Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 55

سورة التوبة

فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۵۵﴾

So let not their wealth or their children impress you. Allah only intends to punish them through them in worldly life and that their souls should depart [at death] while they are disbelievers.

پس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says to His Messenger, فَلَ تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلاَ أَوْلاَدُهُمْ ... So let not their wealth nor their children amaze you... In similar Ayat, Allah said, وَلاَ تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَجاً مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى And strain not your eyes in longing for the things We have given for enjoyment to various groups of them, the splendor of the life of this world, that We may test them thereby. But the provision (good reward in the Hereafter) of your Lord is better and more lasting. (20:131) and, أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that in wealth and children with which We enlarge them. We hasten unto them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) Allah said next, ... إِنَّمَا يُرِيدُ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... in reality Allah's plan is to punish them with these things in the life of this world, According to the meaning given by Al-Hasan Al-Basri. by taking the Zakah due on their money from them and spending it in Allah's cause, Allah's statement, ... وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ and that their souls shall depart while they are disbelievers. means, so that when Allah brings death to them, they will still be disbelievers, to make matters worse for them and the torment more severe. We seek refuge from such an end, which includes being led astray gradually by these things which they have.

کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و جاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 اس لئے یہ بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا ' اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں ؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں ' 55۔ 2 امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰوۃ اور نفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ 55۔ 3 تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر و نفاق پر ہی بدستور قائم و مصر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٩] منافقوں کو مال اور اولاد سے سزا کیسے ملی ؟ مدینہ میں جتنے منا فق تھے سب سن رسیدہ اور مالدار لوگ تھے اور منافقوں کا مطمح نظر محض دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے لہذا عام مادہ پرستوں اور دنیا پرستوں کی طرح ان کے نزدیک بھی عز و جاہ کا معیار اولاد اور مال و دولت کی فراوانی تھی۔ اب انہیں مشکل یہ پیش آئی کہ ان کی اولادیں مسلمان ہوگئیں۔ جن کے نزدیک عز و جاہ کا معیار ان کے معیار سے بالکل برعکس تھا۔ جن کی نظروں میں مال اور جائیداد کی قدر و قیمت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی اور ان کے نزدیک عز و جاہ کا معیار یہ تھا کہ جتنا بھی کوئی اللہ کے رسول کا شیدائی اور فرمانبردار ہوگا اتنا ہی وہ اسلامی معاشرہ میں معزز و مکرم سمجھا جائے گا۔ اس نظریاتی اختلاف نے انہیں اپنی اولاد ہی کی نظروں میں ذلیل کردیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد ہی کے ذریعہ انہیں دنیا میں سزا دے دی۔ اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی والی طبیعت کو بھی بدل نہیں سکتے تھے۔ لہذا وہ آخر دم تک اسی ننانوے کے چکر میں ہی پڑے رہے تاآنکہ انہیں موت آگئی اور وہ اسی نفاق اور ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَلَآ اَوْلَادُهُمْ : یعنی آپ ان لوگوں کے مال و دولت، اولاد اور دنیوی چمک دمک سے دھوکے میں نہ پڑیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا تو یہ اس قدر مال دار اور صاحب اولاد کیوں ہوتے ؟ بلکہ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٣١) اور مومنون (٥٥، ٥٦) ۔ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : یعنی دنیا میں ان چیزوں کو سعادت مندی خیال مت کریں، اللہ تعالیٰ نے انھیں صرف اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں، نہ انھیں دن کا چین نصیب ہو نہ رات کا آرام۔ سکون قلب جو فقط اللہ کی یاد سے حاصل ہوتا ہے، یعنی (اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ) [ الرعد : ٢٨ ] اس سے یہ سراسر محروم رہیں۔ وَتَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كٰفِرُوْنَ : یعنی آخر دم تک انھیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو، بلکہ جب یہ مریں تو اپنے مال اور اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو، نہ آخرت کی فکر نہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غرض۔ اگرچہ مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے نزدیک ہر چیز سے مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں وبال جان نہیں ہوتیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلَادُہُمْ۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ كٰفِرُوْنَ۝ ٥٥ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ زهق زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] . ( ز ھ ق ) زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوٰۃ الدنیا۔ ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو۔ اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں کے ذریعے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں مبتلائے عذاب کرنے والا ہے) اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ ” دنیا میں ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو۔ اللہ تعالیٰ تو ان چیزوں کے ذریعے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں مبتلائے عذاب کرنے والا ہے) اس آیت کی تفسیر میں تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ کا قول ہے کہ ” دنیا میں ان کے مال و دولت اور ان کی کثرت اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھائو، اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں ان چیزوں کی وجہ سے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ اس طرح ان دونوں حضرات کے نزدیک کلام میں تقدیم و تاخیر ہے ۔ حسن کا قول ہے۔ ” اللہ تعالیٰ انہیں زکوٰۃ کے سلسلے میں راہ خدا کے اندر انفاق کے ذریعے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ “ گویا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ان پر ایک بوجھ ہے اور اسے وہ اپنے لئے ایک سزا اور عذاب سمجھتے ہیں۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ انہیں مصائب کے ذریعے مبتلائے عذاب کرنے والا ہے۔ “ ایک قول کے مطابق دنیا میں بعض دفعہ کافر عذاب الٰہی کے اندر اس طرح مبتلا کیے جاتے ہیں کہ وہ گرفتار ہوجاتے ہیں اور ان کے اموال مسلمانوں کے لئے مال غنیمت بن جاتے ہیں۔ قول باری (لیعذبھم) میں وارد حرف لام، لام عاقبت ہے جس طرح اس قول باری میں ہے (لیکون لھم عدواً وحزنا تاکہ وہ ان کا دشمن اور غم بن جائے) ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مالوں اور اولاد کی زیادیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعجب میں نہ ڈالے، اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ ان کو آخرت میں عذاب دے اور حالت کفر میں ان کو موت آئے ہو جو اس نے کہا تھا کہ اپنے مال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کروں گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ (فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلآَ اَوْلاَدُہُمْ ط) ان کو دیکھ کر آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ مال و دولت اور اولاد کی کثرت ان کے لیے اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ‘ بلکہ ایسے لوگوں کو تو اللہ ایسی نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ ان کا حساب اسی دنیا میں بےباق ہوجائے اور آخرت میں ان کے لیے کچھ نہ بچے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات دنیا کی انہی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ انسان کے لیے باعث عذاب بنا دیتا ہے۔ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ یہی اولاد جس کو انسان بڑے لاڈ پیار اور ارمانوں سے پال پوس کر بڑا کرتا ہے اس کے لیے سوہان روح بن جائے اور یہی مال و دولت جسے وہ جان جوکھوں میں ڈال کر جمع کرتا ہے اس کی جان کا وبال ثابت ہو۔ (وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ ) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اپنی دولت ہی سے لپٹے رہیں اور اپنی اولاد کی محبت میں اس قدر مگن رہیں کہ جیتے جی انہیں آنکھ کھول کر حق کو دیکھنے اور پہچاننے کی فرصت ہی نصیب نہ ہو ‘ اور اسی حالت میں یہ لوگ آخری عذاب کے مستحق بن جائیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :54 یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے ، اس کی وجہ سے مسلم سوسائٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شان ریاست اور عزت و ناموری اور مشخیت و چودھراہٹ ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے ، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی ۔ ادنی ادنی غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے ، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے ، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے ، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں پیش آیا ۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ ، جن میں سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام جیسے لوگ بھی تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور ان شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو ۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائین مجلس میں پہنچ گئے ۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا ؟ سہیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں ، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے ۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا ، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحد روم کی طرف اشارہ کردیا ۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدان جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :55 یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدق ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: یہ آیت دنیوی مال و دولت کے بارے میں ایک بڑی عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مال و دولت بذات خود کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ انسان کا اصل مقصد زندگی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول اور آخرت کی بہتری کا سامان کرنا ہونا چاہیے۔ البتہ چونکہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مال کی ضرورت ہے، اس لیے جائز ذرائع سے اس کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ دنیا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی مال اپنی ذات میں کوئی فائدہ براہ راست نہیں پہنچاتا۔ بلکہ وہ راحت و آرام کے وسائل حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن جب انسان مال کو بذات خود مقصود زندگی بنا لیتا ہے، اور ہر وقت اس فکر میں پڑا رہتا ہے کہ مال کی گنتی میں کس طرح اضافہ ہو تو وہ بے چارہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے اس فکر میں اپنی راحت و آرام تک کو قربان کر ڈالا ہے۔ بینک بیلنس میں بیشک اضافہ ہو رہا ہے، لیکن نہ دن کا چین میسر ہے، نہ رات کا آرام نہ بیوی بچوں سے بات کرنے کی فرصت ہے، نہ آرام کے وسائل سے مزہ لینے کا وقت۔ پھر اگر کبھی اس مال میں نقصان ہوجائے تو رنج و غم کے پہاڑ سر پر ٹوٹ پڑتے ہیں، کیونکہ یہ تصور تو ہے ہی نہیں کہ اس نقصان کا بدلہ آخرت میں مل سکے گا۔ اس طرح اگر غور سے دیکھو تو یہ مال و دولت نعمت بننے کے بجائے انسان کے لیے دنیا ہی میں عذاب بن جاتا ہے۔ یہی حال اولاد کا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق نہ ہو تو وہ بکثرت انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٥۔ اوپر ذکر تھا کہ جد بن قیس نے اپنی مالداری کے گھمنڈ پر یہ کہا تھا کہ اگر اس لڑائی میں کچھ خرچ کی ضرورت ہو تو میں دے سکتا ہوں اس لئے اس آیت میں فرمایا کہ یہ لوگ اگر کثرت سے مال اور اولاد رکھتے ہیں تو اے رسول اللہ کے تم اسے دیکھ کر تعجب نہ کرو یہ بھی خدا کی طرف سے ایک ڈھیل ہے کہ اللہ پاک انہیں چیزوں کے ذریعہ سے دنیا ہی میں ان پر عذاب کریگا زکوٰۃ کو یہ لوگ جرمانہ خیال کریں گے ان کو کبھی کچھ مالی نقصان پہنچ گیا تو اس کے سبب سے انہیں نہایت غم اور صدمہ ہوگا کیونکہ یہ مال ان لوگوں نے بہت جانفشانی اور مشقت سے جمع کیا ہے اس لئے جب اس مال میں کچھ نقصان کی صورت انہیں نظر آوے گی تو اس نقصان کی مصیبت پر ان لوگوں سے صبر تحمل اس سبب سے نہ ہو سکے گا ہے عقبے میں صبر پر اجر کے ملنے کا انہیں پورا یقین نہیں ہے اس لئے اس مال کے ضائع ہوجانے سے ان پر ایسا صدمہ ہوگا کہ گویا ان پر عذاب ٹوٹ پڑا یہی حال ان کا جانی نقصان کی صورت میں ہے کیونکہ عقبے کی سزا وجزا پر ان لوگوں کا اعتقاد نہیں اس واسطے ان کے دلوں میں اسلام کی یا اسلام کے احکام کی تو کچھ عظمت نہیں فقط مسلمانوں کے ہاتھ سے جان ومال بچانے کے لئے دغابازی کے طور پر ظاہری اسلام انہوں نے اختیار کیا ہے اور اسی دغابازی کو یہ لوگ اچھا جانتے ہیں اس واسطے مرتے دم تک یہ اسی حالت میں رہیں گے۔ صحیح مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان دار شخص کی مثال کھیتی کے چھوٹے چھوٹے درختوں کو الٹ پلٹ کرتی رہتی ہے اسی طرح ایمان دار شخص پر دنیا میں بارہا طرح طرح کی مصیبتیں آتی رہی ہیں اور جس طرح صنوبر کے درخت کو معمولی ہوا سے کچھ صدمہ نہیں پہنچتا اسی طرح منافق شخص بھی روز مرہ کی آیتوں سے اکثر محفوظ اور اپنی مال و اولاد میں خوش حال رہتا ہے لیکن کھوکلا ہوجانے کے بعد جیسے صنوبرکا درخت ایک دفعہ ہی آندھی میں اکھڑ کر گر پڑتا ہے اسی طرح منافق شخص پر آخر کو کوئی سخت آفت آجاتی ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ اس حدیث سے ایمانداروں اور منافقوں کی تفصیلی حالت معلوم ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث صحیح مسلم میں معب بن مالک (رض) کی روایت سے بھی ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب (رض) رومی کی ایک حدیث گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مصیبت کے وقت صبر کا کرنا پکے ایمان دار آدمی کا کام ہے۔ اس حدیث کو بھی آیت تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانی یا مالی مصیبت کے وقت منافقوں سے صبر نہیں ہوسکتا بلکہ بےصبری کے سبب سے وہ لوگ مصیبت میں گھبرا جاتے ہیں اور اس مصیبت کو ایک وبال اور عذاب گنتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان صحیح حدیثوں سے آیت کی تفسیر ہوجانے کے بعد مفسروں کا وہ اختلاف رفع ہوجاتا ہے جو ایک مدت سے اس باب میں چلا آتا تھا کہ منافقوں کے حق میں مال وا ولاد کو دنیاوی عذاب آیت میں کس مطلب سے فرمایا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا یہ اس قدر مالدار اور صاحب اولاد کیوں ہوتے۔ ( وحیدی)6 یعنی دنیا میں ان چیزوں کو سعادت مندی خیال نہ کرو یہ دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی فکر میں لگے رہتے ہیں گویا ایک قسم کے عذاب میں گرفتار ہیں۔ ، اس لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ْ : ھلک المکئرون۔ کہ زیادہ مال جمع کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ ( از کبیر)7 یعنی آدم آخردم تک انہیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو بلکہ جب یہ مریں ٍ تو اپنے مال اور اپنی اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو نہ آخرت کی فکر نہ خدا سے کوئی غرض۔ اگرچہ ایک مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی اس کے نز دیک ہر چیز پر مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں وبال جان نہیں ہوتی۔ ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی مزید نشانیوں کا تذکرہ جاری ہے۔ مدینہ کے منافق مال اور اولاد کے اعتبار سے بیشمار لوگوں سے زیادہ حیثیت کے مالک تھے۔ لیکن کمینے اور منافق شخص کے پاس مال کی کثرت اور افرادی قوت ہو تو وہ اپنی خباثت میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جس شخص کے پاس یہ دو چیزیں وافر ہوں تو اسے کوئی ٹوکنے اور روکنے والا نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے قول و فعل میں سچا ہوں۔ عوام الناس ایسے شخص سے متاثر اور مرعوب ہوجاتے ہیں اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ لوگوں کے سامنے منافقوں کی بےوقعتی ثابت ہوجائے۔ آپ کو حکم ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو منافقوں کے کاروبار، محلات، مال و اسباب اور افرادی قوت دیکھ کر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں انھیں بطور خیر کے عطا نہیں کی گئیں بلکہ اس لیے دی گئیں ہیں کہ ان کے مال اور اولاد دنیا میں ان کے لیے ذلت کا باعث اور آخرت میں ان کے لیے عذاب کا سبب ثابت ہوں اور یہ کفر کی حالت میں ہی جان دیں۔ یہ حلف دے دے کر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ تمہارے ساتھی ہیں حالانکہ وہ ایمان، اخلاص اور ہمدردی کے حوالے سے تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے ایسی باتیں محض اپنی منافقت اور بزدلی چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔ منافقین کو چاہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے شکر گزار ہوتے ہوئے، اخلاص اور تابعداری کا مظاہرہ کرتے لیکن منافق ان نعمتوں کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھی چیزوں کے ساتھ انھیں دنیا میں سزا دی جائے گی۔ اگر سوچا جائے تو کیا یہ سزا کم ہے ؟ کہ عبداللہ بن ابی نے جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر اپنے مخصوص ساتھیوں میں یہ کہا کہ مدینہ پہنچ کر گھٹیا لوگوں یعنی صحابہ کرام (رض) کو شہر سے نکال دیا جائے گا۔ حالانکہ وہ اس قابل نہیں تھا۔ کیونکہ آج تو سلطنت رومہ کا حکمران بھی صحابہ کی تاب نہیں لاسکا۔ جس کی وجہ سے اس نے تبوک کے محاذ سے پسپائی اختیار کی تھی یہ صرف منافق کی یا وہ گوئی اور ہرزہ سرائی تھی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : (ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاطوَ لِلّٰہِ خَزَآءِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ یَقُوْلُوْنَ لَءِنْ رَّجَعْنَآ اِلٰی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّطوَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ )[ المنافقون : آیْت، ٧۔ ٨] ” یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں نہ خرچ کرو ان (درویشوں) پر جو اللہ کے رسول کے پاس ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ (بھوک سے تنگ آکر) تِتر بتر ہوجائیں، اور اللہ کے لیے ہی ہیں خزانے آسمانوں اور زمین کے لیکن منافقین ( اس حقیقت کو) سمجھتے ہی نہیں۔ منافق کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر گئے مدینہ میں تو نکال دیں گے عزت والے وہاں سے ذلیلوں کو حالانکہ (ساری) عزت تو صرف اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے مگر منافقوں کو ( اس بات کا) علم ہی نہیں۔ “ جو نہی وہ مدینہ داخل ہوا۔ اس کا بیٹا جس کا نام بھی عبداللہ تھا وہ تلوار سونت کر سامنے آیا اور اپنے باپ سے کہا کہ میں تم کو مدینہ داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک آپ اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت نہیں کرتے چناچہ عبداللہ بن ابی نے اس سے معافی مانگی۔ اس کے باوجود یہ شخص منافقت کی حالت میں مرا تھا یہاں تک منافقوں کے مال کا تعلق ہے وہ بھی منافقین کی زندگی میں ختم ہوا۔ صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ نے عزت و اقبال کے ساتھ دنیا کی فراوانی سے ہم کنار فرمایا۔ مسائل ١۔ منافق اور کافر کے مال اور اولاد پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ منافق اور کافر کا مال اور اولاد اس کے لیے دنیا میں بھی ذلت کا باعث بنتے ہیں۔ ٣۔ منافق کا حلف جھوٹا اور یہ بزدل ہوتا ہے۔ ٤۔ منافق کی جان بھی منافقت کی حالت میں نکلتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ منافقین اصحاب مال و اولاد تھے لیکن یہ جہاد کو ناپسند کرتے تھے اور بڑے با اثر لوگ تھے۔ لیکن اللہ کے نزدیک مال و دولت اور جاہ و شرف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ لہذا رسول اور اہل ایمان کے نزدیک بھی مال و دولت اور جاہ و شرف کی کوئی اہمیت نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ چیزیں اللہ کے ایسے انعامات نہیں ہیں کہ وہ ان کے ذریعے مزے لوٹتے رہیں اور ان سے کوئی باز پرس نہ ہو بلکہ یہ تو ایک فتنہ اور آزمائش ہے۔ اس پر ان سے باز پرس ہوگی اور ان کو سزا ہوگی۔ مال و اولاد کبھی ایک نعمت ہوتے ہیں اور اس سے اللہ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو نوازتے ہیں اور پھر اسے توفیق دیتے ہیں کہ وہ اس کا شکریہ ادا کرے۔ اور اپنی اس قوت کو اصلاح فی الارض کے لی استعمال کرے۔ اس کے ذریعے اللہ کی طرف متوجہ ہو اور اس طرح اس کا ضمیر مطمئن ہو۔ اس کے نفس میں سکون و اطمینان ہو اور اسے اپنے انجام ، اچھے انجام کا پورا پورا یقین ہو۔ اور اس کا طرز عمل ایسا ہو کہ وہ نہایت اخلاص کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرتا ہو اور آخرت کے لیے توشہ جمع کرتا ہو اور جب اسے مالی یا جانی نقصان ہو تو بھی وہ اسے اللہ کی طرف سے سمجھتے اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہوتا ہے اور یہی مال و اولاد کبھی اللہ کی جانب سے سزا ہوتے ہیں اور ہی سزا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ چناچہ یہ اموال اور اولاد اس کے لیے موجب قلق اور اذیت ہوتے ہیں اور اس قلق اور پریشانیوں کی وجہ سے وہ جہنم میں ہوتا ہے اور زیادہ مال و دولت کو مزید بڑھانے کے لیے اس کی راتوں کی نیند ختم ہوجاتی ہے اور وہ اعصابی طور پر شل ہوجاتا ہے۔ اب اسے انفاق مال اتلاف مال کے برابر نظر آتا ہے۔ اگر اس کی اولاد بیمار ہو تو بھی وہ کڑھتا ہے اور اگر اولاد تندرست ہو تب بھی اس کے لیے باعث اذیت ہوتی ہے۔ بیشمار ایسے لوگ موجود ہیں کہ ان کے لی خود ان کی اولاد وبال جان ہوتی ہے۔ اس قسم کے لوگ رسول اللہ کے دور میں موجود تھے۔ اب بھی یہ موجود ہیں اور ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ان کے پاس دولت ہوگی ، ان کی اولاد ہوگی ، لوگ ان کی ظاہری پوزیش کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوں گے لیکن درحقیقت یہ سب کچھ ان کے لیے عذاب ہوگا ، اس دنیا میں عذاب اور ان کے اندرون اور انجام سے چونکہ اللہ خوب واقف ہے ، اس لیے وہ جہنم کے لیے پا بہ رکاب ہوتے ہیں۔ پس حالت کفر پر ان کی موت کی دیر ہوتی ہے۔ جان دیتے ہی وہ جہنم رسید ہوجاتے ہیں۔ قرآن کا انداز تعبیر و تزھق انفسہم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ لوگ نفسیاتی طور پر فراڈ اور ہلاکت کی حالت میں ہیں۔ ان کی حالت کچھ اس طرح ہے کہ وہ سکون ، ٹھہراؤ اور اطمینان کی دولت سے محروم ہیں۔ لہذا جس طرح وہ آخرت میں سخت عذاب میں ہوں گے ، اسی طرح یہ دنیا بھی ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہے۔ تو گویا دنیا میں وہ آخرت میں سخت عذاب میں ہوں گے ، اسی طرح یہ دنیا بھی ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہے۔ تو گویا دنیا و آخرت دنوں میں وہ عذاب میں ہوں گے۔ اور اس قسم کے مال و دولت اور اسی اولاد کی ، ظاہر ہے کہ کوئی معقول شخص خواہش مند نہ ہوگا جس کے اندر عذاب ہی عذاب پوشیدہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (فَلَا تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَ لَآ اَوْلَادُھُمْ ) (الآیہ) (کہ ان کے مال او اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں) کیونکہ یہ چیزیں مقبولیت عند اللہ کی دلیل نہیں ہیں۔ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں مردود ہوتے تو ان کے اموال اور اولاد میں کثرت کیوں ہوتی۔ یہ کثرت بطور استدراج ہے جو ان کے لیے باعث عذاب ہے۔ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) (اللہ یہی چاہتا ہے کہ دنیا میں ان چیزوں کے ذریعہ انہیں عذاب دے) پہلا عذاب تو یہ ہے کہ مال جمع کرنے میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں، مصیبت جھیلتے ہیں اور اس میں اللہ کی رضا کا ذرا دھیان نہیں کرتے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جو تکلیف اٹھائی جائے وہ ہلکی اور آسان ہوجاتی ہے۔ نیز یہ مال ان کے لیے اس لیے بھی دنیا میں عذاب بنے ہوئے ہیں کہ اسلام کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے شرما کر تھوڑی زکوٰۃ بھی دے دیتے ہیں اور جہاد میں بھی خرچ کرتے ہیں جس سے ان کا دل دکھتا ہے۔ یہ دل کا دکھنا بھی عذاب ہے۔ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے خرچ کرتے تو یہ خرچ کرنا خوشی کا باعث بن جاتا۔ اور اولاد کے ذریعہ دنیا میں عذاب دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اولاد کی پرورش اور پر داخت میں بہت تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اور اس تکلیف پر کسی ثواب کی امید نہیں پھر بعض مرتبہ ان کے بیٹے جہاد میں مقتول ہوجاتے ہیں اور اس قتل پر بھی رنجیدہ ہوتے ہیں کیونکہ ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے شہادت کے ثواب کا یقین نہیں رکھتے۔ پھر فرمایا (وَ تَزْھَقَ اَنْفُسُھُمْ وَ ھُمْ کٰفِرُوْنَ ) اور اللہ چاہتا ہے کہ ان کی جانیں اس حال میں نکل جائیں کہ وہ کافر ہوں۔ (تاکہ آخرت کے عذاب میں بھی گرفتار ہوں) اللہ تعالیٰ کے رسول کے ساتھ رہتے ہیں اس کی کتاب سنتے ہیں معجزات دیکھتے ہیں، پھر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان لانے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ اب کفر پر ہی مریں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54: ان کے مال و اولاد کی کثرت ان کے حق میں بہتر نہیں۔ یہ ان کو اس لیے دئیے گئے ہیں تاکہ ان کے ذریعے دنیا ہی میں اللہ ان کو مبتلائے عذاب کردے ان کے دلوں میں مال اور اولاد کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اور جہاد وغیرہ میں ان کی اولاد کا قید ہوجانا ان کے لیے ایک دنیوی عذاب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55 رہا یہ شبہ کہ ان نافرمانوں کو دولت کیوں دی جاتی ہے اس کا جواب دیا گیا سو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو ان کے مال اور ان کی اولاد تعجب میں نہ ڈالیں کیونکہ اللہ کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان چیزوں کے ذریعہ ان کافروں کو دنیا ہی کی زندگی میں مبتلائے عذاب رکھے اور ان کی جان کفر ہی کی حالت میں نکلے۔ یعنی مال حاصل کرنے میں پریشانی پھر حفاظت میں کوفت پھر مرتے وقت کی تکلیف۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی یہ تعجب نہ کرو کہ بےدین کو اللہ نے نعمت کیوں دی بےدین کے حق میں اولاد اور مال و بال ہے کہ ان کے پیچھے دل پریشان ہے اور ان کی فکر سے چھوٹنے نہ پاویں مرتے دم تک تا توبہ کرے یا نیکی پکڑے۔ 12