات اخروی کی طرف کہ حیات دنیا تو نباتات کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حیات اخروی باقی اور لازوال ہے۔ بعد میں آتا ہے۔ بل توثرون…………وابقی (17:87) ” مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے “۔ دنیا کی زندگی اس کھیت کی طرح ہے جو ختم ہوکر کوڑا کرکٹ بن جاتی ہے اور آخرت باقی و لازوال ہوتی ہے۔ اس مقطع کے ذریعے اس عظیم کائنات کے صفحات کو دور تک پھیلا دیا جاتا ہے اور جن امور کا ذکر ہوتا ہے وہ سورت کے آنے والے حقائق کے ساتھ مناسب ہیں۔ یہ کائنات ان سے ہم آہنگ ہوتی ہے اور یہ حقائق کائنات سے پیوست ہوتے ہیں۔ ایک نہایت ہی وسیع و عریض فریم ورک ہیں۔ اگر گہرا مطالعہ کیا جائے کہ اس سیپارے کے مضامین کو وسیع کائناتی دائرے میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کائناتی دائرہ اس پارے کی فضا اور اس کے اشارات اور مضامین کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں سے سورة الاعلیٰ شروع ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح بیان کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان فرمائی ہیں، سب سے پہلے الاعلیٰ فرمایا یعنی برتر اور بلند تر حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے بیان فرمایا کہ جب آیت ﴿فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (رح) ٠٠٧٤﴾ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اجعلوھا فی رکوعکم) (کہ رکوع میں جاؤ تو اس پر عمل کرو) پھر جب ﴿ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَىۙ٠٠١﴾ (نازل ہوئی تو فرمایا کہ سجدہ میں جاؤ تو اس پر عمل کرو) یعنی رکوع میں ﴿سُبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْم﴾ كہو اور سجدہ میں ﴿سُبْحَانَ رَبِیَّ الْاَعْلٰی﴾ كہو۔ (رواہ ابو داؤد) الْاَعْلَى کا معنی ہے خوب زیادہ بلند اور برتر، یہ پروردگار عالم جل مجدہ کی صفت ہے، اس کو بیان کرنے کے بعد دوسری صفت بیان فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” سبح اسم “ یہ دعوائے توحید کے دونوں حصوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ جب آئندہ بیان سے ثابت ہوگیا کہ کارساز، متصرف و مختار اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں تو اس کو شریکوں سے پاک سمجھو اور اس کی دعاء و پکار میں کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اقتدار اعلی کے مالک اپنے پروردگار کی ہر عیب اور شرک سے قولا و عملا تنزیہ و تقدیس کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) اے پیغمبر آپ اپنے بلند اور سب سے بالا پروردگار کے نام کی پاکی بیان کیجئے۔