Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 105

سورة التوبة

وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمۡ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ وَ سَتُرَدُّوۡنَ اِلٰی عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾ۚ

And say, "Do [as you will], for Allah will see your deeds, and [so, will] His Messenger and the believers. And you will be returned to the Knower of the unseen and the witnessed, and He will inform you of what you used to do."

کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے ( بھی دیکھ لیں گے ) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے والا ہے ۔ سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning the Disobedient Allah says; وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُوْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّيُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ And say "Do deeds! Allah will see your deeds, and (so will) His Messenger and the believers. And you will be brought back to the All-Knower of the unseen and the ... seen. Then He will inform you of what you used to do." Mujahid said that; this Ayah carries a warning from Allah to those who defy His orders. Their deeds will be shown to Allah, Blessed and Most Honored, and to the Messenger and the believers. This will certainly occur on the Day of Resurrection, just as Allah said, يَوْمَيِذٍ تُعْرَضُونَ لاَ تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ That Day shall you be brought to Judgement, not a secret of you will be hidden. (69:18) يَوْمَ تُبْلَى السَّرَايِرُ The Day when all the secrets will be examined. (86:9) and, وَحُصِّلَ مَا فِى الصُّدُورِ And that which is in the breasts (of men) shall be made known. (100:10) Allah might also expose some deeds to the people in this life. Al-Bukhari said that Aishah said, "If the good deeds of a Muslim person please you, then say, اعْمَلُواْ فَسَيَرَى اللّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُوْمِنُونَ Do deeds! Allah will see your deeds, and (so will) His Messenger and the believers." There is a Hadith that carries a similar meaning. Imam Ahmad recorded that Anas said that the Messenger of Allah said, لاَا عَلَيْكُمْ أَنْ تُعْجَبُوا بِأَحَدٍ حَتَّى تَنْظُرُوا بِمَ يُخْتَمُ لَهُ فَإِنَّ الْعَامِلَ يَعْمَلُ زَمَانًا مِنْ عُمْرِهِ أَوْ بَــرهَةً مِنْ دَهْرِهِ بِعَمَلٍ صَالِحٍ لَوْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ثُمَّ يَتَحَوَّلُ فَيَعْمَلُ عَمَلًا سَيِّيًا وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ الْبُرْهَةَ مِنْ دَهْرِهِ بِعَمَلٍ سَيِّءٍ لَوْ مَاتَ عَلَيْهِ دَخَلَ النَّارَ ثُمَّ يَتَحَوَّلُ فَيَعْمَلُ عَمَلًإ صَالِحًا وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ خَيْرًا اسْتَعْمَلَهُ قَبْلَ مَوْتِه Do not be pleased with someone's deeds until you see what his deeds in the end will be like. Verily, one might work for some time of his life with good deeds, so that if he dies while doing it, he will enter Paradise. However, he changes and commits evil deeds. one might commit evil deeds for some time in his life, so that if he dies while doing them he will enter the Fire. However, he changes and performs good deeds. If Allah wants the good of a servant He employs him before he dies. He was asked, "How would Allah employ him, O Allah's Messenger!" He said, يُوَفِّقُهُ لِعَمِلٍ صَالِحٍ ثُمَّ يَقْبِضُهُ عَلَيْه He directs him to perform good deeds and takes his life in that condition. Only Imam Ahmad collected this Hadith.   Show more

اپنے اعمال سے ہوشیار رہو ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں ۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں ۔ چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا ۔ تمام اسرا... ر کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے ۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں پر بھی ان کے اعمال دنیا میں ہی ظاہر کر دیتا ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی کسی ٹھوس پتھر میں گھس کر جس کا نہ دروازہ ہو ، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو ، کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گاخواہ کیسا ہی عمل ہو ۔ ابو داؤد طیالسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زندوں کے اعمال ان کے قبیلوں اور برادریوں پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوتے ہیں تو وہ لوگ اپنی قبروں میں خوش ہوتے ہیں اور اگر وہ برے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں توفیق دے کہ یہ تیرے فرمان پر عامل بن جائیں ۔ مسند احمد میں بھی یہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تمہارے اعمال تمہارے خویش و اقارب مردوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ نیک ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اسکے سوا ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں موت نہ آئے جب تک کہ تو انہیں ہدایت عطا نہ فرما جیسے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی ( لیکن ان روایتوں کی سندیں قابل غور ہیں ) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرتا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا ۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے ۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے ۔ لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 رؤیت کا مطلب دیکھنا اور جاننا ہے۔ یعنی تمہارے عملوں کو اللہ تعالیٰ ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان کا علم اللہ کے رسول اور مومنوں کو بھی (بذریعہ وحی) ہوجاتا ہے (یہ منافقینی کے ضمن میں کہا جا رہا ہے) اس مفہوم کی آیت پہلے بھی گزر چکی ہے۔ یہاں مومنین کا بھی اضافہ ہے جن کو اللہ کے رسول کے بتلانے سے علم ہ... وجاتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٨] ایک مسلمان اور منافق کا عذر جانچنے کے اصول :۔ ان آیات سے دراصل ایک منافق اور ایک غلطی سے گناہ کرنے والے مسلمان کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ ١۔ منافق گناہ کر کے جھوٹے بہانے بناتے اور قسمیں اٹھاتے ہیں جبکہ مومن اپنے گناہ کا صاف صاف اقرار کرلیتے ہیں۔ ٢۔ گناہ گار مومن کی سابقہ زندگی اس بات پ... ر شاہد ہوتی ہے کہ یہ گناہ اس سے نفس کی کمزوری سے واقع ہوگیا ہے جبکہ منافق کا سابقہ ریکارڈ بھی گندہ ہوتا ہے۔ ٣۔ توبہ صرف اس کی قبول ہوتی ہے جس کا سابقہ ریکارڈ درست ہو اور یہ موجودہ گناہ بہ تقاضائے بشریت واقع ہوگیا ہو۔ عادی مجرموں یعنی منافقوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ صدقات صرف ان کے قبول کرتا ہے جو برضاء ورغبت صدقات دیتے ہیں اور اسے قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نمائش یا مجبور ہو کر یا کراہت سے دیئے ہوئے صدقے اللہ قبول ہی نہیں کرتا۔ ٥۔ منافقوں کے صدقات اس لحاظ سے بھی ناقابل قبول ہیں کہ صدقہ مصائب کو ٹالتا اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اللہ کے ہاں چونکہ منافق کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں لہذا صدقہ کی بھی ضرورت نہیں۔ ٦۔ توبہ کی مقبولیت کا اس بات سے بھی واضح طور پر پتہ چل سکتا ہے کہ توبہ کے بعد توبہ کرنے یا معذرت کرنے والا کیسے اعمال بجا لاتا ہے۔ اگر ان میں ایمان و اخلاص آگیا تو سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا سے بچ نکلا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمْ : یعنی اب اگر قصور ہوگیا تو آئندہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء کے دور میں جو جہاد ہونے والے ہیں ان میں خوب کام کرلو۔ (موضح) اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کے تمام احوال سے پوری طرح باخبر ہے مگر تم عمل کرو، تمہارے عمل کو ... وجود میں آتا ہوا اللہ تعالیٰ بھی دیکھ لے گا، اس کا رسول بھی اور ان کے زمانے کے مومن اور بعد میں آنے والے خلفاء اور اہل ایمان بھی، کیونکہ آدمی اچھا یا برا جو کام بھی کرتا ہے اس کی اسی طرح کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی ہے، خصوصاً مومن اس سے بیخبر نہیں رہتے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَنْتُمْ شُھَدَاء اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ ) [ النسائی، الجنائز، باب الثناء : ١٩٣٤، ١٩٣٥] ” تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔ “ یہ الفاظ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنازے کے گزرنے پر لوگوں کی اچھی تعریف اور دوسرے کے گزرنے پر لوگوں کے اس کی بری تعریف کرنے پر ارشاد فرمائے اور پہلے کے لیے جنت کی بشارت دی اور دوسرے کے لیے آگ کی۔ ایک روایت میں ہے : ( اَلْمُؤْمِنُوْنَ شُھَدَاء اللّٰہِ فِی الْاَرْضِ )” مومن زمین میں اللہ کے گواہ ہیں۔ “ [ بخاری، الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت : ١٣٦٧ ] وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ : یعنی اگر بالفرض لوگوں کو تمہاری حقیقت کی خبر نہ ہوسکی تو آخر کار تمہیں واپس عالم الغیب والشہادہ کے پاس جانا ہے، وہاں کچھ مخفی نہیں رہے گا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَرَى اللہُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ۝ ٠ ۭ وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۝ ١٠٥ ۚ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فع... ل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے شَّهَادَةُ : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف/ 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجیے کہ توبہ کے بعد جو چاہو نیک کام کرو، اول تو دنیا ہی میں اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھے لیتے ہیں اور پھر مرنے کے بعد تمہیں ضرور اس کے پاس جانا ہے جو تمام اچھی اور کھلی چیزوں کو جاننے والا ہے، وہ تمہیں تمہاری سب نیکی... وں اور برائیوں سے آگاہ کردے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط) اب پھر سے محنت کرو ‘ سرفروشی اور جاں فشانی کا مظاہرہ کرو ‘ آئندہ تمہارے اعمال کا جائزہ لیا جائے گا کہ مطالبات دین کے بارے میں تمہارا کیا رویہ ہے اور یہ کہ پھر سے کوئی کوتاہی ‘ لغزش وغیرہ تو نہیں ہونے پا رہی۔ ... (وَسَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) قیامت کے دن تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے ‘ جو تمہارے سارے کیے دھرے سے تم کو آگاہ کر دے گا۔ وہاں تمہارے سارے اعمال تمہارے سامنے پیش کردیے جائیں گے۔ اس بارے میں سورة الزلزال میں یوں فرمایا گیا : (فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ ۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ) تو جس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے (بچشم خود) دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بچشم خود) دیکھ لے گا۔ اس کے بعد وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :99 یہاں جھوٹے مدعی امان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے ۔ جو شخص ایمان کا دعوی کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور مومنین کی جماعت کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرز عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ ک... یا جائے گا ۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا ۔ مر جائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہو اور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرز عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا ، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی ۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرز عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہگار مومن سمجھا جائے گا ، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے: ( ۱ ) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا ، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا ۔ ( ۲ ) اس کے سابق طرز عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے ۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامہ زندگی میں مخلصانہ خدمات ، ایثار و قربانی ، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کر لیا جائے گا کہ اس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے ۔ ( ۳ ) اس کے آئندہ طرز عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعتراف قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساس ندامت موجود ہے ۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے ، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہوگی ۔ محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لبابہ بن عبد المنذر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں ۔ ابو لبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے ۔ پھر جنگ بدر ، جنگ احد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے ۔ مگر غزوہ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے ۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی ۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں ، یا پھر ہم مرجائیں ۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آب و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ آخر کار جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں ، صرف ایک تہائی کافی ہے ، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا ۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کے ہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے ۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامہ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا ۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا ۔ انہوں نے اعتراف قصور کے ساتھ اپنے طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بے چین ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے ۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلب کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے ، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے ۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا ، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے ۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا ، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے ۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے ۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :100 مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی ۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

80: اس آیت نے یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ توبہ کے بعد بھی کسی شخص کو بے فکر ہو کر نہیں بیٹھنا چاہئے ؛ بلکہ اپنی آئندہ زندگی میں اپنا طرز عمل درست کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥۔ جہاد میں جن لوگوں سے سستی ہوئی تھی اور وہ اپنے عیش و آرام میں پڑے رہے انہوں نے اپنے قصور کا اقرار کیا تھا ان کی نسبت یہ حکم ہوا کہ اے رسول اللہ تم ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ ابھی تو بہتیرے جہاد ہوں گے اس وقت خدا اور خدا کا رسول اور مومنین سب تمہارے کام اور مستعدی دیکھ لیں گے۔ مجاہد (رح) کا قول...  ہے کہ اس آیت میں برے کاموں سے خوف اور اچھے عمل کا شوق دلایا گیا ہے کیونکہ جس کو یہ معلوم ہوگا کہ میرے عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہیں تو گناہوں سے بچے گا اور نیکی کی کوشش کرے گا۔ جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے تو آنکھوں سے لوگوں کے عمل دیکھتے اور کانوں سے سنتے تھے اب آپ کی امت کے عمل آپ کے اور مومنوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ چناچہ معتبر سند سے ابن ماجہ میں ابوداود کی روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے لوگو جمعہ کے دن درود زیادہ پڑھا کرو کہ تمہارے درود میرے روبرو پیش ہوتے ١ ؎ ہیں اسی طرح ابوداؤد طیالسی میں جابر (رض) بن عبداللہ سے روایت ہے کہ زندوں کے عمل ان کے اور رشتہ دار مردوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں اگر اچھے عمل ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اگر برے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں یا اللہ ان کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ یہ تیری اطاعت کو سمجھیں ٢ ؎ مسندامام احمد میں اس مضمون کی ایک روایت انس بن مالک (رض) کی بھی ٣ ؎ ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی کا نام مبہم طور پر ہے اور ابو طیالسی کی سند میں ایک راوی صلت بن دینار متروک ہے اس سبب سے یہ روایتیں ضعف سے خالی نہیں ہیں اس لئے رشتہ دار وفات یافتہ کے سامنے زندہ رشتہ داروں کے عملوں کی پیش ہونے کا مسئلہ توجہ طلب ہے لیکن اس بات میں کچھ آثار صحابہ کے ہیں صحیح مسلم کی ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کے دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے عمل دن سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں ملائکہ پہنچا دیتے ہیں ٤ ؎ یہ حدیث فسیری اللہ عملکم کی گویا تفسیر ہے بخاری میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ جب تم کسی کو اچھے عمل کرتے دیکھو تو کہو اعملوا فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون ٥ ؎۔ عالم الغیب والشہادۃ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب دان ہے نہ اس کو یادداشت کے لئے فرشتوں سے لوگوں کے اعمال نامے لکھوانے کی ضرورت ہے نہ صبح شام ان اعمال ناموں کے ملاحظہ فرماتے اور ملاحظہ کے بعد ان کو حفاظت سے سر بمہر رکھوانے کی ضرورت ہے بات فقط اتنی ہی ہے کہ بنظر انصاف اللہ تعالیٰ نے سزا وجزا کا مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا ہے بلکہ سزا وجزا کا دارو مدار ظاہر حالت پر رکھا ہے اس واسطے یہ سب انتظام ظہور میں آیا ہے فینبئکم بما کنتم تعلمون اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سزاو جزا کا مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا تو ظاہر حالت کے موافق قیامت کے دن یہی انتظام ہوگا کہ ہر شخص کا نامہ اعمال اس کو دیا جائے گا عمر بھر جو کچھ دنیا میں اس نے کیا ہے وہ سب اس کو جتا دیا جاویگا اس جتلانے کے وقت بعضے لوگ ایسے ہونگے کہ اعمال نامہ میں اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے سچ بولنے پر ان سے خوش ہو کر ان کے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ صحیح بخاری ومسلم کی عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث ٦ ؎ ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں اس معافی کا ذکر ہے بعضے لوگ ایسے ہوں گے جو اعمال نامہ میں کھلے ہوئے گناہوں کا انکار کریں گے ان کا انجام یہ ہوگا کہ ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگائی جاکر ان کے ہاتھ پیروں کو گناہوں کی گواہی دینے کا حکم ہوگا وہ سب گناہوں کی گواہی دیویں گے اور اس گواہی پر ان لوگوں کے مخالف آخری فیصلہ ہوجاویگا۔ سورت یس میں اس کا ذکر تفصیل سے آویگا اور اس بات میں صحیح مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ٧ ؎ بھی ایک جگہ گذر چکی ہے۔ ١ ؎ ابن ماجہ ص ١١٩ باب ذکر وفاتہ دوفنہ ٢ و ٣ و ٥ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٨٧ ٤ ؎ صحیح مسلم ج ١ ص ٩٩ باب معنی قول اللہ عزوجل ولقدراہ نزلۃ اخری الخ ٦ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٨٥ باب الحساب الخ فصل اول ٧ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٩ کتاب الزہد۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:105) ستردون۔ تم پھیرے جاؤ گے۔ تم لوٹائے جاؤ گے۔ رد سے مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ اعملوا۔ ای اعملوا ما شئتم۔ جو جی چاہے تم کرو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 ۔ یعنی اگر اب قصور ہوگیا تو آئندہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفاء کے دور میں جو جہاد ہونے والے ہیں ان میں خوب کام کرلو۔ (از موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 107 تا 110 مسجد ضرار (نقصان پہنچانے والی مسجد) تفریق (اختلاف پیدا کرنے کو) ارصاد (شکار کے لئے، گھات لگانے کے لئے) حارب (جس نے جنگ کی) الحسنی (نیکی) یشھد (وہ گواہی دیتا ہے) اسس (بنیاد رکھ دی گئی) اول یوم (پہلے دن) ان تقوم (یہ کہ آپ کھڑے ہوں) رجال (مرد ہیں، کچھ لوگ ہیں ) یحبون (جو...  پسند کرتے ہیں) ان یتطھروا (یہ کہ وہ پاک صاف رہیں) بنیان (عمارت) شفا (کنارہ) جرف (کمزور گڑھا، کھوکھلا گڑھا) ھار (گرنے کو) انھار (وہ گر پڑا) لایزال (ہمیشہ) ریبۃ (شک کا کانٹا) تقطع (ٹکڑے ہوجائیں) تشریح : آیت نمبر 107 تا 110 منافقین کی سازشوں کا ذکر پچھلی آیات میں آچکا ہے۔ اب یہاں ایک نئی خطرناک سازش کا ذکر ہے۔ مدینہ میں نصاریٰ کے پیشواؤں میں سے ابو عامر (راہب) تھا جو مذہب کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے کا ماہر تھا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اس کی پیشوائی کا بازار ٹھنڈا پڑنے لگا۔ اس نے کئی مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین اسلام کے بارے میں بحثیں بھی کیں مگر سنجیدہ وہاں باوقار جوابات نے اس کے شیطانی جذبوں کو کم ہونے کے بجائے اور بڑہا دیا اور اس نے اسلام کے دشمنوں سے مل کر طرح طرح کی سازشیں شروع کردیں۔ جنگ احد، جنگ حنین اور جنگ احزاب وغیرہ کے بھڑکانے میں اس کی سازشوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ جب اس نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کو برابر کامیابیاں مل رہی ہیں اور ان کیق دم بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں تو وہ روم بھاگ گیا۔ وہاں اس نے قیصر روم کے سامنے مسلمانوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ بھی گھبرا گیا۔ غزوہ تبوک کا واقعہ بھی اسی لئے پیش ایٓا کہ قیصر روم نے مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فوری قدم یہ اٹھایا اور فیصلہ کیا کہ قیصر روم کے حملہ کرنے سے پہلے ان پر حملہ کردیا جائے تاکہ ان کی ہمتیں ٹوٹ جائیں۔ چناچہ آپ نے وقت کی سپر پاور کے خلاف اعلان جہاد کردیا اور اللہ نے اس میں مسلمانوں کی عزت و عظمت میں اور چار چاند لگا دیئے۔ غرضیکہ ابو عامر کی سازشوں کا جال چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ اس میں ایک بہت بڑی سازش ” مسجد ضرار “ بھی ہے۔ اس نے مدینہ کے بعض با اثر منافقین کو خط لکھا کہ تم قلب مدینہ میں ایک عمارت بنوائو جہاں تمہارے اور ہمارے آدمی تنہائیوں میں اسلام کو مٹانے کی تدبیریں کرسکیں ۔ روم سے ہمارے جاسوس راہبوں کی شکل بنا کر وہاں پہنچیں گے اور دین کی جڑیں اکھاڑنے میں ہمیں ایک مضبوط مرکز مل جائے گا۔ اس کی یہ بھی تجویز تھی کہ اس کو مسجد کا نام دے دیا جائے اور لوگوں میں مشہور کردیا جائے کہ مسجد قباہم سے دور ہے ضعیفوں اور کمزوروں کو وہاں پہنچنے میں سخت دشواری ہوتی ہے۔ چناچہ مدینہ کے وہ منافقین جو دین اسلام کی جڑوں کو کاٹ دینا چاہتے تھے انہوں نے مسجد قبا کے قریب ہی اس کی تعمیر کر ڈالی ۔ ایک مرتبہ ان منافقین نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی درخواست کی کہ وہ اس مسجد میں تشریف لا کر نماز پڑھا دیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابھی تو میں تبوک کی مہم میں لگا ہوا ہوں تبوک سے واپسی پر دیکھا جئے گا۔ جب آپ تبوک سے واپس تشریف لائے تو قران کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں اور اس مسجد کو (1) ضرار (نقصان پہنچانے والی) ۔ (2) کفر و انکار کی مسجد (3) مومنوں میں تفریق پیدا کرنے کی سازش (4) اور اس شخص کی پناہ گا ہق رار دیا جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر غزوہ تبوک سے واپسی کے فوراً بعد آپ نے اپنے چند اصحاب کو حکم دیا کہ ابھی جا کر اس عمارت کو ڈھا دو اور اس میں آگ لگا دو ۔ یہ صحابہ کرام اسی وقت گئے اور تعمیل حکم میں اس عمارت کو ڈھادیا اور اس میں اگٓ لگا دی۔ اس طرح منافقین کی سازشوں کا مرکز تباہ کردیا گیا۔ جہاں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ” مسجد ضرار “ کی سازش کو بےنقاب فرمایا اور منافین کی چالوں کو ناکام بنا دیا۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ایسی مسجد میں قدم بھی نہ رکھیں بلکہ وہ مسجد جس کی پہلے دن سے بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے جس کے رہنے والے بھی ظاہری اور باطنی صفائی ستھرائی کے پیکر ہیں انہیں اللہ پسند کرتا ہے آپ اس میں تشریف لے جائیں۔ کیونکہ وہ مسجد (قبا) جو پہلے ہی دن سے تقویٰ کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہے وہ اس مسجد کے برابر کبھی نہیں ہو سکتی جو گرنے والی کمزور زمین کے کنارے پر بنائی گئی ہے جو بالآخر اس کو اور اس میں رہنے والوں کو لے کر جہنم کی آگ میں جھونک دی جائیگی۔ آگے فرمایا کہ انہوں نے جس مسجد (ضرار) کی بنیاد رکیھ ہے وہ ہمیشہ ان کے نفاق اور شک کو بڑھاتی رہے گی اور یہ سلسلہ ان کی زندگی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : توبہ اور صدقات قبول کرنے کے باوجود وارننگ۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی توبہ قبول کرلی گئی۔ مگر اس کے باوجود انھیں یہ کہہ کر وارننگ دی گئی۔ کہ آئندہ تمہیں دیکھا جائے گا کہ تم کیسا کردار پیش کرتے ہو۔ گویا اللہ اس کا رسول اور مومن تم پر کڑی نگاہ رکھیں گے۔ کہ تم دوبارہ ایسی غ... لطی تو نہیں کرتے۔ ہاں یاد رکھنا تم بالآخر اس ذات کبریا کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ جس سے کسی کا ظاہر و باطن پوشیدہ نہیں ہے۔ باطن کا معنی جو چیز انسان کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر اور باطن دونوں برابر ہیں۔ ان سات صحابہ کی توبہ قبول ہوئی مگر حضرت کعب بن مالک (رض) حضرت ھلال بن امیہ (رض) اور مرارہ بن ربیع (رض) کا معاملہ یہ فرما کر معلق کردیا گیا کہ اللہ چاہے انھیں سزادے یا انھیں معاف فرما دے۔ تاہم عذاب کے بعد معافی کا بیان فرماکر واضح اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی معاف فرما دیں گے، کیونکہ وہ ان کی نیتوں کو جانتا ہے۔ توبہ قبول کرنے کی تاخیر کی حکمت بھی اچھی طرح اس کے علم میں ہے۔ تفصیل کے لیے اسی سورة کی آیت ١١٨ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ افْتَتَحَ صَلٰوتَہُ (فَقَالَ اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَآءِےْلَ وَمِےْکَآءِےْلَ وَاِسْرَافِےْلَ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَےْبِ وَالشَّھَادَ ۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَےْنَ عِبَادِکَ فِےْمَا کَانُوْا فِےْہِ ےَخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِےْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِےْمٍ )[ رواہ مسلم : باب الدعاء فی الصلوۃ اللیل ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے سے پہلے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے الٰہی ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل ( علیہ السلام) کے رب، تو ہی زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے اور حاضر و غائب کا علم رکھنے والا ہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ اختلافی معاملات میں حق اور سچ کے ساتھ میری رہنمائی فرما۔ یقیناً تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرتا ہے۔ “ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے : (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَےْہِ ) [ رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد ہر کسی کو اس کے عمل سے آگاہ فرمائے گا۔ ٢۔ لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے معاف فرما دے چاہے سزا دے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر کو جانتا ہے : ١۔ اللہ غیب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (التوبۃ : ١٠٥) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو۔ وہ دل کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ (ہود : ٥) ٣۔ اللہ پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (النحل : ١٩) ٤۔ اللہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٥۔ اللہ زمین و آسمانوں کی ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٦۔ جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو اللہ کے لیے برابر ہے۔ (الرعد : ١٠)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقل اور آپ کہہ دیجئے۔ یہ خطاب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو ہے ‘ یا سب لوگوں کو۔ اعملوا (جو چاہو) کرو۔ فسیری اللہ عملکم اللہ تمہارے (اچھے برے) عمل کو دیکھ لے گا ‘ اس سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے۔ ورسولہ والمؤمنون اور اللہ کا رسول اور مسلمان بھی (دیکھ لیں گے) جو چیز تم چھپاؤ گے ‘ اللہ وحی کے ذ... ریعے سے اپنے رسول پر اس کا اظہار کر دے گا اور پھر مسلمان بھی واقف ہوجائیں گے۔ مجاہد نے کہا : یہ دھمکی ہے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی کو اطلاع دے دے گا اور مؤمنوں کی واقفیت اس طرح ہوگی کہ اللہ ان کے دلوں میں اہل صلاح کی محبت پیدا کر دے گا اور جو لوگ مفسد ہوں گے ‘ ان کی نفرت اہل ایمان کے دلوں میں ڈال دے گا۔ وستر دون الی علم الغیب والشھادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون۔ اور ضرور تم کو ایسے کے پاس لے جایا جائے گا جو تمام کھلی اور چھپی چیزوں کا جاننے والا ہے ‘ سو وہ تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتا دے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ) (اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ عمل کیے جاؤ، اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ لے گا اور اس کا رسول بھی اور مومنین بھی دیکھ لیں گے) حضرت مجاہد تابعی نے فرمایا ہے کہ یہ وعید کے طور پر فرمایا ہے دنیا میں جو بھی کوئی شخص...  کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ شانہٗ کو تو بہر حال اس کا علم ہی ہے وہ ازل سے سب کچھ جانتا ہے۔ اور جب کوئی عمل کسی سے صادر ہو اس کے وقوع کو بھی جان لیتا ہے۔ نیز لوگوں کے اعمال مخلوق سے بھی پوشیدہ نہیں رہتے۔ جب جیسا کوئی عمل کرے گا اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ہوگا تو آپ بھی اسے جان لیں گے اور مومنین کے سامنے جس کا جو عمل سامنے آئے گا وہ بھی اس سے واقف ہوجائیں گے اگر کوئی شخص برا عمل کرے تو بعض مرتبہ دنیا میں بھی اس کی ذلت اور خواری سامنے آجاتی ہے۔ اور اس عمل پر دنیا کے عذاب میں مبتلا کردیئے جاتے ہیں۔ (وَ سَتُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) (اور عنقریب ایسی ذات پاک کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو ظاہر اور پوشیدہ تمام اعمال و اقوال اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ وہ بتادے گا کہ تم لوگ کیا کرتے تھے) اس میں یہ بتادیا کہ دنیا کے بعد آخرت کی پیشی بھی ہے وہاں محاسبہ اور مواخذہ ہے۔ منافق اپنے نفاق سے باز آجائیں اور مومنین جن سے گناہ سرزد ہوئے ہیں وہ بھی آئندہ احتیاط رکھیں اور گناہوں سے پرہیز کریں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

100:“ وَ قُلِ اعْمَلُوْا الخ ” اس سے مراد وہی اعمال ہیں جو وہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں کرتے تھے۔ یعنی تم کام کیے جاؤ اللہ کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال و اقوال کو دیکھ کر فیصلہ کرلیں گے کہ تم نے سچی توبہ کی ہے یا جھوٹی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

105 اور آپ ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ تم عمل کرتے رہو عنقریب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرز عمل کیا رہتا ہے اور آخرت میں تم ضرور اس خدا کی طرف پھیرے جائوگے اور واپس کئے جائوگے جو عالم الغیب والشہادہ اور ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا ... ہے پس وہ تم کو ان سب کاموں کی حقیقت سے آگاہ کردے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ پہلی آیت میں ترغیب تھی اس میں ترہیب فرمائی حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس جہاد میں قصور ہوا تو آگے اور جہاد ہوں گے رسولوں کے اور خلیفوں کے تب کام کریو۔ 12  Show more