Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 8
سورة الفجر
الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾
The likes of whom had never been created in the land?
جس کی مانند ( کوئی قوم ) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔
الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾
The likes of whom had never been created in the land?
جس کی مانند ( کوئی قوم ) ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔
The like of which were not created in the land, meaning, there had been none created like them in their land, due to their strength, power and their great physical stature. Mujahid said, "Iram was an ancient nation who were the first people of `Ad." Qatadah bin Di`amah and As-Suddi both said, "Verily, Iram refers to the House of the kingdom of `Ad." This latter statement is good and strong. Concerning Allah's statement, الَّتِى لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى الْبِلَـدِ The like of which were not created in the land, Ibn Zayd considered the pronoun of discussion here to refer to the pillars, due to their loftiness. He said, "They built pillars among the hills, the likes of which had not been constructed in their land before." However, Qatadah and Ibn Jarir considered the pronoun of discussion to refer to the tribe (of `Ad), meaning that there was no tribe that had been created like this tribe in the land - meaning during their time. And this latter view is the correct position. The saying of Ibn Zayd and those who follow his view is a weak one, because if He intended that, He would have said "The like of which were not produced in the land." But He said: لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِى الْبِلَـدِ The like of which were not created in the land. Then Allah says, وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَاد
8۔ 1 یعنی ان جیسی دراز قامت اور قوت وطاقت والی قوم کوئی اور پیدا نہیں ہوئی، یہ قوم کہا کرتی تھی (من اشد منا قوۃ) ہم سے زیادہ کوئی طاقتور ہے ؟
[٧] یعنی اتنی بلند قامت، زور آور اور مضبوط قوم روئے زمین پر اور کہیں موجود نہ تھی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں ساری دنیا میں انہیں کا ڈنکا بجتا تھا، کوئی دوسری قوم ان کی ٹکر کی موجود نہ تھی۔ یہ لوگ بھی آخرت کے منکر فلہٰذا بدکردار اور اللہ کے باغی تھے۔ ان پر سخت ٹھنڈی اور تیز آندھی کا عذاب آیا جس نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔
الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُہَا فِي الْبِلَادِ ٨ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔
آیت ٨{ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْْبِلَادِ ۔ } ” جن کے مانند نہیں پیدا کیے گئے (دنیا کے) ملکوں میں۔ “ یعنی قد و قامت اور جسمانی قوت کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہ ہوا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قوم نے جس معیار اور جس انداز کی تعمیرات کی تھیں ایسی تعمیرات ان سے پہلے دنیا میں کسی اور قوم نے نہیں کی تھیں۔ شاید اسی لیے تاریخ میں شداد کی ” جنت ارضی “ مشہور ہے۔
4 That is, they were a matchless people of their time; no other nation in the world compare with them in strength, glory and grandeur. At other places in the Qur'an, it has been said about them: "Your Lord made you very robust." (Al-A`raf: 69) "As for the `Ad, they became arrogant with pride in the land, without any right, and said: `Who is stronger than us in might"? (Ha MIm As-Sajdah: 15) . "When you seized somebody, you seized him like a tyrant." (Ash-Shu`ara' 130)
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :4 یعنی وہ اپنے زمانے کی ایک بے نظیر قوم تھے ، اپنی قوت اور شان و شوکت کے اعتبار سے کوئی قوم اس وقت دنیامیں ان کی ٹکر کی نہ تھی ۔ قرآن میں دوسرے مقامات پر ان کے متعلق فرمایا گیا ہے وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ، تم کو جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا ( الاعراف ، آیت 69 ) ۔ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ، رہے عاد تو انہوں نے زمین میں کسی حق کے بغیر اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟ ( حم السجدہ ، آیت 15 ) ۔ وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ ، اور تم نے جب کسی پر ہاتھ ڈالا جبار بن کر ڈالا ( الشعراء ، آیت 130 ) ۔
(89:8) التی لم یخلق مثلہا فی البلاد : یہ جملہ عاد کی صفت ہے یا ارم کی صفت ہے۔ چونکہ عاد سے قبیلہ عاد اور ارم سے قبیلہ ارم مراد ہے اس کی رعایت سے التی بصیغہ تانیث لایا گیا ہے۔ لم یخلق مضارع مجہول نفی جحد بلم۔ نہیں پیدا کیا گیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب قبیلہ عاد اور ارم کے لئے ہے۔ البلاد : بلد کی جمع بمعنی شہر یا ملک۔ جس (قبیلہ) کی مثل (دنیا کے) ملکوں میں پیدا نہیں کیا گیا۔
1۔ اس قوم کے دو لقب ہیں۔ عاد اور ارم، کیونکہ عاد بیٹا ہے عاص کا اور وہ ارم کا اور وہ ساسم بن نوح (علیہ السلام) کا، پس کبھی ان کو عاد کہتے ہیں، تسمیہ لہم باسم ابیہم۔ اور کبھی ارم کہتے ہیں، تسمیہ لہم باسم جدہم، اور اس ارم کا ایک بیٹا ارم ہے اور عابر کا بیٹا ثمود جس کے نام سے ایک قوم مشہور ہے۔ پس عاد اور ثمود دونوں ارم میں جاملے ہیں، عاد بواسطہ عاص کے اور ثمود بواسطہ عابر کے۔
﴿ الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ۪ۙ٠٠٨﴾ اس قبیلہ کے لوگ ایسے تگڑے اور قوت والے تھے کہ ان جیسے شہروں میں پیدا نہیں کیے گئے۔ اسی قوت کے زور پر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ﴿مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً﴾ كون ہے جو قوت کے اعتبار سے ہم سے زیادہ سخت ہے، اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوا کا عذاب بھیج دیا جو سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط رہی اور سب ہلاک ہو کر رہ گئے۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ ارم حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے سام بن نوح کا بیٹا تھا اور عاد اور بن عاصی اس کا پوتا تھا۔ وھو عطف بیان لعاد للایذان بانھم عاد الاولی وجوز ان یکون بدلا ومنع من الصرف للعلمیة والتانیث باعتبار القبیلة وصرف عاد باعتبار الحیی وقد یمنع من الصرف باعتبار القبیلة ایضا۔