Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 52

سورة التوبة

قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ ؕ وَ نَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمۡ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖۤ اَوۡ بِاَیۡدِیۡنَا ۫ ۖفَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ ﴿۵۲﴾

Say, "Do you await for us except one of the two best things while we await for you that Allah will afflict you with punishment from Himself or at our hands? So wait; indeed we, along with you, are waiting."

کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس چیز کا انتظار کر رہے ہو وہ دو بھلائیوں میں سے ایک ہے اور ہم تمہارے حق میں اس کا انتظار کرتے ہیں کہ یا تو اللہ تعالٰی اپنے پاس سے کوئی سزا تمہیں دے یا ہمارے ہاتھوں سے ، پس ایک طرف تم منتظر رہو دوسری جانب تمہارے ساتھ ہم بھی منتظر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, قُلْ ... Say, (O Muhammad to them), ... هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا ... Do you wait for us, (anything), ... إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ... except one of the two best things, According to the meaning given by Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, and others. martyrdom or victory over you, ... وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ ... while we await for you, that this will touch you, ... أَن يُصِيبَكُمُ اللّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ... either that Allah will afflict you with a punishment from Himself or at our hands, either capture or killing, ... فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ So wait, we too are waiting with you. Allah said next,

شہادت ملی تو جنت ، بچ گئے تو غازی مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے ۔ پس اے منافقو تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک کا ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ اللہ کا عذاب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر اللہ کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ ۔ اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو ، اور ناراضگی سے دو تو ، وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لئے کہ تم فاسق لوگ ہو ۔ تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث تمہارا کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں ۔ نماز کو آتے ہو تو بھی بجھے دل سے ، گرتے پڑتے مرتے پڑتے سست اور کاہل ہو کر ۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے دل کی تنگی سے ۔ صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاؤ اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 یعنی کامیابی یا شہادت، ان دونوں میں سے جو چیز بھی ہمیں حاصل ہو، ہمارے لئے خیر (بھلائی) ہے۔ 52۔ 2 یعنی ہم تہارے بارے میں دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتظار کر رہے ہیں کہ یا تو آسمان سے اللہ تعالیٰ تم پر عذاب نازل فرمائے جس سے تم ہلاک ہوجاؤ یا ہمارے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ تمہیں (قتل کرنے، یا قیدی بننے وغیرہ قسم کی) سزائیں دے۔ وہ دونوں باتوں پر قادر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] مسلمان اور منافق سب کو دو باتوں کا انتظار ہے :۔ یعنی اے منافقو ! تم ہمارے متعلق صرف یہ انتظار کر رہے ہو کہ مسلمان شاہ روم سے شکست کھاتے ہیں یا اس کے مقابلہ میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم ہر حال میں کامیاب ہی کامیاب ہیں۔ اگر فتح ہوئی اور مال غنیمت سمیت گھروں کو واپس آگئے تو اسے تو تم بھی کامیابی سمجھتے ہو اور اگر ہم شہید ہوگئے تو پھر بھی ہماری کامیابی ہے اور ضمیر مطمئن کہ راہ حق میں جان دے دی اور پھر آخرت میں جنت بھی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ && اللہ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص میری راہ میں نکلے اور اس کو مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی چیز نے نہ نکالا ہو تو میں اسے یا تو اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس کر دوں گا یا جنت میں داخل کروں گا۔ && (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب الجہاد من الایمان) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ) اور سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ احدی الحسنیین سے مراد فتح یا شہادت ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تمہارے متعلق ہماری سوچ بھی دو باتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ تمہیں سزا مل کے رہے گی۔ اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ آیا یہ سزا اللہ تمہیں خود ہی کوئی عذاب بھیج کردیتا ہے۔ یا تمہیں ہمارے ہاتھوں سے دلواتا ہے۔ لہذا تم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرو اور ہم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ :” اِحْدَى“ کا معنی ایک اور ” الْحُسْنَيَيْنِ “ ” اَلْحُسْنٰی “ کی تثنیہ ہے، جو ” اَلْاَحْسَنُ “ (اسم تفضیل) کی مؤنث ہے، یعنی سب سے اچھی دو چیزوں میں سے ایک۔ مسلمانوں کی مصیبت پر منافقین کی خوشی کا یہ دوسرا جواب ہے کہ ہم ہر حال میں سب لوگوں سے اچھے ہیں، دنیا میں یا تو ہمیں فتح اور غنیمت حاصل ہوگی جو بہترین چیز ہے، یا پھر ہم اللہ کی راہ میں شہید ہوں گے، تو یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اور ہماری عین تمنا ہے کہ ہم جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے ضمانت دی ہے جس نے اس کے راستے میں جہاد کیا۔ اسے اس کے راستے میں جہاد اور اس کی باتوں کو سچا یقین کرنے کے سوا کسی اور چیز نے نہیں نکالا کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، یا اسے اس کے گھر جس سے نکل کر گیا ہے، اجر یا غنیمت دے کر واپس لائے گا۔ “ [ بخاری، فرض الخمس، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : أحلت لکم الغنائم : ٣١٢٣، عن أبی ہریرہ (رض) ] اس کے برعکس منافقین ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں یا اللہ کی طرف سے انھیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے جہنم کے درک اسفل میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے، پس ہم اور تم ایک دوسرے کے متعلق دو حالتوں میں سے ایک کے منتظر ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The tenth verse (52), while mentioning the charming demeanor of the man of true faith, has given an answer to hypocrites delighted over the discomfort of Muslims. According to the man of true faith, the thing that hypocrites take as suffering for Muslims and which makes them happy is really no suffering for them. In fact, it is another form of comfort and success. The reason is that a man of true faith becomes deserving of eternal returns and rewards even after having failed in his strong resolve, something that is the real objective of all his suc¬cesses. Therefore, he succeeds, even in failure and gains, even in loss. The first sentence of the verse: قُلْ هَلْ تَرَ‌بَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْن (Say, |"Is it not that you are expecting for us but one of the two good things [ martyrdom and victory ] |"?) means exactly this. However, along with it, it was also said that the fate of the disbelievers was quite contrary for they will find no respite from suffering or punishment under any con¬dition. Either, they would be punished at the hands of Muslims right here in this world, in which case, they will taste the punishment in the mortal and the eternal world both. And, in case, they somehow es¬caped unscathed in the mortal world, there is no possibility of deliver¬ance from the punishment of the Hereafter.

نویں آیت نے مرد مومن کی ایک البیلی شان کا ذکر کرکے ان کی مصیبت پر خوش ہو نیوالے منافقین کو یہ جواب دے دیا کہ تم جس چیز کو ہمارے لئے مصیبت سمجھ کر خوش ہوتے ہو ہمارے نزدیک وہ مصیبت بھی مصیبت نہیں، بلکہ راحت و کامیابی ہی کی ایک دوسری صورت ہے، کیونکہ مرد مومن اپنے عزم میں ناکام ہو کر بھی کامیاب رہتا ہے، اور بگڑنے میں بھی بنتا ہے۔ نہ شوخی چل سکی باد صبا کی بگڑنے میں بھی زلف اس کی نبا کی مذکورہ آیت میں (آیت) هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ، کا یہی مطلب ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ کفار کا حال اس کے بالکل بر عکس ہے کہ ان کو کسی حال عذاب و مصیبت سے چھٹکارا نہیں، یا تو دنیا ہی میں مسلمانوں کے ہاتھوں ان پر خدا کا عذاب آجائیگا، اور اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں وہ عذاب چھکیں گے، اور اگر دنیا میں کسی طرح اس سے بچ گئے تو آخرت کے عذاب سے خلاصی کا کوئی امکان نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ۝ ٠ ۭ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ يُّصِيْبَكُمُ اللہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَيْدِيْنَا۝ ٠ ۡۖ فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ۝ ٥٢ هَلْ : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] . وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته . ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام/ 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم/ 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة/ 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل/ 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف/ 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ/ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء/ 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔ ربص التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] ( ر ب ص ) التربص کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں حسنة والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، ( ح س ن ) الحسن الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔ اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر/ 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقوں سے فرمادیجیے کہ تم ہمارے لیے فتح وغنیمت یا قتل وشہادت میں سے کسی ایک کے منتظر رہتے ہو اور ہم اس کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہلاکت کا اپنی طرف سے یا ہماری تلواروں سے تمہارے قتل کا انتظام فرما وے سو تم اپنے طور پر انتظار کرو، ہم بھی تمہاری تباہی اور موت کے منتظر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (قُلْ ہَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلآَّ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ط) الْحُسْنَیَیْنِ ‘ الحُسْنٰیکی تثنیہ ہے ‘ جو اَحْسَن کی مؤنث ہے۔ یہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ چناچہ الْحُسْنَیَیْنِ کے معنی ہیں دو نہایت احسن صورتیں۔ جب کوئی بندۂ مؤمن اللہ کے راستے میں کسی مہم پر نکلتا ہے تو اس کے لیے تو دونوں امکانی صورتیں ہی احسن ہیں ‘ اللہ کی راہ میں شہیدہو جائیں تو وہ بھی احسن : ؂ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن نہ مال غنیمت ‘ نہ کشور کشائی ! (اقبالؔ ) اور اگر کامیاب ہو کر آجائیں تو بھی احسن۔ دونوں صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ تیسری کوئی صورت تو ہے ہی نہیں۔ لہٰذا ایک بندۂ مؤمن کو خوف کا ہے کا ؟ ؂ جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر ؔ جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں ! (وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یُّصِیْبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْ بِاَیْدِیْنَاز) ہمیں بھی تمہارے بارے میں انتظار ہے کہ تمہارے کرتوتوں کے سبب اللہ تعالیٰ تم پر خود کوئی عذاب نازل کر دے یا عین ممکن ہے کہ کبھی ہمیں اجازت دے دی جائے اور ہم تمہاری گردنیں اڑائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :52 منافقین حسب عادت اس موقع پر بھی کفر و اسلام کی اس کشمکش میں حصہ لینے کےبجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے ، رسول اور اصحاب رسول فتحیاب ہو کر آتے ہیں یا رومیوں کی فوجی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں ۔ اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا ہے کہ جن دو نتیجوں میں سے ایک کے ظہور کا تمہیں انتظار ہے ، اہل ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں ۔ وہ اگر فتحیاب ہوں تو اس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے ۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوند خاک ہو جائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے ۔ اس لیے کہ مومن کی کامیابی و ناکامی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے کوئی ملک فتح کیا یا نہیں ، یا کوئی حکومت قائم کر دی یا نہیں بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں لڑادیں یا نہیں ۔ یہ کام اگر اس نے کر دیا تو درحقیقت وہ کامیاب ہے ، خواہ دنیا کے اعتبار سے اس کی سعی کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: یعنی یا تو ہمیں فتح ہو، یا ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہوجائیں، اور ہمارے لیے یہ دونوں باتیں بھلائی کی ہیں، تم سمجھتے ہو کہ اگر ہم شہید ہوگئے تو ہمارا نقصان ہوگا۔ حالانکہ شہادت نقصان کا نہیں بڑے فائدے کا سودا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:52) تربصون۔ تم انتظار کرتے ہو۔ تم راہ دیکھتے ہو۔ تربص یتربص تربص (تفعل) سے۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ ہل تربصون بنا۔ تم ہمارے بارے میں کس بات کا انتظار کر رہے ہو۔ تمہیں ہمارے بارے میں کس بات کی امید ہوسکتی ہے۔ تم ہمارے بارے میں کس بات کا انتظار کر رہے ہو کہ ہمیں پیش آئے گی۔ الا احدی الحسنیین۔ سوائے اس کے کہ یہ وہ اچھی باتوں سے ایک ہوگی۔ یعنی ہمارے بارے میں تم جس نتیجہ کے منتظر ہو یا امید رکھتے ہو وہ دو بھلائیوں میں سے ایک تو ضرور ہوگی۔ یعنی اگر کامیاب ہوگئے تو فتح ہماری اور گار شہید ہوگئے تو آخرت سنور گئی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مسلمانوں کی مصیبت پر منافقین کو خوشی کا یہ دوسرا جواب ہے کہ ہم ہرحال میں اچھے ہیں۔ دنیا میں یا تو ہمیں فتح ہوگی جو ایک بھلائی ہے یا پھر ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوں گے تو یہ بھی ہماری عین تمنا ہے کہ ہم جنت کی نعمتوں سے متمع ہوں۔ اس کے بر عکس منافقین ہیں کہ دنیا میں ان کی ذلت و رسوائی ہوگی اور آخرت میں دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ پس ہم اور تم ایک دوسرے کے متعلق دعا حالتوں میں سے ایک کے منتظر ہیں۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہیں اس مصیبت میں بھی ہمارے فائدے کی رعایت کرتے ہیں اس لیے ہم ہر حال میں فائدہ میں ہیں بخلاف تمہارے کہ تمہاری خوش حالی کا انجام بھی وبال اور نکال ہے اگر دنیا میں نہیں تو آخرت میں ضرور ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو دوسرا جواب۔ منافقین کو پہلا جواب یہ دیا گیا تھا کہ جو کچھ ہمیں مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے رب نے ہماری قسمت میں پہلے سے لکھ رکھی ہے۔ ہم اپنے رب کے ہر فیصلے پر راضی ہیں۔ اب ان کو دوسرا جواب دیا جا رہا ہے کہ اے منافقو ! تم ہمارے بارے میں دو میں سے کسی ایک بات کا انتظار کرتے ہو۔ یاد رکھو اگر ہمیں میدان کارزار میں موت آجائے یا فتح کی صورت میں کامیابی حاصل ہو۔ دونوں ہی ہمارے لیے بہتر ہیں ہاں ہم بھی تمہارے متعلق اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ براہ راست تم پر اپنا غضب نازل فرمائے یا ہمارے ہاتھوں تمہیں ذلیل کرے۔ بس انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں، چناچہ یہی کچھ ہوا کہ منافق دنیا میں ہی ایک ایک کرکے ذلیل ہوئے جن کے بارے میں حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن اللہ کے نبی کی خدمت میں عرض کی کہ اجازت ہو تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ نے فرمایا کیونکہ لوگ اس کے اصلی کردار کو نہیں جانتے اس لیے وہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ ” اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ “۔ کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ “ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبداللہ بن ابی لوگوں کی نظر میں ذلیل اور بےاثر ہوگیا۔ (البدایہ والنہایہ) (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ انْتَدَبَ اللّٰہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہٖ لَا یُخْرِجُہٗ إِلَّا إِیمَانٌ بِی وَتَصْدِیقٌ بِرُسُلِی أَنْ أُرْجِعَہٗ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ أَوْ أُدْخِلَہٗ الْجَنَّۃَ وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ وَلَوَدِدْتُ أَنِّی أُقْتَلُ فِی سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے اعلان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے رستے میں نکلتا ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نکالتی ہے میں اس کو ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ لٹاؤں گا یا اسے جنت میں داخل کروں۔ اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ محسوس کرتا تو میں کسی بھی غزوۂ سے پیچھے نہ رہتا۔ میں اس بات کی خواہش کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔ “ مسائل ١۔ مومن فتح یاب ہو یا شہید ہوجائے اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہی اجر ہے۔ ٢۔ منافق دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق مومن کے لیے برائی کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان سے کہو تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ساتھ دلواتا ہے ؟ اچھا تو اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔ آخر منافقین مسلمانوں کے بارے میں کس بات کا انتظار کریں۔ مسلمانوں کو ہر حال میں بھالئی اور کامیابی کی توقع ہے۔ یا تو فتح مند ہوں گے اور اللہ کا کلمہ بلند کردیں گے اور یہ کامرانی اس جہاں کی ہے۔ یا انہیں شہادت نصیب ہوگی اور شہید اعلی درجات پر فائز ہوتا ہے۔ ہاں مومنین ضرور انتظار کریں کہ منافقین کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان کو اس طرح عذاب سے دوچار ہونا ہوگا۔ جس طرح تمام مکذبین عذاب سے دو چار ہوئے یعنی آخرت میں اور یا یہ ہوگا کہ وہ اس دنیا ہی میں پکڑے جائیں گے جس طرح تمام اہل باطل پکڑے جاتے ہیں۔ لہذا دونوں گروہوں کا انجام مشہور و معروف ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (قُلْ ھَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَآ اِلَّآ اِحْدَی الْحُسْنَیَیْنِ ) (الآیۃ) کہ اے منافقو ! دنیا میں دو ہی حالتیں ہیں جو انسانوں کو پیش آتی رہتی ہیں ایک اچھی صورت حال دوسری تکلیف دہ حالت، تم ہمارے بارے میں انہیں دونوں حالتوں کے منتظر رہتے ہو کہ دیکھو آگے ان کو بہتر حالت پیش آتی ہے یا کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے تو دونوں ہی حالتیں فائدہ کی ہیں۔ فتح و ظفر نصیب ہوجائے مال غنیمت مل جائے اور کسی بھی طرح کی بہتری سے اللہ تعالیٰ ہمیں نواز دے تو یہ بھی ہمارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر کوئی تکلیف دہ صورت پیش آجائے تو ہمارے لیے وہ بھی خیر ہے۔ ہمارے افراد مقتول ہوتے ہیں تو شہادت کا درجہ پاتے ہیں اور ہمیں ہر حال میں ہر مصیبت پر اجر ملتا ہے۔ ہمارے لیے ہر صورت حال بہتر ہے اور ہم ہر حال میں نفع میں ہیں۔ اور یہ بھی سمجھ لو کہ جیسے تم ہمارے بارے میں حالات کے ساز گار یا نا ساز گار ہونے کے منتظر رہتے ہو ہم بھی تمہارے بارے میں منتظر ہیں لیکن ہمارے اور تمہارے انتظار میں فرق ہے۔ تم تو ہمارے بارے میں دو بہتر صورتوں میں سے کسی ایک بہتری کے منتظر رہتے ہو (جیسا کہ اوپر مذکور ہوا) لیکن ہم تمہارے بارے میں اسی کے منتظر ہیں کہ ہمیں استعمال کیے بغیر اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے یا ہمارے ہاتھوں تم کو عذاب دے۔ اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں اور سمجھ لو کہ انجام کے طور پر تمہاری ہی بربادی ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51: یعنی جب آپ جہاد سے واپس آئیں تو ان منافقین سے فرمائیں کہ ہمارے بارے میں تمہیں دو باتوں میں سے ایک ہی بات کی توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کسی آسمانی عذاب سے ہلاک کردے یا تم ہمارے ہاتھوں قتل ہوجاؤ اس لیے تم ہمارے انجام کا انتظار کرو اور ہم نے تمہارے انجام کا انتظار کرتے ہیں۔ “ اِحْدَي الْحُسْنَیَیْنِ ” یعنی فتح یا شہادت۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان منکروں سے کہہ دیجئے تم تو ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے اور دو بہتریوں میں سے ایک نہ ایک بھلائی اور بہتری کا انتظار کیا کرتے ہو اور ہم تمہارے لئے اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر کوئی عذاب اپنے پاس سے واقع کرے یا ہمارے ہاتھوں تم پر کوئی عذاب بھیجے اچھا تم انتظار کرتے رہو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہے ہیں۔ یعنی تم ہماری شکست یا فتح کا دونوں میں سے ایک کا انتظار کیا کرتے ہو اور یہ دونوں چیزیں ہمارے حق میں بھلی اور بہتر ہیں شکست ہوگی اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے تب بھی اجر کے مستحق ہوں گے اور فتح ہوگی تو کامیاب ہوکر واپس ہوں گے ہمارے لئے راحت ہو یا مصیبت دونوں ہی بہتر ہیں لیکن تمہاری یہ حالت نہیں تم بہرحال عذاب کے مستحق ہو خواہ وہ عذاب قیامت میں واقع ہو یا دنیا میں کوئی بلا واقع ہو یا ہمارے ہی ہاتھوں قتل کئے جائو تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں۔