Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 129

سورة التوبة

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللّٰہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪  5

But if they turn away, [O Muhammad], say, "Sufficient for me is Allah ; there is no deity except Him. On Him I have relied, and He is the Lord of the Great Throne."

پھر اگر روگردانی کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِن تَوَلَّوْاْ ... But if they turn away, from the glorious, pure, perfect and encompassing Law that you -- O Muhammad -- brought them, ... فَقُلْ حَسْبِيَ اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ ... then say: "Allah is sufficient for me. There is no God but He, Allah is sufficient for me, there is no deity worthy of worship except Him, and in Him I put my trust. Similarly, Allah said, رَّبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلً (He alone is) the Lord of the east and the west; there is no God but He. So take Him alone as a guardian. (73:9) ... عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ... in Him I put my trust, Allah said next, ... وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ and He is the Lord of the Mighty Throne. He is the King and Creator of all things, and He is the Lord of the Mighty Throne (Arsh), which is above all creation; all that is in and between the heavens and earths is under the Throne (Arsh) and subservient to Allah's power. His knowledge encompasses all things, and His decision will certainly come to pass over all matters. He is the guardian of all things. Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said that Ubayy bin Ka`b said, "The last Ayah revealed from the Qur'an was this Ayah, لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ (Verily, there has come unto you a Messenger from among yourselves ...) (9:128) until the end of the Surah." It is recorded in the Sahih that Zayd bin Thabit said, "I found the last Ayah in Surah Bara'ah with Khuzaymah bin Thabit." حَسْبِيَ اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ "Allah is sufficient for me. There is no God but He, in Him I put my trust and He is the Lord of the Mighty Throne." This is the end of Tafsir of Surah Al-Tawbah, all praise is due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یعنی آپ کی لائی ہوئی شریعت اور دین رحمت سے۔ 129۔ 2 جو کفر و اعراض کرنے والوں کے مکرو فریب سے مجھے بچا لے گا۔ 129۔ 3 حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت حَسْبِیَ اللّٰہُ (الآ یۃَ ) صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا، اللہ تعالیٰ اس کے ہموم (فکر و مشکلات) کو کافی ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٢] یعنی اگر یہ لوگ آپ کی شخصیت، حدر درجہ شفقت، خیر خواہی اور دلسوزی کی کچھ بھی قدر نہیں کرتے تو جانے دیجئے۔ اگر یہ سب لوگ آپ سے منہ پھیر لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کے لیے کافی ہے اور اسی پر بھروسہ کیجئے جو کائنات کی ایک ایک چیز حتیٰ کہ عرش عظیم کا بھی مالک ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ تَوَلَّوْا : یعنی ایسے مہربان نبی، اس کی مومنوں پر شفقت و رحمت و حرص اور اس قدر سہل دین کے باوجود اگر وہ منہ موڑیں، تو آپ یہ کہیں : (حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ) صرف یہ عقیدہ ہی نہ رکھیں، بلکہ برملا اعلان کریں اور اللہ کے کافی ہونے پر اپنی خوشی اور فخر کا اظہار کریں ؂ توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے حَسْبِيَ اللّٰهُ : ” حَسْبِيَ “ پہلے آنے کی وجہ سے معنی میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی مجھے صرف اللہ کافی ہے، خواہ سب لوگ مجھے چھوڑ جائیں۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂ کیا ڈر ہے اگر ساری خدائی ہو مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسباب بنائے ہیں، ساتھیوں کی مدد سے قوت ملتی ہے اور ایک دوسرے کی مدد کا حکم بھی ہے : (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى) [ المائدۃ : ٢ ] ” اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ “ مگر کافر اور مومن کا یہی فرق ہے کہ دنیاوی اسباب ختم ہونے پر کافر ناامید ہوجاتا ہے اور مشرک کو اپنے معبودوں پر اتنا اعتماد ہو ہی نہیں سکتا جتنا موحد کو ایک اللہ پر ہوتا ہے، اس لیے مومن کبھی ناامید ہو کر کفر کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہوتا ؂ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اس لیے قرآن و حدیث کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اسباب و ضروریات مہیا کرنے کی پوری کوشش کرو، وہ جمع ہوجائیں تب بھی ان پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرو اور ایک بھی سبب مہیا نہ ہو سکے تب بھی صرف اللہ پر بھروسا رکھو جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ کوئی عام بادشاہ نہیں، عرش عظیم کا رب ہے، کوئی چیز اس کی سلطنت اور دسترس سے باہر نہیں۔ تمام اسباب ختم ہونے پر ایک اللہ پر اسی اعتماد اور اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مدد کا مظاہرہ غار ثور میں ہوا، فرمایا : (اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَــصَرَهُ اللّٰهُ ) [ التوبۃ : ٤٠ ] اسی کا مظاہرہ جنگ احد کے اختتام پر دشمن کے اجتماع کی خبر پر اہل ایمان کے قول کے وقت ہوا اور اسی کا مظاہرہ دنیا کا ہر سہارا ختم ہونے پر آگ میں پھینکے جانے کے وقت ابراہیم (علیہ السلام) کے قول (حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ ) کہنے اور بلا اسباب آگ کو گلزار بنا کر اللہ تعالیٰ کی مدد کی صورت میں ہوا۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٧٣، ١٧٤) اور سورة بروج میں مذکور اصحاب الاخدود والے لڑکے کے پاس جب تمام اسباب ختم ہوگئے تو اس نے انھی الفاظ کے ہم معنی الفاظ ( اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِءْتَ ) (اے اللہ ! مجھے ان سے کافی ہوجا جس چیز کے ساتھ تو چاہے) کے ساتھ دعا کی تو پہاڑ سے گرانے والے خود گر کر مرگئے اور سمندر میں ڈبونے والے خود ڈوب گئے، مگر اس کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ [ دیکھیے مسلم، الزھد، باب قصۃ أصحاب الأخدود۔۔ : ٣٠٠٥، عن صہیب۔ ] اب بھی اگر کوئی یقین کے ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے والا یہ دعائیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اسی طرح آئے گی، خواہ ساری دنیا اس سے منہ موڑ جائے۔ بندۂ عاجز عبد السلام عرض کرتا ہے کہ یہ ان مبارک دعاؤں میں سے ہے جن کے پڑھنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید میں ” قُلْ “ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا ہے، اس لیے ہمیں بھی اپنے صبح و شام کے اذکار میں اسے شامل کرنا چاہیے۔ ابودرداء (رض) فرماتے ہیں : ” جو شخص یہ دعا (حَسْبِيَ اللّٰهُ ڶ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭعَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ) صبح و شام سات سات دفعہ پڑھے، اللہ تعالیٰ اسے تمام فکروں سے کافی ہوجاتا ہے۔ “ یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو ثابت نہیں، ہاں ابودرداء (رض) کے قول کی سند کے راوی اچھے ہیں، البتہ اس میں ( صَادِقًا کَانَ بِھَا اَوْ کَاذِبًا ) کے الفاظ صحیح نہیں، بلکہ منکر ہیں۔ [ دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ : ٥٢٨٦ ] بالفرض اگر صحابی کا قول بھی نہ ہو تو اس کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” قُلْ “ ہی کافی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last two verses, according to Sayyidna ` Ubaiyy ibn Ka&b (رض) ، are the last verses of the Qur&an. After these no other verse was re¬vealed and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) left the mortal world. This is also the statement of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . (Qurtubi) Great merits of these two verses appear in Hadith. Sayyidna Abu-d-Darda& (رض) says, ` One who recites these verses three times, morn¬ing and evening, shall find that Allah Ta` ala makes things easy for him (Qurtubi) & Allah knows best.

آخری دو آیتیں حضرت ابی بن کعب کے قول کے مطابق قرآن مجید کی آخری آیتیں ہیں ان کے بعد کوئی آیت نازل نہیں ہوئی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی، یہی قول حضرت ابن عباس کا ہے۔ ( قرطبی ) ان دو آیتوں کے بڑے فضائل حدیث میں مذکور ہیں، حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح و شام یہ آیتیں سات مرتبہ پڑھ لیا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام کام آسان فرما دیتے ہیں (قرطبی) واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ربنا تقبل منا انک انت السمیع العیلم، اللھم وفقنی لتکمیلہ کما تحب وترضی والطف بنا فی تیسیر کل عسیر فان تیسیر کل عسیر علیک یسیر ( سورة توبہ تمام شد )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ۝ ٠ ۤۡ ۖ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۝ ٠ ۭ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَھُوَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ۝ ١٢٩ ۧ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء/ 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران/ 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة/ 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُز لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَط اللہ تعالیٰ کے عرش کی کیفیت اور عظمت ہمارے تصور میں نہیں آسکتی۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٩۔ اس آیت اور اس کے اوپر کی آیت کے متعلق ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن میں سب آیتوں سے پیچھے یہ دونوں آیتیں اتری میں ١ ؎ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت کے زمانہ میں جس وقت قرآن مجید اکٹھا کیا جا رہا تھا تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا اگر اس کے ساتھ اور ایک آیت بھی ہوتی یعنے تین آیتیں ہوتیں تو میں ان کو علیحدہ ایک سورت کردیتا بہرحال یہ سورة توبہ بڑی مبارک سورة ہے ٢ ؎ معتبر سند سے ابوداؤد میں حضرت ابودرداء (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص ہر روز صبح وشام حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم سات مرتبہ پڑھ لیا کرے تو خدا اس کی ساری مشکلیں آسان کریگا ٣ ؎ اگرچہ ابوداؤد (رض) کی یہ روایت موقوف ہے لیکن اس طرح کی موقوف روایتیں حدیث نبوی کے حکم میں ہوا کرتی ہیں کیونکہ صحابہ اپنی طرف سے ایسا مضمون بیان نہیں کرسکتے۔ صحابہ جن روایتوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نہیں پہنچاتے ایسی روایتوں کا سلسلہ صحابہ تک موقوف رہ جاتا ہے اس لئے ایسی روایتوں کو موقوف کہتے ہیں :۔ ١ ؎ تفسیر ابن جریر ج ١١ ص ٧٨ ٢ و ٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٥ ج ٢۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:129) تولوا۔ انہوں نے منہ موڑا۔ انہوں نے پشت پھیری۔ تولی سے ۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ حسبی۔ حسب۔ مضاف ی ضمیر واحد متکلم۔ مضاف الیہ حسب اسم فعل بمعنی کافی۔ مجھ کو کافی ہے۔ مجھ کو بس ہے۔ حسب یحسب کا مصدر بھی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8۔ یعنی اس سہولت اور حرص کے باوجود جو شریعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اس کے ماننے سے انکار کردیں۔ 9۔ حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح اور شام سات مرتبہ یہ وظیفہ (حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم) پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تمام فکروں کیلئے کافی ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے اخلاص، بےمثال جدوجہد، ہمدردی اور خیر خواہی کے باوجودلوگ انحراف کرتے ہیں تو آپ کو ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو ہر حال میں اپنے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس سورة مبارکہ کے آخر میں نبی پاک کو تسلی دینے کے ساتھ یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرف سے اعراض ہو یا ان کی طرف سے آپ کے بارے میں عدم توجہ اور انحراف۔ آپ کو کسی صورت میں بھی دل چھوٹا اور حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ آپ عرش عظیم کے مالک کے نمائندہ ہیں اس لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت اور ان کی عدم توجہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ آپ کی دعا، عقیدہ اور عمل یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں اور اسی پر میرا بھروسہ ہے جو عرش عظیم کا رب ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس بنا پر دنیا کا کوئی خوف اور لالچ مومن کے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتا یہی عقیدہ اور وظیفہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونکا جارہا تھا تو ملائکہ آکر ان کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو یہ آگ نمرود اور اس کے ساتھیوں پر الٹا دی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ کیا ایسا کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے ملائکہ نے کہا کہ اب تک حکم نازل نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” حسبی اللّٰہ “ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ ادھرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب پر بھروسہ اور اعتماد کی انتہا کردی ادھر آسمان سے آگ کو حکم نازل ہوا۔ (وَقُلْنَا یَا نَارُوکُوْنِیْ بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ )[ الانبیاء : ٦٩] ” اور ہم نے کہا اے آگ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا۔ “ یہی وہ وظیفہ اور عقیدہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے استراحت فرما تھے۔ اچانک ایک بدو نے آپ کی تلوار پکڑ کر یہ کہتے ہوئے آپ کے سر پر لہرائی کہ اے محمد ! تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ بچانے والا ہے بدو کا وجود کانپنے لگا اتنے میں آپ نے اس سے تلوار اچک لی اور فرمایا تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے معذرت کی اور حلقہ اسلام میں داخل ہوا۔ یہی وہ عمل اور ذکر ہے کہ جب احد کے میدان میں صحابہ کرام (رض) کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں مدینہ پہنچے تو کفار کے سردار ابو سفیان کا پیغام آیا کہ ہم مدینہ میں پہنچ کر تمہیں تہس نہس کرنے والے ہیں۔ اس کے رد عمل میں صحابہ کرام (رض) ” حسبنا اللہ “ پڑھتے ہوئے کفار کے لشکر کے تعاقب میں نکلے جس کے نتیجہ میں ابوسفیان نے مکہ کی راہ لینے میں عافیت سمجھی اور صحابہ کرام (رض) اپنے مقصد میں کامیاب مدینہ پلٹے۔ (وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ) [ الطلاق : ٣] ” جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے اللہ اپنے کام کو پورا کردیتا ہے اور ہر چیز کا اللہ نے اندازہ مقرر فرمایا ہے۔ “ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ صرف اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے عرش کا مالک ہے۔ ٤۔ سب لوگ منہ موڑ جائیں تو مومن کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ تفسیر بالقرآن مومن کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے : ١۔ مومن کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ : ١٠) ٢۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ : ١٢٩) ٤۔ جب کسی کام کا ارادہ کرلو تو اللہ پر توکل کرو۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٥۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ہود : ١٢٣) ٦۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ : ٢٣) ٧۔ اللہ پر توکل کیجیے، وہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب : ٣) ٨۔ اللہ پر توکل کرو یقیناً آپ واضح حق پر ہیں۔ (النمل : ٧٩) ٩۔ اس ذات پر توکل کرو جو زندہ ہے اور اسے موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ اگر لوگ رو گردانی کریں حق کو قبول نہ کریں۔ محبت، شفقت اور رافت و رحمت والے رسول کی تصدیق نہ کریں تو آپ ان کی طرف سے ایذاء پہنچنے کے بارے میں متفکر نہ ہوں آپ یوں اعلان کردیں (حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ) (کہ اللہ مجھے کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں) (عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ) (میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے) توکل علی اللہ نبیوں کا اور ان کے امتیوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس سے مشکل ترین کام آسان ہوجاتے ہیں۔ حضرت ابو درداء (رض) نے فرمایا کہ جو شخص صبح شام سات مرتبہ (حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ) کہہ لے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام فکر مندیوں کی کفایت فرمائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر ص ٤٠٥ ج ٥) تم تفسیر سورة التوبۃ والحمدللہ اولاً و آخراً و ظاھراً و باطناً

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

122:“ فَاِنْ تَوَلَّوْا الخ ” آخر میں مسئلہ توحید کا اعادہ ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا۔ سورة توبہ میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات “ بَرَاءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ” (رکوع 1) ۔ مشرکین سے بیزاری کا اعلان۔ “ مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ ” تا “ فَعَسیٰ اُولٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ” (رکوع 3) ۔ تعمیر مسجد اور اس کے علاوہ کوئی نیک عمل مشرکین سے قبول نہیں “ اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَ عِمَارةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ” تا “ وَاللّٰه لَا یَھْدِيْ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ” (رکوع 3) ۔ مشرکین کے نیک اعمال مومنوں کے نیک اعمال کے مقابلہ میں بالکل بےوقعت ہیں۔ “ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ ” (رکوع 4) ۔ مومنوں کو ہر وقت اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور کثرت عدد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ “ وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّم اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ لَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ”۔ یعنی غیر اللہ کی نیازوں کا حرام نہیں سمجھتے۔ “ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرٰي الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ ” تا “ قٰتَلَھُمُ اللّٰهُ اَنّٰی یُؤفَکُوْنَ ” (رکوع 5) ۔ یہود و نصاریٰ پیغمبروں کو اللہ کے کے جزو سمجھتے اور ان کو حاضر و ناظر سمجھ کر حاجات میں پکارتے تھے۔ “ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ” تا “ سُبْحٰنَه عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ” (رکوع 5) ۔ وہ پیغمبروں کے علاوہ اپنے مولویوں اور پیروں کو بھی اللہ کے سوا حاجت روا سمجھتے تھے۔ “ یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ”۔ اکثر مولوی اور پیر غیر اللہ کی نیازیں کھاتے اور اللہ کی توحید سے روکتے ہیں۔ “ اِنَّمَا النَّسِیئُ زِیَادَةٌ فِیْ الْکُفْرِ ” تا “ وَ اللّٰهُ لَایَھْدِیْ الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ” (رکوع 5) ۔ اپنی طرف سے کئی قسم کی تحریمات مقرر کر رکھی تھیں۔ “ وَ لَوْا اَنَّھُمْ رَضُوْا مَا اٰتٰھُمُ اللّٰه وَرَسُولُهٗ ” تا “ اِنَّا اِلَی اللّٰهِ رَاغِبُوْنَ ” (رکوع 7) ۔ یعنی جو ان کو اللہ کی عنایت اور پیغمبر (علیہ السلام) کے مال غنیمت وغیرہ کو تقسیم کرنے سے ملا اس پر وہ راضی ہوجاتے تو ان کے لیے بہتر تھا۔ “ وَ مَا نَقَمُوْا اِلَّا اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ فَضْلِهٖ ” (کوع 10) ۔ یعنی اللہ نے اپنی عنایت سے اور پیغمبر نے مال غنیمت وغیرہ سے۔ “ وَ سَیَرَي اللّٰهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُهٗ ” تا “ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُوْن ”۔ (رکوع 12) ۔ منافقین جو اعمال پیغمبر (علیہ السلام) کے سامنے کرتے تھے، آپ ان کو دیکھتے تھے۔ “ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَاتَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ ” (رکوع 13) ۔ معلوم ہوا کہ پیغمبر (علیہ السلام) غیب دان نہ تھے۔ “ وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَي اللّٰهُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُهٗ وَالْمُؤْمِنُوْن ”۔ وہی اعمال مراد ہیں جو پیغمبر (علیہ السلام) اور مؤمنوں کے سامنے منافقین کرتے تھے۔ “ مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْا اُوْلِیْ قُرْبیٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْم ” (رکوع 14) ۔ شرک پر مرجانے کے بعد ان کے لیے استغفار جائز نہیں، ممنوع ہے۔ “ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ ” تا “ وَ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ ”۔ (رکوع 16) ۔ یہ وہ مسئلہ توحید ہے جس کی خاطر جہاد کا حکم دیا گیا اور صحابہ کو فضیلت و شان ملی اور منافقین پر زجریں نازل ہوئیں۔ سورة توبہ ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

129 پھر اگر اس پر بھی یہ لوگ روگردانی کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے مجھ کو اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہی مجھ کو بس ہے اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی معبود ہونے کے لائق ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے یعنی اگر مخلوق نہیں مانتی اور اپنے ہاتھوں خود عذاب مول لیتی ہے تو آپ کہہ دیجئے میرا کیا نقصان ہے میرا حامی اور مددگار تو اللہ تعالیٰ ہے اور وہ ایسا ہے کہ عرش عظیم بھی اس کی مملوک ہے۔