Commentary It was said in the first five verses of Surah At-Taubah that, soon after the Conquest of Makkah, general amnesty was granted to all polytheists and disbelievers of Makkah and its environs. But, in view of their dismal record of treachery and breach of trust in the past, it was decided that no treaty would be signed with them in the future. It was despite this policy decision that injunctions to honor the treaty - made with these people earlier and which they had never contravened - were revealed whereby they were required to fulfill the terms of the treaty until it expired. As for those with whom there was just no trea¬ty, or there was no treaty with a fixed duration, they too were granted suitable concession. Rather than they be ordered to leave Makkah im¬mediately, they were allowed a respite of four months so that, during this period of time, they could arrange to leave Makkah and go wherever they deemed fit, with convenience and in peace. Or, if the truth of Islam had become apparent to them in the meantime, they were welcome to become Muslims. The outcome of these injunctions was that the sacred site of Makkah was to be vacated by all treacher¬ous disbelievers. The evacuation was being implemented without any intention to retaliate. In fact, it was enforced in self-defense because of consistent experience. Therefore, the door to a good future for them was left open even then. This has been mentioned in the sixth verse the substance of which is: If someone from among the disbelievers seeks asylum with you, then, you should grant it so that he could come close to you and listen to the Word of Allah and understand the veraci¬ty of Islam. Then, your responsibility does not end at granting him a temporary asylum. The truth of the matter is that, as soon as he has done what he had come for, it is the responsibility of Muslims that they should escort him under full protective arrangements to the place where he considers himself safe and happy. At the end of the verse, it was said that the particular injunction has been sent because these people are not sufficiently aware. By coming close, they could know things better. Some rulings and points of guidance come out from this verse (11) as well. These have been discussed in details by Imam Abu Bakr al-Jassas. In brief, they are: Proving the Veracity of Islam is the Duty of Muslim Scholars 1. First of all, this verse confirms that, in case, a disbeliever asks Muslims to explain the veracity of Islam to him with valid proofs, then, it becomes their duty to accede to his demand. 2. Secondly, it is obligatory on Muslims that they should allow and protect anyone who comes to them to learn more about Islam. Causing any hurt or harm to such a person is not permissible. This injunction, according to Tafsir al-Qurtubi, is operative only in a situation when the purpose of the visitor is to listen to the Word of Allah and know more about Islam. In case, the objective of the visitor is business, or some other pursuit, it would depend on the discretion of relevant Muslim of¬ficials who would decide in terms of what is best in Muslim interests. Should they deem it fit, they may permit and should they think other-wise, they can act at their discretion. Non-Resident Non-Muslims should not be permitted to stay in Dar al-Islam any longer than necessary 3. The third ruling stipulates that a non-Muslim at war, with whom Muslims have no treaty, should not be allowed to stay any long¬er than necessary – because, in the cited verse, a limit of stay and pro¬tection has been set by saying: حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ (until he listens to the Word of Allah). 4. According to the fourth element of guidance embedded here, it is the duty of a Muslim ruling authority to remain aware of the progress of the mission undertaken by any non-Muslim at war once he has en¬tered into the Muslim country with valid permission (visa) and pur¬pose. And, as soon as he has completed his job in the country, it is also the duty of Muslim Amir (ruler) that he should arrange for his safe return. Stated in the next four verses (7-10) is the wisdom behind the proc¬lamation of withdrawal mentioned in the initial verses of Surah At-Taubah. Here, by referring to the inherent meanness of pledge-breaking disbelievers whose malice and hostility against Muslims knew no bounds, it was advised in verses 7 and 8 that entertaining any hope from such people that they would ever abide by their pledge was simply wrong to begin with. It was said in the text: Except for some people with whom Muslims had entered into a treaty near the masjid al-Haram, how could any pledge given by these disbelievers be credible before Allah and His Messenger? The fact was that they were a set of people who, if given the least opportunity, would not blink about any relationship they had with them or bother to honor the word of prom¬ise given by them. The simple reason was that these people had no in¬tention of honoring the treaty even when they were signing it. Their sole purpose was just to placate them. With their hearts set elsewhere, most of them were sinners, compulsive breakers of pledges and practi¬tioners of treachery.
خلاصہ تفسیر اور اگر کوئی شخص مشرکین میں سے ( زمانہ اباحت قتل میں بعد ختم میعاد امن کے توبہ و اسلام کے فوائد و برکات سن کر اس طرف راغب ہو اور حقیقت و حقّیت اسلام کی تلاش کی غرض سے آپ کے پاس آکر) آپ سے پناہ کا طالب ہو ( تاکہ اطمینان سے سن سکے اور سمجھ سکے) تو ( ایسی حالت میں) آپ اس کو پناہ دیجئے تاکہ وہ کلام الہٰی ( مراد مطلق دلائل دین حق کے ہیں) سن لے پھر ( اس کے بعد) اس کو اس کی امن کی جگہ میں پہنچا دیجئے ( یعنی پہنچنے دیجئے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر اپنی رائے قائم کرلے) یہ حکم ( اتنی پناہ دینے کا) اس سبب سے (دیا جاتا) ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ پوری خبر نہیں رکھتے ( اس لئے قدرے مہلت دینا ضروری ہے۔ جماعت اول نے جو نقض عہد کیا تھا ان کے نقض عہد سے پہلے بطور پیشین گوئی کے فرماتے ہیں کہ) ان مشرکین ( قریش) کا عہد اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے ( قابل رعایت) رہے گا ( کیونکہ رعایت تو اس عہد کی ہوتی ہے جس کو دوسرا شخص خود نہ توڑے ورنہ رعایت نہیں باقی رہتی۔ مطلب یہ کہ یہ لوگ عہد کو توڑ دیں گے اس وقت اس طرف سے بھی رعایت نہ ہوگی) مگر جن لوگوں سے تم نے مسجد حرام ( یعنی حرم) کے نزدیک عہد لیا ہے ( مراد دوسری جماعت ہے جن کا استثناء اوپر بھی (آیت) اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ الخ میں آچکا ہے یعنی ان سے امید ہے کہ یہ عہد کو قائم رکھیں گے) سو جب تک یہ لوگ تم سے سیدھی طرح رہیں ( یعنی عہد نہ توڑیں) تم بھی ان سے سیدھی طرح رہو ( اور مدت عہد کی ان سے پوری کردو چناچہ زمانہ نزول براءت میں اس مدت میں نو ماہ باقی رہے اور بوجہ ان کی عہد شکنی نہ کرنے کے ان کی یہ مدت پوری کی گئی) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ( بدعہدی سے) احتیاط رکھنے والوں کو پسند کرتے ہیں ( پس تم بھی احتیاط رکھنے سے پسندیدہ حق ہوجاؤ گے یہ استثناء کرکے پھر عود ہے مضمون متعلق جماعت اول کی طرف کہ) کیسے (ان کا عہد قابل رعایت رہے گا یعنی وہ لوگ عہد پر کب قائم رہیں گے) حالانکہ ان کی یہ حالت ہے کہ اگر وہ تم پر کہیں غلبہ پاجائیں تو تمہارے بارے میں نہ قرابت کا پاس کریں اور نہ قول وقرار کا ( کیونکہ ان کی یہ صلح مجبوری اور خوف جہاد سے ہے دل سے نہیں پس) یہ لوگ تم کو ( صرف) اپنی زبانی باتوں سے راضی کررہے ہیں اور ان کے دل ( ان باتوں کو) نہیں مانتے ( پس جب دل سے اس عہد کے پورا کرنے کا عزم نہیں ہے تو کیا پورا ہوگا) اور ان میں زیادہ آدمی شریر ہیں ( کہ عہد پورا کرنا نہیں چاہتے اور اگر ایک آدھ پورا کرنا بھی چاہتا ہو تو زیادہ کے سامنے ایک دو کی کب چلتی ہے اور وجہ ان کے شریر ہونے کی یہ ہے کہ) انہوں نے احکام الہٰیہ کے عوض ( دنیا کی) متاع ناپائیدار کو اختیار کر رکھا ہے ( جیسا کہ کفار کی حالت ہوتی ہے کہ دین کو چھوڑ کر دنیا کو اس پر ترجیح دیتے ہیں جب دنیا زیادہ محبوب ہوگی تو جب عہد شکنی میں دنیوی غرض حاصل ہوتی نظر آئے گی اس میں کچھ باک نہ ہوگا بخلاف اس شخص کے جو دین کو ترجیح دیتا ہے وہ احکام الہٰیہ اور وفائے عہد وغیرہ کا پابند ہوگا) سو ( اس ترجیح دنیا علی الدین کی وجہ سے) یہ لوگ اللہ کے ( سیدھے) راستہ سے ( جس میں وفائے عہد بھی داخل ہے) ہٹے ہوئے ہیں ( اور) یقینا یہ ان کا عمل بہت ہی برا ہے ( اور ہم نے جو اوپر کہا ہے لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ الخ سو اس میں تمہاری کچھ تخصیص نہیں ان کی تو یہ حالت ہے کہ) یہ لوگ کسی مسلمان کے بارے میں ( بھی) نہ قرابت کا پاس کریں اور نہ قول وقرار کا اور یہ لوگ ( خصوص اس باب میں) بہت ہی زیادتی کر رہے ہیں سو ( جب ان کے عہد پر اعتماد و اطمینان نہیں بلکہ احتمال عہد شکنی کا بھی ہے جیسا کہ اس کی جانب مخالف کا بھی احتمال ہے اس لئے ہم ان کے بارے میں مفصل حکم سناتے ہیں کہ) اگر یہ لوگ ( کفر سے) تو بہ کرلیں ( یعنی مسلمان ہوجائیں) اور ( اس اسلام کو ظاہر بھی کردیں مثلا) نماز پڑھنے لگیں اور زکوٰة دینے لگیں تو ( پھر ان کی عہد شکنی وغیرہ پر اصلا نظر نہ ہوگی خواہ انہوں نے کچھ ہی کیا ہو اسلام لانے سے) وہ تمہارے دینی بھائی ہوجائیں گے ( اور پچھلا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا) اور ہم سمجھدار لوگوں ( کو بتلانے) کے لئے احکام کو خوب تفصیل سے بیان کرتے ہیں ( چناچہ اس مقام پر بھی ایسا ہی کیا گیا ) ۔ معارف و مسائل سورة توبہ کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس کا ذکر تھا کہ فتح مکہ کے بعد مکہ اور اس کے اطراف کے تمام مشرکین و کفار کو جان و مال کا عام امان دے دیا گیا مگر ان کی سابقہ غداری اور عہد شکنی کے تجربہ کی بنا پر آئندہ کے لئے ان سے کوئی معاہدہ نہ کیا جانا طے ہوگیا۔ اس قرارداد کے باوجود جن لوگوں سے کوئی معاہدہ اس سے پہلے ہوچکا تھا اور انہوں نے عہد شکنی نہیں کی تو ان کا معاہدہ ختم میعاد تک پورا کرنے کے احکام ان آیات میں نازل ہوئے۔ اور جن سے کوئی معاہدہ نہیں تھا یا کسی معین میعاد کا معاہدہ نہیں تھا ان کے ساتھ بھی یہ رعایت کی گئی کہ ان کو فوری طور پر مکہ چھوڑ دینے کے حکم کے بجائے چار مہینہ کی وسیع مہلت دے دی گئی کہ اس عرصہ میں وہ مکہ چھوڑ کر جہاں مناسب سمجھیں سہولت و اطمینان کے ساتھ چلے جائیں۔ یا اگر اسلام کی حقانیت ان پر روشن ہوچکی ہے تو مسلمان ہوجائیں۔ ان احکام کا نتیجہ یہ تھا کہ سال آئندہ تک مکہ مکرمہ سہولت کے ساتھ ان سب غدار مشرکین سے خالی ہوجائے اور چونکہ یہ خالی کرنا بھی کسی انتقامی جذبہ سے نہیں بلکہ مسلسل تجربوں کے بعد اپنی حفاظت کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا اس لئے ان کی اصلاح و خیر خواہی کا دروازہ اب بھی کھلا رکھا گیا۔ جس کا ذکر چھٹی آیت میں ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص آپ سے پناہ مانگے تو آپ کو پناہ دینی چاہئے تاکہ وہ آپ کے قریب آکر اللہ کا کلام سن سکے اور اسلام کی حقانیت کو سمجھ سکے اور صرف یہی نہیں کہ وقتی طور پر اس کو پناہ دے دی جائے بلکہ جب وہ اپنے اس کام سے فارغ ہوجائے تو اپنی حفاظت اور نگرانی میں اس کو اس مقام تک پہنچانا بھی مسلمانوں کے ذمہ ہے جہاں یہ اپنے آپ کو محفوظ و مطمئن سمجھتا ہے۔ آخر آیت میں فرمایا کہ یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ لوگ پوری خبر نہیں رکھتے قریب آکر باخبر ہو سکتے ہیں۔ اس آیت سے بھی چند مسائل اور فوائد حاصل ہوئے جن کو امام ابوبکر جصاص نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ حقانیت اسلام کو دلائل کے ساتھ سمجھانا علماء دین کا فرض ہے : اول یہ کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی کافر مسلمانوں سے اس کا مطالبہ کرے کہ مجھے اسلام کی حقانیت دلیل سے سمجھاؤ تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کا مطالبہ پورا کریں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص اسلام کی تحقیق اور معلومات حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس آئے تو ہم پر واجب ہے کہ اس کو اجازت دیں اور اس کی حفاظت کریں۔ اس کو کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچانا جائز نہیں۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ اس کے آنے کا مقصد اللہ کا کلام سننا اور اسلام کی تحقیق کرنا ہو اور اگر کوئی دوسری غرض تجارت وغیرہ ہو تو وہ مسلمانوں کے مصالح اور حاکم مسلمین کی صوابدید پر موقوف ہے مناسب سمجھے تو اجازت دے ورنہ اختیار ہے۔ غیر مسلم جو دارالاسلام کے باشندے نہ ہوں ان کو ضرورت سے زائد دارالاسلام میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے : تیسرے یہ کہ غیر مسلم حربی جس کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہ ہو اس کو ضرورت سے زیادہ ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ کیونکہ آیت مذکورہ میں پناہ دینے اور ٹھہرانے کی یہ حد مقرر کردی گئی ہے (آیت) حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ۔ یعنی اس کو اپنے یہاں اتنا ٹھہراؤ کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ چوتھے یہ کہ مسلمان حاکم و امیر کے فرائض میں سے ہے کہ جب کوئی حربی غیر مسلم کسی ضرورت کی بنا پر ہم سے اجازت ( ویزا) لے کر ہمارے ملک میں داخل ہو تو اس کے حالات پر نظر رکھے اور جب وہ اپنا کام پورا کرچکے اس کو حفاظت کے ساتھ واپس کردے۔ ساتویں آٹھویں نویں دسویں چار آیتوں میں اس اعلان برأت کی حکمت کا بیان ہے جو سورة توبہ کی ابتدائی آیات میں ذکر کیا گیا ہے اس آیت میں عہد شکنی کرنے والے مشرکین کی طبعی خسّت اور مسلمانوں سے بغض وعناد کی شرت کا ذکر کرکے یہ بتلایا گیا ہے کہ ان سے وفاء عہد کی امید رکھنا ہی غلط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ بجز چند لوگوں کے جن سے مسجد حرام کے پاس تمہارا معاہدہ ہوا تھا ان مشرکین کا کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک قابل رعایت کیسے ہوسکتا ہے جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو کسی وقت بھی ذرا موقع مل جائے تو وہ تمہارے بارے میں نہ کسی قرابت داری کی رعایت کریں نہ عہد و پمیان کی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ معاہدہ کرنے کے وقت بھی دل میں اس کے پورا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ صرف الفاظ سے تمہیں خوش کرنا چاہتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق یعنی عہد شکن غدار ہیں۔