Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 58

سورة التوبة

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّلۡمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡہَا رَضُوۡا وَ اِنۡ لَّمۡ یُعۡطَوۡا مِنۡہَاۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡخَطُوۡنَ ﴿۵۸﴾

And among them are some who criticize you concerning the [distribution of] charities. If they are given from them, they approve; but if they are not given from them, at once they become angry.

ان میں وہ بھی ہیں جو خیراتی مال کی تقسیم کے بارے میں آپ پر عیب رکھتے ہیں اگر انہیں اس میں مل جائے تو خوش ہیں اور اگر اس میں سے نہ ملا تو فوراً ہی بگڑ کھڑے ہوئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites question the Integrity of the Messenger when distributing Alms Allah said next, وَمِنْهُم ... And of them, (among the hypocrites), ... مَّن يَلْمِزُكَ ... who accuse you, or question your integrity, ... فِي ... concerning, (division of), ... الصَّدَقَاتِ ... the alms, when you divide them. They question your fairness, even though it is...  they who deserve that their integrity be questioned. The hypocrites do not do this in defense of the religion, but to gain more for themselves. This is why, ... فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا ... If they are given part thereof, meaning, from the Zakah, ... رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ They are pleased, but if they are not given thereof, behold! They are enraged! angry for themselves. Qatadah commented on Allah's statement, وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ . (And of them are some who accuse you concerning the alms), "Allah says, `Some of them question your integrity in the matter of distribution of the alms.' We were told that a Bedouin man, who had recently embraced Islam, came to the Prophet, when he was dividing some gold and silver, and said to him, `O Muhammad! Even though Allah commanded you to divide in fairness, you have not done so.' The Prophet of Allah said, وَيْلَكَ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَعْدِلُ عَلَيْكَ بَعْدِي Woe to you! Who would be fair to you after me then? The Prophet of Allah said next, احْذَرُوا هَذَا وَأَشْبَاهَهُ فَإِنَّ فِي أُمَّتِي أَشْبَاهُ هَذَا يَقْرَءُونَ الْقُرانَ لاَإ يُجَاوِزُ تَرَاقِيهِمْ فَإِذَا خَرَجُوا فَاْقْتُلُوهُمْ ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُمْ ثُمَّ إِذَا خَرَجُوا فَاقْتُلُوهُم Beware of this man and his likes! There are similar persons in my Ummah who recite the Qur'an, but the Qur'an will not go beyond their throat. If they rise (against Muslims rulers) then kill them, if they rise, kill them, then if they rise kill them. We were also told that the Prophet of Allah used to say, وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُعْطِيكُمْ شَيْيًا وَلاَا أَمْنَعُكُمُوهُ إِنَّمَا أَنَا خَازِن By He in Whose Hand is my life! I do not give or withhold anything; I am only a keeper." This statement from Qatadah is similar to the Hadith that the Two Sheikhs narrated from Abu Sa`id about the story of Dhul-Khuwaysirah, whose name was Hurqus. Hurqus protested against the Prophet's division of the war spoils of Hunayn, saying, "Be fair, for you have not been fair!" The Prophet said, لَقَدْ خِبْتُ وَخَسِرْتُ إِنْ لَمْ أَكُنْ أَعْدِل I would have become a loser and a failure if I was not fair! The Messenger said after that man left, إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِيْضِىءِ هَذَا قَوْمٌ يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَتَهُ مَعَ صَلَتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّهْم شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاء Among the offspring of this man will be some with whose prayer, when one of you sees it, would belittle his prayer, and his fast as compared to their fast. They will be renegades from the religion, just like an arrow goes through the game's body. Wherever you find them, kill them, for verily, they are the worst dead people under the cover of the sky. Allah said next, while directing such people to what is more beneficial for them than their behavior, وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا اتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُوْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ   Show more

مال ودولت کے حریص منافق بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مال زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں ۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ ... علیہ وسلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سے کسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا ؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو ۔ پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو ۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں ۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی ۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہونگی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں ۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوادیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا ۔ ہماری امیدیں ذات الہٰی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا ۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے ۔ توکل ذات واحد پر رکھے ، اسی کو کافی وافی سمجھے ، رغبت اور توجہ ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے ۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سرمو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجالانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑ دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یہ ان کی ایک اور بہت بڑی کوتاہی کا بیان ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اچھی صفات کو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) صدقات و غنائم کی تقسیم میں غیر منصف باور کراتے، جس طرح ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ تقسیم فرما رہے تھے کہ...  اس نے کہا ' انصاف سے کام لیجئے ' آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، افسوس ہے تجھ پر، اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا ؟ (صحیح بخاری) ۔ 58۔ 2 گویا اس الزام تراشی کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول تھا کہ اس طرح ان سے ڈرتے ہوئے انہیں زیادہ حصہ دیا جائے، یا وہ مستحق ہوں یا نہ ہوں، انہیں حصہ ضرور دیا جائے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٢] صدقات کی تقسیم میں منافقوں کا الزام :۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ سیدنا علی نے رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا، جس سے مٹی علیحدہ نہیں کی گئی تھی۔ یمن سے رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم کردیا۔ آ... پ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار تھے۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : && کیا تم لوگوں کو مجھ پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں۔ && ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا۔ اپنا تہمد پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا && اللہ کے رسول ! اللہ سے ڈریئے۔ && آپ نے فرمایا && تیرے لیے بربادی ہو۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں ؟ && وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں ؟ && آپ نے فرمایا && نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ && خالد کہنے لگے && کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ && آپ نے فرمایا && مجھے لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹوں کو چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ && ابو سعید کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا تو آپ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا : && اس کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ && ابو سعید کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث علی بن ابی طالب۔ بر کتاب استتابتہ المرتدین) مسلم کتاب الزکوٰۃ۔ باب اعطاء المؤلفۃ القلوب وذکر الخوارج) [٦٣] منافقوں کے نزدیک انصاف کا معیار :۔ منافقوں کا مطمح نظر محض ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک صدقات کی تقسیم میں انصاف کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ انہیں ضرور کچھ ملنا چاہیے۔ اگر انہیں کچھ مل جائے تو باقی سب ٹھیک ہے اور خوش بھی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں کچھ نہ ملے تو ان کے نزدیک انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے لہذا وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ خ تقسیم صدقات میں آپ کا مطمح نظر :۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ صدقہ رسول اللہ پر اور آپ کے رشتہ داروں پر حرام تھا اس لیے یہ تو گمان بھی نہ ہوسکتا تھا کہ شاید کچھ آپ نے اپنے لیے رکھ لیا ہو یا اپنے رشتہ داروں کو دے دیا ہو۔ منافقوں کو اعتراض صرف یہ ہوتا تھا کہ فلاں کو کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا یا فلاں کو زیادہ کیوں دیا اور مجھے کم کیوں دیا۔ اور یہ اعتراض محض ان کی حرص اور تنگ نظری اور آپ کی ذات پر عدم اعتماد کی بنا پر ہوتا تھا۔ اور آپ صدقات کی تقسیم میں جس چیز کو ملحوظ رکھتے تھے وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ عمرو بن تغلب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا &&: میں بعض لوگوں کو (مال وغیرہ) دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ جنہیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا کہ مجھے زیادہ محبوب ہیں بلکہ اس لیے کہ میں ان میں بےچینی اور بوکھلا پن پاتا ہوں اور جنہیں نہیں دیتا تو ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسہ کرتا ہوں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ && آپ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ مل جاتے تو بھی اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ باب خطبۃ الجمعۃ)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ :” لَمَزَ (ض) “ سامنے عیب نکالنا، طعن کرنا، یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ غنائم و صدقات کی تقسیم میں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن کرنے اور عیب لگانے سے باز نہیں آتے تھے۔ یہ نہیں کہ صرف صدقات کی تقسیم میں طعن کرتے ہوں، بلکہ یہ ان کے لگائے ... ہوئے الزامات میں سے ایک تھا، چناچہ آپ غنائم یا صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھو کیسی خویش پروری اور دوست نوازی ہو رہی ہے، انصاف نہیں ہو رہا۔ مطلب یہ کہ ہمیں کیوں نہیں ملا، ان کے ہاں انصاف کا پیمانہ بس اتنا تھا کہ انھیں مل جائے تو وہ خوش ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زبردست انصاف کرنے والے ہیں، لیکن اگر اسلام کی مصلحت کے پیش نظر یا کسی دوسرے شخص کے زیادہ ضرورت مند ہونے کی وجہ سے انھیں کچھ نہ مل سکے تو وہ سخت ناراض اور ان کے بقول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدل نہ کرنے والے۔ (نعوذ باللہ) ابوسعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ تقسیم فرما رہے تھے کہ ذوالخویصرہ تمیمی آیا، کہنے لگا : ” یا رسول اللہ ! عدل کیجیے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہیں ویل ہو، جب میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون عدل کرے گا ؟ “ عمر بن خطاب (رض) نے کہا : ” اجازت دیجیے میں اس کی گردن اتار دوں۔ “ فرمایا : ” رہنے دو ، اس کے کچھ ساتھی ہیں (اور ہوں گے) کہ تم میں سے ایک اپنی نماز ان کی نماز کے مقابلے میں اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں حقیر سمجھے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ “ ابوسعید (رض) فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ آیت اتری : (وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ) [ بخاری، المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام : ٣٦١٠ ] حنین کی غنیمتوں کی تقسیم کے وقت اور دوسرے کئی موقعوں پر بھی ان لوگوں نے اس قسم کی گستاخیاں کیں۔ خالد بن ولید اور عمر بن خطاب (رض) جیسے صحابہ نے ان کے قتل کی اجازت مانگی، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، رہنے دو ۔ بعض موقعوں پر جب انھوں نے مہاجرین و انصار کو بھڑکا کر ایک دوسرے سے لڑا دیا اور آپ نے صلح کروا دی، اس وقت بھی عبداللہ بن ابی نے اور اس کے ساتھیوں نے بہت بڑی گستاخی کی، جس کا ذکر سورة منافقون میں ہے۔ عمر (رض) کے اجازت مانگنے کے باوجود آپ نے ان کے قتل کی اجازت نہیں دی، یہ کہہ کر کہ لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( سواء علیھم أستغفرت لھم ) : ٤٩٠٥ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ۝ ٠ ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَ۝ ٥٨ لمز اللَّمْزُ : الاغتیاب وتتبّع المعاب . يقال : لَمَزَهُ يَلْمِزُهُ ويَلْمُزُهُ. قال تعالی: وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقاتِ [ التوبة/ 58] ، الَّذِ... ينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] ، وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] أي : لا تلمزوا الناس فيلمزونکم، فتکونوا في حکم من لمز نفسه، ورجل لَمَّازٌ ولُمَزَةٌ: كثير اللّمز، قال تعالی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] . ( ل م ز ) لمزہ ( ض ن ) لمزا کے معنی کسی کی غیبت کرنا ۔ اس پر عیب چینی کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ لمزہ یلمزہ ویلمزہ ۔ یعنی یہ باب ضرفب اور نصر دونوں سے آتا ہے قرآن میں ہے : الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ [ التوبة/ 79] اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ تقسیم صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں ۔ جو رضا کار انہ خیر خیرات کرنے والوں پر طنزو طعن کرتے ہیں ۔ وَلا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ [ الحجرات/ 11] اور اپنے ( مومن بھائیوں ) پر عیب نہ لگاؤ۔ یعنی دوسروں پر عیب نہ لگاؤ ورنہ ودتم پر عیب لگائیں گے ۔ اسی طرح گویا تم اپنے آپ عیب لگاتے ہو ۔ رجل لما ر و لمزۃ ۔ بہت زیادہ عیب جوئی اور طعن وطنز کرنے والا ۔ قرآن میں ہے : وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز آشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) سخط السَّخَطُ والسُّخْطُ : الغضب الشدید المقتضي للعقوبة، قال : إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/ 58] ، وهو من اللہ تعالی: إنزال العقوبة، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28] ، أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ، كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] . ( س خ ط ) السخط والسخط اس سخت غصہ کو کہتے ہیں جو سزا کا مقتضی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ [ التوبة/58 تو وہ فورا غصہ سے بھر جاتے ۔ اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد انزال عقوبت ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ [ محمد/ 28]( اور ان کی ) یہ نوبت اس لئے ( ہوگی ) کہ جو چیز خدا کو بری لگتی ہے یہ اسی ( کے رستے ) پر چلے ۔ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ [ المائدة/ 80] ( نتیجہ یہ ہوا ) کہ دنیا میں بھی خدا ان سے ناراض ہوا ۔ كَمَنْ باءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ [ آل عمران/ 162] اس شخص جیسا ( فعل سرزد ) ہوسکتا ہے جو خدا کے غضب میں آگیا ہو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ومنھم من یلزمک فی الصدقات۔ اے نبی ! ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں) حسن کے قول کے مطابق ” یعیبک “ (آپ پر عیب لگاتے ہیں) ۔ ایک قول ہے کہ (لمز خفیہ طور پر عیب لگانے کو کہتے ہیں اور ھمز (میم کی زیر کے ساتھ) عیب لگانے کو کہتے ہیں۔ قتادہ کے قول کے مطابق ” یطعن ع... لیک “ (آپ پر اعتراضات کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق یہ منافقین کا ایک گروہ تھا جو یہ چاہتا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقات یعنی زکوٰۃ کے مال میں سے انہیں بھی دیں جبکہ انہیں زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں تھا کیونکہ وہ زکوٰۃ کے مستحقین میں شامل نہیں تھے۔ جب یہ لوگ اس طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے صدقات کی تقسیم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراضات کرنے شروع کردیئے۔ اور یہ بکواس کرنے لگے کہ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فان اعطوا منھا رضوا وان لم یعطوا منھا اذا ھم یسخطون۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں اور نہ دیا جائے تو بگڑ نے لگتے ہیں ) ساتھ ہی یہ بتادیا کہ صدقات میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ صدقات تو فقراء اور مساکین کا حق ہے نیز ان لوگوں کا جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) اور یہ منافقین ابو الاحوص اور اس کے ساتھی ایسے ہیں کہ صدقات تقسیم کرنے میں آپ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان برابری کے ساتھ کیوں نہیں تقسیم کرتے، اگر ان صدقات میں سے ان کو ان کی خواہش کے مطابق بہت زیادہ حصہ مل جاتا ہے تو پھر تقسیم پر راضی ہوجاتے ہیں اور اگر بہت زیادہ ان کو ... حصہ نہیں ملتا، تو پھر تقسیم پر ناراض ہوتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ومنہم من یلمزک “۔ (الخ) حضرت امام بخاری (رح) نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مالوں کو تقسیم فرما رہے تھے، اتنے میں ذو یصرہ آیا اور کہنے لگا انصاف کرو، آپ نے فرمایا تیرے لیے ہلاکت ہو، اگر میں انصاف نہ کروں گا تو پھر کون انصاف کرے گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی ان میں بعض وہ لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں آپ پر طعن وتشنیع کرتے ہیں اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت جابر (رض) سے اسی طرح روایت کی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج) زکوٰۃ و صدقات کا مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تقسیم فرماتے تھے۔ ایک دفعہ یوں ہوا کہ مال کی تقسیم کے دوران ایک منافق نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹوک دیا : یَا مُحَمَّدُ اعْدِل اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصاف (کے س... اتھ تقسیم) کیجیے ! اس کی مراد یہ تھی کہ آپ ناانصافی کر رہے ہیں۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (وَیْلَکَ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَکُنْ اَعْدِلُ ۔۔ ) (١) تم برباد ہوجاؤ ‘ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :57 عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام ان باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے ، باقاعدہ زکوۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموال تجارت سے ان کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱/۲ فی صدی ، ۵ فی صدی...  ، ۱۰۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی ۔ یہ سب اموال زکوۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی ۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے ، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے ۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا ، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانب داری سے کام لیا جاتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: تفسیر ابن جریر میں کئی روایات اس قسم کی نقل کی گئی ہیں۔ جن میں مذکور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقات تقسیم فرمائے تو کچھ منافقین نے آپ پر اعتراض کیا کہ یہ تقسیم (معاذ اللہ) انصاف کے مطابق نہیں ہے۔ وجہ یہ تھی کہ ان منافقوں کو ان کے مطلب کے مطابق نہیں دیا گیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٥٩۔ اس آیت کی شان نزول وہی قصہ ہے جس کا ذکر صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت سے ہے جس کا حاصل یہ ہے ایک شخص نے کہا آپ کچھ مال لوگوں کو تقسیم میں ذرا انصاف فرمائیے آپ نے فرمایا میں ہی ناانصافی کر ونگا تو پھر انصاف کون کرے گا حضرت عمر (رض) نے عرض کیا حضرت ارشاد ہو تو ابھی میں اس شخص کی گ... ردن ماردوں آپ نے فرمایا جانے دو اس کی نسل میں سے واجب القتل لوگ پیدا ہوں گے چناچہ پھر ویسا ہی ہوا اسی قبیلہ اور اسی شخص کی نسل میں خارجی لوگ پیدا ہوئے اگرچہ بعضے مفسروں نے اور شان نزول بھی اس آیت کی بیان کی ہے مگر ان کے مطلب یہ ہے کہ دوسرے قصوں پر بھی اس آیت کا مضمون صادق آتا ہے ورنہ صحیح شان نزول کا یہی قصہ ہے جو صحیحین کی روایت میں موجود ہے۔ اگرچہ ان خارجی لوگوں کے حالات میں علماء نے بڑی بڑی کتابیں تالیف کی ہیں لیکن اس طرح کے قصہ کا حاصل اسی قدر ہے کہ حضرت عثمان (رض) کی شہادت کے دوسرے روز جب لوگوں نے حضرت علی (رض) کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی تو اس زمانہ میں حضرت عائشہ (رض) حج کے ارادہ سے مکہ کو گئی ہوئی تھیں ان کے مکہ سے واپسی کے وقت راستہ میں کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حضرت علی (رض) کو حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کا پتہ لگانے پر مجبور کیا جاوے اور حضرت علی (رض) اگر اس سے انکار کریں تو ان سے لڑنا چاہئے حضرت عائشہ (رض) کے یہ بہکانے والے لوگ اپنا ارادہ پورا کرنے کے لئے حضرت عائشہ (رض) کو بصرہ لے گئے اور بصرہ میں حضرت عائشہ (رض) کی ساتھ بہت سے لوگ ہوگئے حضرت علی (رض) نے جب یہ خبر سنی تو وہ بھی بصرہ کے ارادہ سے فوج لے کر روانہ ہوئے اور ٣٦ ہجری میں حضرت علی (رح) اور حضرت عائشہ (رض) کی بڑی لڑائی ہوئی جو جمل کی لڑائی کے نام سے مشہور ہے اگر یہ لڑائی بصرہ کے قریب ہوئی ہے لیکن جمل عربی میں اونٹ کو کہتے ہیں اور اس لڑائی میں حضرت عائشہ (رض) پردہ میں اونٹ پر سوار تھیں اس لئے یہ لڑائی اس نام سے مشہور ہوگی اس لڑائی میں حضرت علی (رض) غالب رہے حضرت علی (رض) کے غلبہ اور حضرت عائشہ (رض) کی شکست کا حال سن کر پھر یہی حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں کے پتہ لگانے کا جھگڑا معاویہ (رض) نے حضرت علی (رض) سے شروع کیا اور اس جھگڑے کے سلسلہ میں آخر حضرت علی (رض) اور معاویہ (رض) کی بہت بڑی لڑائی ٣٧ ہجری میں ہوئی جو صفین کی لڑائی کے نام سے مشہور ہے صفین ملک شام اور عراق کے مابین میں ایک جگہ ہے ایک مہینہ کے قریب یہ لڑائی رہی اگرچہ اس لڑائی میں غلبہ حضرت علی (رض) کی جانب تھا لیکن عمرو بن العاص (رض) کی صلاح سے پہنچایت پر صلح قرار پائی حضرت علی (رض) کی طرف ابوموسیٰ اشعری (رض) اور معاویہ (رض) کی طرف سے عمروبن العاص (رض) سرپنچ مقرر ہوئے اس پنچایت کی صلح سے ناراض ہو کر جو آٹھ ہزار آدمیوں کے قریب کا ایک گروہ حضرت علی (رض) سے منحرف اور ان کے لشکر سے جدا ہوگیا اسی فرقہ کو خارجی کہتے ہیں اس فرقہ کا سرغنہ عبداللہ بن انالکو تھا پہلے تو حضرت علی (رض) نے اس فرقہ کی فہمایش کے لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کو حروراء مقام پر بھیجا یہ حروراء وہ جگہ ہے جہاں ان لوگوں نے سکونت اختیار کی تھی اس سبب سے یہ فرقہ حروریہ کہلاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس کی فہمایش سے یہ لوگ چند روز کے لئے راہ راست پر آگئے اور پھر ان لوگوں نے مسلمانوں کا قتل راہزنی اور طرح طرح کے فساد برپا کئے جن کے سبب سے حضرت علی (رض) نے ان پر چڑھائی کی اور نہروان مقام پر اس فرقہ کی اور حضرت علی (رض) کی لڑائی ہوئی اس لڑائی میں خارجی فرقہ کے لوگ یہاں تک قتل ہوئے کہ صرف دس بارہ آدمی ان میں سے بچ گئے ذوخویصرہ بھی اس لڑائی میں مارا گیا یہ وہی شخص ہے جس نے حنین کے مال کی تقسیم کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا نہروان کی لڑائی میں سے دس بارہ خارجی جو بچ گئے تھے عبدالرحمن بن ملجم بھی ان میں ہی تھا جس نے موقع پاکر حضرت علی (رض) کو شہید کیا حضرت علی (رض) کی موجوگی تک تو یہ خارجی فرقہ دبا رہا پھر حضرت علی (رض) کی شہادت کے بعد ان لوگوں کا ایک جتھا ہوگیا اور کئی دفعہ ان لوگوں نے سراٹھایا خلفائے بنی امیہ میں سے عبدالملک بن مروان اور خلفائے عباسیہ میں سے محمد بن منصور مہدی کے زمانہ میں ان کی لڑایاں مشہور ہیں حضرت عثمان (رض) کو اور علاوہ حضرت عثمان کے جمل اور صفین کی لڑائی میں جتنے صحابہ شریک تھے ان سب کو یہ خارجی دائرہ اسلام سے خارج گنتے ہیں اور سوا اس کے اور بہت سی باتیں اس فرقہ کی طریقہ اسلام کے برخلاف ہیں اسی واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس فرقہ کو واجب القتل فرمایا اس سے زیادہ حال ان لوگوں کا بڑی کتابوں میں ہے آخر کو فرمایا کہ جو لوگ تقسیم مال پر اعتراض کرتے ہیں اگر وہ اللہ اور اللہ کے رسول کی تقسیم پر رضامند ہو کر آیندہ کی بہبودی کا بھروسہ اللہ پر کریں تو ان کے حق میں بہتر ہے جس مال کی تقسیم پر اعتراض کئے جانے کا ذکر آیت میں ہے اس مال کو بعضے علماء تو زکوۃ کا مال کہتے ہیں اور بعضے حنین کی لڑائی کا غنیمت کا مال کہتے ہیں سبب اس اختلاف کا یہ ہے کہ صحیح بخاری کی ابوسعید خدری (رض) کی بعض روایتوں میں یہ ہے کہ یمن سے کچھ زکوۃ کا مال آیا تھا اس کی تقسیم پر یہ اعتراض کیا گیا تھا اور صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں یہ ہے کہ حنین کی غنیمت کے مال کی تقسیم کے وقت ایک شخص نے اعتراض کیا تھا لیکن عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ شخص وہی ذوالخویصرہ حرقوص تھا جس کی نسل سے خارجیوں کا سلسلہ چلے گا بلکہ بعض روایتوں میں اس حنین کے قصہ والے شخص کا نام معتب بن قشریر بتلایا گیا ہے اس اختلاف کے رفع کرنے کی غرض سے اگر ان دونوں قصوں کے مجموعہ کو آیت کی شان نزول قرار دیا جاوے تو پھر کچھ اختلاف باقی نہیں رہتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:58) یلمزک۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ طعن کرتا ہے۔ وہ عیب لگاتا ہے ۔ تجھ پر (باب ضرب) لمز۔ مصدر لمزۃ۔ عیب چین۔ پیٹھ پیچے برائی کرنے والا۔ صیغہ مبالغہ۔ لماز کی بھی یہی معنی ہیں قرآن مجید میں ہے۔ ویل لکل ھمزۃ اور لمزۃ دونوں ہم معنی ہیں۔ فی الصدقت۔ صدقات کی تقسیم کے بارے م... یں۔ اعطوا۔ اعطی یعطی اعطاء سے ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب ۔ ان کو دیا گیا۔ ان کو دیا جائے۔ یسخطون۔ سخط یسخط (سمع) سخط سے مضارع جمع مذکر غائب۔ وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ صدقات کی تعظیم میں وہ پیغمبر ( علیہ السلام) پر عیب لگانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ حضرت الشیخ فرماتے ہیں یعنی منجملہ دوسرے اسباب طعن کے ایک سبب یہ بھی تھا نہ کہ صرف یہی ایک سبب تھا بلکہ کہی وجوہ سے طعن کرتے تھے، ( کبیر) چناچہ صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھئے کیسی خ... ویش پر وری ہے اور دوست نوازی ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہوتا کہ ہمیں کیوں نہیں ملتا۔ ) ابن کثیر ) 1 حضرت ابو دسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص مقداد بن خویصرہ تمیمی ( حرقوص بن دمیر) آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انصاف سے کام لیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو اور کون لے گا ؟ حضرت عمر (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ اجازت دیں میں اس کا سر قلم کر ڈالوں۔ فرمایا : جانے دو اس لیے کہ اس کی نسل سے ایسے پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپن نماز روزے کی حقیر محسوس کرو مگر یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل سے جائے اور اس کے ساتھ خون وغیرہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) کے کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) بعض نے رو یات میں ہے کہ ابو الجو اظ منا فق نے بھی اسی قسم کا اعتراض کیا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے اور اس کے ساتھیوں سے محتاط رہو کہ یہ منا فق ہیں۔ ( کبیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 58 تا 59 یلمز (طعنے دیتا ہے) اعطوا (دیا گیا) رضوا (خوش ہوگئے) یسخطون (وہ ناراض ہوتے ہیں) حسبنا اللہ (ہمیں اللہ کافی ہے) سیوتینا (جلد ہی ہمیں دے گا) رعبون (رغبت کرنے والے، مائل ہونے والے) تشریح : آیت نمبر 58 تا 59 ہر دور میں اللہ کے دشمنوں کا طریقفہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے دلی بغض ... و عدات اور دشمنی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں جس سے عام لوگوں کے دلوں میں شک و شبہ پیدا ہوجائے اور جو بھی مرکزی شخصیت ہو اس پر ایسے الزامات لگا دیئے جائیں جس سے تحریک اور اس کے کام چلانے والے بدنام ہوجائیں اور آپس میں پھوٹ پڑجائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منافقفین کو ایک خاص بغض تھا اس لئے اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ ہمیں کب ان کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے جب بھی کوئی ایسی بات نظر آتی کہ وہ اس کو دوسرا رنگ دے کر مسلمانوں کے دلوں میں شک و شبہ پیدا کرسکتے ہیں تو موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرتے۔ چناچہ آپ کو جب بھی مال غنیمت حاصل ہوتا تو آپ اللہ کے حکم کے مطابق اس میں سے پانچواں حصہ رکھ کر بقیہ تمام مجاہدین میں برابر تقسیم فرما دیتے تھے اور وہ پانچواں حصہ جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ قرار دیا گیا تھا وہ وہ بھی غریب رشتہ داروں مکسینوں ، محتاجوں اور یتیموں میں تقسیم کردیا جاتا تھا نیز جو بھی صدقات حاصل ہوتے آپ اس کو بھی تمام مسلمانوں میں تقسیم فرما دیتے تھے اور زکوۃ و صدقات کو اپنی اولاد اور خاندان والوں کے لئے ممنوع قرار دیتے تھے۔ منافقن کا حال یہ تھا کہ اگر ان کو ان کی خواہش اور توقع کے مطابق مل جاتا تو خاموش رہتے اور اگر ذرا ان کی توقع کے خلاف ملتا تو اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بےانصافی اور ناراضگی کا شور مچا کر ان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اس کا جواب تو اللہ نے اگلی آیت میں دے دیا ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقات (زکوۃ) کی تقسیم اسی طرح کرتے ہیں جس طرح اللہ نے اس کی تقسیم کا دائرہ مقرر کردیا ہے لیکن اس جگہ یہ فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح صدقات کو تقسیم کرتے ہیں اس پر راضی رہتے ہوئے یہ کہتے کہ ہمیں تو ہمارا اللہ کافی ہے۔ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں بہت جلد اپنی عنایتوں سے نوازے گا اور ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں تو اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو وہ سب کچھ دیتا جو ان کی توقع اور خواہش سے بھی زیادہ ہوتا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل منشاء ان کے اعتراض اور حرف گیری کا محض حرص دنیا اور خود غرضی ہے پس ایسے اعتراض کا باطل ہونا ظاہر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دنیا میں ذلیل ہونے کے باوجود مال کے بارے میں منافق کی حرص و ہوس کا حال۔ مدینہ کے منافقین چاروں طرف سے مایوس اور ہر سہارے سے بےسہارا ہونے کے باوجود دنیا کے مال میں اس قدر حریص تھے کہ جب بھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم اور اس کی حکمت ک... ے مطابق مال غنیمت تقسیم فرمایا اور اس میں منافقوں کو مخلصین کے مقابلے میں کم حصہ دیا تو وہ اللہ کے رسول کی امانت و دیانت پر یقین رکھنے کے باوجود ہرزہ سرائی پر اتر آتے اور دیانت و امانت کے پیکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الزام دیتے کہ یہ نبی غنائم کی تقسیم میں عدل و انصاف کا خیال نہیں رکھتا۔ حالانکہ ظالم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے تھے کہ جب بھی مال غنیمت آتا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کچھ تقسیم کرکے خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹا کرتے تھے۔ منافقین کو ان کے مطالبہ کے مطابق مل جاتا تو بغلیں بجاتے ورنہ سخت ناراضگی کا اظہار اور منفی پروپیگنڈہ کرتے۔ ایسے لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر یہ اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم اور منشا پر خوش ہوجاتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے عنقریب ہمارا اللہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا جس سے اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خوش کر دے گا۔ لیکن منافقین نے مال کے حصول کو معیار بنا کر اللہ کے رسول کو ہدف تنقیدبنا لیا تھا یہاں فضل و کرم کی نسبت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنی طرف کی ہے تاکہ آنے والے وقت میں کوئی شخص یہ عقیدہ اختیار نہ کرے کہ مشکلات کے حل اور فضل و کرم کی عطا کا اختیار اللہ کے رسول کو بھی حاصل ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ فضل و کرم کا مالک اور حل المشکلات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے دیا کرتے تھے۔ اسی تناظر میں آپ نے وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِی وَلَنْ تَزَالَ ہَذِہِ الْأُمَّۃُ قَاءِمَۃً عَلَی أَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا ] ” حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کرتا ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ دیتا ہے یہ امت ہمیشہ دین حق پر رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ اس کی مخالفت کرنے والا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ “ (عَن أَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ (رض) یَقُولُ بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) إِلٰی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْیَمَنِ بِذُہَیْبَۃٍ فِی أَدِیمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِہَا قَالَ فَقَسَمَہَا بَیْنَ أَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ وَزَیْدِ الْخَیْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَۃُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِہَذَا مِنْ ہٰؤُلَاءِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَلَا تَأْمَنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَاءِ یَأْتِینِی خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَّمَسَاءً قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ غَاءِرُ الْعَیْنَیْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَبْہَۃِ کَثُّ اللِّحْیَۃِ مَحْلُوق الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ اتَّقِ اللّٰہَ قَالَ وَیْلَکَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَتَّقِیَ اللّٰہَ قَالَ ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ یَا رَسُول اللّٰہِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَہٗ قَالَ لَا لَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ یُصَلِّی فَقَالَ خَالِدٌ وَکَمْ مِنْ مُّصَلٍّ یَقُولُ بِلِسَانِہٖ مَا لَیْسَ فِی قَلْبِہٖ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوب النَّاسِ وَلَا أَشُقَّ بُطُونَہُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْہِ وَہُوَ مُقَفٍّ فَقَالَ إِنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْ ضِءْضِءِ ہَذَا قَوْمٌ یَتْلُونَ کِتَاب اللّٰہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ وَأَظُنُّہٗ قَالَ لَءِنْ أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ ثَمُودَ ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث علی بن أبی طالب ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا، جس سے مٹی علیحدہ نہیں کی گئی تھی یمن سے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل (رض) کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار ہیں آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں کو مجھ پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، ڈاڑھی گھنی اور سرمنڈا ہوا تھا۔ اپنا تہبند پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا اللہ کے رسول ! اللہ سے ڈریے۔ آپ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا نہیں ہوں ؟ وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ خالد (رض) کہنے لگے کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے اچھی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹوں کو چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انھیں ہلاک کر دوں گا۔ “ (عن عَمْرو بن تَغْلِبَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُتِیَ بِمَالٍ أَوْ سَبْیٍ فَقَسَمَہٗ فَأَعْطَی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا فَبَلَغَہٗ أَنَّ الَّذِینَ تَرَکَ عَتَبُوا فَحَمِدَ اللّٰہَ ثُمَّ أَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَأُعْطِی الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی وَلٰکِنْ أُعْطِی أَقْوَامًا لِمَا أَرٰی فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ وَأَکِلُ أَقْوَامًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنٰی وَالْخَیْرِ فیہِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ فَوَاللّٰہِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب خطبۃ الجمعۃ ] ” عمرو بن تغلب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ مال یا قیدی آئے۔ آپ نے اسے تقسیم کردیا۔ کسی کو آپ نے دیا اور کسی کو نہ دیا۔ آپ تک یہ بات پہنچی کہ جنھیں نہیں دیا گیا وہ ناراض ہیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ جنھیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا کہ مجھے زیادہ محبوب ہیں بلکہ اس لیے دیتا ہوں کہ میں ان میں بےچینی اور بوکھلا ہٹ پاتا ہوں اور جنھیں نہیں دیتا ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسہ کرتا ہوں جو اللہ نے انھیں دے رکھی ہے ایسے لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ آپ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ “ مسائل ١۔ منافق مال و دولت کا بہت حریص ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق کے دل میں للہیت کے بجائے دنیاکا مفاد ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق کو اگر مفادات ملتے رہیں تو راضی رہتا ہے اگر نہ ملیں تو ناراض ہوجاتا ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان آیات میں بھی منافقین پر تبصرہ جاری ہے۔ اور ان کے اقوال اعمال اور نیات پر کلام ہے۔ ان کی نیتوں کے بارے میں انکشافات ہیں جن کو چھپانے کا انہوں نے بہت ہی احتیاط کے ساتھ اہتمام کیا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی چھپا نہ سکے۔ کیونکہ وہ حضور کی جانب سے تقسیم صدقات کے بارے اعتراض کرتے ہیں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ...  وآلہ وسلم) کی عدالت پر نکتہ چینی آخر ایک مسلمان کیسے کرسکتا ہے۔ آپ تو معصوم ہیں اور خلق عظیم کے مالک ہیں۔ پھر ان میں سے بعض حضور کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ ہر شخص کی بات سنتا ہے اور ہر شخص کو سچا سمجھتا ہے۔ حالانکہ حضور نبی اور صاحب بصیرت ہیں ، مفکر و مدبر ہیں اور ان کو حکمت کے خزانے دیے گئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اپنے کافرانہ اور فاجرانہ عقائد و اعمال کو اچھی طرح چھپاتے ہیں لیکن جب ان کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے تو جھوٹی قسموں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ اپنے معاملات و اعمال کو چھپا سکیں۔ اور بعض تو ایسے سہمے اور ڈرے رہتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں نبی پر سورت ہی نازل نہ ہوجائے۔ ان جیسے لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ منافقین کے یہ خدوخال ہیں اور ان میں اور ان سے پہلے گزرے ہوئے منافقین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور جس طرح اللہ نے ازمنہ سابقہ کے منافقین کو ہلاک کیا تھا ان کو بھی ہلاک کردے گا اور جس طرح اللہ نے ان کو مہلت دی تھی ان کو بھی دی جا رہی تاکہ معلوم ہوجائے کہ جھوٹے منافقین کون ہوتے ہیں اور سچے مومنین کیسے ہوتے ہیں۔ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَآ اِذَا هُمْ يَسْخَطُوْنَ : " اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں " اگر ان کو دیا جائے تو خوش ہوجاتے ہیں پھر انہیں عدل و انصاف کی کوئی پروا نہیں ہوتی اور نہ ان کی دینی غیرت جاگتی ہے۔ ان آیات کے نزول کے بارے میں بہت سی روایات وارد ہیں جن میں بعض متعین لوگوں کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے حضور کے منصفانہ تقسیم صدقات پر اعتراضات کیے تھھے۔ بخاری اور نسائی نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقات کی تقسیم میں مصروف تھے کہ ذوالخویصرہ تمیمی آئے اور کہا رسول اللہ ! انصاف کیجیے۔ حضور نے فرمایا تم ہلاک ہوجاؤ، اگر میں نے انصاف نہ کیا تو پھر کون کرے گا۔ اس موقع پر حضرت عمر (رض) نے کہا حضور مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ اس پر حضور نے فرمایا چھوڑ دو اسے ، اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں جن کی نمازوں کے ساتھ تم میں سے ایک شخص اپنی نماز کو حقیر بناتا ہے اور اپنے روزوں کو ان کے روزہ کے ساتھ حقیر بناتا ہے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جاتے ہیں جس طرح تیر اپنی کمان سے تیزی سے نکل جاتا تھا۔ ابو سعید کہتے ہیں اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ۔ ان مردویہ نے حضرت ابن مسود سے روایت کی ہے " جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کرنا شروع کیا تو میں نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا " یہ تو ایسی تقسیم ہے جو خدا کے لیے نہیں ہے۔ میں حضور کے پاس آیا اور ان سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا ، اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے ، ان کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی اور انہوں نے صبر کیا " اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی و منہم من یلمزک فی الصدقات ۔ ابن جریر نے داود ابن عاصم سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضور کے پاس صدقات آئے تو آپ نے وہیں ان کو تقسیم کردیا۔ کسی کو کچھ دیا اور کسی کو کچھ دیا۔ ایک انصاری نے انہیں دیکھا اور کہا یہ منصفانہ تقسیم نہیں ہے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ آیت وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ کے معنی یہ ہیں کہ ان میں سے بعض لوگ صدقات کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ ایک شخص تازہ تازہ دیہات سے وارد ہوا تھا اور اس نے دیکھا کہ حضور سونا اور چاندی تقسیم کر رہے ہیں۔ تو اس نے کہا حضور اگر اللہ نے آپ کو عدل کا حکم دیا ہے تو پھر آپ نے عدل نہیں کیا۔ اس پر حضور نے فرمایا : تم ہلاک ہوجاؤ اگر میں نے عدل نہ کیا تو پھر کون عدل کرے گا۔ بہرحال آیت اس بات پر منصوص ہے کہ یہ قول منافقین کا تھا۔ اور یہ بات وہ دینی غیرت کی وجہ سے نہ کہتے تھے بلکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ کا مستحق سمجھتے تھے یا اگر ان کو کسی موقع پر کچھ نہ دیا گیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ اور یہ بات ان کے نفاق پر واضح دلیل تھی۔ کیونکہ اگر کوئی شخص دین اسلام پر سچا مومن ہو اور یقین رکھتا ہو تو وہ رسول اللہ کے بارے میں اس قدر سوء ظن نہیں کرسکتا۔ حالانکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو رسالت سے قبل ہی صادق و امین کے نام سے معروف تھے۔ خصوصاً جبکہ عدل تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے چہ جائکہ رسول اللہ عدل نہ کریں۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ ان میں ان واقعات اور ان باتوں پر تبصرہ ہوا ہے جو واقعہ ہوچکی تھیں اور غزوہ تبوک سے بھی پہلے واقعہ ہوچکی تھیں مگر ان کو یہاں بھی لایا گیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ منافقین کے دائمی خدوخال کیا ہوتے ہیں اور ان کی ذہنیت کیا ہوتی ہے۔ اس موقع رپ قرآن کریم ایل ایمان کو بتاتا ہے کہ ان کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کا صدقات کے بارے میں طعن کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم پر راضی نہ ہونا درمنثور (ص ٢٥٠ ج ٣) میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ حنین کے موقعہ پر غنیمت کے اموال تقسیم فرمائے تو میں نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا کہ یہ تو ایسی تقسیم...  ہے جس کے ذریعہ اللہ کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا (العیاذ باللہ) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس بات کا تذکرہ کیا آپ نے فرمایا کہ اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے انہیں اس سے زیادہ تکلیف دی گئی پھر بھی انہوں نے صبر کیا، اور آیت (وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ) نازل ہوئی۔ جن لوگوں کے دلوں میں دنیا کی محبت رچی ہوئی ہوتی ہے وہ مال ہی سے خوش ہوتے ہیں دین و ایمان اور اعمال صالحہ اور جہادفی سبیل اللہ سے خوش نہیں ہوتے انہیں اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ ہمیں نعمت اسلام مل گئی اور اعمال صالحہ کی دولت نصیب ہوگئی بلکہ حب دنیا کی وجہ سے وہ دنیا ملنے ہی کے منتظر رہتے ہیں، دنیا مل گئی تو خوش، اور نہ ملی تو نا خوش۔ منافقوں کے دلوں میں چونکہ ایمان نہیں تھا اور دنیا کے منافع ہی کے لیے جھوٹے منہ سے اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کردیا تھا اس لیے مال نہ ملنے پر ان کا موڈ خراب ہوجاتا تھا۔ اسی کو فرمایا (فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَا رَضُوْا) (سو اگر ان کو صدقات میں سے مال دے دیا جائے تو راضی ہوجاتے ہیں) (وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ ) (اور اگر ان کو ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت ناراض ہوجاتے ہیں) طالب دنیا کو بس مال چاہئے جو فانی ہے اور ایمان اور اعمال صالحہ کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہلاک ہو دینار کا غلام اور درہم کا غلام اور چادر کا غلام اگر کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائے۔ یہ شخص ہلاک ہو اور اوندھے منہ گرے اور جب اسے کانٹا لگ جائے تو خدا کرے اس کا کانٹا نہ نکلے۔ (رواہ البخاری)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56: اس میں ان منافقین کا ذکر ہے جو آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تقسیم صدقات میں انصاف نہ کرنے کا طعن دھرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ ہوازن سے حاصل شدہ اموالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو ایک منافق معتب بن قشیر نامی بول اٹھا کر یہ تقسیم انصاف پر مبنی نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا :“ اگر اللہ اور اس کا رسول ... انصاف نہیں کرینگے تو پھر کون انصاف کرے گا ”۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ لوگ محض جان و مال کے ڈر اور مال غنیمت کے لالچ کی وجہ سے اسلام کا اظہار کرتے تھے۔ اگر ان کو وافر مال مل جاتا تو خوش رہتے اور اگر نہ ملتا یا کم ملتا تو ناراض ہو کر اس قسم کی باتیں بنانے لگتے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

58 اور ان میں سے بعض لوگ وہ بھی ہیں جو صدقات کی تقسیم کے بارے میں آپ پر طعن کرتے ہیں پھر اگر ان صدقات میں سے ان کو ان کی خواہش کے مطابق مل جائے تو خوش ہوجاتے ہیں اور راضی ہوجاتے ہیں اور اگر ان کے حسب منشاء ان کو نہ دیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔