Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 57

سورة التوبة

لَوۡ یَجِدُوۡنَ مَلۡجَاً اَوۡ مَغٰرٰتٍ اَوۡ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوۡا اِلَیۡہِ وَ ہُمۡ یَجۡمَحُوۡنَ ﴿۵۷﴾

If they could find a refuge or some caves or any place to enter [and hide], they would turn to it while they run heedlessly.

اگر یہ کوئی بچاؤ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی بھی سر گھسانے کی جگہ پا لیں تو ابھی اس طرف لگام توڑ کر الٹے بھاگ چھوٹیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً ... Should they find a refuge, such as a fort in which they hide and fortify themselves, ... أَوْ مَغَارَاتٍ ... or caves, (in some mountains), ... أَوْ مُدَّخَلً ... or a place of concealment, According to the explanation given by Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah, a tunnel or a hole in the ground, ... لَّوَلَّوْاْ إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ they would turn straightway thereto with a swift rush. away from you because they associate with you unwillingly, not because they are fond of you. They prefer that they do not have to mix with you, but necessity has its rules! It is because of this that they feel grief, sadness and sorrow, seeing Islam and its people enjoying ever more might, triumph and glory. Therefore, whatever pleases Muslims brings them grief, and this is why they prefer to disassociate themselves from the believers. Hence Allah's statement, لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلً لَّوَلَّوْاْ إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ Should they find a refuge, or caves, or a place of concealment, they would turn straightway thereto with a swift rush.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 یعنی نہایت تیزی سے دوڑ کر وہ پناہ گاہوں میں چلے جائیں، اس لئے کہ تم سے ان کا جتنا کچھ بھی تعلق ہے، وہ محبت و خلوص پر نہیں، عناد، نفرت اور کراہت پر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] یعنی جس بےچارگی اور ذلت کے عالم میں یہ اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ کوئی چھوٹی موٹی پناہ گاہ انہیں مل جائے جہاں وہ اسلامی حکومت کے تسلط سے آزاد رہ سکیں۔ اور اگر انہیں کوئی ایسی پناہ گاہ مل جائے خواہ یہ کتنی ہی تنگ جگہ کیوں نہ ہو یہ لوگ ایک منٹ کی تاخیر نہ کریں اور فوراً دوڑتے ہوئے وہاں چلے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْ يَجِدُوْنَ مَلْجَاً :” مَلْجَاً “ ” لَجَِأَ یَلْجَأُ (ف، س) “ سے اسم ظرف ہے، پناہ لینے کی جگہ۔” مَغٰرٰتٍ “ ” مَغَارَۃٌ“ کی جمع ہے۔ ” غَوْرٌ“ گہری جگہ کو کہتے ہیں، پہاڑ یا زمین میں کوئی غار۔ ” مُدَّخَلًا “ ” دَخَلَ “ سے باب افتعال میں سے ظرف ہے، حروف بڑھ جانے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، یعنی مشکل اور مشقت سے گھس جانے کی کوئی جگہ۔ مطلب یہ ہے کہ انھیں فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، ورنہ اگر انھیں بری سے بری جگہ بھی جانے کے لیے مل جائے تو رسیاں تڑاتے ہوئے اس کی طرف بھاگ جائیں، کیونکہ بری سے بری جگہیں یہی تین ہوسکتی ہیں، جن کی طرف جایا جاسکتا ہے۔ ” يَجْمَحُوْنَ “ ” جَمَحَ الْفَرَسُ “ اصل میں گھوڑے کے منہ زور ہو کر سوار کے قابو سے نکل کر بھاگ جانے کو کہتے ہیں، یعنی انھیں مسلمانوں سے، ان کی مجالس اور ان کے معاشرے سے بڑا شدید بغض ہے مگر ان کا بس نہیں چلتا، اس لیے مسلم معاشرے میں رہنے اور اس کے فوائد حاصل کرنے کے لیے تمہارے سامنے تمہارا ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ يَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوْا اِلَيْہِ وَہُمْ يَجْمَحُوْنَ۝ ٥٧ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ ( ملجأ) اسم مکان من فعل لجأ الثلاثيّ وزنه مفعل بفتح المیم والعین، فهو صحیح مضارعه مفتوح العین ( مغارات) ، جمع مغارة بفتح المیم وضمّها، أو جمع مغار بفتح المیم وضمّها، اسم مکان من غار الثلاثيّ والألف منقلبة عن واو أصلها مغورة۔ بفتح الواو۔ جاءت الواو متحرّكة بعد فتح قلبت ألفا . ( مدّخلا) ، اسم مکان من ادّخل الخماسيّ ، فهو علی وزن مفتعل بضمّ المیم وفتح العین . غور الغَوْرُ : المُنْهَبِطُ من الأرض، يقال : غَارَ الرجل، وأَغَارَ ، وغَارَتْ عينه غَوْراً وغُئُوراً «2» ، وقوله تعالی: ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] ، أي : غَائِراً. وقال : أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] . والغارُ في الجبل . قال : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] ، وكنّي عن الفرج والبطن بِالْغَارَيْنِ «3» ، والْمَغَارُ من المکان کا لغور، قال : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا [ التوبة/ 57] ، وغَارَتِ الشّمس غِيَاراً ، قال الشاعر : هل الدّهر إلّا ليلة ونهارها ... وإلّا طلوع الشّمس ثمّ غيارها«4» وغَوَّرَ : نزل غورا، وأَغَارَ علی العدوّ إِغَارَةً وغَارَةً. قال تعالی: فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] ، عبارة عن الخیل . ( غ ور ) الغور کے معنی نشیبی زمین کے ہیں محاورہ ہے غارالرجل اوغار یشبی زمین میں چلا جانا غارت عینہ غورا وغورورا آنکھ کا اندر پھنس جانا قرآن پاک میں ہے ؛ماؤُكُمْ غَوْراً [ الملک/ 30] تمہارا پانی بہت زیادہ زمین کے نیچے اتر جائے ۔ أَوْ يُصْبِحَ ماؤُها غَوْراً [ الكهف/ 41] یا اس کا پانی زمین کے اندر اتر جائے ۔ الغار کے معنی غار کے ہیں ( ج اغوار وغیران ) قرآن پاک میں ہے : إِذْ هُما فِي الْغارِ [ التوبة/ 40] جب وہ دونوں غار ( ثور ) میں تھے : اور کنایہ کے طور پر فر ج و بطن یعنی پیٹ اور شرمگاہ کو غار ان ( تثبیہ ) کہاجاتا ہے اور مغار کا لفظ غور کی طرح اسم مکان کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ض ( جمع مغارات) قرآن پاک میں ہے : لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغاراتٍ أَوْ مُدَّخَلًا[ التوبة/ 57] اگر ان کو کوئی بچاؤ کی جگہ ( جیسے قلعہ ) یا رغار ومغاک یا زمین کے اندر ) کھسنے کی جگہ مل جائے ۔ اور غارت الشمس غیارا کے معنی سورج غروب ہوجانے کے ہیں ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (333) ھل الدھر الالیلۃ ونھارھا والا طلوع الشمس ثم غیارھا ( زمانہ دن رات کی گردش اور سورج ک طلوع و غروب ہونے کا نام ہے ) غور کے معنی پست زمین میں چلے جانے کے ہیں واغار علی الغدو ا اغارۃ وغارۃ کے معنی دشمن پر لوٹ مارنے کے قرآن پاک میں ہے ؛ فَالْمُغِيراتِ صُبْحاً [ العادیات/ 3] پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں ۔ اور اس سے مراد گھوڑے ہیں ( جو صبح کو دشمن پر چھاپہ مارتے ہیں) جمح قال تعالی: وَهُمْ يَجْمَحُونَ [ التوبة/ 57] ، الجَمُوح أصله في الفرس إذا غلب فارسه بنشاطه في مروره وجریانه، وذلک أبلغ من النشاط والمرح، والجُمَاح : سهم يجعل علی رأسه کالبندقة يرمي به الصبیان ( ج م ح ) گھوڑے کا تیزی کے ساتھ دوڑتے جانا اور سوار کے قابو میں نہ رہنا یہ نشاط اور مرح سے زیادہ بلیغ ہے ۔ پھر کسی آدمی کے سرکشی کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَهُمْ يَجْمَحُونَ [ التوبة/ 57] ۔۔۔۔ رسیاں تڑاتے ہوئے الجماح بےپھل کا تیر جس سے بچے کھلتے ہیں اس کے سرے پر غلبہ سا لگا ہوتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) ان لوگوں کو اگر کوئی پناہ کی جگہ یا پہاڑوں میں غار یا زمین میں کوئی سرنگ مل جاتی تو یہ ضرور منہ اٹھا کر ادھر چل دیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (لَوْ یَجِدُوْنَ مَلْجَاً اَوْ مَغٰرٰتٍ اَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْا اِلَیْہِ وَہُمْ یَجْمَحُوْنَ ) جیسے کوئی جانور خوف کے مارے اپنی رسی تڑا کر بھاگتا ہے ‘ اسی طرح کی کیفیت ان پر بھی طاری ہے۔ اس اضطراری کیفیت میں اگر جزیرہ نمائے عرب میں انہیں کہیں بھی کوئی پناہ گاہ مل جاتی یا کسی بھی طرح کا کوئی ٹھکانہ جان بچانے کے لیے نظر آجاتا تو وہ خوف کے مارے یہاں سے بھاگ گئے ہوتے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :56 “مدینہ کے یہ منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے ۔ ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ مدینہ میں جائیدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنا دیا تھا ۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا ، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے اپنے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے سے سرشار کر دیا ہے ۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی ریاست ، عزت ، شہرت سب خاک میں ملی جاتی ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف و نواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق اور صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کر سکتا ہے ۔ وہ دنیا کے سارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے محاظ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہو چکے تھے ۔ اس لیے ان کو اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعوی کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائیدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں ، مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ ان خطرات و نقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازما پیش آنے تھے ۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے ۔ جو چیز انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیر مسلم بن کر رہیں تو جاہ و منزلت ختم ہوتی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں ۔ مدینہ کو چھوڑ دیں تو اپنی جائیدادوں اور تجارتوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے ، اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں ۔ اس مخمصے نے انہیں کچھ ایسا پھانس رکھا ہے کہ مجبورا مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں ، بادل ناخواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوۃ کا ”جرمانہ“ بھگت رہے ہیں ، ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان و مال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ”مصیبت“ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ اگر کوئی سوراخ یا بل بھی ایسا نظر آجائے جس میں انہیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا جو اعلان کیا ہے، وہ مسلمانوں کے ڈر سے کیا ہے، ورنہ ان کے دل میں ایمان نہیں ہے، چنانچہ اگر ان کو کوئی ایسی پناہ گاہ مل جاتی جہاں یہ بھاگ کر چھپ سکتے تو یہ مسلمان ہونے کا اعلان کرنے کے بجائے وہاں جا چھپتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:57) لویجدون۔ اگر وہ پائیں۔ وجد یجد (ضرب) وجد۔ ملجا۔ اسم ظرف مکان۔ پناہ کہ جگہ۔ لجا مصدر۔ (باب ضرب۔ فتح۔ سمع) ملجا بھی مصدر ہے۔ مغرت۔ مغار اور مغارۃ کی جمع مغارر بھی اس کی جمع ہے مغار و مغارۃ لوٹ ۔ غار۔ المغار لوٹ کی جگہ۔ بچاؤ کی جگہ۔ زمین کے اندر گھسنے کی جگہ۔ الغرر کے معنی نشیبی زمین کے ہیں۔ مدخلا۔ اسم ظرف مکان۔ داخل ہونے کی جگہ۔ باب افتعال سے مفتعل کے وزن پر۔ لولوا۔ وہ ضرور منہ پھیر لیں گے۔ لام تاکید کے لئے ہے۔ یجمحون ۔ جمح یجمح (باب فتح) جمح جموح جماح مصدر ۔ گھوڑے کا سرکشی کرنا۔ جموح منہ زور گھوڑا۔ جمحت المراۃ زوجھا۔ شوہر کی اجازت کے بغیر عورت اس کے گھر سے نکل کر چلی گئی۔ جمح الرجل۔ وہ آدمی خود رائے ہوگیا۔ وہ اپنی قوت کے ساتھ سرپٹ دوڑا۔ وھم یجمحون۔ وہ اپنی تمام قوت کے ساتھ سرپٹ (اس طرف) دوڑیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 تاکہ انہیں تم سے اور تمہارے معاشرے سے نجات ملے حالانکہ یہ تینوں جگہیں بد ترین جگہیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت جو ہمارے دریمان بیٹھے ہوئے ہیں نہایت مجبوری کی حالت میں بیٹھے ہوئے اور ور نہ یہ تم سے اور تمہارے معاشرے سے نالاں اور بیزار ہیں۔ ( ابن کثیر۔ کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو حلف دینے اور اس بات کی یقین دہانی کروانے کے باوجود کہ ہم کفار کی بجائے تمہارے ساتھی ہیں منافقوں کے دل کی کیفیت یہ تھی۔ منافقت کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ منافق بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ظاہر اور باطن میں تضاد قائم رہتا ہے۔ خاص کر جب مسلمان طاقت ور ہوں تو منافق اپنی منافقت میں پکا اور گہرا ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کو ہر میدان میں کامیابیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ اس زمانے کی واحد سیاسی سپر پاور روم بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کرسکی۔ ادھر پورا حجاز بھی اسلام کے زیر نگین ہوچکا تھا ایسی صورت حال میں منافق جائیں تو کہاں جائیں حالانکہ کہ ان کے دل کی کیفیت اور منفی جذبات کا عالم یہ تھا کہ اگر انھیں دنیا میں کوئی پناہ گاہ ملتی تو ضرور اس کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔ ان کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے اگر انھیں پناہ گاہ یا کوئی غار یا سرچھپانے کی معمولی جگہ ملے تو یہ وہاں جانے کے لیے بےتاب ہوں۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق منافقوں کو کس طرح حقیر اور ذلیل کیا کہ وہ اپنے اندر ہی اندر گھلتے جا رہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ سرچھپانے کی کوئی جگہ مل جائے لیکن مسلمانوں کے بغیر انھیں کہیں بھی پناہ نہ مل سکی۔ اس طرح رب ذوالجلال کا یہ فرمان حرف بہ حرف پور اہو ا۔ (وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَعْلَمُونَ )[ المنافقون : ٨] ” کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق اسے نہیں سمجھتے۔ “ مسائل ١۔ منافق ہر وقت اپنے دل میں پریشان رہتا ہے۔ ٢۔ مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر منافق کسی پناہ گاہ کی تلاش میں رہتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

57 ان لوگوں کو اگر کوئی پناہ گاہ مل جاتی یا کہیں پہاڑوں وغیرہ میں چھپنے کو غارمل جاتے یا کہیں سر گھسانے کو کوئی جگہ ان کو مل جائے تو یہ ضرور منہ پھیر کر دوڑے ہوئے ادھر چلے جائیں۔ یعنی اسلامی حکومت کے پھیلائو نے ان کو مجبور کردیا ہے ورنہ ان کو اگر کوئی ٹھکانا ذرا سا بھی کہیں نظر آجائے تو تم کو چھوڑ کر ادھر بھاگ جائیں جس طرح کوئی جانور رسی تڑا کے بھاگتا ہے۔