Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 101

سورة التوبة

وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕ ۛ وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ ۟ ۛ ؔ مَرَدُوۡا عَلَی النِّفَاقِ ۟ لَا تَعۡلَمُہُمۡ ؕ نَحۡنُ نَعۡلَمُہُمۡ ؕ سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾ۚ

And among those around you of the bedouins are hypocrites, and [also] from the people of Madinah. They have become accustomed to hypocrisy. You, [O Muhammad], do not know them, [but] We know them. We will punish them twice [in this world]; then they will be returned to a great punishment.

اور کچھ تمہارے گردو پیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ، آپ ان کو نہیں جانتے ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites among the Bedouins and Residents of Al-Madinah Allah tells; وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الاَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ... And among the Bedouins around you, some are hypocrites, and so are some among the people of Al-Madinah, Allah informs His Messenger, peace be upon him, that among the Bedouins around Al-Madinah there are hypocrites and in Al-Madinah itself, those, ... مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ ... who persist in hypocrisy; meaning they insisted on hypocrisy and continued in it. Allah's statement, ... لااَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ... you know them not, We know them, This does not contradict His other statement, وَلَوْ نَشَأءُ لاَرَيْنَـكَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَـهُمْ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِى لَحْنِ الْقَوْلِ Had We willed, We could have shown them to you, and you should have known them by their marks; but surely, you will know them by the tone of their speech! (47:30), because the latter Ayah describes them by their characteristics, not that the Messenger knows all those who have doubts and hypocrisy. The Messenger knew that some of those who associated with him from the people of Al-Madinah were hypocrites, and he used to see them day and night (but did not know who they were exactly). We mentioned before in the explanation of, وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ (...and they resolved that (plot) which they were unable to carry out...), (9:74) that the Prophet informed Hudhayfah of the names of fourteen or fifteen hypocrites. This knowledge is specific in this case, not that the Messenger of Allah was informed of all their names, and Allah knows best. Abdur-Razzaq narrated that Ma`mar said that Qatadah commented on this Ayah (9:101), "What is the matter with some people who claim to have knowledge about other people, saying, `So-and-so is in Paradise and so-and-so is in the Fire.' If you ask any of these people about himself, he would say, `I do not know (if I will end up in Paradise or the Fire)!' Verily, you have more knowledge of yourself than other people. You have assumed a job that even the Prophets before you refrained from assuming. Allah's Prophet Nuh said, وَمَا عِلْمِى بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ And what knowledge have I of what they used to do! (26:112) Allah's Prophet Shu`ayb said, بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ وَمَأ أَنَاْ عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ That which is left by Allah for you (after giving the rights of the people) is better for you, if you are believers. And I am not a guardian over you) (11:86), while Allah said to His Prophet, لااَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (you know them not, We know them)." ... سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ... We shall punish them twice, Mujahid said, "By killing and capture." In another narration he said, "By hunger and torment in the grave, ... ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ and thereafter they shall be brought back to a great (horrible) torment." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "The torment in this life strikes their wealth and offspring," and he recited this Ayah, فَلَ تُعْجِبْكَ أَمْوَلُهُمْ وَلاَ أَوْلَـدُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا So let not their wealth nor their children amaze you; Allah only wants to punish them with these things in the life of this world. (9:55) These afflictions torment them, but will bring reward for the believers. As for the torment in the Hereafter, it is in the Fire, ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ (and thereafter they shall be brought back to a great (horrible) torment).

منافقت کے خوگر شہری اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں ۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہو چکے ہیں ۔ تمرد فلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ـ اگر ہم چاہیں تو تجھے اور ان کو دکھا دیں اور تو ان کی علامات اور چہروں سے انہیں پہچان لے ۔ یقینا تو انہیں انکی باتوں کے لب و لہجے سے جان لے گا ۔ غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے ۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کہ فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کھل گئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف انتا جانتے تھے کہ مدینے میں بعض منافق ہیں ۔ صبح وشام وہ دربار رسالت میں حاضر رہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکے کا ہمارا کوئی اجر نہیں ۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو ۔ پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں ۔ پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں ، یہ بھی ایسی ہی بات ہے ۔ ( وَهَمُّوْا بِمَا لَمْ يَنَالُوْا ۚ وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ۚ فَاِنْ يَّتُوْبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاِنْ يَّتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ 74؀ ) 9- التوبہ:74 ) کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا ۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم ۔ ابن عساکر میں ہے کہ حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا ۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور نہیں ذکر کیا اللہ کامگر تھوڑا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان ، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر ۔ اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا ، وہ سب بھی منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بھی لے آؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین ( نفاق ) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے ۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کروـ ۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے ۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا ۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے ۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو نکلف انبیاء علیہم السلام نے بھی نہیں کیا ۔ نبی اللہ حضرت نوح علیہ السلام کا قول ہے وما علمی بماکانا یعملون ان کے اعمال کامجھے علم نہیں ۔ نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں ( وَمَآ اَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيْظٍ ١٠٤؁ ) 6- الانعام:104 ) میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے ( لَا تَعْلَمُھُمْ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ ١٠١؀ۚ ) 9- التوبہ:101 ) تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے ۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا ۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے ۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے ۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا ۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہو گا ۔ اب مسجد میں آکر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں ۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہو جائیے ۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسوا کیا ۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا ۔ اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے ۔ دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے ۔ اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے ۔ ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے ۔ عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال واولاد ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے ( فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ 55؀ ) 9- التوبہ:55 ) یعنی تجھے انکامال اور انکی اولادیں اچھی نہ لگنی چاہیں اللہ کا ارادہ تو ان کی وجہ سے انہیں دنیا میں عذاب دینا ہے ۔ پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مومنوں کے لئے اجر و ثواب ہیں ۔ اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے ، اسکے مطابق عمل کرنا پڑا جو دلی منشا کے خلاف ہے ۔ دوسرا عذاب قبر کا ۔ پھر ان دونوں کے سوا دائمی جہنم کا عذاب ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ عذاب دنیا اور عذاب قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے ۔ مذکور ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے ۔ اور فرمایا تھا کہ ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہوگا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہوگا ۔ جوان کے شانے پر ظاہر ہو گا اور سینے تک پہنچ جائے گا ۔ اور چھ بری موت مریں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے ۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں ۔ اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بےخوفی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 مرد اور تمرد کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چناچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَ مْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے (مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ ) گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کرلیا، یعنی اس پر ان کا اصرار ہمیشہ رہنے والا ہے 101۔ 2 کتنے واضح الفاظ میں نبی سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ 101۔ 3 اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٤] مدینہ کے چالاک منافقین :۔ یعنی وہ اس قدر ہوشیار اور چالاک ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پراسرار ہے کہ وہ اپنی منافقت کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تاہم اپنی منافقت پر پوری مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ عام مسلمان انہیں پکے مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ اپنی پیغمبرانہ فراست کے باوجود انہیں نہیں جانتے۔ ان کے نفاق کو بس اللہ ہی جانتا ہے جو دلوں کے ارادوں اور رازوں تک سے واقف ہے۔ [١١٥] منافقوں کو دو سزائیں :۔ دو مرتبہ عذاب سے مراد اگر جنس عذاب لیا جائے تو ایک دنیا کا عذاب ہوگا۔ دوسرا عالم برزخ کا اور یہ دونوں قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے انہیں بھگتنا ہوں گے اور اگر دنیا کے عذاب ہی مراد لیے جائیں تو ایک عذاب تو ان کی اپنی اولادوں اور تمام مومنوں کے سامنے ذلت و رسوائی ہے جو ان کے نفاق کی چالوں سے پردہ فاش ہوجانے کی صورت میں انہیں برداشت کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے وہ ذہنی اور روحانی کوفت ہے کہ اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ دم بدم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ : پہلے اعراب (بدوی) منافقین کا ذکر فرمایا، پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد سابقین مہاجرین و انصار اور ان کے پیچھے آنے والے صاحب احسان لوگوں کو خوش خبری دی اور ان کے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا (ان کا تذکرہ سورة جمعہ کی ابتدائی آیات میں بھی فرمایا ہے) اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کے ایک گروہ کا ذکر فرمایا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں ” مَرَدُوْا “ اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی تیز ترین فراست اور قوی ترین اندازے کے باوجود ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکے، گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے، یا اللہ تعالیٰ کی نشان دہی سے پہچانتے ہوں۔ دیکھیے سورة محمد (٣٠) لہٰذا جن روایات میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حذیفہ (رض) کو بتا دیے تھے، وہ اس آیت کے منافی نہیں، کیونکہ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ آپ ان تمام کو نہیں جانتے، گویا آپ بعض منافقین کو جانتے تھے اور بعض کو نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے، اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالم الغیب ہونے کے غلط دعویٰ کی حقیقت بھی واضح ہو رہی ہے۔ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ : ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب، جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں، فرمایا : (يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ) [ المنافقون : ٤ ] کہ وہ ہر لمحہ اپنے آپ کو خطرہ میں محسوس کرتے ہیں، ہر بلند آواز کو اپنے خلاف گمان کرتے ہیں اور پھر یہ رسوائی بھی کہ کفار اور مسلمانوں میں سے انھیں اپنا سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہ تھا اور مرنے کے بعد قبر کے عذاب کو دوسرا عذاب فرمایا۔ یا ” مَّرَّتَيْنِ “ سے مراد موت کے وقت فرشتوں کی مار ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ) [ محمد : ٢٧ ] ” وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر مارتے ہوں گے۔ “ پھر قبر کا عذاب، اس کے بعد ” عَذَابٍ عَظِيْمٍ “ سے مراد جہنم کا عذاب ہے۔ ” مَّرَّتَيْنِ “ کا معنی ” بار بار “ بھی آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌ) [ الملک : ٤ ] ” پھر بار بار نگاہ لوٹا، نظر ناکام ہو کر تیری طرف پلٹ آئے گی اور وہ تھکی ہوئی ہوگی۔ “ یعنی دنیا میں مال و اولاد، پریشانیوں اور ذلتوں کے ذریعے سے، پھر موت کے وقت، پھر قبر کے اندر بار بار عذاب دے کر آخر کار جہنم میں پہنچا دیں گے۔ یہ معنی بہت جامع ہے ۔ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” مَّرَّتَيْنِ “ یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پائیں گے، پھر آخرت میں پکڑے جائیں گے۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in several previous verses there are hypocrites whose hypocrisy stood exposed through their words and deeds, and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did realize that they were hypocrites. Mentioned in the present verse appearing above there are hypocrites whose hy-pocrisy was so perfect in its camouflage that it remained hidden from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) until then. In this verse, two Divine punishments to come much before &Akhirah upon such diehard hypo¬crites have been mentioned. In the first instance, right here in this world, they are consumed by the concern to hide their hypocrisy and the fear that it may be exposed. Then, no less a punishment is their being under compulsion to respect and follow Islam and Muslims, at least outwardly, despite their extreme malice and hostility for them. And then, there is the other punishment, the punishment of the grave and the punishment of Barzakh (the post-death - pre-resurrection state) that will reach them well before Qiyamah (doomsday) and &Akhirah (Hereafter).

خلاصہ تفسیر اور کچھ تمہارے گرد و پیش والوں میں اور کچھ مدینہ والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق کی حد کمال پر ( ایسے) پہنچنے ہوئے ہیں ( کہ) آپ ( بھی) ان کو نہیں جانتے ( کہ یہ منافق ہیں بس) ان کو ہم ہی جانتے ہیں ہم ان کو ( دوسرے منافقین کی نسبت آخرت سے پہلے بھی) دوہری سزا دیں گے ( ایک نفاق کی دوسرے کمال نفاق کی اور) پھر ( آخرت میں بھی) وہ بڑے بھاری عذاب ( یعنی جہنم مع خلو و دائمی) کی طرف بھیجے جاویں گے۔ معارف و مسائل سابقہ بہت سی آیات میں ان منافقین کا ذکر آیا ہے جن کا نفاق ان کے اقوال و افعال سے ظاہر ہوچکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہچانتے تھے کہ یہ منافق ہیں، اس آیت میں ایسے منافقین کا ذکر ہے جن کا نفاق انتہائی کمال پر ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اب تک مخفی رہا، اس آیت میں ایسے شدید منافقین پر آخرت سے پہلے ہی دو عذاب ہونے کا ذکر آیا ہے، ایک دنیا ہی میں کہ ہر وقت اپنے نفاق کو چھپانے کی فکر اور ظاہر ہونے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں، اور اسلام اور مسلمانوں سے انتہائی بغض و عداوت رکھنے کے باوجود ظاہر میں ان کی تعظیم و تکریم اور ان کے اتباع پر مجبور ہونا بھی کچھ کم عذاب نہیں، اور دوسرا عذاب قبر و برزخ کا عذاب ہے، جو قیامت و آخرت سے پہلے ہی ان کو پہنچنے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ۝ ٠ ۭ ۛ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ۝ ٠ ۣ ۛؔ مَرَدُوْا عَلَي النِّفَاقِ۝ ٠ ۣ لَاتَعْلَمُھُمْ۝ ٠ ۭ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۝ ٠ ۭ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍ۝ ١٠١ ۚ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ نِّفَاقُ ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة/ 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ مرد قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات/ 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان . ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات/ 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل/ 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق لا تعلمھم نحن نعلمھم سنعدبھم مرتین اور تمہارے گردو بیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہوگئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے۔ حسن اور قتادہ کا قول کے دوہری سزا سے مراد دنیا اور قبر کا عذاب ہے ثم یردون الی عذاب عظیم اور پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ اور اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ایک سزا وہ ہے جو دنیا میں ذلت اور رسوائی کی صورت میں ملنے والی تھی اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین کے کچھ افراد کی متعین طور پر نشان دہی فرما دی تھی اور دوسری سزا وہ ہے جو قبر میں انہیں ملے گی ۔ مجاہدکا قول ہے کہ دوہری سزا سے مراد وہ سزا ہیں جو قتل ، قید اور بھوک کی صورت میں انہیں ملیں گی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠١) اور قبیلہ اسد وغطفان کے کچھ لوگ اور مدینہ والوں میں سے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ایسے منافق ہیں کہ جو نفاق کی آخری حدوں کو پہنچے ہوئے ہیں اور اس پر ثابت قدم ہیں، آپ بھی ان کے نفاق کو نہیں جانتے، ان کے نفاق کو بس ہم ہی جانتے ہیں ہم ان کو ایک بار ان کی جانیں قبض کرنے کے وقت اور دوسری بار ان کو عذاب قبردیں گے پھر یہ عذاب جہنم کی طرف بھیجے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ط) وَمِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِقف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ قف) یہ وہ لوگ ہیں جن کے نفاق کا مرض اب آخری مرحلے میں پہنچ کر لا علاج ہوچکا ہے اور اب اس مرض سے ان کے شفایاب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ منافقت کے مرض کی بھی ٹی بی کی طرح تین stages ہوتی ہیں۔ جھوٹے بہانے بنانا اس مرض کی ابتدا ہے ‘ جبکہ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانا دوسری سٹیج کی علامت ہے ‘ اور جب یہ مرض تیسری اور آخری سٹیج میں پہنچتا ہے تو اس کی واضح علامت منافقین کی اہل ایمان کے ساتھ ضد اور دشمنی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اہل ایمان تو دین کے تمام مطالبات خوشی خوشی پورے کرتے ہیں ‘ جس مہم سے بچنے کے لیے منافقین بہانے تراشنے میں مصروف ہوتے ہیں اہل ایمان بلا حیل و حجت اس کے لیے دل و جان سے حاضر ہوجاتے ہیں۔ مؤمنین صادقین کا یہ رویہ منافقین کے لیے ایک عذاب سے کم نہیں ہوتا ‘ جس کے باعث آئے دن ان کی سبکی ہوتی ہے اور آئے دن ان کی منافقت کا پول کھلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین کو مسلمانوں سے نفرت اور عداوت ہوجاتی ہے اور یہی اس مرض کی آخری سٹیج ہے۔ (لاَ تَعْلَمُہُمْ ط نَحْنُ نَعْلَمُہُمْط سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ) منافقین مدینہ تو ہر روز نئے عذاب سے گزرتے تھے۔ ہر روز کہیں نہ کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مطالبہ ہوتا تھا اور ہر روز انہیں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ‘ جھوٹے بہانے بنا بنا کر جان چھڑانا پڑتی تھی۔ اس لحاظ سے ان کی زندگی مسلسل عذاب میں تھی۔ (ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ ) دنیا کا عذاب جتنا بھی ہو آخرت کے عذاب کے مقابلے میں تو کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا دنیا کے عذاب جھیلتے جھیلتے ایک دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنے کے لیے پیش ہونا پڑے گا۔ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ‘ ان کے متبعین اور پھر منافقین کے ذکر کے بعد اب کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ ان لوگوں کا ذکر بھی دو الگ الگ درجوں میں ہوا ہے۔ ان میں پہلے جس گروہ کا ذکر آ رہا ہے وہ اگرچہ مخلص مسلمان تھے مگر ان میں ہمت کی کمی تھی۔ چلنا بھی چاہتے تھے مگر چل نہیں پاتے تھے۔ کسی قدر چلتے بھی تھے مگر کبھی کوتاہی بھی ہوجاتی تھی۔ ہمت کر کے آگے بڑھتے تھے لیکن کبھی کسل مندی اور سستی کا غلبہ بھی ہوجاتا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :97 یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہوگئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچان سکتے تھے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :98 دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے ، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے الٹی ذلت و نامرادی پائیں گے ۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں کو کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

76: پہلے جن دیہاتیوں کا ذکر آیا تھا وہ مدینہ سے دور رہتے تھے اب ان دیہاتیوں کا ذکر ہے جو مدینہ منورہ کے آس پاس رہتے تھے اور خود مدینہ منورہ کے باشندوں میں ان منافقین کا جن کا نفاق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی معلوم نہیں تھا۔ 77: دو مرتبہ سزا دینے کی تشریح مختلف طریقوں سے کی گئی ہے صحیح مراد تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ؛ لیکن بظاہر ایک سزا تو یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی شکست کی جو آس لگائی ہوئی تھی وہ پوری نہ ہوئی اور مسلمان غزوۂ تبوک سے صحیح وسلامت واپس آگئے، یہ بذات خود ان منافقوں کے لئے ایک سزا تھی اور دوسرے بہت سے منافقوں کا نفاق کھل گیا اور ان کو دنیا ہی میں ذلت اٹھانی پڑی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠١۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھتے پڑھتے چار پانچ آدمیوں کو فرمایا کہ تم منافق ہو نکل جاؤ۔ حضرت عمر (رض) آرہے تھے ان لوگوں کو مسجد سے آتے ہوئے دیکھ کر سمجھے کہ نماز ہوچکی اور چھپ گئے ان لوگوں نے بھی حضرت عمر (رض) کو دیکھ لیا تھا وہ یہ سمجھ کر چھپ گئے کہ ان پر ہمارا حال ظاہر ہوگیا۔ جب حضرت عمر (رض) مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ ابھی جماعت نہیں ہوئی ہے ایک شخص نے بڑھ کر کہا کہ آج تو منافق بہت ذلیل ہوئے خدا نے ان کو مسجد سے نکلوا دیا حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ایک عذاب تو یہی ہے کہ مسلمانوں کی مسجد سے یہ لوگ نکالے گئے بھری محفل میں رسوائی ہوئی اور دوسرا عذاب قبر کا عذاب ہے پھر آخرت میں عذاب عظیم ١ ؎ ہے۔ مجاہد (رض) نے بیان کیا ہے کہ قحط سے بھوکے رہنا دنیا کا عذاب ٢ ؎ ہے۔ بعضے مفسروں نے لکھا ہے کہ مدینہ میں اور مدینہ کے اطراف میں جہینہ مزنیہ اشجع غفار اسلم رہتے تھے انہیں میں سے وہ لوگ ہیں جہینہ مزنیہ وغیرہ کی اگرچہ اوپر تعریف گزر چکی ہے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ ان قبیلوں میں ہر طرح کے لوگ ہوں اس سبب سے ان دونوں روایتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے بعض مفسروں نے ان لوگوں کے نام بھی ذکر کئے ہیں اور بعضوں نے نام نہیں بیان کئے کیونکہ اللہ پاک نے اپنے رسول کو خود ارشاد فرمایا ہے کہ تم نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں پھر اور کوئی ان کے نام کیوں جان سکتا ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ نواح مدینہ میں قبیلہ جہینہ و مزنیہ وغیرہ کے کچھ لوگ اور خاص مدینہ میں عبداللہ بن ابی کی جماعت یہ منافق لوگ ہیں یہ لوگ جانتے ہیں کہ ان کا حال کسی کو معلوم نہیں مگر اللہ کو ان کا حال خوب معلوم ہے اسی واسطے اس نے دنیا میں ان کو رسوا کیا ابھی عذاب عقبیٰ باقی ہے صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح بکریوں کے ریوڑوں میں سے ایک ریوڑ کی بکری ریوڑ سے پیچھے رہ کر اپنے ریوڑ کو ٹٹولتی پھرتی ہے کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی اس ریوڑ کی یہی حال منافقوں کے اعتقاد کا ہے ٣ ؎ کہ ظاہر میں مسلمانوں کے گروہ کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں اور حقیقت میں مخالف اسلام جماعت کے حامی ہیں۔ یہ حدیث منافقوں کے اعتقاد کی تفسیر ہے رہے ان کے عمل وہ صحیح حدیثوں کے موافق یہ ہیں کہ اذان سننے کے بعد جماعت کی پروا نہیں کرتے دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں تو وقت کو ٹال کر بےوقت جلدی کے مارے ایسی کہ جس میں نہ پورا رکوع ہے نہ سجدہ اور اسی طرح دین کا جو کام کرتے ہیں اپنے جان و مال کو مسلمانوں کے حملہ سے پچانے کے لئے اوپری دل سے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور عقبی کے ثواب کی نیت سے کچھ بھی نہیں کرتے کیونکہ عقبیٰ کے ثواب کا پورا یقین ان کے دل میں نہیں ہے۔ سوا ان باتوں کے وعدہ خلافی امانت میں خیانت جھوٹ بولنا لڑائی جھگڑے کے وقت گالیاں بکنا وغیرہ منافقوں کی یہ بھی نشانیاں ہیں جن کا ذکر تفصیل سے اس تفسیر میں کئی جگہ آچکا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جب تک اسلام کا غلبہ تھا اس وقت تک جان ومال کے خوف سے اس طرح کے اعتقادی نفاق کی لوگوں کو ضرورت تھی کہ ظاہر میں مسلمان بنے رہیں اور باطن میں اسلام کے مخالف اب ضعف اسلام کے سبب سے وہ بات تو باقی نہیں رہی کھلم کھلا جس کا جی چاہے یہودی ہوجاوے جس کا جی چاہے نصرانی آریہ وغیرہ کوئی کسی کا پر سان حال نہیں ہے لیکن ضعف ایمان کے سبب سے عملی نفاق کی باتیں اب بھی باقی ہیں اور جوں جوں نبوت کا زمانہ دور ہوتا جاوے گا دن بدن یہ باتیں بڑھتی جاویں گی۔ اس ضعف اسلام کے زمانہ میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ایمان کی قوت اور ضعف کا حال جانچنے کے لئے ابی امامہ (رض) کی اس حدیث کے موافق اپنے دل کا حاصل ہمیشہ دریافت کیا کرے جو حدیث اس تفسیر میں ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ حضرت ایماندار آدمی کی کیا نشانی ہے آپ نے جواب دیا کہ نیک کام کر کے جب تیراوں اندر سے خوش ہو اور برا کام کرکے تیرے دل میں ایک ندامت پیدا ہو تو جان لیجیو کہ ترکے دل میں نور ایمانی کی جھلک ١ ؎ ہے۔ اب مثلا ایک شخص کی نماز کو اتفاق سے ایک دن دیر ہوگئی اور اس پر اس کو ایک طرح کی ندامت ہوئی تو ایسے شخص کو جان لینا چاہئے کہ اس کے دل میں نور ایمان کی کچھ جھلک ہے اور جس شخص کا حال اس کے برخلاف ہے اس کا نور ایمان بلاشک ودھند لا اور اس کے دل پر نفاق عملی کا اندھیر اچھا یا ہوا ہے جب تک چند روزہ زندگانی ہے ایسے شخص کو اپنی اس نادم ہونے کا اور آئندہ اس کو چھوڑ دینے کا اچھا موقع حاصل ہے ورنہ پھر آنکھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ دنیا میں تمام عمر چستی سے نیک کاموں میں لگے رہیں گے قیامت کے دن ان کو یہ پچھتاوا ہوگا کہ انہوں نے نیک عمل اور زیادہ کیوں نہیں کئے جو اجر میں اور زیادتی ٤ ؎ ہوتی نیک عملوں میں سستی کرنے والے ابی امامہ (رض) کی اس حدیث کی سند پر اگرچہ بعضے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث کی سند میں مطلب بن عبداللہ نہیں ہے اس لئے ایک سند کو دوسری سند سے تقویت حاصل ہو کر یہ حدیث معتبر سند کی حدیثوں میں داخل ہوسکتی ہے ٥ ؎ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٤ ج ٢ ٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٥ ج ٢ ٣ ؎ صحیح مسلم ص ٣٧٠ ج ٣ کتاب صفات المنافقین الخ :۔ ٤ ؎ مشکوۃ ص ١٦ کتاب الایمان ٥ ؎ الترغیب والترھیب ص ٢٩٧ ج ٢ فصل فی ذکر الحاب وغیرہ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:101) وممن حولکم من الاعراب منفقون۔ ای ومن من حولکم من الاعراب منفقون۔ اور ان اعراب میں سے جو تمہارے اردگرد بستے ہیں کچھ منافق ہیں ۔ ومن اہل المدینۃ۔ یہ وقف معانقہ کی صورت ہے۔ اگر علامت اول : پر وصل کیا جاوے اور علامت ثانی پر وقف کیا جائے تو اس کا عطف ممن حولکم پر ہوگا۔ اور مردوا علی النفاقصفت ہوگی منافقون کی اور تقدیر کلام یوں ہوگی ومن حولکم من الاعراب ومن اہل المدینۃ منافقون مردوا علی النفاق (اور تمہارے اردگرد یعنی مدینہ کے اردگرد بسنے والے بدوؤں میں سے اور اہل مدینہ میں سے کچھ منافق ہیں جو پکے ہوگئے ہیں نفاق میں اور اگر علامت اول پر وقف کیا جائے اور علامت ثانی پر وصل کیا جائے تو یہ جملہ مستانفہ (نیا جملہ) ہوگا۔ اور تقدیر کلام یوں ہوگی : ومن اہل المدینۃ (قوم) مردوا علی النفاق (اور اہل مدینہ میں سے کچھ لوگ ہیں جو نفاق میں پکے ہوگئے ہیں) ۔ اور اب ترجمہ یوں ہوگا :۔ اور تمہارے اردگرد یعنی مدینہ کے اردگرد بسنے والے ندوؤں میں کچھ منافق ہیں اور اہل مدینہ میں سے کچھ لوگ ہیں جو نفاق میں پکے ہوگئے ہیں۔ مردوا۔ نافرمان و سرکش ہونا۔ مرد علی النفاق۔ نفاق پر جمے رہنا۔ الماردو المرید جنوں اور انسانوں سے اس اس شیطان کو کہا جاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جو سب پتے جھڑ جانے سے بالکل ننگا ہوگیا ہو۔ اسی طرح غلام امرد۔ وہ لڑکا جس کی داڑھی مونچھ نہ نکلی ہو اس کا منہ سبزہ سے عارہ ہو۔ الزملۃ المرداء وہ ریت کا ٹیلہ جو ہر قسم کے سبزہ سے عاری ہو۔ قرطبی (رح) نے لکھا ہے اصل المرد الملاسۃ ومنہ صرح ممرد من قواریر (27:44) یعنی المرد۔ اصل میں چکنا اور ہموار ہوتا ہے۔ جیسے شیشے جوڑ کر صاف و ہموار کیا ہوا محل (الملامۃ ہموار اور چکنا ہونا) ۔ صاحب کشاف نے مردوا علی النفاق کا مطلب تمھروا فیہ۔ لکھا ہے یعنی نفاق میں ماہر ہوگئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 پہلے منافقین اعراب (بدویوں) کا ذکر فرمایا پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد مہاجرین و انصار کو خوش خبری دی اور انکے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا۔ اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کا تذکرہ شروع کیا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے ہیں کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اپنی فراست نافذہ اور قوت حدس کے ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکتے گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے پہچانتے ہوں۔ (دیکھیے سورة محمد آیت 30) لہذا جن روایات میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حضرت حذیفہ کو بتا دئیے تھے وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہاں کلی طور پر سب کو جاننے کی نفی ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر 9 5 ۔ ایک تو دنیا میں غم واندوہ اور فکر مندی کا عذاب جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے۔ یحسبون کل صیحۃ علیہم۔ کہ وہ ہر لمحہ اپنے تئیں خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر رسوئی بھی جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور مرنے کے بعد قبر کا عذاب۔ اسی کو دوسرا عذاب فرمایا۔ (کبیر) 6 ۔ یعنی دوزخ کا عذاب۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : مرتین، یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پاویں گے پھر آخرت میں پکڑے جاویں گے۔ (از موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 101 تا 102 حولکم (تمہارے اردگرد، آس پاس) مردوا (اڑے ہوئے ہیں (مرتین (دو مرتبہ) یردون (لوٹائے جائیں گے) اخرون (کچھ دوسرے لوگ) اعترفوا (انہوں نے اقرار کیا خلطوا (وہ مل گئے، ملایا) سیء (برائی، گناہ) ان یتوب (یہ کہ وہ توبہ کرے گا) تشریح : آیت نمبر 101 تا 102 ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر ان منافقین کا ذکر کیا ہے جو دیہات اور شہر مدینہ میں رہ کر بھی ایمان کی دولت سے محروم اور نفاق کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان میں سے بعض تو وہ تھے جن کے اعمال، اخلاق اور کردار کا پردہ چاک ہوچکا تھا اور اہل ایمان بھی ان کو پہچاننے لگے تھے لیکن بعض ایسے چالاک اور عیار تھے کہ ان کی سازشوں اور ان کی خباثتوں کو پہچاننا مشکل تھا جن کو اللہ ہی جانتا تھا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اردگرد دیہات اور شہر مدینہ میں ایسے ذہنی مریض منافق موجود ہیں جن کا کام ایمان اور اسلام کے ساتھ مذاق کرنا ہے بعضوں نے اپنے نفاق کو اپنی عیاری کے پردوں میں چھپا رکھا ہے اور بعض ظاہر ہیں۔ آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے کیونکہ اللہ ان کو اس دنیا میں اور آخرت میں دوہرا عذاب دے گا۔ اس دنیا میں تو ان کے لئے یہ عذاب ہے کہ ان کو ہر وقت اس کی فکر کھائے جاتی ہے کہ کہیں ان کے دل کا حال زبان پر نہ آجائے۔ ان کے نفاق کو کھولنے کے لئے کوئی سورت یا آیات نازل نہ ہوجائیں ان کے لئے دنیا کا یہ بھی عذاب ہے کہ مسلمان جن سے وہ انتہائی کدورت اور بغض وعناد رکھتے ہیں اس نفرت کے باوجود انہیں مسلمانوں کی عزت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے ساتھ مل کر عبادتوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو ان پر دنیا کا عذاب ہے لیکن آخرت میں تو ان پر نہ صرف عذاب ہے بلکہ ان کو جہنم کے سب سے نچلے اور ذلیل ترین مقام میں رکھا جائے گا اور وہ کبھی اس سے نہ نکل سکیں گے۔ اصل میں منافق کوئی بھی ہو اس کا ضمیر اس پر ملامت کرتا رہتا ہے ہر وقت اس کو بےاطمینانی اور غم لگا رہتا ہے یہ سب سے بڑا عذاب ہے۔ آخرت میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اس کو دنیا میں ذرا بھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف کچھ لوگ وہ ہیں جو اپنی جگہ مخلص ہیں مگر انہوں نے اپنے اچھے اعمال کے ساتھ برے اعمال کو بھی شامل کرلیا ہے۔ یعنی وہ دل میں اسلام کے لئے خلوص رکھتے ہیں مگر غزوہ تبوک کے موقع پر انہوں نے اعلان عام پر عمل نہیں کیا اور اپنی کھیتی باڑی میں لگے رہے۔ فرمایا ان کے لئے ان کی شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے دروازہ کھل سکتا ہے۔ اس سے ایک نکتہ کی بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر انسان اپنے برے اعمال کو بھی اچھا سمجھتا ہے اور اس میں نیکی کی طرف کوئی حرارت پیدا نہیں ہوتی تو اس کا خاتمہ اس کی نیت کے مطابق ہوتا ہے لیکن اگر کسی انسان سے غلطی ہوجائے اور اس پر اس کو یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اس سے واقعی غلطی ہوگئی اور پھر وہ اس غلطی کے اعتراف کے بعد ندامت اور شرمنگدی کا اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توبہ کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ان کو اور منافقین سے بڑھا ہوا اس لیے فرمایا کہ مدار نفاق کے نفاق ہونے کا اخفا ہے اور یہ اس میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکاوت وفطانت میں تمام جہاں سے اکمل ہیں مگر انہوں نے آپ کو بھی پتہ نہ چلنے دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے دوسرے اور تیسرے طبقہ کا ذکر، مدینہ کے منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اب ان منافقین کا بیان ہوتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہتے تھے۔ مومنوں کے اعلیٰ طبقات بیان کرنے کے بعد منافقین کے اس گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہنے کی وجہ سے ہر وقت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتے تھے لیکن حقیقتاً پکے منافق تھے مگر تمام کام مسلمانوں جیسے کرتے اور ہر کام میں مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے۔ اس وجہ سے عام مسلمان ان کے اصلی کردار سے ناواقف تھے۔ یہ منافق مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ تھے۔ جنہیں پہچاننا عام مسلمانوں کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے یہ گاہے بگاہے سازشیں کرتے رہتے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر بارہ منافقین نے اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹ کر رات کے وقت اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سازش کی تھی جب آپ نے انھیں پہچان کر للکارا تو وہ لشکر میں گھس گئے۔ آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ (رض) کو بتلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ راز رکھنا اور انھیں نظر انداز کردیا جائے۔ منافقین کی سازشیں اور شرارتیں اس لیے تھیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سے بار بار درگزر کیا۔ ان میں اکثر غریب اور کنگلے تھے مال غنیمت ملنے پر دولت مند ہوئے جس کی وجہ سے یہ منافقت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو ان کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا جاتا مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی بےپناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے لیے میری طرف سے خیر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا اور آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان کے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ یہی منافقین کفار کو مسلمانوں کی سرگرمیوں سے پل پل باخبر رکھتے تھے۔ ان سے الگ تھلگ رہنا تمدنی لحاظ سے مشکل تھا کیونکہ ان کا رہن سہن بظاہر مسلمانوں جیسا تھا، پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ پرانی رشتے داریوں کی وجہ سے جڑے ہوئے تھے ان کے نفاق اور سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ مسلمانو ! تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے۔ اس نشان دہی کے بعد مسلمانوں کو ایسے منافقوں کو پہچاننا آسان ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی منافقین کو انتباہ کیا گیا کہ عنقریب تمہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا اور پھر مرنے کے بعد تمہیں عظیم عذاب میں مبتلا رہنا ہوگا۔ دوگنے عذاب سے مراد حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوں گے اور آخرت میں شدید ترین عذاب سے دوچار ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیمار تو مومن بھی ہوا کرتا ہے جس کا جواب ابن عباس (رض) یہ دیا کرتے تھے کہ بیماری اور تکلیف کے وقت مومن کے گناہ جھڑتے اور آخرت میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں بیماری اور تکلیف کے وقت منافق اپنی منافقت میں اور زیادہ ہوجاتا ہے اور آخرت میں اسے دوگنا عذاب ہوگا۔ کچھ اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کچھ منافقین کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ جمعہ کے دوران مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ (واللہ اعلم) اس طرح منافق دنیا میں ذلیل ہوئے اور مرنے کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ رسید کرتے اور انھیں جھڑکیاں دیتے ہوئے ذلیل کریں گے۔ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ گویا کہ گناہوں کے سرغنہہونے کی وجہ سے دوگنا عذاب پائیں گے۔ منافقین کا تیسرا طبقہ : یہ لوگ عقیدہ کے اعتبار سے منافق نہ تھے لیکن ان کے عمل مخلص مسلمانوں جیسے نہ تھے۔ گویا کہ اعتقادی نہیں عملی منافق تھے۔ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عملی کمزوریوں کو معاف کر دے گا کیونکہ بڑا مہربان اور معاف کردینے والا ہے۔ منافقین کی سزا : (إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا)[ النساء : ١٤٥] ” یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔ “ مسائل ١۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ ٢۔ گناہ کا اعتراف کرنے اور معافی مانگنے سے اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی توبہ قبول کرتا ہے : ١۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ : ١٠٤) ٢۔ اللہ غلطیاں معاف کرکے توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٣۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی اللہ نے توبہ قبول فرمائی۔ (التوبۃ : ١٠٢) ٤۔ غلطی کی اصلاح کرنے والوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ : ١٦٠) ٥۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٦۔ جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (المائدۃ : ٣٩) ٧۔ اللہ ہر توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ٨٢) ٨۔ جو گناہ کرنے کے بعد جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (النساء : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سے قبل منافقین کے بارے میں عمومی بات ہوچکی ہے اور ان کے احوال کا انکشاف کردیا گیا ہے ان کا علق اہل مدینہ سے بھی تھا اور اہل مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے بدوی منافقین سے بھی تھا۔ یہاں منفقین کی ایک خاص صنف کا تذکرہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہنر نفاق میں طاق ہوگئے ہی اور اس آرٹ میں انہوں نے بہت ہی اچھا تجربہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ عمل نفاق میں ڈوب چکے ہیں اور وہ اس قدر فنکار بن گئے ہیں کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی پیغمبرانہ بصیرت کے باوجود ان کو نہیں پہچان سکے حالانکہ آپ نے اس دور تک ان کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کرلی تھیں اور تجربات کے ایک طویل دور سے گزر چکے تھے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کے منافقین اہل مدینہ اور ارد گرد کی آبادی میں اب بھی موجود ہیں۔ اس قسم کے منافقین کی سازشون اور نیش زنیوں سے حضور اور اہل ایمان مطمئن ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک طرف حضور کو فرماتے ہیں کہ آپ کے علم میں ان کی ریشہ دوانیاں نہیں ہیں ان کے ساتھ ساتھ ان کو بھی سخت تنبیہہ کردی جاتی ہے کہ وہ اس سے بچ کر نہیں نکل سکتے۔ ان کی مکاری اور ہوشیاری اور شاطرانہ چالیں اللہ کے مقابلے میں کارگر نہیں ، اللہ ان کو اس دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل و خوار کرے گا جبکہ آخرت میں ان کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ لا تعلمھم نحن نعلمہم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم " تم انہیں نہیں جانتے ، ہم ان کو جانتے ہیں۔ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے ، پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ دنیا میں ان کو دوگنا عذاب دیا جائے گا ؟ قریب الفہم مفہوم یہ ہے کہ ایک تو ان کو اس بات پر سخت قلق ہوگا کہ اسلامی سوسائٹی میں ان کی شاطرانہ چالوں کے باوجود ان کی حقیقت لوگوں پر واضح کردی گئی اور دوسرا عذاب یہ کہ ان کی موت اس حالت میں آئے گی کہ ان کو روح کو سختی سے قبض کیا جائے گا اور قبض روح کی حالت میں ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں رسید کی جائیں گی یا یہ عذاب کہ وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ مسلمانوں کو فتح پر فتح نصیب ہو رہی ہے اور وہ دل ہی دل میں جلتے ہیں اور دوسرا عذاب یہ کہ یہ لوگ ہر وقت اس ڈر میں رہتے ہیں کہ ان کی حالت کا انکشاف مسلمانوں پر نہ ہوجائے اور یہ کہ وہ عمل جہاد کا نشانہ نہ بن جائیں۔ یہ تو تھے دو انتہائی معیار اور ان کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بین بین ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مدینہ منورہ اور آس پاس کے دیہات میں رہنے والے منافقین کا تذکرہ اس آیت میں بتایا ہے کہ مدینہ منورہ کے آس پاس رہنے والے دیہاتیوں میں منافقین ہیں صاحب معالم التنزیل نے اس سلسلہ میں بنی مزینہ و بنی جھینہ وغیر ہم کے نام لکھے ہیں اور یہ فرمایا کہ اہل مدینہ میں سے بھی بعض لوگ منافق ہیں اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اوس اور خزرج میں منافق تھے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ منافقت پر مصر ہیں۔ مضبوطی کے ساتھ جمے ہوئے ہیں (جو لوگ مدینہ منورہ میں رہتے ہیں وہ صرف مدینہ منورہ ہی میں رہنے کو سب کچھ نہ سمجھیں اپنے ایمان و اعمال کی بھی خبر لیں۔ اب بھی مدینہ منورہ میں خاصی تعداد میں روافض ہیں۔ اور دجال کے تذکرہ میں احادیث شریفہ میں بتایا ہے کہ جب دجال مدینہ منورہ کا رخ کرے گا تو شہر میں داخل نہ ہو سکے گا (احد پہاڑ کے پیچھے) شور زمین میں ٹھہر جائے گا اس وقت مدینہ منورہ میں تین بار زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے ہر منافق مدینہ منورہ سے نکل کر اس کے پاس پہنچ جائے گا بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ محض اقامت مدینہ منورہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ خواہ عقائد و اعمال کیسے ہی ہوں۔ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور شیطان کا دھوکہ ہے پھر فرمایا (لاَ تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ) (آپ انہیں نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں) (سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ) (عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے) (ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ ) (پھر وہ بڑے عذاب (یعنی دوزخ) کی طرف لوٹائے جائیں گے) (سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ) سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے بار بار عذاب میں مبتلا ہونا مراد ہے اور بعض اکابر نے اس کا ترجمہ دہری سزا کا کیا ہے۔ اس کے بارے میں مفسرین کے اور بھی اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ منافقین کو ایک دن جمعہ کے روز جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو نام لے لے کر مسجد سے نکال دیا۔ اور فرمایا کہ فلاں تو منافق ہے نکل جا، پہلا عذاب تو یہ رسوائی کا عذاب ہوا اور دوسرے عذاب سے عذاب قبر مراد ہے۔ یہ اقوال علامہ بغوی نے معالم التنزیل (ص ٢٢٣ ج ٢) میں نقل کئے ہیں۔ جن حضرات نے دوسرا عذاب، عذاب آخرت بتایا ہے۔ بظاہر یہ بات صحیح نہیں کیونکہ دوزخ کا عذاب بعد میں مذکور ہے۔ و ھو قولہ تعالیٰ (ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97:“ وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ الخ ” یہ مدینہ منورہ اور اس کے گرد و نواح کے منافقین کا ذکر ہے۔ “ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ” اس میں خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ وہ نفاق اور اخفاء حال میں اس قدر ماہر اور چابکدست ہیں کہ آپ کو ان کے نفاق کا علم تک نہیں لیکن اللہ ان کو خوب جانتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کلی غیب کا علم نہیں تھا۔ “ یعنی انھم بلغوا من المھارة فی النفاق والتنوق فی مراعاة التقیة والتحامی عن مواقع التھمة الی حیث یخفی علیک مع کمال فطنتک و صدق فراستک حالھم ” (روح ج 11 ص 12) ۔ 98:“ سَنُعَذِّبُھُمْ الخ ” یہ منافقین کے لیے تخویف دنیوی و اخروی ہے۔ دو دفعہ کے عذاب سے دنیا میں قتل یا قید وبند یا ظہور نفاق سے ذلت ورسوائی کا اور مرنے کے بعد قبر کا عذاب مراد ہے اور عذاب عظیم آخرت کا عذاب ہے (خازن، معالم وغیرہ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

101 اورتمہارے ارد گرد اور آس پاس کے کچھ دیہاتی اور خود مدینہ کے کچھ لوگ ایسے منافق ہیں جو صفتِ نفاق میں پورے ماہر اور کمال کو پہنچے ہوئے ہیں ان ماہر فی النفاق لوگوں سے آپ واقف نہیں ہیں اور آپ ان کو نہیں جانتے مگر ہم ان سب کو جانتے ہیں ہم ان کو قیامت سے پہلے دوہری سزادیں گے پھر وہ قیامت میں بڑے سخت عذاب میں لوٹائے جائیں گے اور بھیجے جائیں گے۔ یعنی وہ نفاق میں ایسا کمال رکھتے ہیں کہ آپ بھی باوجود فطانت اور ذہانت کے ان کی حرکات سے پتہ نہیں چلاسکتے دوہری سزا یا دومرتبہ سزا دیں گے مطلب ایک ہی ہے یعنی نفاق کی سزا کہ ہر وقت اپنے کو سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے پھر قبر کا عذاب ارد گرد کے لوگ فرمایا شاید قبیلہ جہنیہ اور مزنیہ کی طرف اشارہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی تکلیف پر تکلیف پاویں گے پھر آخرت میں پکڑے جاویں گے وہ منافق کوئی اندھا ہوا کوئی کوڑھی کسی کے بدن میں پیپ پڑی۔ ہم نے اوپر عرض کیا تھا کہ منافقوں کے علاوہ کچھ مخلص مسلمان بھی تھے جو آج کل کرتے کرتے رہ گئے یہاں تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی کا وقت آگیا ان میں دو فریق تھے ایک تو وہ جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد آمد کی خبر سن کر اپنے کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور دوسرے کچھ اور ان کے ساتھی جنہوں نے خدمت میں حاضر ہوکر سچ سچ کہہ دیا یہاں ان دونوں میں سے ایک کا ذکر ہے دوسرے لوگوں کا ذکر آگے آئے گا۔