Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 126

سورة التوبة

اَوَ لَا یَرَوۡنَ اَنَّہُمۡ یُفۡتَنُوۡنَ فِیۡ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوۡ مَرَّتَیۡنِ ثُمَّ لَا یَتُوۡبُوۡنَ وَ لَا ہُمۡ یَذَّکَّرُوۡنَ ﴿۱۲۶﴾

Do they not see that they are tried every year once or twice but then they do not repent nor do they remember?

اور کیا ان کو نہیں دکھلائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ نصیحت قبول کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites suffer Afflictions Allah says, أَوَلاَ يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ ... See they not that they are put in trial, being tested, ... فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لاَ يَتُوبُونَ وَلاَ هُمْ يَذَّكَّرُونَ once or twice every year! Yet, they turn not in repentance, nor do they learn a lesson. They neither repent from their previous sins nor learn a lesson for the future. Mujahid said that; hypocrites are tested with drought and hunger. Allah said; وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُواْ صَرَفَ اللّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُون

عذاب سے دوچار ہو نے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ ہر سال دو ایک دفعہ ضروری وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوتی ہے ۔ کبھی قحط سالی ہے کبھی جنگ ہے ، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بےچین ہو رہے ہیں ۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے ۔ بخیلی عام ہو رہی ہے ۔ ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بد آرہا ہے ۔ جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نے مانیں وعظ سے منہ پھیرلیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے ۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے ۔ ان کی اس بے ایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھیر دیئے ۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیرھے کر دیئے ۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بےپروا ہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

126۔ 1 یفتنون کے معنی ہیں آزمائے جاتے ہیں۔ آفت سے مراد یا تو آسمانی آفات ہیں مثلًا قحط سالی وغیرہ (مگر یہ بعید ہے) یا جسمانی بیماریاں اور تکالیف ہیں یا غزوات ہیں جن میں شرکت کے موقع پر ان کی آزمائش ہوتی تھی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے یہ مفہوم زیادہ صحیح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٥] یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزرتا جس میں سال میں ایک یا دو دفعہ ان کی رسوائی نہ ہوتی ہو۔ کبھی ان کی کوئی سازش پکڑی جاتی ہے کبھی ان کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ کبھی کوئی جنگ پیش آجاتی ہے جو ان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ کبھی یہ لوگ خود ہی ایسی بکواس کر بیٹھتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں رسوا ہونا پڑتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع پیش آتا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ سیدھی راہ پر آجائیں مکر و فریب اور جھوٹ سے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے دلوں کی نجاست میں ہر آن اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ : اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہوجاتے تھے (مگر پھر بھی وہ نفاق پر قائم رہتے تھے) ۔ (موضح) اسی طرح ہر آدمی پر کوئی نہ کوئی آزمائش بیماری یا خوف وغیرہ کی صورت میں ہر سال ایک دو مرتبہ آتی رہتی ہے، تاکہ اسے سوچنے کا موقع ملے، فرمایا : (وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) [ السجدۃ : ٢١ ] ” اور یقیناً ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ “ سعادت مندوں کو اس سے توبہ اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق ملتی ہے، مگر منافق محروم رہتا ہے۔ پہلا معنی اس مقام پر زیادہ موزوں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 126: يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّ‌ةً أَوْ مَرَّ‌تَيْنِ (they are put to trial every year once or twice), hypocrites have been warned about their incorrigible hypocrisy and constant breach of trust which brought all sorts of trou¬bles for them every year once or twice. They saw the defeat of their disbelieving accomplices, the kuffar of Makkah. Then, they had to face the disgrace brought upon them when their hypocrisy was exposed. So, there was no dearth of warning signals for them. Incidentally, the count of ` once& or ` twice& here does not signify the numbers one and two as such. In fact, the purpose is to stress that this chain of action and reaction keeps moving all the time yet they take no lesson from what happens to them.

(آیت) يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ، اس میں منافقین کو اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفاق اور عہد شکنی وغیرہ معاصی کی وجہ سے ہر سال مختلف قسم کی مصیبتوں میں کبھی ایک بار کبھی دو بار مبتلا ہوتے رہتے ہیں، کبھی ان کے دوست کفار مکہ مغلوب ہوگئے، کبھی ان کے نفاق کی باتیں کھل گئیں، اس سے پریشانی میں مبتلا رہے، یہاں ایک دو کا عدد خاص مراد نہیں، بلکہ یہ بتلانا ہے کہ اس کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، کیا ان چیزوں کو دیکھ کر بھی انہیں عبرت نہیں ہوتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝ ١٢٦ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ عام العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٦) اور کیا ان منافقین کو سمجھائی نہیں دیتا کہ یہ اپنے مکروخیانت اور بدعہدی کی وجہ سے ہر سال میں ایک بار دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنسے رہتے ہیں مگر پھر بھی ان خیانتوں اور یہ بدعہدوں سے باز نہیں آتے اور نہ کچھ سمجھتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٦ (اَوَلاَ یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ) قتال کا مرحلہ ہو یا کسی اور آزمائش کا موقع ‘ وقفے وقفے سے سال میں ایک یا دو مرتبہ منافقین کے امتحان کا سامان ہو ہی جاتا ہے ‘ جس سے ان کی منافقت کا پردہ چاک ہوتا رہتا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :125 یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آجاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو ۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آجاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے ، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آجاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے ، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے ۔ ، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آجاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان ، مال ، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

104: منافقین پر ہر سال کوئی نہ کوئی مصیبت پڑتی رہتی تھی۔ کبھی ان کی خواہش اور منصوبوں کے خلاف مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجاتی، کبھی ان میں سے کسی کا راز کھل جاتا، کبھی کوئی بیماری آجاتی، کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مصیبتیں ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہونی چاہئے تھیں، لیکن یہ لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٦۔ ١٢٧۔ اللہ پاک تعجب کے ساتھ منافقوں کا حال بیان فرماتا ہے کہ ہر سال ایک دو دفعہ ان کی آزمائش ہوتی ہے قحط بھی پڑتا ہے بیماریوں کی مصیبت جھیلتے ہیں مگر یہ اپنے نفاق میں ایسے ڈھیٹھ ہیں کہ نہ توبہ کرتے ہیں نہ آیندہ خوف کرتے ہیں اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو اس میں اپنے عیب کو سن کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگتا ہے کہ کسی نے ہماری طرف دیکھا نہیں اور وہاں سے دب کر سرک جاتے ہیں اور مذمت کی آیت یا سورت کو پورے طور پر نہیں سنتے۔ ابن ماجہ میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کم تولنے کے وبال سے اکثر قحط پڑا کرتا ہے ١ ؎ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ایک راوی خالد بن یزید بن عبدالرحمن ضعیف ہے لیکن مستدرک حاکم اور بیہقی میں بعض حدیثیں ٢ ؎ اس مضمون کی ہیں جن سے اس حدیث کی سند کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے اس حدیث سے آیت کو یہ تفسیر ہوسکتی ہے کہ جس طرح منافقوں کے نفاق کے سبب سے قحط اور بلا آتی ہے اسی طرح کم تولنے سے خاص مسلمانوں پر بھی یہ بلا آتی ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر (رض) کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقوں کا حال اس بکری کے مانند فرمایا ٣ ؎ ہے جو اپنے ریوڑ کو بھول کر ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے یہ حدیث منافقوں کے ناسمجھ ہونے کی گویا تفسیر ہے کہ یہ لوگ اپنی نافہمی کے سبب سے نہ مسلمانوں کے گروہ میں ہیں نہ منکرین اسلام لوگوں کے گردہ میں۔ مجاہد کے قول کے موافق فتنہ کے معنے یہاں قحط بیماری اور اسی طرح کی آیتوں کے ہیں ٤ ؎۔ ١ و ٢ ؎ الترغیب والترہیب ج ٢ ص ١٣ الترہیب من بخس الکیل والوزن ٣ ؎ صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٧٠ کتاب صفات المنافقین۔ ٤ ؎ تفسیر ابن جریر ج ١١ ص ٧٣۔ ٧٤۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:126) یفتنون۔ مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ فتن سے ۔ وہ مصیبت میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ صاحب ضیاء القرآن اس آیۃ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ منافقین جو غفلت اور عناد کا شکار تھے۔ ان کو راہ ہدایت پر لانے کے لئے سال میں متعدد بار ایسے حالات سے دوچار کردیا جاتا جو ان کو خواب غفلت سے دو چار کردیتے۔ اسلام کے خلاف ان کی سازشیں ناکام ہوتیں۔ بےسروسامانی کے باوجود مسلمان ہر میدان میں اپنے سے طاقت ور دشمنوں کو شکست پر شکست دیتے چلے جاتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پاک سے ایسے معجزات رونما ہوتے جن کے دیکھنے کے بعد حضور کی صداقت کا یقین ہوجاتا۔ اس کے علاوہ انہیں طرح طرح کی تکالیف اور مالی خساروں میں مبتلا کیا جاتا تاکہ یہ خواب غفلت سے بیدار ہوں۔ لیکن انہیں توبہ کی توفیق نہ ہوتی اور نہ نصیحت قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2۔ اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہوجاتے تھے۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا دنیا میں انجام۔ منافق دوغلے کردار کا انسان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے دوغلاپن کبھی نہ کبھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے تو سوائے رسوائی اور شرمندگی کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ ہر سال ایک یا دو مرتبہ انہیں اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ جب یہ قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرما دیتے کہ یہ لوگ جھوٹی قسمیں اٹھا رہے ہیں۔ تبوک سے واپسی پر بھی ان کے جھوٹ کی قلعی کھول دی گئی۔ سورة التوبۃ : ٩٥۔ ٩٦۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے جب مسلمان ان کے ایمان پر شبہ کرتے تو یہ لوگ حلف دیتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ منافقین حلف دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا رسول ہے۔ لیکن یہ اپنی شہادت میں جھوٹے ہیں۔ جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقتاً اللہ کا رسول ہے۔ ( المنافقون : ١) یہی حالت غزوات اور صدقات کے موقع پر ان کی ہوا کرتی تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر پوری دنیا کے سامنے رسوا ہوئے، غزوہ خندق کے موقعہ پر ہر اعتبار سے بےنقاب ہوئے۔ فتح مکہ کے دوران ان کی منافقت کی قلعی کھول دی گئی۔ تبوک کے محاذنے تو انہیں پوری طرح رسوا کردیا، رہی سہی کسر مسجد ضرار کے مسمار کرنے سے نکل گئی۔ اس طرح قرآن مجید کا فرمان ان پر صادق آیا کہ یہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ملکی اور قومی سطح پر ذلیل ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی ایک دو دفعہ ذلیل ہونے کے بعد سنورنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن منافق نظریات اور کردار کے حوالے سے نجس اور پلید ہوتا ہے جس وجہ سے وہ سدھرنے کی بجائے بگڑتا چلا جاتا ہے۔ جس وجہ سے انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت کی ذلت قبول کرلی مگر اخلاص نیت کے ساتھ اسلام قبول کرنا پسند نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی بدنیتی اور مذموم حرکات کی وجہ سے ان کے دلوں کو اسی طرف پھیر دیا۔ جس طرف یہ پھرنا پسند کرتے تھے۔ ایسے لوگ سمجھنے اور ہدایت پانے والے نہیں ہوتے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ ٢۔ منافقین منافقت کی وجہ سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ ٣۔ منافقین بار بار مشکلات میں مبتلا ہونے کے باوجود توبہ نہیں کرتے۔ ٤۔ منافقین اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ ٥۔ منافق قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کا قرآن مجید کے ساتھ رویہّ : ١۔ جب قرآن مجید کا نزول ہوتا تھا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ : ١٢٧) ٢۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ؟ (التوبۃ : ١٢٤) ٣۔ قرآن کا جب کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو وہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ : ٨٦) ٤۔ جب کوئی محکم سورة نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ ( سورة محمد : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولایرون انھم یفتنون فی کل عامر مرۃ او مرتین ثم لا یتوبون ولا ھم یذکرون۔ اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ ہر سال ایک یا دو بار وہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر بھی باز نہیں آتے اور نہ وہ کچھ سمجھتے ہیں (کہ آئندہ باز آنے کی امید ہو) ۔ یعنی طرح طرح کے امراض اور مصائب بھیج کر ان کی آزمائش کی جاتی ہے۔ مجاہد نے کہا : قحط اور شدت میں مبتلا کر کے آزمائش کی جاتی ہے۔ قتادہ نے کہا : رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کی ہمرکابی میں جہاد کو جاتے ہیں اور جو صداقت کی نشانیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں ‘ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مقاتل بن جان نے کہا : ان کے نفاق کو ظاہر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی رسوائی ہوتی ہے۔ عکرمہ نے کہا : منافقت کرتے ہیں ‘ پھر ایمان لے آتے ہیں ‘ پھر منافق ہوجاتے ہیں۔ یمان نے کہا : عہد شکنی کرتے ہیں۔ پھر توبہ نہیں کرتے یعنی عہد شکنی سے ‘ گناہوں سے اور نفاق سے جو مصائب کے آنے اور رسوائیاں ہونے کا سبب ہے۔ اور نہ وہ نصیحت پکڑتے ہیں اس بات سے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر سے نصرت کا اور مسلمانوں سے فتح کا جو وعدہ کیا تھا ‘ اس کو کس طرح پورا کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

119:“ اَ وَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ الخ ” یہ زجر ہے۔ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ہر سال انہیں ایک یا دو بار ضور مبتلائے بلیات کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے شر و فساد سے باز آجائیں مگر وہ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ ہر سال جہاد کے موقع پر ایک دو بار ضرور ان کو ابتلاء پیش آتا ہے۔ جس میں ان کی شرارتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں اور قرآن میں ان کو وضاحت سے ذکر کیا جاتا ہے۔ جس سے انہیں انتہائی ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ “ والمعنی اولا یرون انھم یختبرون بالجهاد مع رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیه وسلم فیعاینون ما ینزل علیه من الایات لا سیما الایت الناعیة علیھم قبائحھم ” (روح ج 11 ص 51) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

126 کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ ہر سال ایک مرتبہ یا دو مرتبہ کسی نہ کسی آفت اور بلا میں مبتلا کردیئے جاتے ہیں اور کسی نہ کسی آفت میں پھنستے رہتے ہیں پھر نہ وہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں یعنی عام طور پر ان پر کوئی نہ کوئی آفت آتی رہتی ہے لیکن باوجود اس کے باز نہیں آتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اکثر جنگ و جہاد کے وقت منافق معلوم ہوجاتے تھے۔ 12