Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 47

سورة التوبة

لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۷﴾

Had they gone forth with you, they would not have increased you except in confusion, and they would have been active among you, seeking [to cause] you fitnah. And among you are avid listeners to them. And Allah is Knowing of the wrongdoers.

اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑا دیتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں ، اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً ... Had they marched out with you, they would have added to you nothing except disorder, because they are cowards and failures, ... ولاَوْضَعُواْ خِلَلَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ ... and they would have hurried about in your midst sowing sedition among you, They would have rushed to spread false stories, hatred and discord among you, ... وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ... and there are some among you who would have listened to them. who would have obeyed them, given preference to their speech and words and asked them for advice, unaware of the true reality of these hypocrites. This might have caused corruption and great evil between the believers. Muhammad bin Ishaq said, "Those who sought permission (from the Messenger to lag behind) included some of the chiefs, such as Abdullah bin Ubayy bin Salul and Al-Jadd bin Qays, who were masters of their people. Allah also made them lag behind because He knew that if they went along with the Messenger they would sow sedition in his army." There were some in the Prophet's army who liked these chiefs and were ready to obey them, because they considered them honorable, وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ (and there are some among you who would have listened to them). Allah next reminds of His perfect knowledge, saying, ... وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ And Allah is the All-Knower of the wrongdoers. Allah says that He knows what occurred, what will occur and if anything would have occurred, how it would occur, such as, لَوْ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلاَّ خَبَالاً (Had they marched out with you, they would have added to you nothing except disorder), indicating what they would have done had they marched, even though they did not. Allah said in similar Ayat, وَلَوْ رُدُّواْ لَعَـدُواْ لِمَا نُهُواْ عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَـذِبُونَ But if they were returned (to the world), they would certainly revert to that which they were forbidden. And indeed they are liars. (6:28) وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لاَسْمَعَهُمْ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّواْ وَّهُم مُّعْرِضُونَ Had Allah known of any good in them, He would indeed have made them listen; and even if He had made them listen, they would but have turned away with aversion (to the truth). (8:23) and, وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُواْ مِن دِيَـرِكُمْ مَّا فَعَلُوهُ إِلاَّ قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُواْ مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْراً لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتاً وَإِذاً لاّتَيْنَـهُمْ مِّن لَّدُنَّـا أَجْراً عَظِيماً وَلَهَدَيْنَـهُمْ صِرَطاً مُّسْتَقِيماً And if We had ordered them (saying), "Kill yourselves (the innocent ones kill the guilty ones) or leave your homes," very few of them would have done it; but if they had done what they were told, it would have been better for them, and would have strengthened their conviction. And indeed We would then have bestowed upon them a great reward from Ourselves. And indeed We would have guided them to the straight way. (4:66-68)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یہ منافقین اگر اسلامی لشکر کے ساتھ شریک ہوتے تو غلط رائے اور مشورے دے کر مسلمانوں میں انتشار ہی کا باعث بنتے۔ 47۔ 2 مطلب یہ کہ چغل خوری وغیرہ کے ذریعے سے تمہارے اندر فتنہ برپا کرنے میں وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور فتنے سے مطلب اتحاد کو پارہ پارہ کردینا اور ان کے مابین باہمی عداوت و نفرت پیدا کردینا ہے۔ 47۔ 3 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی جاسوسی کرنے والے کچھ لوگ مومنین کے ساتھ بھی لشکر میں موجود تھے جو منافقین کو مسلمانوں کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] میدان کارزار میں منافقوں کے فتنے :۔ یعنی ایسے منافقوں سے لشکر مجاہدین میں شامل ہونے پر بھی خیر اور بھلائی کی توقع کم تھی بلکہ الٹا یہ کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرسکتے تھے۔ مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے دوسروں کے حوصلے بھی توڑ دیتے۔ یا دشمن کو اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کردیتے یا اس سے ساز باز شروع کردیتے۔ یا اسلامی لشکر میں اختلاف کا سبب بن جاتے اور ان میں باہمی نزاع پیدا کردیتے یا بےبنیاد افواہیں اڑا کر مسلمانوں میں بددلی پھیلانے لگتے۔ لہذا اللہ کی مشیئت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔ [٥١] سادہ لوح مسلمانوں کو ہدایت :۔ یعنی اے مسلمانو ! تم میں بھی بعض ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں۔ جو ان منافقوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے اور ان سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو منافقوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے حالات سے انہیں مطلع کرتے رہیں اور ایسے مسلمانوں کی نیت میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس لحاظ سے ان کی یہ اطلاعات مسلمانوں کے حق میں مفید بھی ہوسکتی ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور بےجگری سے لڑنے کے واقعات منافقوں سے بیان کریں گے تو خواہ مخواہ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت قائم ہوگی۔ تاہم اس آیت میں مسلمانوں کو یہی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں بھی تمہیں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی یہی سادہ لوحی تمہارے لیے کسی فتنہ کا موجب نہ بن جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا : اس میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ان کا نہ نکلنا ہی تمہارے لیے بہتر تھا، کیونکہ یہ لوگ ساتھ جا کر مزید خرابی ہی پیدا کرتے اور تمہارے درمیان فساد ڈالنے کی نیت سے ہر طرح کی دوڑ دھوپ کرتے، کبھی کسی کی چغلی کھاتے، کبھی ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی تدبیریں سوچتے، انھی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں نکلنے کی توفیق نہیں دی۔ وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ : تبوک کے لیے نکل آنے والوں میں بعض لوگ منافقین کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سے دوسرے تمام مجاہدوں کو خبردار کیا ہے کہ تم میں سے بعض سادہ دل ان کی باتیں بڑے غور سے سنتے ہیں، حالانکہ ایسے بددلی پھیلانے والوں کی بات سننی بھی نہیں چاہیے۔ ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کے لیے جاسوسی کرتے ہیں، یعنی تمہاری کمزوریاں انھیں پہنچاتے ہیں۔ ” بِالظّٰلِمِيْنَ “ کے الف لام برائے عہد کی وجہ سے ” ان ظالموں کو “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب جاننے والا ہے جو اس کام کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر بھی ظلم کر رہے ہیں اور دوسروں میں افتراق اور شبہات پیدا کرکے ان پر بھی ظلم کرتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fifth (47) verse, it was explained that the hypocrites had procured the permission to stay away from Jihad by deceit and now it was better that they just did not participate in it. Had they gone there, they would have done nothing but hatch conspiracies, circulate rumors and spread disorder. The Qur&anic statement: وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ (And among you there are their listeners) means that, among Muslims, there were some simple people too, people who could be easily taken advantage of and who may have likely been affected by their false rumors.

پانچویں آیت میں دھوکہ سے اجازت لینے والے منافقین کا یہ حال بھی بتلا دیا گیا کہ ان کا جہاد میں نہ جانا ہی بہتر تھا، اگر یہ جاتے تو سازشوں اور جھوٹی خبروں سے فساد ہی پھیلاتے (آیت) وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَهُمْ یعنی تم میں کچھ بھولے بھالے مسلمان ایسے بھی ہیں جو ان کی جھوٹی افواہوں سے متاثر ہو سکتے تھے “

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ خَرَجُوْا فِيْكُمْ مَّا زَادُوْكُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا۟اَوْضَعُوْا خِلٰلَكُمْ يَبْغُوْنَكُمُ الْفِتْنَۃَ۝ ٠ ۚ وَفِيْكُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِـمِيْنَ۝ ٤٧ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ خبل الخَبَالُ الفساد الذي يلحق الحیوان فيورثه اضطرابا، کالجنون والمرض المؤثّر في العقل والفکر، ويقال : خَبَلٌ وخَبْلٌ وخَبَال، ويقال : خَبَلَهُ وخَبَّلَهُ فهو خَابِل، والجمع الخُبَّل، ورجل مُخَبَّل، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران/ 118] ، وقال عزّ وجلّ : ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة/ 47] ، وفي الحدیث : «من شرب الخمر ثلاثا کان حقّا علی اللہ تعالیٰ أن يسقيه من طينة الخبال» ( خ ب ل ) الخبال والخبل والخبل ۔ اس فساد یا خرابی کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو لاحق ہوکر اس میں اضطراب اور بےچینی پیدا کردے ۔ جیسے جنون یا وہ مرض جو عقل وفکر پر اثر انداز ہو ، کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا [ آل عمران/ 118] مومنوں ( کسی غیر ( مزہب کے آدمی ) کو اپنا راز دان نہ بنانا ۔ یہ لوگ تمہاری خرابی ( اور فتنہ انگیزی کرنے ) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ ما زادُوكُمْ إِلَّا خَبالًا [ التوبة/ 47] تو تمہارے حق میں شرارت کرتے ۔ اور حدیث میں ہے : ۔ جو شخص تین مرتبہ شراب پئے گا تو اللہ تعالیٰ اسے لازما دو زخیوں کی پیپ پلائے گا ۔ وضع الوَضْعُ أعمّ من الحطّ ، ومنه : المَوْضِعُ. قال تعالی: يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] ويقال ذلک في الحمل والحمل، ويقال : وَضَعَتِ الحملَ فهو مَوْضُوعٌ. قال تعالی: وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] ، وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] فهذا الوَضْعُ عبارة عن الإيجاد والخلق، ووَضَعَتِ المرأةُ الحمل وَضْعاً. قال تعالی: فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] فأما الوُضْعُ والتُّضْعُ فأن تحمل في آخر طهرها في مقبل الحیض . ووَضْعُ البیتِ : بناؤُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] ، وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] هو إبراز أعمال العباد نحو قوله : وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] ووَضَعَتِ الدابَّةُ تَضَعُ في سيرها وَضْعاً : أسرعت، ودابّة حسنةُ المَوْضُوعِ ، وأَوْضَعْتُهَا : حملتها علی الإسراع . قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] والوَضْعُ في السیر استعارة کقولهم : ألقی باعه وثقله، ونحو ذلك، والوَضِيعَةُ : الحطیطةُ من رأس المال، وقد وُضِعَ الرّجلُ في تجارته يُوضَعُ : إذا خسر، ورجل وَضِيعٌ بيّن الضعَةِ في مقابلة رفیع بيّن الرّفعة . ( و ض ع ) الواضع ( نیچے رکھ دینا ) یہ حطه سے عام ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَكْوابٌ مَوْضُوعَةٌ [ الغاشية/ 14] اور آبخورے ( قرینے سے ) رکھے ہوئے ۔ اور اسی سے موضع ہے جس کی جمع مواضع آتی ہے جس کے معنی ہیں جگہیں یا موقعے جیسے فرمایا : ۔ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَواضِعِهِ [ النساء/ 46] یہ لوگ کلمات ( کتاب ) کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ۔ اور وضع کا لفظ وضع حمل اور بوجھ اتارنے کے معنی میں آتا ہے چناچہ محاورہ ہے وضعت لمرءۃ الحمل وضعا عورت نے بچہ جنا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلَمَّا وَضَعَتْها قالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها أُنْثى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِما وَضَعَتْ [ آل عمران/ 36] جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا اور جو کچھ ان کے ہاں پیدا ہوا تھا خدا کو خوب معلوم تھا تو کہنے لگیں کہ پروردگار میرے تو لڑکی ہوئی ہے ۔ لیکن الوضع والتضع کے معنی عورت کے آخر طہر میں حاملہ ہونے کے ہیں ۔ وضعت الحمل میں نے بوجھ اتار دیا اور اتارے ہوئے بوجھ کو موضوع کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ وَالْأَرْضَ وَضَعَها لِلْأَنامِ [ الرحمن/ 10] اور اسی نے خلقت کے لئے زمین بچھائی ۔ میں وضع سے مراد خلق وایجا د ( یعنی پیدا کرنا ) ہے اور وضع البیت کے معنی مکان بنانے کے آتے ہیں چناچہ قرآن پا ک میں ہے : ۔ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ [ آل عمران/ 96] پہلا گھر جو لوگوں کے عبادت کرنے کیلئے بنایا کیا گیا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَوُضِعَ الْكِتابُ [ الكهف/ 49] اور عملوں کی کتاب کھول کر رکھی جائے گی ۔ میں وضع کتاب سے قیامت کے دن اعمال کے دفتر کھولنا اور ان کی جزا دینا مراد ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ كِتاباً يَلْقاهُ مَنْشُوراً [ الإسراء/ 13] اور قیامت کے دن وہ کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا ۔ وضعت ( ف ) الدابۃ فی سیر ھا : سواری تیز رفتاری سے چلی اور تیز رفتار سواری کو حسنتہ المواضع ( وحسن المواضع کہا جاتا ہے ۔ اوضع تھا میں نے اسے دوڑایا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں ( فساد دلوانے کی غرض ) سے دوڑے دوڑے پھرتے ۔ اور وضع کا لفظ سیر یعنی چلنے کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ القی باعہ وثقلہ : میں قیام کرنے سے کنایہ ہوتا ہے ۔ الوضیعۃ :( رعایت ) کمی جو اصل قمیت میں کی جائے اس نے تجارت میں نقصان اٹھایا رجل وضیع : نہایت خسیس آدمی ( باب کرم ) یہ رفیع کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بلند قدر کے ہیں ۔ خل ( درمیان) الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، قال الشاعر : أرى خلل الرّماد ومیض جمروَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد . ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ سمعون ۔ سمع سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ سماع کی جمع ۔ خوب کان لگا کر سننے والے، جاسوس، کان لگا کر سننا۔ کبھی تو جاسوسی کے لئے ہوگا۔ اور کبھی قبول کرنے اور ماننے کیلئے آیۃ ہذا میں اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (لو خرجوا فیکم مازادوکم الا خبالاً ولا وضعوا خللکم یبغونکم الفتنۃ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لئے دوڑ دھوپ کرتے) آیت میں ان کی اس نیت کا ذکر ہے جسے لے کر وہ مسلمانوں کے ساتھ نکلتے، اگر انہیں نکلنے کا ارادہ ہوتا۔ آیت میں یہ بتادیا گیا کہ ان کانہ نکلنا ہی مسلمانوں کے مفاد میں تھا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت (لواذنت لھم) میں جس انداز سے خطاب فرمایا تھا وہ اس پر مبنی تھا کہ اللہ کو اس بات کا علم تھا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منافقین کو بیٹھ رہنے کی اجازت نہ بھی دیتے تو بھی یہ نہ نکلتے اور اس طرح ان کا کذب اور منافق مسلمانوں پر واضح ہوجاتا اب اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ اگر یہ نکل بھی پڑتے تو مذکورہ بالا نیت اور ارادے کے ساتھ ان کا نکلنا سراسر معصیت اور کفر ہوتا اور مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا۔ قول باری (مازادوکم الا خبالاً ) میں خیال کے معنی رائے کا اضطراب اور انتشار کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اگر یہ لوگ لشکر اسلام کے ساتھ نکل بھی پڑتے تو پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے، دلوں میں فساد پیدا کرنے اور دشمنوں کے مقابلہ میں انہیں پست ہمت کرنے کی پوری کوشش کرتے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی آراء میں انتشار اور اضطراب پیدا ہوجاتا اور ان کی یکسوئی اور یک جہتی ختم ہوجاتی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے (مازادوکم الا خبالا) کیوں فرمایا حالانکہ مسلمانوں میں کوئی فکری انتشار نہیں تھا جس میں یہ منافقین اضافہ کردیتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس فقرے میں دو معنوں کا احتمال ہے ایک تو یہ کہ استثناء منقطع ہے اور اس صورت میں عبارت کچھ اس طرح ہے ” مازادوکم قوۃ لکن طلبوا لکم الخیال “ (یہ تمہاری قوت میں اضافے کا سبب نہ بنتے البتہ تمہارے اندر فکری انتشار پیدا کرنے کا کوئی وسیلہ ضرور تلاش کرتے) دوسرا احتمال یہ ہے کہ انتشار آراء کی یہ کیفیت مسلمانوں کے کسی گروہ میں موجود ہو جس کی بنیاد طبیعتوں کی تلون مزاجی ہو اور پھر بعد میں ان کی آراء میں ٹھہرائو اور مستقل مزاجی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہو۔ ایسے لوگوں کی تلون مزاجی کو منافقین کی حرکتوں سے تقویت ملتی اور ان کے خیالات درست راستے سے بھٹک کر فکری انتشار کے شکار ہوجاتے۔ قول باری (ولا دفعوا خلاکم) کی تفسیر میں حسن کا قول ہے کہ یہ لوگ تمہارے آپ کے تعلقات بگاڑنے کے لئے ایک دوسرے کی چغلی کھات اور اس مقصد کے لئے دوڑ دھوپ کرتے۔ قول باری (یبغونکم الفتنۃ) میں فتنہ سے مراد وہ آزمائش اور ابتلاء ہے جو مسلمانوں کو ان کے آپس کے اختلافات اور فکری انتشار کی بنا پر پیش آتی۔ فتنہ سے کفر مراد لینا بھی درست ہے اس لئے کہ کفر کو اسی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قول باری ہے (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ۔ اور ان سے لڑو حتیٰ کہ کوئی فتنہ یعنی کفر باقی نہ رہے) اسی طرح ارشاد ہے (والفتنۃ اشد من القتل۔ اور فتنہ یعنی کفر قتل سے بھی زیادہ گھنائونا جرم ہے) ۔ قول باری ہے (وفیکم سماعون لھم۔ اور تمہارے گروہ کا یہ حال ہے کہ ابھی اس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگا کر سنتے ہیں) حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ ان کے جاسوس تمہارے اندر موجود ہیں جو تم سے باتیں سن کر انہیں پہنچا دیتے ہیں۔ قتادہ اور ابن اسحاق کا قول ہے کہ تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو ان منافقین کی باتیں سن کر انہیں قبول کرلیتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٧) اور اگر یہ آپ کے ساتھ شرک کر بھی لیتے تو اور دگنا شر و فساد برپا کرتے اور تمہارے درمیان اونٹوں پر شر و فساد اور ذلت وعیب جوئی کرنے کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے اور اب بھی تمارے ساتھ ان کافروں کے جاسوس موجود ہیں اور ان منافقوں یعنی عبداللہ بن اوبی اور اس کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ خوب سمجھے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ الاَّ خَبَالاً ) ان کے دلوں میں چونکہ روگ تھا ‘ اس لیے لشکر کے ساتھ جا کر بھی یہ لوگ فتنے ہی اٹھاتے ‘ لڑائی جھگڑا کرانے کی کوشش کرتے اور سازشیں کرتے۔ لہٰذا ان کے بیٹھے رہنے اور سفر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہ جا نے میں بھی بہتری پوشیدہ تھی۔ گویا بندۂ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح خیر ہی خیر ہے ‘ جبکہ منافق کے لیے ہر حالت میں شر ہی شر ہے۔ (وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ ج) (وَفِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ ) اس کا دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ تمہارے درمیان ان کی باتیں سننے والے بھی ہیں۔ یعنی تمہارے درمیان ایسے نیک دل اور سادہ لوح مسلمان بھی ہیں جو ان منافقین کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کے ان منافقین کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی ہیں اور وہ ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں۔ چناچہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے اور کوئی فتنہ اٹھاتے تو عین ممکن تھا کہ تمہارے وہ ساتھی اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کے اٹھائے ہوئے فتنے کا شکار ہوجاتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

40: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض سادہ لوح مسلمان ان لوگوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں، اس لیے ان کی باتیں سن کر انہیں خلوص پر مبنی سمجھتے ہیں اس لیے اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لشکر میں موجود ہوتے تو ان سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلا کر فساد کا بیج بونے کی کوشش کرتے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگرچہ یہ منافقین خود تو لشکر میں شامل نہیں ہوئے لیکن ان کے جاسوس تمہاری صفوں میں موجود ہیں جو تمہاری باتیں سنتے ہیں، اور جن باتوں سے منافقین کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہوں، ان کی خبریں ان تک پہنچا تے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:47) خرجوا فیکم۔ ای خرجوا معکم۔ خبالا۔ فساد۔ تباہی۔ خبل یخبل (نصر) سے مصدر ہے۔ وہ خرابی یا فساد کہ جس کے لاحق ہونے سے کسی جاندار میں اضطراب اور بےچینی پیدا ہوجائے۔ مثلاً جنون یا ایسا مرض جو عقل اور فکر پر اثر انداز ہو اے خبال کہتے ہیں۔ لااوضعوا۔ لام تاکید الف لام زائدہ۔ اوضعوا۔ اوضع یوضع ایضل (افعال) آرام سے یا تیز چلنا۔ آرام سے یا تیزی سے اونٹ کا چلانا۔ ماضی جمع مذکر غائب وضع مادہ یہ لفظ مختلف المعانی ہے وضع نیچے رکھنا۔ موصع رکھنے کی جگہ۔ وضع کرنا۔ کم کرنا۔ تواضع۔ انکساری وغیرہ۔ خللکم تمہارے درمیان۔ مضاف مضاف الیہ۔ خلال بمعنی درمیان ۔ بیچ۔ وسط۔ خلل کی جمع۔ جس کے معنی دو چیزوں کے درمیان کشادگی۔ ینغونکم۔ اوضعوا۔ کا حال ہے یعنی وہ تمہارے درمیان بھاگیں دوڑیں گے تمہارے درمیان فتنہ ڈالنے کے لئے کوشش کرتے ہوئے۔ یبغون۔ مضارع جمع مذکر غائب وہی چاہتے ہیں تمہارے لئے۔ ای یبغون لکم۔ سمعون۔ سمع سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ سماع کی جمع ۔ خوب کان لگا کر سننے والے، جاسوس، کان لگا کر سننا۔ کبھی تو جاسوسی کے لئے ہوگا۔ اور کبھی قبول کرنے اور ماننے کیلئے آیۃ ہذا میں اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 کیونکہ اگر یہ اس بددلی کے ساتھ نکلتے بھی تو بجائے اس کے مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بنتے ان میں بھی بددلی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ معلوم ان سے کتنی خرابیا ظاہر ہوتیں۔ ( از وحیدی)3 یا فساد کی نیت سے تمہارے درمیان دوڑتے پھر تے کبھی کسی کو چغلی کھاتے کبھی ایک مسلمان کو دوسرے سے لڑانے کوشش کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے حوصلے پست کر کی کی تدبیریں سو چتے انہی وجوہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو نکلنے کی توفیق نہیں دی۔ (کبیر)4 یعنی ایسے سیدھے سادے لوگ جو ان کی باتوں میں جاتے۔ اس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی جاسوسی کرتے ہیں یعنی تمہاری کمزوریاں انہیں پہنچاتے ہیں۔ (از کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 47 تا 49 مازادوا (انہوں نے اضافہ نہ کیا) خبال (خرابی) اوضعوا (وہ دوڑتے پھرتے ہیں) خللکم (تمہارے درمیان) یبغون (وہ تلات کرتے ہیں) سمعون (بہت سننے والے، جاسوس) قلبوا (انہوں نے الٹا ہے) لاتقتنی (مشکل میں نہ ڈالے (سقطوا (وہ گر پڑے) تشریح آیت نمبر 47 تا 49 گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس غزوہ تبوک کے موقع پر جہاں وہ اہل ایمان ہیں جو اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے ہر طرح اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں سر دھڑ کی بازی لگا چکے ہیں وہیں وہ منافق بھی ہیں جو اس موقع پر عذر اور معذرت کر رہے ہیں ان ہی آیات کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب انہوں نے اپنا مزاج ہی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم نہ ماننے کا بنا لیا ہے تو اللہ نے بھی ان کو اس نیک عمل میں شرکت کی توفیق نہیں دی۔ اہل ایمان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کا پیچھے بیٹھ رہنا تمہارے لئے مفید بھی ہے۔ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ نکلتے تو سوائے خرابی کے اور کچھ پیدا نہ کرتے، فتنے پھیلانا، غلط پروپیگنڈا کرنا، طرح طرح کی افواہیں پھیلانا ان کا کام ہے۔ اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو ان کے فتنوں سے بچنا مشکل ہوجاتا۔ دراصل یہ پہلے بھی ایسی حرکتیں کرچکے ہیں اب بھی کر رہے ہیں اور ایسے لوگ اسی طرح کی حرکتیں کرتے رہیں گے اب ان کا کام دوسروں کے لئے تمہاری جاسوسی کرنا ہے اور کہتے ہیں یہ ہیں یہیں رہنے کی اجازت دیجیے اور ہمیں کسی آزمائش میں نہ ڈالئے۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ آزمائشوں سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں یہ تو اس میں مبتلا ہوچکے ۔ اب تو صرف ایک بات کی کمی ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے اور یہ بن کر رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی لگائی بجھائی کرکے آپس میں تفریق ڈلواتے اور جھوٹی خبریں اڑا کر پریشان کرتے دشمن کا رعب تمہارے قلوب میں ڈالنے کی کوشش کرتے اس لیے ان کا نہ جاناہی اچھا ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پست ہمت اور بزدل وری فوج کو پست ہمت اور بزدل بنا دیتے ہیں اور خیانت کار پوری سوسائٹی کو خائن بنا دیتے ہیں۔ اگر یہ منافقین مسلمانوں کے ہمراہی بن بھی جاتے تو اسلام صفوں کے اندر بےچینی ، بد دلی اور انتشار پیدا کردیتے اور اسلامی فوج کے اندر فتنہ و فساد اور تفرقہ اور خذلان پیدا کردیتے ، یہ اس لیے کہ مسلمانوں کے اندر بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کے ان سابقہ قائدین کے ساتھ سماجی تعلقات تھے اور ابھی تک مسلمان ان لوگوں کی باتوں پر کان دھرتے تھے لیکن اللہ اپنی دعوت کا محافظ خود تھا اور وہ داعیوں کی نگہبانی بھی اپنی نگرانی میں کر رہا تھا۔ اللہ نے موممنین کو فتنے سے اس طرح بچایا کہ منافقین اور ذلیل لوگ بی تھے ہی رہ گئے۔ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ : " اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے " یہاں ظالموں سے مراد مشرک ہیں۔ زیر بحث لوگوں کو بھی اللہ نے مشرکین کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔ ان کا ماضی ان کے دلوں کا غماز ہے۔ اور ان کی بدفطرتی پر ان کی تاریخ گواہ ہے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول خدا کی راہ روکی۔ اور تحریک اسلامی کی مخالفت میں انہوں نے وہی کچھ کیا جو ان لوگوں کے بس میں تھا۔ لیکن جب تحریک اسلامی غالب ہوئی تو انہوں نے سر تسلیم خم کردیا البتہ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری موجود رہی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ اے مسلمانو ! ان کے نہ جانے سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ فائدہ ہی ہوا۔ کیونکہ اگر یہ تمہارے ساتھ نکل جاتے تو تمہارے بارے میں شر اور فساد کو بڑھانے ہی کا کام کرتے۔ اور تمہارے درمیان فتنہ پر دازی کی فکر میں دوڑے دوڑے پھرتے۔ مثلاً لگائی بجھائی کرتے تمہارے دلوں کو مرعوب کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگتے۔ مزید فرمایا (وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ ) (اور تمہارے اندر ایسے لوگ ہیں جو ان کے لیے جاسوسی کرتے ہیں) گو ساتھ چل کر آگئے ہیں لیکن ان کی نیت جہاد فی سبیل اللہ کی نہیں ہے۔ تمہارے اندر گھل مل کر تمہاری خبریں لینا اور ان لوگوں کو پہنچانا جو تمہارے ساتھ نہیں آئے، یہ ان کا مشغلہ ہے۔ (وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بالظّٰلِمِیْنَ ) (اور اللہ کو ظالموں کا پوری طرح علم ہے) وہ ان کے ظلم کا بدلہ دے گا۔ اس کے بعد منافقین کی جماعت کی پرانی شرارتوں کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:“ خبالاً ” یعنی فساد اور خرابی “ وَلَاَوْضَعُوْا ”۔ لا نافیہ نہیں بلکہ لام ابتدائیہ برائے تاکید ہے۔ “ یَبْغُوْنَ ”“ اَوْضَعُوْا ” کی ضمیر سے حال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تو تمہیں فائدہ پہنچانے کی بجائے اپنی شرارتوں سے فساد اور خرابی ہی بپا کرتے اور چغلی کے ذریعے تمہارے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ عین “ و لاسرعوا فیکم و ساروا بینکم بالقاء النمیمة ” (خازن ج 3 ص 104) ۔ “ وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَھُمْ ” یعنی کچھ منافقین تم میں رہ کر اپنے اکابر اور سرداروں کے لیے جاسوسی کا کام کرتے ہیں اور تمہارے پوشیدہ راز ان تک پہنچاتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

47 اگر یہ لوگ تم میں شامل ہوکر نکل بھی چلتے تو تم میں سوائے اس کے فساد اور خرابی پھیلاتے یہ اور کیا کرتے اور تم میں فتنہ و فساد پھیلانے کی تلاش میں ادھر سے ادھر دوڑے پھرتے اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کی فکر میں گھوڑے دوڑاتے پھرتے اور تم میں اب بھی ان کے جاسوس موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں اور شریروں کو خوب جانتا ہے۔ جب نیت ہی خراب ہو تو ایسے لوگوں کی شرکت سے سوائے فتنہ و فساد کے کسی خیر کی امید کیوں کرہوسکتی ہے۔