Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 46

سورة التوبة

وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ ﴿۴۶﴾

And if they had intended to go forth, they would have prepared for it [some] preparation. But Allah disliked their being sent, so He kept them back, and they were told, "Remain [behind] with those who remain."

اگر ان کا ارادہ جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کیساتھ بیٹھے ہی رہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Exposing Hypocrites Allah said, وَلَوْ أَرَادُواْ الْخُرُوجَ ... And if they had intended to march out, with you to participate in Jihad, ... لاأَعَدُّواْ لَهُ عُدَّةً ... certainly, they would have made some preparation for it, they would have prepared for such task, ... وَلَـكِن كَرِهَ اللّهُ انبِعَاثَهُمْ ... but Allah was averse to their being sent forth, Allah hated that they should go with you, ... فَثَبَّطَهُمْ ... so He made them lag behind, and stay away (from Jihad), ... وَقِيلَ اقْعُدُواْ مَعَ الْقَاعِدِينَ and it was said (to them): "Sit you among those who sit (at home)." as a part of what was decreed for them (not that He legislated that they stay behind). Allah then explained why He disliked that they march with the believers, saying,

غلط گو غلط کار کفار و منافق عذر کرنے والوں کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گذرنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور قدرتی طور پر ان سے کہدیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو ۔ ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا ۔ یہ ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا بکر بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے ۔ ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شرر انگیزیوں سے بےخبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے ۔ مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کے حامی اور ہمدرد ہیں یہ لوگ تمہاری جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور تمہاری پل پل کی خبریں انہیں پہنچاتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ کو اس لئے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعضے وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لئے جاسوسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی ۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے ۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ نے انہیں دور ڈال دیا اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کے سامنے ان کی بات مان لینے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتوں تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی ۔ یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے ۔ اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا ہی غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے نہ خود جہاد کرتے نہ کرنے دیتے ۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلاوطن ہو جاؤ تو سوائے بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے ۔ حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جائے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں ۔ ایسی آیتیں اور بھی بہت ساری ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔ 46۔ 2 فثبطھم کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنادیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ (2) یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٩] منافقوں کی سچائی کا معیار :۔ اگر انہوں نے جہاد کی تیاری مکمل طور پر کرلی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا جس کی وجہ سے وہ فی الواقع جہاد پر جانے سے معذور ہوتے تو اس صورت میں تو ان کی سچائی پر اعتماد کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جس صورت میں انہیں کوئی ایسی فکر لاحق ہی نہ ہوتی ہو اور ان کا سارا دار و مدار صرف حیلوں بہانوں پر ہی موقوف ہو تو اس صورت میں انہیں سچا کیسے سمجھا جاسکتا ہے ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جہاد میں شمولیت اللہ کو پسند بھی نہیں جس سے اسلامی فوج کو ان سے کسی فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہو۔ چناچہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں ہی بیٹھ رہنا ان کے نصیب ہوا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنگ تبوک کے موقع پر منافقین اور ان تمام جھوٹے دعوے داروں کی حقیقت کھول دی جو کہتے ہیں کہ ہم بھی مجاہد ہیں اور ہر وقت جہاد کے لیے نکلنے کو تیار ہیں، مگر ساٹھ ستر برس کی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود کبھی نہ مجاہدین کے ساتھ نکلے، نہ نشانہ بازی سیکھی، نہ تیراکی، نہ فنون حرب میں سے کوئی فن سیکھا، نہ کسی معرکے میں شریک ہوئے، نہ جہاد کے لیے جسم تیار کیا، نہ جہاد کے لیے درکار سامان جمع کیا۔ بس ڈگریوں کے حصول، ملازمت، کفار کی غلامی، کاروبار اور حلال و حرام ہر طرح دنیا کمانے میں لگے رہے، یا پیری فقیری اور ھُو حق میں لگے رہے۔ اولاد کو بھی اسی پر لگائے رکھا اور جب جہاد کا تذکرہ ہوا تو اللہ کے راستے میں نکلنے والوں پر دو چار طنزیہ فقرے کس کر اپنے آپ کو نفس سے جہاد کرنے والا مجاہد اکبر اور جان قربان کرنے والوں کو جہاد اصغر میں مصروف قرار دے دیا (جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے صاف جھوٹ ہے) ۔ ان کے جہاد اکبر اور نفس سے جہاد کی حقیقت ان کی جہاد کی تیاری ہی سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کو بھی ان کے نفاق اور بدعملی کی وجہ سے مخلص مجاہدین کے ساتھ ان کا نکلنا پسند نہیں ہے، تبھی اس نے انھیں نکلنے کی توفیق ہی سے محروم کردیا۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جو شخص مرگیا اور اس نے نہ جنگ کی اور نہ اپنے دل کے ساتھ کبھی جنگ کرنے کی بات چیت کی تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات ولم یغز۔۔ : ١٩١٠ ] فَثَبَّطَهُمْ : ” ثَبَّطَہُ تَثْبِیْطًا “ کسی آدمی کے کام میں رکاوٹ ڈال دینا، یا کسی طریقے سے اسے اس سے باز رکھنا۔ وَقِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ : اس سے ان کی مذمت مقصود ہے کہ انھوں نے اپنے نفاق، بزدلی اور بےہمتی کی وجہ سے عورتوں، بچوں، بیماروں اور جنگ میں شرکت سے لاچار بوڑھوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہنا پسند کرلیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At least, one aspect of why their excuse was false has been given in the fourth (46) where it has been said: وَلَوْ أَرَ‌ادُوا الْخُرُ‌وجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً (And had they [ really ] wished to set out [ for Jihad ], they would have [ of necessi¬ty ] made [ at least ] some preparation for it [ but they made none ] - 46). This shows that the plea of having an excuse was false. The truth of the matter was that they just did not have any intention to come out for Jihad. How do we know if an excuse is reasonable or unreasonable? An important principle comes out from this verse, a principle that can be used to distinguish between a reasonable and an unreasonable excuse. To wit, an excuse presented only by those who are ready to carry out orders - but, were rendered helpless by some accident - can be entertained and accepted. This rule applies to all matters pertain¬ing to the excusable. As for a person who made no preparation to carry out orders, did not even make the intention to carry them out when called, thereafter, came some excuse - then, this excuse will be like the excuse of sin which is worse than the sin. This will not be taken as a genuine excuse. Take the example of a person who has made all preparations to present himself in the masjid for his Jumu&ah prayers and is intending to go there when, all of a sudden, came an impedi¬ment which prevented him from going there. Then, his excuse is reasonable - and Allah Ta` ala blesses such a person with the full reward of his ` Ibadah (worship). As for the person who just did not make any preparation but, later on, by chance, there came an excuse before him, then, this will be taken as nothing but a ruse and pretext. Take an example from everyday life. One makes the necessary preparations to get up early in the morning and get ready for the Fajr Salah. An alarm was set in the family clock, or somebody was assigned to give a wakeup call. After that, by chance, whatever arrangements were made did not work - and because of this, the Salah was missed. This is similar to what happened to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) when he camped on a journey late at night (lailatu &t-ta` ris). In order to get up on time for Fajr Salah, he arranged with Sayyidna Bilal (رض) that he would sit the night out and wake up everybody when morning comes. But, by chance, sleep overtook him too. Everyone got up only when the sun had risen. So, this excuse is correct and reasonable. Based on this, consoling his Companions (رض) ، the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: لَا تَفرِیطَ فی النَّومِ اِنَّمَا التَّفرِیط فی الیقظۃِ (There is no negligence in sleep. Negligence occurs only when awake) that is, one is excusable in sleep. The reason was that, as far as it was possible to do, arrangements had already been made to get up on time. In short, a decision about an excuse being reasonable or unreasonable can be taken only by knowing whether or not preparation was made to carry out orders. Simply using a lot of words to make a point gets nothing done.

چوتھی آیت میں ان کا عذر غلط ہونے کا ایک قرینہ یہ بتلایا گیا ہے کہ (آیت) وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً یعنی اگر واقعی یہ لوگ جہاد کے لئے نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لئے ضروری تھا کہ کچھ تیاری بھی تو کرتے، لیکن انہوں نے کوئی تیاری نہیں کی، جس سے معلوم ہوا کہ عذر کا بہانہ غلط تھا، درحقیقت ان کا ارادہ ہی جہاد کے لئے نکلنے کا نہیں تھا۔ عذر معقول اور نامعقول میں امتیاز : اس آیت سے ایک اہم اصول مستفاد ہوا، جس سے معقول اور نامعقول عذر میں امتیاز کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ عذر انہی لوگوں کا قابل قبول ہوسکتا ہے جو تعمیل حکم کے لئے تیار ہوں، پھر کسی اتفاقی حادثہ کے سبب معذور ہوگئے، معذوروں کے تمام معاملات کا یہی حکم ہے جس نے تعمیل حکم کے لئے کوئی تیاری ہی نہیں کی اور ارادہ ہی نہیں کیا، پھر کوئی عذر بھی پیش آگیا تو یہ عذر گناہ بدتر از گناہ کی ایک مثال ہوگی، صحیح عذر نہ سمجھا جائے گا، جو شخص نماز جمعہ کی حاضری کے لئے تیاری مکمل کرچکا ہے اور جانے کا ارادہ کر رہا ہے کہ دفعة کوئی ایسا عذر پیش آگیا جس کی وجہ سے نہ جاسکا تو اس کا عذر معقول ہے، اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کی عبادت کا پورا اجر عطا فرماتے ہیں، اور جس نے کوئی تیاری کی ہی نہیں، پھر اتفاقاً کوئی عذر بھی سامنے آگیا تو وہ محض ایک بہانہ ہے۔ صبح کو سویرے نماز کے لئے اٹھنے کی تیاری پوری پوری کی، گھڑی میں الارم لگایا، یا کسی کو مقرر کیا جو وقت پر جگائے، پھر اتفاق سے یہ تدبیریں غلط ہوگئیں جس کی وجہ سے نماز قضا ہوگئی، جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لیلة التعریس میں پیش آیا، کہ وقت پر جاگنے کے لئے یہ انتظام فرمایا کہ حضرت بلال کو بٹھا دیا کہ وہ صبح ہوتے ہی سب کو جگادیں، مگر اتفاق سے ان پر بھی نیند غالب آگئی، اور آفتاب نکل آنے کے بعد سب کی آنکھ کھلی، تو یہ عذر صحیح اور معقول ہے، جس کی بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : لا تفریط فی النوم انما التفریط فی الیقظۃ، یعنی نیند میں آدمی معذور ہے، کوتاہی وہ ہے جو جاگتے ہوئے کوتاہی کرے “ وجہ یہ تھی کہ اپنی طرف سے وقت پر جاگنے کا انتظام مکمل کرلیا گیا تھا۔ خلا صہ یہ ہے کہ تعمیل حکم کے لئے تیاری کرنے یا نہ کرنے ہی سے کسی عذر کے معقول یا نامعقول ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّلٰكِنْ كَرِہَ اللہُ انْۢبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ۝ ٤٦ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے ثبط قال اللہ تعالی: فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقاعِدِينَ [ التوبة/ 46] ، حبسهم وشغلهم، يقال : ثَبَّطَه المرض وأَثْبَطَه : إذا حبسه ومنعه ولم يكد يفارقه . ( ث ب ط ) ثبطہ المرض واثبطہ : اسے مرض نے روک دیا اور اسے لازم ہوگئی قرآن میں ہے : ۔ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقاعِدِينَ [ التوبة/ 46] تو ان کو ہلنے جلنے نہ دیا ۔ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معی کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولو ارادوا الخروج لاعدوا لہ عدۃ۔ اگر ان کا جہاد پر نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے تیاری کرلیتے) عدۃ اس سامان اور اسباب کا نام ہے جو انسان اپنے لئے مستقبل میں سرانجام پانے والے کاموں کی خاطر تیار کرتا ہے۔ لفظ ’ اھبہ ‘ کے بھی یہی معنی ہیں۔ یہ قول باری دشمن کے ساتھ جنگ چھڑنے سے قبل ہی جنگ کی تیاریوں کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ ومن رباطا الخیل اور تم سے جہاں تک ہوسکے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لئے مہیا رکھو) قول باری ہے (ولکن کرہ اللہ انبعاثم فثبتھم۔ لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے اس نے انہیں سست کردیا) یعنی اللہ تعالیٰ کو ان کا جہاد پر نکعلنا پسند ہی نہیں تھا اس لئے کہ ان منافقین کا جہاد کے لئے نکلنا بھی فساد مچانے، مسلمانوں کا ساتھ چھوڑنے، ان کے دلوں میں دشمن کا خوف طاری کرنے اور ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی نیت سے ہوتا۔ اس نیت سے جہاد کےئے نکلنا سراسر معصیت اور کفر ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ ہوا اور اس نے انہیں سست کردیا۔ اس لئے کہ یہ سراسر معصیت تھی اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ قول باری ہے (وقیل اقعدوا مع القاعدین۔ اور ان سے کہا گیا کہ بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ تم بھی بیٹھ رہو) یعنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ۔ ہوسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات ان سے فرمائی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو اس بات کی تلقین کی ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اور اگر یہ منافق غزوہ تبوک میں آپ کے ساتھ چلنے کا ارادہ کرتے تو اس کے لیے سازو سامان اور کچھ ہتھیار تو تیار کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے مفسدوں کا غزوہ تبوک میں آپ کے ساتھ جانا پسند ہی نہیں کیا، لہٰذا ان کو جانے کی توفیق ہی نہیں بخشی اور بحکم تکوینی یوں کہہ دیا کہ جو بغیر عذر کے شرکت نہیں کرتے تم بھی ان ہی کے ساتھ دھرے رہو۔ یہ چیز ان کے دلوں میں خود تھی،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً ) ایسے طویل اور کٹھن سفر کے لیے بھر پور تیاری کی ضرورت تھی ‘ بہت سا سازوسامان درکار تھا ‘ مگر اس کے لیے ان کا کچھ بھی تیاری نہ کرنا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا خود ہی ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے جانے کا ارادہ تک نہیں کیا۔ (وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَقِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ ) اس فرمان میں جو حکمت تھی اس کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی گئی :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :47 یعنی بادل ناخواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا ۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی ، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

39: یہ آیت بتا رہی ہے کہ انسان کا کوئی عذر اس وقت مانا جا سکتا ہے جب اس نے اپنی طرف سے اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش اور تیاری پوری کی ہو، پھر کوئی غیر اختیاری وجہ ایسی پیش آگئی ہو جس کی بنا پر وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کرسکا۔ لیکن کسی قسم کی کوشش اور تیاری کے بغیر یہ کہہ دینا کہ ہم معذور ہیں، قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ مثلاً کوئی شخص فجر کے وقت بیدار ہونے کی تیاری پوری کرے، الارم لگائے، یا کسی کو بیدار کرنے پر مقرر کرے، پھر آنکھ نہ کھلے تو بیشک معزور ہے، لیکن تیاری کچھ نہ کی ہو، اور پھر آنکھ نہ کھلنے کا عذر پیش کرے تو یہ عذر معتبر نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٦۔ ٤٧۔ اس آیت میں بھی اللہ پاک نے منافقوں کا حال بیان فرمایا کہ ان لوگوں کا ارادہ پہلے ہی سے اس لڑائی میں شریک ہونے کا بالکل نہ تھا اگر یہ لوگ لڑائی میں شریک ہونا چاہتے تو ضرور سامان جنگ کرتے جس طرح اور لوگوں نے اس کی تیاری کی تھی پھر یہ فرمایا کہ اللہ کو بھی انکا شریک ہونا پسند نہیں تھا اسی واسطے اس نے ان کے دلوں میں نامردی پیدا کردی اور یہ عذر و حیلہ کر کے رہ گئے اور جس طرح عورتیں بچے بیمار اور معذور گھروں میں رہ جاتے ہیں انہیں بھی رہ جانا پڑا یہ خدا کی بہت بڑی مصلحت تھی کیونکہ اگر یہ لوگ بھی لڑائی میں جاتے تو بجائے مدد کے فتنہ و فساد بر پا کرتے مسلمانوں کو خوف دلاتے اور ایسی ایسی باتیں کرتے جس سے مومنوں کے جی چھوٹنے لگتے کیونکہ تم میں وہ لوگ بھی ہیں جو تمہاری باتیں سن سن کر ان منافقوں کو اس کی خبر دیتے رہتے ہیں جاسوسی کرتے ہیں۔ واللہ علیم بالظالمین۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لشکر اسلام میں جو لوگ ان منافقوں کے دوست ہیں جس دوستی کے سبب سے وہ لشکر اسلام کی باتیں جاسوسی کے طور پر ان منافقوں کو پہنچاتے ہیں وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں کہ اس جاسوسی اور منافقوں کی سزا بھگتیں گے کیونکہ اللہ کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اس کو ان جاسوسوں کا اور ان کے دوست منافقوں کا سب کا حال خوب معلوم ہے وہ اپنے علم کے موافق وقت مقررہ پر ان کے عملوں کی پرسش کرے گا قتادہ کے قول کے موافق اگرچہ بعضے مفسروں نے وفیکم سمعون لھم کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان منافقوں کی باتیں سنتے اور مانتے ہیں لیکن حافظ ابو جعفر ابن جریرنے اپنی تفسیر میں قتادہ کہ اس قول کی ضعیف ٹھہرایا ہے اس واسطے مجاہد کے صحیح قول کے موافق آیت کی وہی تفسیر صحیح معلوتی ہے جو اوپر بیان کی گئی کیونکہ اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان کردی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) ابن عباس کے شاگردوں میں جہاد اختلاف ہو وہاں مجاہد کا قول زیادہ معتبر قرار پاتا ہے کعب (رض) بن مالک بھی ان لوگوں میں ہیں جو تبوک کے سفر میں شریک نہیں ہوئے ان کا قصہ تفصیل سے آگے آوے گا صحیح بخاری میں کعب بن مالک (رض) کے بیٹے عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار احد کی لڑائی کے میدان میں سے لشکر اسلام کے تین سو آدمیوں کو بہکا کر مدینہ کو واپس لے آیا تھا اذا جائک المنافقون میں آویگا کہ اسی عبداللہ بن ابی نے بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت اپنے قبیلہ کے انصار کو یہ بہکایا تھا کہ اس لڑائی سے واپس جانے کے بعد مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جاوے۔ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ اگر ان منافقوں کے دل میں اس سفر کا ارادہ ہوتا تو یہ لوگ سفر کی تیار کا ارادہ پہلے سے کرتے اس کی تفسیر کعب (رض) بن مالک کے قصہ سے یوں ہوسکتی ہے کہ کعب بن مالک (رض) اگرچہ سستی کر کے اس سفر میں نہیں گئے لیکن ان منافقوں کی طرح اس سفر کے ارادہ سے وہ غافل نہیں تھے یہ منافق لوگ اس ارادے سے بھی غافل تھے جس سے معلوم ہوا کہ ان کا ارادہ پہلے ہی سے اس سفر کا نہیں تھا اسی طرح آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ اگر یہ منافق لوگ اس لڑائی میں جاتے تو طرح طرح کے فساد بر پا کرتے احد اور بنی مصطلق کا قصہ اس فساد کے برپا کرنے کی تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس سے مقصود زجر وتو بیخ اور مذمت ہے۔ ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی مزید عادات۔ منافق نقصان کے خوف یا کسی مفاد کے حصول کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھتا ہے اس کے دینی کاموں میں اخلاص نہیں پایا جاتا وہ مفاد کا بندہ اور ابن الوقت ہونے کی وجہ سے موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ جونہی اسے موقعہ ملتا ہے تو وہ معمولی مفاد کی خاطر ملت کو نقصان پہنچانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ یہی حال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین کا تھا۔ غزوۂ احد کے موقعہ پر جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف مورچہ زن ہوچکا تھا تو مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے تین سو منافق ٹولیوں کی شکل میں مدینہ کی طرف بھاگ نکلے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی منافقین کی ہمدردیاں اور خفیہ سرگرمیاں اہل مکہ اور مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ تھیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی انھوں نے اپنی مذموم حرکتیں جاری رکھیں۔ یہاں تک کہ غزوۂ تبوک کی تیاری کے وقت کھل کر سامنے آگئے اور حیلے بہانوں سے جان چھڑاتے رہے۔ جو منافق کسی مجبوری کے عالم میں لشکر کے ساتھ گئے انھوں نے تبوک سے واپسی پر رات کے وقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرنے کی کوشش کی جن کو آپ نے پہچان لیا اور حضرت حذیفہ کو ان کے نام بتلاتے ہوئے فرمایا کہ کسی کو بتلانے کی ضرورت نہیں ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو ۔ منافقین کے اسی گھناؤنے کردار کی وجہ سے مسلمانوں کو بتلایا جا رہا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمہارے ساتھ نکلنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے۔ اگر انھوں نے جہاد کے لیے نکلنا ہوتا تو یہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ تیاری کرتے۔ ان کا جہاد کے لیے تیاری نہ کرنا درحقیقت میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند نہیں کرتا تھا اس لیے ان کی سستی اور غفلت کو برقرار رہنے دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کو نیکی کی توفیق دیتا ہے جو دل میں اس کی چاہت اور اس کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اگر منافق نکلتے بھی تو ماضی کی طرح مسلمانوں میں انتشار اور بددلی پیدا کرنے کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ یہ تم میں ایسے لوگ ہیں جو غیروں کے لیے سنتے ہیں اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ بعض مفسرین نے ” فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ “ کا معنی یہ لیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے بھولے بھالے تھے جو ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منافقوں کو راز کی باتیں بتلا دیا کرتے تھے انھیں یہ حکم دے کر آئندہ کے لیے متنبہ کیا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَر َ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً ) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکری کی ہے کبھی ایک طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری جانب۔ “ تفسیر بالقرآن فتنہ کیا ہے : ١۔ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔ (البقرۃ : ١٩١) ٢۔ فتنہ کی موجودگی تک لڑتے رہو یہاں تک کہ دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ (البقرۃ : ١٩٣) ٣۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ فتنہ تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٤۔ جان لو تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٥۔ وہ کام نہ کرو جس سے زمین میں فساد اور فتنہ برپا ہو۔ (الانفال : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس موقعہ پر جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ لشکر کشی کی قدرت رکھتے تھے۔ ان کے پاس وسائل سفر موجود تھے ، سازوسامان بھی موجود تھا۔ وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا : " اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے " ایسے لوگوں کے سرخیل عبداللہ ابن ابی ابن سلول تھے ، جد ابن قیس بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ یہ اپنے قبائل کے معتبرین میں سے تھے اور با اثر اور مالدار تھے۔ وَّلٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِيْنَ : " لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لیے اس نے انہیں سست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ " اللہ کو ان لوگوں کے مزاج اور ان کے نفاق کا علم تھا اور ان لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض و عداوت جس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس کا تذکرہ آگے آ رہا ہے۔ اس لیے اللہ نے انہیں اس موقع پر بٹھا دیا اور ان کی ہمت ہی ختم کردی۔ یہ لوگ گھروں اور عورتوں کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ بچوں اور ناداروں کے ساتھ وہ پیچھے رہ گئے جو حقیقتاً اس لشکر میں جانے کی طاقت و وسائل نہ رکھتے تھے۔ لہذا گری ہوئی ہمتوں ور کمزور یقین رکھنے والوں کے لیے بہتر یہی تھا کہ وہ بیٹھے رہیں اور اس اعزاز سے محروم رہیں۔ اور اس میں دعوت اسلامی کی بھلائی تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45: ی بھی ان کی منافقت کی دلیل ہے کہ انہوں نے وسعت کے باوجود جہاد کے لیے کوئی سامان تیار نہیں کیا تھا۔ اگر نیک نیتی سے ان کا ارادہ جہاد میں شریک ہونیکا ہوتا تو وہ جہاد کے لیے کچھ سامان تو تیار کرتے لیکن اللہ تعالیٰ کو پسند اور منظور ہی نہ تھا کہ وہ جہاد میں شریک ہوں اس لیے اس نے ان کے دلوں سستی، ضعف اور بزدلی ڈال دی تاکہ وہ جہاد میں شریک ہی نہ ہوں۔ “ انبعاث ” جہاد کے لیے اٹھنا۔ “ فثبط ” ان کو بٹھا دیا اور بوجہ مہر جباریت ان کے دلوں سے جہاد کا شوق چھین لیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46 اور اگر یہ لوگ غزوئہ تبوک میں جانے کو آمادہ ہوتے تو اس کے لئے کچھ سامان کی تیاری تو کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاد کے لئے ان کے اٹھنے اور نکلنے کو پسند نہیں کیا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو بوجھل کردیا اور ان کو روک دیا اور ان کو توفیق ہی نہیں دی اور ان کو کہا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ یعنی جب کوئی سفر کا سامان نہیں کیا تو معلوم ہو ان کی نیت ہی کوچ کرنے کی نہ تھی اسی بنا پر ان سے توفیق الٰہی سلب کرلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے ایسے نیک کام میں ان کی شرکت کو پسند نہیں کیا اور تکوینی طور پر کہا گیا کہ جس طرح اپاہج اور معذور لوگ بیٹھتے ہیں تم بھی انہی کی طرح ان کے ساتھ بیٹھے رہو۔