Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 14

سورة التوبة

قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

Fight them; Allah will punish them by your hands and will disgrace them and give you victory over them and satisfy the breasts of a believing people

ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالٰی انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا انہیں ذلیل و رسوا کرے گا تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fight against them so that Allah will punish them by your hands, and disgrace them and give you victory over them, and heal the breasts of a believing people. This Ayah includes all believers, even though Mujahid, Ikrimah and As-Suddi said that it refers to Khuza`ah. Concerning the believers, Allah said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اعلان براءت کے بعد مشرکوں کے وفود کی مدینہ میں آمد اور قبول اسلام :۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اس اعلان برأت کے بعد نامعلوم انہیں کیسے تلخ حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے یہ اندیشے بےجا بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دو باتوں کی تلقین فرمائی ایک یہ کہ جہاد کے لیے پوری طرح م... ستعد رہیں، دوسرے لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ چناچہ اللہ نے مشرکوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور بجائے اس کے کہ انہیں مقابلہ کی سوجھتی وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کرنے لگے اور ایسے وفود کی تعداد (70) ستر کے قریب شمار کی گئی ہے جیسا کہ سورة نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِذَاجَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا) 110 ۔ النصر :1) چناچہ جو قبائل اسلام لائے آپ اس علاقے کا انتظام انہی کے سپرد فرما دیتے تھے۔ خ جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے :۔ آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق پانچ وعدے فرمائے۔ بالفاظ دے گر جہاد کے فوائد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں جو سب کی سب پوری ہوئیں۔ پہلی یہ کہ تمہارے دشمنوں پر کوئی ارضی یا سماوی عذاب نہیں آئے گا بلکہ انہیں یہ عذاب تمہارے ہاتھوں سے دلوایا جائے گا اور اس عذاب کی ابتداء غزوہ بدر سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ دوسری یہ کہ مشرکوں کو رسوا کرے گا۔ اب اعلان برأت میں مشرکوں کی رسوائی کے جس قدر پہلو موجود ہیں اور جن کی تفصیل حاشیہ نمبر ٣ میں دی گئی ہے اس سے بڑھ کر ان کی رسوائی کیا ہوسکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تیسری یہ کہ تمہیں ان پر مدد دے گا اور اس مدد کا آغاز بھی غزوہ بدر سے شروع ہوگیا تھا جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ پھر اللہ کی یہ مدد ہر دم مسلمانوں کے شامل حال رہی، چوتھی یہ کہ مسلمانوں کے دل مشرکوں کے طلم و ستم سہہ سہہ کر بہت زخمی ہوچکے تھے اور ابتداً انہیں ہاتھ تک اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف ان کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ انہیں ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں ان مغرور و سرکش مشرکوں کو پٹواتا رہا تو ان مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے ٹھنڈے ہوگئے کہ دلوں میں جاگزیں رنجشیں اور غصے سب کافور ہوگئے اور پانچویں یہ کہ انہیں مغرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے کر تمہارا بھائی اور تمہارا غمگسار بھی بنا دے گا اور اس کی مثالیں بیشمار ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر تاہنوز جاری ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ : ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں جو سب کے سب پورے فرمائے، پہلا یہ کہ ” يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ “ یعنی پہلی قوموں پر اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کے ذریعے سے عذاب آت... ا تھا، اب تم ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ ” يُخْزِهِمْ “ انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ تیسرا یہ کہ ” وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “ ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں غلبہ عطا کرے گا۔ اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہوسکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہوجائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ چوتھا یہ کہ ” وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ “ تمہارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔ ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ اور دوسری جگہوں میں کفار کی ایذا کا نشانہ بنے۔ بعض نے فرمایا کہ ان سے مراد بنو خزاعہ ہیں جنھیں بنو بکر اور قریش نے بد عہدی کرکے سخت نقصان پہنچایا اور واقعی یہ لوگ بھی کفار کے زخم خوردہ لوگوں میں شامل تھے اور پانچواں یہ کہ ” وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “ ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شفائے صدور ہی کی تاکید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک الگ نعمت ہے۔ شفائے صدور سے مراد ان ظالموں کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دلوں کا غصہ دور کرنے سے مراد مسلمانوں کو محکومی کی بےبسی میں جو غصہ کفار پر آتا تھا مگر کچھ کر نہ سکتے تھے، اب فتح و غلبہ کی صورت میں اس غصے کو دور کرنا ہے اور ویسے بھی شفائے قلوب کے بعد بھی ظلم و ستم کے جو آثار غصے کی صورت میں باقی رہتے ہیں الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

For Muslims, the same exhortation to fight in Jihad appears in verses 14 and 15 as well, though from a different angle. They were told: 1. If you get ready to fight them, the help and support from Allah will be with you. As for their enemies, they have already become deserving of Divine punishment because of their evil deeds but this pun¬ishment will not come down upon them from the heavens or up ... from beneath the Earth. Instead of that, says the verse: يُعَذِّبْهُمُ اللَّـهُ بِأَيْدِيكُمْ &hat is, ` Allah shall punish them at their hands.& 2. As a result of this fighting, Allah Ta` ala will mollify the hearts of Muslims after all those pains and sorrows continuously inflicted upon them by the disbelievers. 3. Then, the anger which filled Muslim hearts because of their treachery and pledge breaking was to be removed by Allah Ta` ala when He punishes them at their hands. In the previous verse (12), by saying: لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ (so that they may stop), Muslims were told that they should not fight a people just to release their anger, rather make their correction and betterment the main purpose of their action. When they cleanse their intention from all irrelevant shades, and let it be for Allah alone, and fight for none but Allah, then, Allah Ta&ala shall cause things to unfold in a manner that automatically removes the feelings of anger and sorrow raging in their hearts.  Show more

چودھویں اور پندرہویں آیت میں بھی مسلمانوں کو جنگ و جہاد کی ترغیب ایک دوسرے عنوان سے دی گئی ہے، جس میں چند چیزیں بتلائی گئیں۔ اول یہ کہ اگر تم ان سے جنگ کے لئے تیار ہوگئے تو اللہ تعالیٰ کی مدد تھمارے شامل حال ہوگی، اور یہ قوم اپنے اعمال بد کی وجہ سے اللہ کے عذاب کی مستحق تو ہو ہی چکی ہے، مگر ان پر ا... للہ کا عذاب پچھلی قوموں کی طرح آسمان یا زمین سے نہیں آئے گا، بلکہ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ یعنی ان کو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے عذاب دیں گے۔ دوسری یہ کہ اس جنگ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو اس رنج و غم سے شفا عطا فرمائیں گے جو کفار کی طرف سے ان کو مسلسل پہونچتا رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ ان کی غداری اور عہد شکنی کے سبب جو غیظ و غضب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا ہوا تھا، انہی کے ہاتھوں ان کو عذاب دے کر ان کے غیظ کو دور فرمادیں گے۔ پچھلی آیت میں لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ فرما کر مسلمانوں کو اس کی ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کسی قوم سے اپنا غصہ اتارنے کے لئے نہ لڑیں، بلکہ ان کی اصلاح و ہدایت کو مقصد بنائیں، اس آیت میں یہ بتلا دیا کہ جب وہ اپنی نیت کو اللہ کے لئے صاف کرلیں اور محض اللہ کے لئے لڑیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسی صورتیں بھی پیدا فرما دیں گے کہ ان کے غم و غصہ کا انتقام بھی خود بخود ہوجائے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَاتِلُوْہُمْ يُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِہِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْہِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٤ ۙ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بع... ضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی شفا والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] . ( ش ف و ) شفا الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اے مسلمانوں کی جماعت کیا ان سے لڑنے میں ڈرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی میں ان سے ڈرا جائے ان سے تلواروں کے ساتھ لڑو، اللہ تعالیٰ ان کو شکست دے کر ذلیل کرے گا اور تمہیں غلبہ عطا فرمائے گا اور ان کے خلاف بنی خزاعہ کے دلوں کو خوشی عطا فرمائے گا کہ فتح مکہ کے دن...  تھوڑی سی دیر کے لیے حرم میں ان کے لیے قتال حلال ہوجائے گا۔ شان نزول : (آیت) ” قاتلوھم یعذبہم اللہ “۔ (الخ) ابوالشیخ (رح) نے حضرت قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت بنو خزاعہ کے قبیلے کے بارے میں اتری ہے جس وقت وہ بنو بکر کو مکہ مکرمہ میں قتل کررہے تھے اور حضرت عکرمہ (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت بنو خزاعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ ١٥۔ اوپر ذکر تھا کہ ان مشرکوں نے اپنا عہد توڑا اور یہ بھی ارادہ کیا کہ رسول خدا کو مکہ سے نکال دینا چاہئے اور پھر باوجود ان باتوں کے چھیڑ انہیں کی طرف سے شروع ہوئی کہ بنوبکر سے اور بنوخزاعہ سے جب لڑائی ہوئی تو بنی بکر کی مدد کو یہ لوگ آمادہ ہوگئے اور خود بھی بنی خزاعہ کو قتل کرنے لگے تو اب ان سے...  لڑنا بلاشک ضروری ہے اور اگرچہ اللہ ان کے نیست ونا بود کرنے کو کافی ہے لیکن علم الٰہی میں یہ بات ٹھہر چکی ہے کہ تم ان سے لڑو اور اللہ اپنی مدد سے تمہیں ان پر غالب کرے جس سے مسلمانوں کے خیر خواہ بنی خزاعہ کا بدلہ لینے سے مسلمانوں کے دل کی بھڑاس نکلے اور ان کے دل ذرا ٹھنڈے ہوں پھر اللہ پاک نے پیشین گوئی کے طور پر فرمایا کہ ان کفار میں سے بعضے بعضے اپنے کفر سے توبہ بھی کریں گے وہ لوگ خدا کے علم میں ہیں وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت کا راستہ دکھلاتا ہے اور جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے وہ بڑا جاننے والا ہے اگلی پچھلی سب باتوں کی خبر ہے اور بڑا ہی حکمت والا ہے جتنی باتیں اس کی ہوتی ہیں کوئی حکمت سے خالی نہیں ہوتی چناچہ یہ سب باتیں پوری ہوئی ہیں بنی خزاعہ کا پورا بدلہ مشرکین سے لیا گیا مشرکین مکہ کو بےانتہا ذلت ہوئی مکہ فتح ہوا اور مشرکین کے سرداروں میں سے بڑے بڑے لوگ ایمان بھی لائے ابوسفیان بن حرب اور عکرمہ بن ابوجہل وسیلہ بن عمرو جو چیدہ سردار اپنے اپنے قبیلے کے تھے آخر کو مسلمان ہوگئے وللہ الحمد معتبر سند سے مسند امام احمد میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مظلوم شخص اگرچہ کافر بھی ہو تو اس کی بددعا کا اثر ظالم کو نظر آجاتا ہے۔ یہ حدیث قبیلہ بنی خزاعہ کی حالت کی گویا تفسیر ہے کیونکہ اہل مکہ بنی خزاعہ کے ساتھ ظلم و زیادتی سے پیش آئے اللہ تعالیٰ نے بنی خزاعہ کی بددعا کے اثر سے تمام ملک الٹ پلٹ کردیا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے کفار اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب بیان کیے اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمہیں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے لہٰذا تم اللہ کے راستے میں لڑو۔ اللہ تعالیٰ ضرور کفار اور مشرکوں کو تمہارے ہاتھوں ذلیل کرے گا۔ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے چار خوشخ... بریاں سنائی گئی ہیں جس میں پہلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ تم دشمن کے مقابلے میں میدان کا رزار میں اترو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں انھیں عبرت ناک سزا دے کر دنیا میں ہی ان کو ذلیل و خوار کرے گا تمہاری ان کے مقابلے میں اس قدر مدد فرمائے گا جس سے تمہارے سینے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ ماضی کے حوالے سے جو تمہارے دل میں ان کے بارے میں غصہ اور طیش ہے تم اس قدر ان کو مارو گے وہ بھی جاتا رہے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باقی ماندہ کفار مسلمانوں کی کامیابی اور اپنی ذلت اور رسوائی دیکھ کر انشرح صدر کے ساتھ اسلام کی حقانیت تسلیم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں تائب ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے وہ لوگوں کے ظاہری اور باطنی حالات سے آگاہ ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یہ قتال فی سبیل اللہ کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد نہ صرف سرزمین حجاز پر اسلام کا پھریرا بلند ہوا بلکہ اس سے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی پیش قدمی کے لیے راستے ہموار ہوئے اور نہایت قلیل عرصہ میں کافر اور مشرک دین کے سامنے سرنگوں ہوئے۔ مسائل ١۔ قتال فی سبیل اللہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ دشمن ذلیل ہوجائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جہاد و قتال میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے۔ ٣۔ فتح اور کامیابی مجاہد کے لیے دل کا سکون اور سینے کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام اور حکم میں بیشمار حکمتیں ہوتی ہیں  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَ یُخْزِھِمْ وَ یَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ ) اس آیت میں قتال کا حکم بھی ہے اور مدد کا وعدہ بھی فرمایا کہ تم ان سے جنگ کرو اللہ تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا اور ذلیل کرے گا اور ان کے مق... ابلہ میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ کافروں کی طرف سے جو عہد شکنی ہوئی اور جو انہوں نے اسلام کو مٹانے کے لیے حرکتیں کیں اس سے جو مسلمانوں کے دلوں میں رنج و غم ہے اس جنگ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی دور فرما دے گا۔ اہل ایمان کے دلوں کو اللہ تعالیٰ شفا دے گا ان کے دل ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ کیونکہ جنگ کے نتیجہ میں کافر مقتول اور ذلیل و خوار ہوں گے اور مسلمان اپنی آنکھوں سے کافروں کا برا انجام دیکھ لیں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13 مذکورہ بالا تین وجوہ قتال مٰن سے ایک بھی ان سے قتال کا باعث بننے کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ تینوں وجوہ موجود ہوں لہذا ان مشرکین سے قتال کرو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے ان کو رسوا کرے گا اور ان کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ اس طرح جن مومنوں کو ان کے ہاتھوں تکلیفیں پہنچیں تھیں وہ خوش ہوں گے او... ر ان کے دلوں کی جلن دور ہوجائے گی۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14 ان عہد شکن کافروں سے خوب جنگ کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے سزا دے اور خدا ان کو رسوا کردے اور تم کو ان پر غالب کردے اور بہت سے مسلمانوں کے سینوں کو ٹھنڈا کردے اور مسلمانوں کے قلوب کو شفا بخشے۔