Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 106

سورة التوبة

وَ اٰخَرُوۡنَ مُرۡجَوۡنَ لِاَمۡرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُہُمۡ وَ اِمَّا یَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۰۶﴾

And [there are] others deferred until the command of Allah - whether He will punish them or whether He will forgive them. And Allah is Knowing and Wise.

اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کر لے گا ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Delaying the Decision about the Three Companions Who stayed away from the Battle of Tabuk Allah said; وَاخَرُونَ مُرْجَوْنَ لاِاَمْرِ اللّهِ ... And others are made to await for Allah's Decree, Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Ad-Dahhak and several others said that; those mentioned in the Ayah are the three who were made to wait to know if their repentance was accepted; Mararah bin Ar-Rabi, Ka`b bin Malik and Hilal bin Umayyah. Some Companions stayed behind from the battle of Tabuk due to laziness, preferring comfort, ease, ripe fruits and shade. They did not lag behind because of hypocrisy or doubts. Some of them tied themselves to the pillars (of the Masjid) like Abu Lubabah and several of his friends did. Some of them did not do that, and they are the three mentioned here. Those who tied themselves received their pardon before these three men whose pardon was delayed, until this Ayah was revealed, لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالاَنصَارِ ... Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin and the Ansar... (9:117) وَعَلَى الثَّلَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ... And the three who stayed behind, until for them the earth, vast as it is, was straitened... (9:118) We will mention the Hadith about this story from Ka`b bin Malik. Allah said, ... إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ... whether He will punish them or will forgive them. meaning, they are at Allah's mercy, if He wills, He pardons them or punishes them. However, Allah's mercy comes before His anger, ... وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ And Allah is All-Knowing, All-Wise. Allah knows those who deserve the punishment and those who deserve the pardon. He is All-Wise in His actions and statements, there is no deity worthy of worship nor Lord besides Him.

اس سے مراد وہ تین بزرگ صحابہ ہیں جن کی توبہ ڈھیل میں پڑ گئی تھی ۔ حضرت مرارہ بن ربیع ، حضرت کعب بن مالک ، حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم ۔ یہ جنگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔ شک اور نفاق کے طور پر نہیں بلکہ سستی ، راحت طلبی ، پھلوں کی پختگی سائے کے حصول وغیرہ کے لئے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اپنے تیئں مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ۔ اور کچھ لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا ان میں یہ تینوں بزرگ تھے ۔ پس اوروں کی تو توبہ قبول ہو گئی اور ان تینوں کا کام پیچھے ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ( لَقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١١٧؀ۙ ) 9- التوبہ:117 ) نازل ہوئی جو اس کے بعد آ رہی ہے ۔ اور اس کا پورا بیان بھی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں آ رہا ہے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے ۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

106۔ 1 جنگ تبوک میں پیچھے رہنے والے ایک تو منافق تھے، دوسرے وہ جو بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے۔ اور انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تھا لیکن انہیں معافی عطا نہیں کی گئی تھی، اس آیت میں اس گروہ کا ذکر ہے جن کے معاملے کو مؤخر کردیا گیا تھا (یہ تین افراد تھے، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔ ) 106۔ 2 اگر وہ اپنی غلطی پر مصر رہے۔ 106۔ 3 اگر وہ خالص توبہ کرلیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٩] معذرت کرنے والوں کی قسمیں :۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین طرح کے لوگ تھے۔ ایک منافقین جو (80) اسی سے کچھ زیادہ تھے اور جھوٹی معذرتیں پیش کر رہے تھے۔ دوسرے سیدنا ابو لبابہ اور آپ کے چھ ساتھی جنہوں نے آپ سے سوال و جواب سے پہلے ہی اپنے آپ کو مسجدنبوی کے ستون سے باندھ دیا تھا جن کا قصہ پہلے گزر چکا ہے اور تیسرے سیدنا کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی سیدناہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع۔ یہ تینوں بھی پکے مومن تھے۔ انہوں نے رسول اللہ کے سامنے کوئی بہانہ یا عذر پیش نہیں کیا بلکہ سچی سچی بات برملا بتلا دی۔ ان کے معاملہ کو تاحکم الٰہی آپ نے التواء میں ڈال دیا ان کا قصہ آگے اسی سورت کی آیت نمبر ١١٨ کے تحت تفصیل سے بیان ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ : جو لوگ غزوۂ تبوک میں شریک نہیں ہوئے اور مدینہ سے نہیں نکلے، وہ تین طرح کے تھے، ایک منافقین، دوسرے ابولبابہ (رض) اور ان کے ساتھی، جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اور تیسرے کعب بن مالک (رض) اور ان کے دو ساتھی مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رض) ، جنھوں نے اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بنا کر پیش نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ جلدی قبول نہ فرمائی بلکہ ان کے معاملے کو مؤخر رکھا۔ اس آیت میں انھی کا ذکر ہے اور ان کی توبہ کی قبولیت کا ذکر آگے آیت میں آ رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Let us now turn to the statement: وَآخَرُ‌ونَ مُرْ‌جَوْنَ لِأَمْرِ‌ اللَّـهِ (And there are others whose matter is deferred till the command of Allah - 106). We already know that seven of the ten believers, who had missed the bat¬tle of Tabuk without a valid excuse, had demonstrated their heartfelt remorse by tying themselves up to the pillars of the Prophet&s Mosque. The injunction which covers them appeared in the first verse (102): آخَرُ‌ونَ اعْتَرَ‌فُوا (And there are others who admitted their sins). Verse 106 is now referring to the other three gentlemen who had not done what the group of seven had done in the Masjid. Thus, they had not admitted their misconduct openly. In their case, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ordered his Companions (رض) to see that Muslims boycott them by not talk¬ing to them. When things reached those limits, they learnt their lesson, confessed to their misconduct and repented sincerely, following which orders were given for their pardon. (Sahib a1-Bukhari and Muslim)

(آیت) وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ دس حضرات مؤمنین جو بلا عذر کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے سات نے تو اپنی ندامت و افسوس کا پورا اظہار اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ کر کردیا تھا ان کا حکم پہلی آیت میں آچکا، وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا اس آیت سے باقی وہ تین حضرات مراد ہیں جنہوں نے یہ عمل مسجد میں قید ہونے کا نہیں کیا تھا، اور اس طرح کھلے طور پر اعتراف نہیں کیا، ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو حکم دے دیا کہ مسلمان ان کا مقاطعہ کریں، ان سے سلام کلام بند کردیں، یہ معاملہ ہونے کے بعد ان کی حالت درست ہوگئی، اور اخلاص کے ساتھ اعتراف جرم کرکے تائب ہوگئے، تو ان کے لئے بھی معافی کے احکام دے دیے گئے ( صحیح بخاری و مسلم ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللہِ اِمَّا يُعَذِّبُھُمْ وَاِمَّا يَتُوْبُ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۝ ١٠٦ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ مرجون ۔ ( رج و۔ رج ی مادہ) رجاء کنارہ۔ جیسے رجا البئر۔ کنویں کا کنارہ۔ اس کی جمع ارجاء ہے قرآن مجید میں ہے والملک علی ارجائھا۔ (69: 17) اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے۔ رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ قرآن میں ہے مالکم لا ترجون للہ وقارا (71:127) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم نے خدا کا وقار دل سے بھلا دیا ہے أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٦) اور مدینہ والوں میں سے کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ یہ لوگ اور ہیں کہ جن کا معاملہ حکم الہی کے آنے تک ملتوی ہے، خواہ عدم شرکت غزوہ تبوک پر ان کو سزادے اور خواہ انھیں معاف فرما دے اور اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو خوب جاننے والا ہے اور اس فیصلہ فرمانے میں بڑی حکمت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٦ (وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَاِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْہِمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ) یہ ضعفاء میں سے دوسری قسم کے لوگوں کا ذکر ہے ‘ جن کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا۔ یہ تین اصحاب (رض) تھے : کعب بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع (رض) ‘ ان میں سے ایک صحابی حضرت کعب بن مالک انصاری (رض) نے اپنا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو کتب احادیث اور تفاسیر میں منقول ہے۔ مولانا مودودی (رح) نے بھی تفہیم القرآن میں بخاری شریف کے حوالے سے یہ طویل حدیث نقل کی ہے۔ یہ بہت سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد مدینہ کے اس معاشرے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زیر تربیت افراد کے انداز فکر اور جماعتی زندگی کے نظم و ضبط کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ حیران کن بھی ہے اور ایمان افروز بھی۔ یہ تینوں حضرات سچے مسلمان تھے ‘ مہم پر جانا بھی چاہتے تھے مگر سستی کی وجہ سے تاخیر ہوگئی اور اس طرح وہ جانے سے رہ گئے۔ حضرت کعب (رض) بن مالک خود فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے میں بہت صحت مند اور خوشحال تھا ‘ میری اونٹنی بھی بہت توانا اور تیز رفتار تھی۔ جب سستی کی وجہ سے میں لشکر کے ساتھ روانہ نہ ہوسکا تو بھی میرا خیال تھا کہ میں آج کل میں روانہ ہوجاؤں گا اور راستے میں لشکر سے جاملوں گا۔ میں اسی طرح سوچتا رہا اور روانہ نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ وقت نکل گیا اور پھر ایک دن اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ اب خواہ میں کتنی ہی کوشش کرلوں ‘ لشکر کے ساتھ نہیں مل سکتا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیچھے رہ جانے والوں کو بلا کر باز پرس شروع کی۔ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قسمیں کھا کھا کر بہانے بناتے رہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی باتوں کو مانتے رہے۔ جب کعب (رض) بن مالک کی باری آئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھ کر تبسم فرمایا۔ ظاہر بات ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے تھے کہ کعب (رض) سچے مؤمن ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے روکا تھا ؟ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر چھوٹ گئے ہیں ‘ اللہ نے مجھے بھی زبان دی ہے ‘ میں بھی بہت سی باتیں بنا سکتا ہوں ‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ مجھے کوئی عذر مانع نہیں تھا۔ میں ان دنوں جتنا صحت مند تھا اتنا پہلے کبھی نہ تھا ‘ جتنا غنی اور خوشحال تھا پہلے کبھی نہ تھا۔ مجھے کوئی عذر مانع نہیں تھا سوائے اس کے کہ شیطان نے مجھے ورغلایا اور تاخیر ہوگئی۔ ان کے باقی دو ساتھیوں نے بھی اسی طرح سچ بولا اور کوئی بہانہ نہ بنایا۔ ان تینوں حضرات کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ کوئی شخص ان تینوں سے بات نہ کرے اور یوں ان کا مکمل طور پر معاشرتی مقاطعہ (social boycott) ہوگیا ‘ جو پورے پچاس دن جاری رہا۔ حضرت کعب (رض) فرماتے ہیں اس دوران ایک دن انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے دوست سے بات کرنا چاہی تو اس نے بھی جواب نہ دیا۔ جب انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ کے بندے تمہیں تو معلوم ہے کہ میں منافق نہیں ہوں تو اس نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں۔ چالیس دن بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر انہوں نے ابھی بیوی کو بھی علیحدہ کردیا۔ اسی دوران والئ غسان کی طرف سے انہیں ایک خط بھی ملا ‘ جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے ساتھی آپ پر ظلم ڈھا رہے ہیں ‘ آپ باعزت آدمی ہیں ‘ آپ ایسے نہیں ہیں کہ آپ کو ذلیل کیا جائے ‘ لہٰذا آپ ہمارے پاس آجائیں ‘ ہم آپ کی قدر کریں گے اور اپنے ہاں اعلیٰ مراتب سے نوازیں گے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی آزمائش تھی ‘ مگر انہوں نے وہ خط تنور میں جھونک کر شیطان کا یہ وار بھی ناکام بنا دیا۔ ان کی اس سزا کے پچاسویں دن ان کی معافی اور توبہ کی قبولیت کے بارے میں حکم نازل ہوا (آیت ١١٨) اور اس طرح اللہ نے انہیں اس آزمائش اور ابتلا میں سرخرو فرمایا۔ بائیکاٹ کے اختتام پر ہر فرد کی طرف سے ان حضرات کے لیے خلوص و محبت کے جذبات کا جس طرح سے اظہار ہوا اور پھر ان تینوں اصحاب (رض) نے اپنی آزمائش اور ابتلا کے دوران اخلاص و استقامت کی داستان جس خوبصورتی سے رقم کی ‘ یہ ایک دینی جماعتی زندگی کی مثالی تصویر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :101 یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا ۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہگار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا ۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرز عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

81: یہ ان دس میں سے تین حضرات تھے جو کسی عذر کے بغیر صرف سستی کی وجہ سے تبوک کی مہم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے۔ یہ حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) تھے۔ ان حضرات کو ندامت تو تھی، لیکن انہوں نے توبہ کرنے میں اتنی جلدی نہیں کی جتنی حضرت ابو لبابہ (رض) اور ان کے ساتھیوں نے کی تھی، نہ وہ طریقہ اختیار کیا جو ان سات حضرات نے اختیار کیا تھا۔ چنانچہ جب یہ حضرات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس معذرت کرنے کے لیے پہنچے تو آپ نے ان کے بارے میں اپنا فیصلہ ملتوی فرما دیا۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نہ آئے، ان کے بارے میں یہ حکم دیا کہ سب مسلمان ان کا معاشرتی اور بائیکاٹ کریں۔ چنانچہ پچاس دن تک ان کا بائیکاٹ جاری رہا، اور توبہ اس وقت قبول ہوئی جب آیت نمبر 118 نازل ہوئی، تفصیل وہیں پر آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٦۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ منافق اپنے نفاق پر اڑے رہے جہاد میں نہیں شامل ہوئے ان پر دنیا میں بھی عذاب نازل ہوا اور آخرت میں بھی ہوگا ایک وہ لوگ بھی تھے جو آرام کے واسطے لڑائی سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے قصور کا اقرار کیا اور حضرت سے عذر چاھا آپ نے قبول فرمایا اللہ نے معاف کردیا اس آیت میں جس کا ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو جہاد میں نہیں شامل ہوئے تھے ان کو کوئی عذر نہ سوجھا جو حیلہ کرتے اس لئے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بارے میں چپ ہو رہے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ان کا کام ڈھیل میں ہے پچاس روز کے بعد اللہ تعالیٰ کے علم اور حکمت کے موافق جو کچھ ٹھہرا ہے وہ ظہور میں آجاویگا اس عرصہ میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سارے مسلمانوں نے ان سے بولنا چھوڑ دیا ان کی عورتیں بھی ان سے علیحدہ ہوگئیں بہت ہی پریشان اور حیران ہوئے پھر معافی کی آیت اتری لقد تاب اللہ علی النبی جو آگے آئے گی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ تین شخص ہیں جنہوں نے معافی چاہنے اور توبہ کرنے میں دیر لگائی تھی۔ مرارہ بن ربیع کعب بن مالک ہلال بن امیہ تبوک کی لڑائی میں جو لوگ نہیں گئے تھے وہ سب منافق نہیں تھے بلکہ بعضوں کی سستی تھی یا آرام کا خیال تھا جو رہ گئے تھے ان میں سے بعضوں نے جلدی توبہ کی اور اپنے آپ کو مسجد کے ستون سے باندھا اس لئے ان کو توبہ جلدی قبول ہوئی اور ان تین شخصوں نے توبہ کرنے میں دیر لگائی اور اپنے کو ستون سے نہیں باندھا اس لئے ان کی توبہ قبول ہونے میں دیر ہوئی۔ صحیح بخاری ومسلم میں کعب بن مالک (رض) کی حدیث ١ ؎ ہے اس میں یہ قصہ تفصیل سے ہے اس حدیث میں ان تینوں شخصوں کا نام بھی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ج ١١ ص ٢٤ و تفسیر الدر المنثور ج ٣ ص ٢٧٦

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:106) مرجون۔ (رج و۔ رج ی مادہ) رجاء کنارہ۔ جیسے رجا البئر۔ کنویں کا کنارہ۔ اس کی جمع ارجاء ہے قرآن مجید میں ہے والملک علی ارجائھا۔ (69: 17) اس کے کناروں پر فرشتے ہوں گے۔ رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ قرآن میں ہے مالکم لا ترجون للہ وقارا (71:127) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم نے خدا کا وقار دل سے بھلا دیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس کا معنی لا تخافون کیا ہے یعنی تم کیوں نہیں ڈرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوف ورجاء باہم لازم و ملزوم ہیں۔ جب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی تو ساتھ ہی اس کا ہاتھ سے چلے جانے کا اندیشہ بھی ہوگا۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے۔ وترجون من اللہ مالا یرجون (4:104) اور تم کو خدا سے وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں۔ مرجون۔ مرجی یعنی مرجو کی جمع ہے۔ اسم مفعول۔ امید وہم کے درمیان لٹکا ہوا معلق جو نتائج کے متعلق خوف ورجا کے درمیان معلق ہیں۔ کہ ان کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہ یعنی جن کا معاملہ بھی طے نہیں ہوا۔ اور اللہ کے حکم کے انتظار میں تاخیر میں پڑا ہوا ہے۔ واخرون مرجون لامر اللہ۔ کچھ اور لوگ ہیں کہ خڈا کے حکم کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے۔ یہ اشارہ ہے کعب بن مالک۔ مرارہ بن الربیع۔ ہلال بن امیہ کی طرف ۔ کسی شرعی عذر کے بغیر یہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر ان سے ہر ایک نے قطع تعلقی کرلی۔ آخر پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ (دیکھو آیات 114115 ۔ سورة ہذا) ۔ اما۔ بطور حرف تفصیل آیا ہے۔ جیسے انا ھدینہ السبیل اما شاکرا واما کفورا۔ (76:2) ہم نے انسان کو راستہ دکھلا دیا اس کے بعد وہ شکر گزار بندہ بنے یا ناشکرا بن کر رہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ جو لوگ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے اور مدینہ سے نہیں نکلے وہ تین طرح کے تھے ایک منافقین، دوسرے حضرت ابو لبابہ اور ان کے ساتھی جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے اور تیسرے کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ جنہوں نے اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر کوئی جھوٹا عذر بنا کر پیش نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ فرمائی اور ان کے معاملے کو موخر رکھا۔ اس آیت میں انہی کے معاملے کو ڈھیل میں رکھے جانے کا ذکر ہے۔ حضرت ابولبابہ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ جلد ہی قبول کرلی گئی تھی جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکیے۔ آیت 117 تا 118)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واخرون مرجون لامر اللہ اما یعذبھم واما یتوب علیھم اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے کہ ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کرے گا۔ یعنی مدینہ کے رہنے والے ان لوگوں میں سے جو تبوک کے جہاد پر نہیں گئے ‘ کچھ اور لوگ ہیں جن کا فیصلہ اللہ کے حکم آنے تک ڈھیل میں پڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے تو عذاب دے ‘ اس کو صغیرہ گناہ پر بھی عذاب دینے کا اختیار ہے اور چاہے تو بغیر توبہ کے معاف کر دے ‘ وہ کبیرہ گناہوں کو بھی بغیر توبہ کے معاف کرسکتا ہے ‘ کوئی چیز اس پر لازم نہیں ہے ‘ لہٰذا بندوں کو امید بھی رکھنی چاہئے اور ڈرتے بھی رہنا چاہئے (ا اللہ کو تو کسی کو عذاب دینے یا بخش دینے میں کوئی تردد ہو نہیں سکتا ‘ اس کا علم تو یقینی ہے کہ کس کو معاف کرے گا اور کس کو سزا دے گا ۔ شک تو بندوں کے علم میں ہوتا ہے اور عذاب و مغفرت میں تردد تو بندوں کو ہی ہونا چاہئے ‘ اسلئے آیت میں) لفظ اِمَّا کا استعمال بندوں کے لحاظ سے کیا گیا ہے (یعنی اِمَّاشک و تردد کے موقع پر آتا ہے اور بندوں کو مغفرت و عذاب میں تردد ہو سکتا ہے ‘ اسلئے انہی کے علم کی مناسبت سے لفظ اِمَّا ذکر کیا گیا) ۔ وا اللہ علیم حکیم۔ اور اللہ (ان کے احوال کو) خوب جاننے والا ہے اور (جو سلوک ان سے کرے گا اس کی) مصلحت سے بھی وہی واقف ہے۔ شیخین نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِسے مراد کعب بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع ہیں۔ یہ ان دس آدمیوں میں سے تھے جو تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے اور مسجد کے ستونوں سے بھی انہوں نے اپنے آپ کو بندھوایا نہ تھا (مگر اپنے جرم کا کھل کر اقرار کرلیا تھا ‘ کوئی بہانہ نہیں کیا تھا) رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے مسلمانوں کو حکم دے دیا تھا کہ ان تینوں حضرات سے سلام کلام ترک کردیں۔ ان حضرات نے جب سلوک دیکھا تو خلوص نیت کے ساتھ تائب ہوگئے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ آخر اللہ نے ان پر رحم کیا (اور ان کا قصور بھی معاف کردیا گیا) ہم ان کا قصہ آگے لکھیں گے۔ محمد بن اسحاق نے حضرت ابو رہم کلثوم بن حصین غفاری کی روایت سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابو رہم ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے دست مبارک پر (تجدید) بیعت کی تھی۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ نیز ابن المنذر نے حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے اور محمد بن عمر نے یزید بن رومان کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ عمرو بن عوف کے قبیلہ نے ایک مسجد تعمیر کی اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے پاس آدمی کو بھیجا کہ آپ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تشریف لا کر اس مسجد میں نماز پڑھیں۔ غنم بن عوف کے قبیلہ نے جب یہ بات دیکھی تو ان کو حسد ہوا اور انہوں نے کہا : ہم بھی ایک مسجد بنائیں گے جیسی انہوں نے بنائی ہے (بات یہ ہوئی تھی کہ) شام کو روانہ ہونے سے پہلے ابو عامر فاسق نے ان سے کہا تھا : تم لوگ ایک مسجد تعمیر کرو اور جتنے اسلحہ ممکن ہوں اس میں (پوشیدہ طور پر) جمع کرلو۔ میں قیصر روم کے پاس جا رہا ہوں ‘ وہاں سے رومیوں کا ایک لشکر لا کر محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور ان کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال باہر کر دوں گا۔ ابو عامر فاسق اللہ اور رسول ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے خلاف بغاوت کر کے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے لڑنے کے ارادہ سے مدینہ سے گیا تھا ‘ چناچہ یہ لوگ ابو عامر کے آنے (اور رومیوں کا لشکر ساتھ لانے) کے انتظار میں تھے۔ مسجد تیار ہوگئی تو انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اس میں نماز پڑھیں تاکہ ان کا جو مقصد تھا یعنی فساد ‘ کفر اور اسلام سے عناد ‘ اس کو کامیاب ہونے کا موقع مل جائے۔ جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تبوک کو روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ ان کی طرف سے کچھ لوگوں نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! ہم نے ایک مسجد بنائی ہے۔ مقصد تعمیر یہ ہے کہ جو بیمار یا حاجت مند مسجد گرامی میں حاضر نہیں ہو سکتے ‘ یا سخت سردی کی رات ہو ‘ یا بارش کی رات ہو اور لوگ وہاں سے یہاں حاضر نہ ہو سکیں تو وہ اس مسجد میں نماز پڑھ لیں۔ ہماری خواہش ہے کہ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تشریف لا کر اس مسجد میں نماز پڑھیں۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اب تو میں برسر سفر ہوں اور کام میں مشغول ہوں ‘ جب ہم انشاء اللہ واپس آئیں گے تو تمہاری مسجد میں نماز پڑھیں گے۔ چناچہ آپ جب تبوک سے واپس ہو کر مقام ذی اوان میں اترے تو مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔ یہ مقام مدینہ سے ایک گھنٹہ کی راہ کے فاصلہ پر تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِ اِمَّا یُعَذِّبُھُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ) (اور جو لوگ ایسے ہیں جن کا معاملہ اللہ کا حکم آنے تک ملتوی ہے وہ انہیں عذاب دے یا ان کی توبہ قبول فرمائے) اس آیت میں ان تین صحابیوں کا ذکر ہے جو بلا عذر تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے۔ انہیں اس پر ندامت بھی تھی اور سچائی کے ساتھ انہوں نے عرض کردیا تھا کہ ہم واقعی بلا عذر رہ گئے۔ لیکن ان لوگوں کی طرح سے توبہ کے لیے پیش بھی نہ ہوئے جنہوں نے اپنی جانوں کو ستونوں سے باندھ دیا تھا۔ یہ تین آدمی کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بول چال کرنے اور ان کے ساتھ ملنے جلنے سے صحابہ کو منع فرما دیا تھا۔ جب ان کو یہ تکلیف بھاری پڑی اور زمین ان پر تنگ ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اس کا تفصیلی واقعہ آئندہ رکوع کی آیت (وَ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا) کی تفسیر میں بیان کیا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

101:“ وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ الخ ” اس میں ان تین مخلص صحابہ کا ذکر ہے جو قدرت کے باوجود محض سستی کی وجہ سے جنگ تبوک میں شریک نہ ہوئے اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر کوئی معذرت نہ کی بلکہ ذرا تاخیر سے اپنے قصور کی معافی مانگی اور سچی توبہ کی۔ ان کی توبہ کچھ دن تاخیر سے قبول ہوئی۔ مذکور الصدر پانچ صحابہ نے بلا تاخیر توبہ کی مگر یہ تینوں توبہ میں پیچھے رہے اس لیے قبولیت میں بھی تاخیر ہوئی۔ “ و الفرق بین القسم الثانی و بین ھذا الثالث ان اولئک سارعوا الی التوبة وھؤلاء لم یسارعوا الیھا قال ابن عباس (رض) عنھما نزلت ھذه الایة فی کعب بن مالک و مرارة بن الربیع وھلال بن امیة ” (کبیر ج 4 ص 738) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

106 اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ خدا کا حکم آنے تک ملتوی ہے یا وہ ان کو سزا دے گا اور یا ان کی توبہ قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے علم اور بڑی حکمت کا مالک ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اوپر کئی فرقے مذکور ہوئے ایک منافق جھوٹے بہانے کرتے ایک گنوار غرض کا وقت تاکتے ایک گنوار صاف دل رفیق ایک وہ جو اپنا گناہ مانے ان کو معاف فرمایا مگر جو قدیم یاروں میں تین شخص اپنا گناہ مانتے تھے ان کو ادب دینے کو پچاس دن ڈھیل میں رکھا اس بیچ میں حضرت اور سب مسلمان ان سے کلام نہ کرتے اور ان کی عورتیں جدا ہوگئیں جب ان کے دل خوب پشیمان ہوئے تب معافی نازل ہوئی وہ آیت آگے ہے یہ ذکر ان کا فرمایا۔ 12 ۔ کعب بن مالک ہلال بن امیہ اور مرارۃ بن الربیع کی طرف شاہ صاحب (رح) نے اشارہ فرمایا۔