Commentary When Muslims were given a general call for Jihad at Tabuk, the weather was extremely hot. The journey was long and they were supposed to be up against the trained army of a big state, the first such episode in Islamic history. These were some of the causes why people split into different groups. The first group was that of sincere Muslims who got ready for Ji¬had without any hesitation at the very first call. Another group first hesitated initially, then joined in. They are the ones mentioned in: اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ (who followed him in the hour of hardship after the hearts of a group of them were about to turn crooked - 9:117). The third group was that of people who were genuinely handi¬capped because of which they could not go. They have been mentioned in: لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ (There is no blame on the weak - 9:91). The fourth group belonged to sincere Muslims who had no excuse yet they did not take part in the Jihad because of laziness. They have been mentioned in وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا & (And there are others who admitted - 9:102) and آخَرُونَ مُرْجَوْنَ (And there are others whose matter is deferred - 9:106) under study now. The fifth group was that of hypocrites who did not participate in the Jihad because of hypocrisy. They have been mentioned at several places in the previous verses. In short, the fifth group of hypocrites featured mostly in previous verses while the present verse (102) men¬tions people in the fourth group, that is, those who, despite being true Muslims, did not participate in the Jihad because of laziness. It was said in the first verse (102) that some had admitted their sins. Their deeds were mixed. Some of their deeds were good while some others were bad. For them, there was hope that Allah Ta` ala may accept their repentance. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said, ` Ten persons did not go for the battle of Tabuk. They had no valid excuse for it. Later, they were sorry for what they had done. Seven of them tied themselves up to the pillars of the Mosque of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) resolving that they would continue to remain tied as they were like prisoners until the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم were to accept their repentance and untie them. All narratives of the incident agree that Sayyidna Abu Lubabah (رض) was one of them. As for other names, narratives differ. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw them so tied up and he was told that they had resolved to remain tied until the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) unties them, he said, ` By Allah, I too shall not untie them until Allah Ta` ala orders me to do that. The crime is serious.& Thereupon, this verse (102) was revealed and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ordered that they be untied. They were. (Qurtubi) According to a narrative of Said ibn al-Musaiyyab, when people went to untie Sayyidna Abu Lubabah (رض) he refused and said, ` I shall remain tied until the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) does not, with his pleasure, untie me with his own blessed hands.& So, when he came for the Fajr Salah, he himself untied him. What were these mixed deeds? It has been said in the verse that they had mixed a good deed with another that was evil. Obvious among the good ones were &Iman, Salah and Fasting. Then, they had participated in earlier battles with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . And then, following this battle of Tabuk in which they could not participate, they had admitted their misconduct, were ashamed of it and had repented. As for the evil ones, they had not participated in the battle of Tabuk and thus they had acted in a manner that resembled the approach of the hypocrites. Mixed Deeds of all the Muslims are governed by the same rule It appears in Tafsir al-Qurtubi that this verse though revealed about a particular group, is universal in its application and the injunc¬tion it carries is valid until the day of Qiyamah. It covers Muslims whose deeds are a mixture of the good and the bad. If they were to repent from their sins, it can be hoped that they shall be pardoned and forgiven. Abu ` Uthman (رض) has said, ` this verse of the Holy Qur&an brings great hope for this ummah.& A detailed Hadith relating to the Ascension of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) appearing in the Sahih of Al-Bukhari on the authority of Sayyidna Samurah ibn Jundub (رض) says, ` On the seventh heaven, when the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم met with Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، he saw some people with him whose faces were bright. And some of them had some spots and stains on their faces. When these people went into a stream and came out all washed up, their faces had also turned bright. The Archangel Jibra&il (علیہ السلام) told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that these people with bright faces you saw first were those who had professed faith and then kept clean from sins: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ (those who have believed and have not mixed their faith with injustice - 6:82). The others were people who did what was a mixture of good and evil, but repented later. Allah accepted their repentance and their sins were forgiven.& (Qurtubi)
خلاصہ تفسیر اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے مقر ہوگئے جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے کچھ بھلے ( جیسے اعتراف جس کا منشاء ندامت ہے اور یہی توبہ ہے، اور جیسے اور غزوات جو پہلے ہوچکے ہیں، غرض یہ کام تو اچھے کئے) اور کچھ برے ( کئے جیسے تخلف بلا عذر سو) اللہ سے امید ( یعنی انکا وعدہ) ہے کہ ان ( کے حال) پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرماویں ( یعنی توبہ قبول کرلیں) بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ( جب اس آیت سے توبہ قبول ہوچکی اور وہ حضرات ستونوں سے کھل چکے تو اپنا مال آپ کی خدمت میں لے کر آئے اور درخواست کی کہ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کیا جائے تو ارشاد ہوا کہ) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ ( جس کو یہ لائے ہیں) لے لیجئے جس کے ( لینے کے) ذریعہ سے آپ ان کو ( گناہ کے آثار سے) پاک صاف کردیں گے اور ( جب آپ لیں تو) ان کے لئے دعا کیجئے، بلا شبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ( قلب) ہے اور اللہ تعالیٰ ( ان کے اعتراف کو) خوب سنتے ہیں ( اور ان کی ندامت کو) خوب جانتے ہیں ( اس لئے ان کے اخلاص کو دیکھ کر آپ کو یہ احکام دیئے گئے، ان اعمال صالحہ کو مذکورہ یعنی توبہ و ندامت و انفاق فی الخیر کی تر غیب اور اعمال سیہ مثل تخلف وغیرہ سے آئندہ کے لئے ترہیب ہے، پس اول ترغیب ہے یعنی) کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور ( کیا ان کو) یہ ( خبر نہیں) کہ اللہ ہی ( اس) توبہ قبول کرنے ( کی صفت) میں اور رحمت کرنے ( کی صفت) میں کامل ہے ( اسی لئے ان کی توبہ قبول کی، اور اپنی رحمت سے مال قبول کرنے کا حکم اور ان کے لئے دعا کرنے کا حکم فرمایا، پس آئندہ بھی خطایا وذنوب کے صدور پر توبہ کرلیا کریں، اور اگر توفیق ہو تو خیر خیرات کیا کریں) اور ( ترغیب کے بعد آگے ترہیب ہے ( یعنی) آپ ( ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ ( جو چاہو) عمل کئے جاؤ سو ( اول تو دنیا ہی میں) ابھی دیکھے لیتا ہے تمہارے عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ( پس برے عمل پر دنیا ہی میں ذلت اور خواری ہوجاتی ہے) اور ( پھر آخرت میں) ضرور تم کو ایسے (اللہ) کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے، سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلادے گا ( پس برے عمل سے مثل تخلف وغیرہ کے آئندہ سے احتیاط رکھو، یہ قسم اول کا بیان تھا، آگے قسم دوم کا ذکر ہے) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ خدا کے حکم آنے تک ملتوی ہے کہ ( عدم اخلاص توبہ کی وجہ سے) ان کو سزا دے گا یا ( اخلاص کی وجہ سے) ان کی توبہ قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ ( خلوص و عدم خلوص کا حال) خوب جا ننے والا ہے ( اور) بڑا حکمت والا ہے ( پس بمقتضائے حکمت خلوص کی توبہ کو قبول کرتا ہے، اور بغیر خلوص کے قبول نہیں کرتا اور اگر کبھی بلا توبہ معاف کرنے میں حکمت ہو تو ایسا بھی کردیتا ہے ) ۔ معارف و مسائل غزوہ تبوک کے لئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان عام اور سب مسلمانوں کو چلنے کا حکم ہوا تو زمانہ سخت گرمی کا تھا، مسافت دور دراز کی تھی، اور ایک باقاعدہ بڑی حکومت کی تربیت یافتہ فوج سے مقابلہ تھا، جو اسلام کی تاریخ میں پہلا ہی واقعہ تھا، یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے اس حکم کے متعلق لوگوں کے حالات مختلف ہوگئے، اور ان کی جماعتوں کی کئی قسمیں ہوگئیں۔ ایک قسم ان حضرات مخلصین کی تھی جو اول حکم سنتے ہی بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے، دوسری قسم وہ لوگ تھے جو ابتداء کچھ تردد میں رہے پھر ساتھ ہولئے، (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، میں انہی حضرات کا ذکر ہے۔ تیسری قسم ان حضرات کی ہے جو واقعی طور پر معذور تھے، اس لئے نہ جاسکے، ان کا ذکر (آیت) لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ میں آیا ہے، چوتھی قسم ان مؤمنین مخلصین کی ہے جو عذر نہ ہونے کے باوجود سستی کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہیں ہوئے، ان کا ذکر مذکور الصدر آیت وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا اور وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ میں آیا ہے، پانچویں قسم منافقین کی تھی جو نفاق کے سبب شریک جہاد نہیں ہوئے، ان کا ذکر گذشتہ بہت سی آیات میں آچکا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ آیات سابقہ میں بیشتر ذکر پانچویں قسم منافقین کا ہوا ہے، آیات مذکور الصدر میں چوتھی قسم کے حضرات کا ذکر ہے جو مومن ہونے کے باوجود سستی و کاہلی سے شریک جہاد نہیں ہوئے۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا، ان لوگوں کے اعمال ملے جلے ہیں، کچھ اچھے کچھ برے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ دس حضرات تھے جو بلا کسی صحیح عذر کے غزوہ تبوک میں نہ گئے تھے پھر ان کو اپنے فعل پر ندامت ہوئی، ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا، اور یہ عہد کیا کہ جب تک ہماری توبہ قبول کرکے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نہ کھولیں گے ہم اسی طرح بندھے ہوئے قیدی رہیں گے، ان حضرات میں ابو لبابہ (رض) کے نام پر سب روایتیں متفق ہیں، دوسرے اسماء میں مختلف روایتیں ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو بندھا ہوا دیکھا اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عہد یہ کیا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کو نہ کھولیں گے اس وقت تک بندھے رہیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اس وقت تک نہ کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے ان کے کھولنے کا حکم نہ دے گا، کیونکہ جرم بڑا ہے، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھولنے کا حکم دیدیا، اور وہ کھول دیئے گئے ( قرطبی ) ۔ سعید بن مسیب کی روایت میں ہے کہ جب ابولبابہ کو کھولنے کا ارادہ کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا، اور کہا کہ جب تک خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہو کر مجھے اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے میں بندھا رہوں گا، چناچہ صبح کی نماز میں جب آپ تشریف لائے تو دست مبارک سے انکو کھولا۔ نیک و بد ملے جلے عمل کیا تھے ؟ آیت میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ عمل نیک تھے، کچھ برے، ان کے نیک اعمال تو ان کا ایمان، نماز، روزی کی پابندی اور اس جہاد سے پہلے غزوات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت اور خود اس واقعہ تبوک میں اپنے جرم کا اعتراف کرلینا اور نادم ہو کر توبہ کرنا وغیرہ ہیں، اور برے عمل غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونا اور اپنے عمل سے منافقین کی مواقفت کرنا ہے۔ جن مسلمانوں کے اعمال اچھے برے ملے جلے ہوں قیامت تک وہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں : تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ یہ آیت ایک خاص جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مگر حکم اس کا قیامت تک عام ہے، ان مسلمانوں کے لئے جن کے اعمال نیک و بد ملے جلے ہوں اگر وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں تو ان کے لئے معافی اور مغفرت کی امید ہے۔ ابو عثمان نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس امت کے لئے بڑی امید لانے والی ہے اور صحیح بخاری میں بروایت سمرہ بن جندب معراج نبوی کی ایک تفصیلی حدیث میں ہے کہ ساتویں آسمان پر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہوئی تو ان کے پاس کچھ لوگ دیکھے جن کے چہرے سفید تھے، اور کچھ ایسے کہ ان کے چہروں میں کچھ داغ دھبے تھے یہ دوسری قسم کے لوگ ایک نہر میں داخل ہوئے اور غسل کر کے واپس آئے تو ان کے چہرے بھی بالکل صاف سفید ہوگئے تھے، جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو بتلایا کہ یہ سفید چہرے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر گناہوں سے پاک صاف رہے، (آیت) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملے جلے اچھے برے سب طرح کے کام کئے پھر توبہ کرلی، اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور گناہ معاف ہوگئے ( قرطبی ) ۔