Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 53

سورة التوبة

قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿۵۳﴾

Say, "Spend willingly or unwillingly; never will it be accepted from you. Indeed, you have been a defiantly disobedient people."

کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی طرح بھی خرچ کرو قبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا یقیناً تم فاسق لوگ ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَنفِقُواْ طَوْعًا أَوْ كَرْهًا .. Say: Spend willingly or unwillingly, for whatever you spend either way, .... لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ it will not be accepted from you. Verily, you are ever a people who are rebellious. Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 انفقوا امر کا صیغہ۔ لیکن یہاں یہ تو شرط اور جزا کے معنی میں ہے۔ یعنی اگر تم خرچ کرو گے تو قبول نہیں کیا جائے گا یا یہ امر بمعنی خبر کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں باتیں برابر ہیں، خرچ کرو یا نہ کرو۔ اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، تب بھی نہ مقبول ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لئے ایمان شرط اول ہے اور وہی تمہارے اندر مفقود ہے اور ناخوشی سے خرچ کیا ہوا مال، اللہ کے ہاں ویسے ہی مردود ہے، اس لئے کہ وہاں قصد صحیح موجود نہیں ہے جو قبولیت کے لئے ضروری ہے۔ یہ آیت بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ ہے (اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ) 9 ۔ التوبہ :80) آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (یعنی دونوں باتیں برابر ہیں) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] منافق کا مال بھی قبول نہیں :۔ جد بن قیس نے رومی عورتوں کے فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا بہانہ کر کے جہاد پر جانے سے تو معذرت کرلی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ البتہ میں مالی اعانت کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا۔ تم لوگ یہ مالی اعانت خوشی سے کرو یا مجبوراً کرو یہ قابل قبول نہیں۔ یہ بھی تم اپنے پاس ہی رکھو کیونکہ یہ تو واضح بات ہے کہ نافرمان یا منافق لوگ صرف اللہ کی رضا کے لیے کبھی صدقہ نہیں کرتے۔ وہ جب بھی کریں گے یا ریا کے لیے کریں گے یا مجبور ہو کر کریں گے۔ پھر ایسا صدقہ لینے کی بھی کیا ضرورت ہے ؟۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا : اوپر کی آیت میں بتایا کہ منافقین کے لیے بہرحال عذاب ہے، اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور وہ نجات نہیں پاسکتے، کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قبول نہیں ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے سے معافی دی جائے، اس کے عوض ہم مالی اعانت پر تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بدنام ہو کر نہ رہ جائیں، انھی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی بھری ہو، ان کی مالی امداد کسی طور قبول نہیں، خواہ خوشی سے دیں یا مجبوراً ۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں :” جد بن قیس نے مال خرچ کرنے کی بابت جو کہا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ بےاعتقاد کا مال قبول نہیں۔ “ (موضح) اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : عمل کی قبولیت کے لیے تقویٰ شرط ہے جو تم میں ہے ہی نہیں، فرمایا : (اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ ) [ المائدۃ : ٢٧ ] ” بیشک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔ “ اور دیکھیے سورة حج (٣٧) اور بقرہ ( ٢٦٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر آپ ( ان منافقین سے) فرما دیجئے کہ تم ( جہاد وغیرہ میں) خواہ خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی سے تم سے کسی طرح ( خدا کے نزدیک) مقبول نہیں ( کیونکہ) بلاشبہ تم نافرمانی کرنے والے لوگ ہو، ( مراد اس سے کفر ہے جیسا کہ آگے آتا ہے) اور ان کی خیرات قبول ہونے سے اس کے سوا کوئی مانع نہیں کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ( اسی کو اوپر نافرمان کہا تھا اور کافر کا کوئی عمل مقبول نہیں) اور ( اس کفر باطنی کی علامت ظاہر میں یہ ہے کہ) وہ لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر ہارے جی سے اور ( نیک کام میں) خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ ( کیونکہ دل میں ایمان تو ہے نہیں جس سے امید ثواب ہو اور اس امید سے رغبت ہو محض بدنامی سے بچنے کے ہی کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اور جب وہ ایسے مردود ہیں تو ان کے اموال اور اولاد آپ کو ( اس) تعجب میں نہ ڈالیں ( کہ ایسے غیر مقبول مردود لوگوں کو اتنے انعامات کس طرح عطا ہوئے، کیونکہ واقع میں ان کے لئے نعمت نہیں ایک قسم کا عذاب ہی ہے کیونکہ اللہ کو صرف یہ منظور ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے دنیوی زندگی میں ( بھی) ان کو گرفتار عذاب رکھے اور ان کی جان کفر ہی کی حالت میں نکل جاوے ( جس سے آخرت میں بھی گرفتار عذاب ہوں تو جس مال و اولاد کا یہ انجام ہو اس کو انعام سمجہنا ہی غلطی ہے) اور یہ ( منافق ہیں) وہ تم میں سے نہیں، لیکن ( بات یہ ہے کہ) وہ ڈرپوک لوگ ہیں ( ڈر کے مارے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے کفر کو چھپاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دوسرے کفار کا سا معاملہ مسلمانوں کی طرف سے نہ ہونے لگے، اور کسی دوسری جگہ ان کا ٹھکانا نہیں جہان آزادی سے جا رہیں ورنہ) ان لوگوں کو اگر کوئی پناہ کی جگہ مل جاتی یا ( کہیں پہاڑ وغیرہ میں) غار ( مل جاتے) یا کوئی گھس بیٹھنے کی ذرا جگہ ( مل جاتی) تو یہ ضرور منہ اٹھا کر ادھر ہی چل دیتے ( مگر یہ صورت ہی نہیں اس لئے جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں) اور ان میں بعض لوگ وہ ہیں جو صدقات ( تقسیم کرنے) کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں ( اس تقسیم میں نعوذ بااللہ انصاف نہیں کیا گیا) تو اگر صدقات میں سے ان کو ( اپنی خواہش کے مطابق) نہیں ملتا تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں (جس سے معلوم ہوا کہ ان کے اعتراض کا منشاء دراصل کوئی اصول نہیں، بلکہ حرص دنیا اور خود غرضی ہے) اور ان کے لئے بہتر ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی رہتے جو کچھ اللہ نے ان کو ( دلوایا تھا) اور اس کے رسول نے دیا تھا اور ( اس کے متعلق) یوں کہتے کہ ہم کو اللہ ( کا دیا) کافی ہے ( ہم کو اتنا ہی قاعدہ سے مل سکتا تھا اسی میں خیر و برکت ہوگی، اور پھر اگر حاجت پیش آئے گی اور مصلحت ہوگی تو) آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہم کو اور دے گا، اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں گے ہم ( دل سے) اللہ ہی کی طرف راغب ہیں ( اسی سے سب امیدیں رکھتے ہیں ) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا لَّنْ يُّتَقَبَّلَ مِنْكُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۝ ٥٣ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے معیب کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عبادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قل انفقوا طوعاً اوکرھاً لن یتقبل منکم۔ ان سے کہہ دو ” تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کردیا بکراہت، بہرحال وہ قبول نہیں کیے جائیں گے) “ آیت کے الفاظ کو امر۔ کے صیغے کی صورت میں لایا گیا ہے لیکن مراد اطاعت اور معصیت پر تمکین یعنی قدرت و اختیار کا بیان ہے جس طرح یہ قول باری ہے (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر۔ جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرلے) ایک قول کے مطابق امر کا یہ صیغہ یعنی جملہ انشائیہ اس جملہ خبریہ کے معنوں میں ہے جس میں ” ان “ شرطیہ داخل ہوتا ہے اور اس کی جزا ہوتی ہے جس طروح کثیر کا شعر ہے۔ اسیئی بنا او احسنی لا ملومۃ لدینا ولا مقلیۃ ان تقلت اے محبوبہ ! خواہ تو ہمارے ساتھ برائی سے پیش آ، یا بھلائی سے، بہرصورت تو ہماری نظروں میں قابل ملامت نہیں ٹھہرے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر تم سے نفرت کا اظہار کرے گی تو بھی تو ہمارے نزدیک قابل نفرت نہیں ہوگی۔ شعر میں امر کے دو صیغوں کا مفہوم ہے۔ ” اگر تو نیکی کرے یا بدی، تم پر کوئی ملامت نہیں۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان منافقوں سے فرما دیجیے کہ تم اپنے مالوں کو خواہ خوشی خوشی خرچ کرو یا قتل کے ڈر سے خرچ کرویہ چیز ہرگز قبول نہیں تم لوگ منافق ہو۔ شان نزول : (آیت) ” قل انفقوا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جدی بن قیس کہنے لگا کہ میں عورتوں کو دیکھ کر صبر نہیں کرسکوں گا اور فتنہ میں پڑجاؤں گا لیکن میں اپنے مال سے آپ کی مدد ضرور کروں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی آپ فرما دیجیے خواہ تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشنی سیتم سے کسی طرح مال قبول نہیں کیا جائے گا، یہ اس کے قول کا جواب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ ط اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ) یہاں منافقین کے ایک دوسرے حربے کا ذکر ہے کہ کچھ مال اسباب چندے کے طور پر لے آئے اور بہانہ بنایا کہ مجھے فلاں فلاں مجبوری ہے ‘ میں خود تو جانے سے معذور ہوں ‘ مجھے رخصت دے دیں اور یہ سازو سامان قبول کرلیں۔ ایسی صورت حال کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ اب جبکہ جہاد کے لیے بنفس نفیس نکلنا فرض عین ہے ‘ اس صورت حال میں روپیہ پیسہ اور سازو سامان اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :53 بعض منافق ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تو تیار نہ تھے ، مگر یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ اس جہاد اور اس کی سعی سے بالکل کنارہ کش رہ کر مسلمانوں کی نگاہ میں اپنی ساری وقعت کھو دیں اور اپنے نفاق کو علانیہ ظاہر کردیں ۔ اس لیے وہ کہتے تھے کہ ہم جنگی خدمت کو انجام دینے سے تو اس وقت معذرت چاہتے ہیں ، لیکن مال سے مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: جد بن قیس جس کا ذکر اوپر آیا ہے، اسی کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اس نے جنگ میں جانے سے تو مذکورہ بالا بے ہودہ عذر پیش کیا تھا۔ لیکن یہ کہا تھا کہ اس کے بدلے میں اپنا مال چندے میں دوں گا (ابن جریر ج :10 ص :152)۔ اس کے جواب میں یہ آیت منافقین کے چندے کے ناقابل قبول ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٣۔ ٥٤۔ تفسیر ابن جریر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ بنی سلمہ کے سردار جدبن قیس منافق نے تبوک کی لڑائی میں جانے سے جب یہ عذر پیش کیا کہ وہاں جاکر میں خوبصورت عورتوں کے فتنہ میں پڑجاؤں گا اس عذر کے ساتھ اس نے دنیا سازی کے طور پر یہ بھی کہا تھا کہ اس لڑائی میں کچھ روپے کی ضرورت ہو تو میں مدد دے سکتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی اور فرما دیا کہ جب ان لوگون کا عقیدہ ہی درست نہیں ہے تو ان کی کوئی عبادت مالی یا بدنی مقبول نہیں اس واسطے ان کا مدد خرچ ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا طبرانی کے حوالہ سے معتبر سند کی انس بن مالک (رض) کی روایت ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سر بمہر اعمال نامے جب اللہ تعالیٰ کے روبرو کھولے جائیں گے تو ان میں سے بعض عمل اللہ تعالیٰ کے حکم سے باطل ٹھہرائے جاویں گے اس پر فرشتے عرض کریں گے یا اللہ ان عملوں میں کیا خرابی ہے اللہ تعالیٰ فرماوے گا یہ عمل خالص دل سے نہیں کئے گئے اس لئے بیکار ہیں منافقوں کے عملوں کے علاوہ اگر آدمی منافق نہ ہو لیکن اس کے نیک عملوں میں ریا کاری کا میل ہو تو تھوڑی ریا کاری سے بھی جو عمل کیا جاوے حدیث میں اس کو شرک فرمایا ہے چناچہ بیہقی اور مستدرک حاکم کی معاذبن جبل (رض) کی روایت میں اس کا ذکر ہے خالص نیت سے تنکا پہاڑ کے بڑا ہے اور بغیر خالص نیت کے پہاڑ تنکے سے بھی کم سے حاصل کلام یہ ہے کہ منا فقوں کے دل میں دین کی باتوں کی طرف سے شک وشبہ رہتا ہے اور ریا کاروں کے دل میں دنیا کے دکھاوے میں تو وہی عمل مقبول ہے جو خوش اعتقادی کے ساتھ خالص نیت سے شریعت کے موافق ہو۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:53) انفقوا۔ تم خرچ کرو انفاق (افعال) سے امر کا صیغہ۔ جمع مذکر حاضر۔ یہاں خبر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی تم خوشی سے خرچ کرو یا مجبوری سے (تمہاری طرف سے یہ خرچ قبول نہیں کیا جائے گا) اس کی مثال قرآن میں ہے : استغفرلہم اولا تستغفرلہم (9: 80) آپ ان کے لئے بخشش طلب کریں یا نہ کریں۔ لن یتقبل۔ مضارع مجہول نفی تاکید بلن۔ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ ای لن یتقبل منکم نفقاتکم انفقتم طوعا اوکرھا۔ یعنی بخوشی جو مال بھی خرچ کرو گے ہرگز قبول نہیں کیا جائیگا۔ طوعا۔ فرماں برداری۔ اطاعت۔ مصدر ہے اور کرہ کی ضد ہے اس کا فعل نصر اور سمع دونوں ابواب سے آتا ہے۔ کرھا۔ مصدر ہے۔ ناگوار ہونا۔ ناخوشی۔ مجبوری۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر کی آیت میں تبایا گیا ہے منافقین کے لے بہر حال عذاب ہے۔ اب اس آیت میں فرمایا کہ اس عذاب سے کسی طور رہ نجات نہیں پاسکتے کیونکہ آخرت میں ان کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں ہے۔ ( کبیر) غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین ایسے بھی تھے جو کہتے تھے کہ ہمیں ساتھ جانے تو معافی دیدی جائے لیکن اس کے عوض ہم مالی اعانت کرنے کا تیار ہیں۔ وہ یہ بات اس لیے کہ کہتے تھے کہ کہیں مسلمانوں میں بالکل ہی بد نام ہو کر رہ جائیں۔ انہی کو دلوں میں نفاق اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی بھری ہو ان کی مالی امداد کسی طور پر نہیں کی جاسکتی خوشی سے دیں یا مجبورا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : جدبن قیس نے مال خرچ کرنے کی بات جو کہا تھا اس کا یہ جواب ہے کہ بےاعتقاد کا مال قبول نہیں۔ کذافی الر ازی عن ابن عباس۔ از مو ضح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 53 تا 57 طوعاً (خوشی سے) کرھا (زبردستی) لن یتقبل (ہرگز قبول نہ کیا جائے گا) لایاتون (وہ نہیں آتے) کسالی (سستی کرنے والے) لاینفقون (وہ خرچ نہیں کرتے) کرھون (زبردستی) لاتعجبک (تجھے حیرت میں نہ ڈالے) تزھق (وہ نکالے) یحلفون (وہ قسم کھاتے ہیں) قوم یفرقون (وہ لوگ جو ڈرتے ہیں) یجدون (وہ پائیں گے) ملجا (ٹھکانا) مغرت (غار) مدخل (داخل ہونے کی جگہ، گھسنے کی جگہ ) یجمحون (سرکشی کرتے ہیں) تشریح : آیت نمبر 53 تا 57 خطاب کا رخ ان منافقین کی طرف ہے جو جہاد میں جسم و جان کھپانے کو تیار نہ تھے البتہ دنیا دکھاوے اور اپنی لاج رکھنے کے لئے کچھ چندہ کے طور پر رقم دے کر یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اپنا حق ادا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے لئے فرمایا کہ تمہارا یہ مال قبول نہیں ہوگا چونکہ تم لوگ فاسق یعنی نافرمان ہو اور تمہارا شمار کافروں میں ہے فرمایا کہ تمہارا مال اس لئے قوبل نہیں ہے کہ تمہارا عمل اس کے برخلاف ہے جو تم زبان سے کہتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر فرمایا کہ تمہاری نمازیں، کاہلی اور سستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اس میں خوش دلی کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ کوئی تاوان اور جرمانہ ادا کر رہے ہو۔ مال اور اولاد کی کثرت نے انہیں اس خوشی فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ یہ کوئی بہت برگزیدہ اور نیک لوگ ہیں حالانکہ اللہ نے ان کی بدعملی کی وجہ سے ان کے مال اور ان کی اولاد دوں کو ان کے لئے عذاب کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ ان چیزوں کی کثرت حالت کفر میں زحمت اور حالت ایمان میں رحمت ہے۔ کافر مال سمیٹنے جمع رکھنے حفاظت کرنے ، مزید پیدا کرنے اور ان کی نمائش میں اتنا مبتلا رہتا ہے کہ وہ نہ حرام دیکھتا ہے نہ حلال نہ اسے فکر آخرت کی ذہنی فرصت ہے نہ وہ اللہ کے کام میں اسکو خرچ کرتا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ وہ عذاب در عذاب کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے جب وہ مرتا ہے تو کافر رہ کر ہی مرتا ہے اور حسرت و افسوس کے ساتھ اپنا سارا مال و متاع یہیں چھوڑ کرجاتا ہے۔ یہ لوگ منافق کیوں بنے ؟ فرمایا کہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مدینہ چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتے جب مدینہ میں دین اسلام کی دشمن روشن ہوئی اور وہاں اس دین نے قدم جمائے تو انہیں اپنے مال و متاع کی خیر و عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ ظاہری طور پر مسلمان بن جائیں۔ اب دین اسلام کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھ دیکھ کر وہ اس حد تک بدحواس ہوتے جا رہے ہیں کہ اگر ان کو کوئی بھی چھپنے کی جگہ مل جائے تو وہ پہلی فرصت میں بھاگ جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق کے طرزعمل پر تبصرہ جاری ہے۔ منافق کی منافقت کی وجہ سے جس طرح اس کے دیگر اعمال ضائع ہوتے ہیں اسی طرح اس کا صدقہ و خیرات بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ ایمان میں کھوٹے لوگ جب مسلمانوں کی طاقت محسوس کرتے ہیں تو منافقت کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں تاکہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے منافقوں کا تھا اس کے لیے کفار کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر میدان کار زار میں پہنچتے اور اپنی منافقت کو چھپانے کے لیے مال خرچ کرتے تھے تاکہ ان کی منافقت چھپ سکے۔ انھیں ان کے صدقہ و خیرات کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ بیشک تم خوشی سے خرچ کرو یا بادل نخواستہ۔ تمہاری منافقت کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس کی دمڑی بھر بھی حیثیت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے، نماز میں جان بوجھ کر سستی اختیار کرنے کے ساتھ جو کچھ خرچ کرتے ہیں بادل نخواستہ خرچ کرتے ہیں۔ یہاں منافق کی تین خصلتیں بیان کرکے ان کے عقیدہ کو کفر قرار دیا گیا ہے گویا کہ منافق کلمہ پڑھنے اور بظاہر ارکان اسلام پر عمل کرنے کے باوجود حقیقتاً کافر ہوتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ ) (رواہ مسلم : باب خصائل المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ 1 جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 2 جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (متفق علیہ) مسلم شریف میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ “ مسائل ١۔ منافق کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ ٢۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حقیقتاً کفر کرتا ہے۔ ٣۔ منافق جان بوجھ کر نماز میں بےتوجہگی اور کاہلی اختیار کرتا ہے۔ ٤۔ منافق نمود و نمائش اور مجبوری کی بنا پر صدقہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی نماز : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دیتا ہے نماز میں سستی و کاہلی، ریاکاری اختیاری کرتا ہے، اللہ کو تھوڑا یاد کرتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ دوزخ کا عذاب ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل اور ریا کار ہیں۔ (الماعون : ٤ تا ٦ ) ٣۔ ایسے کفار اور منافقین کے ساتھ اللہ کا وعدہ جہنم کا ہے۔ (التوبۃ : ٦٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پیچھے رہنے والوں میں سے اور انتظار کرنے والون میں سے بعض ایسے لوگ بھی تے جنہوں نے اپنا مالی تعاون پیش کردیا تھا لیکن ذاتی طور پر جہاد میں شرکت سے وہ معذوری کا اظہار کر رہے تے اور یہ رویہ وہ اس لیے اختیار کر رہے تھے کہ وہ بدنام بھی نہ ہوں اور بین بین رہیں نہ ادھرکے نہ ادھر کے۔ چنانہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان جیسے لوگوں کے مالی تعاون کو مسترد کردیں کیونکہ یہ لوگ مالی تعاون کی پیشکش خوف اور دکھاوے کے لیے کرتے ی۔ ایمان کے تقاضوں اور اللہ پر بھروسے کی وجہ سے وہ یہ انفاق نہٰں کر رہے۔ خواہ وہ یہ کام دکھاوے کے لیے کر رہے ہوں اور اہل ایمان کو دھوکہ دے رہے ہوں یا مشرکین کے ڈر کی وجہ سے کر رہے ہوں۔ دونوں صورتوں میں ان کا یہ فعل اللہ کے نزدیک مردود ہے اور اللہ کے ہاں اس کا کوئی اجر نہیں ہے۔ ہر دور میں منافقین کے یہی خدوخال ہوتے ہیں۔ وہ ہر وقت خوف اور پیچ و تاب میں ہوتے ہیں۔ ان کے دل خالی خالی اور ضمیر اور ان کی سوچ یکسوئی سے تہی دامن ہوتی ہے۔ ان کے مظاہر میں حقیقت کی روح نہیں ہوتی اور ان کا ظاہر ان کے باطن سے بالکل جدا ہوتا ہے۔ ذرا قرآن کے انداز تعبیر کو دیکھو و لا یاتون الصلوۃ الا وھم کسالی (نماز کے لیے آتے ہیں تو کسمساتے ہوئے) ۔ وہ نماز دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں وہ ظاہراً تو نماز ہوتی ہے لیکن ان کے اندر نماز کی روح نہیں ہوتی۔ وہ نماز کو درست کرکے استقامت کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ کیونکہ نماز پڑھنے پر جو جذبہ مجبور کرتا ہے وہ ان کے دل اور اندرون میں نہیں ہوتا بلکہ بعض بیرونی اسباب کے دباؤ کی وجہ سے وہ اس طرف مجبور ہوتے ہیں۔ لہذا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں یہ فعل مجبوراً کرن اپڑ رہا ہے۔ اس طرح وہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے وہ بھی محض ظار داری کے لیے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مقبول نہیں ہیں کیونکہ اللہ کسی بھی عبادت کو قبول نہیں کرتا جو دلی جذبہ اور شعوری ایمان کے نتیجے میں نہ ہو۔ لہذا معیار یہ ہے کہ اچھا عمل ہو اور اچھی نیت سے کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کا مال مقبول نہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تم سے ہیں صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ آیت (قُلْ اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا) جد بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی جس نے کہا تھا کہ میں رومیوں کی عورتیں دیکھ کر بےصبر ہوجاؤں گا۔ اس لیے مجھے ساتھ نہ لے جائیے لیکن مال کے ذریعہ آپ کی مدد کر دوں گا۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ تم خوشی سے خرچ کرو یا نا خوشی سے تم سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ قبول نہ ہونے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مال لے کر آؤ گے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول نہ فرمائیں گے۔ اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ثواب نہ دے گا۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ دونوں ہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ (اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ ) بیشک تم نافرمان لوگ ہو۔ آیت کا سبب نزول خواہ جدبن قیس ہی کا واقعہ ہو لیکن آیت کے الفاظ عام ہیں جو تمام منافقین کو شامل ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52:“ طَوْعًا ” یعنی بلا الزام اور “ کَرْھًا ” بالالزام کیونکہ منافقین رضائے الٰہی کے لیے خرچ نہیں کرتے۔ منافقین میں چونکہ قبول اعمال کی شرط یعنی ایمان خالص مفقود ہے اس لیے ان کا کوئی عمل از قسم نفاق وغیرہ خدا کے یہاں قبول نہیں ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 آپ فرما دیجئے تم خوشی سے خرچ کرو یا ناخوشی اور ناگواری سے خرچ کرو تمہاری جانب سے کوئی خیرات قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ تم نافرمان اور عدول حکمی کرنے والے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہ جو مدد خرچ دینے لگا سو جواب ملا بےاعتقاد کا مال قبول نہیں۔ 12 کرھاً کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی زبردستی کی جاتی تھی بلکہ منافق بددن اعتقاد کے کچھ دیتے اسے کرھاً فرمایا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قبول ہی نہیں کیا جاتا تھا پھر جبرکیسا۔