Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 122

سورة التوبة

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ ﴿۱۲۲﴾٪  4

And it is not for the believers to go forth [to battle] all at once. For there should separate from every division of them a group [remaining] to obtain understanding in the religion and warn their people when they return to them that they might be cautious.

اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah the Exalted here explains His order to Muslims to march forth with the Messenger of Allah for the battle of Tabuk Allah says; وَمَا كَانَ الْمُوْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَأفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَأيِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ And it is not (proper) for the believers to go out (to fight - Jihad) all together. Of every troop of them, a party only should go forth, that they may get instructions in religion, and that they may warn their people when they return to them, so that they may beware (of evil). We should first mention that a group of the Salaf said that marching along with the Messenger, when he went to battle, was at first obliged on all Muslims, because, as they say, Allah said, انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً (March forth, whether you are light or heavy) (9:41), and, مَا كَانَ لاِاَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الاَعْرَابِ (It was not becoming of the people of Al-Madinah and the Bedouins of the neighborhood...) (9:120). However, they said, Allah abrogated this ruling (9:41 and 9:120) when He revealed this Ayah, (9:122). However, we could say that this Ayah explains Allah's order to participate in battle on all Arab neighborhoods, that at least a group of every tribe should march for Jihad. Those who went with the Messenger would gain instructions and studies in the revelation that came down to him, and warn their people about that battle when they returned to them. This way, the group that went with the Prophet will achieve both goals (Jihad and learning the revelation from the Prophet). After the Prophet, a group of every tribe or neighborhood should seek religious knowledge or perform Jihad, for in this case, Jihad is required from at least a part of each Muslim community. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas about the Ayah, وَمَا كَانَ الْمُوْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَأفَّةً (And it is not (proper) for the believers to go out (to fight - Jihad) all together), "The believers should not all go to battle and leave the Prophet alone, فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَأيِفَةٌ (Of every troop of them, a party only should go forth) in the expeditions that the Prophet sent. When these armies returned to the Prophet, who in the meantime received revealed parts of the Qur'an from Allah, the group who remained with the Prophet would have learned that revelation from him. They would say, `Allah has revealed some parts of the Qur'an to your Prophet and we learned it.' So they learned from them what Allah revealed to His Prophet in their absence, while the Prophet sent some other men into military expeditions. Hence Allah's statement, لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّين (that they may get instructions in religion,) so that they learn what Allah has revealed to their Prophet and teach the armies when they return, لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (so that they may beware)." Mujahid said, "This Ayah was revealed about some of the Companions of the Prophet who went to the desert and were helped by its residents, had a good rainy year and called whomever they met to guidance. The people said to them, `We see that you left your companions and came to us.' They felt bad in themselves because of this and they all came back from the desert to the Prophet. Allah said, فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَأيِفَةٌ (Of every troop of them, a party only should go forth), those who seek righteousness (such as to spread the call of Islam, while others remain behind), لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّين (that they may get instructions in (Islamic) religion) and learn what Allah has revealed, وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ (and that they may warn their people), when those who went forth returned to them, لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (so that they may beware (of evil))." Qatadah said about this Ayah, "It is about when the Messenger of Allah sent an army; Allah commanded them to go into battle, while another group remained with the Messenger of Allah to gain instructions in the religion. Another group returns to its own people to call them (to Allah) and warn them against Allah's punishment of those who were before them." It was also said that; this verse, وَمَا كَانَ الْمُوْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَأفَّة (And it is not (proper) for the believers to go out all together) is not about joining Jihad. They say that the Messenger of Allah invoked Allah against Mudar to try them with years of famine, and their lands were struck by famine. The various tribes among them started to come, entire tribes at a time, to Al-Madinah, because of the hardship they faced and they would falsely claim that they are Muslims. This caused hardship for the Companions of the Messenger and Allah revealed to him that they are not believers. The Messenger of Allah sent them back to their tribes and warned their people not to repeat what they did. Hence Allah's statement, وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ (and that they may warn their people when they return to them).

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تنہا نہ چھوڑو اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا ۔ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر ملسمان پر واجب ہے جیسے فرمایا ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 41؀ ) 9- التوبہ:41 ) اور فرمایا ہے ( آیت ماکان لا ھل المدینہ ) یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جاؤ ۔ مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ کے پیچھے رہ جائیں ۔ پس یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں تاکہ آپ کے ساتھ جانے والے آپ پر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آکر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں ۔ پس انہیں دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی ۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہوگی یا جہاد کے لیے ۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ سب کے سب چلے جائیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں ۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی جازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے ، جو احکام بیان ہوں ، انہیں سیکھیں ، سمجھیں ۔ جب یہ آجائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں ۔ اس وقت اور لوگ جائیں ۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ۔ یہ ان صحابیوں کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی ملیں ۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں ۔ لیکن بعض لوگوں نے انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو ۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو ۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے آئے ۔ پس یہ آیت اتر اور انہیں معذور سمجھا گیا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں ضحاک فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں اس وقت سوائے معذوروں ، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت بغیر جائے ۔ یہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہتے تھے ، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیے ۔ مروی ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے کے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے ۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مومن نہیں ۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا ۔ کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ، دین اسلام سیکھتے واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ رسول کی اطاعت کا حکم کرتے ، نماز زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے ، ان سے صاف فرما دیتے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسئلے مسائل سے آگاہ کر دیتے ، حکم احکام سکھا پڑھا دیتے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش خبریاں دیتے ، نہ ماننے والوں کو ڈراتے ، عکرمہ فرماتے ہیں جب ( اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِـــيْمًا ڏ وَّيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوْهُ شَـيْــــًٔـا ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀ ) 9- التوبہ:39 ) اور آیت ( مَا كَانَ لِاَھْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَھُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ لَا يُصِيْبُھُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَـطَــــــُٔوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَھُمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 9- التوبہ:120 ) اتریں تو منافقوں نے کہا پھر تو بادیہ نشین لوگ ہلاک ہوگئے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے ۔ بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ( وَالَّذِيْنَ يُحَاۗجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ 16؀ ) 42- الشورى:16 ) بھی اتری ۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آن کر اپنی قوم کو ڈرا دیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

122۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس و مراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیح کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣٩] دین کا علم سیکھنا فرض کفایہ ہے :۔ اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آیت جہاد سے متعلق ہے۔ اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں البتہ جب اسلامی حکومت کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہوجائے تو اس وقت صاحب استطاعت لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوہ تبوک میں ہوا تھا اور اس صورت میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے گنہگار ہوتے ہیں اور سب لوگوں کے لیے یہ ممکن اس لیے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات مسلمانوں کا ایک حصہ پیچھے رہنا ضروری ہوتا ہے تاکہ دارالخلافہ یا دوسرے اہم مقامات کی دشمن سے حفاظت کرسکیں۔ عند الضرورت فوج کو رسد اور کمک بھیج سکیں۔ علاوہ ازیں معاشرہ میں کئی طرح کے معذور افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ہر بستی اور ہر قبیلہ کے کچھ لوگوں کو رسول اللہ کے ہمراہ جانا ضروری ہے تاکہ وہ ان کی صحبت میں رہ کر دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور جب واپس اپنے گھروں کو آئیں تو ان سینکڑوں حوادث و واقعات سے متعلق ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر نہیں گئے تھے اور اگر نبی اکرم خود جنگ پر تشریف نہیں لے گئے تھے تو جو کچھ پیچھے رہنے والوں نے نبی اکرم کی صحبت سے دین کی باتیں اور سمجھ بوجھ سیکھی ہے اس سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر گئے ہوئے تھے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جہالت دور کرے :۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ علم دین حاصل کرنے سے ہے یعنی تمام مسلمانوں اور بالخصوص بدوی قبائل (جن کے متعلق پہلے اسی سورة کی آیت نمبر ٩٧ میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دین کی حدود اور اس کی حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتے) کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دین کا علم اور اس میں فہم حاصل کرنے کے لیے سب کے سب مدینہ آپ کے پاس چلے آئیں۔ لہذا لوگوں میں دینی شعور اور سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قبیلہ، قوم اور بستی میں سے کچھ لوگ مدینہ آجائیں اور آپ کی صحبت سے فیض حاصل کریں پھر وہ واپس آ کر اپنی اپنی بستی، قوم یا قبیلہ کے لوگوں کو علم دین کی تعلیم دیں تاکہ ان کی جہالت دور ہو اور ان میں اسلامی نظام حیات کا صحیح صحیح شعور پیدا ہو۔ اور وہ اپنے طرز زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ حقیقی علم دین کا علم ہے :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ اسلام عرب کے اکثر حصہ پر غالب آچکا تھا۔ بدوی قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہو رہے تھے مگر ابھی تک ان کے نہ جاہلی نظریات ختم ہوئے تھے اور نہ دین کا ابھی حقیقی شعور پیدا ہوا تھا اس آیت میں علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا کام محض علاقے فتح کرنا نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی جہالت دور کرنا اور اسلامی نظریات کے مطابق ان کی تربیت کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جہاد ضروری ہے ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم وہی کہلا سکتا ہے جس سے دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہو اور ان سے دین کی تبلیغ و اشاعت میں کام لیا جاسکتا ہو۔ رہے دوسرے علوم تو وہ دنیا کی زندگی کے لیے خواہ کتنے ہی مفید کیوں نہ ہوں حقیقی علم نہیں کہلا سکتے۔ اس آیت کو خواہ جہاد پر نکلنے سے متعلق کیا جائے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنے سے متعلق کیا جائے دونوں طرح درست ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنا بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک قسم ہے اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے یہ دونوں شعبے ہی نہایت اہم اور فرض کفایہ ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً : ” نَفَرَ یَنْفِرُ “ عام طور پر لڑائی کے لیے نکلنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ ) [ التوبۃ : ٣٨ ] اور فرمایا : (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِــقَالًا ) [ التوبۃ : ٤١ ] اور فرمایا : (اِلَّا تَنْفِرُوْا يُعَذِّبْكُمْ ) [ التوبۃ : ٣٩ ] اور فرمایا : (وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ) [ التوبۃ : ٨١ ] اور یہ سورت شروع سے آخر تک جہاد ہی کے تذکرے سے بھری پڑی ہے، اس لیے ” لِيَنْفِرُوْا “ کا معنی ” لڑائی کے لیے نکلیں “ ہی سیاق سے مناسبت رکھتا ہے۔ جنگ تبوک میں نفیر عام، یعنی تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم تھا اور فرمایا کہ اہل مدینہ اور اس کے اردگرد کے اعراب کا حق ہی نہیں بنتا تھا کہ وہ جنگ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے رہیں، اب اس آیت میں ایسے مواقع کا ذکر ہے جن میں سب کے نکلنے کا حکم نہیں، بلکہ کچھ لوگوں کا نکلنا کافی ہے۔ چناچہ فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ تمام مسلمان جنگ کے لیے نکل جائیں، کیونکہ کچھ لوگوں کا شہروں کی حفاظت اور گھروں کے انتظام کے لیے پیچھے رہنا بھی ضروری ہے، کچھ لوگ کسی اور ضروری عذر کی وجہ سے نہیں نکل سکتے، اس لیے ہر بڑے گروہ میں سے جنگ کی ضرورت کے حساب سے کچھ لوگوں کے لیے لازم ہے کہ جہاد کے لیے نکلیں، تاکہ وہ جہاد کے سفر، اس کے درمیان پڑاؤ، رباط کے دوران اور میدان قتال میں پوری کوشش کے ساتھ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈرائیں کہ دشمن کیا کیا منصوبے بنا رہا ہے اور اس کی تیاری کس قدر ہے اور اس سے نمٹنے کی کیا صورت ہے، تاکہ وہ آئندہ کے لیے مکمل تیاری کرکے دشمن پر فتح یاب ہو سکیں۔ ” تفقہ فی الدین “ سے یہاں مراد یہ ہے جو بیان ہوا، جب کہ اس وقت ہمارے ہاں ” تفقہ فی الدین “ صرف نماز، روزے وغیرہ کے مسائل ہی کو سمجھ لیا گیا ہے، دشمن کے منصوبوں، سازشوں، چالوں اور کار روائیوں کو سمجھنے، ان سے بچنے اور دفاع کے بجائے ان پر حملہ آور ہونے کو ” تفقہ فی الدین “ سے باہر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس آیت سے چند باتیں واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہیں :1 ہر جنگ میں تمام مسلمانوں کا نکلنا نہ ضروری ہے نہ ممکن، بلکہ تقسیم کار کے اصول پر عمل ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنولحیان کی طرف ایک لشکر بھیجتے ہوئے فرمایا : ” ہر دو آدمیوں میں سے ایک آدمی نکلے اور اجر دونوں کے لیے برابر ہے (تاکہ ایک میدان میں جائے اور دوسرا اپنے اور اپنے بھائی کے پیچھے کے معاملات کی خیر کے ساتھ نگرانی کرے) ۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی۔۔ : ١٣٨؍١٨٩٦ ] ہاں، اگر ضرورت کی بنا پر امیر نفیر عام کا حکم دے تو سب کا نکلنا ضروری ہوگا۔ 2 فرقہ بڑا ہوتا ہے اور طائفہ چھوٹا، حتیٰ کہ ایک آدمی پر بھی طائفہ کا لفظ بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا) [ الحجرات : ٩ ] یہ آیت دو لڑنے والے آدمیوں کے لیے بھی ہے، کسی گروہ میں سے جنگ کے لیے زیادہ لوگ نکلیں یا ایک آدمی، سب پر طائفہ کا لفظ صادق آتا ہے۔ ” لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ “ تفقہ باب تفعل سے ہے، مراد کوشش اور محنت کے ساتھ اچھی طرح سمجھ حاصل کرنا ہے۔ یہاں دین کے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں، ایک تو قتال فی سبیل اللہ یعنی اللہ کے راستے میں لڑنا، جیسا کہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم عینہ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک صورت) کے ساتھ بیع کرنے لگو گے اور کھیتی باڑی پر خوش ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا ( حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ ) ” یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آؤ۔ “ [ أبوداوٗد، البیوع، باب فی النھی عن العینۃ : ٣٤٦٢، و صححہ الألبانی ] یہاں دین سے مراد قتال فی سبیل اللہ ہے، اس میں تفقہ جنگ کے میدانوں ہی میں حاصل ہوسکتا ہے۔ سو سال تک شیخ الحدیث کی مسند پر بیٹھے رہیں، کبھی یہ تفقہ حاصل نہیں ہوگا، آپ اپنے گھر یا سکول یا کالج یا یونیورسٹی یا اکیڈمی یا دار العلوم میں جتنی بھی جنگی کتابیں اور دشمن کی چالیں پڑھ لیں، یا غازیان اسلام کے معرکے پڑھ لیں، میدان جنگ میں جائے بغیر دین (جنگ) کی حقیقی اور واقعی سمجھ کسی صورت حاصل نہیں ہوسکتی، نہ ہی آدمی اپنی قوم کو دشمن کے خطرے سے صحیح طور پر ڈرا کر اس سے بچنے کے لیے خبردار کرسکتا ہے۔ دین کا دوسرا معنی عام ہے، یعنی پورا دین اسلام، اس میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے بھی جہاد کے میدانوں کا رخ کرنا ضروری تھا، کیونکہ دین کے علم کا سرچشمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی تھی اور آپ مدینہ میں ہجرت کے بعد اکثر جہاد فی سبیل اللہ کے لیے سفر ہی میں رہتے، یا پھر اپنے کسی صاحب علم و فقہ صحابی کو امیر بنا کر بھیجتے تھے۔ بہت سے معجزات اور مسائل و احکام دوران سفر ہی واقع یا نازل ہوئے، اس لیے جب صحابہ کے حالات بیان ہوتے ہیں تو ان کی قابلیت و فضیلت کا ذکر اس طرح ہوتا ہے : ” شَھِدَ الْمُشَاھِدَ کُلَّھَا “ کہ وہ تمام جنگوں میں حاضر رہے اور کہا جاتا ہے : ” شَھِدَ الْبَدْرَ اَوِ الْحُدَیْبِیَۃَ اَوْ فَتْحَ مَکَّۃَ اَوْ حُنَیْنًا اَوْ تَبُوْکَ “ کہ فلاں صاحب بدر یا حدیبیہ یا فتح مکہ یا حنین یا تبوک میں شریک ہوئے اور یہ بات تو عیاں ہے کہ گھر کے بکھیڑوں میں علم و فقہ کا حصول اس طرح ممکن ہی نہیں جس طرح ہر چیز سے فارغ ہو کر لشکر اسلام میں جا کر ممکن ہے۔ دیکھو مسیلمہ کذاب کی لڑائی میں قرآن کے کتنے قاری اور علماء و فقہاء شہید ہوئے۔ لڑائی تو تھوڑی دیر کے لیے ہوئی تھی، باقی دوران سفر اقامت اور رباط میں تعلیم و تعلّم یعنی تفقہ فی الدین ہی کا شغل ہوتا تھا، جس میں لڑنے کے سلیقے کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام مسائل سیکھے سکھائے جاتے تھے اور سب لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ابوبکر، عمر، عشرہ مبشرہ اور دوسرے افاضل صحابہ کرام (رض) سے دوران جہاد میں دین سیکھتے اور واپس اپنی قوم میں جا کر انھیں دوسرے دینی مسائل سکھانے کے ساتھ ساتھ دنیا اور آخرت کی ذلت، ترک جہاد سے ڈرا کر انھیں دشمن سے بچنے کی ترغیب دیتے۔ ” لِيُنْذِرُوْا “ اور ” يَحْذَرُوْنَ “ پر غور فرمائیں تو بات کافی حد تک سمجھ میں آجائے گی کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار کون سی چیز میں تفقہ حاصل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ سید المفسرین امام طبری (رض) اور کئی اور مفسرین نے اسی مفہوم کو ترجیح دی ہے، البتہ ” لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ “ میں دین سے جہاد مراد لینے کی دلیل : ( حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ ) انھوں نے ذکر نہیں فرمائی۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب سورة توبہ میں جنگ تبوک سے رہ جانے والوں پر اللہ تعالیٰ نے سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تو ہر مسلمان کی کوشش اور خواہش یہ تھی کہ آئندہ ہم ہر جنگ میں ضرور جائیں گے، اس پر یہ آیت اتری کہ تمام مسلمانوں کو ہر مہم کے لیے نہیں نکل جانا چاہیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں اکیلے رہ جائیں، بلکہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں کو مدینہ میں آپ کے پاس بھی آ کر حاضر رہنا چاہیے، تاکہ وہ مدینہ کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہرے داری کا فریضہ بھی سرانجام دیں اور علم بھی حاصل کریں اور واپس جا کر اپنی قوم کو تعلیم دین سے آراستہ کریں۔ اسی طرح کچھ لوگوں کو دینی مدارس میں پڑھنے کے لیے بھی نکلنا چاہیے، تاکہ وہ یکسوئی سے دین کی اچھی طرح سمجھ حاصل کریں اور پھر واپس جاکر اپنی قوم کو دین سمجھا سکیں۔ ہاں حالات کے تحت امیر المومنین نفیر عام کا حکم دیں تو پھر سب کو نکلنا چاہیے، کیونکہ جب قیام کا وقت ہو سجدہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مطلب بھی بہت سے مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It will be realized that the expedition of Tabuk has continued ap¬pearing as an important subject in Surah At-Taubah. For this battle, a general call of Jihad was given asking all Muslims to participate in it. It was not permissible to contravene the order without a valid excuse. Those who did that were mostly hypocrites who have been mentioned in several verses appearing earlier. Then, some sincere Muslims had also remained behind due to their incidental laziness. Their repen¬tance was accepted by Allah Ta` ala. Obviously, from all these events it can be gathered that the going forth of all Muslims in every Jihad is fard (obligatory) and staying behind is Haram (unlawful) -although, this is not the religious law. In fact, Jihad during normal conditions is Fard al-Kifayah, a collective obligation. It means that, should a num¬ber of Muslims sufficient for Jihad keeps engaged in Jihad, rest of the Muslims stand absolved of the obligation. However, if the number par¬ticipating in Jihad turns out to be insufficient to the limits of being overpowered, it becomes obligatory on Muslims living nearby that they should come out to strengthen them and fight with them in the Jihad. If they too are not sufficient, the obligation falls on those near the lat¬er, and if they too are not sufficient, it falls on Muslims adjoining the later. This could reach the limit when, under such emergent condi¬tions, Jihad becomes Fard ` Ain (absolute individual obligation) on Muslims of the whole world, and it will be Haram (unlawful) to avoid participating in jihad. Similarly, it could also become equally obligato¬ry (fard) if the Amir of Muslims, seeing the need, gives a general call and invites Muslims to join the mission of Jihad. At that time too, par¬ticipation in Jihad becomes obligatory (fard) and staying behind becomes haram (unlawful) - as it happened in the expedition of Tabuk due to the general call of Jihad given for it. The verse cited above clari¬fies that this order to join the Jihad of Tabuk was a specific order due to the general call for it. Under normal conditions, Jihad is not an indi¬vidual obligation (Fard al-&Ain فَرض العین) that would require all Muslims to go forth in Jihad as a matter of obligation - because, like Jihad, there are other collective concerns and important undertakings of Islam and Muslims that are Fard al-Kifayah, also like Jihad. To fulfill these re¬sponsibilities too, different groups of Muslims have to follow the prin¬ciple of division of work. Therefore, all Muslims should not go forth in every Jihad. The submission here may also help you understand the reality of Fard al-Kifayah. The, areas of work that are not individual, but collective in nature, and the responsibility of carrying these out falls on all Muslims, are areas that the Shari’ ah of Islam has declared to be Fard al-Kifayah. The purpose is that everything keeps being tak¬en care of in its respective area and that all collective duties continue to be fulfilled. Duties such as washing, shrouding, offering Salah of Ja¬nazah and burying deceased Muslims, the making and maintaining of mosques, Jihad and the guarding of Islamic frontiers are all separate duties that are subject to the same rule of Fard al-Kifayah. In other words, the responsibility of fulfilling these obligations though falls on the Muslims of the whole world as a matter of principle but, should some of them were to do that satisfactorily enough, other Muslims also stand absolved of the obligation. An important area of work that falls within the imperatives of this Fard al-Kifayah is the religious educa¬tion. That it is an obligation has been particularly mentioned in this verse by saying that this obligation should not be left out unattended even during the period of engagement in as important a duty as Jihad. The way in which it could be accomplished is that a smaller section from out of every large section sets forth for Jihad while the rest of people keep engaged in the pursuit of religious education. Then, those so educated should orient Muslims going on Jihad as well as teach and train others in their religion. The obligation of acquiring religious knowledge, and its etiquette Imam al-Qurtubi has said, ` this verse is the root and foundation of religious knowledge (the &am of din) for its seeker.& If looked at careful¬ly, also given here is a brief curriculum (nisab) of religious education, as well as the duties of the person (` alim) who has qualified as one who has this knowledge. Therefore, this subject is being taken up in some details. The merits (fada&il) of acquiring religious knowledge Muslim scholars have written regular books on the merits of relig¬ious knowledge, great rewards (thawab) it brings and aspects related with it. Some brief reports relevant to the occasion are being cited here. Tirmidhi reports from Sayyidna Abu al-Darda& (رض) who narrated that he heard the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saying, ` whoever travels on a path for seeking knowledge (` ilm of din عِلَم اَلدَّین ), Allah Ta` ala will - in reward (thawab) for his effort - turn the orientation of his path towards Paradise.& A series of Hadith narratives appearing in Tafsir al-Qurtubi report that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: 1. ` The angels of Allah spread out their wings for (welcoming) the seeker of knowledge;& 2. ` Allah&s creatures in the heavens and the earth and fishes in the waters of the world pray for such seekers;& 3. ` The superiority of the ` Alim over the person who devotes to vol¬untary acts of worship (nafl ` ibadat) abundantly is like the superiority of the full moon over the rest of the stars;& 4. |"Ulama& are the inheritors of the blessed prophets;& 5. ` The blessed prophets leave no gold and silver as inheritance, but they do leave the legacy of knowledge. So, whoever inherits this legacy of knowledge has inherited great wealth.& Darimi reports a Hadith in his Musnad which says: ` Someone asked the Holy Prophet: (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) There were two men in Bani Isra&il. One was an ` Alim who would offer his prayers and then get busy teaching people their religion. The other fasted during the day and stood for prayers during the night. Of the two, who is superior? He said, |"That ` Alim (man of religious knowledge) is superior to the ` Abid (man of religious worship) as I am superior to a very common person from among you.|" (Reported by Imam Ibn ` Abd al-Barr in his book, Jami&u Bayan al-` Ilm, from Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) ، with relevant chain of narrators.) (Qurtubi) And the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said, ` a faqih (expert Muslim jurist), when confronting Shaytan, is stronger than a thousand wor¬shippers.& (Tirmidhi from Ibn ` Abbas - as in Mazhari). Then, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has also said, ` when a person dies, his deeds come to an end - except three, the thawab (reward) of which keeps reaching that person even after death. One: sadaqah jariyah (act of charity the bene¬fits of which continue) such as masjid, building for religious education or institutions of public welfare. Two: Knowledge through which peo¬ple continue to benefit even later on. (For example, a student of relig¬ion became an ` Alim who set in motion a chain of learning and teach¬ing the knowledge of religion for future generations; or someone wrote a book from which people kept benefiting even after the author was gone). Three: Children who are good (in character and up-bringing) and who keep praying for parents and do things the reward (thawab) of which continues to reach them.& (Qurtubi) Details of Individual and Collective Obligation in the Learning of Religion Backed by sound authority, Ibn ` Adiyy and al-Baihaqi report from Sayyidna Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: طَلَبَ العِلم فَرِیضَہ عِکٰی کُلِّ مُسلِم (Seeking knowledge is obligatory on every Muslim). (Mazhari) It is all too obvious that the sense of &ilm (knowledge) - as in this Hadith, as well as in those quoted a little earlier - is nothing but the &ilm of din (the knowledge of religion). Granted that worldly arts and sciences may be necessary for one as a part of the material man¬agement of life on this earth, but their merits are not the same as mentioned in the Alhadith appearing above. Then, the ` am of din (knowledge of religion) is not some solitary area of knowledge. It is a comprehensive system composed of many sciences. Then, it is also ob¬vious that every Muslim man and woman does not have the capacity to acquire full mastery over all these sciences. Therefore, when the Ha¬dith speaks of ` knowledge being obligatory on every Muslim,& it means the particular part of the knowledge of religion without which one can neither fulfill his or her obligations, nor stay away from the Haram (unlawful things) - being principles that are inseparably necessary for &Iman and Islam. As for the rest of the sciences, we should keep in mind that there are many more details of explanations, elements of wisdom and issues culled from the Qur&an and Hadith alone, not to mention the great range of injunctions and laws deduced from these sources. These are things beyond the capacity and control of every Muslim, nor has this been made an individual obligation (Fard al-` Ain) for each one of them. However, this is Fard al-Kifayah (collective obli¬gation), and as such, it becomes the responsibility of the Islamic world as a whole. The presence of one ` Alim, a genuine expert in all these sciences and religious laws in every city makes the rest of Muslims ab¬solved of this obligation. If a city or township has not even one ` Alim, it becomes obligatory on the people of the city or township that they should arrange to make someone from among themselves an ` Alim. If that is also not possible, they should invite one from outside, keep him in their city so that they can know, understand and act according to the fatwa of this scholar, specially when the need is acute and the problems are delicate. Therefore, given below are details of Fard al-` Ain and Fard al-Kifayah as they relate to the ` ilm of din (knowledge of religion): Fard al-` Ain: Individual Obligation It is obligatory on every Muslim, man and woman, to acquire the knowledge of: 1. Islam&s correct and authentic ` Aqa&id (beliefs). 2. Rules of Taharah (purity) and Najasah (impurity). 3. Salah (prayers), Sawm (fasting) and all ` Ibadat made fard (obligatory) or wajib (necessary) by the Shari’ ah. 4. Things declared to be haram (unlawful) or makruh (reprehensible or repugnant). 5. The rulings and injunctions of Zakah (prescribed alms) on the part of one who owns property or wealth above the fixed nisab or threshold. 6. The rulings and injunctions of Hajj on the part of one who has the capability of performing Hajj, for it is an individual obligation on him or her. 7. The rulings and injunctions of sale and lease (bai& and ijarah) on the part of one who has to buy and sell or run a business or industry or work on wages or salary, for it is his individual obligation to do that. 8. The rulings and injunctions of nikah (marriage) when getting married - and of talaq (divorce) as well. In brief, there are things the Shari’ ah of Islam has made obligatory or necessary on everyone. Acquiring the knowledge of the rules relat¬ing to these is also obligatory on every Muslim, man and woman. Knowing about Spiritual Purification is also an Individual Ob¬ligation (Fard al-` Ain) Everyone knows that the knowledge of the imperatives relating to one&s outward acts like Salah and Sawm is Fard al-Ain. However, Qadi Thanaullah Panipati, the author of Tafsir Mazhari has written under his commentary on this verse that it is also fard al-&ain to acquire the knowledge of the imperatives and prohibition pertaining to one&s inner acts and qualities. This kind of knowledge is usually called the science of Tasawwuf. Since these imperatives fall under the category of fard al-` ain, their knowledge too is fard al ain. But, the field of knowledge called Tasawwuf in our time has, become a potpourri of many fields of knowledge and insights, illumina¬tions and sense experiences. What is meant by Fard al-Ain at this place is nothing but that part of it which deals with the obligatory injunctions pertaining to one&s inner acts and qualities. For instance, there is the matter of true, correct and authentic ` Aqa&id (beliefs). These relate to man&s inward state. Or, take the case of spiritual vir¬tues like sabr (patience), shukr (gratitude), tawakkul (trust), qanaah (satisfaction with the available) and similar others. These are obligato¬ry (fard) in a particular degree. Or take the case of spiritual vices like pride and arrogance, malice and rancor, miserliness and greed for the material and similar others. These are haram (forbidden) on the au¬thority of the Qur&an, and Sunnah. So, it is also obligatory (fard) on every Muslim, man and woman, that he and she must find out the re¬ality behind these and learn the methods of acquiring virtues and avoiding what has been forbidden. (Irrespective of the claims made in the field of Tasawwuf or in its counter-Islamic versions of mysticism and its many derivations) the sole basis of Tasawwuf is no more than what is Fard ` Ain (under Islamic Law). Fard al-Kifayah To comprehend why the ` Ilm of Din (the full knowledge of religion) has been made Fard al-Kifayah, it will be useful to glance through what it entails. For your convenience, the integrated whole appears in three parts as follows: 1. To understand the meanings and rulings of the entire Qur&an, 2. To understand all Ahadith and to master the ability to sift and recognize the trustworthy from the untrustworthy, 3. To acquire a complete knowledge of all injunctions and rulings deduced from the Qur&an, and Sunnah and a full awareness of the views of the Sahabah, the Tabi` in and the Mujtahid Imams, expressed by them orally or practically. Knowing all this is a monumental task which is not easy even after one devotes. Therefore, the Shari` ah of Islam has declared this field of knowledge to be Fard al-Kifayah, that is, if some people acquire all this knowledge to the extent of its need in community life, rest of Muslims shall stand absolved. The curriculum of the ` Ilm of Din At this place, the Holy Qur&an has used one single word to tell us about the essence of the knowledge or science of religion, and its cur¬riculum as well. If the text had chosen to say something like: لِیَتَعلَّمُوا اَلدِّین (that is, so that they acquire the knowledge of religion), it would have obviously suited the occasion. But, at this place, the Holy Qur&an has bypassed the word: تَعلَم (ta&allum: learning) and elected to go by the word: تفقہ (tafaqquh: understanding). This gives a clear indication that a simple reading of the &am of din is not enough. This is something many disbelievers, Jews and Christians also do. Then, Shaytan is supposed to have it all, more than anyone. The fact of the matter is that the &am of din means ` to create an understanding of religion.& This is the exact translation of the word: تفقہ (tafaqquh) in the verse. A derivation from: فِقہ (fiqh), which essentially means understanding and comprehension. At this point, it is worth noticing that the Holy Qur&an has not even said: لِیَفقَھُوا الدَّین (liyafqahud-din: so that they understand the religion) by employing the verb from the simple (bare, denuded) form. Instead, the Qur&an has said: لِّيَتَفَقَّهُوا فی الدِّین (liyatafaqqahui fi ` d-din: so that they may acquire a perfect understanding of the Faith). Being from ` bab al tafa|"ul باب تفعل ، it has the added sense of exertion and striving in its pursuit. Thus, the drive of the meaning is that they should, while try¬ing to create a perfect understanding of religion, acquire the maximum possible expertise through continuous striving, hard work and endu¬rance. Then, it is also evident that the kind of understanding of relig¬ion we are talking about does not materialize by finding out the prob¬lems and solutions concerning purity, impurity, prayers, fasting, Zakah and Hajj. In fact, the understanding of religion means that one understands that he or she will have to account for every word, deed, movement and rest in the Hereafter, and that how should he or she live in this world (in view of that). The perfect understanding of relig¬ion is really the name of this concern. Therefore, Imam Abu Hanifah (رح) defines fiqh (understanding) by saying, ` that one understands everything the doing of which is necessary for him or her, and also understands everything abstaining from which is necessary for him or her.& As for the current definition of ` Ilmu &l-Fiqh as a religious science that deals with its subsidiary problems and rulings, it is a later day termi¬nology. The reality of Fiqh as it appears in Qur&an and Sunnah is no more than what the great Imam has stated: ` a person who has read through all books of religion but did not acquire this understanding is not an ` Alim in the terminology of Qur&an and Sunnah.& So, the gist of the investigation made here tells us that, in the terminology of the Qur&an, the sense of acquiring the knowledge of religion is to acquire its understanding, regardless of sources employed in such acquisition. These may be books or the company of teachers. They all form part of the curriculum. The essential duty of an ` Alien after he acquires the knowledge of Din This too the Holy Qur&an has put in one single sentence: لِيُنذِرُ‌وا قَوْمَهُمْ : |"so that they may warn their people (against the disobedience of Al¬lah).|" At this place as well, it is worth attention that the sentence has identified ` the warning of a people& as a duty of the ` Alim. The Arabic word: اِنذَار (indhar) is usually translated into English as warning in the sense of putting the fear of something into someone, though it still does not convey the ultimate sense in full. The truth of the matter is that such warning or putting the fear of what must be avoided can take many forms. For instance, one may warn against an enemy, thief, robber or some beast or poisonous creeper. Then, there is the kind of warning a father would give, out of his affection and concern for his children, against things that hurt, like the fire, poisonous insects and unhealthy food. This is based on love, and on the desire to protect which has a special tone and temper, totally different from the former. Indhar اِنذَار is the name of warning given in that manner and with that mo¬tive. Therefore, prophets and messengers of Allah have been given the title of نَذِیر (nadhir: warner) and this duty of warning people assigned to the ` Alim is really nothing but a part of the legacy left by prophets which, according to the binding authority of Hadith, the ` Alien inherits. At this point, we may also wish to consider that the blessed proph¬ets are known by two appellations: Bashir بَشِیر and نَذِیر Nadhir. You already know the meaning of nadhir (warner) from the preceding discussion. Bashir means one who gives basharah, that is, good news or glad tid¬ings. It is a part of the mission of blessed prophets that they give glad tidings to those who act righteously. Though, at this place too, what has been mentioned is Indhar اِنذَار or warning explicitly, yet, other textual imperatives show that it is also the duty of an ` Alim that he should give good news of rewards too for those who do good deeds. Now that the mention of indhar (warning) has been considered sufficient at this place has its reason. Actually, it indicates that man is charged with two things. One: that he elects to do what is beneficial for him in this world and in the world to come. Two: that he avoids doing things likely to bring harm to him. People of learning and people of wisdom both agree that the later of the two has the higher priority. In the terminol¬ogy of Muslim jurists, this is known as ` bringing benefit& and ` repelling harm& and the latter has been given precedence to the former. In addi¬tion to that, when harm is repelled, it serves the purpose of bringing benefit in its own way, because if someone abandons what is beneficial and necessary for him, it brings harm. Given this situation, whoever makes the effort to stay safe from the harmful effects of bad deeds will also make the effort to stay away from leaving off what one must do necessarily. From here we also learn the main reason why religious sermons and acts of da&wah generally remain ineffective in our time. We have seen a glimpse of the cardinal etiquette of indhar or warning, as given above. Contemporary sermons and acts of da&wah seem to miss the manners, something that would exude care, concern, attachment, mer¬cy and the earnest wish to give out what is really good for the listen¬ers, not only in words but through the style of address and the empa¬thy of tone and diction as well. It would be wonderful if the addressee comes to believe that the things the speaker is saying do not aim at disgracing him or settling scores against him, in fact, this person is telling me what he thinks is good and beneficial for me just out of love. If the tabligh تَبلِیغ we do today or the da&wah we carry to correct people who violate commandments of the Shari&ah were to adopt this pattern of behavior, it is absolutely certain that it will bring forth at least one immediate response: the addressees will not be apprehensive, irritat¬ed, dogmatic or obstinate about our submission. They would not worry about confronting us. Everyone would, rather, become attuned to him-self and start sorting out his own doings and thinking about what was going to happen to him. And if this effort continues, the time is to come, sooner or later, when such a person will be even willing to ac¬cept what had been presented before him. The second outcome of this attitude is that it will not, at least, generate mutual hatred and altercation, something which holds contemporary Muslims in its grips. In the end, by saying: لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُ‌ونَ (that they may be cautious), it was also indicated that the duty of an ` Alim was not simply limited to put¬ting the fear of Allah&s punishment in the hearts of people. Instead, he also has to watch and assess the extent and measure of the effect generated by his tabligh and da&wah. May be it did not work the first time. If so, let him do it again and again, until he sees its result: |" يَحْذَرُ‌ونَ |" with his own eyes, which means that his people have become cautious and have started staying away from sins. Allah knows best.

خلاصہ تفسیر اور (ہمیشہ کیلئے) مسلمانوں کو یہ ( بھی) نہ چاہئے کہ ( جہاد کے واسطے) سب کے سب ( ہی) نکل کھڑے ہوں ( کہ اس میں دوسری اسلامی ضروریات معطل ہوتی ہیں) سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت ( جہاد میں) جایا کرے ( اور کچھ اپنے وطن میں رہ جایا کریں) تاکہ باقی ماندہ لوگ ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت میں آپ سے اور آپ کے بعد علماء شہر سے) دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو ( جو کہ جہاد میں گئے ہوئے ہیں) جبکہ وہ ان کے پاس آویں ( دین کی باتیں سنا کر خدا کی نافرمانی سے) ڈراویں تاکہ وہ ( ان سے دین کی باتیں سن کر برے کاموں سے) احتیاط رکھیں۔ معارف و مسائل سورة توبہ میں بڑی اہمیت کے ساتھ غزوہ تبوک کا ذکر مسلسل چلا آیا ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نفیر عام کا اعلان کیا گیا تھا کہ سب مسلمان اس میں شریک ہوں، اس حکم کی خلاف ورزی بلا عذر صحیح جائز نہ تھی، جو لوگ خلاف ورزی میں مبتلا ہوئے ان میں زیادہ تو منافقین تھے جن کا ذکر بہت سی آیات میں اوپر آیا ہے، کچھ مخلص مومن بھی تھے جو وقتی کاہلی اور سستی کے سبب رہ گئے تھے، ان کی توبہ حق تعالیٰ نے قبول فرمالی، ان سب واقعات سے بظاہر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر جہاد اور غزوہ میں سب ہی مسلمانون کو نکلتا فرض اور تخلف حرام ہے، حالانکہ حکم شرعی یہ نہیں، بلکہ جہاد عام حالات میں فرض کفایہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں کی کچھ جماعت جو جہاد کے لئے کافی ہو جہاد میں مشغول رہے تو باقی مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، ہاں اگر جہاد میں شریک ہونے والی جماعت کافی نہ ہو وہ مغلوب ہونے لگے تو آس پاس کے مسلمانوں پر ان کی تقویت کیلئے نکلنا اور جہاد میں شریک ہونا فرض ہوجاتا ہے وہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے قریب کے لوگوں پر اور وہ بھی کافی نہ ہوں تو ان کے متصل جو مسلمان ہیں ان پر یہاں تک کہ سارے عالم کے مسلمانوں کا امیر ضرورت سمجھ کر نفیر عام کرے اور سب مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دے، تو اس وقت بھی جہاد کی شرکت فرض اور تخلف حرام ہوجاتا ہے جیسا واقعہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے پیش آیا، مذکور الصدر آیت میں اسی حکم کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ غزوہ تبوک میں نفیر عام کی وجہ سے خصوصی حکم تھا، عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں کہ سب مسلمانوں پر جہاد میں جانا فرض ہو کیونکہ جہاد کی طرح اسلام اور مسلمانوں کے اجتماعی مسائل اور مہمات بھی ہیں جو جہاد ہی کی طرح فرض کفایہ ہیں ان کے لئے بھی مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کو تقسیم کار کے اصول پر کام کرنا ہے اس لئے سب مسلمانوں کو ہر جہاد میں نکلنا نہیں چاہئے، اسی مضمون سے فرض کفایہ کی حقیقت بھی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو کام شخصی نہیں اجتماعی ہیں اور سب مسلمانوں پر ان کے پورا کرنے کی ذمہ داری ہے ان کو شریعت میں فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاکہ تقسیم کار کے اصول پر سب کام اپنی اپنی جگہ چلتے رہیں اور یہ اجتماعی فرائض سب ادا ہوتے رہیں، مسلمان مردوں پر نماز جنازہ اور اس کی تکفین مساجد کی تعمیر و نگرانی، جہاد، اسلامی سرحدوں کی حفاظت یہ سب اسی فرض کفایہ کے افراد ہیں کہ ان کی ذمہ داری تو پورے عالم کے مسلمانوں پر ہے مگر بقدر کفایت کچھ لوگ کرلیں تو دوسرے مسلمان بھی فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اسی فرض کفایہ کے سلسلہ کا ایک اہم کام دینی تعلیم ہے اس آیت میں خصوصیت سے اس کے فرض ہونے کا اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ جہاد جیسے اہم فرض میں بھی اس فرض کو چھوڑنا نہیں جس کی صورت یہ ہے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جہاد کیلئے نکلے اور باقی لوگ علم دین حاصل کرنے میں لگیں، پھر یہ علم دین حاصل کرکے جہاد میں جانے والے مسلمانوں کو اور دوسرے لوگوں کو علم دین سکھائیں۔ طلب علم دین کا فرض ہونا اور اس کے آداب و فرائض : امام قرطبی نے فرمایا ہے کہ یہ آیت طلب علم دین کی اصل اور بنیاد ہے، اور غور کیا جائے تو اسی آیت میں علم دین کا اجمالی نصاب بھی بتلا دیا گیا ہے علم حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض بھی، اس لئے اس مضمون کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے : علم دین کے فضائل : علم دین کے فضائل اور ثواب عظیم اور اس کے متعلقات پر علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، اس جگہ چند مختصر روایات نقل کی جاتی ہیں، ترمذی نے حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص کسی راستے پر چلے جس کا مقصد علم حاصل کرنا ہو اللہ تعالیٰ اس چلنے کے ثواب میں اس کا راستہ جنت کی طرف کردیں گے، اور یہ کہ اللہ کے فرشتے طالب علم کیلئے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یہ کہ عالم کے لئے تمام آسمانوں اور زمین کی مخلوقات اور پانی کی مچھلیاں دعا و استغفار کرتی ہیں، اور یہ کہ عالم کی فضیلت کثرت سے نفلی عبادت کرنے والے پر ایسی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت باقی سب ستاروں پر، اور یہ کہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں، اور یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) سونے چاندی کی کوئی میراث نہیں چھوڑتے لیکن علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، تو جس شخص نے یہ روایت علم حاصل کرلی اس نے بڑی دولت حاصل کرلی “ ( از قرطبی ) ۔ اور دارمی نے اپنے مسند میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے، ایک عالم تھا جو صرف نماز پڑھ لیتا اور پھر لوگوں کو دین کی تعلیم دینے میں مشغول ہوجاتا تھا، دوسرا دن بھر روزہ رکھتا، اور رات کو عبادت میں کھڑا رہتا تھا، ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنی آدمی پر “ ( یہ روایت امام عبدالبر نے کتاب جامع بیان العلم میں سند کیساتھ حضرت ابو سعید خدری سے نقل کی ہے ( قرطبی) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک فقیہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عبادت گذاروں سے زیادہ قوی ہے اور بھاری ہے ( ترمذی عن ابن عبا س، از مظہری) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے، ایک صدقہ جاریہ، جیسے مسجد یا دینی تعلیم کی عمارت یا رفاہ عام کے ادارے، دوسرے وہ علم جس سے اس کے بعد بھی لوگ نفع اٹھاتے رہیں ( مثلا شاگرد عالم ہوگئے، ان سے آگے لوگوں کو علم دین سکھانے کا سلسلہ چلتا رہا، یا کوئی کتاب تصنیف کی جس سے اس کے بعد بھی لوگ فائدہ اٹھاتے رہے ) ۔ تیسرے اولاد صالح جو اس کیلئے دعا اور ایصال ثواب کرتی رہے ( از قرطبی) علم دین کے فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل : ابن عدی اور بیہقی نے بسند صحیح حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم ( از مظہری) یعنی علم حاصل کرنا فرض ہے ہر ایک مسلمان پر۔ یہ ظاہر ہے کہ اس حدیث اور مذکورہ سابقہ احادیث میں علم سے مراد علم دین ہی ہے، دنیوی علم و فنون عام دنیا کے کاروبار کی طرح انسان کے لئے ضروری سہی، مگر ان کے وہ فضائل نہیں جو احادیث مذکورہ میں آئے ہیں، پھر علم دین ایک علم نہیں، بہت سے علوم کو پورا مشتمل ایک جامع نظام ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت اس پر قادر نہیں، کہ ان سب علوم کو پورا حاصل کرسکے، اس لئے حدیث مذکورہ میں جو ہر مسلمان پر فرض فرمایا ہے اس سے مراد علم دین کا صرف وہ حصہ ہے جس کے بغیر آدمی نہ فرائض ادا کرسکتا ہے نہ حرام چیزوں سے بچ سکتا ہے جو ایمان اسلام کیلئے ضروری ہے، باقی علوم کی تفصیلات قرآن و حدیث کے تمام معارف و مسائل پھر ان سے نکالے ہوئے احکام و شرائع کی پوری تفصیل یہ نہ ہر مسلمان کی قدرت میں ہے نہ ہر ایک پر فرض عین ہے، البتہ پورے عالم اسلام کے ذمہ فرض کفایہ ہے، ہر شہر میں ایک عالم ان تمام علوم و شرائع کا ماہر موجود ہو تو باقی مسلمان اس فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، اور جس شہر یا قصبہ میں ایک بھی عالم نہ ہو تو شہر والوں پر فرض ہے کہ اپنے میں سے کسی کو عالم بنائیں، یا باہر سے کسی عالم کو بلا کر اپنے شہر میں رکھیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر باریک مسائل کو اس عالم سے فتوٰی لے کر سمجھ سکیں، اور عمل کرسکیں، اس لئے علم دین میں فرض عین اور فرض کفایہ کی تفصیل یہ ہے کہ :۔ فرض عین : ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ اسلام کے عقائد صحیحہ کا علم حاصل کرے اور طہارت نجاست کے احکام سیکھے، نماز روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرے، جس شخص کے پاس بقدر نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکوٰة کے مسائل و احکام معلوم کرے، جن کو حج پر قدرت ہے اس کیلئے فرض عین ہے کہ حج کے احکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شراء کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرض عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے احکام و مسائل اور طلاق کے احکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کئے ہیں ان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ علم تصوف بھی فرض عین میں داخل ہے : احکام ظاہرہ نماز، روزے کو تو سب ہی جانتے ہیں کہ فرض عین ہیں، اور ان کا علم حاصل کرنا بھی فرض عین ہے، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ اعمال باطنہ اور محرمات باطنہ کا علم جس کو عرف میں علم تصوف کہا جاتا ہے چونکہ یہ باطنی اعمال بھی ہر شخص پر فرض عین ہیں تو ان کا علم بھی سب پر فرض عین ہے۔ آجکل جس کو علم تصوف کہا جاتا ہے وہ بھی بہت سے علوم و معارف اور مکاشفات و واردات کا مجموعہ بن گیا ہے اس جگہ فرض عین سے مراد اس کا صرف وہ حصہ ہے جس میں اعمال باطنہ فرض و واجب کی تفصیل ہے، مثلا عقائد صحیحہ جس کا تعلق باطن سے ہے یا صبر، شکر، توکل، قناعت وغیرہ ایک خاص درجے میں فرض ہیں، یا غرور وتکبر، حسد و بغض، بخل و حرص دنیا وغیرہ جو ازروئے قرآن و سنت حرام ہیں، ان کی حقیقت اور اس کے حاصل کرنے یا حرام چیزوں سے بچنے کے طریقے معلوم کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے علم تصوف کی اصل بنیاد اتنی ہی ہے جو فرض عین ہے۔ فرض کفایہ : پورے قرآن مجید کے معانی و مسائل کو سمجھنا، تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر کی پہچان پیدا کرنا، قرآن و سنت سے جو احکام و مسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا، اس میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال و آثار سے واقف ہونا یہ اتنا بڑا کام ہے کہ پوری عمر اور سارا وقت اس میں خرچ کرکے بھی پورا حاصل ہونا آسان نہیں، اس لئے شریعت نے اس علم کو فرض کفایہ قرار دیا ہے، کہ بقدر ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں تو باقی مسلمان سبکدوش ہوجائیں گے۔ علم دین کا نصاب : قرآن حکیم نے اس جگہ علم دین کی حقیقت اور اس کا نصاب بھی ایک ہی لفظ میں بتلا دیا ہے، وہ ہے لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ ، یہ موقع بظاہر اس کا تھا کہ یہاں یتعلمون الدین کہا جاتا، یعنی علم دین حاصل کریں، مگر قرآن نے اس جگہ تعلم کا لفظ چھوڑ کر تفقہ کا لفظ اختیار فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ علم دین کا محض پڑھ لینا کافی نہیں، وہ تو بہت سے کافر یہودی نصرانی بھی پڑہتے ہیں، اور شیطان کو سب سے زیادہ حاصل ہے، بلکہ علم دین سے مراد دین کی سمجھ پیدا کرنا ہے، یہی لفظ تفقہ کا ترجمہ ہے، اور یہ فقہ سے مشتق ہے، فقہ کے معنی سمجھ بوجھ ہی کے ہیں، یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ مجرد کے صیغے سے لیفقھوا الدین، یعنی تاکہ دین کو سمجھ لیں، نہیں فرمایا بلکہ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ فرمایا، جو باب تفعل سے ہے اس کے معنی میں محنت و مشقت کا مفہوم شامل ہے مراد یہ ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں پوری محنت و مشقت اٹھا کر مہارت حاصل کریں، یہ بھی ظاہر ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ صرف اتنی بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ طہارت، نجاست یا نماز، روزے، زکوٰة، حج کے مسائل معلوم کرے، بلکہ دین کی سجھ بوجھ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ہر قول و فعل اور حرکت و سکون کا آخرت میں اس سے حساب لیا جائے گا، اس کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہئے، دراصل اسی فکر کا نام دین کی سجھ بوجھ ہے، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فقہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان ان تمام کاموں کو سمجھ لے جن کا کرنا اس کے لئے ضروری ہے، اور ان تمام کاموں کو بھی سمجھ لے جن سے بچنا اس کے لئے ضروری ہے، آجکل جو علم فقہ مسائل جزئیہ کے علم کو کہا جاتا ہے یہ بعد کی اصطلاح ہے، قرآن و سنت میں فقہ کی حقیقت وہی ہے جو امام اعظم نے بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے دین کی کتابیں سب پڑھ ڈالیں مگر یہ سمجھ بوجھ پیدا نہ کی وہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں عالم نہیں، اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ علم دین حاصل کرنے کا مفہوم قرآن کی اصطلاح میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے وہ جن ذرائع سے حاصل ہو وہ ذرائع خواہ کتابیں ہوں یا اساتذہ کی صحبت، سب اس نصاب کے اجزاء ہیں۔ علم دین حاصل کرنے کے بعد عالم کے فرائض : اس جگہ قرآن کریم نے اس کو بھی ایک ہی جملہ میں پورا بیان فرما دیا ہے، وہ ہی (آیت) لِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ یعنی تاکہ وہ اپنی قوم کو اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔ یہاں بھی یہ بات قابل نظر ہے کہ اس جملہ میں عالم کا فرض انذار قوم بتلایا ہے، انذار کا لفظی ترجمہ ہم اردو میں ڈرانے سے کرتے ہیں مگر یہ اس کا پورا ترجمہ نہیں اردو زبان کی تنگی کی وجہ سے کوئی ایک لفظ اس کے پورے ترجمہ کو ادا نہیں کرتا، حقیقت یہ ہے کہ ڈرانا کئی طرح کا ہوتا ہے، ایک ڈرانا دشمن، چور ڈاکو یا کسی درندے زہریلے جانور سے ہے، ایک ڈرانا وہ ہے جو باپ اپنی شفقت سے اولاد کو تکلیف دہ چیزوں جیسے آگ، زہریلے جانور مضر غذاء سے ڈراتا ہے جس کا منشاء شفقت و محبت ہوتی ہے، اس کا لب و لہجہ بھی کچھ اور ہی ہوتا ہے، انذار اسی قسم کے ڈرانے کا نام ہے اسی لئے پیغمبروں اور رسولوں کو نذیر کا لقب دیا گیا ہے اور عالم کا یہ فریضہ انذار درحقیقت وراثت نبوت ہی کا جز ہے جو بنص حدیث عالم کو حاصل ہوتی ہے۔ مگر یہاں قابل غور یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے دو لقب ہیں، بشیر اور نذیر، نذیر کے معنی تو ابھی آپ معلوم کرچکے ہیں، بشیر کے معنی ہیں بشارت اور خوشخبری سنانے والا، انبیاء (علیہم السلام) کا ایک کام یہ بھی ہے کہ نیک عمل کرنے والوں کو بشارت سنائیں، اس جگہ بھی اگرچہ صراحةً ذکر انذار کا کیا گیا ہے، مگر دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم کا فرض یہ بھی ہے کہ نیک کام کرنے والوں کو بشارت بھی سنائے، لیکن اس جگہ صرف انذار کے ذکر پر اکتفاء کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کے ذمے دو کام ہیں ایک یہ کہ جو عمل اس کے لئے دنیا و آخرت میں مفید ہیں ان کو اختیار کرے، دوسرے یہ کہ جو عمل اس کیلئے مضر ہیں ان سے بچے، باتفاق علماء و عقلاء ان دونوں کاموں میں سے دوسرا کام سب سے مقدم اور اہم ہے، اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں جلب منفعت اور دفع مضرت کے دو لفظوں سے تعبیر کرکے دفع مضرت کو جلب منفعت سے مقدم قرار دیا ہے، اس کے علاوہ دفع مضرت میں ایک حیثیت سے جلب منفعت کا مقصد بھی پورا ہوجاتا ہے، کیونکہ جو کام انسان کیلئے مفید اور ضروری ہیں ان کا ترک بڑی مضرت ہے تو جو شخص مضرت اعمال سے بچنے کا اہتمام کرے گا وہ اعمال ضروریہ کے ترک سے بچنے کا بھی اہتمام کرے گا۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آجکل جو عموماً وعظ و تبلیغ بہت کم مؤ ثر ہوتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں انذار کے آداب نہیں ہوتے، جس کے طرز بیان اور لب و لہجے سے شفقت و رحمت اور خیر خواہی مترشح ہو، مخاطب کو یقین ہو کہ اس کے کلام کا مقصد نہ مجھے رسوا کرنا ہے نہ بدنام کرنا نہ اپنے دل کا غبار نکالنا، بلکہ یہ جس چیز کو میرے لئے مفید اور ضروری سمجھتا ہے وہ محبت کی وجہ سے مجھے بتلا رہا ہے، اگر آج ہماری تبلیغ اور خلاف شرع امور کے مرتکب لوگوں کو اصلاح کی دعوت کا یہ طرز ہوجائے تو اس کا ایک نتیجہ تو قطعا لازم ہی ہے کہ مخاطب کو ہماری گفتگو سے ضد پیدا نہیں ہوگی، وہ جواب دہی کی فکر میں پڑنے کے بجائے اپنے اعمال کا جائزہ لینے اور انجام سوچنے کی طرف متوجہ ہوجائے گا اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کبھی نہ اس کو قبول کرے گا اور دوسرا نتیجہ یہ لازمی ہے کہ کم از کم اس سے باہمی منافرت اور لڑائی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا، جس میں آجکل ہماری پوری قوم مبتلا ہے۔ آخر میں (آیت) لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ عالم کا کام اتنا ہی نہیں کہ عذاب سے ڈرا دیا بلکہ اس پر نظر رکھنا بھی ہے کہ اس کی تبلیغ و دعوت کا اثر کتنا اور کیا ہوا، ایک دفعہ مؤ ثر نہیں ہوئی تو بار بار کرتا رہے، تاکہ اس کا نتیجہ يَحْذَرُوْنَ برآمد ہوسکے یعنی قوم کا گناہوں سے بچنا واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝ ٠ ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝ ١٢٢ ۧ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله : وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی. ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والانَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دینی علم حاصل کرنا ضروری ہے قول باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے ، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آئے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت نے قول باری انفروا اثبات او انفروا جمعیا ً پھر الگ الگ دستوں کی شکل میں نکلویا اکٹھے ہو کر کو منسوخ کردیا ہے نیز قول باری انفروا اخفا فاً و ثقا لا ً نکل پڑو ہلکے اور بوجھل بھی اس آیت کی بنا پر منسوخ ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں فرمادیا کہ اہل ایمان کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب فوجی مہمات میں نکل پڑیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں تنہا چھوڑ جائیں بلکہ ہونایہ چاہیے کہ مدینہ میں کچھ لوگ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے رہ جائیں اور جب مجاذ پر جانے والے لوگ واپس آئیں تو یہ لوگ انہیں دین کی باتیں سنا کر اللہ کی ذت سے ڈرائیں ۔ حسن کا قول ہے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آبادی کے ہر حصے سے لوگ نکل کر آئیں اور دین کی سمجھ پیدا کریں پھر اپنی اپنی قوم کی طرف واپس جا کر پیچھے رہ جانیوالے لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر ان کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کریں ۔ یہ تاویل ظاہر آیت سے زیادہ مشابہ ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھم ! فی الدین ظاہر کلام اس امر کا مقتضی ہے کہ نکل کر آنے والے لوگوں کا گروہ ہی دین کی سمجھ پیدا کر کے واپس جا کر اپنے اپنے لوگوں کو دین کی باتیں سنا کر اللہ کے عذاب سے ڈرائے ۔ پہلی تاویل کی بنا پر وہ لوگ دین کی سمجھ پیدا کریں جن میں سے ایک گروہ محاذ پر آگیا ہو اور بعد میں یہی لوگ محاذ پر جانے والے لووں کو ان کی واپسی پر دین کی باتیں بتائیں۔ یہ تاویل دو وجوہ سے بعید ہے۔ اول یہ کہ عطف کا قاعدہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اپنے متصل لفظ کے ساتھ ہوتا ہے اس سے پہلے آنے والے لفظ کے ساتھ نہیں ہوتا اس بنا پر قول باری منھم طائفۃ لیتفقھوا میں یہ ضروری ہے کہ طائفہ سے مراد وہ گروہ ہو جو دین کی سمجھ پیدا کرے اور دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈرانے کا کام کرے۔ اس فقرے کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ ہر ایسے گروہ میں سے جو دین کی سمجھ پیدا کرے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل جائے۔ اس لیے کہ یہ مفہوم کلام کی ترتیب کو اس کے ظاہر سے ہٹادینے کا مقتضی ہے نیز اس سے کلام میں ت قدیم و تاخیر کا اثبات بھی لازم آتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری لیتفقھوا فی الدین کو سامنے رکھتے ہوئے آیت میں دار و لفظ طائفہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے کام کے لیے آیت کے لفظ فرقہ سے زیادہ موزوں ہے جس سے پھر ایک طائفہ محاذ پر جانے کے لیے نکلنے والا ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے ایک طائفہ کا نکلنا تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس مقصد کے لیے باہرنکلا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ فرقہ جس میں سے ایک طائفہ محاذ کی طرف نکل گیا ہو، دین میں اس لیے سمجھ نہیں پیدا کرتا تا کہ اس کا ایک گروہ نکل کر میدان جنگ میں چلا گیا ہے، اس لیے کہ اس فرقہ کو تفقہ فی الدین تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشاہدہ اور آپ کی صحبت میں مسلسل رہنے کی بنا پر حاصل ہوجاتا ہے۔ انہیں تفقہ فی الدین اس لیے حاصل نہیں ہوتا کہ انکا ایک طائفہ محاذ پر چلا گیا ہے۔ اس لیے کلام کو اس معنی پر محمول کرنے سے قول باری لیتفقھوا فی الدین کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہے گا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جو لوگ دین کی سمجھ حاصل کرنیوالے ہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو آبادیوں میں مقیم لوگوں میں سے نکل کر آتے ہیں اور پھر اپنی اپنی آبادی اور قوم میں واپس جا کر لوگوں کو دین کی باتیں بتا کر اللہ کی ذات سے ڈراتے ہیں۔ اس آیت میں علم دین کی طلب کے وجوب پر دلالت موجود ہے نیز یہ کہ اس کی طلب فرض کفایہ ہے اس لیے کہ آیت اس مفہوم کو متمضن ہے کہ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لیے آبادی میں ایک گروہ کو باہر نکلنے کا حکم دیا گیا جبکہ باقی ماندہ آبادی کو اپنی جگہ ٹھہرنے رہنے کا امر کیا گیا ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے وما کان المومنون لینفروا گا فۃ زیاد بن میمون نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ۔ علم یعنی علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ یہ روایت ہمارے نزدیک دو معنوں پر محمول ہے اول یہ کہ ایک مسلمان کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں جن مسائل اور دینی امور سے سابقہ رہتا ہے۔ انکے متعلق علم حاصل کرنا اس پر فرض ہے ، مثلاً ایک مسلمان کو اگر نماز کے ارکان و شرائط نیز اوقات کا علم نہ ہو تو اس پر ان باتوں کا سیکھنا فرض ہوگا ۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان دو سو درہم کا مالک ہوجائے تو اس پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کا علم حاصل کرنا فرض ہوگا ۔ یہی حکم روزہ ، حج اور دیگر تمام فرائض کا ہے۔ روایت کا دوسرا مفہم یہ ہے کہ ہر مسلمان پر علم دین حاصل کرنا فر ض ہے لیکن یہ فرض کفایہ ہے کہ اگر آبادی میں سے چند لو اس کام کے لیے مختص ہوجائیں تو باقی ماندہ لوگوں سے یہ فریضہ ساقط ہوجائے گا ۔ آیت زیر بحث کی اس بات پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایسے دینی معاملات میں جن کا تعلق تمام لوگوں سے نہیں ہوتا ورنہ ہی تمام لوگوں کو ان کی ضرورت پیش آتی ہے خبر واحد کے ذریعہ حکم کا لزوم ہوجاتا ہے وہ اس طرح کہ جب ایک گروہ کو انداز پر مامور کرکے اسے لوگوں کو خدا کی ذات سے ڈراتے رہنے کا پابند کردیا گیا ہے تو اس کا مفہوم ہماری درج بالا بات پر دو وجوہ سے دلالت کرے ایک تو یہ کہ انداز یعنی ڈراتے رہنام اس فعل پر عمل کا مقتضی ہے جسے کرنے کا حکم ملا ہو، بصورت دیگر انداز کے کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا کہ انداز پر مامور گروہ سے زبان سے دین کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں خوف خدا پیدا ہوجائے اور ہم غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرنے لگ جائیں اس لیے کہ قول باری لعلھم یحذرون تا کہ وہ غیر مسلمانہ روش سے پرہیز کرتے کے معنی لیحذزوراتا کہ وہ پرہیز کرتے اور یہ مفہوم خبر واحد کی بنا پر لزوم عمل کے معنی کو متمضن ہے اس لیے طائفہ کا اسم ایک فرد پر بھی واقع ہوتا ہے۔ خبر واحد پر عمل لازم ہے چنانچہ قول باری ولیشھد عذابھا طائفۃ من المومنین اور ان دونوں کی سزا کو اہل ایمان کا ایک طائفہ اپنی آنکھوں سے دیکھے کی تفسیر میں ایک روایت کے مطابق ایک فرد مراد ہے۔ نیز قول باری ہے وان طائفتان من المومنین اقتلوا اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ باہم قتل و قتال پر اتر آئیں ۔ اگر دو مسلمان بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑائی پر اتر آئیں تو وہ بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہوں گے اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے لغت میں طائفہ کا لفظ بعض اور قطعہ کے الفاظ کی طرح ہے اور یہ مفہوم ایک فرد کے اندر بھی موجود ہوتا ہے۔ اس بنا پر قول باری من کل فرقۃ منھم طائفۃ کی مفہوم کے لحاظ سے وہی حیثیت ہے جو حیثیت اس صورت میں ہوتی جب آیت بعضھما یا شی منھا کے الفاظ پر مشتمل ہوتی ۔ اس لیے خبر واحد جس میں علم کو واجب کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی ، اسے قبول کرلینے کے وجوب پر آیت کی دلالت بالکل واضح ہے۔ اگر آیت کی وہ تاویل اختیار کی جائے جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ باہر جانے والا گروہ وہ دراصل وہ گروہ ہے جو مدینہ منورہ سے نکل کھڑا ہو اور دین میں سمجھ پیدا کرنے والا گروہ وہ ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہ جائے تو اس صورت میں بھی خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر آیت کی دلالت بحالہ قائم رہتی ہے۔ اس لیے کہ محاذ جنگ پر جانے کے لیے نکل کھڑا ہونے والا گروہ جب واپس آئے گا تو پیچھے رہ جانے والا گروہ اسے دین کی باتیں بتا کر اور نازل ہونے والے احکام کی خبردے کر اللہ کی ذات سے ڈرائے گا ۔ یہ چیز بھی مدینہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کی موجودگی کے باوجود وہاں خبر واحد کو قبول کرلینے کے لزوم پر دلالت آتی ہے اس لیے کہ آیت کے سامعین پر یہ بات لازم کردی گئی ہے کہ مدینہ میں رہ کر دین کی سمجھ پیدا کرنے والوں کی زبان سے باتیں سن کر ان پر غیر مسلمانہ روش سے پرہیز واجب ہے۔ قول باری ہے یایھا الذین امنواقاتلوا الذین یلونکم منالکفار ولیحد وافیکم غلظۃ ۔ اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! جنگ کرو ان منکرین حق سے جو تمہارے پاس ہیں اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کافروں سے جنگ کو خاص کردیا جو مسلمانوں کے آس پاس ہوں جب کہ سورت کی ابتداء میں فرمایا فاقتلوا المشرکین حیث و جدتموھم مشرکین کو جہاں کہیں پائو قتل کر دو ۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد ہوا وقاتلوا المشرکین گا فۃ اور تمام مشرکین کے خلاف جنگ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں سے جنگ کو واجب کردیا لیکن خصوصیت کے ساتھ صرف ان کافروں کا ذکر کیا جو ہمارے آس پاس ہوں ، کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ تمام کافروں سے بیک وقت لڑنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ صرف کسی ایک گروہ کے خلاف جنگ کرنا ممکن ہے۔ اس بنا پر جو کافر ہم سے قریب ہوں ان کیخلاف جنگی کارروائی کرنا ان کافروں کی بہ نسبت زیادہ موزوں ہوگا جو ہم سے دور ہوں اس لیے کہ اگر ہم قریب کے کافروں سے پنجہ آزمائی ترک کر کے دور کے کافروں کے ساتھ نبر د آزماء میں مشغول ہوجائیں تو اس سے قریب کے کافروں کو مسلمانوں کے بال بچوں پر حملہ کرنے نیز دارالاسلام میں گھس آنے کا موقع مل جائے گا کیونکہ اس صورت میں گھرکا محاذ مجاہدین سے خالی ہوگا جس سے کافر پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی بنا پر آس پاس اور قریب وجوار کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اس میں ایک پہلو بھی ہے کہ ابعد یعنی دور کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کا مکلف بنانا درست نہیں ہے اس لیے کہ ابعد کی کوئی حد نہیں ہے جہاں سے قتال کی ابتداء کی جاسکے۔ اس کے برعکس اقرب یعنی قرب جواز اور آس پاس کی حد ہوتی ہے ، نیز دور کے کافروں کے خلاف جنگی کارروائی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب قریب کے کافروں کے خلا ف جنگ کر کے ان پر غلبہ حاصل کرلیا جائے اور انہیں پوری طرح دیا جائے ۔ درج بالا وجوہ قرب و جوا ر اور آس پاس کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کی تخصیص کے حکم کے مقتضی ہیں ۔ قول باری ولیجد وافیکم غلظۃ میں ان کافروں کے ساتھ ہمیں سختی سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جنکے خلاف ہمیں جنگ کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس سختی کا اظہار ہمارے قول ، انکے ساتھ ہمارے مذاکرات اور پیغامات کے اندر ہونا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں ہماری ہیبت بیٹھ جائے گی ۔ انکے اذہان پر ہمارا رغب قائم ہوجائے گا اور انہیں ہماری طاقت و قوت کا احساس ہوجائے گا۔ دوسری طرف اس سختی کی وجہ سے دین کے بارے میں ہماری بصیرت اور مشرکین کے ساتھ پنجہ آزمائی میں ہمارے جوش و خروش کا اظہار ہوجائے گا اور یہ واضح ہوجائے گا کہ ہم دین کے معاملہ میں کس قدر سختیاں ہیں ۔ اسکے برعکس اگر مسلمانوں کی طرف سے گفتگو اور مذاکرات میں نرم رویہ کا اظہار ہوگا تو اس سے کافروں کے دلوں میں ان کے خلاف جرأت پیدا ہوگی اور وہ انہیں زک پہنچانے کی آس لگا بیٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف جس طرز عمل کو اپنانے کا حکم دیا ہے اس کے یہ حدود ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٢) اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کو یہ بھی نہ چاہیے کہ جہاد کے لیے سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں اور (آپ کے زمانہ میں) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا مدینہ منورہ میں چھوڑ دیں۔ ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت (یعنی کچھ لوگ) جہاد میں جایا کریں اور کچھ جماعت مدینہ منورہ میں رہ جایا کرے تاکہ یہ باقی ماندہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے وقت میں (اور آپ کے بعد علماء شہر سے) دینی معلومات حاصل کرتے رہیں اور تاکہ یہ لوگ اس قوم کو جو جہاد میں گئی ہے، جب کہ وہ جہاد سے ان کے پاس آئیں ان کو دین کی باتیں سنا کر اللہ کی نافرمانی سے ڈرادیں تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ کن کن باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور کن کن باتوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ بنی اسد کے بارے میں نازل ہوئی وہ قحط سالی میں گرفتار ہوئے، تو مدینہ منورہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر مدینہ منورہ میں چیزیں مہنگی کردیں اور فسادات سے مدینہ منورہ کے رستوں کو خراب کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی ممانعت فرمادی۔ نیز حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر (رض) سے روایت کیا گیا ہے کہ مومنین جہاد کے جذبہ وشوق میں جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو سب کے سب نکل کھڑے ہوتے۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ منورہ میں چند کمزور آدمیوں کے ساتھ چھوڑ جاتے، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ شان نزول : (آیت) وما کان المومنون لینفروا “۔ (الخ) ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عکرمہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما “۔ نازل ہوئی اور دیہات میں سے کچھ لوگ جہاد میں نہیں گئی تھے اور اپنی قوم کو دین کی باتیں سکھا رہے تھے، اس پر منافقین کہنے لگے کہ دیہاتیوں میں سے کچھ لوگ جہاد میں نہیں گئے، یہ دیہاتی ہلاک ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٢ (وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ط) مدینہ کے مضافات میں بسنے والے بدو قبائل کا تذکرہ پچھلی آیات میں ہوچکا ہے : (اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا ۔۔ ) یہ بدو لوگ کفر اور نفاق میں بہت زیادہ سخت تھے اور اس کا سبب علم دین سے ان کی نا واقفیت تھی۔ اس لیے کہ انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ اب اس کے لیے یہ تو ممکن نہیں تھا کہ سارے بادیہ نشین لوگ اپنی اپنی آبادیاں چھوڑتے اور مدینہ میں آکر آباد ہوجاتے۔ چناچہ یہاں اس مسئلہ کا حل بتایا جا رہا ہے۔ (فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ ) یہاں اس مشکل کا حل یہ بتایا گیا کہ ہر علاقے اور ہر قبیلے سے چند لوگ آئیں اور صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیض یاب ہوں۔ (وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ) یہاں اس سلسلے میں باقاعدہ ایک نظام و ضع کرنے کی ہدایت کردی گئی کہ مختلف علاقوں سے قبائل کے نمائندے آئیں ‘ مدینہ میں قیام کریں ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں رہیں ‘ اکابر صحابہ (رض) کی تربیت سے استفادہ کریں ‘ احکام دین کو سمجھیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر اس تعلیم کو عام کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :120 اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے اسی سورۃ کی آیت ۹۷ پیش نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا کہ: ” بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے“ ۔ وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دارالاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں ، علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہل علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں ۔ اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے ۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آجائیں اور یہاں علم حاصل کریں ۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں ، مثلا مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں ، پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں ۔ یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی ۔ ابتدا میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا ، اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی ، کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا ۔ مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو آبادیاں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے ، ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے ۔ نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر تو اسلام کے لیے سبب قوت تھا ، کیونکہ پیروان اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی ، لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ الٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ چنانچہ یہ نقصان غزوہ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آگیا تھا ۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کی مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر حصہ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے ، پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا بلکہ واضح طور پر اس کا مقصد حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویہ زندگی سے بچنے لگیں ۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو ۔ ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویہ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے ۔ اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُؤا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بری طرح چھائے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا ، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا ، اس کے مزاج اور اس کی روح سے آشنا ہونا ، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریق فکر اور کونسا طرز عمل روح دین کے مطابق ہے ۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اسطلاحا فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت ( بمقابلہ روح ) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا ، لوگوں نے اشتراک لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الہٰی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے ۔ حالانکہ وہ کل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزوِ مقصود تھا ۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروان دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے ۔ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصرا اتنا اشارہ کیے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روح دین سے خالی کر کے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا ، اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نری بے جان ظاہر داری ، دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی ، وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

98: سورۂ توبہ کے ایک بڑے حصے میں ان لوگوں کو ملامت کی گئی ہے جو تبوک کے جہاد میں شریک نہیں ہوئے تھے، روایات میں آتا ہے کہ ان آیات کریمہ کو سن کر صحابہ نے یہ ارادہ کرلیاکہ آئندہ جو بھی جہاد ہوگا اس میں وہ سب جایا کریں گے، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ ہمیشہ کے لئے یہ سوچنا صحیح نہیں ہے، غزوۂ تبوک میں توایک خاص ضرورت پیش آئی تھی، جس کے وجہ سے تمام مسلمانوں کو نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن عام حالات میں مسلمانوں کو تقسیم کار پر عمل کرنا چاہئے، جب تک امیر کی طرف سے نفیر عام (یعنی ہر شخص کو جہاد میں شریک ہونے) کا حکم نہ ہو، جہاد فرض کفایہ ہے، اگر ہر بڑی جماعت میں سے کچھ لوگ جہاد کے لئے چلے جایا کریں تو سب کی طرف سے یہ فرض کفایہ ادا ہوجائے گا، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس طرح جہاد امت مسلمہ کی ایک ضرورت ہے اسی طرح دین کا علم حاصل کرنا بھی امت کی ایک اہم ضرورت ہے، اگر سب لوگ جہاد میں نکل کھڑے ہوں تو علم دین کی درس وتدریس کا فریضہ کون انجام دے گا، لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں نہ جائیں وہ اپنے شہر میں رہ کر دین کا علم حاصل کریں۔ 99: متنبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام انہوں نے سیکھے ہیں، وہ ان کو بتا دیں کہ فلاں کام واجب ہے، اور فلاں کام گناہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٢۔ یہاں مفسروں کا اختلاف ہے اکثر یہ کہتے ہیں کہ جب جہاد کے لئے خدا نے تاکید فرمائی اور گھروں میں بیٹھ رہنا منع فرمایا تو کل مسلمانوں نے یہ صلاح کرلی کہ اب جب کبھی کوئی لڑائی ہوگی تو سب کے سب شریک ہوا کریں گے چناچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آئے اور ایک لڑائی پر لشکر بھیجنا چاہا تو سارے مسلمان جانے پر تیار ہوگئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فرمایا کہ سب نہ جاؤ کچھ لوگ دین کی باتیں سیکھنے کو رہ جاؤ اور جو نیا حکم قرآن کا اتارا جائے یا شریعت میں کوئی نئی بات بتلائی جائے اس کو سمجھو اور جب تمہارے دوسرے بھائی جہاد سے واپس آویں تو انہیں بتلاؤ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آیت ہی الگ ہے جہاد کی آیتوں سے اس کو لگاؤ نہیں ہے جس طرح جہاد میں گھر سے نکلنے کی تاکید ہے اسی طرح علم دین سیکھنے کی تاکید کی گئی ہے اور فرمایا ہے کہ دین کی باتیں سیکھ کر آؤ اور اپنی قوم کو ہدایت کرو اور ڈراؤ تاکہ وہ برائیوں سے بچیں۔ پہلی تفسیر امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول ١ ؎ کے موافق ہے اس لئے اسی کو ترجیح ہے۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٤٠٠۔ ٤٠١:۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:122) لینفروا۔ کہ نکل جائیں۔ نکل کھڑے ہوں۔ (جہاد کے لئے) یا علم دین کے حصول کے لئے۔ یا تبلیغ کے لئے۔ کافۃ۔ اسم فاعل ۔ مفرد۔ مؤنث۔ منصوب ۔ اس صورت میں تاء مبالغہ کے لئے ہوگی۔ استعمال میں کافۃ ہمیشہ حال منصوب اور نکرہ ہوتا ہے ۔ جس کے معنی ہیں سب کے سب۔ پورے کے پورے۔ لولا۔ کیوں نہ۔ تفصیل کے لئے 6:43 ملاحظہ ہو۔ نفر۔ ماضی مذکر غائب۔ نفر نفور نفار مصدر۔ (باب سمع وضرب) کیوں نہ نکلے۔ کیوں نہ نکل کر جائے۔ لیتفقہوا۔ مضارع منصوب۔ جمع مذکر غائب۔ تفقہ مصدر۔ تاکہ سمجھ حاصل کرتے رہیں دین کے مسائل سیکھتے رہیں۔ لعلہم یحذرون۔ تاکہ وہ (نافرمانیوں سے بچیں ) ۔ ڈریں۔ الحذر (سمع) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا۔ بچنا۔ محتاط رہنا۔ یحذر الاخرۃ (39:9) آخرت سے ڈرتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5۔ یعنی ان کاموں سے بچے رہیں جن سے اس کے بعد منع کیا گیا۔ مفسرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ جب ان لوگوں کو سخت لعنت ملامت کی گئی جو جہاد کے لئے نکلنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے تھے تو مسلمانوں نے خیال کیا کہ اب کسی کیلئے جہاد کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرے رہنا جائز نہیں ہے۔ چناچہ اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی کفار سے جہاد کے لئے فوج بھیجنے کا ارادہ کرتے سب کے سب مسلمان جہاد پر جانے کیلئے تیار ہوجاتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے جہاد کو نکلنا اس وقت فرض ہے جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود روانہ ہورہے ہوں ورنہ تو انہی لوگوں پر جہاد کے لئے ضروری ہے جن کو حکم دیا جائے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کا تعلق علم دین کے حاصل کرنے سے ہے یعنی اگرچہ تمام مسلمانوں کے لئے دین کا علم حاصل کرنے کے لئے نکلنا ضروری نہیں تھا مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر قبیلے میں سیکچھ لوگ نکلتے علم حاصل کرتے اور واپس آکر اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی دین کے احکام سے خبردار کرتے تاکہ وہ بری باتوں سے پرہیز کرتے۔ آیت کے الفاظ میں ان ہر دو مفہوم کا یکساں احتمال ہے اور اس کی رو سے جہاد اور طلب علم دونوں کے لئے نکلنا مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اس کی ذمہ داری بحیثیت مجموعی سب پر عائد ہوتی ہے اور ان میں سے بعض افراد کا اسے سرانجام دینا ضروری ہے ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 122 لینفروا (تاکہ نکل پڑیں) کا قۃ (سب کے سب) لیتفقھوا (تاکہ وہ سمجھ پیدا کریں) لینذروا (تاکہ وہ ڈرائیں رجعوا (وہلوٹے) یحذرون (وہ بچتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 122 غزوہ تبوک کا موقع وہ تھا جہاں بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام تر وسائل کے ساتھ تمام ان مسلمانوں کو جنہیں کوئی واقعی عذر نہ ہو اس جہاد میں شرکت کا حکم فرما دیا تھا کیونکہ مقابلہ روم کی سلطنت سے تھا جو اس وقت دنیا کی سپر پاور تھی اگر بروقت اقدام نہ کیا جاتا تو رومی سلطنت مسلم مملکت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی لیکن اتنی بڑی فوج کی پیش قدمی نے رومی سلطنت کے حصولے پسند کردیئے بلکہ اچانک اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر ان کو مقبالہ پر آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ تو ایک ” نفیر عام تھا جس میں ہر شخص کو شریک ہونا لازمی تھا جس کو بظاہر کوئی عذر نہ ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کا حکم ہمیشہ نہیں دیا اسی لئے علماء کرام نے یہ فرمایا ہے کہ جہاد کی فرضیت دو طرح ہے اگر امیر کی طرف سے ” نفیر عام “ کا حکم ہو تو پھر ہر شخص کے لئے جہاد میں نکلنا ” فرض عین “ ہوجاتا ہے جس سے بلا عذر پیچھے رہ جانا حرام ہے لیکن اگر نفیر عام نہ ہو تو حسب ضرورت کچھ لوگوں کا نکلنا سب کا نکلنا کہلائے گا اس کو ” فرض علی الکفایہ “ کہتے ہیں۔ فرض علی الکفایہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ جہاد پر نکل گئے اور بقیہ زندگی کے اور فرائض میں لگے رہے تو کچھ لوگوں کا جہاد میں نکلنا سب کی طرف سے شمار ہوگا۔ اس آیت میں تفقہ فی الدین ” یعنی دین کا علم حاصل کرنا اس کی سمجھ پیدا کرنے کو جہاد کے برابر قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین صرف یہی نہیں سکھاتا کہ ہر شخص ہر وقت تیر و تلوار ہاتھ میں لے کر جب تک میدان میں نہیں نکلے گا اس وقت تک وہ مجاہد نہیں کہلائے گا بلکہ اللہ کے دین میں تفقہ اور سمجھ پیدا کرنا اس کا علم حاصل کرنا بھی جہاد ہی ہے۔ اسلئے فرمایا گیا ہے کہ ” اللہ جس کے ساتھ بھلائیک رنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ “ اس بات کو اس طرح فرمایا گیا ہے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت دین کو سمجھ حاصل کرنے کے لئے نکل کھڑی ہو ” تاکہ ایک ایسی جماعت تیار ہوجائے جو لوگوں کو اللہ کے تقویٰ کی طرف لاتی رہے وہ ہر گناہ کی بات سے بچتی رہے۔ جہاد بالسیف اور جہاد بالعلم اپنے اپنے وقتوں پر دونوں ہی ضروری ہیں۔ اگر امام وقت عام جہاد کا حکم دیدے تو ہر شخص کو اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنا مال اور جان سب کچھ قربان کرنے کے لئے میدان میں آنا فرض ہے لن کے عام حالات میں جب کہ ” جہاد بالسیف “ کا حکم نہ ہو تو علم حاصل کرنا اور زندگی کے دیگر فرائض کو پورا کرنا بھی جہاد ہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ باقی ماندہ لوگوں کے رہ جانے میں جو مصلحت ہیں ان میں سے ایک بڑی مصلحت کہ دینی مصلحت ہے ذکر فرمادیا اس کے علاوہ دنیا کی بھی مصلحتیں ہیں جو ظہور کی وجہ سے محتاج ذکر نہیں مثلا سب کے چلے جانے میں خود دالاسلام کا قبضہ سے نکل جانا غیر بعید نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہاد میں بھی فہم دین اور علم کی طرف توجہ مبذول رکھنے کا حکم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہی وہ ہے جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہو یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر محاذ پر کوشش کرنا۔ مگر جب کوئی قوم یا مجاہد مسلسل جہاد میں مصروف رہے گا تو دین کے بنیادی علم کی طرف اس قدر توجہ نہیں دے پائے گا۔ جس کا حصول ایک مسلمان کے لیے لازم ہے۔ اس لیے عین حالت جنگ میں حکم ہوا ہے کہ تم میں ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو جہاد میں مصروف کار ہونے کی بجائے صرف اور صرف دین سیکھنے سکھانے پر توجہ مبذول رکھے۔ تاکہ میدان کارزار سے واپس آنے والے مجاہد اپنے ایمان کی بیٹری چارج کرسکیں۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر پوری کی پوری قوم جہاد میں نکل کھڑی ہو تو علم و عرفان کے ادارے بند اور مملکت کے دیگر امور سست پڑجائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ خارجی طور پر مسلمان پیش قدمی کر رہے ہوں گے۔ لیکن علمی، ایمانی اور اندرونی طور پر کمزور ہورہے ہوں گے۔ جس کی تلافی مشکل ہوجائے گی اس نقصان سے بچانے کے لیے حالت جہاد میں بھی اس اہم ترین فرض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس آیت مبارکہ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ میدان کارزار میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلو، تاکہ تمہیں دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہوتی رہے۔ دوسرے الفاظ میں حالت جنگ میں بھی تعلیم و تعلم اور تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ فہم دین سے مراد صرف قرآن و حدیث یاد کرنا نہیں بلکہ اس کی حقیقی فہم سیکھنا بھی ضروری ہے۔ حقیقی فہم سے مراد دین کی روح پر عمل کرنا ہے۔ جو حدیث رسول کے علم کے بغیر ممکن نہیں۔ جہاں تک موجودہ فقہ کا تعلق ہے۔ اس میں وہی فقہ مسلمان کی ضرورت ہے جو قرآن و سنت کا ترجمان ہو۔ بعض علماء یہاں سے اپنی اپنی مروجہ فقہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آئمہ کی تقلید کو اپنے لیے لازم ثابت کرتے ہیں، حالانکہ چاروں آئمہ نے ایسی فقہ کی تردید کی ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ تقلید کے بارے میں ائمہ کے اقوال : امام ابوحنیفہ (رض) کا قول : (اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ ) [ تفسیر مظہری ] ” جب صحیح حدیث موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔ “ امام مالک (رح) کا قول : امام مالک نے روضۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” ہر شخص کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے اگر درست ہو۔ اور اسے ٹھکرایا جاسکتا ہے جب درست نہ ہو۔ مگر اس روضے والے کی بات کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ “ [ حیات امام مالک۔ از امام زہری ] امام شافعی (رح) کا قول : (اَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی اَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہٗ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَّدَعَھَا لِقَوْلِ اَحَدٍ ) [ اعلام المعوقین ] ” اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سامنے آجائے، پھر اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسے کسی کے قول کی بنا پر حدیث رسول کو ترک کردیا جائے۔ “ امام احمدبن حنبل (رح) کا قول : (مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَھُوَ عَلٰی شَفَا ھَلَکَتِہِ )[ ابن جوزی ] ” جس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو رد کیا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔ “ علم سے پہلی مراد علم دین ہے۔ باقی علوم اضافی اور عصری ضرورت ہیں قرآن مجید ان کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ (عَنْ کَثِیرِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الدَّرْدَآءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَآءَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَبَا الدَّرْدَآءِ إِنِّیْ جِءْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِحَدِیْثٍ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا جِءْتُ لِحَاجَۃٍ قَالَ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللَّہُ بِہِ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الْمَلاَءِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ وَالْحِیْتَانُ فِی جَوْفِ الْمَآءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَاءِرِ الْکَوَاکِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَآءِ وَإِنَّ الأَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم ] ” حضرت کثیر بن قیس کہتے ہیں میں ابو درداء کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی آیا اس نے کہا اے ابودرداء میں آپ کے پاس حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاصل کرنے کے لیے مدینۃ الرسول سے آیا ہوں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ میں کسی غرض سے نہیں آیا۔ حضرت ابو دردا (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص علم کی طلب کے لیے نکلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستہ پر چلا تا ہے اور فرشتے طالب علم کی تکریم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یقیناً عالم کے لیے آسمانوں و زمین کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بخشش کی دعائیں کرتی ہیں اور بیشک عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت حاصل ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو ستاروں پر اور یقیناً علماء انبیاء (علیہ السلام) کے وارث ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) درہم و دینار کے وارث نہیں ہوتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جس نے اسے حاصل کیا اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔ “ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ )[ النمل : ١٥] ” ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ “ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم : (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا)[ طٰہٰ : ١١٤] ” اور کہہ دیجیے اے میرے پروردگار ! میرے علم میں اضافہ فرما۔ “ مسائل ١۔ تعلیم و تعلم کے لیے کچھ لوگوں کا وقف ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ مجاہدین کے لیے تعلیم و تعلم کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن علم اور اس کے فہم کی فضیلت : ١۔ جہاد کے ساتھ ساتھ دین کا فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ (التوبۃ : ١١٢) ٢۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ (الزمر : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ : ١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٥۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨) ٦۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں عالم لوگ ہی ان کو سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما کان المؤمنون لینفروا کآفۃ اور (ہمیشہ کیلئے) مسلمانوں کو یہ بھی نہ چاہئے کہ جہاد کیلئے سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں۔ یہ نفی بمعنی نہی ہے ‘ یعنی طلب علم کیلئے تمام مسلمان اپنے وطنوں سے نہ نکل پڑیں ‘ اس سے معاشرہ کا بگاڑ اور معاش کا فساد پیدا ہوجائے گا۔ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طآئفۃ لیتفقھوا فی الدین سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ یہ (باقی ماندہ) لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں۔ یعنی ہر بڑی جماعت مثلاً ایک قبیلہ یا ایک شہر یا ایک بستی میں سے چھوٹا گروہ کیوں طلب علم کیلئے نہیں نکلا کہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھا کر دینی سمجھ حاصل کرتا اور دین کے مسائل سمجھتا۔ صاحب نہایہ نے لکھا ہے : فقہ کا اصلی لغوی معنی ہے سمجھنا۔ اس کا اشتقاق ‘ شق اور فتح (کے مفہوم سے) ہے۔ ” فرقۃ “ سے مراد بڑی جماعت ہے۔ ” طائفۃ “ چھوٹی جماعت۔ قاموس میں ہے : فقہ بکسر فاء کسی چیز کو جاننا سمجھنا۔ چونکہ (تمام علوم میں) علم دین کو فضیلت حاصل ہے ‘ اسلئے فقہ کا لفظ (اصطلاح میں) علم دین کیلئے مخصوص کرلیا گیا۔ بعض نے کہا : معلوم کے ذریعے سے نامعلوم کو حاصل کرنا فقہ ہے یعنی علم استدلالی کیلئے یہ لفظ خاص ہے ‘ اس صورت میں لفظ علم عام اور لفظ فقہ خاص ہوگا۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَمَا لھآؤُلاآءِ الْقَوْمِ لاَ یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاان لوگوں کو کیا ہوگیا کہ بات سمجھ بھی نہیں سکتے۔ یعنی بات کے مضمون کا استنباط نہیں کرتے (بات کے مغز کو نہیں سمجھتے) ۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : نفس کے ضرر رساں اور فائدہ بخش امور کو جاننا فقہ ہے (خواہ فکر و عقیدہ کے لحاظ سے ہو یا قول و عمل کے اعتبار سے۔ اصول کا علم ہو یا فروع کا) فروع دین کے علم کو خصوصیت کے ساتھ فقہ کہنا اصطلاح جدید ہے (قرن اول میں یہ خصوصیت نہیں تھی) ۔ ظاہر یہ ہے کہ لفظ فقہ کے اندر مقلد کا علم بھی داخل ہے ‘ مجتہد سے یامجتہد کی کتاب سے علم حاصل کرنے سے اس فرض کی ادائیگی ہوجاتی ہے جس کا حکم آیت مندرجہ میں دیا گیا ہے۔ ولینذروا قومھم اذا رجعوآ الیھم لعلھم یحذرون۔ اور (جانے والے) لوگ جب واپس آئیں تو یہ ان کو ڈرائیں تاکہ وہ (ان سے دین کی باتیں سیکھ کر) برے کاموں سے احتیاط رکھیں۔ یعنی جب وہ لوگ اپنے وطن کو لوٹ کر آئیں تو جو لوگ تحصیل علم کیلئے نہیں گئے تھے اور وطن ہی میں مقیم رہے ‘ ان کو واپس آ کر (ا اللہ کے دئیے ہوئے احکام کی مخالفت سے) ڈرائیں (اور ان کو احکام بتائیں) مجاہد نے کہا : کچھ لوگ تبلیغ کرنے اور دعوت ہدایت دینے کیلئے دیہات اور صحراء کی طرف گئے تھے۔ لوگوں نے ان سے کہا : تم ہمارے پاس (تو تبلیغ کیلئے) آگئے اور اپنے ساتھی (یعنی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو چھوڑ کر آگئے۔ یہ بات سن کر ان حضرات کے دلوں میں کچھ احساس ہوا ‘ وہ فوراً دیہات سے لوٹ آئے اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس پر آیت مذکورۂ بالا نازل ہوئی۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ارشاد فرمایا ہے : سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح انسانوں کی بھی تم کانیں پاؤ گے (خیر و شر کے مختلف معاون ہیں اور مختلف انسان ‘ مختلف معاون کی پیداوار ہیں) پس جو لوگ (طبعاً ) جاہلیت (کے دور) میں بہتر تھے ‘ وہ اسلام میں بھی بہتر ہوں گے بشرطیکہ سمجھ پیدا کرلیں۔ رواہ الشافعی وکذا روی الشیخان فی الصحیحین واحمد عن ابی ہریرہ۔ طبرانی نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : آدمی (بس) دو ہیں : عالم اور متعلم ‘ ان کے سوا باقی (آدمیوں) میں کوئی خیر نہیں۔ آیت دلالت کر رہی ہے کہ خبر آحاد (شرعی) حجت ہے (یعنی کسی مسئلہ کو جاننے کیلئے خبر آحاد کو بشرطیکہ وہ قابل وثوق روایت سے پہنچی ہو ‘ ماننا ضروری ہے) کیونکہ آیت میں ” کل فرقۃ “ کا لفظ عام ہے جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر کسی بستی میں تین ہی آدمی ہوں تو ان میں سے بھی کسی ایک کو علم حاصل کرنے کیلئے جانا اور سیکھ کر واپس آ کر دوسروں کو بتانا ضروری ہے۔ اگر تواتر کے بغیر کوئی خبر قابل تسلیم نہ ہو تو کلِّ فرقۃٍکے لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ فقہ کا کچھ حصہ تو فرض عین ہے کچھ فرض کفایہ۔ صحیح عقائد اور ضروری اعمال جیسے طہارت ‘ نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ ‘ حج اور تمام فرائض کا علم فرض عین ہے۔ عبادات کے علاوہ وہ معاملات جو سامنے آتے رہتے ہیں اور جن سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ‘ ان کو جاننا بھی فرض عین ہے مثلاً تاجروں کیلئے بیع صحیح ‘ بیع فاسد ‘ سود وغیرہ کے احکام جاننا لازم ہے۔ جو ٹھیکہ یا مزدوری یا نوکری وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ‘ ان کیلئے ان کے احکام کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : علم کی طلب ہر مسلمان مرد پر فرض ہے۔ یہ حدیث حضرت انس کی روایت سے ابن عدی اور بیہقی نے اور حضرت امام حسن بن علی کی روایت سے خطیب نے اور طبرانی نے صغیر میں ‘ نیز طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس کی روایت سے اور الکبیر میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے اور خطیب نے حضرت علی کی روایت سے اور طبرانی نے الاوسط میں ‘ نیز بیہقی نے حضرت ابو سعید کی روایت سے بیان کی ہے۔ حضرت انس کی روایت میں حسب نقل ابن عبدالبر اتنا زائد بھی آیا ہے کہ طالب علم کیلئے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر کے اندر مچھلیاں بھی (دعائے مغفرت کرتی ہیں) ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : اور اللہ مصیبت زدوں کی فریاد رسی کو پسند فرماتا ہے۔ فرض کفایہ یہ ہے کہ ہر موضوع کے مسائل سے واقفیت حاصل کی جائے یہاں تک کہ فتویٰ دینے کے مقام پر پہنچ جائے۔ اگر کسی شہر کا کوئی آدمی ایسا عالم نہ ہوگا اور ایک شخص بھی اس درجہ پر فائز نہ ہوگا اور سب بیٹھ رہیں گے تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر ایک بھی تکمیل علمی کیلئے تیار ہوجائے گا تو سب کے سر سے فرض ساقط ہوجائے گا اور سب پر اس کی تقلید لازم ہوگی۔ جو واقعات پیش آئیں ‘ ان کے فیصلے کیلئے اس عالم کی طرف سب بسعی والے رجوع کریں۔ تحصیل علم ہر نفلی عبادت سے افضل ہے۔ حضرت ابن عباس کی روایت سے مؤلف سند الفردوس نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : علم کی طلب اللہ کے نزدیک نماز ‘ روزہ ‘ حج اور راہ خدا میں جہاد کرنے سے افضل ہے۔ یہ بھی حضرت ابن عباس کی روایت میں آیا ہے کہ ایک گھڑی علم کی تحصیل ایک رات کے قیام (نماز) سے اور ایک دن علم کی طلب تین دن کے روزے رکھنے سے افضل ہے۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ آدمی پر۔ بلاشبہ اللہ (رحمت کرتا ہے) اور اللہ کے فرشتے اور آسمانوں والے اور زمینوں والے یہاں تک کہ سوراخوں کے اندر چیونٹیاں اور پانی کے اندر مچھلیاں اس شخص کیلئے دعائے رحمت کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔ رواہ الترمذی بسند صحیح عن ابی امامۃ۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : ہزار عابدوں سے ایک عالم ‘ شیطان پر زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ یہ بھی رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین اعمال (کا فائدہ جاری رہتا ہے) صدقہ جاریہ ‘ یا وہ عمل جس سے لوگ نفع حاصل کریں ‘ یا نیک اولاد جو اس کیلئے دعا کرے۔ علم لدنی جس کے حامل صوفیہ کرام ہوتے ہیں ‘ فرض عین ہے کیونکہ اس باطنی علم کے دو مقصد ہوتے ہیں : (١) اللہ کے سوا ہر چیز کی رغبت کو دل سے نکال دینا ‘ ہر دم اللہ کے سامنے اپنے کو حاضر سمجھنا۔ خود پسندی ‘ غرور ‘ حسد ‘ دنیا کی محبت ‘ عبادات میں سستی ‘ خواہشات نفس ‘ ریاکاری ‘ شہرت طلبی اور دوسرے اخلاقی باطنی عیوب سے نفس کو پاک رکھنا۔ (٢) گناہوں سے توبہ ‘ رضا بالقضاء ‘ مصائب پر صبر ‘ نعمتوں کا شکر اور دوسرے اچھے خصائل و مکارم اخلاق سے اپنے نفس کو آراستہ کرنا۔ اور ظاہر ہے کہ ہر شخص کیلئے ان ممنوعات سے پرہیز اور فرائض کی پابندی سے زیادہ اہم اور ضروری ہے جن کا تعلق اعضاء جسمانی سے ہے۔ اگر اخلاص اور نیت کی صحت نہ ہو تو نماز ‘ روزہ اور دوسری عبادتیں ناقابل اعتبار ہیں۔ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے ارشاد فرمایا : اللہ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص ہو اور محض خوشنودی خدا حاصل کرنے کیلئے کیا گیا ہو۔ رواہ النسائی عن ابی امامۃ۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا : اللہ تمہاری صورتوں اور مالوں پر نظر نہیں کرتا بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز پر فرض عین کا مدار ہو وہ خود فرض عین ہوگی ‘ لہٰذا علم لدنی جس کے حامل صوفیۂ کرام ہیں ‘ فرض عین ہے۔ آیت کے نزول کا ایک اور سبب بھی بیان کیا گیا ہے۔ بغوی نے بروایت کلبی اور ابن ابی حاتم نے بروایت عکرمہ و عبد اللہ بن عمیر حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں منافقوں کے عیوب اللہ نے بیان فرمائے اور آیت اِنْ لاَّ تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اِلْیْمًانازل ہوگئی اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) جہادی دستے (مختلف اطراف میں) بھیجنے لگے تو سب مسلمان جہاد کو نکلنے لگے اور رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کو تنہا چھوڑ کر جانے لگے۔ عکرمہ کی روایت میں آیا ہے کہ کچھ دیہاتی صحراء نشین جہاد کو نہیں گئے۔ منافق کہنے لگے : یہ بدوی تباہ ہوگئے (انہوں نے حکم جہاد کی پابندی نہیں کی) اس پر آیت مَا کَانَ الْمُوؤمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا (یعنی الی الغزر) کَآفَّۃً فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ (یعنی عظیمۃ) طَاءِفَۃٌ (یعنی الی الغزر وبقی طائفۃ مع النبی) لِیَتَفَقُّھُوْا (ای القَْاعِدُوْنَ ) فِی الدِّیْنِ (ای القراٰن والسنن والفرائض والاحکام) نازل ہوئی۔ مطلب یہ کہ تمام مسلمانوں کو جہاد پر نہ چلا جانا چاہئے بلکہ بڑے گروہ میں سے ایک چھوٹی جماعت کو جہاد پر جانا لازم ہے اور ایک جماعت کو رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی خدمت میں قرآن ‘ سنت ‘ فرائض اور احکام سیکھنے کیلئے رہنا چاہئے تاکہ فوجی دستے جب واپس آئیں تو ان کو یہ لوگ بتا سکیں کہ ان کے جانے کے بعد کیا احکام نازل ہوئے۔ چناچہ (اس آیت کے نزول کے بعد) ایسا ہی ہونے لگا۔ کچھ جماعتیں رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے پاس رکی رہتیں اور کچھ دستے چلے جاتے ‘ اس طرح دینی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پاتا۔ دینی تفقہ جہاد اکبر ہے۔ بعثت کی اصل غرض ہی یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ اسلامی احکام کو پیش کیا جائے (تلوار سے جہاد کا درجہ تو دفاعی ہے ‘ تبلیغی جہاد کا درجہ اعلیٰ ہے) اسی لئے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) نے فرمایا کہ علماء انبیاء کے جانشین ہیں۔ اس شان نزول اور اس مطلب کی صورت میں لِیَتَفَقَّھُوْا اور لِیَنْذِرُوْا کی ضمیریں ان لوگوں کی طرف راجع ہوں گی جو جہادی دستوں کی روانگی کے بعد تحصیل علم کیلئے رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور رَجْعُوْا کی ضمیر جہاد پر جانے والے دستوں کی طرف راجع ہوگی۔ سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت کا حکم اس صورت کیلئے مخصوص ہوگا جب (بغیر رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کے) جہاد پر مسلمانوں کے دستے گئے ہوں اور ترک جہاد کی ممانعت کا حکم اس صورت میں ہوگا جب رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) خود تشریف لے جائیں۔ حسن کا قول ہے کہ لِیَتَفَقَّھُوْا اور لِیَنْذِرُوْا کی ضمیریں ان مسلمانوں کے دستوں کی طرف راجع ہیں جو جہاد پر گئے ہوں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک فرقہ (ہر گروہ میں سے) جہاد پر چلا جائے اور دین کی نصرت اور مشرکوں پر غالب ہونے کا خود مشاہدہ کرے اور سمجھے اور پھر جہاد سے واپس آنے کے بعد اپنی قوم کے کافروں کو بتائے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اور مؤمنوں کو فتح عنایت فرمائی اور اس اطلاع دینے کا مقصد یہ ہو کہ ان کی قوم کے کافر رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کا مقابلہ کرنے سے باز رہیں اور ڈرتے رہیں کہ جو دوسرے کافروں کا حال ہوا ‘ رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے جنگ کر کے ہمارا بھی وہی حال ہوگا۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے ‘ اگر ایک جماعت اس فرض کو ادا کر دے گی تو سب کے سروں سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ ہاں اگر جہاد کی عام نداء کردی جائے اور سب کو جہاد کیلئے آجانے کا حکم دے دیا گیا ہو تو پھر ہر شخص پر جہاد عینی فرض ہوجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جہاد اور تفقہ فی الدین میں مشغول رہنے کی اہمیت اور ضرورت دین اسلام کامل ہے، مکمل ہے، جامع ہے۔ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے اس میں اعتقادیات بھی ہیں اور عبادات بھی، اخلاق بھی ہیں اور آداب بھی، معاشرت کے طریقے بھی ہیں اور معاملات کے احکام بھی، بیاہ شادی بھی ہے اور اولاد کی پرورش بھی، مال کمانے کے جتنے طریقے ہیں ان کے احکام بھی بتائے ہیں۔ کفر کو مٹانے اور اہل کفر کو نیچا دکھانے کا اور اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے جہاد اور قتال بھی مشروع ہے اور یہ بھی دین کا ایک ضروری اور بہت اہم کام ہے۔ جسے حدیث شریف میں چوٹی کا عمل بتلایا ہے (ذروۃ سنامہ الجھاد) لیکن اگر سارے ہی افراد جہاد میں لگ جائیں تو تعلیم و تعلم کا کام کون کرے جس کے ذریعہ علم و اعمال زندہ رہتے ہیں۔ اور فضائل و مسائل کا پتہ چلتا ہے اور زندگی کے تمام شعبوں کے احکام معلوم ہوتے ہیں۔ جہاد کی قسمیں : اس لیے عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں ہے۔ فرض عین اسی وقت ہوتا ہے جبکہ دشمن کسی علاقہ پر دھاوا بول دیں۔ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔ پس جہاد فرض کفایہ ہے اور دین کی دوسری ضروریات بھی ہیں۔ خصوصاً جبکہ علوم اسلامیہ کا جاننا، اور پہنچانا اور پھیلانا بھی لازم ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہر وقت جہاد کے لیے ہر ہر فرد نکل کھڑا ہو، اسی کو فرمایا (وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ) (الآیۃ) کہ اہل ایمان کو یہ نہ چاہئے کہ سب ہی نکل کھڑے ہوں ہاں ایسا ہو کہ جہاد میں بھی جاتے رہیں ہر بڑی جماعت میں سے چھوٹی جماعت جایا کرے۔ اور علوم میں مشغول رہنے والے بھی ہوں۔ جہاد میں جانے والے جہاد کو قائم رکھیں جس سے فرض کفایہ ادا ہوتا رہے۔ تفقیہ اور تفقہ کی ضرورت : جو لوگ جہاد میں نہ نکلیں وہ دینی سمجھ حاصل کریں۔ یعنی ایک جماعت علوم دینیہ پڑھانے والوں کی بھی رہے۔ جن کے ساتھ علوم دینیہ حاصل کرنے والے لگے رہیں اور سرسری علوم پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ فقہ فی الدین حاصل ہونا ضروری ہے۔ علوم کی وسعت بھی حاصل ہو اور علوم کی گہرائی میں اتریں، تاکہ اس قابل ہوجائیں کہ یہ سمجھ سکیں کہ کس آیت اور کس حدیث سے کیا ثابت ہوتا ہے اس کو (لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) سے تعبیر فرمایا جو لوگ جہاد میں نہیں گئے وہ وطن میں رہ کر علم دین حاصل کریں اور جو لوگ جہاد میں گئے وہ بھی واپس آکر علم حاصل کریں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ علم دین سے نابلد رہیں۔ اگر جاہل محض رہیں گے تو جہاد سے متعلقہ اعمال شرعیہ کی تعمیل نہ کرسکیں گے۔ جب یہ لوگ جہاد سے واپس آجائیں تو وہ جو حضرات علم کی تحصیل میں مشغول تھے ان واپس آنے والوں کو اللہ سے ڈرائیں یعنی دینی احکام سکھائیں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نا فرمانیوں سے بچتے رہیں۔ اسی کو فرمایا (لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ ) جہاد میں جانے والے نوبت بہ نوبت جایا کریں۔ ایک جماعت جہاد میں چلی گئی (جن کے پاس ضروری علم پہلے سے ہے) اور جب یہ جماعت واپس آجائے تو یہ علوم دینیہ میں مشغول ہوجائے اور دوسری جماعت چلی جائے۔ جب جہاد ہمیشہ ہی فرض کفایہ ہے اور علوم دینیہ کو زندہ رکھنا بھی ضروری ہے اور مجاہدین کی خانگی حاجات اور ضروریات بھی ہیں تو ایسا کرنا ضروری ہوگا کہ فرض کفایہ کو قائم رکھنے کے لیے جماعت جہاد میں چلی جایا کرے اور ان کی واپسی پر بلکہ ان سے پہلے ہی دوسری جماعت جہاد کے لیے روانہ ہوجایا کرے۔ جو لوگ علوم میں مشغول تھے وہ مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر والوں کی خیر خبر رکھیں اور جب وہ واپس آجائیں تو ان کو احکام شرعیہ بنائیں، قرآن و حدیث کی تعلیم دیں۔ بطور فرض کفایہ امت مسلمہ کے ذمہ یہ بھی لازم ہے کہ علوم شرعیہ کو محفوظ رکھیں اور ان کو پڑھتے پڑھاتے رہیں۔ قرآن مجید کا محفوظ رکھنا (مطبوعہ مصاحف پر بھروسہ کر کے حفظ کو نہ چھوڑ دیا جائے) قرآن کی تفاسیر کو محفوظ رکھنا احادیث شریفہ اور ان سے متعلقہ علوم کو محفوظ رکھنا، قرآن مجید اور احادیث شریفہ سے جو احکام و مسائل مجتہدین نے مستنبط کیے ہیں ان کو محفوظ رکھنا بلکہ علوم عربیہ صرف ونحو، معانی وبیان اور عربی لغات کا باقی رکھنا بھی لازم ہے کیونکہ ان چیزوں پر قرآن و حدیث کا فہم موقوف ہے۔ اگر یہ چیزیں محفوظ نہ ہوں گی تو ملحدین اور زنادقہ اپنے پاس سے غلط ترجمے کریں گے اور قرآن و حدیث کے مفاہیم اور معانی بدل دیں گے۔ ہر شخص پر عقائد اسلامیہ کا جاننا اور ان کا عقیدہ رکھنا، نماز کے احکام و مسائل جاننا اور نماز کو سیکھنا اور یاد رکھنا، طہارت و نجاست کے مسائل جاننا، اور ان تمام احکام کا جاننا جن سے ہر شخص کو روزانہ واسطہ پڑتا ہے یہ فرض عین ہے۔ جو لوگ تجارت کرتے ہیں ان کو تجارت کے مسائل جاننا فرض عین ہے اسی طرح جو لوگ زراعت میں صنعت و حرفت میں ملازمت میں لگے ہوئے ہیں اپنے اپنے مشاغل اور مکاسب کے بارے میں احکام و مسائل سیکھیں جو ان پر فرض عین ہے تاکہ خلاف شرع طریقوں سے مال نہ کھائیں۔ محنت بھی کریں اور مال حرام ملے اور مال کمانے میں خلاف شرع امور کا ارتکاب کر کے گنہگار ہوں اس سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ اپنے اپنے کاروبار اور کام کاج کے بارے میں شریعت کے احکام معلوم کریں۔ جن کے پاس مال ہے وہ خصوصیت کے ساتھ وجوب زکوٰۃ اور ادائے زکوٰۃ کے مسائل معلوم کریں۔ لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ غیر قوموں کی طرح اپنے کو آزاد سمجھتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں زندگی گزار لیتے ہیں نہ میاں بیوی کے حقوق کا پتہ، نہ اولاد کی تعلیم و تادیب کی خبر، نہ ماں باپ اور دیگر اقرباء کے حقوق کی ادائیگی کا فکر، نہ حلال کمانے کا دھیان۔ یہ طریقہ اہل ایمان کا طریقہ نہیں ہے۔ فقہ دینی سمجھ کا نام ہے عہد اول میں اس کا مفہوم بہت زیادہ عام تھا۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا معرفۃ النفس مالھا و ما علیھا کہ ہر شخص کا یہ پہچان لینا کہ میری ذمہ داری کیا ہے۔ میں دنیا اور آخرت میں کن کن چیزوں کا مسؤل ہوں اور وہ کیا کیا چیزیں ہیں جن کا انجام دینا میرے ذمے لازم ہے۔ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ان سب کو جانے اور جاننے کے مطابق عمل کرے۔ اس میں پورے دین کا سمجھنا اور اپنی جان پر نافذ کرنا آگیا۔ در حقیقت یہ فقہ کی بہت جامع تعریف ہے۔ اور (لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ ) کے مفہوم میں یہ سب احکام و مسائل آجاتے ہیں احکام و مسائل کا جو علم ہے اور جو امور روح قلب اور تزکیہ نفس سے متعلق ہیں فقہ ان سب کو شامل ہے۔ حضرت حسن سے کسی نے کچھ دریافت کیا انہوں نے کچھ جواب دے دیا، سائل نے کہا دوسرے فقہاء تو آپ کی مخالفت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا تم نے کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے ؟ اس کے بعد فقیہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا انما الفقیہ الزاھد فی الدنیا، الراغب فی الاخرۃ، البصیر بدینہ المداوم علی عبادۃ ربہ الورع الکاف عن اعراض المسلمین العفیف عن اموالھم الناصح لجماعتھم۔ یعنی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے بےرغبت ہو، مسلمانوں کی بےآبروئی کے درپے نہ رہتا ہو (یعنی ان کی غیبتیں نہ کرتا ہو۔ ان پر تہمت نہ دھرتا ہو) ان کے مالوں سے دور رہتا ہو، اور مسلمانوں کی جماعت کا خیر خواہ ہو۔ (روح المعانی ص ٤٨ ج ١١) تفقہ فی الدین بہت بڑی دولت ہے جس کو بھی حاصل ہوجائے وہ بڑا سعادت مند ہے۔ حضرت معاویہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ کہ اللہ تعالیٰ جس کو خیر سے نواز نے کا ارادہ فرماتے ہیں اسے تفقہ فی الدین کی دولت عطا فرماتے ہیں۔ (صحیح بخاری ص ١٦ ج ١) حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو دعا دیتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بار گاہ الٰہی میں یوں عرض اللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ کہ اے اللہ اسے تفقہ فی الدین نصیب فرما، حضرت عمر (رض) نے فرمایا تفقھوا قبل اَن تُسَودوا یعنی اس سے پہلے فقیہ بن جاؤ کہ تم کو سرداری سپرد کی جائے یعنی نو عمری ہی سے فقہ میں لگنا چاہئے۔ (صحیح بخاری ص ١٧ ج ١) جو حضرات آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے غیر منصوص مسائل کا استنباط کرتے ہیں جیسے ائمہ اربعہ نے کیا یہ بھی تفقہ فی الدین ہے اور جو لوگ اصلاح قلوب اور تزکیہ نفوس کے شغل میں لگے ہوئے ہیں اور امت کی اصلاح کی اجتماعی اور انفرادی تدبیریں سوچتے رہتے ہیں وہ بھی تفقہ فی الدین میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ فقہ کا نام سنتے ہی کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں اور گو یا اس کو بد عت سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن مجید میں اس کا حکم دیا ہے اور حدیث شریف میں اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے خیر سے نوازنا چاہیں اسے تفقہ فی الدین سے نواز دیتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ فقہ کی کیا ضرورت ؟ حدیث دیکھ کر عمل کرلیں گے۔ حالانکہ حدیث پر عمل کرنے کے لیے سمجھ کی ضرورت ہوتی ہے ناسخ منسوخ دیکھنا پڑتا ہے ظاہری طور پر جو تعارض ہو اس کے رفع کرنے کے لیے تطبیق بین الاحادیث کی ضرورت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ قال صاحب الدر المختار و اعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وھو بقدر ما یحتاج لدینہ و فرض کفایۃ و ھو ما زاد علیہ لنفع غیرہ و مندوبا و ھو التبحر فی الفقہ و علم القلب، و حرام و ھو علم الفلسفۃ و الشعبدۃ و التنجیم و الرمل و علوم الطبعیین و السحر و الکھانۃ ا ہ۔ قال الشامی فی حاشیۃ قولہ علم القلب أی علم الاخلاق و ھو علم یعرف بہ انواع الفضائل و کیفیۃ اکتسابھا و أنواع الرذائل و کیفیۃ اجتنابھا۔ (صاحب درمختار نے فرمایا ہے کہ جان لے ! ایک علم کا حاصل کرنا فرضی عین ہے اور وہ علم کی اتنی مقدار ہے جو دین پر عمل کے لیے ضروری ہو اور ایک علم فرض کفایہ ہے یہ وہ ہے جو اپنے عمل سے زائد ہو دوسرے سے نفع کے لیے اور ایک مندوب ہے اور یہ فقہ میں مہارت حاصل کرنا اور دلوں کا عمل ہے۔ اور ایک علم حرام ہے اور یہ فلسفہ، شعبدہ بازی، نجوم، رمل مادہ پرستی کا علم اور جادو وکہانت کا علم ہے۔ علامہ شامی نے حاشیہ میں کہا ہے علم دل سے مراد ہے علم اخلاق اور یہ وہ علم ہے جس سے فضائل کی اقسام اور ان کے حاصل کرنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے اور برائیوں کی اقسام اور ان سے بچنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے) ۔ (ردالمحتار ص ٣٠ ج ١) فائدہ : لفظ لِیَتَفَقَّھُوْا بات تفعل سے ہے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ کلمہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فقہ تفقہ سے حاصل ہوگا یعنی اس میں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ اور بغیر محنت اور کوشش کے حاصل نہ ہوگا۔ نیز صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ لِیُنْذِرُوْا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم دین پڑھانے والے کی غرض ارشاد اور انذار ہونی چاہئے یعنی امور خیر کی تعلیم دے اور گناہوں کی تفصیل بتائے اور ان سے بچنے کی تاکید کرے۔ اور متعلم کا مقصود بھی خوف و خشیت ہو، وہ علم حاصل کر کے شریعت پر چلنے کی نیت کرے اور خوف و خشیت کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے۔ دنیا حاصل کرنے اور بڑا بننے کی نیت سے علم نہ پڑھے۔ حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جسے اس حال میں موت آگئی کہ وہ اسلام کو زندہ کرنے کے لیے علم طلب کر رہا تھا تو اس کے اور نبیوں کے درمیان ایک ہی درجے کا فرق ہوگا۔ (رواہ الدارمی فی سننہ ص ٨٥ ج ١) چونکہ لّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ کے بعد (وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ ) بھی فرمایا اس لیے اصحاب علم پر ضروری ہے کہ جو لوگ بھی علم دین حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچیں ان کی خیر خواہی، ہمدردی اور دلداری کریں۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بلاشبہ لوگ تمہارے تابع ہوں گے۔ (یہ حضرات صحابہ کو خطاب ہے) اور بہت سے لوگ تمہارے پاس زمین کے دور دراز گوشوں سے آئیں گے تاکہ وہ تفقہ فی الدین حاصل کریں۔ سو جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان سے اچھی طرح پیش آنا میں تمہیں اس کی وصیت کرتا ہوں۔ راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری کا طریقہ تھا کہ جب کوئی طالب علم ان کے پاس پہنچتا تو فرماتے تھے مَرْحَباً بوصیۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں (رواہ الترمذی فی ابواب العلم) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں کو اس طرح پاؤ گے جیسے (سونے چاندی کی) کانیں ہوتی ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر مختلف قسم کی قوت اور استعداد رکھی ہے) جاہلیت کے زمانہ میں جو لوگ (مکارم الاخلاق اور محاسن الاعمال کے اعتبار سے) بہتر تھے اسلام میں بھی وہ بہتر ہوں گے۔ جبکہ وہ فقیہ ہوجائیں (رواہ مسلم ص ٣٠٧) جب اسلام میں داخل ہو کر فقیہ ہوں گے تو اپنی استعداد کو دینی سمجھ کے مطابق خرچ کریں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا فقید واحد اشد علی الشیطان من الف عابد یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔ (رواہ الترمذی فی ابواب العلم) فقیہ کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ وہ ہزار عابدوں سے بہتر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص صرف عبادت گزار ہو شیطان کے مکرو فریب اور بہکانے کے طریقوں سے واقف نہیں ہوتا شیطان اسے آسانی سے ورغلا دیتا ہے اور جو شخص فقیہ ہو وہ شیطان کے داؤ گھات مکرو فریب اور بہکانے کے طریقوں کو جانتا پہچانتا ہے۔ وہ اپنے علم وفقہ کے ذریعہ خود بھی شیطان کے مکر و فریب مے محفوظ رہتا ہے اور دوسروں کو بھی بچاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور یاد رکھے اور اسے دوسروں تک پہنچا دے۔ کیونکہ بہت سے حامل فقہ ایسے ہوتے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہوتے اور بہت سے حامل فقہ ایسے ہوتے ہیں جو اس شخص کو پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٣٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احادیث شریفہ کے ظاہری الفاظ سے جو مسائل ثابت ہوتے ہیں ان کے علاوہ ان میں وہ مسائل بھی ہیں جن کی طرف ہر شخص کا ذہن نہیں پہنچتا، جن کو اللہ تعالیٰ نے فقہ کی دولت سے نوازا ہے وہ ان مسائل اور احکام کو سمجھتے ہیں، اور احادیث کی عبارات اور سیاق کلام، طرز بیان، وجوہ دلالت سے انہیں وہ چیزیں مل جاتی ہیں جو ان کو نہیں ملتیں جو فقہ سے عاری ہیں۔ اسی فقہ یعنی دینی سمجھ کو کام میں لانے کا نام استنباط ہے۔ یہ تو معلوم ہوگیا کہ دین اسلام میں تفقہ فی الدین کی بہت زیادہ اہمیت اور ضرورت ہے لیکن اس میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے ایک جماعت تو ایسی ہے جسے فقہ کے نام سے ہی چڑ ہے اور ساتھ ہی ان میں یہ غفلت ہے کہ احادیث شریفہ کی پوری کتابیں بھی نہیں پڑھتے پڑھاتے چند منتخب احادیث یاد کر کے فتوے دینے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ امام بخاری اور امام شافعی اور ہم میں کوئی فرق نہیں۔ اور ایک جماعت ایسی ہے جس نے اساتذہ سے قرآن پڑھا نہ حدیث پڑھی خود رو عالم ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی سمجھ سے دینی احکام بتانے اور فتوے دینے کا حق ہے ایسے لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں یہ لوگ نہ عربی جانتے ہیں نہ صرف ونحو سے واقف ہیں۔ نہ وجوہ استنباط سے باخبر ہیں نہ فصاحت و بلاغت کی کتابیں پڑھیں نہ لغات پر حاوی ہیں۔ حروف اصلیہ اور حروف زائدہ کو بھی نہیں جانتے لیکن اپنی جاہلانہ سمجھ سے فتویٰ دینے کو تیار ہیں۔ اور ساتھ ہی یوں بھی کہتے ہیں کہ اجتہاد ختم نہیں ہوا اور اس بات کی لپیٹ میں وہ اپنے کو مجتہد قرار دینا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اجتہاد کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ میں نے ان لوگوں کے لیے چند سوال رکھے ہیں۔ عزیز طلبہ سے ان لوگوں کا واسطہ پڑجائے تو ان سے دریافت کرلیں کہ لُمْتُنَّنِیْ کیا صیغہ ہے ؟ دونوں کے حروف اصلی بتائیں ؟ اور حروف محذوفہ اور زائد بیان فرمائیں ؟ اور یہ بتائیں کہ یَخِصِّمُوْنَ اور (اَمْ مَّنْ لَّا یَھِدِّیْ ) اور وادَّکَرَ کیا صیغہ ہے کس باب سے ہے اور یہ بھی واضح کریں کہ فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ اور فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ میں کتنے کلمات ہیں ؟ ان میں اسم، فعل حروف کیا کیا ہیں اور ساتھ ہی معرب و مبنی کی تعیین بھی کرتے چلیں ؟ اجتہاد، استنباط اور تفقہ کوئی حلوہ کا لقمہ نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے مجتہد اور فقیہ بن جائے۔ یہ ضروری باتیں دور حاضر کے بےپڑھے مجتہدوں سے امت کو محفوظ رکھنے کے لیے لکھی گئی ہیں۔ آیت بالا کی تفسیر جو اوپر لکھی گئی یہ اس بنیاد پر ہے کہ لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کی ضمیر اس جماعت کی طرف راجع ہو جو جہاد کے لیے نکلنے والوں کے ساتھ نہ گئے اور گھروں میں رہ گئے اور ان کا یہ رہنا اس لیے ہے کہ علم دین حاصل کریں اور مجاہدین واپس ہوں تو ان کو علم سکھائیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بہت سے حضرات نے لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کی ضمیر ان لوگوں کی طرف راجع کی ہے جو گھروں کو چھوڑ کر باہر نکل گئے اس صورت میں باہر نکلنے والوں سے علم کے لیے سفر کرنے والے مراد ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح جہاد کے لیے جماعتیں جاتی ہیں اسی طرح طلب علم کے لیے بھی اہل ایمان باہر نکلیں اور باہر نکل کر علم حاصل کریں۔ پھر واپس ہو کر ان لوگوں کو دین سکھائیں اور اللہ سے ڈرائیں جو طلب علم کے لیے باہر نہ گئے تھے۔ یہ تفسیر سیاق کلام سے قریب تر ہے۔ صاحب روح المعانی نے یہ تفسیر لکھ کر لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب دیہاتوں میں چلے گئے تھے۔ وہ وہاں کی چیزوں سے منتفع ہوئے اور ساتھ ہی لوگوں کی ہدایت کے کام میں مشغول رہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ تم تو ہمارے پاس آکر بس گئے اور اپنے ساتھیوں کو چھوڑ آئے یہ بات سن کر انہیں رنج ہوا اور دیہات چھوڑ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے ان کی پریشانی دور ہوگئی کیونکہ جو علم حاصل کیا ہے دیہات میں رہ کر اس کا پھیلانا اور ہدایت دینے کی کوشش کرنا بھی ایمانی تقاضوں میں شامل ہے لِیَتَفَقَّھُوْا اور وَلِیُنْذِرُوْا کا مرجع جو بھی ہو اور ترجمہ اور تفسیر میں جو رخ بھی اختیار کیا جائے ہر حال میں آیت شریفہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایک جماعت کا تفقہ فی الدین میں مشغول ہونا ضروری ہے۔ یہ لوگ خود علم دین حاصل کریں اور پھر اپنی قوم کو علمی باتیں بتائیں، اوامرو نواہی سے آگاہ کریں تاکہ قوم کے افراد گنہگاری سے بچ سکیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا دین اسلام میں بہت پھیلاؤ ہے۔ انسانوں کی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ اسلام کے تمام علوم کو محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے۔ یہ علوم قرآن کریم میں اور حادیث شریف میں کتب تفسیر میں شروح حدیث میں۔ فقہ کی کتابوں میں مدون ہیں۔ پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ پورے دین کو علماً و عملاً محفوظ رکھے۔ ان علوم کی تعلیم و تدریس ہوتی رہے۔ خود بھی پڑھیں۔ اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں۔ اور تمام مسلمانوں کے لیے یہ مواقع فراہم کریں کہ ان علوم میں مشغول ہو سکیں۔ اس میں کتابیں لکھنا بھی ہے مدارس کا قیام بھی ہے اور مدارس کی امداد بھی ہے۔ بعض علاقوں میں کچھ لوگوں نے ایسے مدارس قائم کیے جن کے نصاب سے کتاب الجہاد اور کتاب العتاق وغیرہ کو یہ کہہ کر نکال دیا کہ ان پر عمل تو نہیں رہا لہٰذا ان کے پڑھانے کی ضرورت نہیں، یہ ان لوگوں کی نا دانی ہے۔ عمل ہو یا نہ ہو ہر حال میں پورے دین کو باقی رکھنا اور محفوظ رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر بعض علوم کو چھوڑ دیا اور بعض علوم کو نصاب سے خارج کردیا تو جب کبھی حالات پلٹا کھائیں گے اور ان چیزوں پر عمل کرنے کا موقعہ آجائے گا جن پر آج عمل کرنے کا موقعہ نہیں ہے تو اس وقت بھولے ہوئے احکام پر کیسے عمل ہوگا ؟ پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جن احکام پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھی تو امت ہی کا قصور ہے نہ جہاد چھوڑتے جو فرض کفایہ ہے نہ یہ دن دیکھنے میں آتے کہ احکام جہاد و احکام استرقاق کو نصاب سے خارج کرنے کا مشورہ کرتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

116:“ وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ الخ ” جملہ معترضہ ہے اور اس سے مسئلہ توحید اور مسئلہ جہاد کی تعلیم کی ترغیب دینا مقصود ہے یعنی مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جوحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر مسئلہ توحید و مسئلہ جہاد کی تعلیم حاصل کرے اور پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کو ان مسائل کی تعلیم دے اس آیت سے معلوم ہوا کہ اس حد تک علم دین حاصل کرنا کہ قوم کا معلم اور پیشوا بن سکے ہر مسلمان پر فرضِ عین نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ البتہ جن احکام کا بجالانا ہر فرد پر فرض ہے ان کا علم سیکھنا بھی ہر فرد پر فرضِ عین ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

122 اور مسلمانوں کو یہ بھی نہیں چاہئے کہ جہاد کیلئے سب کے سب گھروں سے نکل کھڑے ہو سو ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہر بڑی جماعت میں سے ایک حصہ نکلے تاکہ باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ حاصل کرتے رہیں اور تاکہ جب یہ مجاہدین ان کی طرف جہاد سے واپس آئیں تو یہ دین کی سمجھ حاصل کرنے والے ان کو خدا کے احکام سناکر ڈرائیں تاکہ وہ گناہوں سے بچتے رہیں۔ ایک تو یہ مطلب کہ جہاد میں کچھ لوگ نکلیں اور کچھ پیغمبر کی خدمت میں حاضر رہیں اور دین حاصل کرتے رہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ طلب علم کے لئے یہ آیت ہو اور معنیٰ یہ ہوں کہ طلب علم کے لئے ہر قبیلہ اور ہر بستی میں سے ایک جماعت دینی کام حاصل کرنے کے لئے نکلے تاکہ جب تحصیل علم کے بعد اپنی بستی میں واپس آئیں تو لوگوں کو احکام الٰہی سناکر ڈرائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہر قوم میں سے چاہئے بعضے لوگ پیغمبر کی صحبت میں رہیں تاکہ علم دین سیکھیں اور پچھلوں کو سکھائیں اب پیغمبر موجود نہیں علم دین موجود ہے طلب علم فرض کفایہ ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے۔ 12 ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہاد فرض کفایہ ہے بشرطیکہ امام حکم نہ دے اگر امام حکم دے دے تو ہر مخاطب پر جہاد فرض ہوجائے گا۔