Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 7
سورة الفجر
اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾
[With] Iram - who had lofty pillars,
ستونوں والے ارم کے ساتھ ۔
اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾
[With] Iram - who had lofty pillars,
ستونوں والے ارم کے ساتھ ۔
Saw you not how your Lord dealt with `Ad Iram of the pillars, These were the first people of `Ad. They were the descendants of `Ad bin Iram bin `Aws bin Sam bin Nuh. This was said by Ibn Ishaq. They are those to whom Allah sent His Messenger Hud. However, they rejected and opposed him. Therefore, Allah saved him and those who believed with him from among them, and He destroyed others with a furious, violent wind. سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَـنِيَةَ أَيَّامٍ حُسُوماً فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ فَهَلْ تَرَى لَهُم مِّن بَاقِيَةٍ Which Allah imposed on them for seven nights and eight days in succession, so that you could see men lying overthrown, as if they were hollow trunks of date palms! Do you see any remnants of them? (69: 7-8) Allah mentioned their story in the Qur'an in more than one place, so that the believers may learn a lesson from their demise. Allah then says, إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَاد (Iram of the pillars). This is an additional explanation that adds clarification who they actually were. Concerning His saying, ذَاتِ الْعِمَادِ (of the pillars.) is because they used to live in trellised houses that were raised with firm pillars. They were the strongest people of their time in their physical stature, and they were the mightiest people in power. Thus, Hud reminded them of this blessing, and he directed them to use this power in the obedience of their Lord Who had created them. He said, وَاذكُرُواْ إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَأءَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَكُمْ فِى الْخَلْقِ بَسْطَةً فَاذْكُرُواْ ءَالاءَ اللَّهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ And remember that He made you successors after the people of Nuh and increased you amply in stature. So remember the graces from Allah so that you may be successful.(7:69) Allah also said, فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُواْ فِى الاٌّرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُواْ مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً As for 'Ad, they were arrogant in the land without right, and they said: "Who is mightier than us in strength" See they not that Allah Who created them was mightier in strength than them. (41:15) And Allah says here, الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَدِ
7۔ 1 ارم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر) ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت وطاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہوسکتے ہیں۔
[٦] ذکر قوم عاد :۔ ان شہادتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قوم عاد کا ذکر کیا۔ قوم عاد کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اور عاد ارم بھی۔ عاد ارم وہ اس لحاظ سے ہیں کہ ارم بن سام بن نوح کی اولاد تھے اور ذات العماد کی کئی توجیہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود بہت بلند وبالا قد و قامت رکھتے تھے۔ دوسری یہ کہ بلند وبالا عمارتیں بنانے کا آغاز انہوں نے ہی کیا تھا۔ تیسری یہ کہ جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔
They are introduced here by the epithet: ذَاتِ الْعِمَادِ (the men of tall pillars) The word ` imad& and &amud& means &pillar&. The people of ` Ad are mentioned as the men of tall pillars because they were very tall in stature. They were a stronger and more powerful people than any other nations. The Qur&an describes them explicitly, thus: لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ (the like of whom were never created in the lands...89:8) The Qur&an made it clear that this nation was the tallest and the strongest in their physical stature, but the Qur&an did not state the exact measurement of the people because it was unnecessary [ for Qur&anic purposes ]. Therefore, that detail has been left out. Israelite traditions, however, narrate such incredible reports about their stature, height and power that are difficult to believe. It is reported from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Muqatil that they were six yards or eighteen feet [ 5.46] tall. This too seems to be derived from Israelite reports. And Allah knows best! Some commentators say that &Iram& is the name of the ¶dise& which ` Ad&s son Shaddad had built. The epithet &possessor of tall pillars& [ translated above as &men of tall pillars&] is used for him. The [ so-called paradise ] was a lofty structure standing on tall pillars built with gold and silver and studded with jewels, gems and other precious stones, so that people may prefer an instant and ready at hand paradise instead of Paradise of the Hereafter. When this magnificent palace was ready for use, and Shaddad, together with the leaders of his kingdom, wanted to enter, Divine punishment overtook them. They, together with the palaces, were completely destroyed. [ Qurtubi ]. In this interpretation, the verse refers to a specific punishment which descended upon the paradise built by ` Ad&s son Shaddad. In the first interpretation, which the majority of the commentators prefer, it refers to all the punishments that descended upon the nation of ` Ad.
ارم ذات العماد، لفظ ارم عاد کا عطف بیان یا بدل ہے اور مقصود اس سے قبیلہ عاد کی دو قسموں میں سے ایک کی تعین ہے یعنی عاد اولیٰ جو انکے متقدمین ہیں ان کو عاد ارم کے لفظ سے اسلئے تعبیر کیا کہ یہ لوگ اپنے جدا علی ارم سے بہ نسبت عاد اخری کے قریب تر ہیں۔ ان کو اس جگہ قرآن کریم عاد ارم کے لفظ سے اور سورة نجم میں اھلک عاد الاولی کے عنوان سے تعبیر فرماتا ہے۔ ان کی صفت میں قرآن کریم نے ذات العماد فرمایا۔ عماد اور عمود ستون کو کہتے ہیں۔ قوم عاد کو ذات العماد اسلئے کہا گیا کہ انکے قدر وقامت بڑے طویل تھے اور یہ قوم اپنے ڈیل ڈول اور قوت و طاقت میں سب دوسری قوموں سے ممتاز تھی ان کے اس امتیاز کو خود قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا طاقت میں سب دوسری قوموں سے ممتاز تھی ان کے اس امتیاز کو خود قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں فرمایا لم یخلق مثلھا فی البلاد، یعنی ایسی طویل القامت قومی دنیا میں اس سے پہلے پیدا نہیں کی گئی تھی۔ قرآن کریم نے انکے طول قامت اور ڈیل ڈول کا دنیا کی ساری قوموں سے زیادہ ہونا تو واضح فرما دیا مگر ان کی کوئی پیمائش ذکر کرنا ضرورت سے زائد کام تھا اس کو چھوڑ دیا۔ اسرائیل روایات میں انکے قدوقامت اور قوت کے متعلق عجیب عجیب اقوام مذکور ہیں۔ حضرت ابن عباس اور مقاتل سے ان کی قامت کا طول بارہ ہاتھ یعنی چھ گز یا فٹ ٨١ فٹ منقول ہے اور ظاہر یہ ہے کہ ان کا یہ قول بھی اسرائیل روایات ہی سے ماخوذ ہے واللہ اعلم اور بعض حضرت مفسرین نے فرمایا کہ ارم اس جنت کا نام ہے جو عاد کے بیٹے شداد نے بنائی تھی اور اسی کی صفت ذات العماد ہے کہ وہ ایک عظیم الشان عمارت بہت سے عمودوں پر قائم ہونے چاندی اور جواہرات سے تعمیر کی تھی تاکہ لوگ آخرت کی جنت کے بدلے اس نقد جنت کو اختیار کرلیں مگر جب یہ عالیشان محلات تیار ہوگئے اور شداد نے اپنے روسائے مملکت کیساتھ اس میں جانیکا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا یہ سب ہلاک ہوگئے اور وہ محلات بھی مسمار ہوگئے (قرطبی) اس اعتبار سے اس آیت میں قوم عاد کے ایک خاص عذاب کا ذکر ہوا جو .... شداد بن عاد اور اس کی بنائی ہوئی جنت پر نازل ہوا اور پہلی تفسیر جس کو جمہور مفسرسین نے اختیار کیا ہے اس میں قوم عاد پر جتنے عذاب آئے ہیں ان سب کا بیان ہے۔
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ٧ أرم الإرم : علم يبنی من الحجارة، وجمعه : آرام، وقیل للحجارة : أُرَّم . ومنه قيل للمتغیظ : يحرق الأرم وقوله تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] إشارة إلى عمدٍ مرفوعة مزخرفة، وما بها أَرِمٌ وأَرِيمٌ ، أي : أحد . وأصله اللازم للأرم، وخص به النفي، کقولهم : ما بها ديّار، وأصله للمقیم في الدار . ا ر م ) الارم ۔ در اصل اس نشان کو کہتے ہیں جو پتھروں سے بنا دیا تا ہے اس کو جمع ارام ہے اور پتھروں کو ارم کہا جاتا ہے اور اسی سے غضب ناک آدمی کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ فلان یحرق الارم یعنی فلاں مارے غصے کے دانت پیستا ہے اور آیت کریمہ :۔ { إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ } ( سورة الفجر 7) ارم ستونوں والے ۔ میں ارم سے بلندا در مزین ستون مرا د ہیں ( جو قوم عاونے بنائے تھے ) مابھا ارم واریم یعنی اس میں کوئی نہیں اصل میں اس کے معنی الازم للارم کے ہیں اور اس کا استعمال ہمیشہ ( حرف ) نقی کے ساتھ ہوتا ہے جس طرح کہ مابھا دیار کا محاورہ ہے اور اس کے اصل معنی مقیم فی الدار کے ہیں ۔ عمد العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة/ 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال : بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب . ( ع م د ) العمد کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة/ 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے
(8-7) جن کے قد و قامت ستون جیسے لانبے تھے جن کے برابر زور و قوت میں کوئی نہیں پیدا کیا گیا، یا یہ کہ ارم اس شہر کا نام ہے جو انہوں نے بہت مضبوط بنایا تھا جس میں سونے اور چاندی کے ستون تھے۔ اس کی خوبصورتی میں کوئی شہر اس کے برابر نہیں تھا۔
آیت ٧{ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ۔ } ” وہ ارم جو ستونوں والے تھے ۔ “ ” ارم “ کے بارے میں عام مورخین کا خیال ہے کہ یہ قوم عاد کے شاہی خاندان کا لقب تھا۔ یعنی جس طرح مصر میں فراعنہ ‘ عراق میں نماردہ اور یمن میں تبایعہ خاندانوں کی حکومتیں تھیں ‘ اسی طرح قوم عاد کے علاقے میں ارم خاندان برسراقتدار تھا ۔ یہاں ان کے حوالے سے ستونوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ وہ لوگ اپنی تعمیرات میں ستونوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور دنیا میں ستونوں پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہی نے شروع کیا تھا ۔ جیسے اس قوم کے ایک شہر کے جو زیرزمین آثار دریافت ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر کی فصیل پر تیس ستون یا مینار بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شداد نے خصوصی اہتمام کے ساتھ بسایا تھا جو اس قوم کا بہت بڑا بادشاہ تھا۔
3 `Ad Iram implies the ancient tribe of `Ad, who have been called 'Ad Ula in the Qur'an and Arabian history. In Surah An-Najm, it has been said: "And that We destroyed the ancient people of `Ad" (v. 50) , i.e. the `Ad to whom the Prophet Hud had been sent, and who were punished with a scourge. As against thetas the people of `Ad who retrained safe and flourished afterwards are remembered as Ad Ukhra in Arabian history. The ancient `Ad are called Ad lram for the reason that they belonged to that branch of the Semetic race which descended from Iram son of Shem son of Noah (peace be upon him) . Several other sub-branches of this main branch are well known in history one of which were the Thamud, who have been mentioned in the Qur'an; another are the Aramaeans, who in the beginning inhabited the northern parts of Syria and whose language Aramaic occupies an important place among the Semetic languages. The words dhat-ul-`imad (of lofty pillars) have been. used for the 'Ad because they built high buildings and the pattern of architecture of erecting edifices on lofty pillars was introduced by them in the world. At another place in the Qur'an this characteristic has been mentioned in connection with the Prophet Hud, who said to them: "What, you erect for mere pleasure a monument on every high spot, and build huge castles as if you were immortal!" (Ash-Shu`ara': 128-129) .
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :3 عادِ ارم سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جسے قرآن مجید اور تاریخ عرب میں عادِ اولی کا نام دیا گیا ہے ۔ سورہ نجم میں فرمایا گیا ہے کہ وانہ اھلک عاد الاولی ۔ ( آیت 50 ) اور یہ کہ اس نے قدیم قوم عاد کو ہلاک کیا ، یعنی اس قوم عاد کو جس کی طرف حضرت ہود بھیجے گئے تھے اور جس پر عذاب نازل ہوا تھا ۔ اس کے مقابلہ میں تاریخ عرب اس قوم کے ان لوگوں کو جو عذاب سے بچ کر بعد میں پھلے پھولے تھے عادِ اخری کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ قدیم قوم عاد کو عاد ارم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوح علیہ السلام سے چلی تھی ۔ اسی شاخ کی کئی دوسری ضمنی شاخیں تاریخ میں مشہور ہیں جن میں سے ایک ثمود ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور دوسرے آرامی ( Aramaeans ) ہیں جو ابتداءً شام کے شمالی علاقوں میں آباد تھے اور جن کی زبان آرامی ( Aramaic ) سامی زبانوں میں بڑا اہم مقام رکھتی ہے ۔ عاد کے لیے ذات العماد ( اونچے ستونوں والے ) کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں بناتے تھے اور دنیا میں اونچے ستونوں پر عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہی نے شروع کیا تھا ۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ ان کی اس خصوصیت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ حضرت ہود نے ان سے فرمایا ) أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آَيَةً تَعْبَثُونَ ( 128 ) وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ ( 129 ) یہ تمارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لا حاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے ( الشعراء آیات 128 ۔ 129 ) ۔
4: ’’اِرم‘‘ قوم عاد کے جِد اعلی کا نام ہے، اس لئے قوم عاد کی جس شاخ کا یہاں ذکر ہے، اُس کو عاد اِرم کہا جاتا ہے۔ اور اُن کو ستونوں والا کہنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اُن کے قد و قامت اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھے اسی لئے آگے فرمایا گیا ہے کہ ان جیسے لوگ کہیں اور پیدا نہیں کئے گئے۔ اور بعض حضرات نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انہوں نے اپنی تعمیرات میں بڑے بڑے ستون بنائے ہوئے تھے۔ ان کے پاس حضرت ہود علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا جن کا مفصل واقعہ سورۃ اعراف (۷:۶۵) اور سورۃ ہود (۱۱:۵۰) میں گذر چکا ہے۔
(89:7) ارم ذات العماد۔ یہ عاد کا عطف بیان ہے اور اس کی وضاحے کرتا ہے یعنی وہ عاد جو قبیلہ ارم ستونوں والوں سے تھا۔ ارم کے متعلق لغات القرآن میں ہے :۔ اس کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے لیکن زیادہ قرین صحت یہی ہے کہ یہ ایک قبیلہ کا نام ہے جو جد قبیلہ ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ عرب بائدہ میں سے عاد اولی اسی قبیلہ میں سے شمار کیا جاتا ہے چناچہ قرآن عظیم میں بعاد ارم ذات العماد میں عاد سے مراد عاد اولیٰ اور ارم سے ان کا قبیلہ مراد ہے۔ ارم۔ یا تو تانیث اور علمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے یا علمیت اور عجمیت کی وجہ سے لہٰذا منصوب ہے۔ ذات العماد مضاف مضاف الیہ ۔ ستونوں والے۔ عماد جمع ہے عمادۃ کی بمعنی ستون۔ علامہ احمد فیومی المصباح میں لکھتے ہیں :۔ عماد وہ چیز ہے کہ جس کا سہارا لیا جائے۔ اس کی جمع عمد (بفیحین) ہے۔ امام راغب بھی یہی معنی لکھتے ہیں۔ چناچہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ فی عمد ممددۃ (104:9) (اس کے شعلے) لمبے لمبے ستونوں کی صورت میں ہونگے۔ آیات 67 کا ترجمہ ہوگا :۔ (اے مخاطب) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے قوم عاد سے یعنی قوم ارم ستونوں والی سے کیا کیا۔ تاج العروس میں ہے :۔ آیت شریفہ ارم ذات العماد میں بعض نے ” ذات العماد “ کے معنی درازقامت بیان کئے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مستونوں والی بلند عمارت والے ہیں۔ اور اس کی جمع عمید ہے۔
ف 11 ” ارم “ قوم عاد کے اجداد میں ایک شخص کا نام تھا۔ عاد کی اس کی طرف نسبت کرنے سے شاید یہ بتانا مقصود ہے کہ یہاں ” عاد “ سے مراد عاد اولیٰ سے نہ کر عادثانیہ۔ بعض کا خیال ہے کہ ارم خاص اس جگہ کا نام تھا جہاں عاد رہتے تھے واللہ اعلم۔12 ” ذات العماد “ کے لفظی معنی ہیں ’ دستونوں والے۔ “ ان کا یہ لقب یا تو اس لئے ہے کہ وہ بڑے قد آور تھے اور یا اس لئے ہے کہ وہ بڑے بڑے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے واللہ اعلم۔