Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 49

سورة التوبة

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۴۹﴾

And among them is he who says, "Permit me [to remain at home] and do not put me to trial." Unquestionably, into trial they have fallen. And indeed, Hell will encompass the disbelievers.

ان میں سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں نہ ڈالیئے آگاہ رہو وہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً دوزخ کافروں کو گھیر لینے والی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells, وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ... And among them is he who says: Allah says, some hypocrites say to you, O Muhammad, ... ايْذَن لِّي ... Grant me leave, (to stay behind), ... وَلاَ تَفْتِنِّي ... and put me not into trial, if I go with you and see the women of the Romans. Allah, the Exalted, replied, ... أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ ... Surely, they have fallen into trial, because of the statement they uttered. Muhammad bin Ishaq reported from Az-Zuhri, Yazid bin Ruwman, Abdullah bin Abi Bakr, Asim bin Qatadah and several others that they said, "The Messenger of Allah said to Al-Jadd bin Qays from Bani Salimah, هَلْ لَكَ يَا جَدُّ الْعَامَ فِي جَلَدِ بَنِي الاَْصْفَرِ `Would you like to fight the yellow ones (Romans) this year? He said, `O Allah's Messenger! Give me permission (to remain behind) and do not cause Fitnah for me. By Allah! My people know that there is not a man who is more fond of women than I. I fear that if I see the women of the yellow ones, I would not be patient.' The Messenger of Allah turned away from him and said, قَدْ أَذِنْتُ لَك I give you permission. In Al-Jadd's case, this Ayah was revealed, وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ ايْذَن لِّي وَلاَ تَفْتِنِّي (And among them is he who says: "Grant me leave and put me not into trial)." Therefore, Allah says that the Fitnah that he fell into because of not joining the Messenger of Allah (in Jihad) and preferring his safety to the safety of the Messenger is worse than the Fitnah that he falsely claimed to fear." It was reported from Ibn Abbas, Mujahid and several others that; this Ayah was revealed in the case of Al-Jadd bin Qays, who was among the chiefs of Bani Salimah. It is also recorded in the Sahih that the Messenger of Allah asked, مَنْ سَيِّدُكُمْ يَا بَنِي سَلَمَةَ Who is your chief, O Bani Salamah? They said, "Al-Jadd bin Qays, although we consider him a miser." The Messenger of Allah said, وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ وَلَكِنْ سَيِّدُكُمْ الْفَتَى الْجَعْدُ الاْأَبْيَضُ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُور There is not a disease worse than stinginess! Therefore, your chief is the white young man with curly hair, Bishr bin Al-Bara' bin Ma'rur. Allah said next, ... وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ And verily, Hell is surrounding the disbelievers. and they will never be able to avoid, avert, or escape from it.

جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر جد بن قیس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا ؟ تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بےطرح شیدنائی ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا ۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کہ کیا کم فتنہ ہے؟ یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ تو انہوں نے کہا جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے ۔ آپ نے فرمایا بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت حضرت بشر بن برا بن معرور ہیں ۔ جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 ' مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ' کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے فتنہ، گناہ کے معنی میں ہوگا۔ یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے، دوسرا مطلب فتنے کا، ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لیجاکر ہلاکت میں نہ ڈالیں کہا جاتا ہے کہ جد ابن قیس نے عرض کیا مجھے ساتھ نہ لے جائیں، روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کرسکوں گا۔ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخ پھیرلیا اور اجازت دے دی۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' فتنے میں جو گزر چکے ہیں ' یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہی ہیں۔ اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیر لینے والی ہے، جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لئے نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] جد بن قیس منافق کا عذر لنگ :۔ جب رسول اللہ نے جدبن قیس منافق کو رومی کافروں سے جہاد کے لیے کہا تو کہنے لگا && اگرچہ میری کئی بیویاں ہیں مگر میں ایک حسن پرست آدمی ہوں اور روم کی عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کسی فتنہ میں نہ پڑجاؤں اور میری اس عادت کو میری قوم جانتی ہے لہذا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے معاف فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بدبخت فتنہ میں تو پہلے پڑچکا ہے اب اگر اپنی باطنی خباثت کو چھپا کر اس پر ظاہری تقدس اور تقویٰ کا پردہ ڈال رہا ہے تو یہ فتنہ نہیں تو کیا ہے۔ اور دوسرا فتنہ وہ ہے جس میں یہ سارے ہی منافق پڑگئے ہیں۔ مسلمان تو جہاد کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور یہ منافق اس فتنہ میں مبتلا ہیں کہ اب کریں تو کیا کریں، ان کے لیے اس سے بڑا فتنہ کیا ہوگا کہ صاف انکار بھی نہیں کرسکتے اور جانے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ ان کے لیے تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ : فتنے کا معنی یہاں گناہ میں مبتلا ہونا کیا گیا ہے اور ہلاکت بھی۔ اس کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ آپ مجھے اتنی شدید گرمی میں اتنے طویل و پر مشقت سفر اور جنگ کا حکم دے کر گناہ میں نہ ڈالیں، کیونکہ اگر میں آپ کے حکم کے بعد نہ گیا تو گناہ گار ہوں گا اور گیا تو ہلاکت کا خطرہ ہے، ادھر گھر اکیلے رہ جائیں گے اور اہل و عیال ہلاک ہوجائیں گے، اس لیے آپ خود ہی مجھے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دے کر اس فتنے سے بچا لیں۔ یہ تفسیر الفاظ کے قریب ہے، جنگ خندق میں بھی منافقین کے بہانوں میں سے ایک بہانہ گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا تھا۔ دیکھیے سورة احزاب (١٣) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک منافق جد بن قیس نے یہ بہانہ بنایا کہ یا رسول اللہ ! رومی عورتیں بہت خوبصورت ہیں، اگر میں وہاں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا، اس لیے آپ مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ (ہاں، میں مال خرچ کرکے مدد کروں گا) ۔ [ المعجم الکبیر : ٢؍٢٧٥، ح : ٢١٥٤۔ أبونعیم فی المعرفۃ ] اسے ” ہدایۃ المستنیر “ والے نے ضعیف کہا ہے اور ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ والوں نے حسن کہا ہے۔ (واللہ اعلم ! ) اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا : یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑجائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں کہ جہاد پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ ” فِي الْفِتْنَةِ “ پہلے لانے سے حصر کا معنی حاصل ہوتا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی فتنہ ہوگا اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونا خود ایک فتنہ ہے، اب تو حیلے بہانے تراش کر یہ نکل جائیں گے، مگر جہنم کے گھیرے سے کیسے نکل پائیں گے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the seventh verse (49), after citing a particular excuse made by a noted hypocrite called Jadd ibn Qays, a comment has been made which shows how astray he had gone. The excuse for not going on Ji¬had he came up with was that he happened to be a young man. If he went out against the Roman Christians in their territory, there were chances that he might fall into the snare of their beautiful women! (` Do not expose me to an ordeal& ) The Qur&an responded by saying: أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا (Look! they have already fallen into an ordeal). It means that such people were not very smart. They were trying to hide behind the excuse of an imaginary ordeal, not realizing that they had already fal¬len into the sin of a certain ordeal, the ordeal of acting against the command of Allah and His Messenger, and of deserting the Jihad ef¬fort, right on the spot. The last sentence of the verse: وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِ‌ينَ (and certainly the Jahannam has the disbelievers encircled) could have two meanings. It could either mean that the Hell would encircle them in the Hereafter. Or, it could mean that the very chain of causes, which are operating to take them to Hell, and which have them all encircled at that time, are what has been equated with Hell. Given this interpretation, it would suggest that they happen to be, even now, within the larger circle of nothing but Hell.

چھٹی آیت میں ایک خاص منافق جد بن قیس کا ایک خا ص بہانہ ذکر کر کے اس کی گمراہی بیان فرمائی، اس نے جہاد میں جانے سے یہ عذر پیش کیا تھا کہ میں نوجوان آدمی ہوں، رومیوں کے مقابلہ پر جاؤں گا تو ان کی حسین عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے، قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا، کہ یہ بیوقوف ایک موہوم فتنہ کا بہانہ کرکے ایک یقینی فتنہ یعنی امر رسول کی خلاف ورزی اور ترک جہاد کے گناہ میں فی الحال مبتلا ہوگئے۔ (آیت) ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ ، یعنی جہنم ان سب کافروں کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے جس سے نکل نہیں سکتے، اس کی مراد یا تو یہ ہے کہ آخرت میں جہنم ان کو گھیرے میں لے لی گی اور یا یہ کہ جہنم میں پہنچنے کے اسباب جو اس وقت ان کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں، انہی کو جہنم سے تعبیر فرما دیا، اس معنی کے اعتبار سے گویا فی الحال بھی یہ لوگ جہنم ہی کے دائرہ میں ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ۝ ٠ ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا۝ ٠ ۭ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِيْطَۃٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝ ٤٩ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ سقط السُّقُوطُ : طرح الشیء، إمّا من مکان عال إلى مکان منخفض کسقوط الإنسان من السّطح، قال تعالی: أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] ، وسقوط منتصب القامة، وهو إذا شاخ وکبر، قال تعالی: وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] ، وقال : فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] ، والسِّقَطُ والسُّقَاطُ : لما يقلّ الاعتداد به، ومنه قيل : رجل سَاقِطٌ لئيم في حَسَبِهِ ، وقد أَسْقَطَهُ كذا، وأسقطت المرأة اعتبر فيه الأمران : السّقوط من عال، والرّداءة جمیعا، فإنه لا يقال : أسقطت المرأة إلا في الولد الذي تلقيه قبل التمام، ومنه قيل لذلک الولد : سقط «1» ، وبه شبّه سقط الزّند بدلالة أنه قد يسمّى الولد، وقوله تعالی: وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] ، فإنه يعني النّدم، وقرئ : تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] «2» ، أي : تسّاقط النّخلة، وقرئ : تُساقِطْ «3» بالتّخفیف، أي : تَتَسَاقَطُ فحذف إحدی التاء ین، وإذا قرئ ( تَسَاقَطْ ) فإنّ تفاعل مطاوع فاعل، وقد عدّاه كما عدّي تفعّل في نحو : تجرّعه، وقرئ : يَسَّاقَطْ عليك «4» أي : يسّاقط الجذع . ( س ق ط ) السقوط ( ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کے اوپر سے نیچے گرنے کے ہیں مثلا کسی انسان کا چھت سے گر پڑنا یا اس کا بوڑھا ہو کر نیچے جھک جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ يَرَوْا كِسْفاً مِنَ السَّماءِ ساقِطاً [ الطور/ 44] اور اگر یہ آسمان ( سے عذاب ) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں ۔ فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ [ الشعراء/ 187] تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لا گراؤ اور اس کے معنی قدر و قیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گر جانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ أَلا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا[ التوبة/ 49] دیکھو یہ آفت میں پڑے گئے ۔ السقط والسقاطۃ ناکاری اور ردی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رجل ساقط ہے جس کے معنے کمینے آدمی کے ہیں ۔ اسقطہ کذا : فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا ۔ اور اسقط المرءۃ ( عورت نے نا تمام حمل گرا دیا ) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنی اکٹھے پائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ اسقطت المرءۃ اس وقت بولتے ہیں جب عورت نا تمام بچہ گرا دے اور اسی سے نا تمام بچہ کو سقط یا سقط کہا جاتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی ( ناقص ) چنگاری کو سقط الزند کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمَّا سُقِطَ فِي أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 149] اور جب وہ نادم ہوئے ۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے ۔ اور آیت : ۔ تُساقِطْ عَلَيْكِ رُطَباً جَنِيًّا[ مریم/ 25] تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی ۔ میں ایک قراءت تساقط بھی ہے اور اس کا فاعل نخلۃ ہے اور ایک قراءت میں تساقط ہے جو اصل میں تتساقط فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاۃ محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فاعل کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ تجرعہ میں باب تفعل متعدی ہے ۔ اور ایک دوسری قرات میں یساقط ( صیغہ مذکر ) ہے اس صورت میں اس کا فاعل جذع ہوگا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ومنھم من یقول ائذن لی ولا تفتنی ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے رخصت دے دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے) حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ آیت کا نزول الجدبن قیس کے بارے میں ہوا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے غزوہ تبوک پر جب چلنے کے لئے فرمایا تو کہنے لگا کہ ” مجھے رخصت دے دیجئے اور شام میں لے کر زرد رنگ رومیوں کی عورتوں کے فتنے میں نہ ڈالیے، اس لئے کہ میں عورتوں کے معاملہ میں بڑا دل پھینک واقع ہوا ہوں۔ “ حسن، قتادہ اور ابو عبیدہ کے نزدیک اس کا مفہوم ہے۔ ” اس مخالفت کی وجہ سے جو پھوٹ او تفرقہ کا موجب ہے مجھے عصیان میں مبتلا کرکے گنہگار نہ کیجئے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) اور ان منافقین میں سے جدی بن قیس ایسا ہے جو گھر رہنے کی اجازت مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ روم کی لڑکیوں کی خرابی میں مجھے نہ ڈالیے، حالانکہ خود یہ لوگ شرک ونفاق کی خرابیوں میں مبتلا ہیں اور قیامت کے دن دوزخ ان کو گھیر لے گی ، شان نزول : (آیت) ” ومنہم من یقول “۔ (الخ) طبرانی (رح) ابونعیم (رح) اور مردویہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جدی بن قیس سے بھی شرکت کے لیے کہا وہ کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عورتوں والا آدمی ہوں، جس وقت میں بنی اصغر کی عورتوں کو دیکھوں گا تو فتنہ میں پڑجاؤں گا، لہذا مجھے جہاد میں نہ جانے کی اجازت دیجیے اور فتنہ میں نہ ڈالیے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان میں ایک شخص ایسا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ کو اجازت دیدیجئے۔ الخ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اءْذَنْ لِّیْ وَلاَ تَفْتِنِّیْ ط) یہ منافق اور مردود شخص جد بن قیس تھا (لعنۃ اللہ علیہ) ۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ تبوک کے لیے تیاری کا اعلان فرمایا تو یہ شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور عجیب استہزائیہ انداز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت چاہی کہ حضور مجھے تو رہنے ہی دیں ‘ کیونکہ میں حسن پرست قسم کا انسان ہوں اور لشکر جا رہا ہے شام کے علاقے کی طرف ‘ جہاں کی عورتیں بہت حسین ہوتی ہیں۔ میں وہاں کی خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر خود پر قابو نہیں رکھ سکوں گا اور فتنہ میں مبتلا ہوجاؤں گا ‘ لہٰذا آپ مجھے اس فتنے میں مت ڈالیں اور مجھے پیچھے ہی رہنے دیں۔ (اَلاَ فِی الْْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا ط) یعنی یہ شخص اور اس کے دوسرے ساتھی تو پہلے ہی بد ترین فتنے کا شکار ہوچکے ہیں جو اس طرح کے بہانے تراشنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ ان کا یہ رویہ جس سوچ کی غمازی کر رہا ہے اس سے مزید بڑا فتنہ اور کون سا ہوگا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :48 جو منافق بہانے کر کر کے پیچھے ٹھہر جانے کی اجازتیں مانگ رہے تھے ان میں سے بعض ایسے بے باک بھی تھے جو راہ خدا سے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے مذہبی و اخلاقی نوعیت کے حیلے تراشتے تھے ۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص جد بن قیس کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں ایک حسن پرست آدمی ہوں ، میری قوم کے لوگ میری اس کمزوری سے واقف ہیں کہ عورت کے معاملہ میں مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا ۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رومی عورتوں کو دیکھ کر میرا قدم پھسل نہ جائے ۔ لہٰذا آپ مجھے فتنے میں نہ ڈالیں اور اس جہاد کی شرکت سے مجھ کو معذور رکھیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :49 یعنی نام تو فتنے سے بچنے کا لیتے ہیں مگر درحقیقت نفاق اور جھوٹ اور ریاکاری کا فتنہ بری طرح ان پر مسلط ہے ۔ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے فتنوں کے امکان سے پریشانی و خوف کا اظہار کر کے یہ بڑے متقی ثابت ہوئے جا رہے ہیں ۔ حالانکہ فی الواقع کفر و اسلام کی فیصلہ کن کشمکش کے موقع پر اسلام کی حمایت سے پہلو تہی کر کے یہ اتنے بڑے فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے بڑھ کر کسی فتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :50 یعنی تقویٰ کی اس نمائش نے ان کو جہنم سے دُور نہیں کیا بلکہ نفاق کی اس لعنت نے انہیں جہنم کے چنگل میں اُلٹا پھنسا دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ منافقین میں ایک شخص جد بن قیس تھا۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو غزوہ تبوک میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں بڑا زن پرست آدمی ہوں، جب روم کی خوبصورت عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکے گا، اور میں فتنے میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ لہذا مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں اس جنگ میں شریک نہ ہوں، اور اس طرح مجھے فتنے میں مبتلا ہونے سے بچا لیجئے۔ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے (روح المعانی بحوالہ ابن المنذر وطبرانی وابن مردویہ)۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ طبرانی ابو نعیم ابن مردویہ مغازی محمد بن اسحاق اور ابن ابی حاتم میں جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ منافقین مدینہ میں ایک شخص قبیلہ بنی سلمہ کا سردار جد بن قیس تھا جس کی کنیت ابو وہب تھی تبوک کی لڑائی پر جانے اور نصرانیوں سے لڑنے کا جب آنحضرت نے اس سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ میں عورتوں سے زیادہ رغبت رکھتا ہوں شام کے ملک میں جاکر میں نصرانیوں کی عورتوں کو دیکھوں گا تو خواہ مخواہ فتنہ میں پڑجاؤں گا اس لئے مجھ کو تو مدینہ میں ہی چھوڑ جائیے اس پر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی اور فرما دیا کہ بڑا فتنہ نفاق کا ہے جس میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اس فتنہ کے سبب سے یہ ایسے جھوٹے عذر کرتے ہیں اور دنیا میں تو یہ لوگ اپنی ان دغابازی کی باتوں کو ہوشیاری اور دور اندیشی جان کر عمر بھی اسی حالت کی یہاں تک اچھا جانتے کہ غق بے میں بھی اپنی اس دغازبازی سے کام لینا چاہیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے اس کے سامنے ان کی دغا بازی کچھ نہ چل سکے گی اور آخر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم کے ساتویں طبقے میں ہوگا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن (رض) عمر کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق شخص کی مثال ایسی ہے جس طرح ریوڑ میں بکری وہ ریوڑ بکریوں کے دیکھ کر کبھی ایک ریوڑ میں جاتی ہے کبھی دوسرے میں مطلب یہ ہے کہ اپنی جان اپنا مال بچانے کی غرض سے منافق لوگ جب مسلمانوں میں آتے ہیں تو ان کی سی کہنے لگتے ہیں اور جب منافقوں میں جاتے ہیں تو ان کی سی کہنے لگتے ہیں غرض دونوں طرف زبانی دغابازی سے کام لیتے ہیں حقیقت میں دل سے یہ لوگ کسی طرح بھی نہیں ہیں بنی نضیر اور بنی قریظہ سے کہہ دیا کہ ہم ہر طرح سے تمہارے ساتھ میں اور وقت پر صاف الگ ہوگئے مسلمانوں کا ساتھ دینے پر ہمیشہ قسمیں کھاتے رہے اور احد کی لڑائی میں عین وقت پر تین سو آدمیوں کا لشکر اسلام سے جدا کردیا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) اور انس بن مالک (رض) کی روایتیں بھی گذر چکی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ منافق لوگ قیامت کے دن اپنے ظاہری سلام کا حال اللہ تعالیٰ کے روبرو ظاہر کر کے اپنی نجات کی توقع رکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگاویگا اور ان کے اعضاء کو ان کی اصلی حالت کی گواہی کے ادا کرنے کا حکم فرماویگا اور اعضا کی گواہی ان کے بازی کی حالت پر گذر جانے کہ بعد یہ لوگ آخر دوزخی قرار پاویں گے یہ حدیثیں منافقوں کی دنیا اور عقبے کی دغابازی اور اس دغابازی کے نتیجہ کی گویا تفسیر ہیں اسی واسطے فرمایا کہ یہ لوگ عورتوں کے سبب سے گمراہی میں پڑجانے کا کیا جھوٹا عذر کرتے ہیں ان کے پیچھے تو دنیا اور عقبے میں ایسی گمراہی لگی ہوئی ہے کہ جس کے سبب سے ہر وقت دوزخ کو چاروں طرف سے گویا انہوں نے اپنے سر پر کھڑا کر رکھا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:49) ائذن لی۔ تو رخصت سے۔ تو اجازت دے۔ اذن یاذن (سمع) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ اذن مصدر جس کے معنی ہیں اجازت دینا۔ لاتفتنی۔ فعل نہی۔ تو مجھے فتنہ میں نہ ڈال۔ تو مجھے آزمائش میں نہ ڈال۔ تو مجھے گمراہی میں نہ ڈال۔ فتن یفتن (ضرب) فتون سے۔ اصل میں لا تفتن تھا۔ ی ضمیر واحد متکلم اور اس سے قبل نون وقاریہ جس میں لاتفتن کا نون مدغم ہوا۔ تو مجھے آزمائش میں نہ ڈال یعنی میری مجبوری ایسی ہے کہ اگر آپ اجازت نہ دیں گے تو میں مجبورا تعمیل سے قاصر رہوں گا۔ اس لئے آپ جہاد میں جانے کے لئے حکم ہی نہ دیں تاکہ میں نافرمانی کی آزمائش سے بچ جاؤں۔ الا۔ حرف تنبیہ اور استفتاح (یعنی کلام کے شروع کرنے کے لئے ہے) یہاں بطور استفتاح کے استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ جب یہ شروع کلام میں آتا ہے تو اپنے مابعد کے مضمون پر زور دیتا ہے اور اس کے تحقق کو ثابت کرتا ہے جیسے الا انہم ھم السفہاء (2:13) خبر دار ہو کہ یہی بیوقوف ہیں۔ آیۃ ہذا میں ہے الا فی الفتنۃ سقطوا۔ خبردار رہو کہ فتنہ میں تو وہ پہلے ہی گر چکے۔ سقطوا۔ وہ گرپڑے۔ سقوط سے ماضی۔ جمع مذکر غائب۔ لمحیطۃ۔ اسم فاعل مؤنث۔ احاطۃ مصدر احاط یحیط اھاطۃ (باب افعال) حوط مادہ ۔ چاروں طرف سے گھیر لینے والی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یا مجھے ہلاکت میں نہ ڈالتے کیونکہ سخت گرمی کا زمانہ ہے اگر میں چلا گیا تو بعد میں میرے اہل و عیال کے ہلاک ہوجانے کا خطرہ ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ جدبن قیس ایک منافق نے یہ بہانا بنایا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! رومی عورتیں خوبصورت ہیں اگر میں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا۔ بنا بریں مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجئے۔ ہاں میں مال خرچ کر کے امداد کروں گا۔ ( ابن کثیر (ف 1 یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑجائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں۔ آخر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی فتنہ ہوگا اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونا بجائے خود ایک فتنہ ہے۔ اب تو یہ حیلے بہانے تراش کر مسلمونوں سے پیچھے رہ جائے گے مگر پھر وحی کے ذریعہ ان کی رسوائی ہوگی، (کبیر)11 کہیں بھات نکلنے کا ان کو موقع نہیں مل سکے گا۔ ( وحید)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس شخص کا نام جدبن قیس تھا اس نے یہ بہانہ تراشا تھا کہ میں عورتوں پر مفتون ہوجاتا ہوں اور رومیوں کی عورتیں حسین زیادہ ہیں جانے میں میرا دینی ضرر ہے اس لیے رخصت کا خواستگار ہوں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قرآن کریم ان لوگوں کی مختلف اقسام کی طرف اشارات کرتا ہے اور ان کے جعلی عذرات پر بھی کلام ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے خلاف ان کے سینوں میں کیا کیا عناد اور بغض بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف وہ کس قدر کینہ رکھتے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے زہری وغیرہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کی تیاریوں میں مصروف تھے (تبوک کے موقع پر) تو آپ نے بنو سلمہ کے بھائی جد ابن قیس سے کہا کہ جد کیا تم کو بنی اصغر (رومیوں) کے ساتھ جہاد میں دلچسپی ہے ؟ تو اس نے کہا حضور آپ مجھے اجازت ہی دے دیں اور فتنے میں نہ ڈالیں ؟ کدا کی قسم میری قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ یعورتوں کے ساتھ دلچسپی لینے والا کوئی نہیں ہے۔ اور مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میں نے بنی الاصغر (رومیوں) کی عورتوں کو دیکھا تو میں صبر نہ کرسکوں گا۔ رسولا للہ نے اس سے منہ پھیرلیا اور کہا " میں نے تمہیں اجات دے دی " تو اس جد ابن قیس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ تمام منافقین اسی قسم کے عذرات پیش کرتے اور اللہ نے ان کو یہی جواب دیا۔ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَا تَفْتِنِّىْ ۭ اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا ۭوَاِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ : " ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ " مجھے رخصت دے دیجئے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے " سن رکھو ! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو گھیر رکھا ہے "۔ منظر کشی اس طرح ہے کہ گویا جہنم ایک فتنہ ہے۔ اور یہ لوگ اس میں گرتے جا رہے ہیں۔ جہنم ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور ان کے بچنے کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔ اور جہنم کا واحد رستہ کھلا ہے اور یہ لوگ آتے جاتے ہیں اور گرتے جاتے ہیں۔ یہ انداز تعبیر اس بات سے کنایہ ہے کہ انہوں نے پیچھے رہ کر ایک عظیم غلطی کا ارتکاب کرلیا ہے اور اب عذاب جہنم ان کے لیے حتمی ہے۔ اور یہ جزاء ان کے لیے جہاد سے پیچھے رہ جانے ، گرا ہوا موقف اپنانے اور بھونڈے عذرات پیش کرنے کی وجہ سے مقدر ہوچکی ہے۔ اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ لوگ اظہار اسلام کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ منافق ہیں اور کافروں سے بد تر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ایک منافق کے بیان کردہ عذر کا تذکرہ کیا اور فرمایا (وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اءْذَنْ لِّیْ وَلَا تَفْتِنِّیْ ) اور ان میں سے ایک شخص ایسا بھی ہے جو یوں کہتا ہے کہ مجھے جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت دیجیے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے معالم التنزیل (ص ٢٩٩ ج ٢) میں لکھا ہے کہ جد بن قیس ایک منافق تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے غزوۂ تبوک میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کیا تجھے رومیوں سے جنگ کرنے میں رغبت ہے ؟ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میرا حال یہ ہے کہ عورتوں سے مجھے عشق ہے اور عورتوں کو دیکھ کر قابو میں نہیں رہتا رومیوں کی گورے رنگ کی لڑکیاں دیکھ کر مجھ سے صبر نہ ہوگا آپ مجھے یہیں رہنے کی اجازت دیجیے اور مجھے فتنہ میں نہ ڈالئے۔ میں مال سے امداد کرتا ہوں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس نے یہ بہانہ تلاش کیا تھا اور منافقت کے سوا اس کی کوئی معذوری نہ تھی۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض فرمایا اور اس کو اجازت دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ (اَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا) (خبر دار وہ فتنہ میں پڑچکے ہیں) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانا اور منافقت اختیار کرنا یہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ (وَ اِنَّ جَھَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بالْکٰفِرِیْنَ ) (اور بلاشبہ جہنم کافروں کو اپنے گھیرے میں لینے والا ہے) یہ ان کے اس فتنہ کی سزا ہے جس میں وہ پڑچکے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

48: جد بن قیس منافق نے ازراہ شرارتحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میں ایک عاشق مزاج آدمی ہوں اس لیے آپ مجھے جہاد سے چھٹی دیدیں کیونکہ میں رومیوں کی عورتوں کو دیکھ کر صبر نہیں کرسکوں گا اور فتنے میں پڑجاؤں گا۔ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے جس میں رومیوں سے جنگ تھی۔ “ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا ” اللہ تعالیٰ نے جواب فرمایا کہ وہ اس فتنے سے تو ڈرتا ہے مگر وہ یہ خیال نہیں کرتا کہ منافقت اور مخالفت رسول کی وجہ سے وہ اس سے کہیں بڑے فتنے میں گر چکے ہیں جس کا انجام کہ انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا جس کی آگ ان کو چاروں طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ “ قال الجد قد عرف قومی انی مغرم بالنساء و انی اخشی ان رایت بنات بنی الاصفر الا اصبر عنھن فلا تفتنی وذان لی فی القعود الخ ” (قرطبی ج 8 ص 185) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

49 اور انہی منافقوں میں سے وہ شخص بھی ہے جو یوں کہتا ہے کہ مجھ کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دیجئے اور مجھ کو کسی فتنے میں مبتلا نہ کیجئے اور فتنے میں نہ ڈالئے آگاہ رہو اور خبردار رہو یہ لوگ فتنے میں تو گھر ہی چکے ہیں اور بلاشبہ دوزخ کا فروں کو ضرور گھیرنے والی ہے۔ شاید جد بن قیس کی طرف اشارہ ہے جس نے یہ کہہ کر رخصت مانگی تھی کہ آپ تبوک میں مجھ کو نہ لے چلیئے وہاں رومیوں سے جنگ ہوگی رومیوں کی عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں میں جوان ہوں آپ کی وجہ سے کسی فتنے میں پڑجائوں گا ارشاد ہوا فتنے میں تو گرے پڑے ہیں اللہ رسول کی مخالفت سے بڑا فتنہ کیا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک منافق جد بن قیس بہانہ لایا کہ روم کی عورتیں خوبصورت ہیں اس ملک میں جاکربدی میں گرفتار ہوں گا رخصت دو کہ سفر میں نہ جائو لیکن مدد خرچ کروں گا مال سے۔ 12