Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 4

سورة التوبة

اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴﴾

Excepted are those with whom you made a treaty among the polytheists and then they have not been deficient toward you in anything or supported anyone against you; so complete for them their treaty until their term [has ended]. Indeed, Allah loves the righteous [who fear Him].

بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تو تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Existing Peace Treaties remained valid until the End of Their Term Allah says; إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْيًا وَلَمْ يُظَاهِرُواْ عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّواْ إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ ... Except those of the Mushrikin with whom you have a treaty, and who have not subsequently failed you in aught, nor have supported anyone against you. So fulfill their treaty for them until the end of their term. This is an exception regulating the longest extent of time for those who have a general treaty - with out time mentioned - to four months. They would have four months to travel the lands in search of sanctuary for themselves wherever they wish. Those whose treaty mentioned a specific limited term, then the longest it would extend was to the point of its agreed upon termination date. Hadiths in this regard preceded. So anyone who had a treaty with Allah's Messenger, it lasted until its specific termination date. However, those in this category were required to refrain from breaking the terms of the agreement with Muslims and from helping non-Muslims against Muslims. This is the type whose peace agreement with Muslims was carried out to its end. Allah encouraged honoring such peace treaties, saying, ... إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ Surely, Allah loves those who have Taqwa. who keep their promises.

عہد نامہ کی شرط پہلے جو حدیثیں بیان ہو چکی ہیں ان کا اور اس آیت کامضمون ایک ہی ہے اس سے صاف ہو گیا کہ جن میں مطلقاً عہد و پیمان ہوئے تھے انہیں تو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس میں وہ اپنا جو چاہیں کرلیں اور جن سے کسی مدت تک عہد پیمان ہو چکے ہیں وہ سب عہد ثابت ہیں بشرطیکہ وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمان کو خود کوئی ایذاء پہنچائیں نہ ان کے دشمنوں کی کمک اور امداد کریں اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے پورے لوگوں سے محبت رکھتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ : یعنی معاہدوں کی پاس داری میں کوئی کمی نہ کرنے والے مشرکوں کے لیے چار ماہ کی مہلت نہیں بلکہ ان کے لیے معاہدے کی طے کردہ مدت پوری کرو، کیونکہ تقوے کا تقاضا عہد پورا کرنا ہے اور اللہ متقین سے محبت رکھتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

6. The sixth ruling comes out from the fourth verse where Muslims have been prompted to fulfill their pledge right through the end until the term of the peace treaty expired. Immediately thereafter, the verse has been concluded with the sentence: إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ (Surely, Allah loves the God-fearing). This gives a clear hint to the advice that Muslims should observe utmost precaution in fulfilling the pledge they have given. They should never look for lame excuses and far-fetched interpretations only to find a way to contravene treaty obligations, as done by nations at large.

(٦) چھٹا مسئلہ یہ ہے کہ چوتھی آیت میں جہاں مسلمانوں کو میعاد صلح کے ختم ہونے تک عہد کو پورا کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ آیت کو اس جملہ پر ختم کیا گیا ہے (آیت) اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ ۔ یعنی بیشک اللہ تعالیٰ احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ معاہدہ پورا کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیں۔ عام قوموں کی طرح اس میں حیلے اور تاویلیں نکال کر خلاف ورزی کی راہ نہ ڈھونڈیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاہِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰى مُدَّتِہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝ ٤ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ نقص النَّقْصُ : الخُسْرَانُ في الحَظِّ ، والنُّقْصَانُ المَصْدَرُ ، ونَقَصْتُهُ فهو مَنْقُوصٌ. قال تعالی: وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] ، وقال : وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] ، ( ن ق ص ) النقص ( اسم ) حق تلفی اور یہ نقصتہ ( ن ) فھو منقو ص کا مصدر بھی ہے جس کے معنی گھٹانے اور حق تلفی کر نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَالْأَنْفُسِ [ البقرة/ 155] اور جانوں اور مالوں ۔۔۔۔ کے نقصان سے وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوصٍ [هود/ 109] اور ہم ان کو ان کا حصہ پورا پوارا کم وکاست دینے والے ہیں ۔ ظَاهَرَ ( مدد) وَظَهَرَ عليه : غلبه، وقال : إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] ، وظاهَرْتُهُ : عاونته . قال تعالی: وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] ، أي : تعاونا، تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] ، وقرئ : ( تَظَّاهَرَا) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ ظھر علیہ کے معنی ہیں وہ اس پر غالب آگیا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں ۔ ظاھرتہ : میں نے اس کی مدد کی ( اور ظاھر علیہ کے معنی ہیں اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کی ) قرآن پاک میں ہے : ۔ وَظاهَرُوا عَلى إِخْراجِكُمْ [ الممتحنة/ 9] اور انہوں نے تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ [ التحریم/ 4] اور اگر پیغمبر کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی ۔ ایک قرات میں تظاھر ا ہے ( یعنی تار کو ظاء میں ادغام کیسا تھ ) الَّذِينَ ظاهَرُوهُمْ [ الأحزاب/ 26] اور اہل کتاب میں سے جنہوں نے ان کی مدد کی ۔ تَظاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ [ البقرة/ 85] تم ان کے خلاف گناہ اور زیادتی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ۔ تمَ تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام/ 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف/ 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف/ 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) البتہ بنی کنانہ اس سے مستثنی ہیں جن سے حدیبیہ کے بعد نوماہ کا معاہدہ ہوا تھا مگر انہوں نے عہد شکنی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف تمہارے کسی دشمن کی مدد کی، سو ان کی نوماہ کی مدت معاہدہ کو پورا کردو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (اِلاَّ الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ) (ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْءًا وَّلَمْ یُظَاہِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا ‘ یہاں میعادی معاہدوں کے سلسلے میں استثناء کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ یعنی مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے ایسے معاہدے جو کسی خاص مدت تک ہوئے تھے ‘ ان کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ اگر یہ مشرکین تمہارے ساتھ کیے گئے کسی معاہدے کو بخوبی نبھا رہے ہیں اور تمام شرائط کی پابندی کر رہے ہیں : (فَاَتِمُّوْٓا اِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلٰی مُدَّتِہِمْ ط) تو مکمل کرو ان کے ساتھ ان کا معاہدہ مقررہ مدت تک یعنی مشرکین کے ساتھ ایک خاص مدت تک تمہارا کوئی معاہدہ ہوا تھا اور ان کی طرف سے ابھی تک اس میں کسی قسم کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی ‘ تو اس معاہدے کی جو بھی مدت ہے وہ پوری کرو۔ اس کے بعد اس معاہدے کی تجدید نہیں ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :5 یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہوگی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو ۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہرحال میں تقویٰ پر قائم رہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یعنی معاہدے کی مدت پوری احتیاط کے ساتھ پوری کی جائے اور اس میں کوئی شک باقی نہ رکھا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤۔ اوپر کی آیتوں میں صلح کا عہد توڑنے کا حکم دے کر اور چار مہینے کی مہلت کا ارشاد فرما کر اس آیت میں استثناء کے طور پر یہ فرمایا کہ جنہوں نے تم سے صلح کا عہد کیا اور صلح کے عہد کی کسی شرط کو نہیں توڑا ان کے عہد کو پورا کرو اگرچہ وہ چار مہینے سے زیادہ تک کا عہد ہو کیونکہ اللہ پاک کو احتیاط بہت پسند ہے یہ لوگ اپنی زبان کا پاس رکھتے ہیں اور بےموقعہ عہد و پیمان نہیں توڑتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بعضے قبیلے مثلا خزاعہ وغیرہ ایسے بھی تھے جو حدیبیہ کو صلح کے عہد پر قائم رہے ان کو مسثنیٰ فرما کر یہ فرمایا کہ اوپر کا حکم فقط ان لوگوں کے حق میں ہے جن سے یا تو کچھ عہد نہیں ہے یا عہد تو ہے لیکن وہ عہد کے پابند نہیں رہے جیسے مثلا بنی بکر کہ انہوں نے عہد توڑا یا جیسے مشرکین مکہ کہ انہوں نے عہد کے برخلاف بنی بکر کو مدد دی غرض جو لوگ عہد کے پابند ہیں ان کی صلح کے لئے چار مہینے کی مدت نہیں ہے بلکہ ان کے عہد کی پوری مدت ختم کی جاوے حدیبیہ کی صلح دس برس تک کی تھی اس صلح میں قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کی امان میں تھا اور قبیلہ بنی بکر مشرکین مکہ کی امان میں اس صلح کے دو برس کے بعد قبیلہ بنی بکر نے یہ بدعہدی کی کہ قبیلہ خزاعہ سے لڑائی شروع کردی اور مشرکین مکہ نے یہ بدعہدی کی کہ قبیلہ بنی بکر کو اندرونی مدد دی انہی بدعہدیوں کی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی چڑھائی کا قصد کیا اور مکہ فتح ہوگیا اب بدعہدی کی سزا میں اوپر کی آیتوں کے موافق بنی بکر کو فقط چار مہینے کی مدت ملے گی اور قبیلہ خزاعہ کو اس استثناء کے حکم سے صلح حدیبیہ کی باقی کی مدت مل سکتی ہے ابن ابی حاتم نے اپنی تفسر میں مجاہد کے قول کے موافق آیت کی بھی یہی تفسیر لکھی ہے جو بیان کی گئی۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے اور صحیح مسلم میں ابوسعید خدری (رض) سے جو روایتیں ہیں اس میں بدعہدی کی بڑی مذمت ہے۔ اس حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ شریعت الٰہی میں بدعہدی بڑی مذمت کے لائق ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت میں عہد پر قائم رہنے والے مشرکوں کے ساتھ بھی عہد بنانے کا حکم مسلمانوں کو فرمایا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:4) لم ینقصوکم۔ نقص ینقص (باب نصر) نقصاد نقصانا۔ کم ہونا ۔ گھٹنا۔ کم کرنا۔ گھٹانا نقضت زیدا حقہ میں نے زید کے حق میں کمی کردی اس کے حق کو گھٹا دیا۔ لم ینقصوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ انہوں نے تمہارے حق میں کمی نہیں کی۔ یعنی تمہاری حق تلفی نہیں کی۔ تمہارا نقصان نہیں کیا۔ انہوں نے تمہارا قصور نہیں کیا۔ (انہوں نے تکمیل عہد میں کمی نہیں کی) ۔ لم یظاھروا علیکم۔ ظاھر یظاھر مظاھرۃ (باب مفاعلۃ) ایک دوسرے کی امدا کرنا۔ علیکم۔ تمہارے خلاف۔ مضارع نفی جحد بلم۔ جمع مذکر غائب انہوں نے تمہارے خلاف کسی دوسرے کی مدد نہیں کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ان کے لیے چارمہینوں کی میعاد نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

” مگر مشرکوں میں سے وہ لوگ جن سے تم نے عہد کیا، پھر انہوں نے تم سے عہد میں کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ان کے ساتھ عہد کی مدت پوری کرو۔ بیشک اللہ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

عام اصول کے بیان کے بعد اب وقتی استثنائی حالت کی طرف آتے ہیں یعنی یہ استثنائی حالت بھی ختم ہوکر پہلی آیت میں آنے والی اصولی حالت کی طرف لوٹنے والی ہے۔ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْــــًٔـا وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " بجز ان مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے ، پھر انہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے "۔ یہ استثنائی دفعہ جن لوگوں کے بارے میں آئی ؟ اس بارے میں صحیح روایات یہی ہیں کہ بنی بکر کی ایک شاخ کے بارے میں ہے یعنی بنی خزیمہ ابن عامر ، یہ بکر ابن کنانہ کی ایک شاخ تھی۔ حدیبیہ میں قریش اور اس کے حلفاء کے ساتھ جو عہد ہوا تھا انہوں نے اسے قائم رکھا اور یہ لوگ بنی بکر کے ساتھ خزاعہ کے خلاف لشکر کشی میں شریک نہ ہوئے تھے جبکہ قریش نے بنی بکر کی حمایت کی تھی اور ان کی حمایت ہی سے انہوں نے خزاعہ پر حملہ کیا تھا۔ اس طرح بنی بکر اور قریش نے صلح حدیبیہ کو توڑ دیا تھا اور اس معاہد حدیبیہ کے دو سال بعد مکہ فتح ہوا تھا۔ حالانکہ یہ معاہدہ دس سالوں کے لیے تھا۔ یہ جماعت بنی بکر یعنی بنی خزیمہ ابن عامر نے عہد قائم رکھا اور شرک پر بھی قائم رہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ان کے ساتھ عہد کو اپنی مدت تک پورا کیا جائے۔ ہماری اس رائے کی تائید محمد ابن عباد ابن جعفر کی روایت سے بھی ہوئی ہے۔ سدی کہتے ہیں : " کہ یہ لوگ بنی ضمرہ اور بنو مدلج تھے۔ یہ بنی کنانہ سے دو قبیلے تھے " اور مجاہد کہتے ہیں : " بنی مدلج و خزاعہ کے ساتھ عہد تھا اور انہی کے بارے میں اللہ نے فرمایا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم " ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو " لیکن یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد خزاعہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہذا یہ بات ان مشرکوں پر صادق ہوگی جو شرک پر قائم رہے۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعِنْدَ رَسُوْلِهٖٓ اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ فَمَا اسْتَقَامُوْا لَكُمْ فَاسْتَقِيْمُوْا لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " مشرکین کے ساتھ رسول اللہ کا کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے۔۔ بجز ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا تھا تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے " چناچہ یہ دو قبیلے تھے بنی کناہ سے جنہوں نے حدیبیہ کے دن مسجد حرام کے پاس رسول اللہ سے عہد کیا تھا اور انہوں نے اس عہد میں کوئی کمی نہ کی تھی اور انہوں نے رسول اللہ کے مقابلے میں کسی دشمن کی مدد نہ کی تھی چناچہ اس استثنائی دفعہ سے مراد یہی لوگ تھے اور بس اور تمام مفسرین نے یہی رائے قبول کی ہے۔ استاذ رشید رضا نے یہی قول اختیار کیا ہے لیکن استاد عزہ و روزہ نے اپنی تفسیر میں ان سے مراد استثناء اول میں مراد لوگوں کے مقابلے میں اور لوگ لیے ہیں۔ اور یہ رائے انہوں نے اس لیے اختیار کی ہے کہ وہ دائمی طور پر مشرکین کے ساتھ معاہدات کے قائل ہیں۔ چناچہ اس نے اپنے نظریے کی بنیاد اس فقرے پر رکھی ہے۔ فماستقاموا لکم فاستقیموا لھم " جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں ، تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو "۔ اور وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ مشرکین کے ساتھ معاہدہ دائمی طور پر ہوسکتا ہے۔ یہ در اصل ایک بعید قول ہے اور یہ قول ان آیات اور اسلامی نظام کے حقیقی موقف اور خود اس دین کے مزاج کے خلاف ہے جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے۔ اسلام نے یہ استثنائی دفعہ اس لیے رکھی ہے کہ جن لوگوں نے تحریک اسلامی کے ساتھ وفاداری کی ان سے وفاداری کی جائے۔ اس لیے اسلام نے ان کی مہلت کو چار مہینوں تک محدود نہ کیا۔ جیسا کہ دوسرے لوگوں کے لیے چار ماہ کی مہلت مقرر کردی گئی تھی۔ بلکہ ان لوگوں کو مدت معاہدہ تک مہلت دی گئی کیونکہ انہوں نے نقص عہد نہ کیا تھا اور نہ دشمنوں کے ساتھ معاونت کی تھی۔ اس وفاداری کا تقاضا تھا کہ ان کے ساتھ وفا داری کی جائے اور یہ طویل مدت اس پالیسی کے باوجود دی گئی کہ اللہ تعالیٰ جزیرۃ العرب کو مشرکین سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ اور اسے اسلام کا محفوظ مرکز بنانا چاہتے تھے۔ کیونکہ جزیرۃ العرب کی حدود کے ساتھ متصل دوسرے دشمنوں نے اسلام کو ایک عظیم خطرہ تصور کرلیا تھا اور جیسا کہ غزوہ تبوک کی تفصیلات میں بات آئے گی۔ انہوں نے اس نوئی قوت کے مقابلے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس سے قبل موتہ کا واقعہ ہوچکا تھا۔ اور اس نے آنکھیں کھول دی تھیں کہ رومی کس قدر تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پھر یہ مشرکین جنوبی یمن میں اہل ایران سے ہمدردی رکھتے تھے اور ایران کی حمایت سے دین جدید پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ علامہ ابن قیم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ جن لوگوں کو اس آیت کے ذریعے مستثنی کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ وفائے عہد کا حکم دیا گیا ہے وہ مدت عہد ختم ہونے سے پہلے ہی مسلمان ہوگئے تھے ، بلکہ دوسرے لوگ جنہوں نے نقض عہد کا ارتکاب کیا تھا اور جن کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ چار ماہ تک چل پھر لیں ، انہوں نے بجائے چلنے پھرنے اور جلا وطنی کے اسلام قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کو خوب علم تھا اور اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی کو اپنے دست قدرت سے آگے بڑھا رہا تھا یہ جانتا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جزیرۃ العرب سے شرک و کفر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ۔ اس آخری ضرب کے لیے حالات تیار ہوگئے تھے اور صحیح وقت آپہنچا تھا اور یہ اقدام صحیح اور مناسب وقت پر کیا گیا تھا۔ حقیقی حالات و واقعات کے عین مطابق ، اللہ کے قانون قضا و قدر کے مطابق۔ اللہ نے وفائے عہد کا جو حکم دیا ہے وہ یہاں قابل غور ہے کہ وفا کرنے والوں کے ساتھ وفا کیا جائے۔ فَاَتِمُّــوْٓا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ : " ان لوگوں کے ساتھ مدت عہد تک وفا کرو ، بیشک اللہ متقین کو محبوب رکھتا ہے " جہاں وفائے عہد کو خوف خدا ڈر اور محبت الٰہی سے منسلک کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ متقین کو محبوب رکھتا ہے۔ لہذا وفائے عہد بھی ایک قسم کی عبادت ہے ، تقوی ہے اور اللہ تقوی کو محبوب رکھتا ہے۔ یہ ہے اسلام کا اخلاقی نقطہ نظر۔ اسلام کے نظام قانون و اخلاق میں مصلحت اور مفادات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ نہ اس میں رسم و رواج کی کوئی گنجائش ہے کیونکہ رسم و رواج بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اسلامی نظام اخلاق کی بنیاد اللہ کی بندگی اور خدا خوفی پر رکھی گئی ہے۔ ایک مسلمان کا اساسی فرض ہے کہ وہ ان امور پر عمل پیرا ہو جسے اس کا رب پسند کرتا ہے۔ چناچہ اسلامی اخلاق خوف خدا اور رضائے الٰہی کی بنیاد پر مرتب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام میں اخلاقیات اپنے اندر مضبوط قوت رکھتے ہیں۔ ان کو اس حقیقی اور وجدانی شعور سے قوت ملتی ہے۔ اس شعور کے ساتھ ساتھ عملاً اسلامی اخلاق لوگوں کے لیے مفید بھی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ان کی مصلحت بھی پوشیدہ ہوتی ہے اور ان کے نتیجے میں ایک ایسا اجتماعی معاشرہ اور سوسائٹی وجود میں آتی ہے جس میں باہم مفادات کی کشمکش کم سے کم ہوتی ہے۔ اس نظام میں انسان کی شخصیت بلند ہوجاتی ہے۔ اور وہ زمین کی آلودگیوں کے مقابلے میں عالم بالا سے متعلق ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے مشرکین کے بارے میں اعلان براءت کے بعد ، یہ مشرکین چاہے معاہدہ کرنے والے ہوں یا غیر معاہد ہوں ، ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عہد نہ توڑا اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی کی معاونت کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4: اس سے وہ مشرکین مراد ہیں جو اپنے عہد پر قائم رہے اور مسلمانوں کے خلاف دشمن کی مدد نہیں کی یعنی بنی ضمرہ اور بنی کنانہ (روح) فرمایا ان کو مدت عہد گذرنے تک کچھ نہ کہو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

4 مگر ہاں وہ مشرک اس برأت امان سے مستثنا ہیں جن سے تم نے کوئی عہد لیا پھر انہوں نے اپنے عہد کے پورا کرنے میں تم سے کوئی کمی اور کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں کسی مخالفت کی مدد کی تو ایسے مشرکوں سے ان کے عہد کو اس مدت تک پورا کرو جو ان سے طے ہوئی ہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ بد عہدی سے احتیاط رکھنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ یعنی ان لوگوں سے مراد بنی ضمرہ اور بنی مدلج ہیں انہوں نے اپنے عہد کی پابندی کی اس لئے ان کو اعلان برأت سے مستثنا کردیا گیا اور مدت عہد کو پورا کرنے اور بدعہدی نہ کرنے کا حکم دیا گیا اور بدعہدی سے بچنے والوں کو پسند فرمایا۔