Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 112

سورة التوبة

اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۱۲﴾

[Such believers are] the repentant, the worshippers, the praisers [of Allah ], the travelers [for His cause], those who bow and prostrate [in prayer], those who enjoin what is right and forbid what is wrong, and those who observe the limits [set by] Allah . And give good tidings to the believers.

وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے ، حمد کرنے والے روزہ رکھنے والے ( یا راہ حق میں سفر کرنے والے ) رکوع اور سجدہ کرنے والے نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is the description of the believers from whom Allah has purchased their souls and wealth, who have these beautiful and honorable qualities, التَّايِبُونَ ... who repent, from all sins and shun all evils, ... الْعَابِدُونَ ... who worship, their Lord and preserve the acts of worship that include statements and actions. Praising Allah is among the best statements. This is why Allah said next, ... الْحَامِدُونَ ... who praise (Him), Fasting is among the best actions, involving abstaining from the delights of food, drink and sexual intercourse, this is the meaning hereby, ... السَّايِحُونَ ... As-Sa'ihun (who fast), Allah also described the Prophet's wives that they are, سَـيِحَـتٍ (Sa'ihat) (66:5), meaning, they fast. As for prostrating and bowing down, they are acts of the prayer, ... الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ ... who bow down, who prostrate themselves, ... الامِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ ... who enjoin good and forbid evil, and who observe the limits set by Allah. These believers also benefit Allah's creation and direct them to His obedience by ordaining righteousness and forbidding evil. They have knowledge about what should be performed and what should be shunned. This includes abiding by Allah's limits in knowledge and action, meaning, what He allowed and what He prohibited. Therefore, they worship the True Lord and advise creation. This is why Allah said next, ... وَبَشِّرِ الْمُوْمِنِينَ And give glad tidings to the believers. since faith includes all of this, and the supreme success is for those who have faith.

مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں ، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں ، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں ، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں ۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی مراد لفظ سائحون سے یہاں ہے ۔ یہی وصف آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے ۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں ۔ یعنی نماز کے پابند ہیں ۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں ۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں ۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں ۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں ۔ انہیں خو شخبریاں ہوں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے ۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے ۔ مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمن ، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سائحون سے صائمون ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں ۔ ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سائحون سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے ۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے ۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں ۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں ۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا ، سفر میں رہنا ، ادھر ادھر جانا آنا ، پہاڑوں ، دوروں ، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، یہ سیاحت مشروع نہیں ۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے ، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 یہ انہیں مومنین کی مذید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کرلیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنہ) 112۔ 2 مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں (اٰ مَنُوْ ا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کردی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] معاہدہ بیع میں پورا اترنے والوں کی صفات :۔ سابقہ آیات میں گزر چکا ہے کہ جو سچے مومن غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کس طرح سچے دل سے توبہ کی۔ گویا بعض اوقات سچے مومن بھی بہ تقاضائے بشر یہ اس معاہدہ بیع کو بھول جاتے ہیں جس کی رو سے مومنوں نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنی جانوں اور اموال میں تصرف اسی کی مرضی کے تابع رہ کر کریں گے۔ اور جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے تو ایسے مومنوں کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ سے ہر ایسے موقع پر توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔ [١٢٦] سائح کا لغوی مفہوم :۔ سائح کا ایک معنی روزہ دار ہے۔ ایسا روزہ جس میں روزہ دار کھانے پینے کی پابندیوں کے علاوہ اخلاقی پابندیوں کا بھی لحاظ رکھے۔ جیسے جھوٹ، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے سے بھی پرہیز کرے اور صاحب منجد کے نزدیک وہ روزہ دار ہے جو مسجد میں قیام پذیر ہو۔ جبکہ صائم کا معنی محض روزہ دار ہے اگرچہ اسے بھی اخلاقی پابندیوں کی تاکید کی گئی ہے۔ اور اس کا دوسرا معنی سیاحت کرنے والا ہے۔ سیر و تفریح کے لیے نہیں بلکہ طلب علم کے لیے، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کسب حلال کے لیے، آثار اقوام قدیمہ سے عبرت حاصل کرنے کے لیے، کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پھیلی ہوئی آیات کا مشاہدہ کرنے کے لیے، دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کے لیے اور ہر اس کام کے لیے جس میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ [١٢٧] یعنی جو لوگ صرف اپنی اصلاح نفس پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ازراہ خیر خواہی دوسروں کو بھی حسب استطاعت اپنے ہاتھ سے یا زبان و قلم سے اچھے کاموں کی تلقین کرتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ جو مومنوں کے لیے ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔ [١٢٨] ان حدود کا دائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد عبادات، اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ اور جن مومنوں میں مذکورہ سب صفات پائی جائیں انہی کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس معاہدہ بیع کے پابند ہیں جس کے عوض میں انہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سچے مجاہد مومنوں کی نو صفات بیان فرمائی ہیں۔ پہلی چھ صفات میں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے، ساتویں اور آٹھویں صفت کا تعلق مخلوق سے ہے اور آخری کا تعلق دونوں سے ہے۔ اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ : اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ان کو چھوڑنے کا عزم کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے والے، کیونکہ توبہ ان تینوں کے جمع ہونے سے مکمل ہوتی ہے۔ میدان قتال میں توبہ و استغفار سے زیادہ کوئی چیز مفید نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نبیوں کے ہمراہ قتال کرنے والوں کی دعا ذکر فرمائی : (وَمَا كَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِيْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ) [ آل عمران : ١٤٧ ] ” اور ان کا کہنا اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہماری زیادتی کو بھی اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور کافر لوگوں پر ہماری مدد فرما۔ “ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ : مشکل اور آسانی، خوشی اور ناخوشی، آرام اور تکلیف ہر حال میں اللہ کی عبادت کرنے والے اور ہر حال میں اس کی تعریف کرنے والے اور اس پر راضی رہنے والے۔ السَّاۗىِٕحُوْنَ : ” سَاحَ یَسِیْحُ سِیَاحَۃً “ کا معنی پانی کا زمین پر چلنا، پھیل جانا۔ ” اَلسِّیَاحَۃُ “ عبادت کے لیے (گھر بار چھوڑ کر) زمین میں نکل جانا۔ (قاموس) چونکہ اس میں آرام و آسائش کا ترک اور دنیا کا ترک پایا جاتا ہے۔ نصرانیت میں اس نے رہبانیت کی صورت اختیار کی جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا، چناچہ فرمایا : (وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ ) [ الحدید : ٢٧ ]” اور رہبانیت (دنیا سے کنارہ کشی) تو انھوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر نہیں لکھا تھا۔ “ اب اس کی صورت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت (وطن چھوڑنا) ہے کہ جہاں اللہ کے دین پر عمل نہ کرسکے، نہ اس کی دعوت دے سکے، اسے چھوڑ کر اللہ کی زمین میں کہیں اور نکل جائے۔ دیکھیے سورة نساء (٩٧ تا ١٠٠) ، زمر (١٠) اور عنکبوت (٥٣) ایک صورت جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں مجاہد گھر سے نکل کر آرام و آسائش ترک کرکے اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے اللہ کی زمین کے مشکل سے مشکل اور خوبصورت سے خوبصورت مقامات پر پھرتا ہے اور ہر جگہ اللہ کا بول بالا کرتا ہے۔ ابوامامہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ” یا رسول اللہ ! مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ) ” میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ “ [ أبوداوٗد، الجھاد، باب فی النھی عن السیاحۃ : ٢٤٨٦، و صححہ الألبانی ] بعض علماء کے مطابق ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ میں وہ طالب علم بھی آجاتے ہیں جو اللہ کا دین سیکھنے کے لیے شہر بہ شہر سفر کرتے ہیں۔ ایک صورت ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کی روزہ کی ہے کہ اس میں انسان تمام گناہ چھوڑنے کے ساتھ اپنی سب سے زیادہ مرغوب تین چیزیں کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت ترک کردیتا ہے۔ ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کا معنی ” روزہ رکھنے والے “ ابن عباس، ابن مسعود (رض) اور کئی تابعین سے آیا ہے۔ (ابن کثیر) ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلسَّاءِحُوْنَ ھُمُ الصَّاءِمُوْنَ ) ” سائحون روزہ دار ہی ہیں۔ “ مستدرک وغیرہ مگر شیخ البانی (رض) نے سلسلہ ضعیفہ (٣٧٢٩) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ بےتعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت ہے یا دل نہ لگانا دنیا کے مزوں میں۔ (موضح) ” السَّاۗىِٕحُوْنَ “ کے لغوی معنی اور صحیح حدیث کو مدنظر رکھیں تو ہجرت یا جہاد اور اعلائے دین کے لیے یا دوسرے نیک مقاصد کے لیے زمین میں پھرنے والے ہی اس کا اصل مصداق ٹھہرتے ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزا کا نظام کفار نے مسلمانوں کی اس خصوصیت کو ختم کرنے ہی کے لیے اپنے اور مسلمانوں کے ملکوں میں نافذ کروا دیا ہے، کیونکہ سفر کے ذریعے ہی سے ہجرت، جہاد، طلب علم، تبلیغ دین، تجارت اور بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جو اس وقت تک حاصل رہے جب تک مسلمان ساری زمین پر پھرتے رہے اور اس قوت سے سرفراز رہے۔ جب وہ گھروں میں بیٹھ گئے اور آرام طلبی اختیار کی تو کفار کی مراد بر آئی۔ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ : اس کے اولین مصداق تو وہ ہیں جو فرض نمازوں کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتے ہیں، جن کے متعلق کفار نے بھی شہادت دی : ” ھُمْ باللَّیْلِ رُھْبَانٌ وَبِالنَّھَارِ فُرْسَانٌ“ کہ وہ رات کو راہب اور دن کو شاہ سوار ہوتے ہیں۔ ورنہ کم از کم فرض نمازوں کے پابند ہونا تو اس کے لیے بنیادی چیز ہے۔ ترک نماز کے ساتھ اپنے آپ کو جنت کے سوداگر سمجھنا اپنی جان کو دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں۔ الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ : یعنی دوسروں کو نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے منع کرکے کفار کو مسلمان بنانے والے اور مسلمانوں کو اسلام پر عمل کی تاکید کرنے والے اور صرف دوسروں ہی کو نہیں خود بھی اللہ کی ہر حد کی پابندی اور ہر حکم کی اطاعت کرنے والے۔ ” الْمُؤْمِنِيْنَ “ میں الف لام کی وجہ سے ” ان مومنوں کو “ ترجمہ کیا ہے کہ خوش خبری کے حق دار ان صفات کے حامل مومن ہیں، فقط دعویٰ رکھنے والے نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last verse (112) which begins with the words: التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ |" (They are) those who repent, those who worship...) describes the attributes of the same believers about whom it was said earlier that Allah has bought their lives and their wealth from the believers, against which Paradise shall be for them. Though, the verse was revealed as relating to a particular group of participants in the Bai&atu al-&Aqabah, but the sense of the verse covers all mujahidin in the way of Allah. As for the list of their attributes which opens with: التَّائِبُونَ (those who repent), they are not there as a condition, because the promise of Paradise has been made for Jihad in the way of Allah, in an absolute sense. The purpose behind the delineation of these attributes is to stress that those who deserve Paradise do have such attributes - as was specially the case with the noble Companions (رض) who were a party to Bai&atu al-&Aqabah. The word: السَّائِحُونَ (as-sa&ihun: translated literally as ` those who journey& ), according to the majority of commentators, means those who fast صَّائِمِونَ (sa&imun). Actually, this word has been derived from: سِیَاحہ (siyahah: journey, pilgrimage). Before Islam, siyahah was taken to be an act of worship in the Christian religion that meant leaving home for the sake of worship. Islam declared it to be monasticism, and prohibited it. It was replaced with fasting as an act of worship. The reason is that siya¬hah taught disengagement from worldly life while fasting taught that one should abstain from worldly desires for a limited period of time liv¬ing at home. It is on the same basis that Jihad too has been equated with siyahah in some reports. Ibn Majah, Hakim and Baihaqi have authentically reported that the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: سِیَاحَۃُ اُمَّتِی اَلجِھَادُ فِی سَبِیلِ اللہِ (The siyahah of my ummah is Jihad in the way of Allah). Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said that سَآیٔحِین (sa&ihin: those who journey) in the Qur&an means: صَّائِمِينَ (sa&imin: those who fast). Explaining سَآیٔحِین (as-sa&ihin: those who journey), ` Ikrimah said, ` they are students who leave their homes to seek religious knowledge.& (Mazhari) At this place, seven attributes of believing mujahidin have been described as those who repent, those who worship, those who praise Al¬lah, those who journey, those who bow in رُکُوع ruku`, those who prostrate in سَجدَہ sajdah, those who bid the Fair and forbid the Unfair. After having enumerated these seven attributes, the eighth attribute was put as: الْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّـهِ ` those who preserve the limits prescribed by Allah.& Actu¬ally, this expression is an embodiment of all attributes mentioned ear¬lier. In other words, the details given in those seven attributes have been eloquently reduced to one small sentence which means that they are committed to the limits set by Allah, that is, they obey, adhere to and protect the injunctions of the Shari’ ah of Islam. At the end of the verse (112), it was said: وَبَشِّرِ‌ الْمُؤْمِنِين (And give the good news to the believers). It means that the Prophet of Islam should convey to believers who have the attributes mentioned above the good news of blessings nobody could ever imagine, nor could it be explained in words, nor has anyone heard about it from any source. The refer¬ence is to the ultimate blessings of Paradise.

(آیت) اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الایة، یہ صفات انہی مؤمنین کی ہیں جن کے بارے میں اوپر یہ فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی جان اور مال کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔ نزول اس کا ایک خاص جماعت شرکاء بیعت عقبہ کے لئے ہوا، مگر مفہوم آیت تمام مجاہدین فی سبیل اللہ کو شامل ہے، اور جو اوصاف ان کے التَّاۗىِٕبُوْنَ الخ سے بیان کئے گئے، یہ شرط کے طور پر نہیں، کیونکہ جنت کا وعدہ مطلقًا جہاد فی سبیل اللہ پر آیا ہے، ان اوصاف کے بیان سے مقصد یہ ہے کہ جو لوگ جنت کے اہل ہوئے ہیں ان کے ایسی اوصاف ہوا کرتے ہیں، خصوصاً بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے صحابہ کا یہی حال تھا۔ السَّاۗىِٕحُوْنَ کے معنی جمہور مفسرین کے نزدیک صَائِمُون یعنی روزہ داروں کے ہیں، اصل میں یہ لفظ سیاحت سے ماخوذ ہے، اسلام سے پہلے دین نصرانیت میں سیاحت ایک عبادت سمجھی جاتی تھی کہ انسان اپنے گھر بار کو چھوڑ کر عبادت کے لئے نکل کھڑا ہوا، اسلام میں اس کو رہبانیت قرار دیا گیا، اور اس سے منع کیا گیا اس کے قائم مقام روزہ کی عبادت مقرر کی گئی، کیونکہ سیاحت کا مقصد ترک دنیا تھا، روزہ ایسی چیز ہے کہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک معین وقت میں دنیا کی تمام خواہشات کو ترک کردینا ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض روایات میں جہاد کو بھی سیاحت قرار دیا گیا ہے۔ ابن ماجہ، حاکم، بیہقی نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سیاحۃ امتی الجھاد فی سبیل اللہ، یعنی اس امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں سائحین کا لفظ آیا ہے اس سے مراد صائمین ہیں، حضرت عکرمہ نے سائحین کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ طالب علم ہیں جو طلب علم کیلئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر نکلتے ہیں ( مظہری) ۔ اس جگہ مؤمنین مجاہدین کے اوصاف تائبون، عابدون، حامدون، سائحون، راکعون، ساجدون، آمرون بالمعروف، والناہوں عن المنکر، سات چیزیں بیان فرمانے کے بعد آٹھواں وصف الحفظون الحدود اللہ فرمایا، یہ درحقیقت تمام اوصاف مذکورہ سابقہ کا ایک جامع لفظ ہے، گویا سات اوصاف میں جو تفصیل بتلائی گئی اس کا اجمال یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ہر کام اور کلام میں حدود اللہ یعنی احکام شرعیہ کے پابند ہیں، ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَبَشِّرِ الْمُؤ ْمِنِيْنَ یعنی جن مؤمنین کے یہ اوصاف ہوں جو اوپر بیان کئے گئے ان کو ایسی نعمتوں کی خوش خبری سنا دیجئے جن کو کسی کا وہم و خیال بھی نہیں پاسکتا، اور نہ کسی عبادت سے اس کو سمجھایا جاسکتا ہے، اور نہ کسی کے کانوں نے ان کا تذکرہ سنا ہے، مراد جنت کی نعمتیں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلتَّاۗىِٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّاۗىِٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ١١٢ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔ ساح السَّاحَةُ : المکان الواسع، ومنه : سَاحَةُ الدّار، قال : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات/ 177] ، والسَّائِحُ : الماء الدّائم الجرية في ساحة، وسَاحَ فلان في الأرض : مرّ مرّ السائح قال : فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] ، ورجل سائح في الأرض وسَيَّاحٌ ، وقوله : السَّائِحُونَ [ التوبة/ 112] ، أي : الصائمون، وقال : سائِحاتٍ [ التحریم/ 5] ، أي : صائمات، قال بعضهم : الصّوم ضربان : حكميّ ، وهو ترک المطعم والمنکح، وصوم حقیقيّ ، وهو حفظ الجوارح عن المعاصي کالسّمع والبصر واللّسان، فَالسَّائِحُ : هو الذي يصوم هذا الصّوم دون الصّوم الأوّل، وقیل : السَّائِحُونَ هم الذین يتحرّون ما اقتضاه قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج/ 46] . ( س ی ح ) الساحتہ کے معنی فراخ جگہ کے ہیں اسی اعتبار سے مکان کے صحن کو ساحتہ الدار کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا ۔ اور وسیع مکان میں ہمیشہ جاری رہنے والے پانی کو سائح کہا جاتا ہے اور ساح فلان فی الارض کے معنی پانی کی طرح زمین میں چکر کاٹنا کے ہیں قرآن میں ہے فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] تو ( مشرکو تم ) زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ اور اسی سے ہمیشہ سفر کرنے والے آدمی کو سائح یا سیاح کہا جاتا ہے ۔ اور آیت السَّائِحُونَ [ التوبة/ 112] روزہ رکھنے والے ۔ میں سائحون بمعنی کے ہے ۔ اسی طرح السائحات روازی رکھنے والی عورتیں مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ روزہ دوقسم پر ہے ایک حقیقی روزہ جو کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے اور دوسرا روزہ حکمی ہے ۔ جو کہ جوارح یعنی آنکھ کان ور زبان وغیرہ کو معاصی سے روکنے کا نام ہے ۔ تو سائیحون سے دوسری قسم کے روزہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سائحون سے وہ لوگ مراد ہیں جو آیت : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج/ 46] . کیا ان لوگوں کے ملک میں سیر نہیں کہ تاکہ ان کے دل ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سن سکتے ۔ کے مقتضیٰ کے تحت زمین میں سفر کرتے ہیں ( یعنی قدرت الہی کے آثار وعجائبات دیکھتے اور ان پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔ ركع الرُّكُوعُ : الانحناء، فتارة يستعمل في الهيئة المخصوصة في الصلاة كما هي، وتارة في التّواضع والتّذلّل، إمّا في العبادة، وإمّا في غيرها نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج/ 77] ، وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَٓ [ البقرة/ 43] ، وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة/ 125] ، الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة/ 112] ، قال الشاعر : أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع ( ر ک ع ) الرکوع اس کے اصل معنی انحناء یعنی جھک جانے کے ہیں اور نماز میں خاص شکل میں جھکنے پر بولا جاتا ہے اور کبھی محض عاجزی اور انکساری کے معنی میں آتا ہے خواہ بطور عبادت ہو یا بطور عبادت نہ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا[ الحج/ 77] مسلمانوں ( خدا کے حضور ) سجدے اور رکوع کرو وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [ البقرة/ 43] جو ہمارے حضور بوقت نماز جھکتے ہیں تم بھی انکے ساتھ جھکا کرو ۔ وَالْعاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [ البقرة/ 125] مجاوروں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں ( کے لئے ) الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ [ التوبة/ 112] رکوع کرنے والے اور سجدہ کرنے والے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) أخبّر أخبار القرون الّتي مضت ... أدبّ كأنّي كلّما قمت راکع میں گذشتہ لوگوں کی خبر دیتا ہوں ( میں سن رسیدہ ہونے کی وجہ سے ) رینگ کر چلتا ہوں اور خمیدہ پشت کھڑا ہوتا ہوں سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ مُنْكَرُ والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے والحافظون لحدود اللہ اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے اللہ کی اطاعت کرنے ، اس کے اوامر پر ڈٹے رہنے اور اس کے نواہی سے رکے رہنے کے وصف کو مبالغہ کے طور پر بیان کرنے کا یہ سب سے بلیغ اور بھر پور انداز ہے ، وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوامر ، اپنے نواہی ، اپنی ترغیبات کو مستحبات یا اباحات کے حدود مقرر کردیے ہیں ۔ اسی طرح بندوں کو بعض احکامات کے اندر دو باتوں میں سے ایک کو اختیار کرلینے نیز غیر اولیٰ کو چھوڑ کر اولیٰ پر عمل کرنے کی گنجائش ملی ہیں تا کہ اس کے ذریعہ اللہ کے حکم کی موافقت کی حتیٰ الامکان جستجو ہوجائے۔ یہ تمام باتیں حدود اللہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اس وصف سے متصف کردیا ہے جو لوگ ایسے ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ تمام فرائض کو ادا کرنے والے اور اس کے تمام احکامات کو بروئے کار لانے والے قرار پائیں گے۔ ان لوگوں سے کون مراد ہیں اس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوچکا ہے ، یعنی وہ صحابہ کرام جنہوں نے بیعۃ الرضوان کے موقع پر درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ، چناچہ ارشاد باری فاستبشروا ببیعکم الذین بایعتم بہ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے ، پھر اس پر اس قول کو عطف کیا التائبون توبہ کرنے والے تا آخر آیت ۔ اس آیت میں دینداری اور اسلام کے اندر ان کے مرتبہ ومقام اور اللہ کے ہاں ان کی قدر و منزلت کو بیان کیا گیا ہے۔ بندوں کی اللہ تعالیٰ کی طاعت پر کمر بستگی کی صفت کو اس سے زیادہ بلیغ اور پر شکوہ انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا جو قول باری والحافظون لحدود اللہ میں بیان ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) اب اللہ تعالیٰ ان مجاہدین کی صفات کو بیان فرماتے ہیں کہ وہ ان اوصاف کمال کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔ کہ گناہوں سے توبہ کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے اور اس کی حمد وثناء بیان کرنے والے اور روزہ رکھنے والے اور پانچوں نمازوں میں رکوع و سجدہ کرنے والے اور توحید و احسان کا حکم کرنے والے اور کفر اور ان باتوں سے جن کا شریعت اور سنت میں کہیں ذکر نہیں باز رہنے والے اور فرائض خداوندی کو قائم کرنے والے ہیں آپ ایسے مسلمانوں کو جنت کی خوشخبری سنا دیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٢ (اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ) ’ سَاءِحُوْنَ ‘ کا معنی ہے سیاحت کرنے والے۔ لیکن اس سے مرادمحض سیر و سیاحت نہیں بلکہ عبادت و ریاضت کے لیے گھربار چھوڑ کر نکل کھڑے ہونا ہے۔ پچھلی امتوں میں روحانی ترقی کے لیے لوگ لذات دنیوی کو ترک کر کے اور انسانی آبادیوں سے لا تعلق ہو کر جنگلوں میں چلے جاتے تھے اور رہبانیت اختیار کرلیتے تھے ‘ مگر ہمارے دین میں ایسی سیاحت اور رہبانیت کی اجازت نہیں۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لاَ رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ وَلَا سِیَاحَۃَ ) (١) اسلام میں نہ رہبانیت ہے نہ سیاحت۔ سابقہ ادیان کے برعکس اسلام نے سیاحت اور رہبانیت کا جو تصور متعارف کرایا ہے اس کے لیے ابوامامہ باہلی (رض) سے مروی یہ حدیث ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ سِیَاحَۃَ وَاِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘ وَاِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَہْبَانِیَّۃٌ وَرَھْبَانِیَّۃُ اُمَّتِی الرِّبَاطُ فِیْ نُحُوْرِ الْعَدُوِّ ) (٢) ہر امت کے لیے سیاحت کا ایک طریقہ تھا اور میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے ‘ اور ہر امت کی ایک رہبانیت تھی ‘ جبکہ میری امت کی رہبانیت دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا ہے ایک صحابی (رض) نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ‘ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اِنَّ سِیَاحَۃَ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (٣) گویا ہماری امت کے لیے ’ سیاحت ‘ کا اطلاق جہاد و قتال کے لیے گھر سے نکلنے اور اس راستے میں صعوبتیں اٹھانے پر ہوگا۔ یہ چھ اوصاف جو اوپر گنوائے گئے ہیں ان کا تعلق انسانی شخصیت کے نظریاتی پہلو سے ہے۔ اب اس کے بعد تین ایسی خصوصیات کا ذکر ہونے جا رہا ہے جو انسان کی عملی جدوجہد سے متعلق ہیں اور دعوت و تحریک کی صورت میں معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ (الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) امر بالمعروف گویا دین کے لیے عملی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ جدوجہد جب آگے بڑھ کر نہی عن المنکر بالید کے مرحلے تک پہنچتی ہے تو پھر ان خدائی فوجداروں کی ضرورت پڑتی ہے جن کو یہاں (وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِط ) کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ لوگ اگر پوری طرح منظم ہوں تو اپنی تنظیمی طاقت کے بل پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اب ہم اپنے معاشرے میں منکرات کا سکہ نہیں چلنے دیں گے اور کسی کو اللہ کی حدود کو توڑنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اللّٰھم رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! منہج انقلاب نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس مرحلے کے ضمن میں آج اجتہاد کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات میں نہی عن المنکر بالید کے لیے اجتماعی اور منظم جدوجہد کی صورت کیا ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :108 متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ” توبہ کرنے والے“ ہے ۔ لیکن جس انداز کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہل ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں ، لہذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“ ۔ مومن اگرچہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے ، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اس کا اپنا ہے ، اور یہ بات کہ اس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملہ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرز عمل اختیار کر بیٹھتا ہے ۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے ، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے ۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعوری حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس کی قابل تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار بار اسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے ۔ پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلہ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا ۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اولین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہ بندگی سے پھسل جائے وہ فورا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دور نکلتے چلے جائیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :109 متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ ( روزہ رکھنے والے ) سے کی ہے ۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ ، مجازی معنی ہیں ۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کیے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں ہے ۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں ۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اس سے راہ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہوں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو ۔ مثلا اقامت دین کے لیے جہاد ، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت ، دعوت دین ، اصلاح خلق ، طلب علم صالح ، مشاہدہ آثار الہٰی اور تلاش رزق حلال ۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھے ان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :110 یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات ، اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں ، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کاروائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے ۔ لہٰذا سچے اہل ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں ، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

86: قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔ 87: قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ’’ اللہ کی قائم کی ہوئی حدود‘‘ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ ولاے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٢۔ یہ نو صفتیں بیان کی گئی ہیں جس میں یہ صفتیں ہوں گی اس کے واسطے خدا جنت مقرر کرچکا اور فرمایا کہ مومنو کو اس کی خوشی سنا دو کیونکہ مومن وہی ہے جس میں یہ سب خوبیاں ہوں سائحون اصل میں تو اس شخص کو کہتے ہیں جو دنیا سے بےتعلق ہو کر پہاڑوں اور جنگلوں میں خدا کی عبادت کرتا ہو مگر یہاں روزے دار مراد ہیں کیونکہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاد کہیں سیاحت کا لفظ آیا ہے اس سے روزہ رکھنا مراد ہے۔ حضرت عائشہ (رض) وحضرت ابوہریرہ (رض) اور اکثر صحابہ بھی یہی بیان کرتے ہیں ١ ؎ مگر بعضوں نے جہاد کے معنے بھی بیان کئے ہیں چناچہ ابوداؤد میں ابوامامہ (رض) سے روایت ہی کہ ایک شخص نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیاحت کی اجازت چاہی آپ نے فرمایا کہ میری امت کی سیاحت خدا کی راہ میں جہاد کرنا ٢ ؎ ہے اور بعضے سائحون ان کو بھی کہتے ہیں جو علم دین سیکھنے کو گھر سے نکلے ہوں اور ابن زید نے ہجرت کرنے والوں کو بھی کہا ٣ ؎ ہے لیکن طبرانی میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں سائحون کے معنے روزہ داروں کے ہیں وہ روایت صحیح ٤ ؎ ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٩٢ ٢ ؎ ابوداؤد ج ١ ص ٣٣٦ باب النہی عن السیاعۃ و تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٩٢ ٣ ؎ تفسی ابن کثیر ج ٢ ص ٣٩٢ و تفسیر الد المنثورج ٣ ص ٢٨٢ ٤ ؎ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٣٤ تفسیر سورة برماۃ و تفسیر الدر المنثور ج ٣ ص ٢٨١

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:112) التائبون۔ العابدون۔ الحامدون۔ السائحون۔ الراکعون۔ الساجدون۔ الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر۔ والحافظون لحدود اللہ۔ اب اسم صفت کے صیغے ہیں اور مؤمنین کی صفت ہیں۔ التائبون سے لے کر الناھون تک متعدد صفات کا ذکر آیا ہے لیکن ان میں حرف عطف استعمال نہیں ہوا۔ لیکن والناھون سے پہلے حرف عطف لایا گیا ہے۔ مفسرین نے اس کے متعدد جواب دیئے ہیں :۔ (1) ایسے مواقع پر حرف عطف کا ذکر کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح ہیں۔ اس لئے یہاں مزید کسی توجیہ کی ضرورت نہیں۔ (2) الناھون کا الامرون پر عطف ہے کیونکہ یہ دونوں مل کر ایک مکمل صفت بنتے ہیں۔ (3) علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ قریش کی لغت یہ ہے کہ سات کے عدد تک حرف عطف ذکر نہیں کرتے اور جب آٹھواں ذکر کرتے ہیں تو پھر حرف عطف کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ الناھون چونکہ آٹھویں صفت ہے اس لئے واؤ کا اضافہ کردیا۔ السائحون کے مفسرین نے متعدد معانی لئے ہیں۔ سیاحت کرنے والے۔ یعنی اقامت دین کے لئے جہاد میں نکلنے والے۔ کفر زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے۔ دعوت دین۔ اصلاح خلق۔ طلب علم صالح۔ مشاہدہ آثار الٰہی۔ تلاش رزق حلال کی خاطر سیاحت کرنے والے۔ ابن کثیر اور اکثر مفسرین سلف۔ صحابہ و تابعین نے السائحون سے مراد روزہ دار لئے ہیں ۔ الناھون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ الناہی واحد۔ نھی مصدر (باب فتح) روکنے والے منع کرنے والے۔ المنکر۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ انکار۔ مصدر۔ وہ قول یا فعل جس کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہو۔ بشر۔ بشر یبشر تبشیر (تفعیل) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو خوشخبری دے۔ تو خبر کر دے۔ یہاں مبشر بہٖ اس کی عظمت کے پیش نظر حذف کردیا گیا ہے۔ گویا وہ ایسی چیز ہے جس کی خوشخبری دی جارہی ہے جسے فہم سمجھ سکتا اور کلام بیان نہیں کرسکتا۔ وبشر للمؤمنین۔ ای بشر یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من فعل ھذہ الافعال التسع یعنی جو مومن ان نو صفات سے متصف ہے اس کو خوشخبری دیدیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اس کے لفظی معنی گھومنے اور سیاحت کرنے والوں کے ہیں۔ اکثر صحابہ اور مفسرین نے اس سے ” روزہ رکھنے والے “ مراد لئے ہیں۔ بعض نے مجاہدین یا وہ طالب علم بھی مراد لئے ہیں جو دینی علم کی طلب میں شہر بشیر سفر کریں۔ (کبیر) شاہ صاحب فرماتے ہیں، بےتعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت یا دل نہ لگانا دنیا کے مرہون میں۔ (کذافی الموضح) 4 ” حکم شرعی کے بغیر کوئی کام نہ کریں۔ “ یعنی اس کی موکدہ شریعت کی ہرحال میں پابندی کرنے والے مطلب یہ ہے کہ صرف دوسروں ہی کو نصیحت نہیں کرتے بلکہ خود بھی عمل کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 112 التائبون (توبہ کرنے والے) العبدون (عبادت کرنے والے) الحمدون (حمد کرنے والے) السائحون (سیاحت کرنے اولے، مسافروں کی زندگی گذارنے والے الامرون (حکم دینے والے) الناھون (منع کرنے والے) الحفظون (حفاظت کرنے والے) لحدود اللہ (اللہ کی حدوں کے لئے ) بشر (خوش خبری دے دیجیے) تشریح :- آیت نمبر 112 اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفتیں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ نے ان کی جان و مال کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے۔ ان ہی اہل ایمان کی یہ بھی صفتیں بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ توبہ کرتے رہتے ہیں عبادت میں لذت محسوس کرتے ہیں ان کی زبانوں پر ہر وقت اللہ کی حمد وثناء رہتی ہے روزوں کی پابندی کرتے ہیں پوری عظمت کے ساتھ رکوع و سجدوں میں رہتے ہیں جن کا کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر برائی کو مٹانے اور ہر نیکی کے کام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرتے اور اللہ کی تمام حدود کو قائم رکھتے ہیں۔ اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ان کو جنت اور اس کی راحتوں کی خوش خبری عطا فرمائی ہے۔ اس جگہ مومنوں کی سات صفتیں بیان کر کے آٹھویں بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ہر چیز میں اعتدال پسند ہے۔ اگر ایک انسان عبادتیں کرتا ہے۔ خود بھی نیکیوں پر رہتا ہے اور دوسروں کو بھی نیکیوں پر قائم رکھنے کی جدوجہد کرتا ہے لیکن وہ حد اعتدال سے گذر جاتا ہے تو اللہ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہیں لیکن جو لوگ ہر چیز میں اللہ کے احکامات کے پابند ہوتے ہیں ان کی بڑی شان ہے۔ اعتدال کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں اگر یہ کہا جائے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی اور اسوہ حسنہ سب سے بہترین اعتدال ہے تو یہ بات مبالغہ کی نہ ہوگی کیونکہ آپ نے زندگی کا ایک ایسا بہترین نمونہ عمل چھوڑا ہے جو بےمثال ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر جو بھی زندگی کی بنیادوں کی تعمرن کی جائے گی اور وہ اعتدال ہی کی زندگی کہلائے گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا سب سیب ڑا کمال یہ ہے کہ آپ اگر راتوں کو اللہ کی عبادت و بندگی کرنے والے ہیں تو دن بھر مجاہدانہ کارنامے سر انجام دیتے بھی نظر آتے ہیں اگر ایک طرف آپ راتوں کو عبادت اور دونوں کو جہاد میں نظر آتے ہیں تو آپ اپنے گھر بار رشتہ داروں کی بھلائی میں بھی سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ امت کی اصلاح و تبیغ میں مصروف ہیں تو ساری دنیا کے حکمرانوں کو تبلیغ دین بھی فرما رہے ہیں غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ آپ اعتدال فرماتے ہیں اور یہی اسوئہ حسنہ ہے یہ حدود اللہ ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اعتدال کی زندگی عطا فرمائیے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ان صفات کی قید لگانے کا یہ مطلب نہیں کہ بدون ان صفات کے جہاد کا ثواب نہیں ملتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان سب کے اجتماع پر ثواب اور فضیلت میں اور کثرت اور قوت ہوجاتی ہے۔ تاکہ نرے جہاد پر نہ بیٹھ جاویں بلکہ ان عبادات کو بھی ہمیشہ بجالائیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجاہد صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے مرنے والے ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ ان اوصاف حمیدہ کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ یہاں مجاہدوں اور مومنوں کی نو صفات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں پہلی اور بنیادی صفت کفرو شرک اور گناہوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ہے۔ ١۔ اَلتَّآءِبُوْنَ : توبہ کرنے والے کافر اور مشرک کے لیے پہلا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے کفرو شرک سے سچی توبہ کرے اور حلقہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ اسلام میں توبہ کا مرتبہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو اس کے سابقہ گناہوں کو بیک جنبش قلم معاف کردیا جاتا ہے وہ اپنے رب کے ہاں اس طرح ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ توبہ کرنے سے انسان کے نہ صرف گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے توبہ کی بنیادی شرائط یہ ہیں : ١۔ سابقہ گناہ پر شرمسار ہو کر معافی مانگنا۔ ٢۔ آئندہ کے لیے گناہ سے بچنے کا عزم بالجزم کرنا۔ ٣۔ اپنی اصلاح کرنا۔ (عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّآءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہُ ) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ ] ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ “ ٢۔ اَلْعَابِدُوْنَ : عبادت کرنے والے عبادت کی تین قسمیں ہیں جن کا اقرار ہر نمازی تشہد میں کرتا ہے۔ ١۔ التَّحِیَّاتُ : دعا کرنا اور زبان سے ذکر و اذکار کرنا ٢۔ وَالصَّلَواتُ : نماز میں آدمی چار حالتیں اختیار کرتا ہے۔ قیام، رکوع، سجدہ اور تشہد۔ ان میں سے کوئی ایک طریقہ بھی کسی بزرگ یا قبر کے سامنے اختیار کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور اس کی خالص عبادت کرنے سے انکار کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے عبادت اور ثواب سمجھ کر یہ آداب بجا لانا حرام ہیں۔ ٣۔ والطَّیِّبَاتُ : مالی عبادت۔ یہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے اسی بناء پر غیر اللہ کے لیے نذرانہ پیش کرنا، بتوں یاقبروں پر چڑھاوے چڑھانا یا کوئی چیزنذرانہ کرنا۔ کلی طور پر ناجائز اور حرام ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے یہاں تک بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔” حضرت ثابت بن ضحاک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ” بوانہ “ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو ؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ سرور کائنات نے استفسار فرمایا : بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں۔ حبیب کبریا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہے۔ اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو اور نہ جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ “ [ رواہ ابو داؤد ] ٣۔ الْحَامِدُوْنَ : حمد کرنے والے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے۔ قرآن مجید نے ہمیں یہ حقیقت بتلائی ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش بیان کرنے میں لگی ہوئی ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ” تسبیح بیان کرتے ہیں اسی کی ساتوں آسمان اور زمین اور جو چیزان میں ہے۔ اور (اس کائنات میں) کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی تسبیح اور حمد بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ بیشک اللہ بہت بردبار، بہت بخشنے والا ہے۔ “ بنی اسرائیل : ٤٤ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ونضع الموازین القسط ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ ” سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَان اللّٰہِ العَظِیْم۔ “ ٤۔ اَلسَّاءِحُوْنَ : روزے دار روزہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں رسول محترم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے سب کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ جہاں تک نفلی روزے کا تعلق ہے اس کا اجروثواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ روزے دار جہنم سے کوسوں میل دور کردیا جاتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کے بیٹے کو تمام نیک اعمال کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے روزہ کے سوا کیونکہ روزہ میرے ٍ لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا روزہ دار اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میری خوشنودی کے ٍ لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے . دوسری خوشی جب اس کی ملاقات اپنے رب سے ہوگی۔ روزے دار کے منہ کی بو، اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بہتر ہے۔ روزہ ڈھال ہے جب تم روزہ رکھو تو فحش کلامی سے احتراز اور جھگڑے سے اجتناب کرو۔ اگر کوئی شخص روزہ دار کو گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو روزے دار کو کہنا چاہیے میں روزہ دار ہوں۔ “ راوہ البخاری : باب ھل یقول انی صا ئم (تفصیل کے لیے میری کتاب برکات رمضان کا مطالعہ فرمائیں۔ ) ٥۔ اَلرَّاکِعُوْنَ : رکوع کرنے والے نماز میں رکوع خاص اہمیت کا حامل رکن ہے اس کے بغیر رکعت مکمل نہیں ہوتی اگر رکعت میں رکوع رہ جائے تو رکعت لوٹانا پڑے گی یہودیوں نے اپنی نماز میں رکوع کو خارج کردیا تھا جس وجہ سے قرآن مجید میں بالخصوص رکوع کی فضیلت و فرضیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ٦۔ اَلسَّاجِدُوْنَ : سجدہ کرنے والے سجدہ مومن کے لیے سکون کا خزینہ اور اس کے رب کی قربت کا آخری زینہ ہے۔ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا حرام اور شرک ہے۔ خواہ سجدہ کسی کی تعظیم کے لیے کیا جائے اور اس میں کوئی تسبیح نہ پڑھی جائے۔ (عَنْ مَّعْدَانَ ابْنِ طَلْحَۃَ (رض) قَالَ لَقِےْتُ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ ےُدْخِلُنِیَ اللّٰہُ بِہِ الْجَنَّۃَ فَسَکَتَ ثُمَّ سَاَلْتُہُ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ سَأَلْتُ عَنْ ذَالِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عَلَےْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ لِلّٰہِ فَاِنَّکَ لَا تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً اِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَۃً وَّحَطَّ عَنْکَ بِھِمَا خَطِےْءَۃً قَالَ مَعْدَانُ ثُمَّ لَقِےْتُ اَبَا الدَّرْدَآءِ فَسَاَلْتُہُ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ مَا قَالَ لِیْ ثَوْبَانُ )[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ ] ” حضرت معدان بن طلحہ (رض) کہتے ہیں میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام حضرت ثوبان (رض) سے عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتلائیے جس سے مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمادیں۔ وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر سوال کیا تب بھی آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ تیسری دفعہ میرے عرض کرنے پر فرمایا کہ میں نے یہی سوال رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا ثوبان تجھے کثرت کے ساتھ اللہ کے حضور سجدے کرنے چاہئیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سجدے کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیرے درجات کو بلند اور تیرے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ جناب معدان (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ابودرداء (رض) سے ملاقات کی اور ان سے یہی سوال عرض کیا اور انہوں نے بھی مجھے وہی جواب عنایت فرمایا جو حضرت ثوبان (رض) نے دیا تھا۔ “ ٧، ٨۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر : امت محمدیہ کے وجود کی اہمیت و ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے متعدد مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ اے مسلمانو ! اللہ نے تمہیں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے لیے بنایا ہے جس کا جامع مفہوم یہ ہے کہ نیکی پر عمل پیرا ہونا اور دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنا، برائی سے بچنا اور دوسروں کو برائی سے بچنے کا حکم دینا۔ امر بالمعروف طاقت اور قوت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کام کو اجتماعی طور پر کرنے سے صحیح نتائج حاصل ہوتے ہیں اس لیے یہ کام حکومت وقت کا فریضہ قرار پایا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) عَنْ رَّسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ، وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان ] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ “ ٩۔ اَلْحَافِظُوْنَ : حفاظت کرنے والے مومنوں اور مجاہدوں کی یہاں آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں انفرادی طور پر وہ حدود اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹکتے کہ کہیں ان سے حدود اللہ کی خلاف ورزی نہ ہوجائے اور اجتماعی طور پر مسلمان حدود اللہ کا نفاذ کرتے ہیں۔ حدود اللہ سے مراد شریعت کے وہ قانون اور ضابطے ہیں جن کی حفاظت کا مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر حکم دیا گیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّتِہٖ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحٰبٌ یَّأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَےَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَّقُوْلُوْنَ مَالَا ےَفْعَلُوْنَ وَےَفْعَلُوْنَ مَا لَا ےُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِےَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَّمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَےْسَ وَرَآءَ ذَالِکَ مِنَ الْاِےْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء بھیجے ان کی امت میں ان کے خاص مددگار ہوا کرتے تھے۔ جو اس نبی کے طریقے پر گامزن رہتے اور اس کا حکم مانتے اور پھر ان کے بعد نالائق لوگ آئے وہ جو کچھ کہتے تھے اس پر خود عمل نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے کام کرتے جن کی انہیں اجازت نہیں تھی جس نے ایسے لوگوں کو ہاتھ سے روکا وہ مومن ہے اور ان کو زبان سے روکنے والا ایمان دار ہوگا حتی کہ ان کو دل سے برا جاننے والا بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔ “ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اِتَّقٰی الشُّبُھَاتِ اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہِ وَعِرْضِہِ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الحَرَامِ کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَرْتَعَ فِیْہِ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمَی اَلَا وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ اَلَا وَاِنَّ فِیْ الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ اَلاَ وَہِیَ الْقَلْبُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو ان مشتبہات سے بچا رہا۔ اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالیا اور جو شخص مشتبہات میں پڑگیا وہ حرام کا مرتکب ہوا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراگاہ کے اردگرد اپنے جانور چراتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس چراگاہ میں چرنے لگیں۔ سنو ! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کی گئی چیزیں ہیں۔ خبردار ! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب تک وہ درست ہوگا تمام جسم درست رہے گا۔ جب اس میں خرابی واقع ہوگی تو سارا جسم فساد زدہ ہوجائے گا۔ سنو ! وہ لوتھڑا دل ہے۔ “ (عَنِ ابِنْ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُود اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتیں بارش نازل کرنے سے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی خوشخبری ہے۔ ٢۔ مومن ہر قسم کے گناہ سے توبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ مومن اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ٤۔ مومن اللہ کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں۔ ٥۔ مومن روزے رکھتے ہیں۔ ٦۔ مومن اللہ کے حضور رکوع کرتے ہیں۔ ٧۔ مومن اپنے رب کی بارگاہ میں سجدے کرتے ہیں۔ ٨۔ مومن نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ ٩۔ مومن اللہ تعالیٰ کی حدود وقیود کی حفاظت کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن متقین کے چند اوصاف : ١۔ توبہ کرنا، عبادت کرنا، حمد کرنا، روزے رکھنا، رکوع و سجود کرنا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا۔ (التوبۃ : ١١٢) ٢۔ اللہ، آخرت کے دن، فرشتوں، کتابوں اور انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ کی محبت کے لیے یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنوں کے آزاد کرانے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ وعدے کی پاسداری کرتے، تنگی، بیماری اور لڑائی کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی اپنے ایمان میں سچے اور یہی متقین ہیں۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٣۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا، قرآن مجید اور سابقہ کتب سماویہ پر ایمان لانا اور آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ : ٣۔ ٤) ٤۔ متقین تنگی اور فراخی میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٥۔ یقینا ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (المو منون : ١) ٦۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ (المومنون : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

التآئبون (شرک سے) توبہ کرنے والے یعنی وہ لوگ جنہوں نے شرک سے توبہ کرلی اور نفاق سے پاک ہوگئے۔ التائبون خبر ہے ‘ مبتداء محذوف ہے یعنی وہ توبہ کرنے والے ہیں۔ یعنی جن لوگوں نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے بیعت کرلی اور تمام احکام کی تعمیل کا عہد کرلیا ‘ وہ ان تمام اوصاف کے حامل ہیں ‘ جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ التائبون مبتداء ہو اور بعد کو ذکر ہونے والے اصاف خبر ہوں یعنی حقیقت میں کفر کرنے والے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خبر محذوف ہو یعنی توبہ کرنے والے جنتی ہیں ‘ خواہ انہوں نے اس وقت جہاد میں شرکت نہ کی ہو مگر ان کے اندر عداوت وعناد کا جذبہ نہ ہو اور یہ ارادہ نہ ہو کہ جب اللہ جہاد کی طاقت دے گا تب بھی جہاد نہیں کریں گے۔ زجاج نے کہا : گویا (اس صورت میں) جنت کا وعدہ تمام مؤمنوں سے ہوگا ‘ جیسے اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے : وَکُلاَّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی اور سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ہے۔ العٰبدون (شرک جلی و خفی کو چھوڑ کر فقط اللہ کی) عبادت کرنے والے۔ الحامدون (دکھ سکھ میں اللہ کی) تعریف کرنے والے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : بہت زیادہ ثنائے خدا کرنے والوں کو جو دکھ سکھ میں (یعنی راحت ہو یا تکلیف ‘ ہر حال میں) اللہ کی تعریف کرتے ہیں ‘ سب سے پہلے جنت کی طرف بلایا جائے گا۔ رواہ الطبرانی ‘ والحاکم ‘ والبیہقی فی شعب الایمان بسند صحیح عن ابن عباس۔ السآئحون روزے رکھنے والے۔ ابن جریر نے حضرت عبید بن عمر کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے السائحون کا معنی دریافت کیا گیا۔ فرمایا : روزے رکھنے والے۔ بغوی نے حضرت ابن مسعود کا بھی یہی قول بیان کیا ہے۔ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ کا موقوف قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں سیاحت (کا معنی) روزے رکھنا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے فرمایا : روزے دار کو سائح اسلئے کہا جاتا ہے کہ وہ تمام لذتیں ‘ کھانا ‘ پینا اور قربت صنفی کرنا ترک کردیتا ہے (جیسے مسافر ان لذتوں سے محروم ہوجاتا ہے) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : آدم زاد کے ہر نیک عمل کا اجر دس گنے سے سات سو گنے تک بڑھا دیا جاتا ہے سوائے روزہ کے ‘ جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا۔ بندہ میرے لئے اپنی خواہش صنفی اور کھانا ترک کرتا ہے (الحدیث ) متفق علیہ۔ عطاء نے کہا : السائحون سے مراد غازی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ جیسا کہ ابن ماجہ ‘ حاکم اور بیہقی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو امامہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے عرض کیا : یا رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ! مجھے سیاحت کی اجازت دے دیجئے۔ فرمایا : میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ عکرمہ نے کہا : سیاحت کرنے والوں سے مراد طالب علم ہیں جو علم کی طلب میں ملکوں میں پھرتے ہیں۔ حضرت ابو درداء کا بیان ہے : میں نے خود سنا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) فرما رہے تھے : جو طلب علم کی راہ میں چلتا ہے ‘ اللہ اس کو جنت کے راستہ پر چلائے جائے گا اور فرشتے طالب علم کیلئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کیلئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ (ملائکہ) جو آسمانوں میں ہیں اور وہ (ملائکہ اور انس و جن) جو زمین میں ہیں اور پانی کے اندر مچھلیاں۔ عالم کی برتری عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت دوسرے ستاروں پر۔ علماء ‘ انبیاء کے (علم کے) وارث ہیں اور انبیاء نے کوئی درہم و دینار میراث میں نہیں چھوڑا بلکہ علم کی میراث چھوڑی ۔ اب جو اس ترکہ کا وارث ہوا ‘ وہ بڑا خوش نصیب ہوا۔ رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ وابو داؤد۔ الراکعون الساجدون رکوع کرنے والے ‘ سجدہ کرنے والے یعنی نماز پڑھنے والے۔ نماز پڑھنے والوں کا ذکر دو لفظوں سے کیا الرّاکعون الساجدون ہر ایک سے نماز پڑھنے والے مراد ہیں (تو گویا نماز پڑھنے والوں کا ذکر دو بار کیا) تکرار ذکر دلالت کر رہی ہے کہ نماز تمام عبادتوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ حضرت ابن مسعود کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پوچھا : کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے ؟ فرمایا : وقت پر نماز۔ میں نے عرض کیا : اس کے بعد کونسا ؟ فرمایا : ماں باپ کی فرمانبرداری کرنی۔ میں نے عرض کیا : اس کے بعد کونسا ؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد۔ صحیح بخاری و مسلم۔ ابو نعیم نے فضل بن دکین کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : نماز دین کا ستون ہے۔ ابن عساکر نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : نماز مؤمن کا نور ہے۔ قضاعی نے حضرت علی کی روایت سے بیان کیا کہ حضور ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : ہر تقویٰ والے کیلئے نماز (ا اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہے۔ مسلم ‘ ابوداؤد اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب سے سب حالتوں سے زیادہ قریب ہوتا ہے ‘ پس تم دعا زیادہ کیا کرو۔ الاٰمرون بالمعروف بھلائی کا حکم دینے والے ‘ یعنی ایمان اور اطاعت کا حکم دینے والے۔ والناھون عن المنکر اور برے کاموں سے ‘ یعنی شرک اور گناہ سے روکنے والے۔ بعض علماء نے کہا : المعروف سے مراد سنت اور المنکر سے مراد بدعت ہے۔ دونوں کے درمیان حرف عطف (واؤ) کا ذکر کرنا اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں اوصاف کا مجموعہ ایک ہی خصلت ہے۔ والحفظون لحدود اللہ اور اللہ کی بندشوں کی پابندی رکھنے والے۔ یعنی اللہ کے وہ ضوابط و قوانین جو بندہ اور خدا کے درمیان اللہ نے قائم کیے ہیں ‘ ان کی نگہداشت کرنے والے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ الحافظون کو مستقل طور پر حرف عطف (واؤ) کے ساتھ ذکر کرنے سے اس امر پر تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جن اعلیٰ خصائل کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے ‘ ان کا اجمالی مجموعہ حفظ حدود اللہ ہے۔ وہ تفصیل تھی ‘ یہ اجمال ہے۔ میں کہتا ہوں : شاید یہ وجہ بھی ہے کہ گزشتہ کلام میں جن صفات حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے ‘ ان کی حدبندی اس فقرہ میں کردی گئی ہے تاکہ اپنی طرف سے ان میں کچھ زیادتی بھی نہ کی جائے ‘ نہ رہبانیت ہو ‘ نہ ظاہری شکل اور باطنی معنی میں کوئی کمی کی جائے۔ گویا مذکورۂ بالا اوصاف کا مجموعہ ہوا ضوابط و قوانین کی تعمیل اور حفاظت حدود کا معنی ہوا اخلاص اور حضور کامل کیونکہ حدود کی پابندی قلبی حضور کامل کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اخلاص و حضور قلب دل والوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے وبشر المؤمنین۔ اور ایمان والوں کو بشارت دے دو ۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دے دو جن کے اندر صفات مندرجۂ بالا موجود ہیں۔ اَلْمُؤْمِنِیْنَ کے لفظ سے اس طرح اشارہ ہے کہ ایمان کا تقاضا صفات مذکورہ ہیں اور مؤمن کامل وہی ہوتا ہے جو صفات مذکورہ کا حامل ہو۔ کس بات کی بشارت دے دو ‘ اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ نعمت جس کی بشارت دینے کا حکم دیا جا رہا ہے ‘ اتنی عظیم الشان ہے جو نہ بیان کی جاسکتی ہے ‘ نہ کسی کے دماغ میں اس کا تصور آسکتا ہے ‘ نہ کسی نے اس کو سنا ہے۔ وا اللہ اعلم شیخین نے صحیحین میں حضرت سعید بن مسیب کے باپ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ابو طالب کے مرنے کے وقت رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) ان کے پاس تشریف لائے۔ ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو وہاں موجود پایا۔ آپ نے ابو طالب سے فرمایا : چچا ! لا الٰہ الا اللہ ایک بار کہہ دیجئے تاکہ اللہ کے سامنے میں آپ کی طرف سے اس کو دلیل کے طور پر پیش کرسکوں۔ ابو جہل اور عبد اللہ بولے : ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے ؟ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) (بار بار) کلمۂ توحید پیش کرتے رہے اور ابوجہل و عبد اللہ اپنی بات برابر کہتے رہے۔ آخر ابو طالب نے کہا : عبدالمطلب کے مذہب پر۔ ایک روایت میں اتنا اور بھی آیا ہے کہ ابو طالب نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا تو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : وا اللہ ! جب تک مجھے ممانعت نہیں کردی جائے گی ‘ میں آپ کی مغفرت کیلئے دعا کرتا رہوں گا۔ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومنین کی صفات : اس کے بعد مومنین کی صفات بتائیں اور یہ نو صفات ہیں۔ (اَلتَّآءِبُوْنَ ) (توبہ کرنے والے) (الْعٰبِدُوْنَ ) (عبادت کرنے والے) (الْحٰمِدُوْنَ ) (حمد بیان کرنے والے) (السَّآءِحُوْنَ ) (روزہ رکھنے والے) (الرّٰکِعُوْنَ ) (رکوع کرنے والے) (السّٰجِدُوْنَ ) (سجدہ کرنے والے) (الْاٰمِرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ ) (بھلائیوں کا حکم دینے والے) (وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ) (اور برائیوں سے روکنے والے) (وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ) (اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے) ۔ آخر میں فرمایا (وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) (اور ایمان والوں کو بشارت دے دو ) ۔ اَلتَّآءِبُوْنَ کی ترکیب نحوی بتاتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ مبتدا ہے اور خبر محذوف ہے یعنی التائبون و من ذکر معھم ھم اھل الجنۃ ایضاً یعنی جس طرح مجاہدین کے لیے جنت کا وعدہ ہے اسی طرح سے دوسرے اہل ایمان کے لیے بھی جنت کا وعدہ ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جہاد عام احوال میں فرض عین نہیں ہوتا۔ جب فرض عین نہیں ہے تو جو لوگ اس میں مشغول نہ ہوں گے دوسرے دینی کاموں میں لگے ہوئے ہوں گے ان کے لیے بھی اللہ کی رضا ہے اور جنت ہے۔ اس جنت کی خوشخبری دینے کے لیے وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمہ ہے کہ اسے جنت میں داخل فرمائے۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اپنی اسی زمین میں بیٹھا رہے جس میں پیدا ہوا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ سنا دیں۔ آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار فرمایا ہے۔ ہر دو درجوں کے درمیان اتنا بڑا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے سو جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا افضل اور اعلیٰ حصہ ہے اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں جاری ہیں۔ (صحیح بخاری ص ٣٩١ ج ١) مطلب یہ ہے کہ جنت تو اپنے وطن میں بیٹھ کر اعمال صالحہ کرنے سے بھی ملے گی لیکن مجاہدین کے لیے جو اللہ تعالیٰ نے سو درجات تیار فرمائے ہیں ان کی بھی طلب رہنی چاہئے اور جہاد میں شریک ہونے کے مواقع نکالنے چاہئیں۔ فائدہ : مومنین کی صفات بتاتے ہوئے جو الَسَّآءِحُوْنَ بھی فرمایا ہے۔ اس کا معنی ایک تو وہی ہے جو اوپر ترجمہ میں بیان کیا گیا یعنی روزہ رکھنے والے۔ یہ معنی حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے اور حضرت عطاء نے فرمایا کہ اس سے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مراد ہیں کیونکہ یہ ساح سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے سیاحت کرنا یعنی سفر کرنا اور حضرت عکرمہ نے فرمایا کہ اس سے طلبۃ العلم مراد ہیں جو دینی علوم حاصل کرنے کے لئے وطن کو چھوڑتے ہیں اور سفر میں جاتے ہیں۔ حدود اللہ کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے : مومنین کے اوصاف میں (وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ) بھی فرمایا ہے یہ بہت بڑی صفت ہے اس میں اہل ایمان کی بہت بڑی ذمہ داری بیان فرمائی اور وہ یہ ہے کہ عمل کرنے میں اور دوسروں سے عمل کرانے میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی رعایت کریں ان حدود سے تجاوز نہ کریں۔ نہ حلال کو حرام قرار دیں نہ حرام کو حلال بتائیں نہ بدعتیں نکالیں نہ مستحبات کے ساتھ فرائض اور واجبات جیسا معاملہ کریں۔ اور نہ فرائض و واجبات کو چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔ اسی کو سورة بقرہ میں فرمایا (تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (یہ اللہ کی حدود ہیں سو تم ان سے آگے نہ بڑھو، اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھ جائے تو ایسے لوگ ظلم کرنے والے ہیں) تمام اعمال میں حدود کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔ فائدہ : آیت کریمہ (اَلتَّآءِبُوْنَ الْعَابِدُوْنَ ) (الآیۃ) کے ساتھ سورة بقرہ کی آیت (وَ اِذِابْتَلآی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ) کی تفسیر کی بھی مراجعت کرلی جائے۔ (ملاحظہ ہو انوار البیان جلد اول)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

112 ان مسلمانوں سے بھی جنت کا وعدہ ہے جو توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے شکر بجالانے والے روزے رکھنے والے اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والے اور برے کاموں سے منع کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی مقررہ حدود کی نگہداشت کرنے والے ہیں اور آپ ایسے مسلمانوں کو خوش خبری سنا دیجئے۔ جس طرح مجاہدین کے لئے جنت کا معاملہ فرمایا اسی طرح وہ حضرات جو ان صفات سے متصف ہوں ان کیلئے بھی جنت کا وعدہ اور جنت کی بشارت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ التائبوں سے لے کر آخر تک مجاہدین کی صفات ہوں اور مطلب یہ ہو کہ مجاہدین صرف جہاد ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں یہ اوصاف بھی ہوتے ہیں۔ سائحون کا ترجمہ شاہ صاحب نے بےتعلق رہنے والے کیا ہے روزہ دار بھی کھانے پینے وغیرہ سے بےتعلق رہتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں بےتعلق رہنا روزہ ہے یا ہجرت یا دل نہ لگانا دنیا کے مزوں میں اور حدیں تھامنی یہ کہ بغیر حکم شرع کوئی کام نہ کریں۔ 12