Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 119

سورة التوبة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾

O you who have believed, fear Allah and be with those who are true.

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

O you who believe! Have Taqwa of Allah, and be with those who are true. The Ayah says, adhere to and always say the truth so that you become among its people and be saved from destruction. Allah will make a way for you out of your concerns and a refuge. Imam Ahmad recorded that Abdullah bin Mas`ud said that the Messenger of Allah said, عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِن الصَّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَلاَ يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَلاَإ يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا Hold on to truth, for being truthful leads to righteousness, and righteousness leads to Paradise. Verily, a man will keep saying the truth and striving for truth, until he is written before Allah as very truthful (Siddiq). Beware of lying, for lying leads to sin, and sin leads to the Fire. Verily, the man will keep lying and striving for falsehood until he is written before Allah as a great liar. This Hadith is recorded in the Two Sahihs.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

119۔ 1 سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ اس لئے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اس کا مطلب یہ ہی کہ جس کے اندر تقوٰی (یعنی اللہ کا خوف) ہوگا، وہ سچا بھی ہوگا اور جو جھوٹا ہوگا، سمجھ لو کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ مومن سے کچھ اور کوتاہیوں کا صدور تو ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٥] سچ بولنے کی فضیلت اور فائدہ :۔ کعب بن مالک غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کا قصہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے : اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ اللہ نے کسی شخص کو سچ کہنے کی توفیق دے کر اس پر اتنا احسان کیا ہو جیسا کہ مجھ پر کیا۔ میں نے اسی وقت سے لے کر آج تک قصداً کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اللہ تعالیٰ نے اسی باب میں یہ آیات اتاریں (لَقَدْ تَّاب اللّٰهُ عَلَي النَّبِيِّ وَالْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ فِيْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْۢ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيْغُ قُلُوْبُ فَرِيْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّهٗ بِهِمْ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١١٧؀ۙ ) 9 ۔ التوبہ :117) (بخاری۔ کتاب التفسیر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ : یہ صادقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخلص صحابہ کرام (رض) ہیں۔ صدق نیت، قول اور فعل تینوں میں ہو تو صدق ہے، ورنہ فعل قول کی تکذیب کرے تو یہ بھی صدق نہیں، اس لیے جو لوگ اپنے اخلاص نیت اور قول کے مطابق عملاً تبوک کی طرف نکلے بھی وہی صادقین ٹھہرے اور ان کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا۔ ان تینوں نے بھی سچ کہا، اپنی خطا مانی اس لیے بخشے گئے، نہیں تو منافقین میں ملتے۔ (موضح) اللہ تعالیٰ نے سچے مومن قرار ہی ان لوگوں کو دیا ہے جو ایمان لانے کے بعد شک میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، فرمایا کہ صادق صرف یہی لوگ ہیں۔ دیکھیے سورة حجرات (١٥) اور سورة حشر (٨) کعب بن مالک (رض) کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سچ بولا، ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہوجاتا جس طرح دوسرے ہلاک ہوگئے۔ [ بخاری، المغازی، باب حدیث کعب بن مالک (رض) ۔۔ : ٤٤١٨] بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سچ بولنے کے انعام میں ان کی توبہ کا تذکرہ قرآن میں فرمایا جو قیامت تک پڑھا جائے گا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سچ کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی سچ کہتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، حتیٰ کہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچ جاؤ، کیونکہ جھوٹ نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ کہتا رہتا ہے اور جھوٹ کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ : ( یأیھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ ۔۔ ) : ٦٠٩٤۔ مسلم : ٢٦٠٧ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Advice to Muslims: Observe Taqwa and be with those true in word and deed This brings us to the last verse: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾ ( O those who believe, fear Allah, and be in the company of the truthful - 119). The event of having remained behind as related to some other-wise sincere people, and the ultimate acceptance of their repentance, was all a result of their Taqwa, the fear of Allah and the sense of being responsible before him. Therefore, in this verse, the large masses of Muslims have been instructed to observe Taqwa (as a constant feature of their personal lives). Then, by saying: كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (be in the compa¬ny of the truthful), it was hinted that the only way to achieve Taqwa was to frequent the company of those who are good in their deeds and true in their words, and to approximate one&s own conduct to theirs. Perhaps, this may also be pointing out to the slip made by these people that was caused by the company they kept with hypocrites and their suggestions and advises they listened to. One should stay away from the company of those who are disobedient to Allah, and take to the company of the truthful. The Qur&an has not said ` the learned& (` ulama& ) or ` the righteous& (sulaha& ) at this place. Rather, by electing to use the word: الصَّادِقِينَ (as-sadiqin: the truthful), it has also told us about the real identity of the &learned& and the &righteous&. Such a truthful person has to be the one whose exterior and the interior are the same and who is also true in intention, and true in word, and true in deed as well.

(آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ، سابقہ آیات میں جو واقعہ تخلف عن الجہاد کا بعض مخلصین سے پیش آیا پھر ان کی توبہ قبول ہوئی یہ سب نتیجہ ان کے تقوٰی اور خوف خدا کا تھا، اس لئے اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفت تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے اس میں شاید یہ اشارہ بھی ہو کہ جن حضرات سے یہ لغزش ہوئی اس میں منافقین کی صحبت مجالست اور ان کے مشورہ کو بھی دخل تھا، اللہ کے نافرمانوں کی صحبت سے بچنا چاہئے اور صادقین کی صحبت اختیار کرنا چاہئے، اس جگہ قرآن حکیم نے علماء صلحاء کے بجائے صادقین کا لفظ اختیار فرما کر عالم و صالح کی پہچان بھی بتلا دی ہے کہ صالح صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، نیت و ارادے کا بھی سچا ہو قول کا بھی سچا ہو، عمل کا بھی سچا ہو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝ ١١٩ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصارقین ۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ حضرت ابن مسعود (رض) سے ان کی یہ تفسیر مروی ہے کہ سچائی کو لازم پکڑو اور اس سے ہرگز روگردانی نہ کرو اس لیے کہ جھوٹ کی کسی حالت میں بھی گنجائش نہیں ہے ؟ نافع اور ضحاک کا قول ہے کہ دنیا میں عمل صالح کے ذریعے انبیاء اور صدیقین کی معیت حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا لیس البر ان تولوا وجو ھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کرلو لیکن نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور ریوم آخر پر ایمان لائے ۔ تا قول باری اولیک الذی صدقوا یہی لوگ سچے ہیں۔ اجماع صحابہ (رض) حجت ہے درج بالا آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام یعنی حضرات مہاجرین و انصار کی صفت بیان کی گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمایا کونوا مع الصادقین اور سچے لوگوں کا ساتھ دو ۔ ان سب آیات کا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) کی پیروی اور انکے نقش قدم پر چلنا لازم ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں یہ بتادیا کہ جو لوگ ان صفات سے متصف ہوں گے۔ وہ سچے ہوں گے اور پھر اس آیت میں فرمایا وکونوا مع الصادقین یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام کا اجماع ہمارے لیے دلیل اور حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمارے لیے ان کی مخالفت کسی طرح جائز نہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ قول باری ہے لقد تاب اللہ علی النبی والمھاجرین والانصار الذین اتبعوا فی ساعۃ السعرۃ ۔ اللہ نے معاف کردیا نبی ؐ کو اور ان مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی کا ساتھ دیا آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) کی تعریف کی گئی ہے ۔ یعنی وہ حضرات مہاجرین و انصار جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوۂ تبوک میں گئے تھے نیز اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے باطن کی صحت اور قلب و ضمیر کی طہارت کی بھی اطلاع دی اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر ، کہ اس نے انہیں معاف کردیا صر ف اسی وقت دی ہے جبکہ وہ ان سے راضی ہوگیا اور ان کے افعال اسے پسند آ گئے آیت ان لوگوں کی تردید کے لیے نص ہے جو صحابہ کرام پر زبان طعن و تشنیع دراز کرتے اور ایسے افعال کی طرف ان کی نسبت کرتے ہیں جن کی طرف اللہ نے ان کی نسبت نہیں کی ہے، اللہ نے ان کی نسبت پاکیزگی اور طہارت کی طرف کی ہے اور انہیں اس وصف سے متصف فرمایا ہے کہ ان کے قلوب پاکیزہ اور ان کا باطن درست ہے (رض) ! !!

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٩) یعنی حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں اور دیگر مومنوں کو جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان باتوں میں اس کی اطاعت کرو اور اٹھنے بیٹھنے اور اس کے راستہ میں جانے میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھیوں کا ساتھ دو ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٩ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) یہ گویا جماعتی زندگی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور جماعتی زندگی سے منسلک رہنے کے بہت سے فوائد اور بہت سی برکتیں ہیں ‘ جیسا کہ اس سے پہلے ہم سورة الانعام کی آیت ٧١ میں پڑھ آئے ہیں : (لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْہُدَی اءْتِنَا ط) ۔ جماعتی زندگی دراصل ایک قافلے کی مانند ہے۔ قافلے میں دوران سفر اگر کسی ساتھی کی ہمت جواب دے رہی ہو یا کوئی معذوری آڑے آرہی ہو تو دوسرے ساتھی اسے سہارا دینے ‘ ہاتھ پکڑنے اور ہمت بندھانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

96: یہ ان تین حضرات کے واقعے سے ملنے والا سبق ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے منافقین کی طرح جھوٹے سچے بہانے نہیں بنائے، بلکہ جو حقیقت تھی، وہ سچ سچ بیان کردی کہ ان کے پاس کوئی عذر نہیں تھا۔ ان کی اس سچائی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نہ صرف توبہ قبول فرمائی، بلکہ سچے لوگوں کی حیثیت سے قیامت تک کے لیے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں زندہ جاوید کردیا گیا۔ اس آیت میں یہ تعلیم بھی ہے کہ انسان کو اپنی صحبت سے سچے لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہئے، جو زبان کے بھی سچے ہوں، اور عمل کے بھی سچے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9۔ اور وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں۔ (ابن کثیر) یہ تین سچ کہنے سے بخشے گئے نہیں تو منافقین میں ملتے (موضح) ۔ حضرت کعب (رض) بن مالک کا بیان ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام مجھ پر یہ ہے کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سچ بولا ورنہ میں بھی جھوٹ بول کر ہلاک ہوجاتا جیسے دوسرے ہلاک ہوگئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم راستبازی پر مضبوطی سے قائم رہو اس لئے کہ راست بازی نیکی کی اور نیکی جنت کی راہ دکھاتی ہے۔ آدمی سچ بولتا اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری مسلم) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١٩ تا ١٢٢ اسرار و معارف صحبت کا اثر یہ لغزش بھی جو مخلصیں سے صادرہوئی اور اللہ کریم نے معاف بھی فرمادی ، مزید انعاواکرام سے بھی نوازا کہ اسقامت بھی بخشی اور اپنی رضامندی کی سند بھی ۔ مگر اس کی وجہ بھی جاننا ضروری ہے لہٰذامومنین کو چاہیئے کہ وہ صحبت صادقین اختیار کریں منافقین سے اگرچہ ولی دوستی نہ تھی ، مگر رسمی ملاقات تو تھی جس کے باعث انھیں ایسی باتیں کرنے کا موقع ہاتھ آیا جس نے مومنیں کے قلوب میں بھی ایک گونہ اضطراب پیدا کردیا ۔ اب یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کباررضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت کی برکات تھیں کہ ان کے قلوب میں خلوص جاگزیں تھا جو رحمت باری کے نزول کا سبب بنا اور یوں بات بگڑنے سے بچ گئی ۔ اگر نری منافقین سے ہی مجلس ہوتی تو نتیجہ کیا ہوتا ؟ لہٰذا مومن کو یہی زیبا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جنہیں اللہ سے ایسا تعلق ہوا بلکہ صادقین فرمانے سے یہ مراد ہے کو ایسے لوگ جن کی زبانیں یاد الٰہی سے تر اور دل اس کے نور سے روشن ہوں ۔ ان کی مجلس وصحبت نیکی کی طرف بڑھنے کا جذبہ عطا کرتی ہے لیکن اگر بدکاروں کی مجلس اختیار کی جائے تو وہ کیفیات قلب کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتی ہے ۔ اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی متاثرہو سکتے ہیں اور انھیں اس بات سے روکا گیا ہے تو ان لوگوں کا حال کیا ہوگا جو ساری عمربے دنیوں اور بدکاروں ہی کی مجالس میں کردیتے ہیں اور کفار کے ممالک اور معاشرے میں جانے کے لئے ہر آن بےقرار رہتے ہیں ۔ اہل مدینہ ہوں یا اہل عرب یہ تو بہت ہی خوش نصیب ہیں کہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ انکی صحبت اور رکابی کے مواقع نصیب ہوئے جنکی شفقت بےبہاکو ہمیشہ زمانہ تر سے گا اور روئے زمین کے مسلمان دل دجان سے صرف اس کا کلمہ ہی عزیز رکھیں گے اس کی مسجد اور شہر اور ملک کی حاضری اور اس کے روضئہ اطہر پہ اک نگاہ کے لئے ساری ساری عمربے قرار رہیں گے ۔ عظمت رسالت بھلایہ اس کا ایسی بےمثال ہستی کا ساتھ نہ دیں گے یہ تو کسی طرح زیباہی نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ جان سے زیادہ محبوب اس کی ذات کو رکھا جائے ۔ اور حق یہ ہے کہ سب مجتیں چاہتیں ان کے قدموں میں ڈھیر کردی جائیں ، انھیں ٹوٹ کے چاہاجائے ، اس لئے یہ ایک ایسی ذات ہے جس کی طلب میں جس کی اطاعت میں جس کے ہمرکاب ہر حرکت و سکون عبادت بن جاتی ہے ۔ نہ صرف عبادت قرار پاتی ہے بلکہ عبادت مقبول کا درجہ پاکر بیشمار انعامات کے حصول کا سبب بنتی ہے ۔ ان کے ہمرکاب پیاس لگے یا بھوک وقت پیش آئے یامشقت کفار کے خلاف سفراختیار کیا جائے یامورچہ میں قدم رکھیں دشمن کے قبضہ سے اقتدار چھنیا جائے یا کوئی شہر ہر کام بہترین عبادت قرار پاتا ہے ۔ اور ایسادرجہ پاتا ہے کہ جس کا اجر کبھی ضائع نہیں ہوتا ۔ اللہ کریم ان کے خادم لئے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں جو خلوص قلب سے اللہ کی طلب رکھتے ہیں ۔ یہ تو وہ ہستی ہے کہ جس کے اتباع میں لٹ جانا بھی بہت بڑی عبادت ہے حتی کہ کوئی بہت معمولی سی شے قربان کرے یا گھرہی لٹادے کوئی ایک قدم چلے یا بہت لمباسفر کرے۔ یہ بات طے ہے کہ اللہ کریم ان کے عمل سے کئی گنا زیادہ اجر عطافرمائیں گے۔ فرضیت جہاد کی صورتیں اب جہاد کی بات ہے تو اس کے لئے یہ تھوڑی ہے کہ سب مسلمان ہی چل دیں بلکہ قاعدہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جہاد میں مصروف ہوں اور باقی کے دوسرے خانگی یاقومی امور کی نگہداشت کریں مگر یہاں ان چند حضرات پر بھی اظہار ناراضگی تو ہوا جو پیچھے رہ گئے تھے تو مفسرین کے مطابق قاعدہ یہ ہے کہ جہاد فرض ہے مگر عمومی حالات میں یہ فرض کفایہ ہے یعنی اتنے لوگ جو یہ کام انجام دے سکیں وہ اس میں مصروف ہوجائیں تو باقی لوگ اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں گے لیکن اگر وہ کافی نہ ہوں تو قریب کے مسلمانوں پہ اس میں شرکت فرض عین ہوگی اس طرح ان سے بھی کام نہ ہوسکے یا ضرورت بڑھ جائے تو دوسرے قریب والوں پہ فرض عین ہوجائے گا اس طرح پوری دنیا کے مسلمانوں پہ بھی فرض عین ہوسکتا ہے ۔ دوسری صورت اعلان عام کی ہے کہ مسلمانوں کا امیراعلان عام کردے تو بغیرعذر شرعی سب کے لئے نکلنا ضروری ٹھہرے گا ۔ یہی صورت غزوئہ تبوک کی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان عام فرمادیا تھا لہٰذاپیچھے رہ جانا بہت بڑاجرم قرارپایا۔ علم دین کا حصول دوسرا اہم فریضہ دینی علم کا خاصل کرنا ہے جس کے فضائل تو بیشمار ہیں یہاں گنوانا ضروری نہیں الگ سے اس موضوع پر کتب موجود ہیں ہاں اس کی بھی مختلف صورتیں ہیں بعض میں فرض عین ہے اور بعض صورتوں میں فرض کفایہ ۔ فرض عین کی صورت یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق ہر مسلمان مرد اور عورت دین سے واقف ہومثلا عقائد فرائض و عبادات روز مرہ کے معمولات حرام و حلال جس سے روزانہ کی زندگی میں سابقہ پڑتا ہے یہ تو بلا امتیاز ہر مردو عورت کو جاننا ضروری ہے اور فرض عین ہے اب اس کی تفصیل وتشریح احکام ومسائل کی تحقیق یہ ہر فرد کے بس کی بات نہیں لہٰذا یہ فرض کفایہ ہے کہ ضرورت ذمے فرض ہے کہ یا کسی کو عالم بنائیں یا کسی عالم کو لا کر شہر میں رکھیں ۔ دوسری صورت فرض عین کی یہ ہے کہ جب کوئی معاملہ ذاتی طور پر پیش آجائے مثلا کوئی صاحب نصاب ہو تو زکٰوۃ کے احکام جاننا فرض عین ہوگا یا حج پر جانے والے کو احکام حج کا جاننایا تاجر کو تجارت کے قواعد کا علم ہونا نکاح کرنے پر نکاح اور طلاق کے مسائل سے واقفیت یہ فرض عین ہوگا اور آج کے دور کی سب بڑی مصیبت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس فرض سے غافل ہو رہے ہیں ۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مرحوم نے تفسیر مظہری کی جلدجہارم میں یہ لکھا ہے کہ علم تصوف سے مراد تصفیہ قلب جو غیر اللہ سے فارغ کردے اور قلب کو دوام حضور عطاکردے اور تزکیہ نفس جو رذائل سے نجات دلادے جیسے عجب کبر حسدریاء جب دنیا اور عبادات میں تساہل وغیرہ اور اخلاق حسنہ نصیب ہوں جیسے اعلیٰ اخلاق اور توبہ رضا بالقضا اور نعمت پہ شکرجب کہ مصیبت پہ صبر کی توفیق نصیب ہو۔ بلاشک یہ سب رذائل بہت شدت سے حرام ہیں اور ان کو صرف جاننا کافی نہیں بلکہ ان سے نجات جو تصفیہ قلب سے نصیب ہوتی ہے فرائض میں سب سے اہم فریضہ ہے کہ عبادات ظاہری بھی کوئی قیمت نہیں رکھتیں جب تک یہ قلبی کیفیات ساتھ نہ ہوں ۔ یہاں قاضی صاحب (رح) نے احادیث نقل فرمائی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد جب تک عمل خالص اللہ کے لئے نہ ہو مقبول نہیں ہوتا یا یہ فرمان کہ اللہ تمہارے اعمال کو نہیں تمہاری نیتوں کو دیکھتا ہے یعنی صورت کو نہیں تمہارے قلوب کو دیکھتا ہے اس پہ دال ہیں اور حق یہ ہے کہ جس طرح ذکر اللہ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے وہی فرضیت اس پہ بہت بڑی دلیل ہے اور تصوف سے مراد بدعات ورسومات ہرگز نہیں واولاد کو تو یہ ہر مسلمان پہ فرض عین ہے کہ جس سے دلوں میں نور اور اللہ سے دوام حضور پیدا ہو جس کا پھل اخلاص ہے۔ لہٰذا علم دین کے لئے محنت کرنا علوم ظاہری کو حاصل کرنا کیفیات باطنی کو پانا اور پھر واپس اپنوں میں آکر اسے پھیلانا یہ عام حالات میں فرض کفایہ ہے جبکہ ضروری علوم کو جاننافرض عین ہے لیکن اگر پورے قبیلے یا بستی یاشہر میں کوئی بھی ایساشخص نہ ہوتوسب گناہگار ہوں گے اور اسی طرح ملک میں نہ ہو تو سارا ملک یا دنیا ان کے وجود سے خالی ہوجائے تو دنیا بھر کے مسلمان ماخود ہوں گے ۔ چونکہ دین کی بقا اور ترویج کا بہت بڑاسبب یہی لوگ ہیں اور ان ہی کی محنت اور تربیت عام مسلمانوں کی اصلاح کا سبب اور انھیں برائی سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 119 تا 121 کونوا (ہو جائو) الصدقین (سچ بولنے والے) ان یتخلفوا (یہ کہ وہ مخالفت کرلیں) لایرغبوا (رغبت نہ کریں) لا یصیب (نہیں پہنچے گا) ظما (پیاس) نصب (محنت، مشقت) مخمصۃ (بھوک) لایطنون (وہ نہیں روندے) موطنی (چلنے کی جگہ ) یغیط (غصہ میں آئیں) لاینالون (وہ حاصل نہیں کرتے) کتب (لکھا گیا، فرض کیا گیا) لایضیع (وہ ضائع نہیں کرتا) لاینفقون (وہ خرچ نہیں کرتے ہیں) نفقۃ صغیرۃ (معمولی خرچ) لایقطعون (وہ نہیں کاٹتے ہیں، وہ نہیں طے کرتے ہیں) وادیا (وادی، گھاٹی، میدان) احسن (زیادہ بہتر) تشریح :- آیت نمبر 119 تا 121 گزشتہ آیات میں منافقین اور مخلص اہل ایمان کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے منافقین نے غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بھی عذر پیش کیا آپ نے قبول فرما کر ان کے معامل کو اللہ کے سپرد فرما دیا اور ان کے حالات اور بیان کی مزید تصدیق نہیں فرمائی لیکن بعض وہ مخلص صحابہ کرام جو کسی سستی یا غفلت کی بنا پر آپ کے ساتھ نہ جاسکے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا لیکن محض وقتی مفاد اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگاہوں میں بہتر بننے کیلئے انہوں نے جھوٹ نہیں بولا۔ بیشک سچ بولنے کی وجہ سے ان کو سخت تکلیفیں اٹھانا پڑیں (جس کا تفصیل سے ذکر گزشتہ آیات میں کردیا گیا ہے لیکن ان کو اس کا سب سے بڑا انعام یہ ملا کہ قرآن کریم میں باقاعدہ ان کی معافی کا اعلان فرمایا گیا اور ان کے ذکر کو قیامت تک قرآن کریم میں محفوظ کردیا گیا۔ قیامت تک قرآن کریم پڑھا جاتا رہے گا اور ان صحابہ کرام کا ذکر بھی زندہ جاوید رہے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے ، سچ پر قائم رہنے والے صحابہ کرام کو ایک مثال بناتے ہوئے اس پر چلنے کا حکم فرمایا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ تقویٰ ، سچائی اور اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھانا انسان کو نہ صرف اجر وثواب اور اس کے انعامات کا مستحق بنا دیتا ہے بلکہ ان لوگوں کی زندگیاں دوسروں کے لئے ایک خوبصورت مثال بن جایا کرتی ہیں۔ ان آیات میں ان صحابہ کرام کی زندگی کو ایک خوبصورت مثال بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا کہ سچ بولنا اتنی بڑی نیکی ہے کہ اگر انسان اپنی غفلت اور سستی میں کوئی لغزش بھی کر بیٹھتا ہے تو اس کا سچ اس کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ اگر حضرت کعب بن مالک حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ جن کا ذکر گزشتہ آیات میں کر کے ان کی معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔ سچ نہ بولتے بلکہ خدانخواستہ منافقین کی طرح بہانے بنا کر اپنی جان چھڑا لیتے تو ان کی معافی کا ذکر قرآن مجید میں نہ ہوتا۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ ” سچ انسان کو نجات دیتا ہے اور جھوٹ انسان کو ہلاک کرتا ہے۔ “ بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ مسعود نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سچائی کی عادت اختیار کرو کیونکہ سچ بولنے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اور نیکی اس کو جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ آدمی سچ بولتا ہے اور کوشش کر کے سے سچ بولنے کے موقعے تلاش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کی بارگاہ میں صادق (سچ بولنے والا) کے نام سے مشہور ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ جھوٹ انسان میں فسق (گناہ) کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور اس کا فسق اس کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔ انسان جھوٹ بولتا ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں چھوڑتا کہ جس میں جھوٹ نہ بولے یہاں تک کہ وہ اللہ کی بار گاہ میں کذاب (جھوٹا) کا لقب حاصل کرلیتا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سچ بولنے سے نہ صرف نیکی اور بھلائی کی توفیق عطا کی جاتی ہے بلکہ انسان کو اللہ کی نظر میں محبوب اور جنت کا حق دار بنا دیتا ہے اس کے برخلاف جھوٹ بولنے والے کو نہ صرف گناہوں پر جرأت ہوتی ہے بلکہ وہ اللہ کی نظر میں برا اور جہنم کی ابدی آگ کا مستحق بن جاتا ہے اسی لئے سورة انعام میں ظالموں اور فاسقوں کی صحبت سے بچنے اور پاس بیٹھنے سے انسان کو نصیحت ملتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرو تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیز گاری کا اعلیٰ مقام حاصل ہو سکے۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جب اللہ کی راہ میں نکلنے والوں اور تکلیفیں اٹھانے والوں کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے تو ایک مومن کی کسی طرح کی سستی کاہلی اور غفلت مناسب نہیں ہے خواہ ان کو شہری زندگی حاصل ہو یا دیہاتی جو بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا اور اس راستے کی سختیوں کو برداشت کرے گا وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کی محنت ضائع ہوگئی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی کا ایک عمل اور کام لکھا جا رہا ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ہی ایک واقعہ احادیث میں لکھا گیا ہے کہ انسان کو کس طرح بھلائی کی توفیق ملتی ہے اور وہ نوازا جاتا ہے۔ ابو خیثمہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی ہیں یہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو کسی غفلت یا سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوگئے تو وہ ایک دن اپنے خوبصورت باغ میں گئے وہاں خوب گھنا سایہ تھا۔ ان کی بیوی بھی موجود تھیں۔ انہوں نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کرلیا۔ چٹائی بچھا کر تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے ، ٹھنڈا ٹھنڈا پانی رکھ کر ابھی کھانا ہی شروع کیا تھا کہ اچانک ان کے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوند گئی اور ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ میں تو یہاں عیش و آرام سے کھانے پینے میں لگا ہوا ہوں اور اللہ کے پیارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی، لو اور تشنگی کے عالم میں کوہ بیاباں طے کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس خیال کے آتے ہی میں نے سواری منگوائی ، تلوار ہاتھ میں لی نیزہ سنبھالا اور اونٹنی کو دوڑاتا ہوا ریت کے ٹیلے اور پہاڑوں سے بڑی تیزی کے ساتھ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر کے پاس پہنچ گیا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے پہچان لیا اور میں مجاہدین کے ساتھ شریک جہاد ہوگیا۔ شاید یہ آیات حضرت ابو خیثمہ صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ان جیسے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہوں واقعی صحابہ کرام کی کتنی بڑی شان ہے کہ ان کی ہر قربانی اور ادا کو بھی اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے محفوظ فرما دیا اور قرآن کریم نے بتا دیا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہر طرح کی تکلیفیں بردشات کرتے ہیں وہ زندہ جاوید ہوجایا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین۔ اے ایمان والو ! اللہ (کی نافرمانی اور عذاب) سے ڈرو اور رہو سچوں کے ساتھ۔ یعنی جو لوگ ایمان اور وعدوں میں سچے ہیں۔ یا وہ لوگ جو اسلام میں سچے ہیں ‘ نیت کے خلوص ‘ قول کی صداقت اور عمل کے اعتبار سے (گویا پہلے قول پر صدق سے مراد ہے ایمان اور وعدہ کی سچائی اور دوسرے قول پر مراد ہے نیت کا خلوص اور قول و عمل کی سچائی) مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں سچائی کو اختیار کرو اور سچائی کی پابندی کرو۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نے فرمایا : یعنی محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہو جن کی نیتیں خالص ہیں ‘ دل بےلوث ہیں اور اعمال میں اخلاص ہے۔ اخلاص اور سچے ارادہ سے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ہمرکاب تبوک کو نکلے ہیں۔ منافقوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا ساتھ نہیں دیا۔ حضرت سعید بن جبیر نے الصادقین کی تفسیر ابوبکر وعمر سے کی ‘ یعنی ابوبکر و عمر کے ساتھ رہو۔ ضحاک نے کہا : حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر اور ان حضرات کے ساتھیوں کے ساتھ رہنے کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس کا قول آیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ رہو۔ سفیان ثوری نے فرمایا : یہ (اپنی طرف سے) تفسیری اختلاف ہے ‘ آیت ان سب تفسیروں کو شامل ہے۔ یہ بھی مراد ہے ‘ وہ بھی مراد ہے (کسی ایک کی تعیین نہیں) ۔ ابن جریج نے کہا : الصادقین سے مہاجرین مراد ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : لِلْفُقَرَاء الْمُھَاجِرِیْنَ ......... اُولٰٓءِکَ ھُمُ الصَّدِقُوْنَ (اس آیت میں مہاجرین کو ہی صادقین فرمایا ہے) ۔ بعض نے کہا : الصادقین سے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے اپنے گناہ کا سچے دل سے اعتراف کرلیا ‘ جھوٹے عذر نہیں پیش کئے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : جھوٹ بولنا کسی طرح درست نہیں ‘ نہ مذاق میں نہ سنجیدہ کلام میں۔ کوئی شخص اپنے بچہ (کو بہلانے کیلئے اس) سے ایسا وعدہ نہ کرے جس کو پورا نہ کرے۔ اگر تم (اس قول کی) تصدیق چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو۔ پھر آپ نے آیت مندرجۂ بالا پڑھی :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سچوں کے ساتھ ہوجانے کا حکم اوپر کی دو آیتوں میں حضرت کعب بن مالک اور ان کے دونوں ساتھیوں کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ یہ آیت بھی انہی آیات کے ساتھ نازل ہوئی۔ حضرت کعب اور ان کے ساتھیوں نے سچ بولا اور سچ ہی کی وجہ سے نجات ہوئی (جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے) اس آیت میں سچائی کی اہمیت اور ضرورت بتانے کے لیے عامۃ المسلمین کو حکم فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اللہ سے ڈرنے کا حکم قرآن مجید میں جگہ جگہ وارد ہوا ہے۔ اس آیت میں تقویٰ حاصل ہونے کا ایک طریقہ بتادیا اور وہ یہ ہے کہ صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ عربی میں صادق سچے کو کہتے ہیں اور سچائی کو صدق کہتے ہیں۔ دین اسلام میں صدق کی بہت بڑی اہمیت اور فضیلت ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ایمان، اقوال اور اعمال سب میں ضرورت ہے۔ اس کی ضد کذب یعنی جھوٹ ہے۔ جھوٹ سے دین اسلام کو بہت سخت نفرت ہے۔ اور اس کی شدید ممانعت ہے۔ مومن بندہ پر لازم ہے کہ ان وعدوں میں سچا ہو جو وہ مخلوق سے کرتا ہے۔ بندوں کے ساتھ جو رہنا سہنا ہو اس میں بھی سچائی کو سامنے رکھے۔ اگر سچائی پیش نظر نہ رہے تو جھوٹ بولے گا اور دھوکہ دے گا۔ سورة زمر میں فرمایا (وَالَّذِیْ جَاء بالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) (اور جو شخص سچ لے کر آیا اور سچ کی تصدیق کی سو یہ لوگ تقویٰ والے ہیں) اس میں سچائی اختیار کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں صفت تقویٰ سے متصف بتایا ہے۔ سورة حجرات میں فرمایا (اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاھَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ ) (بلاشبہ مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہیں کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا، یہ وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں) اس میں یہ بتادیا کہ ایمان میں سچائی ہونا لازم ہے۔ اگر دین کی کسی بات کو نہ مانا یا عقائد دینیہ کے کسی عقیدہ میں شک کیا گو وہ لوگوں کے سامنے بظاہر مسلمان ہونے کی وجہ سے مومن سمجھا جائے گا لیکن اللہ کے ہاں مومن نہ ہوگا کیونکہ اس کے ایمان میں سچائی نہیں ہے پھر عملی طور پر بھی ایمان کے تقاضوں کو پورا کر کے دکھانا لازم ہے۔ اللہ کی راہ میں مالوں سے، جانوں سے جہاد کریں اور یہ سب کچھ دل کی گہرائیوں سے پوری سچائی کے ساتھ ہو۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے نہ جان جانے کی پرواہ ہو نہ مال خرچ ہونے سے نفس میں کوئی خلش اور چبھن محسوس ہوتی ہو۔ جو بھی عمل کریں اس میں نیت کی سچائی ہو یعنی صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت ہو۔ بندوں کو معتقد بنانا ان سے تعریف کروانا اعمال صالحہ کے ذریعہ دنیا طلب کرنا اور شہرت کے لیے علم حاصل کرنا مقصود نہ ہو۔ جیسی عبادت مخلوق کے سامنے کرے جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو، ایسی ہی عبادت تنہائی میں کرے۔ ایسا نہ کرے کہ لوگوں کے سامنے لمبی نماز اور اچھی نماز پڑھے اور تنہائی میں نماز پڑھے تو جلدی جلدی نمٹا دے نہ رکوع سجدہ ٹھیک ہو نہ تلاوت صحیح ہو نہ خشوع و خضوع ہو۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ جب بندہ ظاہر میں نماز پڑھتا ہے اور اچھی نماز پڑھتا ہے پھر لوگوں سے علیحدہ ہو کر تنہائی میں نماز پڑھتا ہے تب بھی اچھی نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ھٰذا عَبْدِیْ حَقًّا) کہ سچ مچ یہ میرا بندہ ہے۔ (رواہ ابن ماجہ کمافی المشکوٰۃ ص ٤٥٥) حضرت شیخ سعدی (رح) نے گلستان میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک صاحب جو بزرگ سمجھے جاتے تھے اپنے ایک لڑکے کے ساتھ بادشاہ کے مہمان ہوئے وہاں انہوں نے نماز پڑھی اور کھانا کم کھایا، جب واپس گھر آئے تو اہل خانہ سے کھانا طلب کیا۔ لڑکے نے کہا کہ ابا جان نماز بھی دوبارہ پڑھئے، کیونکہ جیسے وہاں کھانا کم کھانا اللہ تعالیٰ کے لیے نہ تھا ایسے ہی آپ کی نماز بھی اللہ کے لیے نہ تھی۔ جب بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں اور (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ ایَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ) کے الفاظ زبان سے ادا کرتا ہے تو اسے ظاہر سے اور باطن سے اللہ ہی کا بندہ بننا لازم ہے۔ زبان سے اللہ کا بندہ ہونے کا دعویٰ اور عملی طور پر دنیا کا بندہ، خواہشوں کا بندہ۔ دینار اور درہم کا بندہ۔ یہ شان عبدیت کو زیب نہیں دیتا، دعوائے بندگی میں سچا ہونا لازم ہے۔ جب دعا کرے تو دعا میں بھی سچائی ہونی چاہئے یعنی جب یوں کہے کہ اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں تو پوری طرح متوجہ ہو کر حقیقی سوالی بن کر سوال کرے۔ زبان سے دعاء کے الفاظ جاری ہیں لیکن دل غافل ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ کیا مانگ رہا ہوں ؟ یہ سچ اور سچائی کے خلاف ہے۔ جب اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو سچے دل سے حضور قلب کے ساتھ مغفرت طلب کرے۔ ایسا نہ ہو کہ زبان سے تو یوں کہہ رہا ہے کہ میں مغفرت چاہتا ہوں لیکن دل اور کہیں لگا ہوا ہے۔ یہ صدق اور سچائی کے خلاف ہے۔ اسی لیے حضرت رابعہ بصریہ رحمۃ اللہ علیہا نے فرمایا استغفارنا یحتاج الی استغفار کثیر۔ کہ ہمارا استغفار کرنا بھی صحیح استغفار نہیں ہے۔ اس کے لیے بھی استغفار کی ضرورت ہے (ذکرہ ابن الجزری فی الحصن) اگر قسم کھائے تو اللہ کی قسم کھائے اور سچی قسم کھائے آئندہ کسی عمل کے کرنے پر قسم کھائی تو قسم پورا کرے (شرط اس میں بھی وہی ہے کہ گناہ کی نذر نہ ہو) ۔ جب کسی نیک کام کرنے کا ارادہ اور وعدہ کرے تو سچا کر دکھائے۔ حضرت انس (رض) کے چچا انس بن نضر غزوہ بدر میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے۔ اس کا انہیں بہت رنج ہوا، کہنے لگے کہ افسوس ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلی بار مشرکین سے جنگ کی اور اس میں شریک نہ ہوا۔ اگر اللہ نے مجھے مشرکین سے قتال کرنے کا موقعہ دیا تو میں جان جوکھوں میں ڈال کر دکھا دوں گا۔ آئندہ سال جب غزوۂ احد پیش آیا اور اس میں مسلمان شکست کھا گئے تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ میں مشرکین کے عمل سے برأت ظاہر کرتا ہوں اور یہ جو مسلمانوں نے شکست کھائی ان کی طرف سے معذرت پیش کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے احد سے ورے جنت کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے اور مشرکین سے بھڑ گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ شہادت کے بعد دیکھا گیا تو ان کے جسم میں تلواروں اور نیزوں کے اسی سے کچھ اوپر زخم تھے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ ) (مومنین میں ایسے افراد ہیں جنہوں نے اپنا عہد پورا کر دکھایا جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا) حضرات صحابہ (رض) سمجھتے تھے کہ یہ آیت حضرت انس بن نضر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ (ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور ص ١٩٤ ج ٥) و عزاہ الی الترمذی و النسائی و البیھقی فی الدلائل۔ و رواہ البخاری مختصراً ص ٦٠٥ ج ٢) حضرت ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ احد سے فارغ ہوئے تو حضرت مصعب بن عمیر (رض) پر آپ کا گزر ہوا۔ آپ نے ان کو مقتول پڑا ہوا دیکھا اور آیت (رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ) تلاوت فرمائی۔ (درمنثور ص ١٩١ ج ١ عن الحاکم و البیہقی فی الدلائل) جو شخص عالم نہ ہو وہ طرز گفتگو سے یہ ظاہر نہ کرے کہ میں عالم ہوں۔ اگر کوئی شخص عالم بھی ہو اور مسئلہ معلوم نہ ہو تو اٹکل سے مسئلہ نہ بتائے کیونکہ اس میں اس کا دعویٰ ہے کہ میں جانتا ہوں اور یہ دعویٰ جھوٹا ہے پھر اٹکل سے بتانے میں غلطی ہوجاتی ہے اس میں اپنا بھی نقصان ہے اور سوال کرنے والے کو بھی دھوکہ دینا ہے اور گمراہ کرنا ہے۔ اگر کسی کے پاس مال یا علم و عمل کا کمال نہ ہو تو اپنی حقیقی حالت کے خلاف ظاہر نہ کرے، کیونکہ یہ صدق و سچائی کے خلاف ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ایک سوتن ہے اگر میں جھوٹ موٹ (اسے جلانے کے لیے) یوں کہہ دوں کہ شوہر نے مجھے یہ یہ کچھ دیا ہے اور حقیقت میں نہ دیا ہو تو کیا اس میں کچھ گناہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اَلْمُتَشَبِّعُ بِِمَا لَمْ یُعْطَ کَلَا بِسِ ثَوْبَیْ زُوْرٍ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٨١ از بخاری و مسلم) کہ جس شخص نے جھوٹ یہ ظاہر کیا کہ مجھے یہ چیز دی گئی ہے حالانکہ اسے نہیں دی گئی اس کی ایسی مثال ہے جیسے کیسی نے جھوٹ کے دو کپڑے پہن لیے (یعنی سر سے پاؤں تک وہ جھوٹا ہی جھوٹا ہے) اس حدیث کا مفہوم بہت عام ہے۔ ہر قسم کے جھوٹے دعویداروں کو شامل ہے۔ سچ اور جھوٹ اقوال میں منحصر نہیں، اعمال و احوال اور لباس اور دعاوی اور عزائم ان سب میں سچ اور جھوٹ کی شان پیدا ہوجاتی ہے ہر مومن بندہ اپنی نگرانی کرے اور سچ ہی کو اختیار کرے اور ہر طرح کے جھوٹ سے بچے۔ اصلاح بین الناس یا بعض دیگر مواقع میں جو جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے، وہ مستثنیٰ ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جانوں کی طرف سے مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (١) جب بولو تو سچ بولو (٢) وعدوں کو پورا کرو (٣) جو امانتیں تمہارے پاس رکھی جائیں انہیں ادا کرو۔ (٤) اپنی شرم کی جگہوں کی حفاظت کرو۔ (٥) اپنی نظروں کو نیچا رکھو۔ (٦) اپنے ہاتھوں کو (ظلم و زیادتی سے) بچائے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٥) عبداللہ بن عامر (رض) کا بیان ہے کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے میری والدہ نے کہا آ میں تجھے دے رہی ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم نے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا انہوں نے کہا میں نے کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا آپ نے فرمایا اگر تو اسے کچھ بھی نہ دیتی تو تیرے اعمال نامہ میں ایک جھوٹ لکھا جاتا (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤١٦) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کو راضی کرنے کے لیے بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ان سے جو وعدہ کریں وہ بھی سچا ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم سچ کو لازم پکڑو کیونکہ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور بیشک نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور انسان برابر سچ اختیار کرتا ہے اور سچ ہی پر عمل کرنے کی فکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گنہگاری کی طرف لے جاتا ہے اور گنہگاری دوزخ میں لیجاتی ہے اور انسان جھوٹ کو اختیار کرتا ہے اور جھوٹ ہی کے لیے فکر مند رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تیرے اندر چار خصلتیں ہوں تو ساری دنیا بھی اگر تجھ سے جاتی رہے تو کوئی ڈر نہیں۔ (١) امانت کی حفاظت (٢) بات کی سچائی (٣) اخلاق کی خوبی (٤) لقمہ کی پاکیزگی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٥) صادقین کی مصاحبت ابھی صدق کی فضیلت اور اہمیت اور اس کے مقابل جو صفت کذب ہے اس کی مذمت اور شناعت و قباحت معلوم ہوئی۔ حضرات مفسرین کرام نے (وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) کا ایک مطلب تو یہ بھی لکھا ہے کہ کونوا مثلھم فی صدقھم جو لوگ صادقین ہیں انہیں کی طرح ہوجاؤ یعنی صدق ہی کو اختیار کرو اور ایمان و اعمال و اقوال میں صادقین کی راہ پر چلو اور جس واقعہ کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اس کی مناسبت سے یہی معنی زیادہ اظہر ہیں۔ کیونکہ حضرت کعب اور ان کے دونوں ساتھی جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ جانے سے رہ گئے تھے وہ ان کے ساتھ عمل صدق میں شریک نہ ہوئے تھے۔ لیکن الفاظ کا عموم اس بات کو بھی بتاتا ہے کہ صادقین کی صحبت اختیار کرو۔ صحبت کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ اچھی صحبت اور بری صحبت دونوں بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں جو اچھوں کی صحبت اٹھائے گا اس میں خوبی پیدا ہوگی اور جو بروں کی صحبت میں رہے گا اس میں برائیاں آتی چلی جائیں گی اور اس کا نفس برائیوں سے مانوس ہوجائے گا اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (لَا تُصَاحِبْ اِلَّا مُؤْمِنًا وَ لَا یَاْکُلُ طَعَامَکَ الاَّ تَقِیٌّ) صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور تیرا کھانا (یعنی طعام ضیافت) متقی کے سوا کوئی نہ کھائے (رواہ الترمذی) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے سو تم میں سے ہر شخص غور کرے کہ اس کی دوستی کس سے ہے (رواہ الترمذی) (اگر اچھے لوگوں سے دوستی ہے تو اچھا آدمی ہے اور برے لوگوں سے دوستی ہے تو سمجھ لے کہ تو برا آدمی ہے) ۔ پس ہر شخص کو معاشرت کے لیے اٹھنے بیٹھنے کے لیے مسافرت کے لیے اور مصاجت کے لیے صادقین کی صحبت اختیار کرنا لازم ہے جیسے ساتھی ہوں گے ویسا ہی خود ہوجائے گا اور یہ ایسی چیز ہے جس کا عموماً مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ سچوں کے ساتھ ہونے میں تقویٰ کا حکم دینے کے بعد سچوں کے ساتھ ہونے کا حکم دیا۔ اپنے لیے بھی صادقین اور صالحین کی مصاحبت کا فکر کریں اور اپنی اولاد کے لیے بھی اسی کو سوچیں، صادقین کے ساتھ بھی رہیں ان کی کتابیں بھی پڑھیں۔ کتاب بھی بہترین ساتھی ہے مگر کتاب اچھی ہو۔ اچھائی سکھاتی ہو اور اچھے لوگوں کی لکھی ہوئی ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

119 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ یعنی عمل میں ان لوگوں کے ساتھ جو قول اور فعل دونوں میں سچے ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ تین شخص سچ کہنے سے بخشے گئے نہیں تو منافقوں میں ملتے۔