Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 56

سورة التوبة

وَ یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ اِنَّہُمۡ لَمِنۡکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لٰکِنَّہُمۡ قَوۡمٌ یَّفۡرَقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

And they swear by Allah that they are from among you while they are not from among you; but they are a people who are afraid.

یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ تمہاری جماعت کے لوگ ہیں حالانکہ وہ دراصل تمہارے نہیں بات صرف اتنی ہے یہ ڈرپوک لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Exposing Hypocrites' Fright and Fear Allah describes to His Prophet the fright, fear, anxiety and nervousness of the hypocrites, وَيَحْلِفُونَ بِاللّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ ... They swear by Allah that they are truly of you, swearing a sure oath, ... وَمَا هُم مِّنكُمْ ... while they are not of you, in reality, ... وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ but they are a people who are afraid, and this is what made them swear.

جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی ان کس سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لئے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لئے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے ۔ اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لئے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرف دوڑ جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ جھکتے چلے جا رہے ہیں مومنوں کو ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 اس ڈر اور خوف کی وجہ سے جھوٹی قسمیں کھا کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی تم میں سے ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٠] منافقوں کی بےچارگی اور مجبوری :۔ یہ منافق مدینہ میں انتہائی بےبسی اور بےچارگی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وہ کفر کو دل سے پسند کرتے تھے مگر مدینہ میں رہ کر اس بات کا نہ اظہار کرسکتے تھے اور نہ اعلان کرسکتے تھے کیونکہ اس وقت اسلامی حکومت ایک برتر قوت کی حیثیت اختیار کرچکی تھی اور کفر کے اظہار سے وہ مسلمانوں کے بلکہ اپنی اولادوں کے ہاتھوں بھی پٹ سکتے تھے اور مدینہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جا بھی نہیں سکتے تھے اس لیے کہ اس طرح انہیں اپنی جائیدادوں سے دستبردار ہونا پڑتا تھا جن میں ان کی جانیں اٹکی ہوئی تھیں اور یہ ان کی عمر بھر کی جائز و ناجائز کمائیوں کا نتیجہ تھیں۔ لہذا انہیں مجبوراً یہ نفاق کی راہ اختیار کرنا پڑی تھی۔ مگر اس حالت میں بھی انہیں کچھ چین میسر نہ تھا۔ انہیں ظاہر داری کے طور پر پانچ وقت کی نمازیں بھی ادا کرنا پڑتی تھیں اور صدقات و خیرات بھی دینا پڑتے تھے اور یہ دونوں باتیں انہیں سخت ناگوار تھیں۔ مزید رسوائی یہ تھی کہ مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور ان کی یہ حالت دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا، کے مصداق بن گئی تھی۔ اور وہ ڈرپوک اس لحاظ سے تھے کہ اپنی یہ حالت زار کسی سے بیان بھی نہ کرسکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ : ” فَرِقَ یَفْرَقُ (ع) “ سخت خوف زدہ ہونا اور گھبرانا، یعنی یہ منافق تم سے شدید خوف کی وجہ سے اپنے کفر کا اظہار نہیں کرسکتے، نہ مقابلے میں آنے کی جرأت کرسکتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں انھیں اپنے قتل اور بیوی بچوں کے لونڈی غلام بننے کا سخت خطرہ ہے، اس لیے قسمیں کھا کھا کر تم میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نفاق آدمی میں دوسروں کا خوف اور بزدلی پیدا کرتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَحْلِفُوْنَ بِاللہِ اِنَّہُمْ لَمِنْكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا ہُمْ مِّنْكُمْ وَلٰكِنَّہُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ۝ ٥٦ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف : إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولیحلفون باللہ انھم لمنکم ۔ وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں) عظمت والی ذات کا واللہ، باللہ کے الفاظ یا قسموں والے حروف کے ساتھ ذکر کے ذریعے جملے میں دی گئی خبر کی تاکید کو حلف کہتے ہیں۔ قسم اور یمین بھی اسی طرح منعقد ہوتے ہیں۔ تاہم حلف میں خبر کو عظمت والی ذات کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے۔ قول باری (ولیحلفون باللہ) میں ان کے متعلق یہ خبردی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی قسم کھائی ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس میں مستقبل کی یہ خبر دی گئی ہے کہ یہ لوگ عنقریب اللہ کی قسم کھائیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” احلف باللہ “ تو یہ قسم ہوگی اور اگر حلف کے ذکر کو مخدوف کرکے صرف باللہ کہے تو بھی یہ قسم ہوجائے گی اس لئے کہ اس کی حیثیت اس قول جیسی ہوگی ” انا حالف باللہ ( میں اللہ کے نام کا حلف اٹھاتا ہوں) البتہ اگر حلف لینے والا اس سے وعدہع مراد لے تو اس صورت میں یہ فقرہ قسم پر محمول نہیں ہوگا بلکہ وعدہ کے معنوں پر محمول ہوگا۔ تاہم ظاہری طور پر اس فقرے کا مفہوم یہی ہے کہ کہنے والا اس کے ذریعے حلف واقع کررہا ہے جس طرح کوئی یہ کہے انا اعتقدالاسلام (میں اسلام کا عقیدہ رکھتا ہوں) اس فقرے میں وعدہ کے معنوں کا بھی احتمال ہے۔ لیکن ” باللہ “ کا قول تو اس کے ذریعے قسم ہی واقع ہوگی اگرچہ اس میں لفظ ’ احلف ‘ (میں حلف اٹھاتا ہوں ) یا ٖ ’ حلقت ‘ (میں نے حلف اٹھایا) پوشیدہ ہے۔ ایک قول کے مطابق لفظ ’ حلف ‘ کو اس لئے محذوف کردیا گیا تاکہ یہ حلف کے وقوع پر دلالت کرے اور وعدہ کا احتمال ختم ہوجائے۔ جس طرح فقرہ ” واللہ لا فعلن “ (بخدا میں کروں گا) میں لفظ حلف مغذوف ہے تاکہ یہ دلالت حاصل ہوجائے کہ اس فقرہ کا قائل حلف اٹھارہا ہے وعدہ نہیں کررہا ہے۔ قول باری (انھم لمنکم) کا مفہوم ہے کہ ہم ” ہم ایمان، طاعت ، دین اور ملت کے لحاظ سے تمہی میں سے ہیں “ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تکذیب کردی اور انہیں جھوٹا قرار دیا۔ مسلمانوں کی طرف منافقین کی اضافت اور نسبت اس وقت درست ہوتی جب یہ مسلمانوں کے دین کے پیروکار ہوتے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دلی دوست ہیں) نیز (المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض منافق مرد اور منافق عورتیں بعض کا بعض سے تعلق ہے) دونوں آیتوں میں بعض کی نسبت بعض کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ دین اور ملت کے لحاظ سے ان کا آپس میں اتفاق ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) یعنی عبداللہ بن ابی (منافق) اور اس کے ساتھی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم ظاہر و باطن سے تمہارے ساتھ ہیں، اصل میں یہ لوگ کسی طریقہ پر بھی تمہارے ساتھ نہیں، وہ تمہاری تلواروں سے ڈرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ اِنَّہُمْ لَمِنْکُمْ ط) ہم بھی مسلمان ہیں ‘ آپ لوگوں کے ساتھی ہیں ‘ ہماری بات کا اعتبار کیجیے۔ (وَمَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلٰکِنَّہُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ ) اصل میں یہ لوگ اسلام کے غلبے کے تصور سے خوفزدہ ہیں اور خوف کے مارے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٦۔ ٥٧۔ اللہ پاک نے یہاں سے منافقوں کی ایک اور دغابازی کی حالت کی تفصیل شروع فرمائی کہ یہ لوگ قسمیں کھاکھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں تمہارے دین پر ہیں اور خدا و رسول کے ہر طرح سے فرمانبردار ہیں لیکن یہ غلط بات ہے ان کی قسمیں محض جھوٹی ہیں یہ ہرگز تمہارے گروہ میں سے نہیں ہیں انہیں دین اسلام سے کیا واسطہ خدا و رسول کے حکم کی پیروی سے انہیں کیا سروکار یہ تو خوف کے مارے اسلام کا اظہار کرتے ہیں جانتے ہیں کہ جس طرح مشرکوں کو مسلمان قتل و غارت کرتے ہیں ان کی بی بی بچوں کو پکڑ لیتے ہیں ان کے مال غنیمت میں لوٹ لیتے ہیں اسی طرح کہیں ہم سے بھی نہ پیش آئیں غرض کہ اسی سبب سے یہ لوگ جھوٹے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں حقیقت میں یہ مسلمان نہیں ہیں اگر انہیں کوئی بچاؤ کی صورت نظر آئے مثلا کوئی قلعہ مل جائے جس میں پناہ لیں یا کوئی غار یا گڑھا یا اور کوئی چھپنے کی جگہ مل جائے تو یہ لوگ اسی طرح بھاگیں کہ پھر کبھی کسی مسلمان سے واسطہ نہ رکھیں انہیں اسلام کے ساتھ دلی بغض ہے اسلام کی ترقی سے بجائے خوشی کے ہمیشہ رنج پہنچتا رہتا ہے یہ جو مسلمانوں کے ساتھ ملتے جلتے ہیں نہایت ناخوشی سے ملتے ہیں محبت اور شوق سے نہیں ملتے ہیں اپنی جانوں کے خوف سے ظاہری میل جول رکھتے ہیں ورنہ انہیں کب گوارا ہے کہ یہ اسلام کی ترقی دیکھیں۔ معتبر سند سے ترمذی مستدرک حاکم وغیرہ میں زیدبن ارقم (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات کہی کہ اس لڑائی کے سفر سے مدینہ کو واپس جانے کے بعد مہاجرین کو مدینہ سے نکال دیا جاویگا۔ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی کو بلا کر اس بات کی صداقت کا حال دریافت کیا عبداللہ بن ابی نے بہت سی قسمیں کھائیں اور اس بات کے کہنے سے صاف انکار کیا اس کی ان قسموں کو جھوٹا ٹھہرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورة منافقون کی آیتیں نازل فرمائیں اس آیت میں منافقوں کی جھوٹی قسموں کا جو ذکر ہے یہ قصہ گویا اسی کی تفسیر ہے سورة حشر میں اللہ تعالیٰ نے ایمان دار انصار کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ ان کے دلوں میں مہاجرین کی پوری الفت اور محبت ہے سورة حشر کی ان آیتوں اور بنی مصطلق کی لڑائی کے وقت کے قصہ کو ملانے سے اس آیت کی تفسیر کا یہ حاصل قرار پاتا ہے کہ یہ منافق جھوٹی قسمیں کھا کر زبرستی اپنے آپ کو مسلمانوں کے گروہ میں شریک کرتے ہیں ورنہ حقیقت میں یہ لوگ مہاجر اور انصار مسلمانوں کے دونوں گروہ کے مخالف ہیں مہاجرین سے تو انہیں یہاں تک مخالفت ہے کہ ان کا مدینہ میں رہنا انہیں شاق گزرتا ہے رہے ایماندار انصار ان کی نشانی مہاجرین کے ساتھ محبت کا برتاؤ ہے نہ مخالفت کا اس صورت میں یہ منافق مسلمانوں کی ساری جماعت سے خارج اور الگ ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:56) یفرقون۔ مضارع جمع مذکر غائب فرق مصدر (سمع) وہ ڈرپوک ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی محض تمہارے ڈر کے مارے تم میں سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ نفاق انسان کے اند بزدلی اور دوسروں کا خوپیدا کرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی مسلمان ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قسم کے منافقین اسلامی صٖوں میں اپنے لیے مقام پیدا کر رہے تھے۔ وہ اسلامی صفوں میں اپنے اعتقادات اور اپنے ایمان کی وجہ سے نہیں گس رہے تے بلکہ وہ نفاق کے مرض میں مبتلا تے اور خوف کی وجہ سے بھی وہ مسلمانوں کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ ان کے کچھ مفادات اور نظریات کی وجہ سے ایمان کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اس سورت نے ان کے اندرون کو ظاہر کردیا ہے۔ اسی وجہ سے اسے " کاشفہ " اور " فاضحہ " بھی کہا جاتا کہا جاتا ہے۔ اس نے منافقین کا پردہ چاک کرکے انہیں اچھی طرح شرمندہ کردیا ہے۔ وَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ ۭوَمَا هُمْ مِّنْكُمْ وَلٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَّفْرَقُوْنَ : " وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں ، حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوفزدہ ہیں۔ یہ پرلے درجے کے بزدل ہیں اور انداز بیان ایسا ہے کہ یہ لوگ مجسم طور بھاگنے اور سہمے ہوئے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے نفس اور دل میں فرار ہے۔ ان کے رویے میں فرار اور خوف ہے۔ لَوْ يَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُوْنَ اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھس بیٹھنے کی جگہ ، تو بھاگ کر اس میں جا چھپیں " یہ ہر وقت چھپ جانے کی جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں اور جائے امن کی تلاش میں رہتے ہیں۔ قلعہ بند جگہ یا غار اور تہہ خانہ۔ یہ خوفزدہ اور فرار کی حالت میں ہوتے ہیں۔ گویا کوئی ان دیکھی قوت یا اچانک آنے والی مصیبت ان کا پیچھا کر رہی ہو۔ یہ روحانی طور پر شکست خوردہ اور بزدل ہیں۔ وَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ ۭوَمَا هُمْ مِّنْكُمْ : " وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں " بہت بہت تاکیدوں کے ساتھ حلف اٹھاتے ہیں تاکہ یہ لوگ وہ باتیں چھپا دیں جو ان کے دلوں میں ہیں اور ان کا کسی طرح انکشاف نہ ہونے پائے اور ان کی جان و مال محفوظ رہ جائیں۔ ان کی صورت حال نہایت ہی قابل رحم ہے۔ بزدل ، ریاکاری اور چاپلوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور قرآن ان کے لیے ایسے ہی اسالیب استعمال کر رہا ہے۔ عجیب تصویر کشی ہے جس کے ذریعے ان کے خفیہ بھیدوں کا ایکسرے ہوجاتا ہے اور نہایت ہی موثر انداز میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر منافقین کی قسموں کا ذکر فرمایا (وَ یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ ) (اور ان کا یہ طریقہ ہے کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں) سچے مومن کو اپنے ایمان پر قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی اہل ایمان اس کے حالات اور معاملات اور احوال و اعمال اور برتاؤ کو دیکھ کر ہی اسے مومن سمجھتے ہیں اور منافقین کا رنگ ڈھنگ بتاتا ہے کہ یہ اندر سے مومن نہیں ہیں اس لیے اہل ایمان اس سے بچتے ہیں اور انہیں اپنا نہیں سمجھتے لہٰذا بار بار قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تم ہی میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَمَا ھُمْ مِّنْکُمْ ) (اور تم میں سے نہیں ہیں) ۔ (وَ لٰکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ ) (لیکن بات یہ ہے کہ وہ ڈرنے والے لوگ ہیں) وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ایمان کا دعویٰ نہ کریں تو ہمارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہوگا جو مشرکین اور یہود کے ساتھ ہوا۔ اب جبکہ مدینہ دارالاسلام بن گیا اور کافر ہو کر جینے کا موقعہ نہ رہا۔ تو جھوٹ موٹ ایمان کا دعویٰ کردیا تاکہ جان مال محفوظ رہے اور جو منافع مسلمانوں سے حاصل ہوتے ہیں وہ حاصل ہوتے رہیں۔ ڈر پوک آدمی کھل کر سامنے نہیں آسکتا۔ اس لیے ان لوگوں نے ایمان کا جھوٹا دعویٰ کردیا اور قسموں کے ذریعہ باور کر انے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں تاکہ مسلمانوں کی زد سے بچے رہیں۔ پھر منافقین کی قلبی بےتعلقی کا تذکرہ فرمایا کہ انہیں کوئی دوسرا ٹھکانہ میسر نہیں، اس لیے تم سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں اور تمہاری جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں اگر انہیں کوئی ٹھکانہ مل جائے جس میں پناہ لے سکیں یا کوئی غار مل جائے جس میں چھپ سکیں یا داخل ہونے کے لیے دوسری جگہ مل جائے تو تیزی کے ساتھ اس میں چلے جائیں گے اور تمہاری طرف سے نظریں پھیر لیں گے۔ اور پوری طرح طوطا چشمی اختیار کرلیں گے۔ تم سے انہیں بالکل بھی قلبی تعلق نہیں ہے۔ ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر کے اور قسمیں کھا کے تمہیں مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

55: یعنی جب آپ جنگ سے فارغ ہو کر واپس مدینہ پہنچیں گے تو یہ منافقین جھوٹی قسمیں کھا کھا کر آپ کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ وہ مخلص مؤمن اور آپ کے سچے تابعدار ہیں مگر یاد رکھئے ان لوگوں کا آپ کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں یہ محض ڈر اور خوف کی وجہ سے آپ کی خوشامد کرتے اور اسلام کا اظہار کرتے ہیں۔ “ لَوْ یَجِدُوْنَ الخ ” اگر قتل و قید سے بچنے کے لیے انہیں کوئی جائے پناہ مل جائے یا وہ پہاڑوں کی غاروں میں اور زمین کی سرنگوں میں چھپ کر جان بچا سکیں تو وہ دور کر ان کمین گاہوں میں جا چھپیں اور آپ کی خوشامد کرنے اور اسلام ظاہر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کریں۔ “ و معنی الایة انھم کارھون من مصاحبتکم اشد الکراھة لو یجدون مخلصًا مکم لفارقوکم ” (مظہری ج 4 ص 229) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

56 اور اللہ تعالیٰ کے نام کی قسمیں کھا کھاکر یہ منافق کہتے ہیں کہ وہ یقیناً تم ہی میں سے ہیں اور جیسے تم مسلمان ہو ایسے ہی وہ ہیں حالانکہ واقع میں وہ تم میں سے نہیں ہیں لیکن وہ لوگ ڈرپوک ہیں اور تم سے ڈرتے ہیں۔ یعنی ڈر اور خوف کی وجہ سے اسلام کا اظہار کرتے ہیں مگر باطن میں نہیں۔