Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 127

سورة التوبة

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ نَّظَرَ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ ؕ ہَلۡ یَرٰىکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انۡصَرَفُوۡا ؕ صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۱۲۷﴾

And whenever a surah is revealed, they look at each other, [saying], "Does anyone see you?" and then they dismiss themselves. Allah has dismissed their hearts because they are a people who do not understand.

جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں کہ تم کو کوئی دیکھتا تو نہیں پھر چل دیتے ہیں اللہ تعالٰی نے ان کا دل پھیر دیا اس وجہ سے کہ وہ بے سمجھ لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And whenever there comes down a Surah, they look at one another (saying): "Does any one see you!" Then they turn away. Allah has turned their hearts because they are a people that understand not. This describes the hypocrites that when a Surah is revealed to the Messenger of Allah, نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ (they look at one another), they turn their heads, right and left, saying, هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُواْ ("Does any one see you!" Then they turn away. ..) turning away from, and shunning the truth. This is the description of hypocrites in this life, for they do not remain where the truth is being declared, neither accepting nor understanding it, just as Allah said in other Ayat, فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ Then what is wrong with them that they turn away from admonition As if they were wild donkeys. Fleeing from a lion. (74:49-51) and, فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُواْ قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ So what is the matter with those who disbelieve that they hasten to hear from you. (Sitting) in groups on the right and on the left. (70:36-37) This Ayah also means, what is the matter with these people who turn away from you to the right and to the left, to escape from truth and revert to falsehood. Allah's statement, ثُمَّ انصَرَفُواْ صَرَفَ اللّهُ قُلُوبَهُم Then they turn away. Allah has turned their hearts (from Truth) is similar to, فَلَمَّا زَاغُواْ أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ So when they turned away, Allah turned their hearts away. (61:5). Allah said next, ... بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُون because they are a people that understand not. They neither understand Allah's Word nor attempt to comprehend it nor want it. Rather, they are too busy, turning away from it. This is why they ended up in this condition.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

127۔ 1 یعنی ان کی موجودگی میں سورت نازل ہوتی جس میں منافقین کی شرارتوں اور سازشوں کی طرف اشارہ ہوتا تو پھر یہ دیکھ کر کہ مسلمان انہیں دیکھ تو نہیں رہے، خاموشی سے کھسک جاتے۔ 127۔ 2 یعنی آیات الٰہی میں غور و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں کو خیر اور ہدایت سے پھیر دیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤٦] وحی نازل ہونے کے بعد آپ کا صحابہ کو مسجد میں بلاکر وحی سنانا :۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی تو بسا اوقات رسول اللہ مسلمانوں کو مسجد نبوی میں بلا کر بطور خطبہ انہیں یہ سورت سنا دیا کرتے۔ اب منافقوں کی مجبوری یہ تھی کہ انہیں ایسے اعلان پر مسجد میں جانا پڑتا تھا اور اپنے آپ سے نفاق کا شبہ دور کرنے کے لیے انہیں ایسی حاضری لگوانا ہی پڑتی تھی مگر اس بیگار کو زیادہ دیر تک برداشت بھی نہ کرسکتے تھے اور چاہتے یہ تھے کہ حاضری لگوانے کے بعد فوراً مسلمانوں سے نظریں بچا کر نکل جائیں اور ان میں سے اکثر یہی کچھ کرتے تھے۔ تو جب ان لوگوں نے رشد و ہدایت کی مجلس سے یوں بھاگنا شروع کیا تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ویسا ہی بنادیا۔ [١٤٧] یعنی ہر سال ایک یا دو دفعہ رسوا ہونے کے باوجود انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہمیں اس رسوائی سے نجات کیسے مل سکتی ہے اور اس کے بجائے عزت کیسے نصیب ہوسکتی ہے نیز ہماری دین و دنیا کی بھلائی کس بات میں ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت کا نقشہ کھینچا ہے جب منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں موجود ہوتے اور ان کے راز کھولنے والی یا جہاد کے حکم پر مبنی کوئی سورت یا آیات اترتیں، پھر وہ کمینگی اور شرارت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور موقع پا کر کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا، مجلس سے کھسک جاتے۔ ان کی سمجھ میں صاف آ رہا ہوتا کہ ان آیات کا مصداق وہی ہیں، کیونکہ جہاد کے لیے نکلنا ان کے لیے موت تھی اور اس مجلس میں بیٹھنا ان کے لیے سراسر تذلیل کا باعث ہوتا، چناچہ وہ تائب ہونے کے بجائے نکل جانے کو ترجیح دیتے۔ فرمایا : (قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّـلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا) [ النور : ٦٣ ] ” بیشک اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ لیتے ہوئے کھسک جاتے ہیں۔ “ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ : ” اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں “ کیونکہ وہ سمجھتے ہی نہیں کہ ہماری فلاح اور بھلائی کس چیز میں ہے، یا یہ بددعا ہے کہ وہ اس کے اہل ہیں کہ ان کے حق میں کہا جائے کہ اللہ ان کے دلوں کو پھیر دے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ۝ ٠ ۭ ہَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا۝ ٠ ۭ صَرَفَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝ ١٢٧ سُّورَةُ المنزلة الرفیعة، وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها [ النور/ 1] ، السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اصلی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور/ 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٧) اور جس وقت بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے اور اس میں ان منافقین کی غلط حرکات کا ذکر ہوتا ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ سورت ان کے سامنے پڑھ کر سناتے ہیں تو منافقین ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں (اور اشارہ سے باتیں کرتے ہیں) کہ کہیں تمہیں صحابہ کرام (رض) میں سے تو کوئی نہیں دیکھ رہا اور پھر نماز اور خطبہ حق وہدایت سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی ان کا دل حق و ہدایت سے پھیر دیا ہے یا یہ کہ حق وہدایت سے انہوں نے روگردانی کی ہے تو اس روگردانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق وہدایت سے پھیر دیا اس بنا پر کہ وہ نہ احکام خداوندی کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٧ (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ ط) جب قتال کے بارے میں احکام نازل ہوتے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں موجود منافقین کنکھیوں سے ایک دوسرے کو اشارے کرتے ہیں۔ (ہَلْ یَرٰٹکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ط) (صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ ) اس سورت کی آخری دو آیات قرآن مجید کی عظیم ترین آیات میں سے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :126 قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے اجتماع کا اعلان کراتے اور پھر مجمع عام میں اس سورہ کو خطبے کے طور پر سناتے تھے ۔ اس محفل میں اہل ایمان کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ ہمہ تن گوش ہو کر اس خطبے کو سنتے اور اس میں مستغرق ہو جاتے تھے ، لیکن منافقین کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا ۔ وہ آ تو اس لیے جاتے تھے کہ حاضری کا حکم تھا اور اجتماع میں شریک نہ ہونے کے معنی اپنی منافقت کا راز خود فاش کر دینے کے تھے ۔ مگر اس خطبے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی ۔ نہایت بددلی کے ساتھ اکتائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اپنے آپ کو حاضرین میں شمار کرا لینے کے بعد انہیں بس یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح جلدی سے جلدی یہاں سے بھاگ نکلیں ۔ ان کی اسی حالت کی تصویر یہاں کھینچی گئی ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :127 یعنی یہ بے وقوف خود اپنے مفاد کو نہیں سمجھتے ۔ اپنی فلاح سے غافل اور اپنی بہتری سے بے فکر ہیں ۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت ہے جو اس قرآن اور اس پیغمبر کے ذریعے سے ان کو دی جا رہی ہے ۔ اپنی چھوٹی سی دنیا اور اس کی نہایت گھٹیا قسم کی دلچسپیوں میں یہ کنویں کے مینڈک ایسے غرق ہیں کہ اس عظیم الشان علم اور اس زبردست رہنمائی کی قدر و قیمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی جس کی بدولت یہ ریگستان عرب کے اس تنگ و تاریک گوشے سے اٹھ کر تمام عالم انسانی کے امام و پیشوا بن سکتے ہیں اور اس فانی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعد کی لازوال ابدی زندگی میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو سکتے ہیں ۔ اس نادانی و حماقت کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں استفادہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے ۔ جب فلاح و کامرانی اور قوت و عظمت کا یہ خزانہ مفت لٹ رہا ہوتا ہے اور خوش نصیب لوگ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت ان بد نصیبوں کے دل کسی اور طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ کس دولت سے محروم رہ گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

105: اصل بات یہ تھی کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے کلام سے چڑ تھی۔ ان کی خواہش اور کوشش یہ رہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کی نوبت نہ آئے۔ لہذا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مجلس میں کوئی نئی سورت تلاوت فرماتے تو یہ بھاگنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن اگر سب کے سامنے اٹھ کر جائیں تو ان کا راز فاش ہوجائے۔ اس لیے یہ ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے کہ کوئی ایسا موقع تلاش کرو کہ کوئی مسلمان تمہیں دیکھ نہ رہا ہو، اور اس وقت چپکے سے اٹھ کر چلے جاؤ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:127) انصرفوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ چل دیتے۔ وہ پلٹ جاتے (حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے) انصراف (انفعال) سے صرف مادہ۔ الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا۔ محاورہ ہے کہ صوفتہ فانصرف میں سے اسے پھیر دیا وہ پھر گیا۔ صرف اللہ قلوبہم۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دئیے (ایمان سے یا فہم قرآن سے) یہ جملہ منافقین کے لئے بددعائیہ بھی ہوسکتا ہے۔ خدا انکے دلوں کو پھیر دے۔ بانھم۔ میں باء سببیہ ہے۔ بدیں وجہ۔ اس سبب سے۔ کہ انھم قوم لایفقھون یہ لوگ سوء فہم اور عدم تدبر کا شکار ہیں۔ سوجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3۔ بھاگ نکلنے کی نیت سے یا انکار اور ٹھٹھے کی نیت سے (کبیر) ۔ 4۔ یا اللہ ان کے دلوں کو پھیر دے۔ یہ ان کے حق میں بدعا ہے۔ 5۔ تب ہی وہ وپنی فلاح سے غافل اور بھلائی سے بےفکر ہیں۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کلام اللہ میں جہاں منافقوں کے عیب آتے وہ آپس میں دیکھتے کہ ہم کو کسی نے پرکھا نہ ہو پھر جلدی سے اتھ جاتے۔ (موضح) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا ما انزلت سورة نظر بعضھم الی بعض اور جب کوئی سورة اتاری جاتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے۔ یعنی آنکھوں آنکھوں میں انکاریہ یا استہزائیہ اشارہ کرتا ہے ‘ یا آنکھوں کے اشارے سے غصہ کا اظہار کرتا ہے کہ اس سورة میں ان کے عیوب کو بیان کیا گیا ہے اور ان کی رسوائی کی گئی ہے اور مجلس سے اٹھ کر بھاگ جانے کا ارادہ کرتے ہوئے آنکھوں کے اشارہ سے ایک دوسرے سے کہتا ہے۔ ھل یراں کم من احد کیا تمہیں کوئی (مسلمان) دیکھ رہا ہے ؟ اگر اس مجلس سے اٹھ جاؤ گے تو کیا کسی کی نظر پڑجائے گی۔ پھر اگر کوئی مسلمان نہیں دیکھتا ہوتا تو وہ مسجد سے سرک جاتے ‘ اگر دیکھنے کا یقین ہوتا تو جمے بیٹھے رہتے۔ ثم انصرفوا پھر (یعنی اس سورت نازلہ پر ایمان لانے سے) پھرگئے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ اس مقام سے جہاں بیٹھے سورت سن رہے تھے ‘ یعنی مجلس رسول اللہ ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے پھرگئے۔ بیٹھے رہنے میں ان کو رسوائی کا اندیشہ تھا۔ صرف اللہ قلوبھم اللہ نے ان کے دلوں کو (ایمان سے) پھیر دیا۔ ابو اسحاق نے کہا : اللہ نے ان کے کرتوت کی سزا میں ان کو گمراہ کردیا۔ یہ جملہ (بجائے خبریہ ہونے کے) بددعائیہ بھی ہو سکتا ہے (مطلب یہ ہے کہ اللہ ان کے دلوں کو ایمان سے پھر دے ‘ رہاسہا شائبۂ ایمان بھی ان کے دلوں سے جاتا رہے) ۔ بانھم قوم لا یفقھون اس سبب سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو (اپنی بدفہمی اور غلط تدبر کی وجہ سے حق کو) نہیں سمجھتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ ) کہ ان لوگوں کی یہ حرکتیں اور ان حرکتوں کا انجام بد اس وجہ سے سامنے آیا کہ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔ اگر حق اور حقیقت کو سمجھتے تو نہ منافقت اختیار کرتے نہ ان سے منافقانہ حرکتیں صادر ہوتی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

120:“ وَ اِذَا مَا اُنْزِلَتْ الخ ”۔ تبلیغِ وحی کے وقت منافقین کے حال کا بیان ہے۔ جب ان کو قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں جن سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ موقع پا کر یہاں سے بھاگ نکلیں چناچہ موقع ملتے ہی چل دیتے ہیں یعنی ان کا مقصد ہر نازل ہونے والی آیت کی ہنسی اور اس کا مذاق اڑانا ہے اس لیے وہ اس مجلس سے جلد ازجلد بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

127 اور جب سورت نازل کی جاتی ہے تو یہ اپنے مخصوص انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے تم کو کوئی دیکھ تو نہیں رہا اور آنکھ بچا کر نکل جاتے اور واپس چلے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس پھرجانے کی وجہ سے ان کے قلوب ہی کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ سے کام نہیں لیتے اور محض بےسمجھ واقع ہوئے ہیں۔ یعنی سورت نازل ہوئی اور انہوں نے اس نئی سورت کو سنا اور مجلس نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اٹھ جانے کی ٹھہرائی اور چاہا کہ اس طرح واپس ہوں کہ کوئی مسلمان ہم کو نہ دیکھے کبھی پیغمبر سے لگائی بجھائی کردے اس کی سزا یہ ملی کہ دل ہی پھرگئے اور قرآن کریم کو سمجھنے کی صلاحیت ہی مسخ ہوگئی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتی ہیں یعنی کلام اللہ میں جہاں عیب آئے منافقوں کے وہ آپس میں دیکھتے ہیں کہ مجلس میں کسی نے ہم کو پرکھا نہ ہو پھر شتاب اٹھ جاتے ہیں۔ 12