Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 10

سورة الفجر

وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾

And [with] Pharaoh, owner of the stakes? -

اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Fir`awn with Al-Awtad, Al-`Awfi reported from Ibn `Abbas that he said, "Al-Awtad are the armies who enforced his commands for him." It has also been said that Fir`awn used to nail their hands and their feet into pegs (Awtad) of iron that he would hang them from. A similar statement was made by Mujahid when he said, "He used to nail the people (up) on pegs." Sa`id bin Jubayr, Al-Hasan and As-Suddi all said the same thing. Allah said, الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَدِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یا اس کے ظلم وستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] فرعون اور قوم فرعون :۔ تیسری سرکش قوم فرعون اور اس کی قوم تھی۔ اور فرعون کو && میخوں والا && کہنے کی بھی کئی توجیہات بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ میخوں والے سے مراد اس کی سلطنت کی مضبوطی ہے جیسے اس سلطنت کی جڑیں میخوں کی طرح زمین میں ٹھونک دی گئی ہوں۔ دوسری یہ کہ میخوں سے مراد اس کی افواج اور لاؤ لشکر ہیں جن کے بل بوتے پر وہ اللہ کا باغی اور مدمقابل بن بیٹھا تھا۔ تیسری یہ کہ جب اس کے لشکر نقل و حرکت کرتے تو خیموں کو نصب کرنے کے لیے بڑی بڑی میخیں استعمال کرتے تھے۔ اور چوتھی یہ کہ جب اس نے کسی کو سولی چڑھانا ہوتا تو اسے تختہ دار پر رسیوں سے کسنے کے بجائے اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک دیا کرتا تھا اور یہ سب باتیں اس کی قوت، اس کی نخوت، غرور اور سنگدلی پر دلالت کرتی ہیں۔ فرعون اور اس کی قوم بھی آخرت کی منکر اور اللہ کی نافرمان تھی۔ ان لوگوں کو اللہ نے بحر قلزم میں غرق کرکے دنیا کو ان کے وجود سے پاک کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وفرعون ذی الاوتاد :” الاوتاد “ ” وتد “ کی جمع ہے، لکڑی یا لوہے وغیرہ کی میخیں۔ ” ذی اوتاد “ ” مخیوں والا “ یعنی بڑے لشکروں والا، جن کے خیمے گاڑنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں میخیں مہیا رہتی تھیں، یا سخت ظالم کہ جس پر ناراضی ہوتا اس کے ہاتھ پاؤں میں میخیں ٹھکرا دیتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ (and with Fir&aun [ the Pharaoh ], the man of the stakes...89:10). The word autad is the plural of watad that means &peg or stake or nail&. Fir&aun (the Pharaoh) is referred to as &the man of the stakes&. There are several reasons for this. Majority of the commentators hold the view that he was so called because of the brute torture and cruel torment he inflicted on the people. When he was angry with people, he would hammer stakes into the ground and tie them to these, so that they could be tortured; or he would hammer stakes into their hands and feet, as they lay on the ground in the scorching heat of the sun, and leave them to the mercy of snakes and scorpions. Other commentators have recounted a lengthy story about his wife &Asiyah. She embraced &Iman (the True Faith) and expressed it to Fir&aun (the Pharaoh). This angered him and he inflicted on her the same type of brute torture and destroyed her. [ Mazhari ].

و فرعون ذی الاوتاد، اوتاد، وتد کی جمع ہے میخ کو کہتے ہیں۔ فرعون کو ذی الاوتاد کہنے کی مختلف وجوہ حضرات مفسرین نے بیان فرمائی ہیں، مشہور جمہور مفسرین کے نزدیک وہی ہے جو خلاصہ تفسیر میں اوپر آچکی ہے کہ اس لفظ میں اسکے ظلم وجور اور وحشیانہ سزاؤں کا ذکر ہے وہ جس پر خفا ہوتا اس کے ہاتھ پاؤں چار میخوں میں باندھ کر یا خود ان میں میخیں گاڑ کر اس کو دھوپ میں لٹا دیتا اور اس پر سانپ بچھو چھوڑ دیتا تھا۔ اور بعض مفسرین نے اس کی اپنی بیوی حضرت آسیہ کے متعلق ایک طویل قصہ انکے مومن ہونے اور پھر فرعون کے سامنے اظہار ایمان کرنے کا اور پھر فرعون کی اسی قسم کی سزا کے ذریعہ ہلاک کرنے کا ذکر کیا ہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَفِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ۝ ١٠ ۠ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ وتد الوَتِدُ والوَتَدُ ، وقد وَتَدْتُهُ أَتِدُهُ وَتْداً. قال تعالی: وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 7] وكيفية كون الجبال أوتادا يختصّ بما بعد هذا الباب، وقد يسكّن التاء ويدغم في الدال فيصير ودّا، والوَتِدَان من الأذن تشبيها بالوتد للنّتوّ فيهما . ( و ت د ) الوتد والوتد ( ج اوتادا ) کے معنی میخ کے ہیں ۔ وتد تہ اتدہ وتدا کے معنی کسی چیز میں میخ لگا کر اسے مضبوط کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 7] اور پہاڑوں کو ( اس کی ) میخیں نہیں ٹھہرایا ۔ اور پہاڑوں کی زمین کی میخیں ٹھہرانے کی کیفیت اس کے بعد بیان ہوگی ۔ اور کبھی وتد کی تاء کو ساکن اور پھر دال میں ادغام کرکے ود بھی پڑھ لیتے ہیں ۔ الواتدان دونوں کانوں کے سامنے کے حصے جو میخ کی طرح ابھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ ۔ } ” اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو میخوں والا تھا۔ “ اوتاد (وتد کی جمع) لوہے کی میخوں کو بھی کہتے ہیں اور لکڑی کے کھونٹوں کو بھی جن کے ساتھ خیموں کی رسیاں باندھی جاتی ہیں۔ چناچہ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ اس کے لشکروں کے خیموں کے کھونٹوں کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ اس کے لشکر بہت بڑے تھے اور وہ بڑی شان و شوکت کا مالک تھا۔ جب وہ چڑھائی کرتا تو لشکروں کے خیمے نصب کرنے کے لیے کھونٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے ہمراہ ہوتا۔ ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا اسے صلیب پر چڑھا کر اس کے جسم میں میخیں لگوا دیتا تھا۔ (واللہ اعلم ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The words dhul-autad (of the stakes) for Pharaoh have also been used in Surah Suad: 12 above. This can have several meanings. Possibly his forces have been compared to the stakes, and "of the stakes" means "of great forces", for it was by their power and might that he ruled a firmly established kingdom; it might also imply multiplicity of forces and the meaning be that wherever his large armies camped, pegs of the tents were seen driven into the ground on every side; it may also imply the stakes at which he punished the people, and it is also possible that the pyramids of Egypt have been compared to the stakes, for they are the remnants of the grandeur and glory of the Pharaohs, and seem to have been driven into the ground like stakes for centuries.

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :6 فرعون کے لیے ذوالاوتاد ( میخوں والا ) کے الفاظ اس سے پہلے سورہ ص آیت 12 میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اس کی فوجوں کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو اور میخوں والا کا مطلب فوجوں والا ہو ، کیونکہ انہی کی بدولت اس کی سلطنت اس طرح ہوئی تھی جیسے خیمہ میخوں کے ذریعہ سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد فوجوں کی کثرت ہو اور مطلب یہ ہو کہ اس کے لشکر جہاں بھی جا کر ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی ٹھکی نظر آتی تھیں ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد وہ میخیں ہوں جن سے ٹھوک کر وہ لوگوں کو عذاب دیتا تھا ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اہرام مصر کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہو کیونکہ وہ فراعنہ کی عظمت و شوکت کے وہ آثار ہیں جو صدیوں سے زمین پر جمے کھڑے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے اُن کے ہاتھ پاوں میں میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:10) و فرعون ذی الاوتاد۔ واؤ عاطفہ۔ فرعون بوجہ علت و عجمیت غیر منصرف ہے اور اس کا عطف بھی عاد پر ہے۔ ای الم ترکیف فعل ربک بعاد و فرعون ذی الاوتاد۔ (اے مخاطب) کیا تو نے دیکھا تمہارے رب نے (قوم) عاد سے کیا کیا۔ اور فرعون ذی الاوتاد سے کیا کیا۔ ذی الاوتاد مضاف مضاف الیہ مل کر فرعون کی صفت ہیں۔ چونکہ فرعون بوجہ معطوف عاد محل جر ہے اس کی صفت اعراب میں اس کے مطابق ہوگی۔ لہٰذا ذی بمعنی والا۔ صاحب ، بحالت جر ہے۔ اوتاد۔ جمع ہے وتد کی بمعنی میخیں۔ ذی الاوتاد بمعنی میخوں والا۔ کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں :۔ (1) اوتاد۔ لشکروں کو کہتے ہیں۔ کیونکہ حکومت و سلطنت کی یہی میخ ہوتی ہیں۔ یہی ابن عباس کا قول ہے۔ (2) یہ کہ اس قدر گھوڑے اور خمیے تھے کہ بیشمار میخیں ساتھ چلا کرتی تھیں گھوڑے باندھنے کے لئے اور خمیے گاڑنے کے لئے۔ (3) یہ کہ وہ موذی (فرعون) ایمان والوں کو چومیخا کرتا تھا اس لئے میخیں رکھ چھوڑی تھیں۔ مجاہد اور مقاتل بن حبان نے کہا کہ آدمی کو زمین پر چت لٹا کر ہاتھ پاؤں سیدھے کرکے ان میں میخیں ٹھونک دیتا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ دو منثور میں عبداللہ بن مسعود سے اس کی تفسیر میں منقول ہے کہ وہ جس کو سزا دیتا اس کے چاروں ہاتھ پاوں چار میخوں سے باندھ کر سزا دیتا اور اس کی ایک تفسیر سورة ص میں گزر چکی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ فِرْعَوْنَ ذِي الْاَوْتَادِ۪ۙ٠٠١٠﴾ یہ بھی ما قبل پر معطوف ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کے رب نے فرعون کو ہلاک کردیا جو میخوں والا تھا۔ عاد وثمود کی طرح وہ بھی ہلاک ہوا اور اس کی حکومت بھی اور ڈوبنے کے عذاب میں مبتلا ہوا۔ لفظ الاوتاد، وتد کی جمع ہے وتد عربی میں میخ کو کہتے ہیں۔ فرعون کو جو ﴿ذِي الْاَوْتَادِ﴾ (میخوں والا) فرمایا اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کے بہت سے لشکر اور بہت سے خیمے تھے۔ لشکر جہاں جہاں ٹھہرتے تھے وہاں خیمے لگاتے تھے اور میخیں گاڑتے تھے اس لیے فرعون کے بارے میں ﴿ذِي الْاَوْتَادِ﴾ فرمایا اور ایک قول یہ ہے کہ فرعون جب کسی کو سزا دیتا تھا تو چار میخیں گاڑ کر ان میخوں سے اسے باندھ دیتا تھا، پھر اس کی پٹائی کرواتا تھا، یا دوسری سزا دیتا تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا سلوک کیا۔