Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 3

سورة الفجر

وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾

And [by] the even [number] and the odd

اور جفت اور طاق کی ! ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

By the dawn; And by the ten nights, And by the even and the odd. Concerning Al-Fajr, it is well known that it is the morning. This was said by Ali, Ibn Abbas, Ikrimah, Mujahid and As-Suddi. It has been reported from Masruq and Muhammad bin Ka`b that Al-Fajr refers to the day of Sacrifice (An-Nahr) in particular, and it is the last of the ten nights. The ten nights' refers to the (first) ten days of Dhul-Hijjah. This was said by Ibn `Abbas, Ibn Zubayr, Mujahid and others among the Salaf and the latter generations. It has been confirmed in Sahih Al-Bukhari from Ibn Abbas that the Prophet said, مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ أَحَبُّ إِلَى اللهِ فِيهِنَّ مِنْ هذِهِ الاْاَيَّام There are no days in which righteous deeds are more beloved to Allah than these days. meaning the ten days of Dhul-Hijjah. They (the companions) said, "Not even fighting Jihad in the way of Allah" He replied, وَلاَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ إِلاَّ رَجُلً خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذلِكَ بِشَيْء Not even Jihad in the way of Allah; except for a man who goes out (for Jihad) with his self and his wealth, and he does not return with any of that. Explanation of Night Concerning Allah's statement, وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْر

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] شفع اور وتر کا لغوی مفہوم :۔ شَفْعَ : لفظ شَفْعِ کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن میں نر و مادہ کی تمیز نہیں اور شفع کے معنی ایک چیز کو اسی جیسی دوسری چیز سے ملا دینا اور اس طرح کرکے دو دو ملی ہوئی چیزوں کو شفع کہتے ہیں۔ اور جس کے ساتھ اس جیسی چیز نہ ہو اسے وتر کہتے ہیں۔ وتر کی بہترین مثال خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور نمازوں میں اس کی مثال نماز مغرب کے فرض ہیں اور عشاء کے آخر میں وتر کی نماز اور وتر کی نماز کو وتر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جتنے بھی پڑھے جائیں۔ مثلاً ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ وہ وتر ہی رہیں گے۔ اور وتر حقیقتاً ایک ہی رکعت ہے اب اس کے ساتھ جتنے بھی جفت نفل پڑھے جائیں۔ ایک وتر سب کو وتر بنا دے گا۔ اور اعداد میں ہر وہ ہندسہ جو دو پر تقسیم ہوجائے وہ شفع یا جفت ہے۔ جیسے دو ، چار، چھ، آٹھ وغیرہ اور جو دو پر پورا تقسیم نہ ہو وہ وتر یا طاق ہے۔ جیسے ایک، تین، پانچ، سات وغیرہ۔ مثلاً سات کے وتر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھ کے تو تین جوڑے جوڑے بن گئے اور ساتویں وتر نے مل کر سب کو وتر بنادیا۔ کائنات میں اکثر اشیاء میں تو نر و مادہ کی تقسیم پائی جاتی ہے اور جن میں نہیں پائی جاتی ان میں بھی زوج ہوتا ہے۔ جیسے جوتی کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں کا زوج ہے اور جب یہ دونوں اکٹھے ہوگئے تو یہ شفع یا جفت ہوگیا۔ اور بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی مثل کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ یہی اشیاء وتر ہیں اور ایسی اشیاء کی موجودگی اور استقلال اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(والشفع والوتر : جفت وہ عدد ہے جو دو برابر حصوں میں تقسیم ہوجائے، جیسے دو ، چار، چھ وغیرہ اور طاق وہ عدد ہے جو اس طرح تقسیم نہیں ہوتا، مثلاً ایک ، تین، پانچ وغیرہ۔ کائنات کی کوئی بھی چیز گنتی کے وقت ان دو حالتوں سے خالی نہیں۔ تمام چیزیں بڑھتے وقت بھی طاق سے جفت اور جفت سے طاق ہوتی چلی جاتی ہیں اور گھٹتے وقت بھی ۔ مثلاً ایک سے دو ، پھر تین، پھر چار و علیٰ ہذا القیاس اور دس سے نو، پھر آٹھ سے سات و علی ہذا لاقیاس۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (and by the even and the odd,...89:3). The Qur&an has not specified what the words &the even& and &the odd& refer to. Therefore, the commentators have assigned different interpretations to them. Nevertheless, it has been mentioned in a Prophetic Hadith narrated by Abu-z-Zubair from Sayyidna Jabir (رض) thus: (وَالْفَجْرِ ۔ وَلَيَالٍ عَشْرٍ ) ھو الصّبح وعشر النحر والوتر یوم عرفہ والشفع یوم النّحر &Fajr& refers to the dawn, and &the ten nights& refer to the first ten nights of Dhul Hijjah [ which include the Day of Sacrifice ], and that al-watr [ the odd ] refers to the day of ` Arafah [ because it falls on the ninth ] and ash-shaf refers to the Day of Sacrifice [ because it falls on the 10th day of Dhul Hijjah ].& Qurtubi cites this narration and confirms that its chain of authorities is more authentic than the other tradition narrated by Sayyidna ` Imran Ibn Husain (رض) which talks about odd [ three ] and even [ two/four ] units of prayers. Therefore, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) Ikramah and Nahhas رحمۃ علیہما have preferred the view that &even& refers to the Day of Sacrifice and &odd& refers to the day of ` Arafah. Some commentators like Ibn Sirin, Masruq, Abu Salih and Qatadah رحمۃ علیہم said that &even& refers to the entire creation, because Allah has created them in pairs, and thus He says: وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ &And from everything We have created (a pair of) two kinds [ 51:49] & -belief/disbelief, happiness/unhappiness, light/darkness, night/day, cold/ heat, sky/earth, human/Jinn and male/female as against all of these pairs, Allah is the only One Being &odd& that does not have a pair: ھو اللہ الاحد الصَّمَد &He, is Allah, the One, Besought of all, needing none& وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (and by the night when it moves away...89:4). The word yasr is derived from sara and means &to walk in the night& or &travel by night&. The verse says when the night itself moves away. It signifies &when the night departs and goes away.& After taking oath by these five items, the next verse says: هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ (Is there [ not ] in that an oath (enough) for a man of sense?...89:5). An intelligent person is, in a very special style, invited to think and reflect. The word hijr literally denotes &to prevent&. The intellect has been called hijr because it prevents the person from doing which is unbecoming of him - actions or statements. Are these oaths not sufficient for a man possessed of intellect, sound reasoning, understanding and religious discernment? This sentence is in the form of interrogation to awaken man from his slumber. The subject of oaths is implied, though not stated explicitly. The verse purports to say that when man considers into the Majesty of Allah and reflects on the greatness of objects of oaths, it would be confirmed and verified that everyone has to give account of his deeds, and reward and punishment in the Hereafter is sure. In this connection, reference is made to the destruction of three previous nations: [ 1] the nation of ` Ad; [ 2] the nation of Thamud; and [ 3] the nation of Fir&aun (the Pharaoh). ` Ad and Thamud are two nations whose genealogy link up with Iram. Thus Iram may refer to both, ` Ad as well as Thamud. Here however with ` Ad only the name Iram is linked for genealogical reasons: أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ۔ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (Have you not seen how your Lord dealt with [ the people ] ` Ad of Iram, the men of tall pillars...(89:6-7). The word &Iram& in verse [ 7] is, grammatically speaking, either ` atf bayan (syndetic explicative) or badal (complement). The purpose of the construction is to specify one of the two tribes of ` Ad. This statement specifies that it refers to ` Ad-ul-&ula (the early generation of ` Ad). A remnant from the former generation is referred to as ` Ad-ul-&Ukhra, because they are linked with their great-grand father Iram more closely than ` Ad-ul-&Ukhra. Here the Qur&an refers to the first tribe as ` Ad Iram. In Surah An-Najm, they are described as: عَادًا الْأُولَىٰ (the earlier ` Ad,) [ 53:50] &

والشفع والوتر، شفع کے لغوی معنے جوڑ کے ہیں جس کو اردو میں جفت کہتے ہیں اور وتر کے معنے طاق اور فرد کے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ متعین نہیں کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے اسلئے ائمہ تفسیر کے اقوال اس میں بیشمار ہیں مگر خود حدیث مرفوع جو ابوالزبیر نے حضرت جابر سے روایت کی ہے اسکے الفاظ یہ ہیں۔ (والفجر ولیال عشر) ھو الصبح وعشر النحر والو تریوم عرفہ والشفع یوم النحر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایا کہ فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد عشرہ نحر ہے (اور یہ عشرہ ذی الحجہ کا پہلا ہی عشرہ ہوسکتا ہے جس میں یوم نحر شامل ہے) اور فرمایا کہ وتر سے مراد روز عرفہ اور شفع سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے۔ قرطبی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ اسناد کے اعتبار سے اصح ہے بہ نسبت دوسری حدیث کے جو حضرت عمر ان بن حصین کی روایت سے نقل ہوئی ہے جس میں شفع ووتر نماز کا ذکر ہے۔ اسی لئے حضرت ابن عباس، عکرمہ (رح) ، نحاس (رح) نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ شفع سے مراد یوم النحر اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے۔ اور بعض ائمہ تفسیر ابن سیرین، مسروق، ابوصالح، قتادہ نے فرمایا کہ شفع سے مراد تمام مخلوقات ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب مخلوقات کو جوڑ جوڑ جفت پیدا کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے ومن کل شیء خلقنا زوجین، یعنی ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے۔ کفر و ایمان، شقادت وسعادت، نورو ظلمت، لیل ونہار، سردی گرمی، آسمان و زمین، جن وانس، مرد و عورت اور ان سب کے بالمقابل وتر وہ صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے ھو اللہ الاحد الصمد، والیل اذایسر، یسر، سری سے مشتق ہے جس کے معنے رات کو چلنے کے ہیں۔ یہاں خود رات کو کہا گیا کہ جب وہ چلنے لگے یعنی ختم ہونے لگے۔ یہ پانچ قسمیں ذکر فرمانے کے بعد حق تعالیٰ نے غفلت شعار انسان کو ایک خاص انداز میں سوچنے سمجھنے کی دعوت دینے کے لئے فرمایا ھل فی ذلک قسم لذی حجر، حجر کے لفظی معنے روکنے کے ہیں انسان کی عقل اس کی برائی اور مضرت رساں چیزوں سے روکنے والی ہے اسلئے حجر بمعنے عقل بھی استعمال ہوتا ہے یہاں یہی معنے مراد ہیں۔ معنے آیت کے یہ ہیں کہ کیا عقل والے آدمی کے لئے یہ قسمیں بھی کافی ہیں یا نہیں۔ یہ صورت تو استفہام کی ہے مگر درحقیقت انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کی ایک تدبیر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت شان پر اور اسکے قسم کھا کر ایک بیان کو بیان کرنے پر اور خود ان چیزوں کی عظمت پر جن کی قسم کھائی گئی ہے ذرا سا غور کرو تو جس چیز کے لئے یہ قسم کھائی گئی اس کا یقینی ہونا ثابت ہوجائے گا اور وہ چیز یہی ہے کہ انسان کے ہر عمل کا آخرت میں حساب ہونا اور اس پر جزا وسزا ہونا شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ یہ جواب قسم اگرچہ صراحة مذکور نہیں مگر سباق کلام سے ثابت ہے اور آگے جو کفار پر عذاب آنیکا بیان ہو رہا ہے وہ بھی اسی کا بیان ہے کہ کفر و معصیت کی سزا آخرت میں تو ملنا طے شدہ ہی ہے کبھی کبھی دنیا میں بھی ایسے لوگوں پر عذاب بھیج دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تین قوموں کے عذاب کا ذکر فرمایا۔ اول قوم عاد، دوسرے ثمود، تیسرے قوم فرعون، عادوثمود دو قومیں جنکا سلسلہ نسب اوپر جاکر ارم میں ملجاتا ہے اس طرح نفط ارم عادوثمود دونوں کے لئے بولا جاسکتا ہے۔ یہاں صرف عاد کے ساتھ ارم کا ذکر کرنے کی وجہ خلاصہ تفسیر میں عادوثمود کے دونوں قوموں کے تحقیقی حالات کے ساتھ گزرچکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ۝ ٣ ۙ شفع ( جفت) الشَّفْعُ : ضمّ الشیء إلى مثله، ويقال لِلْمَشْفُوعِ : شَفْعٌ ، وقوله تعالی: وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] ، قيل : الشَّفْعُ المخلوقات من حيث إنها مركّبات، كما قال : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، والوتر : هو اللہ من حيث إنّ له الوحدة من کلّ وجه . وقیل : الشَّفْعُ : يوم النّحر من حيث إنّ له نظیرا يليه، والوتر يوم عرفة «7» ، وقیل : الشَّفْعُ : ولد آدم، والوتر : آدم لأنه لا عن والد «8» ، ( ش ف ع ) الشفع کے معنی کسی چیز کو اس جیسی دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے کے ہیں اور جفت چیز کو شفع کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] اور جفت اور طاق کی ۔ بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد مخلوق ہے کیونکہ وہ جفت بنائی گئی ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور ہر چیز ک ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ اور وتر سے ذات باری تعالیٰ مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یگانہ ہے بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد یوم النھر ہے کیونکہ اس کے بعد دوسرا دن اس کی مثل ہوتا ہے اور وتر سے مراد یوم عرفہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ شفع سے اولاد آدم اور وتر سے آدم (علیہ السلام) مراد ہیں کیونکہ وہ بن باپ کے پیدا کئے گئے تھے ۔ وتر الوَتْرُ في العدد خلاف الشّفع، وقد تقدّم الکلام فيه في قوله : وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] «1» وأَوْتَرَ في الصلاة . والوِتْرُ والوَتَرُ ، والتِّرَةُ : الذّحل، وقد وَتَرْتُهُ : إذا أصبته بمکروه . قال تعالی: وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد/ 35] . والتَّواتُرُ : تتابع الشیء وترا وفرادی، وجاء وا تَتْرَى قال تعالی: ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون/ 44] ولا وتیرة في كذا، ولا غمیزة، ولا غير، والوَتِيرَة : السّجيّة من التّواتر، وقیل للحلقة التي يتعلم عليها الرّمي : الوَتِيرَة، وکذلک للأرض المنقادة، والوَتِيرَة : الحاجز بين المنخرین . ( و ت ر ) الواتر ( طاق ) یہ اعداد میں شفیع کی ضد ہے جس کی بحث آیت ۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ [ الفجر/ 3] اور جفت اور طاق کی ( قسم ) کے تحت گزرچکی ہے ۔ اوتر ۔ وتر نماز پڑھنا ۔ الوتر والوتر والترۃ کے معنی کینہ کے ہیں اور اسی سے وترتہ ( ض ) ہے جس کے معنی کسی کو تکلیف پہنچانے یا اس کا حق کم کرنے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ : ۔ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمالَكُمْ [ محمد/ 35] وہ ہر گز تمہارے اعمال کو کم ( اور کم ) ) نہیں کرے گا ۔ التواتر کسی چیز کا یکے بعد دیگرے آنا محاورہ ہے جاؤ تترٰی ( وہ یکے دیگرے کچھ وقفہ کے بعد آئے ) قرآن میں ہے : ثُمَّ أَرْسَلْنا رُسُلَنا تَتْرا [ المؤمنون/ 44] پھر ہم پے درپے اپنے پیغمبر بھیجتے رہے ۔ لاوتیرۃ فی کذ ولا عمیزۃ ولاغیر اس میں عقلی کمزوری یا کوئی دوسرا عیب نہیں ہے اور تواتر سے وتیرۃ ہے جس کے معنی سجیتہ ( طبعی عادت کے ) بھی آتے ہیں ۔ نیز وتیرۃ کا لفظ ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) وہ حلقہ جس پر بچے تیر اندازی کی مشق کرتے ہیں ۔ ( 2) نرم زمین ( 3 ) ناک کے نتھنوں کا درمیان پردہ ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ۔ } ” اور قسم ہے ُ جفت کی اور طاق کی۔ “ اس سے عموماً رمضان کے آخری عشرہ کی جفت اور طاق راتیں مرادلی جاتی ہیں اور طاق راتوں میں لیلۃ القدر ہے۔ البتہ دنیا کے تمام علاقوں میں چاند چونکہ ایک ساتھ نظر نہیں آتا اس لیے مختلف علاقوں کی طاق اور جفت راتوں میں فرق ہوگا۔ مثلاً ہوسکتا ہے ہمارے ہاں پاکستان میں جو رات طاق ہو سعودی عرب میں وہ جفت ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: جفت سے مراد ۱۰ ذُوالحجہ کا دِن اور طاق سے مراد عرفہ کا دن ہے، جو ۹ ذُوالحجہ کو آتا ہے ان ایام کی قسم کھانے سے ان کی اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:3) والشفع والوتر : واؤ عاطفہ جس کا عطف حسب جملہ سابقہ الفجر پر ہے۔ واؤ قسم مقدرہ۔ الشفع۔ الوتر مقسم بہٖ اور قسم ہے الشفع کی۔ اور الوتر کی۔ الشفع والوتر کی تشریح میں صاحب تفسیر ضیاء القرآن لکھتے ہیں :۔ اس کے بعد فرمایا : قسم ہے الشفع کی (یعنی جفت کی) اور الوتر (طاق) کی اس کے مصداق کے بارے میں متعدد اقوال ہیں : ان میں سے مجھے یہ قول پسند ہے کہ شفع سے مراد مخلوق اور وتر سے مراد خالق۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) عطیہ، مجاہد، اور دیگر جلیل القدر علماء تفسیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس کی تشریح یوں کی ہے کہ ساری مخلوق دو ، دو ہے۔ کفر و ایمان، خلالت و ہدایت، سعادت و شقاوت، لیل و نہار، زمین و آسمان، بحر و تر، شمس و قمر، جن و انس، مذکر و مؤنث، زندگی اور موت، عزت و ذلت، علم اور جہالت۔ وغیر ہ وغیرہ۔ لیکن اللہ ت اعلیٰ اپنی تمام شانوں اور صفات میں یکتا ہے، اور طاق ہے۔ وہاں زندگی ہے موت نہیں۔ عزت ہے ذلت نہیں ہے۔ علم ہے جہالت نہیں ہے۔ قوت ہے ضعف نہیں ہے۔ اس کی ذات بھی یکتا ہے اور صفات بھی یکتا ہے۔ الشفع کے معنی کسی چیز کو اسی جیسی دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے کے ہیں۔ اور جفت چیز کو شفع کہا جاتا ہے۔ الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی عدد یا سفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کمتر کے ساتھ اس کی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے اور قیامت کے روز سفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی۔ الوتر : یہ ضد ہے الشفع کی۔ الشفع (جفت جو دو پر تقسیم ہوسکے) الوتر (طاق ۔ جو دو پر تقسیم نہ ہوسکے) ۔ فائدہ : الشفع والوتر سے کیا مراد ہے علماء میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ہر ایک نے اپنی استعداد کے مطابق اپنی تاویل کو دلائل سے ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ تمام معانی ہی مراد ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 اگرچہ جفت اور طاق کے الفاظ عام ہیں اس لئے ان سے مراد وہ تمام چیزیں ہوسکتی ہیں جو جفت اور طاق ہوں لیکن ان سے خاص طور پر یوم النحر (ذی الحجہ) اور یوم عرفہ مراد ہے جیسا کہ اوپر حضرت جابر کی روایت میں بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جفت سے مراد مخلوق اور طاق سے مراد اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ صحیحین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ طاق ہے، طاق کو پسند کرتا ہے واللہ اعلم (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جفت سے مراد ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور طاق سے نویں تاریخ کذا فی الحدیث اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سے نماز مراد ہے کہ کسی کی طاق رکعتیں ہیں، کسی کی جفت اور پہلی حدیث کو روایة بھی اصح کہا گیا ہے اور درایة بھی وہ ارجح ہے کیونکہ بقیہ منقسم بہ ازمنہ میں سے ہیں اور یہ تطبیق بھی ہوسکتی ہے کہ شفع و بر سے مراد شفع و وتر معظم ہو اور دونوں اس کے مصداق ہوجائیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والشفع والوتر (3:89) ” اور جفت اور طاق کی قسم “۔ اس مانوس اور محبوب فضائے صبح گا ہی میں اور قابل قدر دس راتوں میں شفع ووتر روح صلوٰة ہیں۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں : ” نماز میں شفع بھی ہے اور وتر (ترمذی) ۔ ان آیات میں جو فضا پائی جاتی ہے اس میں یہی مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس چھاجانے والی کائنات کی روح کے ساتھ عبادت گزار روح کا اتصال ہی موزوں مفہوم ہے ، جس طرح ایک عبادت گزار روح اللہ کی پسندیدہ دس راتوں میں روح کے ساتھ وصال پاتی ہے اور پھر یہ راتیں اور یہ روشن نمود صبح سب باہم ملتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ثالثاً : ﴿وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِۙ٠٠٣﴾ جفت اور طاق کی قسم کھائی، جفت جوڑے کو اور طاق بےجوڑے کو کہتے ہیں سنن ترمذی (ابواب التفسیر) میں حضرت عمران بن حصین (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ﴿وَّ الشَّفْعِ وَ الْوَتْرِ﴾كے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے نماز مراد ہے (کیونکہ) بعض نمازیں ایسی ہیں جو شفع ہیں یعنی دو یا چار رکعت کر کے پڑھی جاتی ہیں اور وتر سے وہ نمازیں مراد ہیں جن کی طاق رکعتیں ہوں یعنی مغرب اور وتر کی نماز۔ وفیہ راو مجھول۔ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ وتر اللہ کی ذات ہے اور تم سب لوگ شفع ہو پھر حضرت مجاہد تابعی (رح) سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا فرمایا آسمان ہے اور زمین ہے خشکی ہے اور سمندر ہے، انسان ہیں اور جن ہیں، چاند ہے اور سورج ہے اور ذکور ہیں، اناث ہیں یعنی مرد اور عورت اور اللہ تعالیٰ وتر ہے یعنی تنہا ہے وفیہ اقوال آخر۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” والشفع والوتر “ جفت اور طاق سے مراد نماز ہے کیونکہ بعض نمازوں کی رکعتیں جفت ہیں۔ اور بعض کی طاق یہ تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ روی مرفوعا عن عمران بن الحصین عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہ قال الشفع والوتر الصلاۃ منہا شفع و منہا وتر (قرطبی ج 20 ص 39) ۔ یہ قسم ما قبل سے بطور ترقی ہے اچھا لیلۃ القدر تو سال میں ایک دفعہ آتی ہے اور بالتعیین معلوم بھی نہیں، پانچوں نمازیں تو رات دن میں ضرور آتی ہیں ان کی پابندی کر کے آخرت کے لیے کچھ زاد راہ بنا لو اور دنیا کے پیچھے نہ بھاگو پانچوں نمازوں کی پابندی سے انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح ایک کپڑے کو روزانہ پانچ دفعہ دھو کر صاف کرلیا جائے یا جس طرح روزانہ پانچ دفعہ نہانے والے کا بدن میل کچیل سے پاک ہوجاتا ہے۔ کما فی الحدیث۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اورجفت کی قسم اور طاق کی قسم۔