Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 43

سورة التوبة

عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۴۳﴾

May Allah pardon you, [O Muhammad]; why did you give them permission [to remain behind]? [You should not have] until it was evident to you who were truthful and you knew [who were] the liars.

اللہ تجھے معاف فرما دے تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Moderately criticizing the Prophet for allowing the Hypocrites to stay behind Allah says; عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ ... May Allah forgive you. Why did you grant them leave, Ibn Abi Hatim recorded that Awn said, "Have you heard criticism softer than this, starting with forgiveness before criticism," Muwarriq Al-Ijli and others said similarly. Qatadah said,...  "Allah criticized him as you read here, then later revealed to him the permission to allow them to lag behind if he wants, in Surah An-Nur, فَإِذَا اسْتَـْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِيْتَ مِنْهُمْ So if they ask your permission for some affairs of theirs, give permission to whom you will of them." (24:62) Ata' Al-Khurasani said similarly. Mujahid said, "This Ayah was revealed about some people who said, `Ask permission from the Messenger of Allah (to stay behind), and whether he agrees, or disagrees, remain behind!"' Allah said, ... حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ ... ...until those who told the truth were manifest to you, in reference to valid excuses, ... وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ and you had known the liars. Allah says, `Why did you not refuse to give them permission to remain behind when they asked you, so that you know those who truly obey you and the liars, who were intent on remaining behind even if you do not give them permission to do so. Allah asserts that none who believe in Allah and His Messenger seek his permission to remain behind from fighting,   Show more

نہ ادھر کے نہ ادھر کے سبحان اللہ ، اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورہ نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے ( فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ...  وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 62؀ ) 24- النور:62 ) یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں ۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے ۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی ۔ اطاعت گذار تو حاضر ہو جاتے ۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے ۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں ۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے ۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں ؟ اجازت دے دی۔ اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کردی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت ک... ی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٧] آپ پر عتاب سے پہلے معافی کا اعلان :۔ اس موقع پر منافقوں نے یہ روش اختیار کی کہ جھوٹے حیلے تراش کر آپ سے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت طلب کرتے تھے اور آپ بھی کسی حد تک یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی یہ معذرت حقیقی نہیں بلکہ عذر لنگ ہے & اپنی نرم طبع کی بنا پر انہیں اجازت دے دیتے تھے جبکہ اللہ کو...  یہ بات پسند نہ تھی۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان منافقوں کا خبث باطن اور مکر کھل کر سب کے سامنے آجائے۔ جہاد پر روانہ ہونے کی ہمت اور ارادہ تو وہ سرے سے رکھتے ہی نہ تھے پھر یہ اس اجازت کا سہارا کیوں لیں۔ کیوں نہ ننگے ہو کر سامنے آئیں۔ اس صورت حال پر اللہ کا عتاب ہوا مگر ساتھ ہی اللہ نے اپنے حبیب پر کمال عنایت بھی ظاہر کی کہ تقصیر بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ : ہوا یہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافقین نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی، حالانکہ انھوں نے طے کر رکھا تھا کہ اجازت نہ ملی پھر بھی نہیں جائیں گے۔ اب ان کی آزمائش کے لیے انھ... یں اجازت دینے سے اس وقت تک گریز کرنا چاہیے تھا جب تک واضح نہ ہوجاتا کہ کس کا عذر حقیقی ہے اور کون بہانے باز ہے، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی حقیقت کھلنے سے پہلے ہی انھیں مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناراض ہونے کا اظہار فرمایا، مگر نہایت لطف و کرم اور مہربانی کے ساتھ کہ اس اظہار سے پہلے معاف کردینے کی اطلاع دی اور پھر فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس میں پیچھے رہنے والوں کی مذمت بھی صاف نمایاں ہے، کیونکہ ان میں کم ہی تھے جن کا عذر صحیح تھا، اکثر جھوٹ ہی بول رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان لوگوں کو اجازت دینے پر ناراضی کا اظہار فرمایا جنھوں نے آپ سے اجازت مانگی اور انھیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہ رکھنے والے بتایا جو جہاد میں نکلنا ہی نہیں چاہتے تھے اور سورة نور میں فرمایا : ( ۭاِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ) [ النور : ٦٢ ] ” بیشک جو لوگ تجھ سے اجازت مانگتے ہیں وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ “ وہاں مراد یہ ہے کہ منافقین اجتماعی کام مثلاً جہاد وغیرہ میں آئے ہوئے ہوں تو بغیر پوچھے کھسک جاتے ہیں، اجازت مانگتے ہی نہیں، جب کہ اہل ایمان ضرورت کے وقت بھی آپ سے پوچھے بغیر نہیں جانتے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in most of the seventeen verses of this entire section are hypocrites who had, on false pretexts, secured permission from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that they would not go to participate in the Jihad of Tabuk. Falling under it, there are many injunctions, rulings and instructions that have been pointed out in the commentary. The first verse (43) begins in a su... btle manner. Here, a complaint has been made to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He has been told that those hypocrites were lying when they presented themselves as de-serving of being excused from active service in Jihad. But, he accepted their plea without first having made an inquiry about the real state of affairs with them which would have made the true and false of it comes out clearly. This gave them the opportunity to go about congratulating themselves on how smartly they had deceived the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Though, in verses coming next, Allah Ta` ala has also clarified that those people were asking to be excused from Jihad just to play tricks - otherwise, even if they were not permitted, still then, they would have never gone. And in another verse, it was also pointed out that, in case these people did go to this Jihad, it would have been of no use to Mus¬lims - in fact, their conspiracy and mischief would have been far more dangerous. But, the drift of the argument is that, in case, permission was not given, they were still not going to go anyway - however, their hypocri¬sy would have definitely been exposed and they would not have had the opportunity to throw taunts at Muslims and exult that they had fooled them. And the real purpose here is not to show wrath or displeasure, instead of that, it is a way of saying that, in future, the mo¬tives and moves of such people should be watched and screened carefully. Then, it can be conceded that there does exist a certain kind of displeasure in the external framework of words but it has been coated with a delightful concern for sensitivities, particularly that of his dear prophet. We can see that the expression of displeasure which begins with the words: لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ why did you permit them?) does not actually begin until said ahead of it was: عَفَا اللَّـهُ عَنكَ (Allah has forgiven you) ! It has been said by people having insight in the nature of God-Prophet relationship that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had a special attachment to Allah Jalla Thana&uh. His heart could not simply bear the shock of being in a situation where he is subjected to questioning from Allah Ta` ala. For instance, if the words: (why did you per¬mit them?) - which translate as interrogation in their formal appear¬ance - were said in the very beginning, the blessed heart of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have been simply unable to take it. Therefore, the words: عَفَا اللَّـهُ عَنكَ (Allah has forgiven you) have been placed ear¬lier. This serves two purposes. Firstly, it gives him the information that something has happened, something that was not liked by Allah. Secondly, the information that he has been forgiven for whatever had happened was being given beforehand so that what is said next should not break his blessed heart. As for the word of forgiveness, let there be no doubt about it and let no one say that forgiveness is usually given for crimes and sins - and the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was ma` sum مَعصُوم (protected from sin) - what, then, would be the sense of forgiveness at this place? The answer is that the way there is forgiveness for sin, similarly, there could also be forgiveness for what is contrary to the preferred way (khilaf al-awla) or is simply undesirable - and that does not violate the concept of the ` ismah (infallibility) of a prophet.  Show more

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف ( تو) کردیا ( لیکن) آپ نے ان کو ( ایسی جلدی) اجازت کیوں دے دیتھی جب تک کہ آپ کے سامنے سچے لوگ ظاہر نہ ہوجاتے، اور ( جب تک کہ) جھوٹوں کو معلوم نہ کرلیتے ( تاکہ وہ خوش تو نہ ہونے پا تے، کہ ہم نے آپ کو دھوکہ دے دیا ( اور) جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ر... کھتے ہیں وہ اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے کے بارے میں ( اس میں شریک نہ ہونے کی کبھی) آپ سے رخصت نہ مانگیں گے ( بلکہ وہ حکم کے ساتھ دوڑ پڑیں گے) اور اللہ تعالیٰ ان متقیوں کو خوب جانتا ہے ( ان کو اجر وثواب دے گا) البتہ وہ لوگ ( جہاد میں نہ جانے کی) آپ سے رخصت مانگتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل ( اسلام سے) شک میں پڑے ہیں سو وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے، حیران ہیں ( کبھی موافقت کا خیال ہوتا ہے کبھی مخالفت کا) اور اگر وہ لوگ ( غزوہ میں) چلنے کا ارادہ کرتے ( جیسا کہ وہ اپنے عذر کے وقت ظاہر کرتے ہیں کہ چلنے کا تو ارادہ تھا، لیکن کیا کیا جائے فلاں ضرورت پیش آگئی سو اگر ایسا ہوتا) تو اس ( چلنے) کا کچھ سامان تو درست کرتے ( جیسا کہ سفر کے لوازم عادیہ سے ہے) لیکن ( انہوں نے تو شروع سے ارادہ ہی نہیں کیا اور اس میں خیر ہوئی جیسا آگے آنا ہے لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ اور اس کے خیر ہونے کی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے ان کے جانے کو پسند نہیں کیا اس لئے ان کو توفیق نہیں دی اور ( بحکم تکوینی) یوں کہہ دیا گیا کہ اپاہج لوگوں کے ساتھ تم بھی یہاں ہی دھرے رہو ( اور ان کے جانے میں خیر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ شامل ہوجاتے تو سوا اس کے کہ اور دونا فساد کرتے اور کیا ہوتا ( وہ فساد یہ ہوتا کہ) تمہارے درمیان فتنہ پردازی کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے ( یعنی لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے، اور جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے، دشمن کا رعب تمہارے قلوب میں ڈالنے کی کوشش کرتے، اس لئے ان کا نہ جانا ہی اچھا ہوا) اور ( اب بھی) تم میں ان کے کچھ جاسوس موجود ہیں ( جن کو اس سے زیادہ فساد کی تدبیر میں مہارت نہیں) اور اس ظالموں کو اللہ خوب سمجھے گا ( اور ان لوگوں کی مفسدہ سازی و فتنہ پردازی کچھ آج نئی نہیں) انہوں نے تو پہلے ( جنگ احد وغیرہ میں) بھی فتنہ پردازی کی فکر کی تھی ( کہ ساتھ ہو کر ہٹ گئے کہ مسلمان دل شکستہ ہوجائیں) اور ( اس کے علاوہ بھی) آپ کی ( ضرر رسانی کے) لئے کارروائیوں کی الٹ پھیر کرتے ہی رہے، یہاں تک کہ سچا وعدہ آگیا اور ( اس کا آنا یہ ہے کہ) اللہ کا حکم غالب رہا اور ان کو ناگوار ہی گذرتا رہا ( اسی طرح آئندہ بھی بالکل تسلی رکھئے کچھ فکر نہ کیجئے) اور ان ( منافقین متخلفین) میں بعض شخص وہ ہے جو ( آپ سے) کہتا ہے کہ مجھ کو ( غزوہ میں نہ جانے کی اور گھر رہنے کی) اجازت دیدیجئے، اور مجھ کو خرابی میں نہ ڈالئے، خوب سمجھ لو کہ یہ لوگ خرابی میں تو پڑ ہی چکے ہیں ( کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور کفر سے بڑھ کر اور کونسی خرابی ہوگی) اور یقینا دوزخ ( آخرت میں) ان کافروں کو گھیرے گی اگر آپ کو کوئی اچھی حالت پیش آتی ہے تو وہ ان کے لئے موجب غم ہوتی ہے، اور اگر آپ پر کوئی حادثہ آپڑتا ہے تو ( خوش ہوکر) کہتے ہیں کہ ہم نے تو ( اسی واسطے) پہلے سے اپنا احتیاط کا پہلو اختیار کرلیا تھا، ( کہ ان کے ساتھ لڑائی وغیرہ میں نہیں گئے تھے) اور ( یہ کہہ کر) وہ خوش ہوتے ہوئے چلے جاتے ہیں آپ ( جواب میں ان سے دو باتیں) فرما دیجئے ( ایک تو یہ کہ) ہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑ سکتا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر فرمایا ہے وہ ہمارا مالک ہے ( پس مالک حقیقی جو تجویز کرے مملوک کو اس پر راضی رہنا واجب ہے) اور ( کیا تخصیص ہے) اللہ کے تو سب مسلمانوں کو اپنے سب کام سپرد رکھنے چاہئیں ( دوسری بات یہ) فرما دیجئے کہ ( ہمارے لئے جیسی اچھی حالت بہتر ہے ویسے ہی حوادث بھی باعتبار انجام کے کہ اس میں رفع درجات و قطع سیئات ہونا بہتر ہے، پس) تم تو ہمارے حق میں دو بہتریوں میں سے ایک بہتری کے منتظر رہتے ہو ( یعنی تم جو ہماری حالت کے منتظر رہتے ہو کہ دیکھئے کیا ہو تو خواہ وہ حسنہ ہو یا مصیبت ہمارے لئے دونوں ہی میں بہتری ہے) اور ہم تمہارے حق میں اس کے منتظر رہا کرتے ہیں، کہ خدا تعالیٰ تم پر کوئی عذاب واقع کرے گا ( خواہ) اپنی طرف سے ( دنیا میں یا آخرت میں) یا ہمارے ہاتھوں سے ( جب کہ تم اپنے کفر کو ظاہر کردو، تو مثل دوسرے کفار کے قتل کئے جاؤ سو تم ( اپنے طور پر) انتظار کرو ( اور) ہم تمہارے ساتھ ( اپنے طور پر) انتظار میں ہیں۔ معارف و مسائل اس پورے رکوع کی سترہ آیتوں میں بیشتر ان منافقین کا ذکر ہے، جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے غزہ تبوک میں نہ جانے کی اجازت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کرلی تھی، اس کے ضمن میں بہت سے احکام و مسائل اور ہدایات ہیں۔ پہلی آیت میں ایک لطیف انداز سے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی شکایت ہے کہ ان منافقین نے جھوٹ بول کر اپنے آپ کو معذور ظاہر کیا اور آپ نے قبل اس کے کہ ان کے حال کی تحقیق کرکے جھوٹ سچ کا پتہ لگاتے ان کو رخصت دیدی، جس کی بنا پر یہ لوگ خوشیاں مناتے اور یہ کہتے پھرتے کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوب دھوکہ دیا، اگرچہ اگلی آیتوں میں حق تعالیٰ نے اس کا بھی اظہار فرمایا کہ یہ لوگ محض حیلہ جوئی کے لئے عذر پیش کر رہے تھے، ورنہ اگر ان کو اجازت نہ دی جاتی جب بھی یہ لوگ جانے والے نہ تھے اور ایک آیت میں اس کا بھی اظہار فرمایا کہ اگر بالفرض یہ لوگ اس جہاد میں جاتے بھی تو ان سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچتا، بلکہ ان کی سازش اور فتنہ پردازی سے اور خطرہ ہوتا۔ لیکن منشاء یہ ہے کہ ان کو اگر اجازت نہ دی جاتی تو پھر بھی یہ جانے والے تو نہ تھے، مگر ان کا نفاق کھل جاتا، اور ان کو مسلمانوں پر یہ طعنے کسنے کا موقع نہ ملتا کہ ہم نے ان کو خوب بیوقوف بنایا، اور مقصد درحقیقت عتاب نہیں بلکہ یہ بات ہے کہ آئندہ ان لوگوں کی چالوں سے باخبر رہیں، اور صورة جو ایک قسم کا عتاب بھی ہے تو کس لطف عنایت کے ساتھ کہ عتاب کی بات جو لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ سے شروع ہوئی ہے، یعنی آپ نے ان لوگوں کو کیوں اجازت دے دیاس کے ذکر کرنے سے پہلے ہی عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ ذکر فرما دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف فرمادیا۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب و مقام اور آپ کے تعلق مع اللہ پر نظر رکھنے والے حضرات نے فرمایا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو غایت تعلق حضرت حق جل شانہ کے ساتھ تھا اس کے پیش نظر آپ کا قلب مبارک اس کا تحمل ہی نہ کرسکتا تھا کہ حق تعالیٰ کی طرف سے کسی معاملہ میں آپ سے جواب طلب کیا جائے، اگر شروع میں لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ کے الفاظ ذکر فرما دیئے جاتے جن میں صورة جواب طلبی کا عنوان ہے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قلب مبارک اس کا تحمل نہ کرسکتا، اس لئے اس سے پہلے عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ فرما کر ایک طرف تو اس پر مطلع کردیا کہ کوئی ایسا کام ہوگیا ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہ تھا، دوسری طرف اس کی معافی کی اطلاع پہلے دے دیتا کہ اگلا کلام قلب مبارک پر زیادہ شاق نہ ہو۔ اور لفظ معافی سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ معافی تو جرم و گناہ کی ہوا کرتی ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہ سے معصوم ہیں تو پھر معافی کے یہاں کیا معنی ہوسکتے ہیں وجہ یہ ہے کہ معافی جیسے گناہ کی ہوتی ہے ایسی ہی خلاف اولی اور ناپسندیدہ چیز کے لئے بھی معافی کا استعمال کیا جاسکتا ہے، اور وہ عصمت کے منافی نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَفَا اللہُ عَنْكَ۝ ٠ ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰي يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٤٣ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس ... سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ صدق والصِّدْقُ : مطابقة القول الضّمير والمخبر عنه معا، ومتی انخرم شرط من ذلک لم يكن صِدْقاً تامّا، بل إمّا أن لا يوصف بالصّدق، وإمّا أن يوصف تارة بالصّدق، وتارة بالکذب علی نظرین مختلفین، کقول کافر إذا قال من غير اعتقاد : محمّد رسول الله، فإنّ هذا يصحّ أن يقال : صِدْقٌ ، لکون المخبر عنه كذلك، ويصحّ أن يقال : كذب، لمخالفة قوله ضمیره، وبالوجه الثاني إکذاب اللہ تعالیٰ المنافقین حيث قالوا : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ( ص دق) الصدق ۔ الصدق کے معنی ہیں دل زبان کی ہم آہنگی اور بات کو نفس واقعہ کے مطابق ہونا ۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا ایسی صورت میں باتو وہ کلام صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہوگی اور یا وہ مختلف حیثیتوں سے کبھی صدق اور کبھی کذب کے ساتھ متصف ہوگی مثلا ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلاف محمد رسول اللہ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطابق ہونے کی حیثیت سے صدق ( سچ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل زبان کے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے کذب ( جھوٹ) بھی کہہ سکتے ہیں چناچہ اس دوسری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرار میں کہ : نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ... الآية [ المنافقون/ 1] ہم اقرار کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھوٹا قرار دیا ہے کیونکہ وہ اپنے ضمیر کے خلاف یہ بات کہد رہے تھے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

عفا اللہ کے معانی قول باری ہے (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی ؟ (تمہیں چاہیے کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے) عضو کے کئی م... عانی ہیں۔ تسہیل و توسعہ کو بیھ عفو کہتے ہیں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (اول الوقت رضوان اللہ واخرہ عفو اللہ۔ اول وقت میں نماز کی ادائیگی سے اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور آخر وقت کی ادائیگی میں اللہ کی طرف سے گنجائش اور وسعت ہوتی ہے) عفو ترک کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (احفوا الشوارب واعفوا اللحیٰ ۔ مونچھیں خوب کتروائو اور ڈاڑھی کے بال چھوڑ دو ) عفو کثرت کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (حتیٰ عفو ! یہاں تک کہ ان کی کثرت ہوگئی) یعنی ان کی تعداد بہت ہوگئی۔ اسی طرح محاورہ ہے۔ ” اعفیت فلانا من کذا وکذا (میں نے فلاں کی فلاں چی سے جان چھڑا دی) یہ فقرہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی شخص کے لئے کسی چیز کو چھوڑ دینا آسان بنادے۔ گناہ سے درگزر کرنا بھی عفو کہلاتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ گنہگار کو اس گناہ کے نتائج سے چھٹکارا دے کر اسے اس کی سزا نہ دی جائے۔ اس مقام پر عفو کا لفظ غفران کے ہم معنی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے اصل معنی تسہیل کے ہوں جب خدا اپنے بندے کے گناہ معاف کردیتا ہے تو گویا وہ اس سے اس کا بدلہ نہ لے کر اس کے لئے معاملہ آسان کردیتا ہے۔ اس لفظ کے مذکورہ بالا تمام معانی کے اندر اس بات کی گنجائش ہے کہ اصل معنی ترک اور توسعہ کے ہوں بعض لوگوں کا قول ہے کہ منافقین کو اجازت دے کر گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گناہ صغیرہ کا صدور ہوگیا تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (عضا اللہ عنک لم اذنت لھم) اس لئے کہ ہمارے لئے یہ فقرہ کہنا درست نہیں ہوتا کہ ” تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کے لئے میں نے تمہیں کہا تھا ” جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے کہ تم نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کا میں نے تمہیں حکم دیا تھا “ اس لئے اس فعل پر عفو کا اطلاق درست نہیں ہوگا جسے کرنے کے لئے کہا گیا۔ جس طرح یہ درست نہیں ہوگا کہ جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو اس کے سلسلے میں کرنے والے کو معافی دے دی جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اجازت دے کر کسی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زیر بحث آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن الفاظ کے ساتھ خطاب کیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے وہ کام کیوں کیا جس کے کرنے کی اگرچہ اجازت تھی لیکن ایک دوسرا کام اس سے بہتر اور اولیٰ تھا اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو باتوں میں سے کسی ایک کا اختیار دے دیا جائے اور ایک بات دوسری سے اولیٰ ہو۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجات بزینۃ وان یستعففن خیر لھن۔ ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے زائد کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا مظاہرہ کرنے والی نہ ہوں اور اگر اس سے بھی احتیاط کریں تو ان کے حق میں اور بہتر ہو) اللہ تعالیٰ نے دونوں باتیں مباح کردیں لیکن ان میں سے ایک کو اولیٰ قرار دیا۔ شعبہ نے قتادہ سے قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ حکم اسی طرح تھا جیسا کہ تم سنتے ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں یہ آیت نازل فرمائی (واذا کانو معہ علی امر جامع ثم یذھبوا حتی یستاذنوہ ۔ اور جب رسول کے ساتھ کسی ایسے کام پر ہوتے ہیں جس کے لئے لوگوں کو جمع کیا گیا ہو تو جب تک تم سے اجازت نہیں لیتے نہیں جاتے) تا قول باری (فاذن لمن مشئت منھم تو تم ان میں سے جس کو چاہو اجازت دے دو ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رخصت اور اجازت دے دی۔ علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون باللہ والیوم الاٰخر وارتابت قلوبھم فھم فی ریبھم یترددون۔ جو لوگ سچے دل سے اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے درخواست نہیں کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف کیا جائے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ آیت بعینہ منافقین کے بارے میں ہے جب انہوں نے جہاد سے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مانگی تھی حالانکہ انہیں عذر بھی درپیش نہیں تھا۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے عذر کو قبول کرتے ہوئے فرمایا (وآذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری (انما یستاذنک الذین لایومنون) الخ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اسے اس قول باری نے منسوخ کردیا ہے (واذا کانوا معہ علی امر جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ) تا قول باری (فاذن لمن شئت منھم) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو باتوں میں سے اعلیٰ بات کو اختیار کرنے کی اجازت دے دی۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں ممکن ہے کہ قول باری (عفا اللہ عنک لم اذنت لھم) منافقین کے ایک گروہ کے متعلق ہوج سے نفاق کی تہمت لگ چکی ہو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھر بیٹھ رہنے کی اجازت نہ دے کر ان لوگوں کی حقیقت حال کو پرکھنا چاہا ہو تاکہ جو لوگ جہاد میں نکل پڑنے کے حکم کے بعد بھی نہ نکلیں ان کا نفاق ظاہر ہوجائے۔ اس صورت میں ایسے لوگوں کے متعلق آیت کا حکم ثابت رہے گا منسوخ نہیں سمجھا جائے گا اس پر قول باری (حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین ) بھی دلالت کرتا ہے۔ اس بنا پر قول باری (واذا کانوا معہ علیٰ امر جامع لم یھذبوا حتیٰ یستاذنوہ) نیز (فاذن لمن شئت منھم) ان اہل ایمان کے بارے میں ہوگا جنہیں اگر اجازت نہ ملتی تو نہ جاتے۔ اس تفسیر کی بنا پر دو نوں میں سے کوئی بھی آیت دوسری آیت کو منسوخ نہیں کرے گی۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٣) اے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا، لیکن آپ نے ان منافقین کو شرکت نہ کرنے کی اتنی جلدی کیوں اجازت دے دی، جب تک کہ آپ کے ساتھ نکل کر ایمان والوں کی سچائی ظاہر نہ ہوجاتی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جھوٹے لوگوں کے ایمان کو معلوم کرلیتے کہ وہ بغیر آپ (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کے جہاد رہ گئے۔ شان نزول : (آیت) ” عفا اللہ عنک “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عمر بن میمون ازدی سے روایت کیا ہے کہ دو باتیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی کیں جن میں اللہ کی طرف سے اس وقت تک کوئی صاف حکم نہیں دیا گیا تھا ایک تو منافقین کو عدم شرکت کی اجازت دے دی اور دوسری غزوہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لے لیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف تو فرما دیا لیکن (حیرت سے دریافت کیا کہ) آپ نے ان کو اجازت کیوں دی تھی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ ) یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کوئی منافق آیا اور اپنی کسی مجبوری کا بہانہ بنا کر جہاد سے رخصت چاہی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نرم مزاجی کی وجہ سے اسے اجازت دے دی۔ اب اس شخص کو تو گویا سند مل گئی کہ میں نے حضور (صلی اللہ ... علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ تو اس کا تھا ہی نہیں ‘ مگر اجازت مل جانے سے اس کی منافقت کا پردہ چاک نہیں ہوا۔ اجازت نہ ملتی تو واضح طور پر معلوم ہوجاتا کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ اس طرح کئی منافقین آئے اور اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لے گئے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :45 بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی تھی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے طبعی حلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرمادی تھی ۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنب... یہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے ۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا ۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوٰئے ایمان بے نقاب ہو جاتا ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: در اصل تنبیہ تو یہ کرنی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہو سلم نے منافقین کو جہاد سے الگ رہنے کی اجازت کیوں دی؟ لیکن یہ محبت بھرا انداز ملاحظہ فرمائیے کہ تنبیہ کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔ کیونکہ اگر پہلے تنبیہ کی جاتی اور معافی کا اعلان بعد میں آتا تو اس درمیانی وقت میں آپ پر نہ جانے کیا ... کیفیت گذر جاتی۔ بہرحال ! مطلب یہ ہے کہ ان منافقین کو جہاد میں جانا تو تھا ہی نہیں۔ اور جیسا کہ آگے آیت 47 میں فرمایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ لشکر میں شامل ہو کر فساد مچائیں، لیکن اگر آپ انہیں جہاد سے الگ رہنے کی اجازت نہ دیتے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی کہ یہ نافرمان لوگ ہیں۔ بحالت موجودہ جبکہ یہ لوگ اجازت لے چکے ہیں۔ ایک طرف تو یہ مسلمانوں سے کہیں گے کہ ہم تو باقاعدہ اجازت لے کر مدینہ منورہ میں رہے، اور دوسری طرف اپنے لوگوں سے شیخی بگھاریں گے کہ دیکھوں ہم نے مسلمانوں کو کیسا دھوکا دیا۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٣۔ جس طرح بدر کے قیدیوں سے وحی کے نازل ہونے سے پہلے آنحضرت نے فدیہ لے لیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی خفگی کا حکم آیا اسی طرح تبوک کی لڑائی کے وقت جن منافقوں نے بناوٹ کے عذر آنحضرت کے روبرو پیش کئے اور آپ نے ان لوگون کو مدینہ میں رہ جانے کی روانگی دے دی اس پر خفگی کا حکم نازل ہوا مگر یہ خفگی کا حکم ای... سا پیار کا ہے کہ جس میں خفگی سے پہلے معافی کا ذکر ہے خفگی کا حاصل یہ ہے کہ پر وگنگی میں اس قدر جلدی نہ کرنی تھی بلکہ ذرا عذروں کی دریافت کرنی تھی تاکہ ملعوم ہوجاتا کہ کس کس کے عذر سچے ہیں اور کس کس کے بناوٹی بعضے مفسروں نے اس آیت کی سورت نور کی آیت فاذن لمن شئت منھم (٢٥: ٦٢) سے منسوخ کہا ہے لیکن صحیح قول یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں کوئی آیت منسوخ نہیں ہے کیونکہ دونوں آیتوں میں سچے عذر والوں کو پروانگی دینے کا حکم ہے فرق اسی قدر ہے کہ اس آیت میں مجمل حکم ہے اور سورة نور میں صاف ہے اس صورت میں ایک آیت دوسری آیت کا بیان ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے یہ جو عذر کیا تھا کہ ان کے پاس راہ خرچ نہیں تھا اس عذر کی ذرا بھی دریافت کی جاتی تو ان کے اس عذر کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجاتا کیونکہ ان لو لوگوں کے پاس سواری راہ خرچ سب کچھ تھا فقط منافقانہ عادت کے سبب سے انہوں نے جھوٹے عذر پیش کئے اور اگرچہ ان جھوٹے عذروں کے سبب سے یہ لوگ دنیا میں گرمی کے موسم کے سفر سے بچ گئے لیکن جھوٹ اور جھوٹی قسموں کے سبب سے عقبے میں انہوں نے اس آگ میں اپنا ٹھکانا بنایا جس کے مقابلہ میں دنیا کی گرمی کہ موسم کی گرمی تو درکنار دنیا کی آگ بھی اس آگ کے آگے کوئی چیز نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم کہ حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی آگ سے دوزخ کی آگ میں انتہر ٦٩ درجے حرارت زیادہ ہے یہ حدیث تو دوزخ کی آگ کے حال کی ہے اور ان لوگوں کے اس آگ کے قابل عمل کرنے کا حال آیت کے ٹکڑے یھلکون انفسہم سے اور عبداللہ (رض) بن عمروبن العاص کی اوپر کی روایتوں سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:43) عرضا۔ روبرولانا۔ پیش کرنا۔ پیش افتادہ سامان۔ سامنے رکھا ہوا مال و متاع ۔ یہاں عرضا قریبا بمعنی سہل الحصول مال ہے سفرا قاصدا۔ قریبی سفر۔ قصد سے جس کا معنی ہے وسطی راستہ پر چلنا۔ القصد بعضی المعتدل۔ لا تبعوک۔ لام تاکید۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ وہ ضرور تیری اتباع کرتے ۔ تیرے پیچھے چلتے۔ شقۃ۔ مسافت۔...  بقول راغب وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے۔ بعدت علیہم الشقۃ۔ مسافت ان کو دور دراز نظر آئی۔ کٹھن سفر ان کو بہت دور کا سفر نظر آیا۔ سیحلفون باللہ۔ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر (کہیں گے) لواستطعنا۔ اگر ہمیں استطاعت ہوتی۔ اگر ہمیں طاقت ہوتی۔ (9:43) عفا اللہ عنک۔ (اے محمد) تجھے اللہ بخشے۔ اللہ تجھے معاف فرمائے۔ خدا تیرا بھلا کرے عفو کے اصل معنی مٹانا ہیں جیسے فعت الریح الدار (ہوا نے گھر کے نشانات مٹا دئیے) اور عفوت عنہ کے معنی ہیں قصدت ازالۃ ذنیہ صارفا عنہ میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کے گناہ مٹانے کا ارادہ کرلیا۔ لیکن شیخ محمد بن طیب فارسی شارح قاموس سے منقول ہے کہ :۔ عفو کا بغیر گناہ کے نہ ہونا گو عرف میں مشہور ہوگیا ہے مگر یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ عفو بمعنی عدم الزوم (لازم نہ ہونا) بھی ہوتا ہے۔ اور اس کے اصل معنی ترک کے ہیں اور اسی پر اس کے سارے معانی گھومتے رہتے ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے واحدی (رض) سے نقل کیا ہے کہ عفو کے اصل معنی زیادہ ہونے کے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قل العفو (2:219) کہہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ اور حتی عفوا (7:95) یعنی جو ان کی تعداد تھی اس سے زیادہ ہوگئے۔ ان کے اقوال کی روشنی میں عربی محاورہ عفا اللہ سے کسی گناہ کا سرزد ہونا لازم نہیں آتا۔ (بقول شیخ محمد بن طیب مذکورہ بالا) حافظ کا شعر ہے :۔ عفا اللہ عن شر النوائب جزاک اللہ فی الدارین خیرا (اللہ تمہیں زمانہ کی گردشوں کے شر سے بچائے۔ اور دارین میں نیک اجر دے) ۔ اور واحدی کے مطابق اس کا ترجمہ ” اللہ تیرا بھلا کرے “ بھی ہوسکتا ہے۔ شان نزول اس آیت کا یہ ہے کہ جنگ تبوک کے موقعہ پر موسم کی شدت اور مسافت کی مشقت کی وجہ سے بہت سوں نے شرکت سے معذرت پیش کی جو حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تقریبا ہر ایک منظور فرمالی۔ اس کی متعدد معقول وجوہات تھیں :۔ (1) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذاتی کریم النفسی۔ (2) معقول وجوہات کی بناء پر استثناء سے انکار قرین انصاف نہ تھا۔ (3) عسکری پالیسی کے لحاظ سے بھی ایسے اشخاص کو جبرا ساتھ لیجانا خلاف مصلحت تھا جو دلی جذبہ کے ساتھ جہاد میں شرکت کے متمنی نہ لہٰذا خداوند تعالیٰ کا قول لم اذنت لہم حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین۔ رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی سرزنش نہ تھی بلکہ اس سے مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو سچے اور جھوٹوں میں تمیز ہوجاتی۔ اسی وجہ سے اس استفسار سے پہلے عفا اللہ عنک کے الفاظ ارشاد فرما دئیے۔ بعض کے نزدیک تو یہ کلمات اظہار تکریم و تعظیم کے لئے ہیں َ اہل عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کی عزت و توقیر کا اظہار مقصود ہوتا تو اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز ایسے ہی کلمات (عفاک اللہ) سے کیا کرتے تھے۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ ان ذلک یدل علی مبالغۃ اللہ فی تعظیمہ وتوقیرہ یعنی ان کلمات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعظیم و توقیر میں مبالغہ کا اظہار فرمایا ہے۔ حتی یتیبین۔ سے قبل وہلا توقفت۔ محذوف ہے۔ اور کیوں نہ تو نے توقف کیا (ان کے پیچھے رہنے کی اجازت دینے میں) یتبین۔ مضارع واحد مذکر غائب تبین (تفعل) مصدر۔ تجھ پر ظاہر ہوجائے۔ کھل کر سامنے آجائے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ہو ایہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافیقن نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سچا سمجھتے ہوئے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی، اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ ن... ے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن نہایت لطف و کرم کے اند از میں یعنی پہلے معافی کی اطلاع دی اور پھر قصور بیان فرمایا۔ اس میں پیچھے بیٹھنے رہنے والوں کی مذمت بھی ہے۔ ( قر طبی۔ ابن کثیر) یہاں تو اجازت پر عتاب فرمایا ہے مگر سورة نو رکی آیت فاذن لمن شئت ( کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں) میں اجازت کی رخصت دے دی ہے۔ ( کبیر) بعض نے لکھا ہے کہ عفا اللہ عنک تعظیما برائے دعا استعمال ہوتا ہے اس سے قبل گناہ کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ ( کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٤٣ تا ٥٩ اللہ نے آپ کو معاف تو کردیا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جہاد سے رہ جانے کی اجازت ہی کیوں دی ؟ اگر آپ ایسانہ کرتے تو بھی یہ جہاد میں شامل ہونے سے تو رہے ہاں سب لوگوں پہ ان کی اصلیت کھل جاتی اور نفاق واضح ہوجاتا ۔ رشتہ قلبی کے انداز یہاں اگر چہ بات ایک مشورے کے انداز میں ا... رشاد ہے کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو ان کے پاس بہانہ نہ ہوتا مگر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر کو جو تعلق ذات باری سے تھا وہ اس قدربات بھی برداشت نہ کرپاتا ۔ لہٰذ اسوالیہ انداز میں بات ارشاد فرمانے سے پہلے فرمایا عفا اللہ عنک اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا کوئی نارزضگی یا خفگی کی بات نہیں مگر آپ نے ایسا کیوں کیا یہ معافی گناہ کی نہیں کہ عصمت نبوت کے خلاف ہو بلکہ نیکی کے اس معیار کی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان کے مطابق تھا ہوا پھر بھی درست مگر معیار وہ نہ رہا اور یہی کمال ہوتا ہے ذکر الٰہی اور صحبت شیخ کا کہ قلب کو ذات باری سے ایسا تعلق نصیب ہوجائے کہ اس کی نافرمانی برداشت نہ کرسکے ۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت نہ دیتے تو یہ بہانہ نہ بناسکتے اور ان کا جھوٹ کھل جاتا ۔ مومن ومنافق کے اوصاف میں فرق کہ مومن تو کبھی جہاد سے جی نہیں چراتا اور جان مال کو اللہ کی راہ میں لگا نے کے لئے ہمہ وقت نہ صرف تیار بلکہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے یہ میدان جنگ میں عملا کفر اور ظلم کے خلاف لڑنے کا نام ہے اور جو لوگ اس سے جی چڑاتے ہیں اور بہانے کرتے ہیں درحقیقت انھیں نہ اللہ پر ایمان نصیب ہے نہ ہی آخرت پہ یقین حاصل ہے ۔ ان دلوں کو وہ رشتہ الفت تو کیا نصیب ہوتا وہ تو ابھی ذات باری میں ہی شک میں مبتلا ہیں اور اسی گڑھے میں عمر عزیز کو برباد کر رہے ہیں جبکہ محبت کرنے کے لئے نہ صرف یقین بلکہ ایک خاص نسبت اور تعلق بھی چاہیئے جس سے یہ لوگ یکسرمحروم ہیں اور اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ جانا بھی چاہتے یا جہاد میں شریک ہونے کے متمنی ہوتے تو تیاری تو کرتے ۔ اپنے اسباب کو بروئے کار لا کر کام نہ کرسکنا عذر ہے نہ یہ کہ کچھ کیا ہی نہ جائے پھر کوئی عذر پیش آجاتا تو حاضر خدمت ہو کر اجازت چاہتے انھوں نے سرے سے کوئی تیاری ہی نہیں کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا شامل ہونے کا کوئی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا شامل ہونے کا کوئی ارادہ ہی نہ تھا ۔ یہی حال تمام امور میں ہے کہ انسان اپنے اسباب کو بروئے کار لائے پھر کوئی عذرمانع ہو تو وہ ثواب پائے گا اور جو سرے سے کچھ کرنا ہی نہ چاہے پھر خواہ عذر شرعی بھی درمیان آجائے اسے کوئی اجرنہ ملے گا اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توفیق بھی اللہ کی پسند سے ملتی ہے فرمایا جب انھوں نے آپ سے محبت نہیں کی تو ہم نے بھی ان کا آپ کے ساتھ جہاد پہ نکلنا پسند نہیں کیا کہ اطاعت رسالت کی توفیق تو اللہ کی پسند پر ہے اور یہی اللہ کی رضا مندی کی سند ہے جن دلوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ہی نہیں بھلا اللہ انھیں آپ کی رفاقت کے لئے پسند فرمائے گا ؟ کبھی نہیں ! لہٰذ اللہ نے ان کا نکلنا ہی پسند نہیں فرمایا اور ان کے دل میں بات ڈال دی کہ جمے رہو اور پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہ جاؤ ۔ شیخین کی عظمت روضئہ اطہر میں دفن ہو کر ظاہر ا بھی ہمیشہ ہمیشہ کی رفاقت سے مشرف ہونا شیخین کے اس قلبی تعلق کی دلیل ہے جو ساری کائنات میں انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نصیب تھا یعنی عشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ درجہ کسی تیسر ی ہستی کو نہیں ملا۔ اگر یہ لوگ نکلتے بھی تو مسلمان سپاہ میں بددلی پھیلا نے کی کوشش ہی کرتے اور افواہیں پھیلاتے بلکہ ان میں بعض تو دشمن کے باقاعدہ جاسوس ہیں اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کی بجائے ان کے حالات اور ارادوں سے دشمن کو با خبر کرنے کی کوشش کرتے یا پھر بعض سادہ لوح مسلمان ان کی بات سن کر پریشان ہوجاتے اور ان کی افواہوں پہ کسی حدتک کان دھرنا شروع کردیتے ۔ تو اللہ نے مخلص اور سادہ مسلمانوں کو بھی خصوصا ، اور لشکر اسلام کو عموما ان کے شر سے محفوظ رکھا اس لئے کہ وہ غلط کارلوگوں کے حال سے خوب واقف ہے ۔ نیکی کو پانے کی شرط یہاں یہ بات واضح ہوگئی کہ نیکی کو پانے کی بنیادی شرط قلبی تعلق ہے ورنہ بظاہر نیکی کو نکلنے والا انسان بھی دنیا کی محبت یا عہدے کی طلب کا اسیر ہو کر برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے خواہ بظاہر نیک دکھائی دیتا رہے جیسا کہ یہ لوگ بظاہر تو مجاہد نظر آتے مگر کام مسلمانوں کے خلاف کرتے اور یہ پہلے بھی ایسا کرچکے ہیں جیسے غزوہ احد میں الگ ہوگئے یا خندق میں مشرکین سے سازباز کی اور یہود کو ان کا ساتھ دینے پہ آمادہ کیا بلکہ انھوں نے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زبردست نقصان پہنچا نے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام ہی الٹ دینا چاہا یعنی آپ غلبہ اسلام کے لئے جان لڑا رہے تھے اور یہ اسلام کی شکست کے درپے تھے ۔ گویا غلبہ اسلام کے لئے جہاد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ ٹبانا ہے اس کے خلاف کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے کے برابر ہے لیکن اللہ کا حکم نافذہوا اور حق غالب ہوا اگر چہ یہ اس بات پہ بہت ناخوش ہوئے۔ احدکی فتح یہ آیہ کریمہ اس بات پہ دلالت کرتی ہے کہ احد میں فتح مسلمانوں ہی کو ہوئی اگر چہ مسلمان شہید ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رخ انورزخمی ہوامگر میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا اہل مکہ بھاگے اور اسلامی لشکر نے تعاقب بھی کیا ۔ پھر و ہیں فروکش رہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء کی تدفین فرمائی پتہ نہیں یہ بڑکس نے ہان کی کہ مسلمانوں کو احد میں شکست ہوئی ۔ یقینا یہ پر اپیگنڈہ بھی منافقین ہی کا ہے جس سے بعض سادہ لوح مسلمان بھی متاثر ہوئے ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ میراوہاں جانا میرے لئے سخت آزمائش کا سبب بن جائے گا جیسے ایک خاص منافق جدبن قیس نے عرض کیا کہ رومیوں کی عورتیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں اور مجھ میں کمزوری ہے کہ عورتوں کے حسن میں مبتلا ہوجاتا ہوں لہٰذ امجھے رخصت دی جائے کہ وہاں جاکر گناہ نہ کر بیٹھوں تو ارشاد ہوا کہ گناہ تو تم کر ہی بیٹھے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بہانے گھڑنا اور آپ کی رفاقت سے گریز اس سے بڑا گناہ کونسا ہوگا ؟ جہنم کا محیط ہونا لہٰذا تم گناہ میں مبتلا تو ہوگئے مگر یہ یاد رکھو تم پیچھے رہ کر بھی آرام سے نہ رہ سکو گے کہ جہنم کا فروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ آخرت میں تو جہنم ہی میں رہیں گے لیکن کفر کی وجہ سے جہنم سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ اس کا اثر دنیا کی زندگی میں بھی باطنی بیقراری اور دلی پریشانی کی صورت میں سامنے رہتا ہے اور دنیا کی لذتیں بھی بےمزہ لگنے لگتی ہیں ۔ اس کی مشاہدہ اللہ سے بیزار مغربی معاشرے میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے کہ مادی آسائشوں کے ڈھیر لگے ہیں مگر سب ہی لوگ ذہنی دباؤ اور قلبی اور اندرونی خلفشار کے مریض ہیں ، انھیں کسی کل چین نصیب نہیں ازواجی زندگی بدترین صورت سے دوچار ہے اخلاقیات نام کی کوئی شے نہیں ۔ پورامعاشرہ بالکل برہنہ ہوچکا ہے حلال و حرام کی تمیز نصیب نہیں اور اس سب کے ساتھ آج کے مغرب کا سب سے بڑا مرض انجانا خوف ہے ہر آدمی ڈرتا ہے کس سے ؟ یہ اسے معلوم نہیں اور اس سے گلوں خلاصی کے لئے سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں مگر یہ ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں کہ وہ خود اس مرض کے اسیر ہیں داصل یہی جہنم کے محیط ہونے کا اثر ہے جو حیات دنیا میں بھی ظاہر ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ آپ کو فتح نصیب ہو تو انھیں دکھ ہوتا ہے اور اگر مسلمانوں کو شدت پیش آئے اور مقابلے میں تکلیف پہنچے تو یہ اپنی دانائی کا ڈھنڈورا پٹیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں خبر تھی ایسا ہی ہوگا تب ہی تو ہم پہلے سے الگ ہوگئے تھے اور محتاط رہنے کو ترجیح دی ۔ تقدیر ورتبدیر آپ فرمادیجئے کہ اس میں تمہاری ہوشیاری کی کوئی بات نہیں بلکہ جو بات وقوع پذیر ہوتی ہے وہ اس قادر مطلق کی طرف سے ہوتی ہے جس کی اطاعت میں ہم کمربستہ ہیں کی تعمیل ہے اور نتائج پیدا کرنا یہ اس کا کام اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اپنا فیصلہ نافذ کرسکے لہٰذا بظاہر میں مومن اس کی آرزو کرتا ہے اور یہی مسئلہ تقدیر کی صورت حال ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرمادی مومن اس کی آرزو کرتا ہے اور یہی مسئلہ تقدیر کی صورت حال ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح فرمادی کہ بندہ کے ذمہ پورے خلوص کے ساتھ اطاعت کرنا ہے اور پوری محنت سے اپنے وسائل حق کے غلبہ کے لئے استعمال کرنا ہے اب نتیجہ کیا ہوگا یہ اللہ کریم کا کام ہے جو بھی ہوگا وہی منظور ہے ۔ کام نہ کرکے کہنا کہ تو کل کر رہے ہیں محض کم ہمتی کا بہانہ ہے چونکہ وہی ذات ہماری کارساز اور مالک ہے لہٰذا ہمیں اسی پہ پورا بھر وسہ ہے اور یہی مومن کو زیب بھی دیتا ہے یعنی جس کام کے کرنے کا حکم ہے اس کے لئے بھر پورکوشش کرنا اپنے اختیاری وسائل پوری طرح آزمانا یہ ہماری ذمہ داری ہے نتیجہ اس کے دست قدرت میں ہے نیز مومن کی ہر طرح جیت ہے کہ فتح یاشہادت دو میں سے ایک مراد یقینا پالے گا اور شہادت مومن کو فتح سے کم عزیز نہیں لہٰذ اہم تو کسی طرح نقصان میں نہ رہے مگر جہاد سے منہ موڑ نے والو ! تمہارے لئے تو اللہ کا عذاب ہی ہے اور اسی کی امید کی جاسکتی ہے خواہ وہ تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذ(رح) لیل کرے یا اپنے پاس سے کوئی اور عذاب نازل کردے بہرحال دونوں صورتیں تمہارے لئے پریشان کن ہیں ۔ لہٰذ اتم بھی انتظار کرو اور ہم تمہارے انجام کے لئے منتظر ہیں۔ نفاق کفر کی بدترین قسم ہے اور اس کے اثرات وہی ہیں اگرچہ منافق بظاہرعبادت بھی کرتا ہے جو لوگ منافقت کے اسیر ہیں اور جہاد سے جی چراتے ہیں اگر اپنی برائے نام مسلمانی کا بھر م رکھنے کو اللہ کی راہ میں خرچ بھی کریں خواہ بےدلی سے کریں یا دخواہش دپسند سے کریں اللہ کریم ان کی اس کا وش کو قبول نہیں فرمائیں گے کہ اپنی اصل میں تو یہ نافرمان ہیں چند عبادات اگر دکھاوے کے لئے بھی تو کیا حاصل ۔ ان کے صاقات یا مل کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قبولیت میں رکاوٹ ان کا دلی کھوٹ ہے جن دل ہی مطمن نہیں تو ظاہر عبادات صرف دنیا کے سامنے ان کو مسلمان ظاہر کرتی ہیں اللہ تو جانتے ہیں کہ یہ کافر ہیں نہ ہی اللہ کی عظمت کی مانتے ہیں اور نہ ہی انھیں نبوت و رسالت پہ اعتماد ہے ذرا ان کی نمازیں ہی دیکھ لیں یہ کس قدرسستی اور بےدلی سے ادا کرتے ہیں ۔ ایسے ہی مال بھی خرچ کریں تو بمجبوری کرتے ہیں ورنہ خرچ کرنے کو ان کا دل نہیں چاہتا ۔ بات تو منافقین کی ہورہی ہے مگر مسلمان بھی اپنی عبادات اور صدقات کی کیفیت سے اندازہ کرسکتا ہے کہ کہیں تھوڑی ہی سہی مگر نفاق کی پر چھائیں تو نہیں پڑرہی اور یہ فکر ان لوگوں کو کرنا ہے جو نمازیں ادا کرتے ہیں ۔ اب جن لوگوں نے سرے سے پڑھنا ہی چھوڑدی ہیں ان کا اسلام کیسا ہے یہ انھیں ضرورسوچنا چاہیئے ۔ بغیر ایمان الٰہی کی ایک قسم بھی عذاب الٰہی کی ایک قسم ہے رہی یہ بات کہ ایسے لوگوں کے پاس دولت دنیا بھی بہت ہے اور اولاد بھی ہے بظاہر تو دنیا میں یہی دونعمتیں ہیں اور جس کسی کو حاصل ہوں وہ اپنے کو بڑاخوش نصیب شمار کرتا ہے تو اے مخاطب ! اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اس لئے کہ ہر شے اپنے نتیجے کے اعتبار سے نعمت یا عذاب ثابت ہوتی ہے ۔ بظاہر تو یہ دونوں نعمتیں ہیں مگر اپنے نتیجے کے اعتبار سے کفار ومنافقین کے لئے عذاب کی شدید ترین صورت کہ اللہ انھیں ان چیزوں سے ہی عذاب دینا چاہتا ہے کہ حیات دنیا میں یہ عذاب بہت دکھ دینے والا ہے ۔ اولا دہو اور نافرمان ہو ۔ مغرب میں دیکھیں ، جب جوان بچیاں اپنے دوست لڑکوں کو ساتھ گھر لاتی ہیں یا کئی کئی دن لڑکوں کے ساتھ غائب رہتی ہیں تو والدین پہ کیا گزرتی ہے یہی حال ان کے لڑکوں کا ہے کہ والدین کی عزت وناموس کی دھجیاں ان کی نظروں کے سامنے بکھرتی ہیں ۔ رہا مال ! تو جب تک قلبی اطمینا ن نصیب نہ ہو ، مال بھی کھانے کو آتا ہے اس کی صرف ایک مثال کافی ہے بستر اور جدید آسائشی سامان چھوڑ کر ویر انوں میں نپاہ لے رہے ہیں کہ شاید کچھ سکون ملے مگر ناممکن ہر صورت ہی عذاب کی ایک صورت بن رہی ہے یہی حال اندرون ملک بھی بشیتربڑے گھروں کا ہے صرف باہر کا پردہ ہے ورنہ جہاں بھی دین نہیں وہاں مال اور اولاد کا عذاب پوری شدت سے مسلط ہے ۔ پھر اس کے بکھیڑے انھیں فرصت ہی نہیں دیتے تا آنکہ موت آجاتی ہے اور یونہی نفاق کا داغ ماتھے پہ لئے دنیا چھوڑ جاتے ہیں اور یہ بہت بڑا عذاب ہے کہ خاتمہ بھی صحیح نصیب نہ ہو ، ان لوگوں کو مال واولاد کے دوسرے عذابوں کے ساتھ یہ کتنا حسرتناک منظر ہے کہ آخرت کے بارے سوچنے اور توبہ کرنے یا اپنی اصلاح کرنے کی فرصت بھی نہیں ملتی اور ان کے بکھیڑوں میں الجھے الجھے موت آجاتی ہے ۔ عملی جہاد سے جی چرانے والے کیسے لوگ ہیں ؟ اگر چہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں مگر حق یہ ہے کہ یہ تم میں سے یعنی مسلمانوں میں سے نہیں ہیں ۔ یاد رہے بات جہاد میں شامل نہ ہونے سے چلی اور اب تک وہی موضوع جارہا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ میدان عمل میں جہاد سے گھبراتے ہیں ۔ دراصل ان کا ایمان ہی مضبوط نہیں گھر بیٹھ کر وہ عبادت بھی کرتے رہیں تو منظور نہ ہوگی۔ یہاں یہ حدیث پاک پیش کرنا کہ میدان جنگ میں جہاد ، جہاد اصغر ہے اور نمازروزہ ذکر اذکار جہاد اکبر ہے درست نہیں اس لئے کہ نماز روزہ تب جہاداکبر کا درجہ پاتا ہے جب میدان جنگ میں جہاد کی ضرورت نہ رہے اگر کفر ملک پر مسلط ہورہا ہو اور مسلمان اس کا دفاع نہ کریں صرف نماز روزہ پہ خوش رہیں تو یہ جائز نہیں بلکہ غزہ وہ خندق میں نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں فوت ہوئی تھیں مگر آپ نے میدان جنگ کو نہیں چھوڑا تھا یعنی ذاتی عبادات یا اذکار فوت بھی ہوجائیں تو بھی غلبہ اسلام کی کوشش میں سستی دکھانے کا کوئی جواز نہیں او ایسا کرنے والے قسمیں بھی کھائیں کہ ہم مسلمان ہیں تو وہ مسلمان نہین صرف ڈرپوک لوگ ہیں جو دنیا کا۔ آیات ٦٠ تا ٦٦ فائدہ کمانے کے لئے اسلام سے چمٹے ہوئے ہیں یا اعلانیہ کافر ہونے کی جرأت بھی نہیں رکھتے ۔ اگر انھیں کفر کے دامن میں ہی سہی کوئی جائے پناہ مل جائے تو یہ رسے تڑاکر بھاگ جائیں جیسے آج کا مسلمان ، اگر اسے کافر معاشرہ بھی پناہ دے اور چند سکے مل سکیں تو ذرادیر نہیں کرتا خواہ سارادین ہی چھوڑناپڑے بلکہ اکثرنے تو پہلے ہی چھوڑرکھا ہوتا ہے اور منافقت کی نشانیوں میں یہ بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ دنیا کا مال ملتا نظر آئے تو دین کو چھوڑ کر بھی لپک پڑے۔ صدقہ اور منافق پھر ان کا حال یہ ہے کہ جو صدقات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں عطافرماتے ہیں اس پہ مطمئن نہیں ہوتے بلکہ نارواتنقید کرتے ہیں ۔ صدقہ نافلہ اگر کافر اگر کو بھی دیا جائے تو جائز ہے لیکن غنیمت یازکٰوۃ وغیرہ صرف مومن کو دی جاسکتی ہے منافق بھی بظاہر تو ایمان ہی کا دعوے رکھتے تھے الہٰذ اس میں سے جو ملتا اس پر بھی خوش نہ ہوتے اکثر اظہارناراضگی ہی کرتے اور جس کو زیادہ مل جاتا وہ خوشی کرتا دوسروں کو بھی دکھاتا پھر تا یہ حرکت ان لوگوں میں غصہ بھڑکاتی جنہیں نہیں مل سکا ہوتا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم تو اللہ کے حکم سے تھی حق یہ تھا کہ جو ملتا اس پر ہی خوش ہوتے کہ ما اتھم اللہ ورسولہ فرما کر بتایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عطا دراصل اللہ کی عطا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم کے مطابق تقسیم فرماتے ہیں ۔ سو انھیں کہنا یہ چاہیئے تھا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور اللہ ہی اپنے کرم سے عطا فرمائے گا اور اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی عطا کو ہم تک پہنچا نے والا ہے یعنی یہ ہی بہت بڑی نعمت اور عظیم دولت ہے کہ اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ ہے لہٰذ اسی کی خوشی ہمارا مقصود ہے ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ منافق کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے کے بجائے اسے اچھی طرح جاننا اور پرکھنا چاہیے۔ رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حلم اور بردباری کی بناء پر منافقین کو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے کی اجازت دی لیکن وقت آچکا تھا کہ انھیں بالکل آشکار کردی... ا جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت شفقت و مہربانی کے لہجے کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے نبی ! اللہ آپ کو معاف کرے جس کا دوسرا مطلب ہے کہ اللہ نے آپ کو معاف کردیا ہے۔ منافقین کو اس وقت تک اجازت نہیں دینا چاہیے تھی جب تک کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے کا فرق نمایاں نہ ہوجاتا۔ آپ کے اجازت دینے کی وجہ سے منافقین آپس میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نبی کو ہمارے عزائم کا علم نہیں ہے کیونکہ یہ دور اندیش اور زیادہ بصیرت رکھنے والا نہیں۔ منافق اس بات پر خوش ہیں کہ اس نے ہمیں خود ہی اجازت دے دی ہے ہمارے ذمہ اب کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری رسول پر عائد ہوتی ہے۔ منافقین کی اس ہر زہ سرائی کو طشت ازبام کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کیا گیا ہے کہ آپ سے اجازت لینے والے وہ لوگ نہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے میں مخلص ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو خوب جانتا ہے جو حیلے بہانوں سے اجتناب کرنے والے ہیں۔ آپ سے جنگ میں عدم شرکت کی اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جن کا اللہ پر یقین نہیں اور ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کے بارے میں شک ہے اور وہ بےیقینی کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ 1 قارئین محترم ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ “ لام عرب میں تعظیم اور تکریم کا کلمہ ہے۔ جس کو کلام کی ابتدا میں ذکر کیا جاتا ہے اور جو شخص متکلم کے نزدیک محترم اور مکرم ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے میرے معاملہ میں کیا کردیا ہے یا اللہ آپ سے راضی ہو۔ آپ نے میری بات کا کیا جواب دیا ہے لہٰذا اس آیت میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ “ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو اہو۔ 2 نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منافقین کو جہاد میں عدم شرکت کی اجازت دینا کیا آپ کی خطا تھی۔ اگر یہ خطا تھی تو ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ “ سے اللہ نے اس کو معاف فرمادیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” آپ نے ان کو اجازت کیوں دی “ فرمانا خطا کو مستلزم نہیں کرتا۔ لہٰذا اس قول کو ترک اولیٰ اور ترک اکمل پر محمول کیا جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر صدق دل سے ایمان لانے والے نیکی کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ٢۔ منافق لوگ نیکی کرنے میں تردد سے کام لیتے ہیں۔ ٣۔ منافق مشکل کے وقت مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن کن کے دلوں میں مرض ہے : ١۔ منافقین کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھادیا۔ (البقرۃ : ١٠ ٢۔ منافقین اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ (الاحزاب : ١٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر اس قدر مہربان ہے کہ عتاب سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرماتا ہے۔ جب ان لوگوں نے جھوٹے عذرات پیش کیے تو رسول اللہ نے ان کے عذرات قبول کرلیے اور ایسے لوگوں نے ان عذرات کی اوٹ میں اپنے آپ کو چھپایا۔ حجور نے ان لوگوں کے عذرات کو اس لیے قبول کرلیا تھا کہ اس وقت سچے اور جھوٹے عذرات ک... ی تحقیقات کا موعہ نہ تھا اور یہ بھی ممکن تھا کہ بعض لوگ لشکر سے بلا کسی عذر کے پیچھے رہ جائیں اور اس طرح ان کی حقیقت کھل جائے اور ان کے لیے اذن رسول کا بہانہ بھی نہ رہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین جھوٹے عذر پیش کر کے غزوۂ تبوک میں شرکت سے رہ گئے منافقین نے تبوک نہ جانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر پیش کر کے شریک نہ ہونے کی اجازت لیتے رہے آپ نے اجازت دے دی۔ اس اجازت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا۔ لیکن عتاب میں میں بھی ا... یک لطف ہے، اول یوں فرمایا (عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ ) (یعنی اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا) اس کے بعد عتاب فرمایا، اور یوں فرمایا کہ آپ نے لوگوں کو اجازت کیوں دی، یہ موقعہ سچوں اور جھوٹوں کے جاننے کا تھا آپ اجازت دینے میں جلدی نہ فرماتے تو معلوم ہوجاتا کہ سچا عذر پیش کرنے والے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔ حضرت عمرو بن میمون نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو کام ایسے کیے جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہ تھا۔ اول یہ کہ آپ نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر منافقین کے اعذار سن کر شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی اور دوسرے یہ کہ آپ نے بدر کے قیدیوں کے بدلہ فدیہ لینے والی رائے کو اختیار فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں پر عتاب نازل فرمایا (معالم التنزیل ص ٢٩٧ ج ٢) صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ عتاب ترک اولیٰ پر ہے۔ آپ اجازت دینے میں توقف فرماتے تو اچھا تھا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42: جہاد کیلئے جانے سے پہلے بعض منافقین نے جھوٹے بہانوں سے جہاد میں شریک نہ ہونے کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی آپ نے ان کے بہانے صحیح مان لیے اور ان کو اجازت دیدی حالانکہ ان کے تمام بہانے جھوٹے تھے اور انہوں نے طے کرلیا تھا کہ جہاد میں نہ جانے کی اجات مانگو اگر اجازت دے دیں تو بہت... ر اور اگر اجازت نہ دیں تب بھی جہاد میں شرکت مت کرو۔حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجازت دے دینے سے ان کی بدنیتی اور منافقت پر پردہ پڑگیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف عتاب فرمایا کہ ہم نے آپ کی یہ لغزش معاف تو کردی مگر آپ نے ان کو تخلف کی اجازت کیوں دی ؟ آپ ان کو اجازت نہ دیتے تو روانگی کے وقت ان کے جھوٹ کا پول کھل جاتا اور آپ کو معلوم ہوجاتا کہ ان میں مخلص کون ہے اور منافق کون۔ “ قال مجاھد ھؤلاء قوم قالوا نستاذن فی الجلوس فان اذن لنا جلسنا وان لم یؤذن لنا جلسنا ” (قرطبی ج 8 ص 155) یہ تنبیہ خاص واقعہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی عام نہیں ہے بقرینہ “ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ ” (نور) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان کو رخصت دینے میں جلدی کیوں کی اور آپ نے اس سے پیشتر کہ آپ کو سچ بولنے والے اور سچے لوگ ظاہرہوجاتے اور آپ جھوٹوں اور جھوٹ بولنے والوں کو جان لیتے ان کو رہ جانے کی اجازت کیوں دی۔ غزوئہ تبوک کا اعلان ہونے پر منافقوں نے طرح...  طرح کے بہانے بنانے شروع کئے جب کوئی منافق جھوٹا بہانا بناکر پیش کرتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دے دیتے۔ اس پر فرمایا کہ اجازت دینے میں تعجیل سے کیوں کام لیا اگر آپ جلدی نہ کرتے تو جھوٹوں کا جھوٹ اور سچوں کا سچ ظاہر ہوجاتا۔ یہ ایک خلاف اولی اور نامناسب کام ہوا اس پر تنبیہہ فرمائی لیکن تنبیہہ سے پہلے معافی کا اظہار کردیا تاکہ پیغمبر کو تکلیف نہ ہو اگرچہ وہ لوگ جہاد میں لے جانے کے قابل نہ تھے مگر اجازت دینے میں جلدی نہ کرنی چاہئے تھی۔  Show more