Commentary Mentioned in most of the seventeen verses of this entire section are hypocrites who had, on false pretexts, secured permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that they would not go to participate in the Jihad of Tabuk. Falling under it, there are many injunctions, rulings and instructions that have been pointed out in the commentary. The first verse (43) begins in a su... btle manner. Here, a complaint has been made to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He has been told that those hypocrites were lying when they presented themselves as de-serving of being excused from active service in Jihad. But, he accepted their plea without first having made an inquiry about the real state of affairs with them which would have made the true and false of it comes out clearly. This gave them the opportunity to go about congratulating themselves on how smartly they had deceived the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Though, in verses coming next, Allah Ta` ala has also clarified that those people were asking to be excused from Jihad just to play tricks - otherwise, even if they were not permitted, still then, they would have never gone. And in another verse, it was also pointed out that, in case these people did go to this Jihad, it would have been of no use to Mus¬lims - in fact, their conspiracy and mischief would have been far more dangerous. But, the drift of the argument is that, in case, permission was not given, they were still not going to go anyway - however, their hypocri¬sy would have definitely been exposed and they would not have had the opportunity to throw taunts at Muslims and exult that they had fooled them. And the real purpose here is not to show wrath or displeasure, instead of that, it is a way of saying that, in future, the mo¬tives and moves of such people should be watched and screened carefully. Then, it can be conceded that there does exist a certain kind of displeasure in the external framework of words but it has been coated with a delightful concern for sensitivities, particularly that of his dear prophet. We can see that the expression of displeasure which begins with the words: لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ why did you permit them?) does not actually begin until said ahead of it was: عَفَا اللَّـهُ عَنكَ (Allah has forgiven you) ! It has been said by people having insight in the nature of God-Prophet relationship that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had a special attachment to Allah Jalla Thana&uh. His heart could not simply bear the shock of being in a situation where he is subjected to questioning from Allah Ta` ala. For instance, if the words: (why did you per¬mit them?) - which translate as interrogation in their formal appear¬ance - were said in the very beginning, the blessed heart of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have been simply unable to take it. Therefore, the words: عَفَا اللَّـهُ عَنكَ (Allah has forgiven you) have been placed ear¬lier. This serves two purposes. Firstly, it gives him the information that something has happened, something that was not liked by Allah. Secondly, the information that he has been forgiven for whatever had happened was being given beforehand so that what is said next should not break his blessed heart. As for the word of forgiveness, let there be no doubt about it and let no one say that forgiveness is usually given for crimes and sins - and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was ma` sum مَعصُوم (protected from sin) - what, then, would be the sense of forgiveness at this place? The answer is that the way there is forgiveness for sin, similarly, there could also be forgiveness for what is contrary to the preferred way (khilaf al-awla) or is simply undesirable - and that does not violate the concept of the ` ismah (infallibility) of a prophet. Show more
خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف ( تو) کردیا ( لیکن) آپ نے ان کو ( ایسی جلدی) اجازت کیوں دے دیتھی جب تک کہ آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے، اور ( جب تک کہ) جھوٹوں کو معلوم نہ کرلیتے ( تاکہ وہ خوش تو نہ ہونے پا تے، کہ ہم نے آپ کو دھوکہ دے دیا ( اور) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ر... کھتے ہیں وہ اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے کے بارے میں ( اس میں شریک نہ ہونے کی کبھی) آپ سے رخصت نہ مانگیں گے ( بلکہ وہ حکم کے ساتھ دوڑ پڑیں گے) اور اللہ تعالیٰ ان متقیوں کو خوب جانتا ہے ( ان کو اجر وثواب دے گا) البتہ وہ لوگ ( جہاد میں نہ جانے کی) آپ سے رخصت مانگتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل ( اسلام سے) شک میں پڑے ہیں سو وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے، حیران ہیں ( کبھی موافقت کا خیال ہوتا ہے کبھی مخالفت کا) اور اگر وہ لوگ ( غزوہ میں) چلنے کا ارادہ کرتے ( جیسا کہ وہ اپنے عذر کے وقت ظاہر کرتے ہیں کہ چلنے کا تو ارادہ تھا، لیکن کیا کیا جائے فلاں ضرورت پیش آگئی سو اگر ایسا ہوتا) تو اس ( چلنے) کا کچھ سامان تو درست کرتے ( جیسا کہ سفر کے لوازم عادیہ سے ہے) لیکن ( انہوں نے تو شروع سے ارادہ ہی نہیں کیا اور اس میں خیر ہوئی جیسا آگے آنا ہے لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ اور اس کے خیر ہونے کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا اس لئے ان کو توفیق نہیں دی اور ( بحکم تکوینی) یوں کہہ دیا گیا کہ اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بھی یہاں ہی دھرے رہو ( اور ان کے جانے میں خیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوجاتے تو سوا اس کے کہ اور دونا فساد کرتے اور کیا ہوتا ( وہ فساد یہ ہوتا کہ) تمہارے درمیان فتنہ پردازی کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے ( یعنی لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے، اور جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے، دشمن کا رعب تمہارے قلوب میں ڈالنے کی کوشش کرتے، اس لئے ان کا نہ جانا ہی اچھا ہوا) اور ( اب بھی) تم میں ان کے کچھ جاسوس موجود ہیں ( جن کو اس سے زیادہ فساد کی تدبیر میں مہارت نہیں) اور اس ظالموں کو اللہ خوب سمجھے گا ( اور ان لوگوں کی مفسدہ سازی و فتنہ پردازی کچھ آج نئی نہیں) انہوں نے تو پہلے ( جنگ احد وغیرہ میں) بھی فتنہ پردازی کی فکر کی تھی ( کہ ساتھ ہو کر ہٹ گئے کہ مسلمان دل شکستہ ہوجائیں) اور ( اس کے علاوہ بھی) آپ کی ( ضرر رسانی کے) لئے کارروائیوں کی الٹ پھیر کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ سچا وعدہ آگیا اور ( اس کا آنا یہ ہے کہ) اللہ کا حکم غالب رہا اور ان کو ناگوار ہی گذرتا رہا ( اسی طرح آئندہ بھی بالکل تسلی رکھئے کچھ فکر نہ کیجئے) اور ان ( منافقین متخلفین) میں بعض شخص وہ ہے جو ( آپ سے) کہتا ہے کہ مجھ کو ( غزوہ میں نہ جانے کی اور گھر رہنے کی) اجازت دیدیجئے، اور مجھ کو خرابی میں نہ ڈالئے، خوب سمجھ لو کہ یہ لوگ خرابی میں تو پڑ ہی چکے ہیں ( کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور کفر سے بڑھ کر اور کونسی خرابی ہوگی) اور یقینا دوزخ ( آخرت میں) ان کافروں کو گھیرے گی اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے تو وہ ان کے لئے موجب غم ہوتی ہے، اور اگر آپ پر کوئی حادثہ آپڑتا ہے تو ( خوش ہوکر) کہتے ہیں کہ ہم نے تو ( اسی واسطے) پہلے سے اپنا احتیاط کا پہلو اختیار کرلیا تھا، ( کہ ان کے ساتھ لڑائی وغیرہ میں نہیں گئے تھے) اور ( یہ کہہ کر) وہ خوش ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں آپ ( جواب میں ان سے دو باتیں) فرما دیجئے ( ایک تو یہ کہ) ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمایا ہے وہ ہمارا مالک ہے ( پس مالک حقیقی جو تجویز کرے مملوک کو اس پر راضی رہنا واجب ہے) اور ( کیا تخصیص ہے) اللہ کے تو سب مسلمانوں کو اپنے سب کام سپرد رکھنے چاہئیں ( دوسری بات یہ) فرما دیجئے کہ ( ہمارے لئے جیسی اچھی حالت بہتر ہے ویسے ہی حوادث بھی باعتبار انجام کے کہ اس میں رفع درجات و قطع سیئات ہونا بہتر ہے، پس) تم تو ہمارے حق میں دو بہتریوں میں سے ایک بہتری کے منتظر رہتے ہو ( یعنی تم جو ہماری حالت کے منتظر رہتے ہو کہ دیکھئے کیا ہو تو خواہ وہ حسنہ ہو یا مصیبت ہمارے لئے دونوں ہی میں بہتری ہے) اور ہم تمہارے حق میں اس کے منتظر رہا کرتے ہیں، کہ خدا تعالیٰ تم پر کوئی عذاب واقع کرے گا ( خواہ) اپنی طرف سے ( دنیا میں یا آخرت میں) یا ہمارے ہاتھوں سے ( جب کہ تم اپنے کفر کو ظاہر کردو، تو مثل دوسرے کفار کے قتل کئے جاؤ سو تم ( اپنے طور پر) انتظار کرو ( اور) ہم تمہارے ساتھ ( اپنے طور پر) انتظار میں ہیں۔ معارف و مسائل اس پورے رکوع کی سترہ آیتوں میں بیشتر ان منافقین کا ذکر ہے، جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے غزہ تبوک میں نہ جانے کی اجازت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کرلی تھی، اس کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل اور ہدایات ہیں۔ پہلی آیت میں ایک لطیف انداز سے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی شکایت ہے کہ ان منافقین نے جھوٹ بول کر اپنے آپ کو معذور ظاہر کیا اور آپ نے قبل اس کے کہ ان کے حال کی تحقیق کرکے جھوٹ سچ کا پتہ لگاتے ان کو رخصت دیدی، جس کی بنا پر یہ لوگ خوشیاں مناتے اور یہ کہتے پھرتے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوب دھوکہ دیا، اگرچہ اگلی آیتوں میں حق تعالیٰ نے اس کا بھی اظہار فرمایا کہ یہ لوگ محض حیلہ جوئی کے لئے عذر پیش کر رہے تھے، ورنہ اگر ان کو اجازت نہ دی جاتی جب بھی یہ لوگ جانے والے نہ تھے اور ایک آیت میں اس کا بھی اظہار فرمایا کہ اگر بالفرض یہ لوگ اس جہاد میں جاتے بھی تو ان سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا، بلکہ ان کی سازش اور فتنہ پردازی سے اور خطرہ ہوتا۔ لیکن منشاء یہ ہے کہ ان کو اگر اجازت نہ دی جاتی تو پھر بھی یہ جانے والے تو نہ تھے، مگر ان کا نفاق کھل جاتا، اور ان کو مسلمانوں پر یہ طعنے کسنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم نے ان کو خوب بیوقوف بنایا، اور مقصد درحقیقت عتاب نہیں بلکہ یہ بات ہے کہ آئندہ ان لوگوں کی چالوں سے باخبر رہیں، اور صورة جو ایک قسم کا عتاب بھی ہے تو کس لطف عنایت کے ساتھ کہ عتاب کی بات جو لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ سے شروع ہوئی ہے، یعنی آپ نے ان لوگوں کو کیوں اجازت دے دیاس کے ذکر کرنے سے پہلے ہی عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ذکر فرما دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرمادیا۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب و مقام اور آپ کے تعلق مع اللہ پر نظر رکھنے والے حضرات نے فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو غایت تعلق حضرت حق جل شانہ کے ساتھ تھا اس کے پیش نظر آپ کا قلب مبارک اس کا تحمل ہی نہ کرسکتا تھا کہ حق تعالیٰ کی طرف سے کسی معاملہ میں آپ سے جواب طلب کیا جائے، اگر شروع میں لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ کے الفاظ ذکر فرما دیئے جاتے جن میں صورة جواب طلبی کا عنوان ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قلب مبارک اس کا تحمل نہ کرسکتا، اس لئے اس سے پہلے عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ فرما کر ایک طرف تو اس پر مطلع کردیا کہ کوئی ایسا کام ہوگیا ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہ تھا، دوسری طرف اس کی معافی کی اطلاع پہلے دے دیتا کہ اگلا کلام قلب مبارک پر زیادہ شاق نہ ہو۔ اور لفظ معافی سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ معافی تو جرم و گناہ کی ہوا کرتی ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہ سے معصوم ہیں تو پھر معافی کے یہاں کیا معنی ہوسکتے ہیں وجہ یہ ہے کہ معافی جیسے گناہ کی ہوتی ہے ایسی ہی خلاف اولی اور ناپسندیدہ چیز کے لئے بھی معافی کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اور وہ عصمت کے منافی نہیں۔ Show more