Surat ul Aala

Surah: 87

Verse: 9

سورة الأعلى

فَذَکِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۹﴾

So remind, if the reminder should benefit;

تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائدہ دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Therefore remind in case the reminder profits. meaning, remind where reminding is beneficial. From here we get the etiquette of spreading knowledge, that it should not be wasted upon those who are not suitable or worthy of it. The Commander of the believers, `Ali said, "You do not tell people any statement that their intellects do not grasp except that it will be a Fitnah (trial) for some of them." He also said, "Tell people that which they know. Would you like for Allah and His Messenger to be rejected" Allah said: سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی وعظ و نصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی، یہ وعظ و نصیحت اور تعلیم کے لیے ایک اصول اور ادب بیان فرمایا۔ امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے، کیونکہ انداز و تبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لیے ضروری تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وغط و نصیحت کرتے رہیے۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ واضح رہے کہ دعوت و تبلیغ اور چیز ہے اور وعظ و نصیحت اور چیز۔ نبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوں، سب کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ صرف اس کے لیے جس کے دل میں کچھ اللہ کا ڈر ہو اور جو ڈرتا ہی نہیں اس کے لیے وعظ و نصیحت کچھ معنی نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فذکر ان نفعت الذکری…:” تو نصیحت کر اگر صنیحت کرنا فائدہ دے “ اس پر سوال پیدا ہوتا کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو کیا نصیحت چھوڑ دی جائے ؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، بلکہ نصیحت کرتے رہنا لازم ہے۔ تو پھر آیت کا مطلب کیا ہے ؟ آیت کی مختلف تفاسیر میں سیت ین تفسیریں زیادہق ریب ہیں :(١) تفسیر ثنئای میں ہے کہ اس آیت کی بنا پر بعض لوگ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ نصیحت کے نفع دینے کی صورت میں نصیحت کرنے کا حکم ہے ورنہ نہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ آیت میں ” ان “ ہے کہ جب تک انسان کو کسی قطعی دلیل سے یہ معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں شخص کو نصیحت فائدہ نہ دے گی ” ان “ کا محل رہتا ہے اورق طعی دلیل صرف وحی الٰہی ہے۔ وحی کے بغیر ہر حال میں صنیحت کے مفید ہونے کا امکان باقی ہے، اس لئے جب تک تمہیں وحی الٰہی سے معلوم نہ ہوجائے کہ فلاں کو نصیحت نفع نہ دیگی وعظ و نصیحت کرتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ تمہارے پاس وحی الٰہی نہیں، اسلئے تم ہمیشہ نصیحت کرتے رہو۔ (مختصراً ) (٢) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” فذکر ان نفعت الذکری “ (نصیحت کر، اگر نصیحت فائدہ دے) کا یہ مطلب نہیں کہ جسے نصیحت فائدہ دے اسے نصیحت کر دوسرے کو نہ کر، کیونکہ یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت کر اگر کسی ایک کو بھی نصیحت فائدہ دے ۔ گویا ” نفعت “ کا مفعول محذوف ہے، یعنی ” ان نفعت الذکری احداً “ اور ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو فائدہ ہوتا ہی ہے، اس لئے آپ ہر شخص کو نصیحت کرتے جائیں۔” سیذکر من یخشی…“ پھر ڈرنے والا قبول کرلے گا اور بدبخت اجتناب کرے گا، آپ کا کام نصیحت کرتے چلے جانا ہے اس امید پر کہ نصیحت کسی کو تو فائدہ دے گی۔ (٣) تیسری تفسیر یہ ہے کہ ” ان “ حرف شرط ” اذ “ کے معنی میں ہے، یعنی نصیحت کر جب نصیحت کرنا فائدہ دے ۔ موقع و محل کا خیال رکھو، بےموقع بات موثر نہیں ہوتی۔ جب دیکھو کہ سننے کی طرف مائل ہیں تو نصیحت کرو اور جب ضد اور سرکشی پر اترے ہوئے ہوں تو کنارہ کشی اختیار کرو، یہ نہیں کہ صنیحت ہی چھوڑ دو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو، نوح اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی اپنی اقوام کو ان پر عذاب آنے تک نصیحت ترک نہیں کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ (So, extend advice [ to people ] if advice is useful....87:9) The preceding verses described the facilities created by Allah for the Holy Prophet in performing his Prophetic obligation. This verse commands him to perform his obligation. The verse contains the conditional particle &in& (if) that apparently makes the sentence a conditional statement. But, in fact, the command is not intended to be made conditional. It is rather an emphatic statement. This is similar to the grammatical phenomenon in many languages. The particle &if& is sometimes used when something is always true. It is used for introducing a situation that always has the same meaning, result or effect. For example: |"If you are a &man& [ obviously he is a man ], then you will have to do this work;|" In neither of such sentences, the particle &if is conditional, but rather emphatic. Likewise, the verse purports to say that preaching truth and righteousness is certainly useful. Therefore, the beneficial thing should never be abandoned at anytime.

فذکر ان نعفت الذکری، سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے فریضہ پیغمبری کے ادا کرنے میں حق تعالیٰ کیطرف سے دی ہوئی سہولتوں کا بیان تھا، اس آیت میں آپکو اس فریضہ کی ادائیگی کا حکم ہے اور معنے الفاظ آیت کے یہ ہیں کہ آپ لوگوں کو تبلیغ و نصیحت کیجئے اگر نصیحت نفع دیتی ہو، یہ الفاظ اگرچہ شرط کے آئے ہیں مگر درحقیقت مقصود کوئی شرط نہیں بلکہ اس کا تاکیدی حکم دینا ہے جس کی مثال ہمارے عرف میں یہ ہے کہ کسی شخص کو بطور تنبیہ کے کہا جائے کہ اگر تو ادمی ہے تو فلاں کام کرنا ہوگا یا اگر توفلاں کا بیٹا ہے تو تجھے ایسا کرنا چاہئے۔ یہاں مقصود شرط نہیں ہوتی بلکہ اس کا اظہار ہوتا ہے کہ جب تو آدمی زاد ہے یا جبکہ تو فلاں بزرگ یا شریف آدمی کا بیٹا ہے تو تجھ پر یہ کلام لازم ہے مطلب یہ ہے کہ نصیحت و تبلیغ کا نافع ومفید ہونا تو متعین اور متیقن ہے اسلئے اس نافع چیز کو آپ کسی وقت نہ چھوڑیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى۝ ٩ ۭ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ۔ } ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یاد دہانی کراتے رہیے ‘ اگر یاد دہانی فائدہ دے۔ “ اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انذار و تذکیر کا فریضہ تبھی سرانجام دیں جب مخاطب کو اس سے کچھ فائدہ ہو رہا ہو یعنی وہ اس تذکیر کا اثر قبول کر رہا ہو۔ چناچہ اگلی آیت میں اس حوالے سے وضاحت کردی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 Generally, the conunentators take these as two separate sentences. They interpret the first sentence to mean: "We are giving you a simple code of law, which is easy to practise and act upon", and the second sentence to mean: "Admonish the people if admonishing be useful. " but in our opinion, the word "fa-dhakkir" connects the two sentences in meaning, and the theme of the second sentence bears upon the theme of the first sentence. Therefore, we interpret these sentences to mean: "O Prophet! We do not want to put you to any hardship concerning the preaching of Islam by demanding that you should snake the deaf to hear and the blind to see the way, but We have appointed an easy way for you, which is this: Give admonition when you feel that the people are inclined to benefit by it. As to who is inclined to benefit by the admonition and who is not, this you can only know through general preaching. Therefore, you should continue your general preaching, but your object should be to search out those from among the people who will benefit by it and adopt the right way. Such people alone are worthy of your attention and you should pay full attention only to their instruction and training. You need not abandon them and pursue those about whom you find by experience that they are not inclined to accept any admonition." Almost this very theme has been expressed in Surah 'Abasa in another way, thus: "As for him who is indifferent, to him you attend, though you would not be responsible if he does not reform. And the one who comes to you running, of his own will and fears, from him you turn away. By no means: This is but an Admonition. Let him who wills, accept it." (vv. 5-12) .

سورة الْاَعْلٰی حاشیہ نمبر :10 عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے ۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے ، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو ۔ لیکن ہمارے نزدیک فذکر کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم اس ارشاد الہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی ، ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور ا ندھوں کو راہ دکھاؤ ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارے لیے میسر کیے دیتے ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے تیار ہے ۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس کا پتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے ، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہ راست اختیار کرلیں ۔ یہی لوگ تمہاری نگاہ التفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنا چاہیے ۔ ان کو چھوڑ کر ایسےلوگوں کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے ۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورۃ عبس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ دا ری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی برتتے ہو ۔ ہرگز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے ( آیات 5 تا 12 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(86:9) فذکر : ف سببیہ ہے ذکر فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تذکیر (تفعیل) مصدر۔ تو یاد دلا۔ تو سمجھا۔ تو نصیحت کر۔ یا ۔ تو سمجھا تا رہ۔ تو یاد دلاتا رہ، تو نصیحت کرتا وہ۔ یعنی جب قرآن اور شریعت کو ہم نے تمہارے لئے آسان کردیا تو تم اس کے ذریعے سے دوسروں کو ہدایت کرتا رہ۔ ان نفعت الذکری : ان شرطیہ۔ نفعت ماضی واحد مؤنث غائب نفع (باب فتح) مصدر بمعنی نفع دینا۔ نفع مند ہونا۔ اصل میں ت ساکن تھی بعد کو آنے والے لفظ کے ساتھ ملانے کی وجہ سے متحرک ہوگئی۔ لان الساکن اذا حرک حرک بالکسر۔ کہ جب ساکن کو حرکت دی جائے گی تو کسرہ کی حرکت دی جائے گی۔ ترجمہ : اگر مفید ہو۔ ماضی شرط کی وجہ سے بمعنی مستقبل ہوگئی۔ الذکری (باب نصر) سے مصدر ہے۔ نسیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ یاد ، پند، موعظت۔ کثرت ذکر کے لئے ذکری بولا جاتا ہے یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ :۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر ان مخاطبین کو کسی قدر بھی نفع ہوجانے کی توقع ہو تو آپ ان کو سمجھاتے رہئے۔ فائدہ : گزشتہ حکم مضمون جزا پر دلالت کر رہا ہے اس لئے اس شرط کو جزاء کی ضرورت نہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ بار بار نصیحت کرنے کے باوجود بعض لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہونے کے بعد پھر (حکم تذکیر کے بعد) اس جملہ شرطیہ کو لانے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جان کو دکھ میں نہ ڈالیں۔ اور ان بےایمانوں کی حالت پر افسوس نہ کریں جیسا کہ آیت (50:45) میں آیا ہے وما انت علیہم بجبار۔ (آپ ایمان لانے پر ان کو مجبور کرنے والے نہیں ہیں) ۔ بعض عالموں نے کہا ہے کہ بظاہر یہ شرطیہ کلام ہے لیکن حقیقت میں بےایمانوں کی مصمت اور نصیحت کے اثر آفریں نہ ہونے کا اظہار ہے۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 20 ان نفعت الذکری کا لفظی ترجمہ یوں ہے اگر سمجھانا فائدہ دے “ یہ صرف ایک حالت کا ذکر ہی دوسری حالت یہ ہے کہ سمجھانے کا فائدہ نہ ہو نبی صلعم پر لوگوں کو سمجھانا چونکہ دونوں حالتوں میں ضروری تھا اس لئے ترجمے میں آیت کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ (لوگوں کو) سمجھایئے۔ فائدہ ہو (یا نہ ہو) “ قاضی شو کانی نے آیت کے اس مطلب کو ترجیح دی بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ لوگوں کو اس وقت تک سمجھایئے جب تک سمجھانا فائدہ دے۔ یعنی موقع کی مناسبت سے لوگوں کو سمجھایا کیجیے کہ سمجھنے کے لئے متوجہ ہوں اور ملول نہ ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ پس حاصل یہ ہوا کہ چونکہ نصیحت نفع کی چیز ہے اس لئے آپ نصیحت کیا کیجئے مگر باوجود فی نفسہ نافع ہونے کے یہ نہ سمجھئے کہ سب کو مفید ہوتی ہے اور سب ہی مان لیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” فذکر “ دعوائے توحید کے دونوں حصوں کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے آپ کو مسئلہ توحید کی بدولت مذکورہ بالا دونوں انعام عطاء کیے گئے لہذا جہاں پند و نصیحت اور وعظ و تبلیغ کے سود مند ہونے کی توقع ہو وہاں دعوی توحید کی تبلیغ کریں۔ ” ان نفعت الذکری “ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کے نافع ہونے کا پہلے علم ہو تب تبلیغ کرنی چاہئے ونہ نہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نصیحت کے نافع ہونے کا علم ضروری نہیں، بلکہ جہاں نفع کی توقع یا وہم بھی ہو وہاں بھی تبلیغ کرنی چاہئے البتہ جہاں بالکل مایوسی ہو اور نصیحت کے سود مند ہونے کا وہم بھی نہ ہو یعنی جن لوگوں میں ذرہ بھر انابت نہ پائی جائے۔ وہاں نصیحت نہ کی جائے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔ فاعرض عن من تولی عن ذکرنا (النجم رکوع 2) ۔ ” التذکیر والامر بالمعروف والنھی عن المنکر انما یجب اذا ظن نفعہ ولذلک امر بالاعراض عمن تولی (مظہری ج 10 ص 245) اس کے بعد ان دونوں فریقوں کا ذکر ہے جن کے لیے نصیحت و تبلیغ مفید ہوگی اور جن کے لیے مفید نہ ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) سو اگر نصیحت کرنا کچھ مفید اور نافع ہوتا ہو تو آپ نصیحت کرتے رہیے۔ یہاں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں بہت جگہ ایسا ہے کہ وہاں عدم تحقق شرط مشروط کے غیر متحقق ہونے کو مستلزم نہیں۔ سوہ نور میں گزر چکا ہے ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا کا یہ مطلب نہیں کہ اگر لونڈیاں عصمت وعفت کا ارادہ نہ کریں تو ان کو زنا کرانے مجبور کرو۔ بعض حضرات نے تذکیر اور وعظ میں اور ربات احکام میں فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تذکیر اور وعظ ضروری نہیں بلکہ آپ کے لئے حکم الٰہی کا پہنچانا اور ڈرانا ضروری ہے خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے مطلب یہ ہے کہ الزام حجت کیلئے تبلیغ احکام اور اندار تو ہر شخص کو کرنا چاہیے خواہ وہ مانے یا نہ مانے لیکن وعظ و تذکیر امر اختیاری ہے جہاں نافع ہو وہاں کریں جہاں مفید نہ ہو نہ کریں۔ جیسا کہ آگے سورة غاشیہ میں آتا ہے الامن تولیٰ وکفر۔ بہرحال انذار اور تبلیغ احکام میں یہ شرط نہیں ہے صرف وعظ و تذکیر میں یہ شرط ملحوظ ہے اور تذکیر میں یہ شرط تذکیر کی تاکید کے لئے ہے یعنی اگر کسی کی تذکیر نفع دے تو آپ ضرور تذکیر کیجئے اور یہ امر یقینی ہے کہ تذکیر عالم میں کسی نہ کسی کو نفع دے گی یعنی فی نفسہ تذکیر مفید ہے۔ جیسا کہ والذاریات میں گزر چکا ہے وذکر فان الذکری تنفع المومنین اگر کسی چیز کو ایسی شئے پر معلق کیا جائے جس کا واقع ہوناضروری ہو تو یہ شرط محض تاکید کے حکم میں ہوتی ہے ہکذا قال الشاہ عبدالعزیز الدہلوی (رح)