Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 42

سورة التوبة

لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَ لٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ ؕ وَ سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَرَجۡنَا مَعَکُمۡ ۚ یُہۡلِکُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿٪۴۲﴾  12

Had it been an easy gain and a moderate trip, the hypocrites would have followed you, but distant to them was the journey. And they will swear by Allah , "If we were able, we would have gone forth with you," destroying themselves [through false oaths], and Allah knows that indeed they are liars.

اگر جلد وصول ہونے والا مال و اسباب ہو تا اور ہلکا سا سفر ہوتا تو یہ ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن ان پر تو دوری اور دراز کی مشکل پڑ گئی ۔ اب تو یہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہم میں قوت اور طاقت ہوتی تو ہم یقیناً آپ کے ساتھ نکلتے ، یہ اپنی جانوں کو خود ہی ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ان کے جھوٹا ہونے کا سچا علم اللہ کو ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Why Hypocrites would not join in Jihad Allah admonishes those who lagged behind and did not join the Prophet for the battle of Tabuk, those who asked the Prophet for permission to remain behind, falsely pretending to have legitimate reasons to do so, لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا ... Had it been a near gain, According to Ibn Abbas, booty right in front of them, ... وَسَفَرًا قَاصِدًا ... and an easy journey, travel for only a short distance, ... لااَّتَّبَعُوكَ ... they would have followed you. ... وَلَـكِن بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ... but, the distance was long for them), to Ash-Sham, ... وَسَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ ... and they would swear by Allah, when you return to them, ... لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ ... If we only could, we would certainly have come forth with you, had not there been a valid excuse, we would have gone out with you, ... يُهْلِكُونَ أَنفُسَهُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ They destroy themselves, and Allah knows that they are liars.

عیار لوگوں کو بےنقاب کردو جو لوگ غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنے جھوٹے اور بناوٹی عذر پیش کرنے لگے تھے ۔ انہیں اس آیت میں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دراصل انہیں کوئی معذوری نہ تھی اگر کوئی انسان غنیمت اور قریب کا سفر ہوتا تو یہ ساتھ ہو لیتے لیکن شام تک کے لمبے سفر نے ان کے گھٹنے توڑ دیئے اور مشقت کے خیال نے ان کے ایمان کمزور کر دیئے ۔ اب یہ آ کر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتا تو بھلا ہم شرف ہم رکابی چھوڑنے والے تھے؟ ہم تو جان و دل سے آپ کے قدموں میں حاضر ہو جاتے اللہ فرماتا ہے ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انہوں نے تو اپنے آپ کو غارت کر دیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جنہوں نے عذر اور معذرت کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے لی تھی دراں حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہیں تھا۔ عرض سے مراد جو دنیاوی منافع سامنے آئیں مطلب ہے مال غنیمت۔ 42۔ 2 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک جہاد ہوتے۔ لیکن سفر کی دوری نے انہیں حیلے تراشنے پر مجبور کر دیا 42۔ 3 یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر۔ کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] منافقوں کے عذر :۔ یعنی اگر تھوڑی سی محنت کے بعد منافقوں کو مال غنیمت ہاتھ آجانے کی توقع ہوتی اور سفر بھی اتنا طویل اور پر مشقت نہ ہوتا تو پھر تو یہ منافق یقیناً آپ کے ہمراہ نکلنے کو تیار ہوجاتے۔ لیکن شام تک کا سفر، وہ بھی شدید گرمی کے موسم میں جبکہ سواریاں بھی بہت کم ہیں اور آگے مقابلہ بھی ایک بہت دبدبے والی حکومت سے ہے جہاں فتح کے بجائے ناکامی کے آثار دکھائی دیتے ہیں تو ایسی صورت میں یہ کیسے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اب تو وہ یہی قسمیں کھائیں گے کہ اس وقت ہمارے حالات سازگار نہیں۔ ورنہ ہمیں آپ کے ہمراہ جانے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ اور وہ جھوٹے اس لحاظ سے نہیں ہیں کہ حقیقتاً جو باتیں اور خدشات انہیں جہاد پر جانے سے روک رہے ہیں انہیں وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے ظاہر کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا ادھر ادھر کی باتیں عذر کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا : یہ آیت غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ” عَرَضًا “ دنیا کا وہ سازو سامان جو انسان کی خواہشوں کے پیش نظر رہتا ہے۔ ” قَاصِدًا “ جس کا حصول بالکل آسان ہو۔ ” الشُّقَّةُ “ درمیانہ، یعنی جس میں شدید مشقت درپیش نہ ہوتی۔ ” الشُّقَّةُ “ وہ فاصلہ جو نہایت مشقت اور تھکن سے طے ہو۔ یہ مشقت سے مشتق ہے۔ ابو عبیدہ نے فرمایا ” الشُّقَّةُ “ کا معنی ارض بعید کا سفر ہے، یعنی اگر آسانی سے مال غنیمت ملنے کی توقع ہوتی اور سفر بہت لمبا نہ ہوتا، جس کا راستہ بھی نہایت کٹھن تھا تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ جاتے۔ مگر خالص فی سبیل اللہ جہاد جس میں آسانی سے حصول غنیمت کے بجائے مال و جان کی قربانی، بعید سفر اور شہادت کا واضح امکان سامنے ہو، منافق کے لیے نہات دشوار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fifth verse (42) mentions an excuse offered by those who did not participate in the Jihad because of negligence and lethargy. It was re¬jected as unacceptable because they did not use the ability given by Al¬lah to pick and choose the right thing to do in His way. Therefore, the excuse of not having that ability is not valid.

پانچویں آیت میں جہاد میں بوجہ غفلت و سستی شریک نہ ہونے والوں کے ایک عذر کا بیان کرکے اس کی تردید کی گئی ہے کہ یہ عذر قابل قبول نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو اختیار اور قدرت عطا فرمائی تھی انہوں نے اس کو اللہ کی راہ میں مقدور بھر استعمال نہیں کیا، اس لئے عدم استطاعت کا عذر صحیح نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوْكَ وَلٰكِنْۢ بَعُدَتْ عَلَيْہِمُ الشُّقَّۃُ۝ ٠ ۭ وَسَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَوِ اسْـتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ۝ ٠ ۚ يُہْلِكُوْنَ اَنْفُسَہُمْ۝ ٠ ۚ وَاللہُ يَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَ۝ ٤٢ ۧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة/ 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء/ 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء/ 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران/ 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین/ 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة/ 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف/ 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم/ 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة/ 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ/ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف/ 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة/ 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔ سفر السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] ( س ف ر ) السفر اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو قصد القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال : 368- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» . ( ق ص د ) القصد ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان/ 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان/ 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر/ 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة/ 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔ شق ( مشقت) والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] ( ش ق ق ) الشق الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ دود سے بدن نا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل/ 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة/ 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف : إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

منافقین کا جہاد کے بارے میں رویہ قول باری ہے (وسیحلفون باللہ لواستطعنا لخرجنا معکم۔ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے) تا آخر آیت۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (لواستطعنا لخرجنا معکم) کے ذریعے منافقین کو جھٹلادیا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ استطاعت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود جہاد پر نہیں نکلے۔ اس سے فرقہ، جبریہ کے اس قول کا بطلان ہوتا ہے کہ اہل تکلیف کو مکلف بنانے کی حالت میں جس فعل کا مکلف بنایا گیا ہو اس کے صدور سے پہلے وہ اس فعل کو استطاعت نہ رکھنے والے شمارہوں گے۔ بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس دعوے کی تکذیب کردی جو وہ جہاد کے لئے نکلنے سے قبل ہی اپنی ذات سے استطاعت کی نفی کے متعلق کررہے تھے۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت کی دلالت بھی موجود ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا تھا کہ یہ منافقین عنقریب تمہارے پاس آکر اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا تھا کہ یہ منافقین عنقریب تمہارے پاس آکر اپنی سچائی ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے، چناچہ منافقین آگئے اور انہوں نے قسمیں بھی کھائیں، اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطلاع کہ ایسا ہوگا بالکل درست ثابت ہوگئی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) اگر غنیمت ملنے کی توقع ہوتی اور سفر بھی آسان ہوتا تو یہ منافق بخوشی غزوہ تبوک کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل پڑے تھے مگر ان کو تو شام تک سفر کرنا پڑتا ہے۔ اور ابھی جب تم لوگ غزوہ تبوک سے واپس آؤ گے تو یہ منافقین عبداللہ بن ابی اور جد بن قیس اور معتب بن قشیر جو غزوہ تبوک سے رہ گئے خدا کی قسمیں کھائیں گے کہ اگر ہمارے پاس سامان اور سواری ہوتی تو ہم ضرور غزوہ تبوک کے لیے نکلتے، یہ لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر خود اپنے آپ کو برباد کررہے ہیں، اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں، کیونکہ یہ جہاد پر جانے کی طاقت رکھتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ وَلٰکِنْم بَعُدَتْ عَلَیْہِمُ الشُّقَّۃُ ط) اگر ان منافقین کو توقع ہوتی کہ مال غنیمت آسانی سے مل جائے گا اور ہدف بھی کہیں قریب ہوتا تو یہ لوگ ضرور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیتے ‘ مگر اب تو حالت یہ ہے کہ تبوک کی مسافت کا سن کر ان کے دل بیٹھے جا رہے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بھی مہم کے ہدف وغیرہ کو ہمیشہ صیغہ راز میں رکھتے تھے۔ جنگ یا مہم کے لیے نکلنا ہوتا تو تیاری کا حکم دے دیا جاتا ‘ مگر یہ نہ بتایا جاتا کہ کہاں جانا ہے اور منصوبہ کیا ہے۔ اسی طرح فتح مکہ کے منصوبہ کو بھی آخر وقت تک خفیہ رکھا گیا تھا۔ مگر غزوۂ تبوک کی تیاری کے حکم کے ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام تفصیلات بھی علی الاعلان سب کو بتادی تھیں کہ لشکر کی منزل مقصود تبوک ہے اور ہمارا ٹکراؤ سلطنت روما سے ہے ‘ تاکہ ہر شخص ہر لحاظ سے اپنا جائزہ لے لے اور داخلی و خارجی دونوں پہلوؤں سے تیاری کرلے۔ سازو سامان بھی مہیا کرلے اور اپنے حوصلے کی بھی جانچ پرکھ کرلے۔ (وَسَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ج) یعنی قسمیں کھا کھا کر بہانے بنائیں گے اور اپنی فرضی مجبوریوں کا رونا روئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :44 یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی ، کٹنے کے قریب ہیں ، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسوس ہونے لگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ اوپر ان مسلمانوں کا ذکر تھا جو فقط سستی سے لڑائی میں نہیں گئے اس آیت میں ان منافقوں کا حال ہے جو منافق اپنے نفاق کے سبب سے جھوٹے عذر کر کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے اور گھروں میں بیٹھ رہے ان کے حق میں فرمایا کہ یہ لوگ اس خیال سے رہ گئے کہ دور دراز کا سفر ملک شام کی طرف کرنا پڑے گا اور وہاں غنیمت کا مال خدا جانے ملے یا نہ ملے غرض کہیں نزدیک جانا ہوتا اور غنیمت بھی آسانی سے دستیاب ہوتی تو یہ لوگ تمہارے ساتھ جاتے مگر لانبے سفر کو انہوں نے مشقت خیال کیا پھر یہ فرمایا کہ جب تم مدینہ کو واپس جاؤ گے تو قسمیں کھا کھا کر یہ لوگ عذر بیان کریں گے کہ ہمارے پاس راہ خرچ نہیں تھا اس واسطے ہم جہاد میں نہیں شریک ہوئے پھر فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹ بول بول کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ خدا خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنے قول میں جھوٹے ہیں انہیں جہاد میں شریک ہونے سے کوئی امر مانع نہ تھا ان کے پاس بہت کچھ تھا مگر جھوٹ بول کر پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ شقہ وہ سفر ہے جس میں مشقت زیادہ ہو گرمی کے موسم میں یہ دور کا سفر بڑی مشقت کا سفر تھا اس لئے اس کو شقہ فرمایا شاہ صاحب نے شقہ کا ترجمہ طرف کے لفظ سے جو کیا ہے اس سے مقصود سفر کا آخری سرا اور کنارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مشقت کے سفر کا آخری کنارہ ان لوگون کو دور معلوم ہوا صحیح بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جھوٹ بولنا منافق کی نشانی ہے انہی عبداللہ (رض) سے صحیح بخاری میں روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹی قسم کھانے کو کبیرہ گناہ فرمایا ہے یہ حدیثیں یھلکون انفسہم کی گویا تفسیر ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ ایک تو ان لوگوں نے اپنے عذروں سے جھوٹ بول کر اپنی منافقانہ عادت ظاہر کی اور پھر جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو کبیرہ گناہ میں مبتلا کیا اس طرح سے گناہ پر گناہ کر کے ان لوگوں نے اپنی جان کو عقبے کی ہلاکت میں پھنسایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی آسانی سے مال غنیمت مل جانے کی توقع ہوتی۔ 3 یعنی بہت لمبا سفر نہ ہوتا جیسے تبوک مدینہ سے تقریبا چارسو میل کے فاصلہ پر ہے اور اس کا راستہ بھ نہایت کٹھن ہے۔ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مخلص مسلمانوں سے خطاب کے بعد منافقوں کا کردارواضح کیا جارہا ہے۔ مکہ معظمہ میں اعتقاد کے اعتبار سے دوہی قسم کے لوگ تھے ایک کافر اور دوسرے مخلص مسلمان، لیکن مدینہ طیبہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ساتھ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ بھی واسطہ پڑا ان میں خطرناک گروہ منافقین کا تھا جو مارآستین تھے۔ کیونکہ یہ لوگ بظاہر کلمہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمانوں جیسے کام کرتے اور ہرو قت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتی تھے۔ ان کو پہچاننا اور ان سے کنارہ کش ہونا نہایت ہی مشکل کام تھا۔ یہ لوگ سوائے کڑی آزمائش کے پہچانے نہیں جاتے تھے۔ البتہ بدر، احد اور دیگر معرکوں کے وقت کافی حد تک نمایاں ہوچکے تھے لیکن وقت گزر جانے کے بعد یہ لوگ اپنی چرب لسانی اور جھوٹے حلف دے کر کچھ مسلمانوں کو اپنا ہمدرد بنا لیا کرتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے ابتدائی ایام میں یہ لوگ شریک جنگ ہونے کے لیے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ لیکن جوں ہی وقت قریب آتا گیا تو ان کے حیلے بہانے سامنے آنے لگے چناچہ ان میں کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر اللہ کو گواہ بنا کر کہتے کہ ہماری فلاں فلاں مجبوری نہ ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور شریک جنگ ہوتے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حلم و بردباری اور وسعت قلبی کی بناء پر انھیں اجازت عنایت فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کی قلبی خیانت کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ دل کے کھوٹے ہیں اور دین کی خاطر کوئی مشقت اٹھانے کے لیے تیار نہیں اس سے کسی آزمائش میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت کہ کسی صورت بھی تمہارے ساتھ شریک ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں جہاں تک ان کے حلف اٹھانے کا تعلق ہے اللہ اس پر گواہ ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْہُنَّ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ جب اسے امانت دی جائے وہ خیانت کرے اور جب بات کرے جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب کسی سے الجھاؤ ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔ “ مسائل ١۔ دین کے لیے منافق کسی بڑی آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ٢۔ منافق کا حلف بھی جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہلاک ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ آل فرعون نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کیوجہ سے ہلاک کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٣۔ بستی والوں نے جب ظلم کیا اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔ (الکہف : ٥٩) ٤۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٥۔ قوم تبع اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ نے ہلاک کردیا۔ (الدخان : ٣٧) ٦۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کہ کہ ظالموں کو ضرور ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣) ٧۔ ہم کسی بستی والوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک ان میں ڈرانے والے نہ بھیج دوں۔ (الشعراء ٢٠٨) ٨۔ کیا وہ نہیں جانتے اللہ نے ان سے بھی بڑے مجرموں کو ہلاک کردیا۔ (القصص : ٧٨) ٩۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 91 تشریح آیات 42 ۔۔۔۔ تا۔۔۔ 91 یہاں سے ان لوگوں کے بارے میں تبصرہ شروع ہوتا ہے جن سے اس موقعہ پر کمزوریوں اور کوتاہیوں کا ظہور ہوا۔ اس پورے سبق میں ان منافقین کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو اسلام کے نام پر اسلامی صفوں میں گھستے ہوئے تھے ، خصوصا اس وقت جب اسلام غالب ہوگیا تھھا اور ان لوگوں کی سلامتی اور ان کے مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے سامنے سرنگوں ہوجائیں اور اسلامی صفوں میں داخل ہو کر اسلام کے خلاف سازشیں کریں کیونکہ ظاہری حالات ایسے ہوگئے تھے کہ اسلام سے باہر رہ کر وہ اسلام کے خلاف کچھ نہ کرسکتے تھے۔ اس سبق میں وہ تمام حال ہمارے سامنے آئیں گے جن کی طرف سے ہم نے اس سورت کے مقدمے میں اشارہ کیا تھا ، ان حالات کی تصویر کشی قرآن کے الفاظ میں ہوگی۔ سورت کے آغاز میں ہم نے جو اصولی بحث کی تھی اس کی روشنی میں اب ان نصوص کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل کام ہرگز نہ ہوگا جیسا کہ پہلے ہم کہہ آئے ہیں : لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيْبًا وَّسَفَرًا : اگر یہ معاملہ دنیاوی مفادات کا ہوتا اور ہوتا بھی سہل الحصول ، یا کوئی مختصر اور نفع بخش سفر ہوتا جس کے نتائج یقینی ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کے ساتھ ہولیتے۔ لیکن یہ سفر دور کا سفر ہے اور پر مشقت ہے اور ہمت شکن سفر ہے۔ کمزور ہمتوں اور ضعیف العزم لوگ جراءت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ سفر اس عظیم اور بلند نصب العین کی طرف ہے جس کو دیکھ کر کمزور ارواح کے لوگ ڈرجاتے ہیں ، کمزور دل والوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور کم ظرف لوگ اس سے پیچے رہ جاتے ہیں۔ یہ مہم در اصل ایک مثالی مہم تھی اور انسانیت کی تاریخ میں ایسی مہمات ہمیشہ مثالی حیثیت رکھی ہیں اور کسی بھی ملک کے لیے فخریہ حکایات و روایات فراہم کرتی ہیں۔ لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ " اے نبی اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے ، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا " اگر مقام شرف و منزلت کی طرف بسہولت آگے بڑھا جاسکتا ہو ، تو امیدواران منزل بکثرت سامنے آجاتے ہیں لیکن راستہ دشوار گزار ہو تو لوگوں کی بڑی تعداد پہلو تہی کرتی ہے۔ اور راستے کی مشکلات کی خاطر لشکر سے پیچھے رہ جاتی ہے اور ان کے پیش نظر دنیا کا نہایت ہی بےقیمت اور بےحقیقت مقصد ہوتا ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں اور مشہور و معروف ہوتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ شاذ و نادر نہیں بلکہ ایسے لوگ تو ہر زمانے میں بکثرت ائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ زندگی کے ایک کنارے پر بےوقعت مقام کے مکین ہوتے ہیں۔ گرچہ یہ لوگ اپنے زعم میں یہ خیال کرتے ہیں کہ انہوں نے مفادات حاصل کیے ، انہوں نے اعلی دنیاوی مقاصد پا لیے اور وہ کسی بھی مقصد کے لیے اعلی قربانیاں دینے سے بچ گئے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ کوئی جس قدر قیمت دے گا ، اسے اس کی قیمت ہی کے مطابق مقام ملے گا۔ اس دنیا میں بھی کسی کو ہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ قیمت ادا کرتا ہے۔ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ : " اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر چل سکتے تو یقینا تمہارے ساتھ چلتے " یہ وہ جھوٹا عذر ہے جو ہمیشہ کمزور لوگ پیش کیا کرتے ہیں۔ عذرات پیش کرنے والے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بظاہر عذرات پیش کرنے والے قوی اور بہادر نظر آئیں لیکن در حقیقت یہ کمزور قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بہادر وہ ہوتا ہے جو مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور ضعیف وہ ہوتا ہے جو پہلو تہی کرتا ہے یہ وہ اصول ہے جس میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ یہ اصول ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ : " وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں " یہ جھوٹ بول کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کے نزدیک گویا کامیاب ہوگئے ، حالانکہ حقیقت حال کا علم تو اللہ کو ہے کہ یہ کامیاب نہیں ہیں اور اللہ ان کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے کھول بھی سکتا ہے ، لہذا یہ لوگ دنیا میں بھی اپنے جھوٹے عذرات کی وجہ سے بےوقعت ہوں گے اور آخرت میں بھی کیونکہ آخرت میں تو کوئی بہانہ نہ چلے گا۔ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ : " اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں "

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چونکہ اس آیت کا حکم ہوا ہے کہ ہر حالت میں فی سبیل اللہ نکل کھڑے ہوں اور جہاد ہمیشہ بطور فرض عین فرض نہیں ہوتا اور دوسری آیت میں (وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ) فرمایا ہے۔ اس لیے بعض مفسرین نے اس آیت کے عموم کو منسوخ مانا ہے۔ اگر آیت کو غزوۂ تبوک ہی سے متعلق مانا جائے اور امراض والوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا جائے۔ جیسا کہ آیت شریفہ (لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَی الْمَرْضٰی) میں مذکور ہے تو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ معذور نہیں ہیں وہ کھڑے ہوں۔ مالدار بھی نکلے اور تندرست بھی نکلے، بوڑھا بھی اور جوان بھی، موٹا بھی دبلا بھی۔ اس کے بعد ان منافقین کا حال بیان فرمایا جنہوں نے مجاہدین کے ساتھ جانا منظور نہیں کیا تھا۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ طالب دنیا ہیں اگر ان کو یہ معلوم ہوتا کہ جلدی ہی سے کوئی دنیاوی سامان مل جائے گا یا سفر ہی ایسا ہوتا کہ اسے مشقت کے بغیر برداشت کرلیتے تو آپ کے ساتھ ہو لیتے۔ اس ساتھ لگنے میں ان کے اسلام کے ظاہری دعویٰ کا بھرم رہ جاتا اور جن دنیاوی منافع کے لیے انہوں نے ظاہراسلام قبول کیا ہے ان منافع کی امید بدستور قائم رہتی لیکن سفر کے بارے میں جو انہوں نے غور کیا تو انہیں محسوس ہوا کہ یہ تو سفر بہت لمبا ہے اور سخت تکلیف دہ ہے۔ لہٰذنا ان کا نفاق کھل کر سامنے آگیا، اور انہوں نے ہمراہ نہ جانے ہی کو اپنے لیے پسند کیا اور ساتھ نہ گئے۔ منافقین تھوڑی بہت تکلیف تو جھیل جاتے تھے لیکن جب زیادہ تکلیف کا موقعہ آتا تھا تو ان کا نفاق کھل جاتا تھا۔ جب آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک سے واپس تشریف لے آئے تو ان لوگوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم میں جانے کی قوت اور طاقت نہ تھی اگر ہم میں سکت ہوتی اور ہمارے بس میں ہوتا تو ہم ضرور آپ کے ساتھ چلتے اس کے بارے میں پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے خبر دے دی تھی۔ (وَ سَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ ) منافقین کے عذر پیش کرنے کا تذکرہ چند رکوع کے بعد آ رہا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر (یُھْلِکُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ) (یہ لوگ اپنے نفسوں کو ہلاک کر رہے ہیں) کیونکہ نفاق کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ نہ جانے کو اختیار کرنے کی وجہ سے اپنے آپ کو دوزخ میں داخل کرنے کا ڈھنگ بنا چکے ہیں۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم میں سکت ہوتی یا ہمارے بس میں ہوتا تو ساتھ چلے چلتے یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ قوت اور طاقت ہوتے ہوئے ساتھ نہ گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

41: اس میں ان منافقین کا ذکر ہے جو جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ “ عَرَضاً قَرِیْبًا ” یعنی مال غنیمت آسانی سے ہاتھ آسکتا اور سفر متوسط ہوتا تو وہ ضرور آپ کے ساتھ جاتے لیکن مسافت زیادہ اور بامشقت تھی اس لیے وہ ساتھ نہ گئے۔ “ وَ سَیَحْلِفُوْنَ بِاللهِ الخ ” جہاد سے آپ کی واپسی پر وہ آپ کے سامنے جھوٹی قسمیں کھائیں گے کہ ان میں جہاد کی استطاعت نہ تھی اگر استطاعت ہوتی تو ضرور جہاد میں شریک ہوتے۔ یہ واقعہ جنگ تبوک کا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

42 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ کی دعوت جہاد اور آپ کا بلاوا ایسا ہوتا جس میں قریب الحصول کوئی فائدہ ہوتا اور لگے ہاتھ کچھ ملنے والا ہوتا اور سفر بھی آسان اور درمیانی درجہ کا ہوتا تو یہ منافق ضرور آپ کے ساتھ ہولیتے لیکن ان کو تو مسافت ہی دور دراز معلوم ہونے لگی اور عنقریب تمہاری واپسی پر یہ منافق اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں کھاکھا کر کہیں گے کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی اور ہم مقدور رکھتے تو ضرور ہم تمہارے ساتھ نکل چلتے یہ لوگ ان جھوٹی قسموں سے خود ہی اپنے آپ کو تباہ و برباد کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ یقیناً جھوٹے اور کاذب ہیں۔ یعنی نفع قریب ہوتا اور مسافت اوسط درجے کی ہوتی تو اس لالچ میں نکل چلتے لیکن مسافت چودہ منزل کی اور قریبی غنیمت اور سامان مقرر نہیں تو ج کی سے چلیں اپنی جانوں کو ہلاک کرنا یعنی جھوٹی قسموں سے عذاب کا مستحق ہونا۔