Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 120

سورة التوبة

مَا کَانَ لِاَہۡلِ الۡمَدِیۡنَۃِ وَ مَنۡ حَوۡلَہُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ اَنۡ یَّتَخَلَّفُوۡا عَنۡ رَّسُوۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَرۡغَبُوۡا بِاَنۡفُسِہِمۡ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ لَا یُصِیۡبُہُمۡ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ وَّ لَا مَخۡمَصَۃٌ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَطَئُوۡنَ مَوۡطِئًا یَّغِیۡظُ الۡکُفَّارَ وَ لَا یَنَالُوۡنَ مِنۡ عَدُوٍّ نَّیۡلًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمۡ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۙ

It was not [proper] for the people of Madinah and those surrounding them of the bedouins that they remain behind after [the departure of] the Messenger of Allah or that they prefer themselves over his self. That is because they are not afflicted by thirst or fatigue or hunger in the cause of Allah , nor do they tread on any ground that enrages the disbelievers, nor do they inflict upon an enemy any infliction but that is registered for them as a righteous deed. Indeed, Allah does not allow to be lost the reward of the doers of good.

مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گردو پیش ہیں ان کو یہ زیبا نہیں تھا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں ، یہ اس سبب سے کہ ان کو اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو تھکان پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جو خبر لی ان سب پر ان کے نام ( ایک ایک ) نیک کام لکھا گیا ۔ یقیناً اللہ تعالٰی مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Rewards of Jihad Allah says; مَا كَانَ لاِاَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الاَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ اللّهِ وَلاَ يَرْغَبُواْ بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لاَ يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلاَ نَصَبٌ وَلاَ مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللّهِ ... It was neither befitting for the people of Al-Madinah and the Bedouins of the neighborhood to remain behind Allah's Messenger nor to prefer their own lives to his life. That is because they suffer neither Zama nor Nasab, nor Makhmasah in the cause of Allah, Allah, the Exalted and Most Honored, criticizes the people of Al-Madinah and the Bedouins around it, who did not participate in the battle of Tabuk with the Messenger of Allah. They sought to preserve themselves rather than comfort the Messenger during the hardship that he suffered in that battle. They incurred a loss in their share of the reward, since, ... لااَ يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ ... they suffer neither Zama, (thirst), ... وَلاَ نَصَبٌ ... nor Nasab, (fatigue), ... وَلاَ مَخْمَصَةٌ ... nor Makhmasah, (hunger), ... فِي سَبِيلِ اللّهِ ... in the cause of Allah, ... وَلاَ يَطَوُونَ مَوْطِيًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ ... nor they take any step to raise the anger of disbelievers, by strategies of war that would terrify their enemy, ... وَلاَ يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلً ... nor inflict any injury upon an enemy, a defeat on the enemy, .... إِلاَّ كُتِبَ لَهُم ... but is written to their credit, as compensation for these steps that are not under their control, but a consequence of performing good deeds that earn them tremendous rewards, ... بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ... ...as a deed of righteousness. ... إِنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ Surely, Allah wastes not the reward of the doers of good. Allah said in a similar Ayah, إِنَّا لاَ نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلً Certainly We shall not make the reward of anyone who does his (righteous) deeds in the most perfect manner to be lost. (18:30)

غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو نے والوں کو تنبیہہ ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ مدینے والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو مجاہدین کے برابر ثواب والا نہیں سمجھنا چاہیے وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہ گئے جو ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا ۔ مجاہدین کو ان کی پیاس پر تکلیف پر بھوک پر ، ٹھہرنے اور چلنے پر ، ظفر اور غلبے پر ، غرض ہر ہر حرکت و سکون پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے ۔ رب کی ذات اس سے پاک ہے کہ کسی نیکی کرنے والے کی محنت برباد کر دے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

120۔ 1 جنگ تبوک میں شرکت کے لئے چونکہ عام منادی کردی گئی تھی، اس لئے معزورین، بوڑھے اور دیگر شرعی عذر رکھنے والوں کے علاوہ۔ سب کے لئے اس میں شرکت ضروری تھی لیکن پھر بھی جو مدینہ یا اطراف مدینہ میں اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو لعنت ملامت کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔ 120۔ 2 یعنی یہ بھی ان کے لئے زیبا نہیں کہ خود اپنی جانوں کا تحفظ کرلیں اور رسول اللہ کی جان کے تحفظ کا انہیں خیال نہ ہو۔ بلکہ انہیں رسول کے ساتھ رہ کر اپنے سے زیادہ ان کی تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ 120۔ 3 ذٰ لِکَ سے پیچھے نہ رہنے کی علت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی انہیں اس لئے پیچھے نہیں رہنا چایئے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیاس، تھکاوٹ، بھوک پہنچے گی یا ایسے اقدام، جن سے کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دشمنوں کے آدمیوں کو قتل یا ان کو قیدی بناؤ گے، یہ سب کے سب کام عمل صالح لکھے جائیں گے یعنی عمل صالح صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی مسجد میں یا کسی ایک گوشے میں بیٹھ کر نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی وغیرہ کرے بلکہ جہاد میں پیش آنے والی ہر تکلیف اور پریشانی، حتیٰ کہ وہ کاروائیاں بھی جن سے دشمن کے دلوں میں خوف پیدا ہو یا غیظ بھڑکے، ان میں سے ہر ایک چیز اللہ کے ہاں عمل صالح لکھی جائے گی، اس لئے محض شوق عبادت میں بھی جہاد سے گریز صحیح نہیں، چہ جائے کہ بغیر عذر کے ہی آدمی جہاد سے جی چرائے ؟ 120۔ 4 اس سے مراد پیادہ، یا گھوڑوں وغیرہ پر سوار ہو کر ایسے علاقوں سے گزرنا ہے کہ ان کے قدموں کی چابوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے دشمن کے دلوں پر لرزہ طاری ہوجائے اور ان کی آتش غیظ بھڑک اٹھے 120۔ 5 دشمن سے ' کوئی چیز لیتے ہیں یا ان کی خبر لیتے ہیں ' سے مراد، ان کے آدمیوں کو قتل یا قیدی کرتے ہیں یا انہیں شکست سے دو چار کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٦] رسول اللہ کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے :۔ یعنی رسول اللہ تو سفر تبوک کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلمان ان کے بعد اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں۔ اور اللہ کے رسول کی جان سے اپنی جانوں کو عزیز تر سمجھیں۔ ایک صحابی ابو خیثمہ بھی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اپنے باغ میں گئے وہاں ٹھنڈا سایہ تھا۔ آپ کی بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کیا۔ چٹائی کا فرش کیا۔ تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے اور ٹھنڈا میٹھا پانی بھی حاضر کیا۔ یہ سامان عیش دیکھ کر دفعتاً ابو خیثمہ کے دل میں بجلی کی سی ایک لہر دوڑ گئی۔ بولے تف ہے اس زندگی پر کہ میں تو خوشگوار سائے، ٹھنڈے پانی اور باغ و بہار کے مزے لوٹوں اور اللہ کا رسول ایسی سخت لو اور تپش اور تشنگی کے عالم میں سفر کر رہے ہوں۔ یہ خیال آتے ہی سواری منگائی، تلوار حمائل کی، نیزہ سنبھالا اور فوراً چل کھڑے ہوئے۔ اونٹنی تیز ہوا کی طرح چل رہی تھی۔ آخر لشکر کے پاس پہنچ گئے۔ آپ نے دور سے دیکھا کہ کوئی شتر سوار ہوا کے دوش پر سوار گرد اڑاتا چلا آرہا ہے اور فرمایا اللہ کرے یہ ابو خیثمہ ہو۔ تھوڑی دیر میں دیکھ لیا کہ وہ ابو خیثمہ صہی تھے۔ اور رسول اللہ نے فرمایا کہ جب تک کوئی مومن مجھے اپنی جان سے بھی عزیز نہ سمجھے اس وقت تک اس کا ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں آیا ہے۔ عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا عمر کہنے لگے : یا رسول اللہ ! آپ میرے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں && آپ نے فرمایا && نہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز (محبوب) نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہوسکتے۔ && سیدنا عمر نے عرض کیا && اللہ کی قسم ! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ && آپ نے فرمایا && ہاں اے عمر ! (یعنی اب تم صحیح مسلمان ہو) (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی ) [١٣٧] یعنی جہاد کے سفر میں مجاہد کے ہر ایک فعل کے بدلے ایک عمل صالح اس کے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے خواہ یہ فعل غیر اختیاری ہو۔ جیسے بھوک پیاس کو برداشت کرنا یا تھکاوٹ یا کوئی ایسی تکلیف اسے اس راہ میں پیش آرہی ہو یہ سب اس کے صالح اعمال میں شمار ہوں گے اور خواہ یہ فعل اختیاری ہوں جیسے سفر طے کرنا، دشمن سے کوئی علاقہ چھیننا یا اس سے جنگ کر کے کامیابی حاصل کرنا، ان تمام تر کاموں کا اللہ کے ہاں انہیں اجر ملے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ : مدینہ میں رہنے والے لوگوں اور ان کے اردگرد رہنے والے بدویوں یعنی مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ قبائل کے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ تنگی اور تکلیف میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہیں اور مشکل مواقع پر پیش آنے والے تمام مصائب و آلام میں خوش دلی کے ساتھ آپ کے ہمراہ رہیں، جو سختیاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھا رہے ہیں وہ بھی اٹھائیں، کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزیز اور مکرم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں، تو جب آپ اتنی عزت و کرامت کے باوجود ان سختیوں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو پھر سب کا حق ہے کہ جن چیزوں کا سامنا آپ کر رہے ہیں وہ بھی کریں اور آپ کی جان عزیز کی خاطر اپنی جانوں کی نہ پروا کریں، نہ ان کی کوئی قدر و قیمت سمجھیں، کجا یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اپنی جان اور اپنا راحت و آرام سب کچھ قربانی کے لیے پیش کریں اور یہ اپنی جانیں بچا بچا کر رکھیں، یہ کبھی بھی ان کا حق نہیں بنتا۔ (زمخشری) عبداللہ بن ہشام (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، آپ نے عمر بن خطاب (رض) کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا تو عمر (رض) نے آپ سے کہا : ” یا رسول اللہ ! یقیناً آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں، سوائے میری جان کے۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یہاں تک کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔ “ تو عمر (رض) نے کہا : ” تو پھر یقین کیجیے کہ اب اللہ کی قسم ! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اب اے عمر ! (تو کامل مومن ہوا) ۔ “ [ بخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کان یمین النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٦٦٣٢ ] ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ : ” ظَمَاٌ“ پیاس، ” نَصَبٌ“ تھکاوٹ، مشقت، محنت۔ ” مَخْمَصَةٌ“ سخت بھوک جس میں پیٹ ساتھ لگ جائے، جس طرح پاؤں کا تلوا (اَخْمَصُ ) ہوتا ہے۔ ” وَطِئَ یَطَأُ “ مَوْطِءًا (ع) “ ظرف ہے، روندنے، قدم رکھنے کی جگہ۔ ” غَاظَ یَغِیْظُ “ غصہ دلانا، یعنی جن راستوں، پہاڑیوں، بستیوں، زمینوں، مکانوں اور کھیتوں وغیرہ پر ان کے قدم رکھنے سے یا ان کے گھوڑوں اور دوسری سواریوں کے انھیں روندتے ہوئے گزرنے سے کفار کے دلوں میں غصہ اور جلن پیدا ہو اور وہ ہراساں اور خوف زدہ ہوں۔ (ابن کثیر) ” وَلَا يَنَالُوْنَ “ ” نَالَ یَنَالُ “ کا لفظی معنی لینا، حاصل کرنا ہے، یعنی مسلمان دشمن کی کوئی زمین یا شہر فتح کریں، یا انھیں قتل یا قید کریں، یا مال غنیمت حاصل کریں، یا انھیں کوئی نقصان پہنچائیں، غرض ان سے حاصل ہونے والی ہر کامیابی اور ہر نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے اور اس کا اجر انھیں ضرور ملے گا، کیونکہ ان کے یہ تمام اعمال اللہ کی خاطر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماں برداری میں ہیں اور اسی کا نام احسان اور نیکی ہے اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The two verses cited above admonish those who missed to join the expedition of Tabuk for no valid reason. They have also been told that they did what was not proper. Then the verses describe the merits of people who take part in Jihad and tell us about the great rewards they get for everything they do there. Included here is the causing of hurt or loss to the enemy and the using of a strategy that infuriates the adversary. All these are good deeds, and worthy of thawab (reward from Allah).

خلاصہ تفسیر مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش میں ( رہتے) ہیں ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ نہ دیں اور نہ یہ ( زیبا تھا) کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمج ہیں ( کہ آپ تو تکلیفیں سہیں اور یہ آرام سے بیٹھے رہیں، بلکہ آپ کے ہمراہ جانا ضروری تھا اور) یہ ( ساتھ جانے کا ضروری ہونا) اس سبب سے ہے کہ ( علاوہ ادائے حق محبت رسول اللہ کے ان مجاہدین کو بات بات پر ثواب حاصل ہوا ہے اگر خلاص کے ساتھ جاتے ان کو بھی یہ ملتا چنانچہ) ان کو اللہ کی راہ ( یعنی جہاد) میں جو پیاس لگی اور جو ماندگی پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو چلنا چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ایک ایک نیک کام لکھا گیا ( باوجودیکہ بعض امور افعال اختیاریہ نہیں، مگر یہ مقتضائے مقبولیت و محبوبیت ہے کہ امور اضطراریہ بھی مثل اعمال اختیاریہ کے موجب ثواب قرار دیئے گئے، اور اس وعدہ میں احتمال تخلف کا نہیں کیونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتے ( پس وعدہ کرلیا تو ضائع نہ ہوگا) اور ( نیز) جو کچھ چھوٹا یا بڑا انہوں نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے یہ سب بھی ان کے نام ( نیکیوں میں) لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ( ان سب) کاموں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے ( کیونکہ جب ثواب لکھا گیا تو بدلہ ملے گا ) ۔ معارف و مسائل ان دونوں آیتوں میں متخلفین کو تخلف پر ملامت اور فہمائش اور شرکاء جہاد کے فضائل اور بسلسلہ جہاد قدم قدم پر ہر قول و فعل اور ہر محنت و مشقت پر اجر عظیم کا ذکر ہے جس میں بوقت جہاد دشمن کو کوئی تکلیف پہنچا دینا اور ایسی چال چلنا جس سے ان کو غیظ ہو یہ سب اعمال صالحہ موجب ثواب ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَطَــــُٔـــوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٢٠ ۙ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ عرب ( اعرابي) العَرَبُ : وُلْدُ إسماعیلَ ، والأَعْرَابُ جمعه في الأصل، وصار ذلک اسما لسكّان البادية . قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات/ 14] ، الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة/ 97] ، وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة/ 99] ، وقیل في جمع الأَعْرَابِ : أَعَارِيبُ ، قال الشاعر : أَعَارِيبُ ذو و فخر بإفك ... وألسنة لطاف في المقال والأَعْرَابِيُّ في التّعارف صار اسما للمنسوبین إلى سكّان البادية، والعَرَبِيُّ : المفصح، والإِعْرَابُ : البیانُ. يقال : أَعْرَبَ عن نفسه . وفي الحدیث : «الثّيّب تُعْرِبُ عن نفسها» أي : تبيّن . وإِعْرَابُ الکلامِ : إيضاح فصاحته، وخصّ الإِعْرَابُ في تعارف النّحويّين بالحرکات والسّکنات المتعاقبة علی أواخر الکلم، ( ع ر ب ) العرب حضرت اسمعیل کی اولاد کو کہتے ہیں الاعراب دراصل یہ عرب کی جمع ہے مگر یہ لفظ بادیہ نشین لوگون کے ساتھ مختص ہوچکا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا [ الحجرات/ 14] بادیہ نشین نے آکر کہا ہم ایمان لے آئے ۔ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں ۔ وَمِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ التوبة/ 99] اور بعض نہ دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ اعراب کی جمع اعاریب آتی ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 3011 ) اعاریب ذو و فخر بافک والسنۃ لطاف فی المقابل اعرابی جو جھوٹے فخر کے مدعی ہیں اور گفتگو میں نرم زبان رکھتے ہیں ۔ الاعرابی : یہ اعراب کا مفرد ہے اور عرف میں بادیہ نشین پر بولا جاتا ہے العربی فصیح وضاحت سے بیان کرنے والا الاعراب کسی بات کو واضح کردینا ۔ اعرب عن نفسہ : اس نے بات کو وضاحت سے بیان کردیا حدیث میں ہے الثیب تعرب عن نفسھا : کہ شب اپنے دل کی بات صاف صاف بیان کرسکتی ہے ۔ اعراب الکلام کلام کی فصاحت کو واضح کرنا علمائے نحو کی اصطلاح میں اعراب کا لفظ ان حرکاتوسکنات پر بولا جاتا ہے جو کلموں کے آخر میں یکے بعد دیگرے ( حسب عوامل ) بدلتے رہتے ہیں ۔ خلف پیچھے رہنا وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا [ التوبة/ 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] ، والخالِفُ : المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال : فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ : شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف . قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة/ 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے ) رغب أصل الرَّغْبَةِ : السّعة في الشیء، يقال : رَغُبَ الشیء : اتّسع وحوض رَغِيبٌ ، وفلان رَغِيبُ الجوف، وفرس رَغِيبُ العدو . والرَّغْبَةُ والرَّغَبُ والرَّغْبَى: السّعة في الإرادة قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] ، فإذا قيل : رَغِبَ فيه وإليه يقتضي الحرص عليه، قال تعالی: إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ، وإذا قيل : رَغِبَ عنه اقتضی صرف الرّغبة عنه والزّهد فيه، نحو قوله تعالی: وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] ، أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] ، والرَّغِيبَةُ : العطاء الکثير، إمّا لکونه مَرْغُوباً فيه، فتکون مشتقّة من الرّغبة، وإمّا لسعته، فتکون مشتقّة من الرّغبة بالأصل، قال الشاعر يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمن ( ر غ ب ) الرغبتہ اس کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رغب الشیءُ کسی چیز کا وسیع ہونا اور حوض رغیب کشادہ حوض کو کہتے ہیں ۔ عام محاورہ ہے ۔ فلان رغبت الجوف فلاں پیٹو ہے فرس رغیب العدو تیز رفتار اور کشادہ قدم گھوڑا الرغبۃ والرغب والرغبیٰ ارادہ اور خواہش کی وسعت کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء/ 90] اور وہ ہم کو ( ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے ) خوف سے پکارتے ہیں ۔ اور رغب فیہ والیہ کے معنی کسی چیز پر رغبت اور حرص کرنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا إِلَى اللَّهِ راغِبُونَ [ التوبة/ 59] ہم تو اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں ۔ لیکن رغب عن کے معنی کسی چیز سے بےرغبتی کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِيمَ [ البقرة/ 130] اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے أَراغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي[ مریم/ 46] اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ۔ اور رغیبۃ کے معنی بہت بڑے عطیہ کے ہیں ( ج رغائب ) یہ رغبت سے مشتق ہے یا تو اس لئے کہ وہ مرغوب فیہ ہوتی ہے اور یا اصل معنی یعنی وسعت کے لحاظ سے عطیہ کو رغبہ کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ( الکامل ) يعطي الرَّغَائِبَ من يشاء ويمنعوہ جسے چاہتا ہے بڑے بڑے عطا یا بخشا اور جس سے چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ ( صاب) مُصِيبَةُ والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء/ 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران/ 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء/ 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری/ 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ظمأ الظِّمْءُ : ما بين الشّربتین، والظَّمَأُ : العطش الذي يعرض من ذلك . يقال : ظَمِئَ يَظْمَأُ فهو ظَمْآَنُ. قال تعالی: لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] ، وقال : يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور/ 39] . ( ظ م ء ) الظمئ ۔ دو مرتبہ پانی پینے کے درمیان کا وقفہ اظلماء پیاس جو اس وقفہ میں عارض ہو دراصل یہ ظمئ یظماء فھو ظمآن کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] اور یہ کہ نہ پیا سے رہو اور نہ دہوپ کھاؤ ۔ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور/ 39] کہ پیاسا اسے پانی سمجھ کر اس کیطرف جاتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔ نصب ( تعب) والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ خمص قوله تعالی: فِي مَخْمَصَةٍ [ المائدة/ 3] ، أي : مجاعة تورث خَمْصَ البطن، أي : ضموره، يقال : رجل خامص، أي : ضامر، وأَخْمَص القدم : باطنها وذلک لضمورها . ( خ م ص ) المخمصۃ ۔ ایسی بھوک جس سے پیٹ پچک جائے ۔ قرآن میں ہے :۔ فِي مَخْمَصَةٍ [ المائدة/ 3] ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ رجل خامص پچکے ہوئے پیٹ والا اخمص لقدم پاؤں کے تلوے کا گڑھا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ وطأ وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ ( ف ) برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔ غيظ الغَيْظُ : أشدّ غضب، وهو الحرارة التي يجدها الإنسان من فوران دم قلبه، قال : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] ، لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] ، وقد دعا اللہ الناس إلى إمساک النّفس عند اعتراء الغیظ . قال : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] . قال : وإذا وصف اللہ سبحانه به فإنه يراد به الانتقام . قال : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] ، أي : داعون بفعلهم إلى الانتقام منهم، والتَّغَيُّظُ : هو إظهار الغیظ، وقد يكون ذلک مع صوت مسموع کما قال : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] . ( غ ی ظ ) الغیظ کے معنی سخت غصہ کے ہیں ۔ یعنی وہ حرارت جو انسان اپنے دل کے دوران خون کے تیز ہونے پر محسوس کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ [ آل عمران/ 119] کہدو کہ ( بدبختو) غصے میں مرجاؤ ۔ غاظہ ( کسی کو غصہ دلانا ) لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ [ الفتح/ 29] تاکہ کافروں کی جی جلائے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے سخت غصہ کے وقت نفس کو روکنے کا حکم دیا ہے اور جو لوگ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں انکی تحسین فرمائی ہے چناچہ فرمایا : وَالْكاظِمِينَ الْغَيْظَ [ آل عمران/ 134] اور غصے کو روکتے ۔ اور اگر غیظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو تو اس سے انتقام لینا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِنَّهُمْ لَنا لَغائِظُونَ [ الشعراء/ 55] اور یہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی مخالفانہ حرکتوں سے ہمیں انتقام پر آمادہ کر رہے ہیں اور تغیظ کے معنی اظہار غیظ کے ہیں جو کبھی ایسی آواز کے ساتھ ہوتا ہے جو سنائی دے جیسے فرمایا : سَمِعُوا لَها تَغَيُّظاً وَزَفِيراً [ الفرقان/ 12] تو اس کے جو ش غضب اور چیخنے چلانے کو سنیں گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نيل النَّيْلُ : ما يناله الإنسان بيده، نِلْتُهُ أَنَالُهُ نَيْلًا . قال تعالی: لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] ، وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] ، لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] والنَّوْلُ : التّناول . يقال : نِلْتُ كذا أَنُولُ نَوْلًا، وأَنَلْتُهُ : أولیته، وذلک مثل : عطوت کذا : تناولت، وأعطیته : أنلته . ونِلْتُ : أصله نَوِلْتُ علی فعلت، ثم نقل إلى فلت . ويقال : ما کان نَوْلُكَ أن تفعل کذا . أي : ما فيه نَوَال صلاحک، قال الشاعر : جزعت ولیس ذلک بالنّوال قيل : معناه بصواب . وحقیقة النّوال : ما يناله الإنسان من الصلة، وتحقیقه ليس ذلک مما تنال منه مرادا، وقال تعالی: لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَلا دِماؤُها وَلكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ [ الحج/ 37] . ( ن ی ل ) النیل ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے ہاتھ سے پکڑلیتا ہے ۔ اور یہ نلتہ الالہ نیلا کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ [ آل عمران/ 92] تم کبھی نیکی حاصل نہیں کرسکو گے ۔ وَلا يَنالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا [ التوبة/ 120] یا دشمنوں سے کوئی چیز لیتے ۔ لَمْ يَنالُوا خَيْراً [ الأحزاب/ 25] کچھ بھلائی حاصل نہ کرسکے ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ ضيع ضَاعَ الشیءُ يَضِيعُ ضَيَاعاً ، وأَضَعْتُهُ وضَيَّعْتُهُ. قال تعالی: لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] ( ض ی ع ) ضاع ( ض ) الشیئ ضیاعا کے معنی ہیں کسی چیز کا ہلاک اور تلف کرنا ۔ قرآن میں ہے : لا أُضِيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 195] اور ( فرمایا ) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جنگ میں کمانڈ ر کا ساتھ دینا ضروری ہے قول باری ہے ما کان لا ھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفواعن رسول اللہ ولا یرغبوا فانفسھم عن نفسہ ۔ مدینے کے باشندوں اور گردو نواح کے بدویوں کو ہرگز یہ زیب نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بےپرواہ ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے اس آیت میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ اہل مدینہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کے ساتھ غزوات میں جانا واجب تھا البتہ معذور ین نیز وہ لوگ اس حکم سے مستثنیٰ تھے جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رہ جانے کی اجازت دے دی تھی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں منافقین کی اس بنا پر مذمت کی کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر رہ جانے کی اجازت مانگتے تھے۔ قول باری ولا یرغبوا فانفسھم عن نفسہ کا مفہوم یہ ہے کہ اہل مدینہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بےپرواہ ہو کر اپنی جانیں بچانے کی صورت میں منفعت طلب نہ کرتے۔ بلکہ ان پر یہ فرض تھا کہ وہ اپنی جانیں دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی حفاظت کرتے۔ حضرات مہاجرین و انصاری میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے متعدد مواقع پر اپنی جانیں دے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کی حفاظت کی تھی۔ راہ حق میں لڑنا عمل صالح ہے قول باری ہے ولا یطئنو موطا ً یغیظ الکفار ولا ینالون من عدو نیلا ً الا کتب لھم بہ عمل صالح اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہوگا کہ منکرین حق کو جو راہ ناگوار ہے اس پر کوئی قدم وہ اٹھائیں اور کسی دشمن سے عداوت حق کا کوئی انتقام وہ لیں اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عمل صالح نہ لکھا جائے۔ اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ دشمنان حق کے علاقوں کو روندنا ان سے انتقام لینے کے مترادف ہے۔ انہیں قتل کر ڈالنا یا ان کے اموال پر قبضہ کرلینا یا انہیں ان کے علاقوں سے نکال باہر کرنا یہ سب ان سے انتقام لینے اور انہیں زک پہنچانے کی صورتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے علاقے کے روندنے میں جس سے کافروں کو طیش آ جائے نیز وہ غیظ و غضب میں مبتلا ہوجائیں اور انہیں زک پہنچانے میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ ان دونوں کو یکساں درجے پر رکھا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ کافروں کے علاقوں کو روند ڈالنا جس کی وجہ سے ان کے اندرغصے کی لہر دوڑ جائے اور وہ ذلت کے شکار ہوجائیں ۔ اس اقدام کی حیثیت وہی ہے جو انہیں قتل کرنے ، قیدی بنانے اور ان کے اموال بطور مال غنیمت حاصل کرنے کی ہے۔ اس کے اندر یہ دلیل موجود ہے کہ لشکر اسلام کے سوار اور پیادہ فوجیوں کے مال غنیمت میں حصوں کا اعتبار دشمنوں کی سر زمین میں داخل ہونے کی بنا پر کیا جائے گا مال غنیمت جمع کرنے اور دشمن سے قتال کرنے کے ساتھ نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ دشمن کی سر زمین میں داخل ہوجانا مال غنیمت جمع کرنے اور انہیں قتل کرنے نیز قیدی بنانے کے مترادف ہے۔ ہم نے جو بات بیان کی ہے اس پر دلالت کے لحاظ سے اس آیت کی نظیریہ قول باری ہے وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ، ان سے بطور فی دلوایا سو تم نے اس کے لیے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ آیت دارالحرب میں گھوڑے اور اونٹ دوڑانے کے اعتبار کی مقتضی ہے اسی بنا پر حضرت علی (رض) کا قول ہے جس قوم کے گھروں کو روند ڈالا جائے وہ ذلیل ہوجاتی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٠) مدینہ کے رہنے والوں کو قبیلہ مزینہ، جہینہ اور اسلم والوں کو یہ مناسب نہیں تھا کہ جہاد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ نہ دیں اور نہ یہ درست تھا کہ یہ اپنی جانوں کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھیں۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یا یہ کہ نہ یہ مناسب تھا کہ جہاد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلنے اور آپ کا ساتھ دینے سے اپنی جانوں کی حفاظت کریں اور یہ ساتھ جانے کا ضروری ہونا اس بنا پر ہے کہ ان کو جہاد میں آنے جانے میں جو پیاس لگی اور جو ماندگی پہنچی اور جو بھوک لگی اور جس مقام پر چلے جو کفار کے لیے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کو قتل کرکے اور ان کو شکست دے کر جو کچھ ان کی خبر لی تو جہاد میں سب پر ان کے نام ایک ایک نیک کام کا ثواب لکھا گیا کیوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ جہاد میں مومنین مخلصین کا اجر ضائع نہیں فرماتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (مَا کَانَ لِاَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ ط) غزوۂ تبوک کے لیے نکلتے ہوئے مدینہ کے ماحول میں تپتی راہیں مجھ کو پکاریں ‘ دامن پکڑے چھاؤں گھنیری والا معاملہ تھا۔ لہٰذا جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان تپتی راہوں کی طرف کوچ فرما رہے تھے تو کسی ایمان کے دعویدار کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر پیچھے رہ جائے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان سے بڑھ کر اپنی جان کی عافیت کی فکر کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر کی صعوبتوں پر اپنی آسائشوں کو ترجیح دے۔ (ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ لاَ یُصِیْبُہُمْ ظَمَاٌ وَّلاَ نَصَبٌ وَّلاَ مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَطَءُوْنَ مَوْطِءًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلاَ یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلاً الاَّ کُتِبَ لَہُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ط) اہل ایمان جب اللہ کے راستے میں نکلتے ہیں تو ان کی ہر مشقت اور ہر تکلیف کے عوض اللہ تعالیٰ ان کے نیکیوں کے ذخیرہ میں مسلسل اضافہ فرماتے رہتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٠۔ اس آیت کو بھی اگلی آیتوں سے تعلق ہے بعض لوگ جو خاص مدینہ میں رہتے تھے یا مدینہ کے باہر گاؤں میں بستے تھے ان میں سے جو لوگ تبوک کی لڑائی میں نہیں شریک ہوئے تھے ان کے حق میں خفگی کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا کہ ان کو یہ بات لائق نہیں تھی کہ اپنی جان کو رسول کی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ان کی تو بھوک پیاس ساری مشقتیں خدا کی راہ میں ایک ایک قدم اٹھانا دشمنون کو ڈرانا دھمکانا ان پر فتح پانی یہ سب نیکی میں شمار کئے جاتے گھر میں بیٹھ کر انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا۔ حاصل یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بات تاکید کے ساتھ جتلائی گئی ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب لڑائی کو نکلیں تو تم لوگ بھی ان کا ساتھ دو اور گھروں میں بیٹھ رہنا حرام کردیا گیا ہے۔ ایک جگہ اس تفسیر میں گذر چکا ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں سے کچھ لوگ بھی اس فرض کو ادا کر لیویں تو باقی کے لوگوں کے ذمہ سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے لیکن تبوک کے سفر کے وقت بہت بڑے مقابلہ کا ارادہ تھا اور جن لوگوں کو کچھ عذر نہ تھا ان سب کو اللہ کے رسول نے خاص طور پر اس سفر میں چلنے کا حکم دیا تھا اس لئے جو لوگ بلا عذر اس سفر میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے اور انہوں نے تاکہ آیندہ وہ اس طرح کی پہلو تہی نہ کریں اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت آگے کی آیت سے منسوخ نہیں ہے بلکہ خاص انس بن مالک (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شرک کے رفع کرنے کے لئے ہر ایماندار شخص کو مال سی ہاتھ لڑنے کا طاقت ضعیف اسلام کے سبب سے نہ ہو تو زبان سے وعظ نصیحت کرکے شرک کو رفع کیا جاوے۔ انس بن مالک (رض) کی اس حدیث کو نسائی نے صحیح کہا ١ ؎ ہے۔ ١ ؎ تفسیر بن کثیر ج ٢ ص ٤٠٠ وجامع ترمذی ج ٢ ص ٢١١ باب مناقب عثمان ومستدرک حاکم ج ٣ ص ١٠٢ تجہیر عثمان جیش العسرۃ عن عبدالرحمن بن سمرہ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:120) ما کان لاہل المدینۃ۔ زیبا نہیں تھا درست نہیں تھا۔ مناسب نہ تھا اہل مدینہ کے لئے۔ ان یتخلفوا عن رسول اللہ۔ کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر پیچھے ٹھہرے رہتے۔ لایرغبوا۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب (باب سمع) عزیز نہ سمجھیں۔ رغب فیہ۔ چاہنا ۔ خواہش کرنا۔ محبت کرنا۔ دلچسپی لینا۔ رغب عن۔ منہ پھر لینا ۔ چھوڑنا۔ اور اض کرنا۔ روگردانی کرنا۔ رغب بہ عن غیرہ کیس کو کسی پر فضیلت دینا ۔ برتری دینا۔ لایرغبوا بانفسھم عن نفسہ وہ اپنی جانوں کو اس کی جان پر فضیلت و برتری نہ دیں۔ اپنی جانوں کو اس کی جان سے عزیز نہ سمجھیں۔ نفسہ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع رسول اللہ سے۔ ذلک۔ بمعنی یہ اس لئے۔ ظما پیاس۔ تشنگی۔ یہ ظمئی یظمأ کا مصدر ہے جس کے معنی پیاس لگنے کے ہیں۔ ظمان فعلان صیغہ صفت ہے۔ پیاسا۔ تشنہ نصب۔ تھکان ۔ مشقت۔ کوفت۔ تکلیف۔ مخمصۃ۔ بھوک خمصۃ الجوع بھوک کو کسی کو دبلے پیٹ والا کردینا۔ خمیص خالی پیٹ والا۔ لایطئون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب وطا مصدر۔ (باب سمع) نہیں پامال کریں گے نہیں چلیں گے۔ موطئا۔ اسم ظرف (باب سمع) پاؤں رکھنے کی جگہ۔ وطاۃ۔ موطأ۔ موطیٔ پاؤں کی جگہ۔ وطیٔ یطا (باب سمع) روندنا۔ یغیظ الکفار۔ جو کفار کے غیظ و غضب کا باعث بنے۔ لاینالون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ نیل سے۔ وہ نہیں پائیں گے۔ وہ نہیں پاتے ہیں۔ وہ نہیں حاصل کرتے ۔ وہ نہیں کامیاب ہوتے۔ لاینالون من عدو نیلا وہ دشمن سے کوئی چیز حاصل نہیں کرتے (از قسم قتل۔ قیدی۔ مال غنیمت وغیرہ) ذلک بانھم ۔۔ عمل صالح۔ اللہ کی راہ میں جو پیاس ۔ تکلیف۔ بھوک وہ اٹھاتے ہیں اور ہر قدم جو رہ اٹھاتے ہیں جو کفار کو ناگوار گزرتا ہے اور ان کے غیظ و غضب کو بھڑکاتا ہے اور ہر وہ فائدہ جو وہ دشمن پر حاصل کرتے ہیں یا اللہ کی راہ میں وہ دشمن سے جو نقصان اٹھاتے ہیں اس ہر فعل کے بدلہ میں ان کے حساب میں یک عمل لکھا جاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10۔ مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ قبائل کے لوگ۔ 1۔ یعنی بستیاں، زمینیں، مکانات اور کھیتیاں یا کوئی بھی ایسی جگہ جس میں آنے اور چلنے پھرنے سے ان کے دل میں غصہ اور جلن پیدا ہو اور خوف زدہ ہوں۔ (ابن کثیر۔ کبیر) 2۔ انہی قتل کریں، قیدکریں یا ان سے مال غنیمت حاصل کریں۔ 3۔ جس کا ثواب انہیں ضرور ملے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی توبہ قبول کرتے ہوئے آئندہ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اب کے بعد ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کا حکم دیں، یا بنفس نفیس نکلیں تو اے مسلمانو ! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم آپ سے پیچھے بیٹھے رہو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جب خلیفہ وقت جہاد کا اعلان عام کردے تو پھر جہاد فرض عین ہوتا جاتا ہے۔ اس سے پیچھے رہنا سنگین ترین جرم ہوگا۔ جس کی خلیفۂ وقت کوئی بھی سزا تجویز کرسکتا ہے۔ جس طرح نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی تادیب کی تھی۔ اس لیے حکم صادر ہوا کہ جب نبی معظم جہاد کے لیے نکلیں تو کسی شہری اور دیہاتی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اور نہ ہی انھیں اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے مقدم سمجھنا چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض معرکے ایسے ہونے چاہییں جن میں مسلمانوں کے حکمران کو کمانڈر انچیف کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ قوم میں انتہا درجے کا جوش و جذبہ پیدا ہو۔ اس کے ساتھ جہاد کی مشکلات گنوائیں ہیں تاکہ مجاہد ذھنی، جسمانی طور پر اور ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہو کر میدان کارزار میں اتریں۔ درج ذیل مشکلات میں سے کوئی ایک یا بیک وقت تمام کی تمام مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ بھوک، پیاس، تھکان اور ہر قسم کی جسمانی مشقت، جنگ میں مشکل مراحل کا آنا، دشمن کے ساتھ آمنا سامنا اور ہر وقت ٹکراؤ کا خطرہ، گھمسان کا آن پڑنا۔ مالی وسائل کی کمی۔ ان مشکلات کے باوجود جہاد کرنا ہے اس کے بدلے مجاہد کو ہر قدم پر بہترین اجر سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور خدمت کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَغَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صبح یا شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگانا دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ “ (عن عَبْد الرَّحْمَنِ بن جَبْرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ فِی سَبِیل اللَّہِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرت قدماہ فی سبیل اللّٰہ ] ” حضرت عبدالرحمن بن جبر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے ہوں انہیں آگ نہیں چھوئے گی۔ “ (عَنْ الْبَرَاءِ یَقُوْلُ أَتَی النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالْحَدِیْدِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ ، فَقُتِلَ ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب عمل صالح قبل القتال ] ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں ایک زرہ پوش آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں لڑائی کروں اور اسلام لاؤں آپ نے فرمایا اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو، وہ اسلام لایا، پھر لڑائی کی پس وہ شہید ہوگیا آپ نے فرمایا اس نے عمل تھوڑا کیا ہے اور اجر زیادہ پا گیا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَّلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور اللہ کی آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ نفلی روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔ “ مسائل ١۔ مسلمان جو نیکی کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بہترین اجردیتا ہے۔ ٢۔ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس برداشت کرنا اور کفار کے خلاف جہاد کرنا اجر عظیم کا باعث ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : ١۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ : ١٢١) ٢۔ اللہ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٣۔ اللہ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت : ٧) ٤: اللہ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛ ٣٨) ٥۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٦۔ ہم ان کے اعمال سے انہیں بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل : ٩٧) ٧۔ ہم ایمان لانے والوں کو ان کا اجر دیں گے۔ (الحدید : ٢٧) ٨۔ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ما کان لاھل المدینۃ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبوا بانفسھم عن نفسہ مدینہ کے رہنے والوں کو اور جو دیہاتی ان کے گرد و پیش رہتے ہیں ‘ ان کو یہ زیبا نہ تھا کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا ساتھ نہ دیں اور نہ یہ زیبا تھا کہ اپنی جانوں کو ان کی جانوں سے زیادہ عزیز سمجھیں۔ بظاہر الفاظ یہ کلام خبری ہے لیکن حقیقت میں نہی اور ممانعت ہے ‘ جیسے دوسری آیت آئی ہے : وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْل اللّٰہِ اَلْاَعْرَاب یعنی قبائل مزینہ ‘ جہنیہ ‘ اشجع ‘ اسلم ‘ غفار جو صحراء میں رہتے تھے (مدینہ کے اندر نہیں رہتے تھے) ۔ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ کا یہ مطلب ہے کہ جب خود رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) بنفس نفیس جہاد پر تشریف لے جائیں تو آپ کا ساتھ چھوڑ دینا اور ہمراہ نہ جانا جائز نہیں۔ وَلاَ یَرْغَبُوْا کا یہ مطلب ہے کہ جس جہاد سے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے اپنے نفس کو الگ نہیں رکھا اس سے لوگ بھی اپنی جانوں کو الگ نہ رکھیں۔ ذلک بانھم لا یصیبھم ظمأ ولا نصب ولا مخمصۃ فی سبیل اللہ ولا یطؤن موطءًا یغیظ الکفار ولا ینالون من عدو نیلاً الا کتب لھم بہ عمل صالح ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین یہ (ساتھ جانے کی ضرورت) اس سبب سے ہے کہ اللہ کی راہ میں جو پیاس لگی اور جو ماندگی پہنچی اور جو بھوک لگی اور جو چلنا چلے جو کفار کیلئے موجب غیظ ہوا اور دشمنوں کی جو کچھ خبر لی ‘ ان کے نام اس کی وجہ سے ایک ایک نیک کام لکھا گیا۔ یقیناً اللہ مخلصوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ذٰلِکَ سے اشارہ حکم ممانعت کی طرف ہے جو اوپر کے کلام سے سمجھا جا رہا ہے۔ بِاَنَّھُمْ میں باء سببی ہے بسبب اس کے۔ ظمأ پیاس کی حقیر مقدار۔ نصبٌ تھکان۔ مَخْصَمَۃٌ بھوک۔ مَوْطِءًا مصدر ہے (تاکید فعل کیلئے) یا ظرف ہے ‘ یعنی وہ نہیں جائیں گے کسی زمین پر۔ نیلاً تاکہ کسی قسم کا قابو پائیں خواہ قتل کریں ‘ یا قید کریں ‘ یا لوٹیں ‘ یا مال غنیمت حاصل کریں۔ اِلاَّ کُتِبَیعنی وہ اس کی وجہ سے ثواب کے مستحق ہوجاتے ہیں اور یہ وعدہ چاہتا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ساتھ جائیں ‘ ہمراہ جانے سے منہ نہ موڑیں۔ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَیہ جملہ گزشتہ حکم کی علت ہے اور اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ جہاد ایک بھلائی ہے (سب انسانوں کے حق میں) کافروں کے حق میں جہاد کا بھلائی ہونا تو اس وجہ سے ہے کہ کافروں کو دوزخ سے رہا کرانے اور ان کی انسانیت کو مکمل کرنے کی یہ انتہائی کوشش ہے ‘ جیسے پاگل کو مارنا (کبھی اس کیلئے علاج ہوتا ہے) اور بچہ کو ادب سکھانے کیلئے مارنا (اس کے حق میں بھلائی ہوتا ہے) مؤمنوں کے حق میں جہاد کی بھلائی یہ ہے کہ جہاد ہی کے ذریعے سے اہل ایمان کافروں کی چیرہ دستی ‘ اقتدار اور تسلط سے محفوظ رہتے ہیں۔ حضرت ابو عبس کی روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ کی راہ میں جس کے قدم گرد آلود ہوں گے ‘ اللہ نے اس کیلئے دوزخ حرام کردی ہے۔ رواہ البخاری فی الصحیح واحمد فی المسند والترمذی والنسائی۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا جب تک جہاد سے واپس نہیں آتا ‘ اس کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے (ہر روز) روزہ رکھنے والا ‘ (رات) کو نماز پڑھنے والا ‘ اللہ کی آیات کی تلاوت کرنے والا جو روزہ نماز سے سست نہیں پڑتا ہو (چستی کے ساتھ برابر مشغول رہتا ہو) بغوی نے لکھا ہے : اس آیت کے حکم (کے عام یا خاص ‘ ہنگامی یا دوامی ہونے) میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ قتادہ کا قول ہے : یہ حکم رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے ہمراہ جانے کی صورت سے تعلق رکھتا ہے (عمومی نہیں ہے) جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) خود جہاد پر تشریف لے جائیں تو کسی کیلئے بغیر (شرعی) عذر کے ساتھ نہ جانا جائز نہ تھا۔ دوسرے خلفاء اور حکام کے ساتھ جانے کا وجوبی حکم اس آیت میں نہیں ہے۔ اگر مسلمانوں کو جہاد کرنے کی ضرورت نہ ہو تو خلیفہ یا حاکم کے ساتھ جہاد کو نہ جانا مسلمانوں کیلئے جائز ہے۔ ولید بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے اوزاعی ‘ عبد اللہ بن مبارک ‘ ابن جابر اور سعد بن عبدالعزیز سے سنا کہ اس آیت کا حکم اس امت کے آغاز کے وقت بھی تھا اور آخری دور کیلئے بھی ہے (یعنی حکم دوامی ہے ‘ ہر خلیفہ کا ساتھ دینا ہر زمانہ میں لازم ہے) ۔ ابن زید نے کہا : یہ حکم اس وقت تھا جب مسلمان کم تھے ‘ جب زیادہ ہوگئے تو اللہ نے اس حکم کو منسوخ کردیا اور جو جہاد پر نہ جانا چاہے ‘ اس کیلئے نہ جانا جائز کردیا اور فرما دیا : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ۔ میں کہتا ہوں : تمام اماموں کا اتفاق ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے ‘ اگر بقدر ضرورت مسلمانوں کی جماعت جہاد کرے گی تو باقی مسلمانوں کے سروں سے فرض اتر جائے گا۔ حضرت سعید بن مسیب کے نزدیک جہاد فرض عین ہے کیونکہ جہاد کے احکام عمومی ہیں اور جو لوگ تبوک کے جہاد کو نہیں گئے تھے ‘ ان کے معاملہ میں سخت احکام نازل کئے گئے۔ ہم کہتے ہیں : جب جہاد کا اعلان عام ہو تو باتفاق علماء ہر شخص پر جہاد کرنا فرض ہوجاتا ہے جیسے غزوۂ تبوک کے موقع پر ہوا ورنہ فرض کفایہ ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَالخ اس آیت کے آخر میں ہے : وَکُلاّْ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰیہر فریق سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کرلیا ہے (لیکن بھلائی کے مراتب میں تفاوت ہے ‘ سب برابر نہیں) دوسری آیت ہے : وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ سفر اور خرچ کرنے پر اجر وثواب کا وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیارے ہیں۔ اللہ کے رسول ہیں۔ غزوات میں خود تشریف لے جاتے تھے تمام تکلیفوں میں بنفس نفیس شریک ہوتے تھے۔ آپ نے اپنے لیے کوئی آرام کی صورت نکالی ہو اور اپنے صحابہ کو تکلیف میں چھوڑ دیا ہو ایسا ہرگز کبھی نہیں ہوا آپ ہر تکلیف میں شریک تھے بلکہ اپنے ساتھیوں سے زیادہ محنت کرتے تھے، تکلیف اٹھاتے تھے۔ ان حالات میں کوئی شخص خواہ اہل مدینہ میں سے ہو خواہ آس پاس کے رہنے والے دیہاتیوں میں سے ہو کسی کے لیے یہ کہاں روا ہوسکتا تھا کہ آپ غزوہ میں چلے جائیں اور خود اپنی جان کو عیش و آرام اور حفاظت کے ساتھ اپنے گھر میں لیے ہوئے بیٹھا رہے۔ ایمانی محبت کا تقاضا یہی تھا کہ سب آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوں البتہ جو معذور تھے وہ ساتھ نہ جائیں تو یہ دوسری بات ہے جو لوگ غزوۂ تبوک میں آپ کے ساتھ جانے سے بچھڑ گئے تھے جن کا ذکر اوپرہوا۔ انہیں اور تمام صحابہ کو متنبہ فرما دیا کہ اللہ کے نبی کو چھوڑ کر گھروں میں بیٹھے رہ جانا ایمان تقاضوں کے خلاف ہے ہاں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود ہی اپنی جانب سے مدینہ طیبہ کا امیر بنا دیا تاکہ آپ کے پیچھے انتظام سنبھالے (یہ محمد بن مسلمہ اور ایک قول کے مطابق سباع بن عرفطہ تھے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر اپناخلیفہ بنا دیا تھا) یا جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے چھوڑ دیا تھا (یہ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ تھے) یا جو حضرات معذورین تھے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ آیت شریفہ کا سیاق اور طرز بیان اس بات کا مقتضی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد میں جائیں تو کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ آپ کے پیچھے رہ جائے اسی لیے بعض علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جہاد کرنا فرض عین تھا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب مسلمان کم تھے۔ جب مسلمان تعداد میں زیادہ ہوگئے تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ (کما ذکرہ فی الروح) جو تین حضرات مومنین مخلصین میں سے پیچھے رہ گئے تھے ان کا واقعہ تفصیل سے چند صفحات پہلے گزر چکا ہے پیچھے رہ جانے والے مخلصین میں حضرت ابو خیثمہ بھی تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکر کو لے کر تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو منافقین بھی برے دل سے ساتھ لگ لیے تھے، پھر وہ راستہ سے واپس ہوتے رہے۔ راستہ سے واپس ہونے والوں میں حضرت ابو خیثمہ بھی تھے۔ سخت گرمی اور دھوپ کی وجہ سے یہ بھی راستہ سے واپس آگئے تھے ان کی دو بیویاں تھیں۔ واپس آئے تو دیکھا کہ باغ میں دو چھپروں کے نیچے ان کی بیویوں نے پانی چھڑک رکھا ہے اور کھانا تیار کر رکھا ہے۔ ابھی دروازہ ہی میں کھڑے تھے کہ اپنی دونوں بیویوں اور انہوں نے جو کچھ تیار رکھا تھا اس سب پر نظر پڑی اس کو دیکھ کر کہنے لگے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سخت گرمی میں ہیں اور ابو خیثمہ ٹھنڈے سایہ میں ہے اس کے لیے کھانا حاضر ہے اور اس کی خوبصورت بیوی سامنے موجود ہے یہ انصاف کی بات نہیں۔ اللہ کی قسم میں ان میں سے کسی ایک چھپر میں بھی داخل نہ ہوں گا۔ میں روانہ ہوتا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچتا ہوں۔ دونوں بیویوں نے سفر کا سامان تیار کیا انہوں نے اپنا اونٹ لیا اور روانہ ہوگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک میں پہنچ چکے تھے انہوں نے آپ کو وہیں جا کر پایا ابھی یہ دور ہی تھے کہ حاضرین نے کہا کہ کوئی سوار آ رہا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ابوخیثمہ ہے۔ چناچہ یہ تھوڑی دیر میں پہنچ گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابو خیثمہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس کے بعد انہوں نے اپنا قصہ سنایا اور آپ نے ان کے لیے خیر کی دعا فرمائی۔ حضرت ابوذر (رض) تو ساتھ ہی چلے تھے لیکن ان کا اونٹ رفتار میں کمزور تھا، وہ پیچھے رہ گیا حضرت ابوذر (رض) نے اپنا سامان اپنی کمر پر لادا پھر پیدل ہی چل دیئے اور راستہ ہی میں ایک منزل پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے۔ (البدایہ والنہایہ ص ٧، ٨ ج ٥) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جانے کا ایمانی تقاضا تو تھا ہی اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اجر وثواب کا بھی وعدہ فرمایا۔ چناچہ ارشاد ہے۔ (ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ لَا یُصِیْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّ لَا نَصَبٌ) (الآیتین) یہ اس وجہ سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو جو بھی پیاس، تھکن اور بھوک اللہ کے راستہ میں پہنچتی ہے اور جہاں بھی قدم رکھتے ہیں جس سے دشمنوں کو جلن ہوتی ہے اور دشمنوں کو جو کچھ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یہ سب ان کے اعمال صالحہ کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھے کام کرنے والوں کا اجر صائع نہیں فرماتا۔ نیز جو بھی کوئی خرچ کریں چھوٹا ہو یا بڑا اور جس میدان کو بھی قطع کریں تو یہ سب لکھا جاتا ہے۔ اور یہ لکھنا صرف لکھنے کے لیے نہیں ہے اللہ تعالیٰ ان سب پر اچھے سے اچھا ثواب عطا فرمائے گا۔ معلوم ہوا کہ صرف جنگ کرنا اور ہتھیار چلانا ہی جہاد نہیں ہے اس راہ میں جو تکلیفیں آنے جانے میں پیش آئیں بھوک، پیاس، دُکھن، قدم اٹھانا، خرچ کرنا وادیوں کو قطع ان سب میں ثواب ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں کے دل جلانے کے لیے بھی نیت رکھنی چاہئے۔ ان کے دل جلانے میں بھی ثواب ہے۔ غزوۂ تبوک میں تو قتال ہوا ہی نہیں، آنا جانا اور تکلیف اٹھانا ہی تھا۔ اس پر بھی اجر وثواب کے بڑے بڑے وعدے ہیں۔ فائدہ : حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تو مدینہ منورہ سے قریب ہوئے تو فرمایا کہ مدینہ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو پورے سفر میں تمہارے ساتھی تھے تم جو بھی راستہ چلے اور جس میدان کو بھی تم نے قطع کیا وہ لوگ تمہارے ساتھ ہی رہے۔ (یعنی اجر وثواب میں وہ بھی تمہارے برابر کے شریک ہیں) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی ہمارے ساتھی تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی تمہارے ساتھی تھے، وہ عذر کی وجہ سے رک گئے تھے۔ (صحیح بخاری ص ٦٣٧ ج ٢) اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے عمل پر بھی ثواب اور نیت کرنے پر بھی ثواب عطا فرماتا ہے۔ جو شخص معذور ہو اور عمل کرنے کی خواہش رکھتا ہو اس کو بھی ثواب سے نواز دیا جاتا ہے۔ فالحمدللہ العلی الکبیر۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

114:“ مَا کَانَ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَةِ الخ ” یہ زجر و تنبیہ ہے یعنی مسلمانوں کو یہ روا نہیں کہ وہ جہاد میں حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہ جائیں اور اپنے مال وجان اور اولاد کو آپ پر مقدم سمجھیں۔ کیونکہ توحید کی دولت انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی بدولت حاصل ہوئی ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ وہ خود تو آرام و راحت میں رہیں اور پیغمبر (علیہ السلام) تکلیف و مشقت میں ہوں۔ “ اي لا یرضوا لانفسھم بالخفض والدعة و رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی المشقة ” (قرطبی ج 8 ص 290) 115:“ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ الخ ” تا “ اَحْسَنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ”۔ یہ ماقبل کی علت ہے اور اس میں نہایت بلیغ انداز میں جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے۔ “ ظَمَاٌ ” پیاس، “ نَصَبٌ ” تکلیف و مشقت، “ مَخْمَصَةٌ ” بھوک، “ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا ” دشمن سے قتل وہزیمت اٹھاتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کے سر میں اور عین معرکہ کارزار میں انہیں جو بھی چھوٹی بڑی تکلیف ہوتی ہے، جہاد میں جو چھوٹی بڑی رقم وہ خرچ کرتے ہیں اور جتنا فاصلہ وہ طے کرتے ہیں وہ سب ان کے اعمالنامہ میں اعمال صالحہ کے عنوان سے درج کیے جاتے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ ان کو بہت اجر وثواب عطا فرمائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

120 اہل مدینہ اور ان کے ارد گرد اور آس پاس کے دیہاتیوں کو یہ زیبا نہ تھا اور یہ بات ان کے لائق نہ تھی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جہاد میں جانے سے پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ زیبا تھا کہ اپنی جانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان سے زیادہ چاہیں اور زیادہ عزیز رکھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جانے کا یہ سبب تھا اور اس لئے ضروری تھا کہ ان مجاہدین کو جو پیاس و مشقت و ماندگی اور بھوک اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے اور جہاں کہیں وہ کسی ایسے مقام پر چلتے ہیں جہاں کا چلنا کفار کو غلیظ و غضب میں ڈالتا ہے اور دشمنوں کے مقابلہ میں جو کامیابی اور جو چیز بھی یہ حاصل کرلیتے ہیں ان سب امور کے بدلے ان مجاہدین کے لئے نیک عمل لکھ دیئے جاتے ہیں اور ہر کام کے بدلے ایک ایک نیک عمل لکھا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مخلصین کے اجر و ثوات کو ضائع نہیں کیا کرتا۔ یعنی اول تو ہر دکھ سکھ میں پیغمبر کا ساتھ دینا چاہئے یہ بڑی نازیبا حرکت ہے کہ پیغمبر تو سفر میں ہو اور سفر بھی گرمی اور لو کا سفر اور ہم اپنے گھروں اور باغوں میں عیش کی زندگی بسر کررہے ہوں پھر جبکہ پیغمبر کی ہمراہی میں نیک اعمال کا بھی فائدہ ہو اور ہر فعل خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری پیاس بھوک تکلیف اور مشقت چلنا پھرنا حتیٰ کہ لاینالون من عدونیلا تک کے بدلے میں عمل صالح کا وعدہ ایسے ثواب کی چیز میں پیغمبر کی ہمراہی کو ترک کردینا اہل مدینہ اور مدینہ کے آس پاس کے دیہات والوں کو ہرگز مناسب اور زیبا نہ تھا۔