Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 102

سورة التوبة

وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۰۲﴾

And [there are] others who have acknowledged their sins. They had mixed a righteous deed with another that was bad. Perhaps Allah will turn to them in forgiveness. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

اور کچھ لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے ، کچھ بھلے اور کچھ برے اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے بلاشبہ اللہ تعالٰی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Some Believers stayed away from Battle because They were Lazy Allah tells; وَاخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلً صَالِحًا وَاخَرَ سَيِّيًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ And (there are) others who have acknowledged their sins, they have mixed a deed that was righteous with another that was evil. Perhaps Allah will turn unto them in forgiveness. Surely, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. After Allah explained the characteristics of the hypocrites who stayed away from battle because they sought to avoid it out of denial and doubt, He then mentioned the disobedient who stayed away from Jihad due to laziness and preferring comfort, even though they truly believed, وَاخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ ... And others who have acknowledged their sins, These people admitted their error to themselves and their Lord. They had performed good deeds before, as well as, this evil deed that they committed. For them there was forgiveness and pardon of Allah. This Ayah is general, covering all sinners who combine good and evil deeds, thus becoming partly impure, even though it was revealed about some people in specific. Ibn Abbas said that, وَاخَرُونَ (And (there are) others), refers to Abu Lubabah and some of his friends who stayed away from the battle of Tabuk and the Messenger of Allah. When the Messenger of Allah returned from that battle, this group, Abu Lubabah and five, seven or nine with him, tied themselves to the pillars of the Masjid and refused to let anyone untie them except the Messenger of Allah. When this Ayah was revealed, وَاخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ (And (there are) others who have acknowledged their sins), the Messenger of Allah untied them and pardoned them." Al-Bukhari recorded that Samurah bin Jundub said that the Messenger of Allah said to us, أَتَانِي اللَّيْلَةَ اتِيَانِ فَابْتَعَثَانِي فَانْتَهَيَا بِي إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ فَتَلَقَّانَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ قَالاَا لَهُمْ اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهْرِ فَوَقَعُوا فِيهِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ قَالاَا لِي هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَا مَنْزِلُكَ قَالاَا وَأَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنٌ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ فَإِنَّهُمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَاخَرَ سَيِّيًا تَجَاوَزَ اللهُ عَنْهُم Last Night, two (angels) came to me (in a vision) and took me to a city, built with bricks made of gold and silver. We met some men who, part of their bodies were as handsome as you ever saw and the part as ugly as you ever saw. The two (angels) ordered these men to go to a river and submerge themselves in it; they did that and came back to us, and the ugliness went away from them, thus becoming the most beautiful form. The two said to me, `This is the garden of Eden, and this is your residence in it.' The two said, `As for the men who had part of their body handsome and part ugly, they have mixed a deed that was righteous with another that was evil. Allah has pardoned them.' Al-Bukhari recorded this Hadith in a short form upon the explanation of this Ayah.

تساہل اور سستی سے بچو منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی ، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے ۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان ۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے ۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں ۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگذر کے ماتحت ہیں ۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگذر فرما لیا ۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے ۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا ۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول ، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت ۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے ۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے ۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے ۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

102۔ 1 یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض سستی کی وجہ سے تبوک میں نبی کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کرلیا۔ 102۔ 2 بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور ' کچھ برے ' سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔ 102۔ 3 اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے سات مسلمان جنہوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا تھا :۔ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو (80) اسی سے زیادہ منافق آپ کی خدمت میں حاضر ہو ہو کر طرح طرح کے بہانے بنانے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرانے لگے کہ ہم فی الواقع معذور تھے۔ آپ نے ان سے کچھ تعرض نہ فرمایا بس اتنا کہہ دیا کہ اللہ تمہیں معاف کرے۔ ان کے علاوہ سات مسلمان ایسے تھے جو پیچھے رہ گئے تھے ان کے پاس کوئی معقول عذر نہ تھا الا یہ کہ وہ سستی کی وجہ سے شامل جہاد نہ ہو سکے تھے۔ انہوں نے آپ کی باز پرس سے پہلے ہی اپنے جرم کا اعتراف یوں کیا کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور اپنے آپ پر نیند اور خوردو نوش کو حرام کرلیا اور قسم کھائی کہ جب تک رسول اللہ اپنے ان مجرموں اور قیدیوں کو اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے اسی طرح بندھے رہیں گے۔ خواہ انہیں اسی حال میں موت ہی کیوں نہ آجائے۔ ان میں سرفہرست ابو لبابہ بن عبدالمنذر تھے جو ہجرت نبوی سے پہلے بیعت عقبہ کے موقعہ پر اسلام لائے تھے پھر غزوہ بدر اور دوسرے معرکوں میں شریک رہے بس اسی غزوہ تبوک میں نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا تو پیچھے رہ گئے۔ ان کے باقی چھ ساتھیوں کا بھی سابقہ طرز زندگی بےداغ تھا۔ ان لوگوں کا یہ حال دیکھ کر آپ نے فرمایا && واللہ جب تک اللہ حکم نہ دے میں انہیں کھول نہیں سکتا۔ && چناچہ کئی روز تک یہ لوگ بےآب و دانہ اور بےخواب ستون سے بندھے رہے حتیٰ کہ بےہوش ہو کر گرپڑے۔ تب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور توبہ کی بشارت سنائی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ : (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ) والی آیت میں مسلمانوں کے بہترین لوگوں کا ذکر ہے اور (وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ ) میں مسلمان کہلانے والے بدترین لوگوں کا ذکر ہے، جو آگ کے درک اسفل (سب سے نچلے حصے) کا ایندھن بننے والے ہیں اور اب عام مسلمانوں کا ذکر ہے جن کے صالح اعمال بھی ہیں اور کچھ اعمال سیۂ (برے کام) بھی ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ مفسرین نے یہاں ابولبابہ (رض) وغیرہ کا تذکرہ فرمایا کہ وہ مخلص مسلمان ہونے کے باوجود تبوک پر نہ جاسکے تو انھوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خود کھولیں گے تو ہم سمجھیں گے کہ ہماری توبہ قبول ہوگئی۔ آخر کار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم سے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولا اور پہلے ان کا پیش کردہ صدقہ قبول نہیں کیا تھا پھر اگلی آیت (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً ) اتری تو ان کا صدقہ بھی قبول فرمایا۔ اس مفہوم کی اکثر روایات مرسل یا کمزور ہیں، البتہ ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ میں ابن عباس اور جابر (رض) کی ایک روایت کو حسن قرار دیا گیا ہے، جس میں ابولبابہ (رض) اور ان کے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے پر اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھنے اور آخر کار اللہ کے حکم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انھیں اپنے ہاتھ سے کھولنے کا اور (ۚوَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِهِمْ ) سے (اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ) تک آیات اترنے کا ذکر ہے۔ (واللہ اعلم) البتہ اس بات میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ جس طرح (وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ) والی آیت میں مذکور افراد (وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ) میں قیامت تک صحابہ کرام (رض) کے تمام محسن پیروکار شامل ہیں، اسی طرح یہ آیت قیامت تک آنے والے تمام گناہ گار مخلص مسلمانوں کو شامل ہے، جنھوں نے اپنے اچھے اعمال کے ساتھ کچھ دوسرے برے اعمال بھی ملا جلا رکھے ہیں۔ سند کے لحاظ سے اس کی صحیح ترین تفسیر وہ ہے جو امام بخاری (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں اپنی صحیح میں درج فرمائی ہے کہ سمرہ بن جندب (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” آج رات دو آنے والے میرے پاس آئے، انھوں نے مجھے اٹھایا، پھر وہ مجھے ایک ایسے شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کا نصف بدن سب سے زیادہ خوبصورت شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو اور نصف اس بدصورت ترین شخص کی طرح تھا جو تم دیکھنے والے ہو۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا، اس نہر کے اندر داخل ہوجاؤ، وہ اس میں داخل ہوگئے، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان سے وہ بدصورتی جا چکی تھی اور وہ بہترین صورت میں بدل چکے تھے۔ دونوں (فرشتوں) نے مجھ سے کہا، یہ جنت عدن ہے اور وہ تمہارا گھر ہے۔ دونوں نے کہا کہ وہ لوگ جن کا نصف حصہ خوبصورت اور نصف بدصورت تھا ( فَاِنَّھُمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَیِّءًا تَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْھُمْ ) تو یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نیک عمل کیے اور ان کے ساتھ برے عمل بھی ملا جلا دیے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما دیا۔ “ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( وآخرون اعترفوا بذنوبہم ) : ٤٦٧٤ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary When Muslims were given a general call for Jihad at Tabuk, the weather was extremely hot. The journey was long and they were supposed to be up against the trained army of a big state, the first such episode in Islamic history. These were some of the causes why people split into different groups. The first group was that of sincere Muslims who got ready for Ji¬had without any hesitation at the very first call. Another group first hesitated initially, then joined in. They are the ones mentioned in: اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَ‌ةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِ‌يقٍ مِّنْهُمْ (who followed him in the hour of hardship after the hearts of a group of them were about to turn crooked - 9:117). The third group was that of people who were genuinely handi¬capped because of which they could not go. They have been mentioned in: لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ (There is no blame on the weak - 9:91). The fourth group belonged to sincere Muslims who had no excuse yet they did not take part in the Jihad because of laziness. They have been mentioned in وَآخَرُ‌ونَ اعْتَرَ‌فُوا & (And there are others who admitted - 9:102) and آخَرُ‌ونَ مُرْ‌جَوْنَ (And there are others whose matter is deferred - 9:106) under study now. The fifth group was that of hypocrites who did not participate in the Jihad because of hypocrisy. They have been mentioned at several places in the previous verses. In short, the fifth group of hypocrites featured mostly in previous verses while the present verse (102) men¬tions people in the fourth group, that is, those who, despite being true Muslims, did not participate in the Jihad because of laziness. It was said in the first verse (102) that some had admitted their sins. Their deeds were mixed. Some of their deeds were good while some others were bad. For them, there was hope that Allah Ta` ala may accept their repentance. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) said, ` Ten persons did not go for the battle of Tabuk. They had no valid excuse for it. Later, they were sorry for what they had done. Seven of them tied themselves up to the pillars of the Mosque of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) resolving that they would continue to remain tied as they were like prisoners until the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم were to accept their repentance and untie them. All narratives of the incident agree that Sayyidna Abu Lubabah (رض) was one of them. As for other names, narratives differ. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw them so tied up and he was told that they had resolved to remain tied until the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) unties them, he said, ` By Allah, I too shall not untie them until Allah Ta` ala orders me to do that. The crime is serious.& Thereupon, this verse (102) was revealed and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ordered that they be untied. They were. (Qurtubi) According to a narrative of Said ibn al-Musaiyyab, when people went to untie Sayyidna Abu Lubabah (رض) he refused and said, ` I shall remain tied until the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) does not, with his pleasure, untie me with his own blessed hands.& So, when he came for the Fajr Salah, he himself untied him. What were these mixed deeds? It has been said in the verse that they had mixed a good deed with another that was evil. Obvious among the good ones were &Iman, Salah and Fasting. Then, they had participated in earlier battles with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . And then, following this battle of Tabuk in which they could not participate, they had admitted their misconduct, were ashamed of it and had repented. As for the evil ones, they had not participated in the battle of Tabuk and thus they had acted in a manner that resembled the approach of the hypocrites. Mixed Deeds of all the Muslims are governed by the same rule It appears in Tafsir al-Qurtubi that this verse though revealed about a particular group, is universal in its application and the injunc¬tion it carries is valid until the day of Qiyamah. It covers Muslims whose deeds are a mixture of the good and the bad. If they were to repent from their sins, it can be hoped that they shall be pardoned and forgiven. Abu ` Uthman (رض) has said, ` this verse of the Holy Qur&an brings great hope for this ummah.& A detailed Hadith relating to the Ascension of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) appearing in the Sahih of Al-Bukhari on the authority of Sayyidna Samurah ibn Jundub (رض) says, ` On the seventh heaven, when the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم met with Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، he saw some people with him whose faces were bright. And some of them had some spots and stains on their faces. When these people went into a stream and came out all washed up, their faces had also turned bright. The Archangel Jibra&il (علیہ السلام) told the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that these people with bright faces you saw first were those who had professed faith and then kept clean from sins: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ (those who have believed and have not mixed their faith with injustice - 6:82). The others were people who did what was a mixture of good and evil, but repented later. Allah accepted their repentance and their sins were forgiven.& (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے مقر ہوگئے جنہوں نے ملے جلے عمل کئے تھے کچھ بھلے ( جیسے اعتراف جس کا منشاء ندامت ہے اور یہی توبہ ہے، اور جیسے اور غزوات جو پہلے ہوچکے ہیں، غرض یہ کام تو اچھے کئے) اور کچھ برے ( کئے جیسے تخلف بلا عذر سو) اللہ سے امید ( یعنی انکا وعدہ) ہے کہ ان ( کے حال) پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرماویں ( یعنی توبہ قبول کرلیں) بلا شبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والے بڑی رحمت والے ہیں ( جب اس آیت سے توبہ قبول ہوچکی اور وہ حضرات ستونوں سے کھل چکے تو اپنا مال آپ کی خدمت میں لے کر آئے اور درخواست کی کہ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کیا جائے تو ارشاد ہوا کہ) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ ( جس کو یہ لائے ہیں) لے لیجئے جس کے ( لینے کے) ذریعہ سے آپ ان کو ( گناہ کے آثار سے) پاک صاف کردیں گے اور ( جب آپ لیں تو) ان کے لئے دعا کیجئے، بلا شبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ( قلب) ہے اور اللہ تعالیٰ ( ان کے اعتراف کو) خوب سنتے ہیں ( اور ان کی ندامت کو) خوب جانتے ہیں ( اس لئے ان کے اخلاص کو دیکھ کر آپ کو یہ احکام دیئے گئے، ان اعمال صالحہ کو مذکورہ یعنی توبہ و ندامت و انفاق فی الخیر کی تر غیب اور اعمال سیہ مثل تخلف وغیرہ سے آئندہ کے لئے ترہیب ہے، پس اول ترغیب ہے یعنی) کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور ( کیا ان کو) یہ ( خبر نہیں) کہ اللہ ہی ( اس) توبہ قبول کرنے ( کی صفت) میں اور رحمت کرنے ( کی صفت) میں کامل ہے ( اسی لئے ان کی توبہ قبول کی، اور اپنی رحمت سے مال قبول کرنے کا حکم اور ان کے لئے دعا کرنے کا حکم فرمایا، پس آئندہ بھی خطایا وذنوب کے صدور پر توبہ کرلیا کریں، اور اگر توفیق ہو تو خیر خیرات کیا کریں) اور ( ترغیب کے بعد آگے ترہیب ہے ( یعنی) آپ ( ان سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ ( جو چاہو) عمل کئے جاؤ سو ( اول تو دنیا ہی میں) ابھی دیکھے لیتا ہے تمہارے عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اہل ایمان ( پس برے عمل پر دنیا ہی میں ذلت اور خواری ہوجاتی ہے) اور ( پھر آخرت میں) ضرور تم کو ایسے (اللہ) کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے، سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلادے گا ( پس برے عمل سے مثل تخلف وغیرہ کے آئندہ سے احتیاط رکھو، یہ قسم اول کا بیان تھا، آگے قسم دوم کا ذکر ہے) اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ خدا کے حکم آنے تک ملتوی ہے کہ ( عدم اخلاص توبہ کی وجہ سے) ان کو سزا دے گا یا ( اخلاص کی وجہ سے) ان کی توبہ قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ ( خلوص و عدم خلوص کا حال) خوب جا ننے والا ہے ( اور) بڑا حکمت والا ہے ( پس بمقتضائے حکمت خلوص کی توبہ کو قبول کرتا ہے، اور بغیر خلوص کے قبول نہیں کرتا اور اگر کبھی بلا توبہ معاف کرنے میں حکمت ہو تو ایسا بھی کردیتا ہے ) ۔ معارف و مسائل غزوہ تبوک کے لئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان عام اور سب مسلمانوں کو چلنے کا حکم ہوا تو زمانہ سخت گرمی کا تھا، مسافت دور دراز کی تھی، اور ایک باقاعدہ بڑی حکومت کی تربیت یافتہ فوج سے مقابلہ تھا، جو اسلام کی تاریخ میں پہلا ہی واقعہ تھا، یہ اسباب تھے جن کی وجہ سے اس حکم کے متعلق لوگوں کے حالات مختلف ہوگئے، اور ان کی جماعتوں کی کئی قسمیں ہوگئیں۔ ایک قسم ان حضرات مخلصین کی تھی جو اول حکم سنتے ہی بلا تردد جہاد کے لئے تیار ہوگئے، دوسری قسم وہ لوگ تھے جو ابتداء کچھ تردد میں رہے پھر ساتھ ہولئے، (آیت) الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ، میں انہی حضرات کا ذکر ہے۔ تیسری قسم ان حضرات کی ہے جو واقعی طور پر معذور تھے، اس لئے نہ جاسکے، ان کا ذکر (آیت) لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ میں آیا ہے، چوتھی قسم ان مؤمنین مخلصین کی ہے جو عذر نہ ہونے کے باوجود سستی کاہلی کے سبب جہاد میں شریک نہیں ہوئے، ان کا ذکر مذکور الصدر آیت وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا اور وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ میں آیا ہے، پانچویں قسم منافقین کی تھی جو نفاق کے سبب شریک جہاد نہیں ہوئے، ان کا ذکر گذشتہ بہت سی آیات میں آچکا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ آیات سابقہ میں بیشتر ذکر پانچویں قسم منافقین کا ہوا ہے، آیات مذکور الصدر میں چوتھی قسم کے حضرات کا ذکر ہے جو مومن ہونے کے باوجود سستی و کاہلی سے شریک جہاد نہیں ہوئے۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا، ان لوگوں کے اعمال ملے جلے ہیں، کچھ اچھے کچھ برے، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیں، حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ دس حضرات تھے جو بلا کسی صحیح عذر کے غزوہ تبوک میں نہ گئے تھے پھر ان کو اپنے فعل پر ندامت ہوئی، ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ باندھ لیا، اور یہ عہد کیا کہ جب تک ہماری توبہ قبول کرکے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نہ کھولیں گے ہم اسی طرح بندھے ہوئے قیدی رہیں گے، ان حضرات میں ابو لبابہ (رض) کے نام پر سب روایتیں متفق ہیں، دوسرے اسماء میں مختلف روایتیں ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان کو بندھا ہوا دیکھا اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عہد یہ کیا ہے کہ جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ان کو نہ کھولیں گے اس وقت تک بندھے رہیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اس وقت تک نہ کھولوں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے ان کے کھولنے کا حکم نہ دے گا، کیونکہ جرم بڑا ہے، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے کھولنے کا حکم دیدیا، اور وہ کھول دیئے گئے ( قرطبی ) ۔ سعید بن مسیب کی روایت میں ہے کہ جب ابولبابہ کو کھولنے کا ارادہ کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا، اور کہا کہ جب تک خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہو کر مجھے اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے میں بندھا رہوں گا، چناچہ صبح کی نماز میں جب آپ تشریف لائے تو دست مبارک سے انکو کھولا۔ نیک و بد ملے جلے عمل کیا تھے ؟ آیت میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے کچھ عمل نیک تھے، کچھ برے، ان کے نیک اعمال تو ان کا ایمان، نماز، روزی کی پابندی اور اس جہاد سے پہلے غزوات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت اور خود اس واقعہ تبوک میں اپنے جرم کا اعتراف کرلینا اور نادم ہو کر توبہ کرنا وغیرہ ہیں، اور برے عمل غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونا اور اپنے عمل سے منافقین کی مواقفت کرنا ہے۔ جن مسلمانوں کے اعمال اچھے برے ملے جلے ہوں قیامت تک وہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں : تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ یہ آیت ایک خاص جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہے، مگر حکم اس کا قیامت تک عام ہے، ان مسلمانوں کے لئے جن کے اعمال نیک و بد ملے جلے ہوں اگر وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں تو ان کے لئے معافی اور مغفرت کی امید ہے۔ ابو عثمان نے فرمایا کہ قرآن کریم کی یہ آیت اس امت کے لئے بڑی امید لانے والی ہے اور صحیح بخاری میں بروایت سمرہ بن جندب معراج نبوی کی ایک تفصیلی حدیث میں ہے کہ ساتویں آسمان پر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہوئی تو ان کے پاس کچھ لوگ دیکھے جن کے چہرے سفید تھے، اور کچھ ایسے کہ ان کے چہروں میں کچھ داغ دھبے تھے یہ دوسری قسم کے لوگ ایک نہر میں داخل ہوئے اور غسل کر کے واپس آئے تو ان کے چہرے بھی بالکل صاف سفید ہوگئے تھے، جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو بتلایا کہ یہ سفید چہرے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور پھر گناہوں سے پاک صاف رہے، (آیت) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملے جلے اچھے برے سب طرح کے کام کئے پھر توبہ کرلی، اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور گناہ معاف ہوگئے ( قرطبی ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَـيِّــئًا۝ ٠ ۭ عَسَى اللہُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٠٢ اعْتِرَافُ والاعْتِرَافُ : الإقرارُ ، وأصله :إظهار مَعْرِفَةِ الذّنبِ ، وذلک ضدّ الجحود . قال تعالی: فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک/ 11] ، فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر/ 11] . الاعتراف ( افتعال ) کے معنی اقرار کے میں اصل میں اس کے معنی گناہ کا اعتراف کرنے کے ہیں ۔ اس کی ضد جحود یعنی انکار کرنا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ؛ فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ [ الملک/ 11] پس وہ اپنے گناہ کا اقرار کریں گے ۔ فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا[ غافر/ 11] ہم کو اپنے گناہوں کا اقرار ہے ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ خلط الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی: فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] ، ( خ ل ط ) الخلط ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص/ 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے واخرون اعترفوابذنوبھم خلطوا عملا ًصالحا ً واخر سیئا ً عسی اللہ ان یتوب علیھم کچھ اور لگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کرلیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے۔ کچھ نیک ہے اور کچھ بد ۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہوجائے۔ اعتراف کسی بات کے اس اقرار کو کہتے ہیں جو آگاہ ہوجانے کی بنیاد پر کیا جائے ۔ اس لیے کہ اقرار کا لفظ قرالشی ۔ ایک چیز نے قرار پکڑ لیا سے نکلا ہے اور اعتراف کا لفظ معرفت سے نکلا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے ذکر کے ساتھ گنا ہ کے اعترا ف کا ذکر کیا ہے اس لیے کہ گناہ کی قباحت کے تصور میں صدق دل سے توبہ کا زیادہ داعیہ ہوتا ہے ۔ اور ایسے شخص کی حالت اس شخص سے بہتر ہوتی ہے جسے توبہ کرنے کی رغبت دلائی جائے لیکن اسے گناہ کی سنگینی اور اس کے برے انجام کی کوئی خبر اور کوئی تصور نہ ہو اس لیے درست ترین توبہ وہ ہوتی ہے جو اعتراف گناہ کے ساتھ کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہ السلام) کی توبہ کی حکایت ان الفاظ میں کی ہے ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخاسرین ۔ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا ۔ اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں عسی اللہ یتوب علیھم فرمایا تا کہ متعلقہ لوگ ہم ورجا کے مابین رہیں اور اس طرح تکیہ نہ کرلینے کی بنا پر غفلت اور بےعملی سے دور رہیں حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لفظ عسی کے ساتھ کہی ہوئی بات واجب ہوتی ہے یعنی وہ ضرور وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ گناہ گار کے لیے توبہ سے مایوسی کا کوئی جواز نہیں ہے، عمل کے دوران برے اعمال کے ساتھ اچھے اعمال کی صورت بھی پیدا ہوجائے گی اس لیے کہ قول باری ہے خلطوا عملاً صالحا ً واخرسیئا ًایک گناہ گار خواہ گناہوں پر ڈٹا رہے لیکن جب بھی نیکی کرنے کی صورت میں وہ رجوع الی اللہ کرے گا اس کی درست روی کی امید پیدا ہوجائے گی اور اچھے انجام کی بنا پر اس کی عاقبت بخیر ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولا تیا سوا من روح اللہ انہ لا یباس من روح اللہ الا القوم الکافرون اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، اللہ کی رحمت سے صرف وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں ایک بندے کے گناہوں کا بوجھ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو اس کے لیے توبہ کی قبولیت سے مایوس ہو کر نیکی سے منہ موڑ لینا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب تک وہ مکلف ہے اس وقت تک اس کی توبہ قبول ہوسکتی ہے ، البتہ ایسے لوگ جو بڑے سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے اور جن کے مظالم کی فہرست طویل ہوگئی اور توبہ کی قبولیت سے مایوس ہوکر انہوں نے کار خیر کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرنے سے اپنا منہ پھیرلیا ۔ ہمارے خیال میں شاید انہیں لوگوں کے متعلق یہ قول باری ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون ہرگز ایسا نہیں کہ جزاء وسزا نہ ہو ۔ اصل یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے کرتوتوں کا رنگ بیٹھ گیا ہے۔ مروی ہے کہ حسن بن علی (رض) نے حبیب بن مسلمہ الفہری سے ۔ جو حضرت معاویہ (رض) کے رفقاء میں سے تھا ، ایک دفعہ گفتگو کے دوران کہا : تم نے کتنے ہی سفرا ی سے کیے ہیں جو اللہ کی طاعت میں نہیں ہوئے۔ حبیب نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔ میں نے تمہارے والد کے پاس پہنچنے کے لیے جتنے سفر کیے وہ ایسے نہیں تھے۔ یہ سن کر حضرت حسن (رض) نے فرمایا : ہاں وہ بھی اسی قسم کے سفر تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم نے دنیا کے معمولی سامان کے بدلے معاویہ (رض) کی پیروی کرلی، بخدا اگر معاوضہ نے تمہاری دنیا درست کردی ہے تو انہوں نے تمہارا دین خراب کر ڈالا ہے۔ اگر تم برائی کرنے کے ساتھ اپنی زبان سے نیکی کی بات کہتے تو تمہارا شمار ان لوگوں میں ہوتا جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے۔ خلقوا عملاً صالحا ً واخر سیئا ً عسی اللہ ان یتوب علیھم لیکن اب تمہارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے متعلق ارشاد ہے کلا بل ران علی قلوبھم ما کانوا یکسبون زیر بحث آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی تھی جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے اور اسلامی لشکر سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق ان کی تعداد دس تھی ان میں حضرت ابو لبایہ ین عبد المنذر بھی شامل تھے ، ان میں سے سات نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھے رکھا یہاں تک کہ ان کی توبہ کی قبولیت کی آیت ناز ل ہوئی ۔ ایک قول کے مطابق ان کی تعداد سات تھی اور حضرت ابو البابہ ان میں سے ایک تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٢) اور اہل مدینہ میں سے کچھ اور لوگ ہیں یعنی ودیعتہ بن جزام انصاری، ابولبابہ بن عبد المنذر انصارنی، ابوثعلبہ انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کرلیا، جو ان سے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کی بنا پر سرزد ہوئی ہے، اس سے پہلے جو غزوات ہوچکے ہیں، اس میں تو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک ہوئے اور اس غزوہ میں آپ کے ساتھ شرکت نہیں کی، سو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ان کی غلطی معاف کردی جائے گی، بیشک جو ان میں سے توبہ کرے، اللہ رب العزت اس کی بخشش کرنے والے اور جو توبہ پر مرے اس پر رحم کرنے والے ہیں (جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی) تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اپنا مال واسباب لیکر آئے اور عرض کیا کہ اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے کیوں کہ ہم اس مال واسباب ہی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں نہیں گئے تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے مال واسباب نہیں لیا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا حکم نہیں دے دیا اور یہاں نہیں فرما دیا کہ کیا مال لینا چاہیے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ واخرون اعترفوا “۔ (الخ) ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے واسطہ سے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کے لیے تشریف لے گئے، ابولبابہ اور ان کے پانچ ساتھیوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی، اس کے بعد حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھ دو مزید حضرات کو اپنے اس فعل سے ندامت ہوئی اور ان حضرات کو اپنی ہلاکت کا پکا یقین ہوگیا اور کہنے لگے کہ ہم سکون و اطمینان کے ساتھ عورتوں سے لذت اٹھا رہے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) جہاد میں مصروف ہیں، اللہ کہ قسم اب ہم اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیں گے اور ان کو نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی خود کھولیں، چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور تین لوگ اپنی حالت پر باقی رہ گئے، انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں باندھا۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد سے واپس تشریف لائے اور پوچھا کہ یہ ستونوں کے ساتھ کون حضرات بندھے ہوئے ہیں تو ایک شخص نے کہا یہ ابو لبابہ (رض) اور اس کے ساتھی ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہوسکے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرلیا ہے کہ اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں کھولیں گے جب تک کہ آپ خود ان کو ستونوں سے نہ کھولیں، آپ نے یہ سن کر فرمایا میں تو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ ان کے کھولنے کا مجھے حکم نہیں دیا جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کا اقرار کرتے ہیں جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی آپ نے ان کو کھول دیا اور ان کے عذر کو قبول فرمایا۔ اور وہ تین حضرات باقی رہ گئے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ نہیں باندھا تھا، انہوں نے کوئی عذر نہیں بیان کیا یہ وہی حضرات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور کچھ لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم کے آنے تک ملتوی ہے الخ۔ چناچہ ان تینوں حضرات کے بارے میں ایک جماعت کہنے لگی کہ یہ لوگ جب ان کے عذر کے بارے میں کوئی حکم الہی نازل ہوا تو یہ لوگ ہلاک ہوگئے اور دوسری جماعت کہتی تھی کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان حضرات کی توبہ قبول فرما لے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” و علی الثلاثۃ الذین “۔ الخ۔ اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علی ابن ابی طلحہ (رض) کے ذریعے سے ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ جب ابولبابہ (رض) اور ان کے ساتھی کھول دیے گئے تو وہ اپنے مال لے کر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہمارے اموال ہیں، ہم سے ان صدقہ قبول فرمالیجیے اور ہمارے لیے بخشش طلب فرمائیے، آپ نے فرمایا مجھے تمہارے اموال میں سے کسی چیز کے لینے کا حکم نہیں دیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ “۔ (الخ) نیز یہ اتنی مقدار سعید بن جبیر، (رض) ضحاک (رض) زید بن اسلم (رض) وغیرہ سے بھی نقل کی ہے۔ اور عبد بن قتادہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت سات آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے چار آدمیوں نے یعنی ابو لبابہ (رض) فرداس (رض) ، اوس بن جذام (رض) اور ثعلبۃ بن ودیعہ (رض) نے اپنے خود کو ستونوں سے باندھ لیا تھا۔ اور ابو الشیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مندہ نے صحابہ کے بیان میں، ثوری، اعمش، ابوسفیان کے ذریعہ سے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ غزوہ تبوک میں جن حضرات نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شرکت نہیں کی، وہ چھ آدمی تھے، ابولبابہ (رض) اوس بن جذام (رض) ثعلبہ بن ودیعہ (رض) کعب بن مالک (رض) مرارہ بن ربیع (رض) ، ہلال بن امیہ (رض) ، چناچہ ابولبابہ (رض) ، اوس اور ثعلبہ نے آکرخود کو ستونوں سے باندھ لیا اور اپنے مال واسباب لے کر آئے اور عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ جہاد میں شریک نہ ہونے کے عوض ہے، آپ نے فرمایا جب تک کہ قتال نہ ہو میں ان کو نہیں کھولوں گا، اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی اس روایت کی اسناد قوی ہیں۔ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایسی سند کے ساتھ جس میں واقدی ہے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، فرماتی ہیں کہ ابولبابہ (رض) کی توبہ میرے حجرے میں نازل ہوئی، میں نے سحر کے وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہنسنے کی آواز سنی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کافر لوگ آپ کو ہنسا رہے ہیں، آپ نے فرمایا ابولبابہ کی توبہ قبول ہوگئی ، میں نے عرض کیا تو ان کو اطلاع کر دوں، آپ نے فرمایا جیسے تمہاری مرضی، تو میں حجرے کے دروازہ پر کھڑی ہوئی اور یہ (واقعہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے) میں نے کہا ابولباب (رض) آپ کے لیے خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی توبہ قبول فرمائی، یہ سن کر صحابہ کرام (رض) ان کو کھولنے کے لیے دوڑے تو انہوں نے فرمایا جب تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ کو نہ کھولیں کوئی اور نہ کھولے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کی نماز کے لیے تشریف لے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کھول دیا اور یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” واخرون اعترفوا “۔ (الخ) (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٢ (وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ ) وہ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ نہیں بولتے ‘ جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے ‘ جھوٹے بہانے نہیں بناتے ‘ بلکہ کھلے عام اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی ‘ معمولات زندگی کی مصروفیات اور اہل و عیال کی مشغولیات نے ہمیں اس قدر الجھایا کہ ہم دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ جب غلطی کا ایسا کھلا اعتراف ہوگیا تو نفاق کا احتمال جاتا رہا۔ لہٰذا انہیں توبہ کی توفیق مل گئی۔ (خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّءًا ط) نیک اعمال بھی کرتے ہیں مگر کبھی کوئی غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایثار وا نفاق بھی کرتے ہیں مگر دنیاداری کے جھمیلوں میں الجھ کر کہیں کوئی تقصیر بھی ہوجاتی ہے۔ (عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ایک روایت کے مطابق یہ آیت حضرت ابو لبابہ (رض) اور ان کے چند ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان لوگوں سے سستی اور دنیاداری کی مصروفیات کے باعث یہ کوتاہی ہوئی کہ وہ غزوۂ تبوک پر نہ جاسکے ‘ مگر جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے شدید احساس ندامت کے باعث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس مدینہ تشریف لانے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ اب یا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لا کر ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمائیں گے اور ہمیں اپنے دست مبارک سے کھولیں گے یا پھر ہم یہیں بندھے بندھے اپنی جانیں دے دیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشریف لے جا کر انہیں کھولا اور خوشخبری سنائی کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ توبہ کرنے اور توبہ کی قبولیت کا یہ وہی اصول تھا جو ہم سورة النساء میں پڑھ آئے ہیں : (اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓءِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْط وَکَان اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً ) یعنی کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہونے کے فوراً بعد انسان کے اندر ایمانی جذبات لوٹ آئیں ‘ اسے احساس ندامت ہو اور وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی توبہ کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ مگر ان اصحاب (رض) کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں خصوصی حکم نازل ہوا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

78: منافقین تو اپنی منافقت کی وجہ سے غزوۂ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے، اور اب تک انہیں کا ذکر ہوتا رہا ہے۔ لیکن مخلص مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو سستی کی وجہ سے جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت کے مطابق یہ کل دس حضرات تھے۔ ان میں سے ساتھ کو اپنی اس سستی پر اتنی سخت شرمندگی ہوئی کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ یہ خود اپنے آپ کو سزا دینے کے لئے مسجد نبوی پہنچے، اور اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا، اور یہ کہا کہ جب تک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود ہمیں معاف کرکے نہیں کھولیں گے، ہم انہی ستونوں سے بندھے رہیں گے۔ آپ کی واپسی کا وقت قریب تھا، اور جب آپ واپس تشریف لائے اور آپ نے انہیں بندھا ہوا دیکھا تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ اس پر آپ کو علم ہوا کہ انہوں نے اس لئے اپنے آپ کو باندھ رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب میں بھی ان کو اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک اﷲ تعالیٰ خود انہیں کھولنے کا حکم نہ دیدے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، اور انہیں کھول دیا گیا۔ ان سات حضرات میں حضرت ابو لبابہ رضی اﷲ عنہ بھی تھے جن کے نام سے ایک ستون اب بھی مسجد نبوی میں موجود ہے، اور اسے اسطوانۃ التوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس ستون سے اپنے آپ کو اس وقت باندھا تھا جب بنو قریظہ کے معاملے میں ان سے ایک غلطی ہوگئی تھی، لیکن حافظ ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہنے اسی کو ترجیح دی ہے کہ یہ واقعہ تبوک سے متعلق ہے، اور اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے (دیکھئے تفسیر ابن جریر ج : ۱۱ ص :۱۲ تا ۱۶) باقی تین حضرات جو تبوک نہیں گئے تھے، ان کا ذکر آگے آیت نمبر۱۰۶میں آ رہا ہے۔ اس آیت نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوجائے تو اسے مایوس ہونے کے بجائے توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اور غلطی کی تأویلیں کرنے کے بجائے ہر ممکن طریقے سے اپنی غلطی پر اظہار ندامت کرنا چاہئے۔ ایسے لوگوں کے لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ امید دلائی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٢۔ ١٠٤۔ تفسیر ابن جریر ابن ابی حاتم ابن مردویہ اور ابو الشیخ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جس گروہ صحابہ نے اپنے قصور کا اقرار کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تبوک کے سفر سے مدینہ واپس آنے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا پہلا ٹکڑا آیت کا اس شان میں ہے اور پھر جب ان لوگوں کی توبہ قبول ہوگئی اور انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں اپنا مال لاکر عرض کیا کہ حضرت جس مال کے لینے سے انکار کیا تھا دوسرا ٹکڑا آیت کا اس مال کے حکم میں ہے اور جن لوگوں کی توبہ پونے دو مہینے کے بعد قبول ہوئی تیسرا آیت کا ٹکڑا ان کی شان میں نازل ہوا ١ ؎ ہے علماء سلف نے اس آیت کے حکم سے یہ بات بھی نکالی ہے کہ کوئی گنہگار شخص جب اپنے گناہوں سے توبہ کرے تو اس کو کچھ صدقہ دینا بھی مستحب ہے اگرچہ بعضے مفسروں نے اس صدقہ سے مراد زکوٰۃ لی ہے لیکن اکثر مفسرین کا قول یہ ہی ہے کہ اس آیت میں صدقہ سے مراد کفارہ کے طور پر نفلی صدقہ ہے اور خاص اس قصہ میں صحیحین کی کعب بن مالک (رض) کی جو حدیث ٢ ؎ ہے اس سے اس آخری قل کی بڑی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس روایت میں کعب بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ جب میری توبہ قبول ہوئی تو میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری توبہ کا جزیہ بھی یہی ہے کہ میں اپنا مال صدقہ میں دوں آپ نے فرمایا کسی قدر اپنا مال رہنے دو کہ تمہارے کام آویگا اس پر انہوں نے عرض کیا کہ خیبر کی لڑائی میں جو مجھ کو حصہ ملا ہے وہ میں رہنے دیتا ہوں اس سے معلوم ہوا کہ کعب بن مالک (رض) نے اپنا سارا مال نفلی صدقہ کے طور پر دینے کا ذکر کیا اور اس پر آنحضرت نے ان کو کسی قدر مال رہنے دینے کی نصیحت کی، زکوۃ کا ذکر ہوتا تو زکوٰۃ کی مقدار جس قدر مقرر ہے اسی قدر مقرر ہے اسی قدر مال کے دینے کا ذکر آتا سارے مال کے ذکر کی اور آنحضرت کی نصیحت پر صرف خیبر کے حصہ کے رہنے دینے کی کیا ضرورت تھی۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی شخص گناہ کر کے فورا توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جبکہ میرے بندے کے دل میں اس قدر یقین ہے کہ گناہوں پر گرفت کرنے والا اور گناہوں کو معاف کرنے والا سوا اللہ کے اور کوئی نہیں ہے تو میں نے بھی اپنے بندے کی توبہ قبول کی اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا ٣ ؎۔ آیت کے ٹکڑے الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبۃ عن عبادہ کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے آیت ومن الاعراب من یومن باللہ کی تفسیر میں صدقہ خیرات کے سبب سے قربت الٰہی حاصل ہونیکی۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے اوپر گذر چکی ہے وہ حدیث خذ الصدقات کی گویا تفسیر ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ایک اور حدیث ابوہریرہ (رض) کی اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو گناہوں کے معاف کرنے کی صفت اس قدر پیاری ہے کہ دنیا کے موجود لوگ اگر گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ اور گنہگار مخلوقات کو زمین پر پیدا کرتا اور توبہ و استغفار کرنے سے ان کے گناہ معاف کردیتا ٤ ؎ یہ حدیث وان اللہ ھوا لتواب الرحیم کی گویا تفسیر ہے۔ ١ ؎ تنقیح الرواۃ ص ١٧ ج ١ کتاب الایمان ٢ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٣٤ باب حدیث کعب بن مالک (رض) ٣ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ١١١٧ باب قول اللہ یریددن ان یبدلوا کلام اللہ الخ والترغیب والترہیب ج ٢ ص ٢٢٠ الترغیب فی التوبۃ البادرۃ الخ ٤ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٥٥ باب سقوط الذنوب بالاستغفار والتوبۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:102) اخرون۔ دوسرے لوگ۔ اور لوگ۔ اخر کی جمع ہے۔ یعنی منافقوں کے علاوہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا (اور اپنے کئے پر نادم ہوئے کہ وہ کیوں جہاد کے لئے جنگ تبوک میں شامل نہ ہوئے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اوپر ان منافقین کا ذکر فرمایا جو غزوہ تبوک میں بوجہ نفاق پیچھے رہ گئے تھے۔ اب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو غلطی اور سستی سے غزوہ میں شرکت نہیں کرسکے ورنہ وہ حقیقت میں منافق نہیں تھے (ابن کثیر) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا 8 ۔ یعنی مسلمان ہونے کے بعد نماز روزہ بھی کرتے رہے جہاد میں بھی شریک رہے مگر اب یہ غلطی ہوگئی کہ غزوہ تبوک میں نہ نکلے۔ (قرطبی) 9 ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے وہ سچے مسلمان تھے اس لیے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ سے واپس تشریف لے آئے تو انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے مسجد نبوی کے ستونوں سے اپنے آپ کو باندھ لیا اور قسم کھائی کہ جب تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دست مبارک سے نہیں کھولیں گے کچھ کھائے پئے بغیر یہیں بندھے رہیں گے۔ آخر کار ان کی توبہ قبول ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے دست مبارک سے کھولا۔ (ابن جریر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

١ :۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی رحمہم اللہ نے دلائل میں ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دس آدمی تھے جو غزوہ تبوک میں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پیچھے رہ گئے تھے جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) واپس تشریف لے آئے تو ان میں سے سات آدمیوں نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا جب نبی کریم ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) مسجد میں ان کے پاس سے گزرے اور ان کو دیکھ کر فرمایا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا ہے صحابہ کرام (رض) نے فرمایا یہ ابو لبابہ اور ان کے ساتھی ہیں جو آپ سے یارسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا اور قسم اٹھائی کہ کوئی ان کو نہ کھولے گا یہاں تک کہ نبی کریم ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ان کو کھولیں گے اور ان کا عذر قبول فرمائیں گے آپ نے فرمایا میں بھی اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کو نہیں کھولوں گا اور نہ ان کا عذر قبول کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو کھولیں گے کیوں کہ انہوں نے مجھ سے اعراض کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے سے پیچھے رہ گئے ۔ جب ان کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا ہم اپنے آپ کو نہیں کھولیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ہم کو کھولنے والے ہیں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت ) نازل فرمائی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا۔ عسی اللہ ان یتوب علیہم “ اور قریب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ قبول ہوجائے اور وہ بہت توبہ قبول کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں جب (یہ آیت) نازل ہوئی تو نبی کریم ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ان تک یہ آیت پہنچائی ان کو کھول دیا اور ان کا عذر قبول کرلیا وہ مال لے آئے اور کہا یا رسول اللہ یہ ہمارے لئے مال ہیں ہماری طرف سے اس کو صدقہ کردیجئے اور ہمارے لئے استغفار فرمائیے آپ نے فرمایا مجھے تمہارا مال لینے کا حکم نہیں دیا گیا تو اللہ جل شانہ نے یہ نازل فرمایا (آیت) خذ من اموالہم صدقۃ تطھرھم وتزکیہم بھا وصل علیم “ فرمایا کہ ان کے لئے استغفار کیجئے (آگے فرمایا) (آیت) ” ان صلوتک سکن لہم “ یعنی آُ کی دعا ان کے لئے رحمت ہوگی آپ نے ان سے صدقہ لے لیا اور ان کے لئے استغفار فرمایا اور ان میں سے تین آدمی ایسے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے نہیں باندھا ان کا معاملہ ایک سال موخر کردیا گیا وہ نہیں جانتے تھے کیا ان کو عذاب دیا جائے گا یا ان کو توبہ قبول کی جائے گی تو اللہ عزوجل نے (یہ آیت ) ” لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ “ اتاری آیت کے آخر تک پھر فرمایا (آیت) وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے لے کر (آیت) ” ثم تاب علیہم لیتوبوا ، ان اللہ ھو التواب الرحیم (١١٨) تک یعنی ” ان استقاموا “ اگر وہ صراط مستقیم پر قائم رہے ۔ ٢ :۔ ابوالشیخ (رح) نے ضحاک (رح) سے بغیر اسی طرح روایت بیان کی ۔ ٣ :۔ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے دلائل میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اعترفوا بذنوبہم “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ابولبابہ تھے جب انہوں نے قریظہ کو کچھ کہا تو ساتھ ہی اپنے گلے کی طرف اشارہ کردیا کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تم ذبح کریں گے اگر تم ان کے حکم پر اتر آئے ۔ ابولبابہ (رض) کا اپنے آپ کو ستون سے باندھنا : ٤ :۔ البیہقی (رح) نے دلائل میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ بنوقریظہ (یہودی) ابو لبابہ کے حلیف تھے انہوں نے اوپر سے جھانک کر ان کی طرف دیکھا اور آپ ان کو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے حکم کی طرف دعوت دینے لگے انہوں نے کہا اے ابولبابہ کیا تو ہم کو حکم دیتا ہے کہ ہم نیچے اتر آئیں تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ذبح کردیئے جاؤ گے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایا کیا تو خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ہاتھ سے غافل ہیں جب تو نے ان کی طرف اس کے ذریعہ اپنے گلے کی طرف اشارہ کیا پس وہ کچھ وقت تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے گئے اور یہ تنگی والا جہاد تھا وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے (غزوہ تبوک سے ) ابولبابہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) (غزوہ سے ) واپس تشریف لائے ابو لبابہ نے آکر سلام کیا آپ نے ان سے منہ پھیرلیا تو ابولبابہ گھبرائے گئے اور تو بہ کے ستون سے اپنے آپ کو باندھ دیا جو ام سلمہ کے دروازہ کے پاس ہے سات دن اور رات شدید گرمی میں اسی حال میں رہے ان دنوں میں کچھ کھایا اور نہ ایک قطرہ تک پیا اور کہا میں اس جگہ پر پڑا رہوں گا یہاں تک کہ اس دنیا سے جدا ہوجاؤں گا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لیں وہ برابر اسی طرح رہے یہاں تک کہ کمزوری کے سبب کسی کی آواز بھی نہیں سن سکتے تھے اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) انکی طرف صبح اور شام دیکھتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی آواز دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تیری توبہ قبول کرلی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ان کی طرف ایک آدمی بھیجا تاکہ ان کو ان کی رسی سے آزاد کردے انہوں نے انکار کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے بغیر مجھے کوئی نہ کھولے ۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تشریف لائے اور اپنے ہاتھ مبارک سے ان کو کھولا جب تندرست ہوئے تو ابولبابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) میں اپنی قوم کا وہ گھر کو دوں گا جس میں مجھ سے یہ غلطی ہوئی اور میں آپ کی طرف منتقل ہونا چاہتا ہوں آپ مجھ کو ٹھکانہ دیجئے اور میں اپنے مال میں سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف صدقہ نکالنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا تجھ سے مال کا تیسرا حصہ کافی ہے ابو لبابہ نے پانی قوم کے گھر سے ہجرت کرلی اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے پاس سکونت اختیار کرلی اور انہوں نے اپنے تہائی مال کا صدقہ کیا پھر توبہ کی پھر اس کے بعد اسلام میں ان سے سوائے نیکی اور خیر کے عمل کے اور کچھ نہیں دیکھا گیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ ٥ :۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ابو لبابہ اور ان کے ساتھ دو آدمی پیچھے رہ گئے نبی کریم ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے ( جہاد میں نہ جاسکے ) پھر ابو لبابہ اور ان کے ساتھ دو آدمیوں نے سوچا اور نادم ہوئے اور انہوں نے اپنی ہلاکت کا یقین کرلیا ۔ اور کہنے لگے کہ ہمسائے اور عورتوں کے ساتھ اطمینان اور راحت سے رہ رہے تھے اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور ایمان والے لوگ آپ کے ساتھ جہاد میں مصروف ہیں ۔ اللہ کی قسم ہم اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ ضرور باندھ دیں گے ۔ اور پھر نہیں کھولیں گے یہاں تک کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ہم کو کھولیں گے اور ہمارا عذر قبول فرمائیں گے ابو لبابہ چلے اور انہوں نے اپنے آپ کو باندھ دیا اور ان کے ساتھ دو آدمیوں نے بھی مسجد کے ستونوں سے (اپنے آپ کو ) باندھ دیا اور تین آدمی باقی رہ گئے کہ انہوں نے اپنے آپ کو نہ باندھا۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) جہاد سے واپس تشریف لائے اور آپ سیدھے مسجد میں پہنچے تو ان پر گزرتے ہوئے فرمایا یہ لوگ کون ہیں اپنے آپ کو ستونوں سے باندھنے والے ایک آدمی نے کہا یہ ابولبابہ اور ان کے دوساتھی ہیں جو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پیچھے رہ گئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کیا کہ ہم اپنے آپ کو نہ کھولیں گے یہاں تک کہ آپ ان کو نہ کھولیں گے اور ان سے راضی نہ ہوں گے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کیا کہ ہم اپنے آپ کو نہ کھولیں گے یہاں تک کہ آپ ان کو نہ کھولیں گے اور ان سے راضی نہ ہوں گے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا ہے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان کو نہ کھولوں گا یہاں تک کہ میں ان کو نہ کھولوں گا یہاں تک کہ میں ان کو کھولنے کا حکم نہ دیا جاؤں اور ان کا عذر قبول نہ کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کا عذر قبول نہ فرمائیں گے کیونکہ یہ لوگ پیچھے رہ گئے مسلمانوں سے اور ان کے ساتھ جہاد کرنے سے اعراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم “ اور قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ضرور ہوگا جب آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ان کو کھولا اور ان کے عذر کو قبول فرمایا ۔ ابو لبابہ اور ان کے ساتھی اپنے مال لے کر آئے اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے پاس آکر کہا ہمارے مالوں کو لے لیجئے اور ہماری طرف سے اس کو صدقہ کردیجئے اور ہمارے لئے رحمت کی دعا کیجئے وہ عرض کرنے لگے کہ ہمارے لئے استغفار کیجئے اور ہم کو پاک کیجئے ۔ آپ نے فرمایا میں اس میں سے کچھ بھی نہیں لوں گا ۔ یہاں تک اس کا حکم نہ کیا جاؤں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ “ راوی نے کہا کہ تین آدمی باقی رہ گئے جنہوں نے ابولبابہ کی مخالفت کی انہوں نے توبہ نہیں کی تھی ۔ اور نہ ہی کسی چیز کا انہوں نے ذکر کیا اور ان کے عذر کے بارے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔ ان پر زمین تنگ ہوگئی کشادہ ہونے کے باوجود ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واخرون مرجون لامر اللہ “ تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ ہلاک ہوگئے جب ان کے لئے عذر نازل نہیں ہوا اور دوسرے لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ ہلاک ہوگئے جب ان کے لئے عذر نازل نہیں ہوا اور دوسرے لوگوں نے کہنا شروع کیا تو قریب ہے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائیں گے ۔ اور وہ انتظار کرنے لگے اللہ کے حکم کا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” لقد تاب اللہ علی النبی “ سے لے کر (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ تک یعنی وہ انتظار کررہے تھے اللہ کے حکم کا پس ان پر توبہ کا حکم نازل ہوا اور اس کے ساتھ انہوں نے عمل کیا ۔ ٦ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آٹھ آدمی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ستونوں کے ساتھ باندھ دیا تھا ان میں سے کردم ، مرداس اور ابولبابہ تھے ۔ ٧ :۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے قتادہ (رح) نے (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا۔ کے بارے میں فرمایا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ سات آدمی تھے جو غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے چار ایسے تھے جنہوں نے کچھ اچھے عمل اور کچھ برے عمل آپس میں ملا دیئے (ان کے نام یہ تھے ) جد بن قیس ، ابولبابہ ، حرام اور اوس یہ سب انصار میں سے تھے ان کی توبہ قبول کی گئی اور یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا (آیت ) ” خذ من اموالہم صدقۃ “ ٨ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” خلطوا عملا واخر سیئا “ کے بارے میں فرمایا (عمل صالح والے لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ساتھ جہاد کیا (آیت) ” واخر سیئا “ جو ان سے پیچھے رہ گئے۔ ٩ :۔ ابن ابی شیبہ وابن دنیا نے توبہ میں وابن جریر وابن منذر وابو الشیخ والبیہقی نے شعب الایمان میں ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے جو میرے نزدیک اس امت کے لئے اس آیت سے بڑھ کر امید افزاء ہو (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ ۔ اعمال سیئہ سے توبہ کرنا : ١٠ :۔ ابوالشیخ والبیہقی (رح) نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ میں رات کو اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور قرآن پر غور کررہا تھا تو میں نے اپنے اعمال کو اہل جنت کے اعمال کو اہل جنت کے اعمال پر پیش کیا اچانک ان کے اعمال شدید اور سخت تھے مثلا (آیت) ” کانوا قیلا من الیل ما یہجعون (١٧) “ (الذریات) اور (آیت) اور ” یبیتون لربہم سجدا و قیام ‘ (٦٤) “ (فرقان آیت ٦٤) اور (آیت) ” امن ھو قانت اناء الیل ساجدا وقائما “ تو میں اپنے آپ کو ان میں سے گمان نہ کرتا پھر میں نے اپنے آپ کو اسآیات پر پیش کیا (آیت) ” ما سلکم فی سقر (٤٢) اور (آیت) ” قالوا لم نک من المصلین (٤٢) “ المدثر) لے کر ”(آیت ) ” نکذب بیوم الدین (٤٦) تک پس میں جھٹلانے والی قوم میں غور وفکر کرتا اور اپنے آپ کو ان میں گمان نہ کرتا پھر اس آیت کا حکم دیا گیا یعنی (آیت) ” واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا “ پس میں امید کرسکتا ہوں کہ میں ان میں سے ہوں گا اور اے میرے بھائیو ! تم بھی ان میں سے ہوگے۔ ١١ :۔ ابو الشیخ وابو المنذر و ابونعیم نے المعرفۃ میں وابن عساکر نے ایک قومی سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کیا کہ غزوہ تبوک میں چھ آدمی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پیچھے رہ گئے تھے (وہ یہ تھے ) ابو لبابہ اوس بن جزام ، ثعلبہ بن ودیعہ ، کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ھلال بن امیہ (ان میں سے ) ابو لبابہ اوس بن جزام اور ثعلبہ آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو ستونوں سے باندھ دیا اور اپنا مال لے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ اس مال کو لے لیجئے جو ہم آپ سے پیچھے رک گئے اور ان کو چالیس دن مؤخر کردیا گیا وہ باہر نکلے اور انہوں نے اپنے خیمے لگائے اور ان میں سے آپ نے ان کو اپنی عورتوں سے بھی جدا کردیا کوئی مسلمان ان کا دوست نہیں تھا ۔ اور اس میں سے کوئی قریب بھی نہیں ہوا پھر اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ سے لے کر ” التواب الرحیم “ تک ام سلمہ نے کعب کی طرف ایک آدمی بھیجا اور ان کو خوشخبری دی ۔ ١٢ :۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ احنف بن قیس نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو قرآن پر پیش کیا ۔ میں نے کسی آیت کو نہیں پایا جو میرے نزدیک اس آتی سے زیادہ مشابہت رکھتی ہو ، یعنی (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا :۔ ١٣ :۔ ابو الشیخ (رح) نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن بصری سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” (آیت) ” خذ من اموالہم صدقۃ واخرون اعترفوا بذنوبہم خلطوا عملا واخر سیئا :۔ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اے مالک انہوں نے توبہ کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے ۔ اور امید ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے (یعنی ثابت ہے ) صحابہ کرام (رض) سے خواب کے متعلق دریافت کرنا : ١٤ :۔ بخاری ومسلم وترمذی والنسائی وابن مردویہ رحمہم اللہ نے سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اکثر اپنے صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کیا تم سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟ ایک صبح کو آپ نے ہم سے فرمایا اس رات دو آنے والے میرے پاس آئے مجھ سے کہا چلئے میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔ وہ مجھے مقدس زمین کی طرف لے گئے ہم ایک آدمی پر تھے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا ایک پتھر لے کر اس پر کھڑا ہوا تھا اچانک وہ پتھر کو اس کے سر پر مارتا ہے تو اس کا سرکچلا جاتا ہے اور پتھر لڑھک کر دور جاگرتا ہے۔ وہ پتھر کے پیچھے جاکر اس کو اٹھاتا ہے اور اس کی طرف واپس آتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا سر ٹھیک ہوجاتا ہے جیسے تھا پھر وہ دوبارہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو اس سے پہلی مرتبہ کیا تھا میں نے ان دونوں سے کہا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا چلئے تو ہم چلے اور ایک اپنی گدی بل چت لیٹے ہوئے ایک آدمی کے پاس آئے اور دوسرا آدمی لوہے کی سلاخ لے کر اس پر کھڑا تھا اچانک وہ اس کی ایک جانب سے آکر اس کی باچھیں گدی تک چیر دیتا ہے ۔ اور اس کے نتھنوں کو اس کی گدی تک اور اس کی آنکھوں کو اس کی گدی تک چیر دیتا ہے پھر وہ دوسری جانب پھر آتا ہے اور اس جانب سے بھی اسی طرح کرتا ہے جیسے اس نے پہلی جانب کیا تھا اس جانب سے جب فارغ ہوتا ہے تو پہلی جانب ٹھیک ہوجاتی تھی جیسے تھی پھر وہ اس کی طرف لوٹتا ہے اور اس طرح کرتا ہے جیسے اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا میں نے کہا سبحان اللہ یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے تو ہم چلے اور ہم تنور کی طرح ایک چیز پر آئے اچانک اس میں شور اور آوازیں تھیں ہم نے اس میں جھانکا اچانک اس میں مرد اور عورتیں ننگی تھیں آگ کا شعلہ ان کو نیچے سے بلند ہوتا تھا یہ شعلہ جب ان پر پڑتا تو وہ چیخ و پکار کرتے میں نے کہا یہ کون ہیں ؟ دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور خون کی طرح ایک سرخ نہر پر آئے اور تیرنے والے آدمی اس میں تیر رہا تھا اور نہر کے کنارہ پر ایک دوسرا آدمی تھا جس کے پاس بہت سے پتھر تھے جب وہ تیرنے والا تیر کر اس کے پاس آتا تھا جس کے پاس پتھر جمع تھے تو وہ اپنا منہ کھولتا تو یہ اس کے منہ میں پتھر ڈال دیتا پھر وہ آدمی چلا جاتا اور تیرنے لگتا پھر اس کی طرف لوٹتا جب کبھی لوٹتا تو اپنا منہ کھول دیتا اور وہ اس میں پتھر ڈال دیتا ۔ میں نے ان دونوں سے کہا یہ دونوں کون ہیں ؟ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک بہت ہی بدصورت آدمی کے پاس آئے جس سے بڑھ کر آپ نے انتہائی بدصورت آدمی کو نہیں دیکھا ہوگا اچانک اس کے پاس ایک آگ تھی جس کو وہ سلگاتا کہ اس کے اردگرد دوڑتا تھا ۔ میں نے اس سے کہا یہ کون ہے دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک گھنے سیاہ باغ پر آئے اس میں ہر جانب بہار کا نور تھا اور اچانک باغ کے راستوں کے درمیان ایک لمبے قد کا آدمی تھا قریب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے سر کی لمبائی آسمان کی طرف بڑھی ہوئی تھی جبکہ اس آدمی کے اردگرد اکثر (چھوٹے ) بچے تھے کہ میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے دونوں نے مجھ سے کہا آگے چلئے ہم چلے اور ایک بڑے باغ کی طرف پہنچے ۔ اس سے بڑا باغ میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ اس سے اچھا دونوں نے مجھ سے کہا اس میں چڑھتے چلو ہم اس میں چڑھے ہم ایک ایسے شہر کی طرف پہنچے جو سونے اور چاندی کی اونٹینوں سے بنایا گیا تھا ہم اس شہر کے دروازہ پر آئے ہم نے کھولنے کو کہا تو ہمارے لئے کھول دیا گیا ہم اس میں داخل ہوئے اور وہاں بہت سے لوگوں سے ہم نے ملاقات کی ان میں کچھ اپنی تخلیق میں اتنے حسین تھے کہ ان سے بڑھ کر حسین تم نے نہیں دیکھے ۔ اور کچھ اتنے بدصورت تھے کہ ان سے بڑھ کر بدصورت تم نے نہیں دیکھے ۔ دونوں نے ان سے فرمایا تم جاؤ اور اس میں نہر میں اپنارنگ صاف کرلو اچانک یہ نہر چوڑائی میں تھی جو جاری تھی اور اس کا پانی دودھ کی طرح سفید تھا وہ لوگ گئے اور اس میں واقع ہوگئے پھر ہماری طرف لوٹ آئے ۔ ان سے ساری بدصورتی چلی گئی اور وہ انتہائی حسین ہوگئے دونوں نے مجھ سے کہا یہ آپ کو محل ہے اور آپ کی منزل ہے میں نے ان سے کہا تم دونوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے مجھ کو چھوڑ دو میں اس میں داخل ہوجاؤں دونوں نے کہا ابھی نہیں لیکن تم ضرور اس میں داخل ہوگے۔ جہنم کی خواب میں دیکھنا : میں نے ان دونوں سے کہا آج کی رات میں نے عجیب و غریب مناظر دیکھے رہیں ۔ وہ کیا ہے جو میں نے دیکھا دونوں نے مجھ سے کہا پہلا آدمی کہ جس پر ایک آدمی آکر اس کا سر کچل دیتا ہے پتھر کے ساتھ وہ آدمی ہے جو قرآن شروع کرتا پھر اسے چھوڑ دیتا تھا اور فرض نماز سے سو جاتا تھا (یعنی نماز نہیں پڑھتا تھا ) اس کے ساتھ قیامت کے دن تک ایسا کیا جاتا رہے گا اور آدمی جو اس کے جبڑے کو گدی تک چیر دیتا تھا اس کے نتھنوں کو اس کی گدی تک اور اس کی آنکھوں کو اس کی گدی تک کیونکہ یہ آدمی صبح سویرے نکل کر جھوٹ بولتا تھا اور اس کا جھوٹ آفاق میں پہنچ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح قیامت کے دن تک کیا جاتا رہے گا اور ننگے مرد اور عورتیں جو سب تنور میں تھے وہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورتیں ہیں اور وہ آدمی جو ایسے آدمی کے پاس آتا ہے جو نہر میں تیرتا ہے اور وہ اس کو پتھر مارتا ہے وہ سود کھانے والا ہے اور روہ بدصورت آدمی جس کے پاس آگ تھی ۔ اس کو سلگاتا تھا وہ داروغہ جہنم مالک تھا اور وہ لمبا آدمی جو باغ میں تھا ۔ وہ حضرت ابراہم (علیہ السلام) تھے اور وہ لڑکے جو اس کے اردگرد تھے ایسے نومولود بچے تھے جو فطرت پر بھی وفات پاگئے اور وہ قوم جو آدھی ان میں سے خوبصورت تھی اور آدھی ان میں سے بدصورت تھی وہ ایسی قوم ہے جنہوں نے نیک اور برے اعمال ایسے ہی ملا دیئے اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرمایا اور میں جبرئیل اور یہ میکائل ہیں ۔ ١٥ :۔ الخطیب (رح) نے اپنی تاریخ میں ابو موسیرضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا میں نے کچھ آدمیوں کو دیکھا کہ ان کی کھالیں آگ کی کینچوں سے کاٹی جارہی تھیں ۔ میں نے کہا یہ کون ہیں ۔ بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو ایسی چیزوں کے ساتھ زیب وزینت کرتے تھے جو ان کے لئے حلال نہیں تھی ۔ اور میں نے ایسا بدبودار خیمہ دیکھا جس میں چیخ و پکار تھی ۔ میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ بتایا گیا کہ وہ عورتیں ہیں جو ان کے لئے بناؤ سنگھار کرتی تھیں جو ان کے لئے حلال نہیں تھے ۔ اور میں نے ایک قوم کو دیکھا جو غسل کررہے تھے جنابت کے پانی سے میں نے کہا یہ کون ہیں بتایا یہ وہ قوم ہے جنہوں نے نیک اور برے کو آپس میں ملا دیا ۔ ١٦ :۔ ابن سعد (رح) نے اسود بن قیس عدی (رح) نے روایت کیا کہ حسن بن علی (رض) ایک دن حبیب بن مسلمہ سے ملے اور فرمایا اے حبیب ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت فرمانبرداری کے امور کے سوا کے لئے تجھے رب میسر آگیا ہے ۔ اس نے کہا لیکن میری پہنچ آپ کے باب تک ہے اور وہ ایسے نہیں ہیں فرمایا کیوں نہیں لیکن تو نے معاویہ کی اطاعت کی قلیل زائل ہونے والی دنیا کی شرط پر اگر وہ تیرے دنیوی (رح) معاملات میں تیرے ساتھ کھڑے ہیں وہ یقینی طور پر تو وہ تیرے ساتھ بیٹھے گا ۔ تیرے دین میں اور اگر وہ جو تو نے کیا ہے وہ تیرا کام ہے خیر اور بھلائی کی بات ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) ” خلطو اعملا صالحا واخر سیئا “ لیکن تو اس طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”(آیت ) ” کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون (١٤) “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومنین مخلصین کی توبہ کا تذکرہ جو غزوۂ تبوک میں نہیں گئے تھے جو منافقین غزوۂ تبوک میں شرکت کے لیے جانے سے رہ گئے تھے پھر آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس تشریف لانے پر جھوٹے عذر پیش کرتے رہے (جن میں اہل مدینہ اور مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں کے رہنے والے دیہاتی بھی تھے) ان کا تذکرہ فرمانے کے بعد ان چند مومنین مخلصین کا تذکرہ فرمایا جو اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہوئے سستی اور کاہلی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت تو رہ گئے اور ساتھ نہ گئے لیکن بعد میں پچھتائے اور نادم ہوئے کہ ہم عورتوں کے ساتھ سایوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دھوپ کی گرمی اور سفر کی مشقت اور تکلیف میں ہیں ہمارے لیے پیچھے رہ جانا کسی طرح درست نہ تھا۔ جب ان حضرات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واپس تشریف لانے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی جانوں کو ستونوں سے باندھ دیا اور کہنے لگے کہ ہم اپنی جانوں کو نہیں کھو لیں گے جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی اپنے دست مبارک سے ہمیں نہ کھو لیں، آپ کا جب ان کی طرف گزر ہوا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں جانے سے رہ گئے تھے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ جب تک آپ ان کو نہ کھولیں گے اور ان سے راضی نہ ہوں گے اس وقت تک وہ بندھے ہی رہیں گے، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں بھی انہیں نہیں کھولوں گا جب تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے کھولنے کا حکم نہ ہوگا۔ ان لوگوں نے میرا ساتھ چھوڑا اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں نہ نکلے۔ لہٰذا اب مجھے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار ہے جیسا حکم ہوگا اس پر عمل کرونگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا) (الآیۃ) نازل فرمائی اور آپ نے ان کو کھول دیا۔ چونکہ یہ حضرات مخلص مومن تھے اور اپنے گناہ کا اقرار بھی کرلیا جو توبہ کا جزو اعظم ہے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والے عمل سے انہوں نے توبہ بھی کرلی اور پہلے سے بھی نیک عمل کرتے تھے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بھی ادائے فرائض اور دیگر نیک کاموں میں لگے رہے اس لیے ان کے بارے میں یہ فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا اور نیک عمل کو برے عمل کے ساتھ ملا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمانے کی خوشخبری دی (عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ ) کہ عنقریب اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا (چنانچہ ان کی توبہ قبول ہوگئی) (اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (بلاشبہ اللہ مغفرت فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

99:“ وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا الخ ” یہ ان پانچ صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی، جو مخلص مومن تھے مگر غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ بعد میں سخت نادم ہوئے اور اپنے کو ستونوں سے باندھ لیا اور گڑ گڑا کر توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔ “ خُذْ مِنْ اَمواَلِھِمْ الخ ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے صدقات قبول کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ اب ان کی توبہ قبول ہوجانے کے بعد آپ کو حکم ملا کہ آپ ان کے صدقات قبول کریں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں۔ کیونکہ آپ کی دعا ان کے لیے باعث آرام و سکون ہے۔ بعض مفسرین نے ان کی تعداد دس، آٹھ اور چھ ذکر کی ہے۔ (قرطبی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

102 اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا انہوں نے کچھ اچھے اور کچھ برے ملے جلے کام کئے ایسے لوگوں کے لئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا نہایت مہربان ہے۔ یہ ان مخلص مسلمانوں کا ذکر ہے جو محض کاہلی کی وجہ سے غزوئہ تبوک میں شریک نہ ہوسکے انہوں نے آنے کے بعد معذرت کی اور اپنے گناہوں کا اقرار کرلیا اچھے کام یہ کہ خطا کا اعتراف کیا برا کام یہ کہ غزوہ سے تخلف کیا جب ان کو توبہ کی بشارت مل گئی تو انہوں نے اپنے مال کا کچھ حصہ بطور صدقہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کرنا چاہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار کیا اس پر آگے کی آیت نازل ہوئی۔