Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 61

سورة التوبة

وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَیۡرٍ لَّکُمۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۶۱﴾

And among them are those who abuse the Prophet and say, "He is an ear." Say, "[It is] an ear of goodness for you that believes in Allah and believes the believers and [is] a mercy to those who believe among you." And those who abuse the Messenger of Allah - for them is a painful punishment.

ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کان کا کچا ہے ، آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمانوں کی بات کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو اہل ایمان ہیں یہ ان کے لئے رحمت ہے ، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جو لوگ ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites annoy the Prophet Allah says, وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُوْذُونَ النَّبِيَّ وَيِقُولُونَ ... And among them are men who annoy the Prophet and say: Allah says, some hypocrites bother the Messenger of Allah by questioning his character, saying, ... هُوَ أُذُنٌ ... he is (lending his) ear, to those who say anything about us; he believes whoever talks to him. Therefore, if we went to him and swore, he would believe us. Similar was reported from Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah. Allah said, ... قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ ... Say: "He listens to what is best for you," he knows who's saying the truth and who is lying, ... يُوْمِنُ بِاللّهِ وَيُوْمِنُ لِلْمُوْمِنِينَ ... he believes in Allah; has faith in the believers, he believes the believers, ... وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ امَنُواْ مِنكُمْ ... and is a mercy to those of you who believe," and a proof against the disbelievers, ... وَالَّذِينَ يُوْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ But those who annoy Allah's Messenger, will have a painful torment.

نکتہ چین منافقوں کا مقصد منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے اپنے باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات کا یقین کر لے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا بہترین سننے والا ہے وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے وہ اللہ کی باتیں مانتا ہے ، اور با ایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے وہ مومنوں کے لئے رحمت ہے اور بے ایمانوں کے لئے اللہ کی حجت ہے رسول کے ستانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یہاں سے پھر منافقین کا ذکر ہو رہا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ایک ہرزہ سرائی انہوں نے یہ کی کہ یہ کان کا کچا (ہلکا) ہے، مطلب ہے کہ یہ ہر ایک بات سن لیتا ہے (یہ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم و کرم اور عفو و صفع کی صفت سے ان کو دھوکہ ہوا) اللہ نے فرمایا کہ نہیں، ہمارا پیغمبر شر و فساد کی کوئی بات نہیں سنتا جو بھی سنتا ہے تمہارے لئے اس میں خیر اور بھلائی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] منافقوں کا آپ کو لائی لگ کہنا اور اس کا جواب :۔ منافقوں کو رسول اللہ سے یہ شکایت تھی کہ آپ ہر شخص کی بات سن لیتے ہیں اور پھر اسے درست بھی سمجھ لیتے ہیں۔ دراصل ان کی خواہش یہ تھی کہ آپ ان مسلمانوں کی باتوں پر اعتماد نہ کیا کریں جو ہم جیسے معزز لوگوں کی خبریں یعنی ہماری سازشوں اور شرارتوں کے حالات سے آپ کو مطلع کرتے رہتے ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کا ایسا ہونا دراصل تمہارے ہی حق میں بہتر ہے۔ تم ان کے سامنے اپنے ایمان کے جھوٹے دعوے کرتے، مسلمانوں کے ہمدرد ہونے پر جھوٹی قسمیں کھاتے اور جہاد سے فرار کے لیے جھوٹے بہانے بناتے ہو۔ مگر وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ اگر وہ اسی وقت ہر بات کی تحقیق شروع کردیتا تو سب سے پہلے تمہاری ہی شامت آجاتی۔ [٧٥] متقی کی بات قابل اعتبار ہے :۔ یعنی رسول سنتا تو سب کی ہے مگر اعتماد صرف ان لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں اور اللہ سے ڈرنے والے اور جھوٹ اور چغل خوری سے پرہیز کرنے والے ہیں۔ لہذا اگر وہ تمہاری شرارتوں اور معاندانہ سرگرمیوں کی اطلاع دیتے ہیں تو وہ فی الواقع قابل اعتماد ہوتی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ : زمخشری نے فرمایا ” اُذُنٌ“ (کان) وہ آدمی ہے جو ہر ایک کی بات سن کر اسے سچا سمجھے۔ سنتے چلے جانے کی وجہ سے اس آدمی کا نام ہی کان رکھ دیا، جیسے جاسوس کا کام آنکھ سے تعلق رکھتا ہے، اس کا نام ہی ” عین “ (آنکھ) رکھ دیا گیا۔ ان منافقین کا مطلب یہ تھا کہ آپ کان کے کچے ہیں، ہر ایک کی بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ دیکھیے یہ آپ پر کتنا تکلیف دہ تبصرہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے والوں کے لیے سورة احزاب (٥٧) میں دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا ذکر ہے اور یہاں ان کے لیے عذاب الیم بیان فرمایا۔ قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ : یعنی ہاں تمہاری بات اس حد تک صحیح ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں، مگر یہ الزام صحیح نہیں کہ ہر بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ اعتبار صرف اسی بات کا کرتے ہیں جو سچی اور حقیقی ہوتی ہے، جو پکے مومن بتاتے ہیں۔ جھوٹی بات کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر صبر اور درگزر سے کام لیتے ہیں، یہ چیز تمہارے حق میں خیر (بہتر) ہے۔ ورنہ آپ جھوٹی بات سن کر اگر اس پر فوراً مؤاخذہ کرنے والے ہوتے تو تم اپنے جھوٹے عذروں کی بنا پر یا تو کب کے قتل کردیے گئے ہوتے یا مدینہ سے نکال دیے گئے ہوتے۔ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ : یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں، چاہے دل سے ایمان دار نہ ہوں، ایسے لوگوں کے لیے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے راز کھولتے نہیں بلکہ انھیں اپنی اصلاح کرلینے کا موقع دیتے ہیں۔ (فتح القدیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The present verses, like the previous ones, chastise hypocrites for their absurd objections, hostility to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and their feigned professions of Faith on false oaths. The first verse (61) mentions the painful comment made by the hypocrites against the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . They thought, since he hears and believes everything, they had nothing to worry about. In the event, their conspiracy was exposed, they would simply tell him on oath that they had nothing to do with it. Allah Almighty corrected them by saying that His Messenger preferred silence against baseless hostilities because of his high morals. He did not believe in what they said. He himself knew reality as it was. He simply avoided refuting them on their faces because of his inherent gentleness of nature.

خلاصہ تفسیر اور ان ( منافقین) میں بعضے ایسے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچاتے ہیں ( یعنی آپ کی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں کہ سن کر آپ کو ایذاء ہو) اور ( جب کوئی روکتا ہے تو) کہتے ہیں کہ آپ ہر بات کان دے کر سن لیتے ہیں ( آپ کو جھوٹ بول کر دھوکہ دیدینا آسان ہے، اس لئے کچھ فکر نہیں) آپ ( جواب میں) فرما دیجئے کہ ( تم کو خود دھوکہ ہوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی بات کو سن لینا دو طور پر ہے، ایک تصدیق کے طور پر کہ دل سے بھی اس کو صحیح سمجھیں، دوسرا خوش خلقی اور کریم النفسی کے طور پر کہ باوجود یہ جان لینے کے کہ یہ بات محض غلط ہے شرافت نفس اور حسن خلق کی بناء پر اس کو ٹال دیں، اور کہنے والے پر داروگیر یا اس کی صریح تکذیب نہ کریں سو) وہ نبی کان دے کر تو وہی بات سنتے ہیں جو تمہارے حق میں خیر ( ہی خیر) ہے، ( جس کا حاصل اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ اللہ ( کی باتیں وحی سے معلوم کرکے ان) پر ایمان لاتے ہیں ( جن کی تصدیق کا خیر ہونا تمام عالم کے لئے ظاہر ہے، کیونکہ تعلیم اور عدل اسی تصدیق پر موقوف ہے) اور مومنین ( مخلصین کی باتوں) کا ( جو بحیثیت ایمان و اخلاص ہوں) یقین کرتے ہیں ( اس کا خیر ہونا بھی ظاہر ہے کہ عدل عام موقوف ہے احوال کی صحیح اطلاع پر اور اس کا ذریعہ یہی مومنین مخلصین ہیں، غرض کان دے کر اور سچا سمجھ کر تو صرف سچے اور مخلصین کی باتیں سنتے ہیں) اور ( باقی تمہاری شرارت آمیز باتیں جو سن لیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) آپ ان لوگوں کے حال پر مہربانی فرماتے ہیں جو تم میں ایمان کا اظہار کرتے ہیں ( گو دل میں ایمان نہ ہو، پس اس مہربانی اور خوش اخلاقی کی وجہ سے تمہاری باتیں سن لیتے ہیں اور باوجو اس کی حقیقت سمجھ جانے کے درگذر اور خاموشی برتتے ہیں، پس ان باتوں کا سننا دوسرے طور کا ہے، تم نے اپنی حماقت سے اس کو بھی اول طور محمول کرلیا، خلاصہ یہ کہ تم یہ سمجہتے ہو کہ حقیقت کو حضرت نہیں سمجہتے اور واقع میں حقیقت کو تم ہی نہیں سمجہتے) اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذائیں پہنچاتے ہیں ( خواہ ان باتوں سے جن کے کہنے کے بعد اُذُن کہا تھا یا خود اسی هُوَ اُذُنٌ کے کہنے سے کیونکہ ان کا آپ کو اُذُنُ کہنا آپ کی تنقیص کے لئے تھا کہ معاذ اللہ آپ کو سمجھ نہیں جو کچھ سن لیتے ہیں اس کو مان لیتے ہیں) ان لوگوں کے لئے دردناک سزا ہوگی، یہ لوگ تمہارے ( مسلمانوں کے) سامنے ( جھوٹی) قسمیں کھاتے ہیں ( کہ ہم نے فلاں بات نہیں کہی، یا ہم غزوہ میں فلاں عذر سے نہ جاسکے) تاکہ تم کو راضی کرلیں ( جس سے ان کا جان و مال محفوظ رہے) حالانکہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ سچے مسلمان ہیں تو اس کو راضی کریں ( جو کہ موقوف ہے اخلاص اور ایمان پر) کیا ان کو خبر نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا ( جیسا یہ لوگ کر رہے ہیں) تو یہ بات طے ہوچکی ہے کہ ایسے شخص کو دوزخ کی آگ اس طور پر نصیب ہوگی کہ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، ( اور) یہ بڑی رسوائی ( کی بات) ہے منافق لوگ ( طبعاً ) اس سے اندیشہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر ( بذریعہ وحی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی ایسی سورت ( مثلا یا آیت) نازل نہ ہوجاوے جو ان کو ان منافقین کے ما فی الضمیر پر اطلاع دیدے ( یعنی انہوں نے جو استہزا کی باتیں خفیہ کی ہیں کہ مسلمانوں کے اعتبار سے وہ مثل ان اسرار کے ہیں جو دلوں میں پوشیدہ ہیں ان کی خبر نہ ہوجاوے) آپ فرما دیجئے کہ اچھا تم استہزاء کرتے رہو ( اس میں ان کے استہزاء پر مطلع ہوجانے کو جتلا دیا، چناچہ آگے خود ارشاد ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ اس چیز کو ظاہر کرکے رہے گا جس کے ( اظہار) سے تم اندیشہ کرتے تھے ( چناچہ اسْتَهْزِءُوْا میں ظاہر کردیا کہ تم استہزاء کررہے تھے) اور ( ظاہر ہوجانے کے بعد) اگر آپ ان سے ( اس استہزاء کی وجہ) پوچھیں تو کہہ دیں گے کہ ہم تو محض ہنسی اور خوش طبعی کر رہے تھے ( اس کلام کے حقیقی معنی مقصود نہ تھے، محض جی خوش کرنے کو جس سے سفر آسانی سے قطع ہو ایسی باتیں زبانی کررہے تھے) آپ ( ان سے) کہہ دیجئے کہ کیا اللہ کے ساتھ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ تم ہنسی کرتے تھے ( یعنی خواہ غرض کچھ بھی ہو مگر یہ تو دیکھو کہ تم استہزاء کس کا کر رہے ہو جن کے ساتھ استہزاء کسی غرض سے بھی درست نہیں) تم اب ( یہ بیہودہ) عذر مت کرو ( مطلب یہ ہے کہ عذر مقبول نہیں، اور اس عذر سے استہزاء جائز نہیں ہوجاتا) تم تو اپنے کو مومن کہہ کر کفر کرنے لگے ( کیونکہ دین کے ساتھ استہزاء مطلقاً کفر ہے، گو دل میں تو پہلے بھی ایمان نہ تھا، البتہ اگر کوئی دل سے توبہ کرلے اور مومن مخلص بن جائے تو البتہ کفر اور عذاب کفر سے چھوٹ جاوے، لیکن اس کی بھی سب کو توفیق نہ ہوگی، ہاں بعض البتہ مسلمان ہوجاویں گے، اور وہ معاف کردیئے جائیں گے، پس حاصل یہ ٹھہرا کہ) اگر ہم تم میں سے بعض کو چھوڑ بھی دیں ( اس لئے کہ وہ مسلمان ہوگئے) تو ہم بعض کو ( ضرور ہی) سزا دیں گے سببب اس کے کہ وہ ( علم ازلی میں) مجرم تھے ( یعنی وہ مسلمان نہیں ہوئے ) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں بھی سابقہ آیات کی طرح منافقین کے بیہودہ اعتراضات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء رسانی اور پھر جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے ایمان کا یقین دلانے کے واقعات اور ان پر تنبیہ ہے۔ پہلی آیت میں مذکورہ ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بطور استہزاء یہ کہتے ہیں کہ وہ تو بس کان ہیں، یعنی جو کچھ کسی سے سن لیتے ہیں اسی پر یقین کرلیتے ہیں، اس لئے ہمیں کچھ فکر نہیں، اگر ہماری سازش کھل بھی گئی تو ہم پھر قسم کھا کر آپ کو اپنی براءت کا یقین دلا دینگے، جس کے جواب میں حق تعالیٰ نے ان کی حماقت کو واضح فرمادیا کہ وہ جو منافقین اور مخالفین کی غلط باتوں کو سن کر اپنے مکارم اخلاق کی بناء پر خاموش ہو رہتے ہیں اس سے یہ نہ سمجھو کہ آپ کو حقیقت حال کی سمجھ نہیں، صرف تمہارے کہنے پر یقین کرتے ہیں، بلکہ وہ سب کی پوری پوری حقیقت سے باخبر ہیں، تمہاری غلط باتیں سن کر وہ تمہاری سچائی کے قائل نہیں ہوجاتے، البتہ اپنی شرافت نفس اور کرم کی بناء پر تمہارے منہ پر تمہاری تردید نہیں کرتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْہُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ وَيَقُوْلُوْنَ ہُوَاُذُنٌ۝ ٠ ۭ قُلْ اُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَرَحْمَۃٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٦١ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ نبی النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک . ( ن ب و ) النبی بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم/ 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔ أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اپنے باپ بیٹے اور بیوی کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ان اقوال کی روشنی میں فقہاء کا اس پر اتفاق ثابت ہوگیا کہ والد، ولد اور زوجہ کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے صانت ومالک لابیک تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) نیز ارشاد ہوا (ان اطیب ما اکل الرجال من کسبہ وان ولدہ من کسبہ۔ اور انسان کا بیٹا بھی اس کی کمائی ہے) جب ایک شخص کا مال اس کے باپ کی طرف منسوب و مضاف ہو اور اس کی یہ صفت بیان کی جائے کہ وہ بھی اس کی کمائی ہے تو اس صورت میں اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو زکوٰۃ دے گا تو اس پر اس کی ملکیت باقی رہے گی اس لئے کہ اس کے بیٹے کی ملکیت بھی اس کی طرف ہی منسوب ہے۔ اس صورت میں ادا شدہ زکوٰۃ صدقہ صحیحہ نہیں بنے گا۔ جب یہ بات بیٹے کے حق میں درست ہے تو باپ بھی اسی کی طرح ہے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک ولادت کے واسطے سے دوسرے کی طرف منسوب ہے۔ نیز ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی باطل ہے۔ جب ہر ایک کی گواہی سے دوسرے کو ملنے والے حق کی یہ حیثیت قرار پائی کہ گویا گواہی دینے والے نے اپنی ذات کے لئے اس حق کو حصول کی گواہی دی ہے اس لئے یہ گواہی باطل ہے۔ اسی طرح ان میں سے ایک کی طرف سے دوسرے کو زکوٰۃ کی ادائیگی کی یہ حیثیت ہوگی کہ گویا زکوٰۃ دینے والے نے اس زکوٰۃ کو اپنی ملکیت میں ہی باقی رکھا ہے جبکہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے اس پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی کہ وہ زکوٰۃ کی رقم اپنی ملکیت سے نکال کر درست طریقے سے فقیر کی ملک بنادے لیکن جب وہ زکوٰۃ کی اس رقم کو ایسے شخص کے حوالے کردے گا جس کی گواہی اس کے حق میں درست تسلیم نہیں کی جاتی تو اس صورت میں اس رقم سے اس کا حق منقطع نہیں ہوگا اور اس کی حیثیت یہ ہوگی کہ گویا وہ ابھی اس کی ملکیت میں ہی ہے۔ اس لئے اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی علت کی بنا پر شوہر کے لئے زکوٰۃ کی رقم اپنی بیوی کو دے دینا جائز نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں نفقہ کے اعتبار سے کوئی معنی نہیں ہیں اس لئے کہ نفقہ ایک حق ہے جو اسے لازم ہوجاتا ہے۔ اور یہ ان دیون سے زیادہ ٹوک نہیں ہوتا جن کا ایک پر دوسرے کی طرف سے ثبوت ہوجاتا ہے لیکن ایک پر دوسرے کی طرف سے اس کا ثبوت اسے زکوٰۃ کی رقم حوالہ کرنے میں مانع نہیں ہوتا۔ آیت کا عموم فقر کے نام پر اسے زکوٰۃ کی رقم دے دینے کے جواز کا مقتضی ہے اور اس کی تخصیص کی کوئی دلالت بھی قائم نہیں ہوئی ہے اس لئے نفقہ کو بنیاد بناکر آیت کے عموم سے اسے خارج کردینا جائز نہیں ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (خیر الصدقۃ ماکان عن ظھر غنی وابدأ لمن تعول، بہترین صدقہ وہ ہے جو مال داری کی پشت پناہی میں کی جائے اور اس کی ابتداء اس شخص سے کرو جس کانان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے) اس ارشاد کا عموم ان تمام لوگوں کو ہر قسم کے صدقہ کی رقم دینے کے واز کا مقتضی ہے جن کا نان و نفقہ صدقہ دینے والے کے ذمے ہے۔ البتہ اس حکم سے والد، ولد اور زوجین کسی اور دلالت شرعی کی بنا پر خارج ہوگئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ولادہ اور ولد کا ایک دوسرے کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنا اس لئے جائز ہے کہ ایک پر دوسرے کا نفقہ لازم ہوتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ اگر والد اور ولد گزارے کی مقدار کے مالک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے مستغنی ہوتے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے پر دوسرے کا نفقہ واجب نہ ہوتا تو اس صورت میں بھی اسے زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوتا۔ اس لئے کہ چاہے ایک پر دوسرے کا نفقہ واجب ہو، چاہے واجب نہ ہو، ہر صورت میں ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے کی ممانعت ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے کو یہ امر مانع ہے کہ ان میں سے ہر ایک ولادت کے واسطے سے دوسرے کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ ان میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہوتی۔ اور ان دونوں باتوں میں سے ہر ایک، زکوٰۃ حوالے نہ کرنے کے حکم کی علت بن رہی ہے۔ کیا بیوی شوہر کو زکوٰۃ دے سکتی ہے ؟ عورت اپنے شوہر کو زکوٰۃ کا مال دے سکتی ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا قول ہے کہ عورت شوہر کو اپنی زکوٰۃ نہیں دے گی۔ امام ابو یوسف، امام محمد، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ زوجین میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ زوجین میں سے ہر ایک کی دوسرے کے حق میں گواہی جائز نہیں ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کو اپنی زکوٰۃ نہ دے کیونکہ ہر صورت میں وہ علت موجود ہے جو ایک کی زکوٰۃ دوسرے کے حوالے کرنے سے مانع ہے۔ اس مسئلے میں جواز کے قائلین نے حضرت ابن مسعود (رض) کی بیوی زینب کی روایت سے استدلال کیا ہے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آیا وہ اپنے شوہر کو نیز اپنے بھائی کے یتیم بچوں کو جو ان کی پرورش میں تھے صدقہ دے سکتی ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا (لک اجر ان اجر الصدقۃ واجر لاقرابۃ تمہیں دو اجر ملیں گے ایک تو صدقہ کا اجر اور دوسرا قرابت داری کی پاسداری کا اجر) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دراصل نفلی صدقہ تھا۔ حدیث کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ روایت میں یہ مذکور ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کو صدقہ دینے کی ترغیب دی تھی اور انہیں اس پر ابھارا تھا تو اس موقعہ پر حضرت زینب (رض) نے یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھی تھی، وہ کہتی ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں سے فرمایا (تصدقن ولو بج لیکن۔ صدقہ دو خواہ زیورات ہی کیوں نہ ہوں) تو میں نے اپنے چند زیور اکٹھے کرکے انہیں صدقہ کردینے کا ارادہ کیا، اس موقعہ پر میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا۔ “ یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ نفلی صدقہ تھا۔ اگر یہ حضرات اس روایت سے استدلال کریں جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں ابن ناجیہ نے، انہیں احمد بن حاتم نے ، انہیں علی بات ثابت نے، انہیں یحییٰ بن ابی انیسہ الجزری نے حماد بن ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ (رض) سے کہ ان کی بیوی زینب ثفیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا کہ ” میرے پاس گلے کا زیور ہے جس میں بیس مثقال سونا ہے۔ آیا میں اس کی زکوٰۃ ادا کروں گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” نصف مثقال ادا کرو۔ “ انہوں نے نے مزید کہا کہ ” میری پرورش میں میرے بھائی کے یتیم بچے ہیں، آیا یہ زکوٰۃ میں انہیں دے دوں یا ان پر خرچ کردوں ؟ “ آپ نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا۔ اس روایت میں یہ بیان ہوا کہ حضرت زینب (رض) نے اپنی زکوٰۃ ادا کی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت میں شوہر کو زکوٰۃ دینے کا ذکر نہیں ہے صرف یتیم بھتیجوں کو دینے کا ذکر ہے۔ ہم بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر اور یتیم بھتیجوں کو صدقہ کے طور پر کچھ دینے کے متعلق پوچھا ہو نیز یہ کہ آیا وہ یہ زکوٰۃ اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجازت دے دی ہو۔ ہم بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔ کیا ذمی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ؟ ذمی کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بارے میں اختلاف رائے ہے ہمارے اصحاب، سفین ثری ، امام مالک، ابن شبہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ ذمی کو زکوٰۃ کی رقم نہیں د ی جاسکتی۔ عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ جب زکوٰۃ لینے والا کوئی مسلمان نہ ملے تو ذمی کو زکوٰۃ کی رقم کی یہ رقم دے دے۔ ان سے کہا جائے گا کہ جس جگہ زکوٰۃ دینے والا رہتا ہو وہاں کوئی مسلمان اگر اسے نہ ملے تو دوسری جگہ مسلمان موجود ہوگا گویا ان کا مسلک یہ ہے کہ جو ذمی مسلمانوں کے درمیان رہتا ہو اسے زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ پہلے قول کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے (مرت ان اخذ الصدقۃ من اغنیائکم واردھانی فقراء کم۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے مال داروں سے صدقہ لے کر تمہارے فقراء میں تقسیم کردوں) یہ ارشاد اس امر کا مقتضی ہے کہ امام المسلمین صدقے کی جو رقم بھی وصول کرے اس کی تقسیم مسلمان فقراء تک محدود رکھے۔ اس میں سے کافروں کو دینا جائز نہیں ہے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ہوتے ہوئے کافروں کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زکوٰۃ میں کافروں کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے اس لئے کہ اگر ایک حالت میں کافروں کو زکوٰۃ کی رقم حوالہ کرنا جائز ہوتا تو پھر تمام حالتوں میں اس کا جواز ہوتا اس لئے کہ کافروں کے اندر فقر کا وجود اسی طرح ہے جیسے مسلمان فقراء کے اندر۔ کیا زکوٰۃ کی سب رقم ایک شخص کو دینا جائز ہے ؟ ایک ہی شخص کو زکوٰۃ کی ساری رقم دے دینے کے مسئلہ میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ای ہی مسکین کو پوری زکوٰۃ دے دینا جائز ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی مسکین میں اپنا اور اپنے اہل و عیال اک صدقہ فطر دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ آیت کے مطابق زکوٰۃ کے جو مستحقین ہیں ایک شخص اپنی زکوٰۃ ان میں سے کم از کم تین کو دے گا۔ اگر اس نے ان میں سے دو کو اپنی زکوٰۃ کی پوری رقم دے دی جبکہ تیسرا بھی زکوٰۃ لینے کے لئے موجود تھا تو اس صورت میں وہ تیسرے حصے کا تاوان بھر دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) اس چیز کے لئے اسم جنس ہے جو صدقہ کے طور پر دی جارہی ہے اور جنہیں دی جارہی ہے ان کے لئے بھی یہ اسم جنس ہے۔ اسمائے جنس کا جب اطلاق کیا جاتا ہے تو وہ اپنے مدلولات یعنی مسمیات پر دو میں سے ایک صورت میں حکم واجب کردیتے ہیں۔ یا تو تمام پر حکم کا ایجاب ہوجاتا ہے یا کم سے کم پر، اور دلالت کے بغیر کسی خاص عدد کے ساتھ حکم کا اختصاص نہیں ہوتا۔ چونکہ آیت زیر بحث میں کسی خاص عدد کا ذکر نہیں ہے اسی لئے کہ حکم کا اختصاص کسی خاص عدد کے ساتھ نہیں ہوگا۔ قول باری (والسارق والسارق) پر غور کیجئے اسی طرح (الزانیۃ والزانی) پر، نیز (وخلق الانسان ضعیفاً اور انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے) پر بھی غور کیجئے۔ یہ سب اسمائے جنس ہیں ان میں سے ہر ایک کے اپنے مسمی اور مدلول کے ایک ایک فرد کو الگ الگ شامل ہے مجموعی طور پر شامل نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگ کوئی شخص یہ کہے۔ ” اگر میں عورتوں سے نکاح کردوں یا غلاموں کی خریداری کروں تو …“ تو اس کے اس قول کو ایک عورت یا ایک غلام پر محمول کیا جائے گا۔ اگر اس نے یہ کہا ہو : ” اگر میں پانی پی لوں یا کھانا کھالوں تو… تو اس کے اس قول کو پانی اور طعام کے ایک جز پر محمول کیا جائے گا۔ پانی اور تعام کے تمام مدلول کے احاطہ پر اسے محمول کیا جائے گا۔ اگر اس نے اپنی قسم میں کل جنس کے احاطہ کا ارادہ کیا ہو تو اس کا قول تسلیم کرلیا جائے گا اور وہ کبھی بھی حانث نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ فقرے میں وارد لفظ کا مقتضی دو معنوں میں سے ایک ہے۔ یا تو کل کا احاطہ مقصود ہے یا لفظ کے مدلول کے کم سے کم فرد کا۔ اس جیسے فقرے میں کل مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے اس میں عدد کے اعتبار کا بھی کوئی معنی نہیں ہوگا۔ اسم جنس کے متعلق ہم نے درج بالا سطور میں کچھ بیان کیا ہے جب اس کا ثبوت ہوگیا اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقات کی آیت میں جنس کا اس طرح احاطہ مراد نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی بھی محروم نہ رہے تو اب اس میں عددکا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس بنا پر جن حضرات نے ان میں سے کم از کم کا اعتبار کیا ہے ان کا قول باطل ہوگیا۔ نیز صدقات کسی خاص انسان کا حق نہیں ہے یہ تو صرف اللہ کا حق ہے جسے آیت میں بیان کردہ مصارف میں صرف کیا جاتا ہے اس لئے اس میں ایک فرد اور جماعت کے حکم میں زکوٰۃ حوالہ کرنے کے لحاظ سے فرق نہ ہونا ضروری قرار پایا۔ نیز یہ پہلو موجود ہے کہ اگر عدد کا اعتبار ضروری ہے تو پھر بعض اعداد کا اعتبار بعض دوسرے اعداد کی بہ نسبت اولیٰ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں وارد اسم کسی خاص عدد کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی دیکھئے جب عدد کا اعتبار ضروری ٹھہرایا جائے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ تمام اعداد کا احاطہ مشکل ہے۔ اس لئے فقراء و مساکین نیز دیگر مصارف سے تعلق رکھنے والے مستحقین زکوٰۃ کا احاطہ نہیں ہوسکتا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ عدد کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس لئے کہ عدد کے اعتبار میں ایسی بات موجود ہے جو اس کے اسقاط پر منتج ہوتی ہے۔ کیا تہائی مال کی وصیت، فقراء کے لئے جائز ہے ؟ اگر کوئی شخص اپنا تہائی مال فقراء کے لئے وصیت کرجائے تو اس مسئلے میں امام ابو یوسف اور امام محمد کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر ایک ہی فقیر کو تہائی مال دے دیا جائے تو وصیت پر عملدرآمد ہوجائے گا جبکہ امام محمد کا قول ہے کہ جب تک دو یا اس سے زائد فقراء کو نہیں دیا جائے گا وصیت پر عملدرآمد نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف نے اس صورت کو زکوٰۃ کی صورت کے مشابہ قرار دیا ہے اور قیاس کے لحاظ سے یہ بہتر ہے۔ کیا زکوٰۃ دوسرے شہروں میں تقسیم ہوچکی ہے ؟ زکوٰۃ کس جگہ ادا کی جائے اس بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب یعنی امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ ہر شہر کی زکوٰۃ اسی شہر کے فقراء میں تقسیم کی جائے گی اور دوسرے شہر کے فقراء کے لئے نہیں بھیجی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی اپنی زکوٰۃ دوسرے شہر میں لے جاکر تقسیم کردیتا ہے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے لیکن اسے مکروہ سمجھا جائے گا۔ علی الرازی نے ابو سلمان سے، اور انہوں نے ابن المبارک سے، انہوں نے امام ابوحنیفہ (رح) سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں اپنے رشتہ داروں کے لئے زکوٰۃ کی رقم بھیج دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابو سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے اس بات کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن ہم نے امام ابوحنیفہ سے ان کا یہ قول نہیں سنا ہے۔ ابو سلیمان مزید کہتے ہیں کہ امام محمد بن الحسن نے اس قول کو لکھ لیا اور ابن المبارک کے واسطے سے امامابو حنیفہ سے اس کی روایت درج کی ہے۔ طحاوی نے ابن ابی عمر سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہمیں ہمارے اصحاب نے محمد بن الحسن سے روایت کی ہے انہوں نے ابو سیلمان سے، انہوں نے عبداللہ بن المبارک سے اور انہوں نے ابوحنیفہ سے کہ کوئی شخص اپنی زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں لے جائے گا البتہ اگر اس کا کوئی رشتہ دار دوسرے شہر میں رہتا ہو تو ہ اسے وہاں لے جاکر دے سکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی اسی جگہ ہوگی جہاں ادا کرنے والا رہتا ہو۔ ایک شخص اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر وہیں ادا کرے گا جہاں وہ ہوں گے اور مال کی زکوٰۃ اسی جگہ ادا کی جائے گی جہاں مال ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ مال کی زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جائے گی الایہ کہ اپنے شہر میں تقسیم کے بعد اس کا کچھ حصہ بچ رہے تو اس صورت میں بچی ہوئی رقم قریب ترین شہر کی طرف منتقل کرسکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر ایک شخص مصر کا ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اس کا مال مصر میں ہو لیکن وہ خود مدینہ میں ہو تو وہ اپنی زکوٰۃ مدینہ میں تقسیم کرے گا اور صدقہ فطر وہیں ادا کرے گا جہاں وہ موجود ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جائے گی الا یہ کہ شہر میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ملے حسن بن صالح نے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف زکوٰۃ کی منتقلی کو مکروہ سمجھا ہے۔ لیث ب سعد کا قول ہے کہ اگر ایک شخص پر زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور وہ کسی اور شہر میں ہو۔ اگر اپنے شہر کی طرف اس کی واپسی جلد ہونے والی ہو تو پھر وہ زکوٰۃ کی ادائیگی کو موخر کردے اور اپنے شہر واپس ہوکر زکوٰۃ ادا کرے۔ اگر اس نے اپنے شہر واپسی سے قبل قیام کی جگہ میں زکوٰۃ ادا کردی تو مجھے امید ہے کہ اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر وہ اپنے شہر سے طویل عرصے کے لئے چلا گیا ہو تو جس جگہ اس نے قیام کا ارادہ کرلیا ہو اپنی زکوٰۃ اسی جگہ نکالے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر ایک شخص اپنی زکوٰۃ دوسرے شہر میں لے جائے تو میرے سامنے یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ آیا اس پر اعادہ لازم ہوگا۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری (انما الم صدقات للفقرآء والمساکین) اس امر کے جواز کا مقتضی ہے کہ جس شہر میں زکوٰۃ دینے والے کا مال ہو وہ اس کے علاوہ دوسرے شہر میں بھی زکوٰۃ کی رقم فقراء و مساکین کو دے سکتا ہے۔ نیز جس جگہ بھی چاہے جاکر زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ جس جگہ بھی زکوٰۃ ادا کرے گا اس کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ ہمیں اصول شریعت میں ایسا کوئی صدقہ نظر نہیں آیا جو کسی خاص جگہ کے ساتھ اس طرح مخصوص ہو کہ پھر کسی اور جگہ اس کی ادائیگی جائز نہ ہوتی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قسموں اور نذروں کے کفارات نیز دوسرے تمام صدقات کی ادائیگی کا جواز کسی ایک جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ طائوس سے مروی ہے کہ حضرت معاذ (رض) نے اہل یمن سے کہا تھا کہ میرے پا کپڑے اور نیزے لے آئو میں تم سے صدقہ میں مکئی اور جو جگہ یہ چیزیں قبول کرلوں گا۔ تمہارے لئے ان کی ادائیگی آسان ہے اور مدینہ کے مہاجرین و انصار کے لئے یہ زیادہ کارآمد ہیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت معاذ (رض) صدقات کو یمن سے مدینہ منورہ منتقل کردیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل یمن کی بہ نسبت اہل مدینہ کو ان چیزوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ حضرت عدی (رض) بن حاتم نے روایت کی ہے کہ انہوں نے بنی طے کے صدقات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچائے تھے حالانکہ بنی طے کا علاقہ مدینہ منورہ سے بہت فاصلے پر ہے۔ نیز حضرت عدی بن حاتم اور زبر قان بن بدر نے اپنے اپن قبیلے کے صدات حضر ابوبکر (رض) کے پاس پہنچائے تھے اول الذکر بنی طی کے علاقے سے اور موخر الذکر نے بنی تمیم کے علاقے سے، حضرت ابوبکر (رض) نے ان صدقات سے مرتدین کے خلاف جنگی کارروائیوں کے سلسلے میں بڑا کام لیا تھا۔ ہمارے اصحاب نے صدقات کو اپنے شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کو اس صورت میں مکروہ سمجھا ہے جب دونوں شہر کے ضرورت مندوں کی ضرورتیں یکساں ہوں۔ ان کی دلیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی وہ حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف روانہ کیا تو انہیں یہ ہدایات دیں : ” اہل یمن کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ان پر ایک حق فرض کیا ہے۔ یہ حق ان کے مال داروں سے وصول کیا جائے گا اور ان کے فقراء میں تقسیم کردیا جائے گا۔ “ یہ روایات اس امر کی مقتضی ہے کہ جن لوگوں سے زکوٰۃ وصول کی جائے اسے ان کے درمیان موجود فقراء میں تقسیم کردیا جائے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر زکوٰۃ دینے والے کا کوئی غریب رشتہ دار کسی اور شہر میں رہتا ہو تو وہ اپنے شہر سے اس کے پاس زکوٰۃ کی رقم بھیج سکتا ہے۔ اما ابوحنیفہ کا یہ قول اس حدیث کی بنا پر ہے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی۔ انہیں علی بن محمد نے، انہیں ابو سلمہ نے، انہیں حماد بن سلمہ نے ایوب اور ہشام نیز حبیب سے، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے سلیمان (رض) بن عامر سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (صدقۃ الرجل علی قرابتہ صدقۃ وصلۃ، انسان کا اپنے رشتہ داروں پر صدقہ ادا کردینا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں موسیٰ بنی زکریا نے، انہیں احمد بن منصور نے، انہیں عثمان بن صالح نے، انہیں ابن لہیعہ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے، انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدقہ کے متعلق دریافت کیا تھا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا (ان الصدقۃ علی ذی القرابۃ تضاعف مرتین، رشتہ دار کو صدقہ دینے کا اجر دوگنا ہوتا ہے) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار یا تھا کہ آیا وہ اپنا صقہ اپنے شوہر اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے سکتی ہیں جو ان کی پرورش میں تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا تھا (لک اجران اجر الصدقۃ واجر القرابۃ۔ تمہیں دو اجر ملیں گے ایک تو صدقے کا اجر اور دوسرا قرابتداری کا اجر) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں علی بن الحسین بن یزید الصدائی نے، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن نمیر نے حجاج سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے ایوب بن بشیر سے، انہوں نے حکیم (رض) بن حزام سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! کونسا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (علی ذی الرحم الکاشح) دشمنی رکھنے والے رشتہ دار کو دیا جانے والا صدقہ) ان روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ محرم رشتہ داروں کو صدقہ دینا خواہ اس کے قیام کی جگہ کتنی دور کیوں نہ ہو، اجنبی اور غیر رشتہ کو دینے سے افضل ہے۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر رشتہ دار کو دینا مقصود ہو تو پھر اپنے شہر سے دوسرے شہر کی طرف منتقل کردینا جائز ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی اسی جگہ ہوگی جہاں صدقہ دینے والا موجود ہوگا اور غلاموں اور نابالغ اولاد کی طرف سے ادائیگی اس جگہ ہوگی جہاں وہ ہوں گے اس لئے کہ صدقہ فطر ان کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔ اس لئے جس طرح مال کی زکوٰۃ اسی جگہ ادا کی جاتی ہے جس جگہ مال ہوتا ہے۔ اسی طرح صدقہ فطر وہیں ادا کیا جائے گا جہاں وہ افراد ہوں گے جن کی طرف سے یہ ادا کیا جارہا ہے۔ زکوٰۃ کی اس مقدار کا بیان جو ایک مسکین کو دی جائے امام ابوحنیفہ ایک مسکین کو دو سو درہم زکوٰۃ میں دے دینا مکروہ سمجھتے تھے لیکن ان کا یہ بھی قول ہے کہ اگر تم نے کسی کو زکوٰۃ کی یہ رقم دے دی تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ البتہ دو سو سے کم رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اگر اتنی رقم دے دی جائے جسے پاکر ایک انسان اپنی ضروریات پوری کرے اور سوال سے مستغنی ہوجائے تو یہ بات میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔ ہشام نے امام ابو یوسف سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس ایک سو ننانوے درہم ہوں پھر اسے کسی نے دو درہم زکوٰۃ کے طور پردے دیئے تو اسے چاہیے کہ صرف ایک درہم قبول کرے اور ایک درہم واپس کردے۔ اس طرح امام ابو یوسف نے ایک شخص کے لئے زکوٰۃ کی اتنی رقم قبول کرلینے کی اجازت دے دی جس کے ساتھ دو سو درہم پورے ہوجائیں۔ انہوں نے اس سے زائد رقم قبول کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اس معاملے کا دارو مدار اپنی سمجھ بوجھ اور رائے پر ہے۔ اس میں شریعت کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں ہے۔ اس بارے میں ابن شرمہ کا قول امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایک شخص کو زکوٰۃ کی رقم سے پچاس درہم سے زائد نہیں دیئے جائیں گے الا یہ کہ وہ مقروض ہو اس صورت میں اسے اس سے زائد رقم بھی دی جاسکتی ہے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اسے اتنی رقم دی جائے گی کہ عیالدار ہونے کی صورت میں وہ اپنے لئے کوئی غلام خرید سکے۔ بشرطیکہ زکوٰۃ کی مقدار بہت زیادہ ہو۔ امام شافعی نے اس کی کوئی حد بندی نہیں کی ہے۔ ان کے نزدیک زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دینی چاہیے جس کے ذریعے اس کی ضروریات پوری ہوجائیں۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) میں اس مقدار کی تجدید نہیں ہے جو مستحقین زکوٰۃ میں سے ہر ایک کو دی جائے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ مستحقین کی تعداد کے مطابق فی کس کے حساب سے زکوٰۃ ان میں بانٹ دی جائے اس لئے کہ ایسا کرنا مشکل بلکہ ممتنع ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس سے مستحقین میں سے بعض کو دینا مراد ہے خواہ بعض کی کوئی بھی صورت ہوجائے۔ بعض کی کم سے کم مقدار ایک کا عدد ہے۔ دوسری طرف ہمیں یہ معلوم ہے کہ اموال کے مالکان میں سے ہر ایک شخص کو آیت میں مخاطب بنایا گیا ہے۔ جو اس بات کا مقتضی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لئے اپنی ساری زکوٰۃ ایک فقیر کو دے دینا جائز ہے خواہ زکوٰۃ کی رقم تھوڑی ہو یا زیادہ۔ اس لئے ظاہر آیت کی بنا پر زکوٰۃ کی بڑی رقم صرف ایک فقیر ک دے دینے کا جواز پیدا ہوگیا اس میں تعداد کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ نیز چونکہ فقیر کو زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنا اور اس کا اسے مالک بنادینا ان دونوں کا وقوع اس وقت ہوتا ہے جب وہ ابھی فقیر ہوتا ہے اس لئے قلیل اور کثیر رقم حوالے کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا اس لئے کہ دونوں حالتوں میں فقیر کو اس رقم کی ملکیت حاصل ہوجاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو زکوٰۃ میں دو سو درہم کی رقم دینے کو اس بنا پر مکروہ سمجھا ہے کہ یہ رقم زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مکمل نصاب ہے۔ اس بنا پر لینے والا شخص زکوٰۃ کی ملکیت مکمل ہوتے ہی غنی بن جائے گا۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی رقمیں فقراء کو دینے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کو اپنی ملکیت میں لیں۔ زیر بحث صورت میں ایک فقیر کو جب زکوٰۃ کی رقم سے فائدہ اٹھانے کی قدرت حاصل ہوجائے گی تو اس وقت وہ فقیر نہیں ہوگا بلکہ غنی ہوچکا ہوگا اور یہ بات آیت کی منشا کے خلاف ہے اس لئے امام ابوحنیفہ نے فقیر کو ایک مکمل نصاب کی مقدار زکوٰۃ کی رقم حوالے کرنے کو مکروہ سمجھا ہے۔ لیکن جب اسے نصاب سے کم مقدار دی جائے گی تو وہ اس کا جب مالک ہوگا اور اس سے فائدہ اٹھائے گا اس وقت وہ فقیرہوگا۔ اس بنا پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ صورت مکروہ نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ جب وہ صاحب نصاب نہ ہونے کی بنا پر غنی نہیں بنے گا تو اسے زکوٰۃ کی تھوڑی رقم یا زیادہ رقم دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دونوں صورتیں اس کے لئے یکساں ہوں گی۔ پس نملیک واقع ہونے اور زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانے پر قدرت حاصل ہونے کے وقت اس شخص کے صاحب نصاب ہونے کا اعتبار ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول کہ ” زکوٰۃ کی رقم کے ذریعے کسی کو غنی بنادینا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ “ اس سے ان کی مراد وہ دولتمندی نہیں ہے جس کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ فقیر کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دے دی جائے کہ وہ دست سوال دراز کرنے سے مستغنی ہوجائے اور اس کی جائز ضروریات پوری ہوجائیں نیز اس کا چہرہ سوال کرنے کی ذلت سے بچ جائے۔ لاعلمی میں غیر مستحق کو زکوٰۃ دینا جائز ہے اگر کسی شخص کو اس کی ظاہری حالت سے فقیر سمجھتے ہوئے زکوٰۃ کی رقم دے دی جائے اور پتہ چل کہ وہ غنی تھا تو آیا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں ؟ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام محمد کا قول ہے کہ زکوٰ ۃ ادا ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر کسی نے لاعلمی میں اپنے بٹے یا ذمی کو زکوٰۃ دے دی پھر اسے اس کا علم ہوگیا تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ نے یہ مسلک اس حدیث کی بنا پر اختیار کیا ہے جس کے روی معن بن یزید ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد نے رات کے وقت لاعلمی میں زکوٰۃ کی رقم مجھے دے دی۔ جب صبح ہوئی اور اصل صورت حال کا پتہ چلا تو میرے والد نے کہا کہ میں نے تو تمہیں یہ رقم دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ پھر دونوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے اور سارا واقعہ آپ سے بیان کیا۔ آپ نے حضرت یزید سے فرمایا (لک مانویت یا یزید، یزید ! تم نے جس چیز کا ارادہ کیا تھا اس کا ثواب تمہیں مل جائے گا) اور حضرت سے فرمایا (لک مااخذت، تم نے جو لے لیا وہ تمہارا ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باپ سے یہ نہیں پوچھا کہ آیا انہوں نے زکوٰۃ کی نیت کی تھی یا کسی اور صدقہ کی ، بلکہ ان سے یہ فرمایا (لک مانویت) یہ بات دیئے ہوئے مال کے جواز پر دلالت کرتی ہے خواہ انہوں نے زکوٰۃ کی نیت ہی کیوں نہ کی ہو۔ نیز ایسے لوگوں کو صدقہ دینا ضرورت کی حالت کے بغیر ایک صورت کے اندر صدقے کی درست شکل ہوتی ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ انہیں نفلی صدقہ دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کی مشابہت کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرنے کے ساتھ ہوگئی جبکہ ایک شخص درست طریقے سے سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد ایک سمت کو کعبے کی سمت سمجھ کر نمازادا کرلے، نماز پڑھ لینے کے بعد اسے پتہ چل جائے کہ اس کا رخ کعبے کی طرف نہیں تھا تو اس صورت میں اس کی نمز ادا ہوجائے گی کیونکہ کعبہ کی سمت کے بغیر کسی اور جہت کی طرف رخ کرکے ایک صورت میں نماز ضرورت کی حالت کے بغیر بھی درست ہوجاتی ہے۔ یہ صورت وہ ہے جب انسان سواری پر نفل نماز ادا کررہا ہو۔ اس صورت میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ جس طرف سواری کے جانور کا رخ ہو اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا چلا جائے۔ اس طرح اپنے اجتہاد سے کام لے کر کسی کو زکوٰۃ کی رقم دے دینا اپنی رائے اور سمجھ کے مطابق کعبہ کی سمت منہ کرکے نماز پڑھنے کے مشابہ ہوگیا۔ ایک اعتراض کا جواب اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ زیر بحث مسئلہ، زکوٰۃ اس شخص کی صورت حال کے مشابہ ہے جس نے ایسے پانی سے وضو کرلیا جسے وہ پاک سمجھ رہا تھا بعد میں اسے پتہ کہ یہ پانی ناپاک تھا، اس صورت میں اس کی نماز درست نہیں ہوگی اس لئے کہ پانی کی ناپاکی کا علم ہوجانے کے بعد وہ اپنے اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ جاتا ہے جس کی بنا پر اس کا اجتہاد باطل ہوجاتا ہے اور نماز کا اعادہ لازم ہوجاتا ہے اسی طرح اپنے بیٹے یا ذمی کو یا کسی مال دار کو زکوٰۃ کی رقم دینے والا علم ہوجانے کے بعد اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ جاتا ہے جس کی بنا پر اس کا اجتہاد باطل ہوجاتا ہے۔ اور اس کا زکوٰۃ کا اعادہع واجب ہوجاتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے، اس لئے کہ ناپاک پانی سے وضو کسی حالت میں بھی طہارت نہیں کہلاتا۔ اس لئے اس کے جواز میں اجتہاد کا کوئی اثر نہیں ہوگا جبکہ کئی حالتوں میں ترک قبلہ جائز ہوتا ہے اس لئے ہمارا زیر بحث مسئلہ ہمارے ذکر کردہ مسئلہ کے ساتھ زیادہ مشابہ ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ نماز ایک حالت کے اندر ناپاک کپڑوں میں بھی ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر ایک شخص ایک کپڑے کی طہارت کے متعلق اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لیتے ہوئے اس میں نماز ادا کرے اور بعد میں اسے پتہ چلے کہ کپڑا ناپاک تھا تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ اور اس پر اعادہ واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح ناپاک کپڑے میں ایک حالت کے اندر نماز کا جواز اجتہاد رائے کی بنا پر نماز کے جواز کا موجب نہیں بنا جب نجاست کے متعلق علم ہونے کی وجہ سے وہ اجتہاد کی حد سے نکل کر یقین کی حد کو پہنچ گیا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دراصل معترض کی نظروں سے ہماری تعلیل اوجھل ہے۔ اس لئے کہ ہم نے یہ کہا ہے کہ ضرورت کے بغیر بھی ترک قبلہ جائز ہے جس طرح ضرورت کے بغیر نفلی صدقہ اپنے بیٹے یا ذمی یا غنی کو دے دینا جائز ہے، اس جہت سے یہ دونوں باتیں یکساں ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سواری پر بیٹھے ہوئے انسان کو نفل نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی جس طرح نفلی صدقہ دینے والے کو مذکورہ بالا لوگوں کو صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب یہ دونوں باتیں اس جہت سے یکساں ہیں تو حکم کے اندر یہ ایک دوسری کے مشابہ ہوجائیں گی۔ رہ گئی ناپاک کپڑے میں نماز کی ادائیگی تو وہ صرف ضرورت کی حالت میں جائز ہوتی ہے۔ کسی اور حالت میں جائز نہیں ہوتی اور اس میں نفل پڑھنے والے اور فرض پڑھنے والے کا حکم یکساں ہوتا ہے اس لئے معترض کی بیان کردہ یہ صورت زیر بحث صورت سے مختلف ہوگئی۔ ایک صنف کو صدقات حوالے کردینے کا بیان قول باری ہے (انما الصدقات للفقرآء والمساکین) تا آخر آیت، ابودائود الطیاسی نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں اشعث بن سعید نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت عباس (رض) اور حضرت علی (رض) سے کہ اگر ایک شخص آیت میں مذکورہ آٹھ اصناف میں سے صرف ایک صنف کو اپنی زکوٰۃ دے دے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت حذیفہ (رض) ، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور ابو العالیہ سے اسی طرح کی روایت ہے۔ صحابہ کرام سے اس کے خلاف کوئی روایت نہیں ہے۔ اس طرح گویا اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہوگیا جس کے بعد کسی کو بھی اس سے اختلاف کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اس لئے کہ اجماع کے بعد اس مسئلے کی پوری طرح وضاحت ہوگئی، سلف سے اس کی بکثرت روایت ہوئی اور سلف کے ہم پایہ حضرات سے اس کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہوئی۔ سفیان ثوری نے ابراہیم بن میسرہ سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت معاذ (رض) بن جبل سے روایت کی ہے کہ وہ اہل ایمان سے زکوٰۃ میں عروض یعنی چیزیں لیا کرتے اور ایک ہی صنف میں انہیں تقسیم کردیتے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر اور امام مالک بن انس کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ زکوٰۃ آیت میں مذکورہ آٹھوں اصناف کے درمیان تقسیم کی جائے گی، البتہ اگر ایک صنف نہ ملے تو باقی اصناف میں تقسیم کردی جائے گی۔ اس کے سوا اور کسی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی جائز نہیں ہوگی۔ امام شافعی کا یہ قول سلف کے ان حضرات کے قول کے خلاف ہے جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ نیز آثار و سنن اور ظاہر کتاب اللہ کے بھی خلاف ہے۔ ارشاد باری ہے (ان تبدو الصدقات فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقرآء فھو خیرلکم، اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجتمندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے) اس میں صدقات کی تمام صورتوں کے لئے عموم ہے اس لئے کہ صدقات کے لفظ پر الف لام کے دخول کی وجہ سے یہ اسم جنس بن گیا ۔ اس بنا پر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ آیت صدقات میں مذکورہ اصناف میں سے صرف ایک صفت یعنی فقراء کو تمام صدقات دے دیئے جائیں ۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ آیت صدقات میں اصناف کے ذکر سے اللہ کی مراد اسباب فقر کا بیان ہے ۔ یہ مراد نہیں ہے کہ صدقات کی تقسیم ان اصناف پر کردی جائے ۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے وفی امولھم حق معلوم للسائل والمحرم ان کے اموال میں سائل اور محروم کے لیے متعین حق ہے یہ آیت صف ان دو اصناف کو صدقات حوالے کردینے کے جواز کی مقتضی ہے اور یہ چیز آٹھواں اصناف پر صدقات کی تقسیم کے جوب کی نفی کرتی ہے، نیزقول باری انما الصدقات للفقراء میں تمام صدقات کے لیے نیز ہر زمانے میں حاصل ہونے والے صدقات کے لیے عموم ہے اور قول باری للفقراء تا آخر آیت میں بھی مذکورہ لوگوں میں سے اس وقت موجود اور بعد میں آنے والوں کے لیے عموم ہے۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدقہ کی صورت میں حاصل ہونے والی تمام چیزوں کی ، اب وقت موجودلوگوں اور بعد میں پیدا ہونے والوں کے درمیان تقسیم مراد نہیں ہے اس لیے کہ قیامت تک اس تقسیم کا امکان محال ہے ۔ اس لیے یہ بات واجب ہوگئی کہ اگر ایک سال ایک صنف کو ، دوسرے سال کسی اور صنف کو ، اسی سال ہر سال کسی ایک صنف کو امام المسلمین اپنی صوابدید کے مطابق صدقات دے دے تو زکوٰۃ کی ادائیگی ہوجائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک سال کے صدقات یا ایک شخص کا صدقہ آٹھواں اصناف پر تقسیم نہیں ہوگا ، نیز اس امر میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ فقراء ان صدقات کے مشترکہ طور پر مستحق نہیں ہوتے۔ ایک شخص کے لیے جائز ہے کہ وہ ان میں سے کچھ کو دے دے اور کچھ کو محروم رکھے اس سے یہ ثابت ثابت ہوگئی کہ صدقات کو آیت مذکورہ اصناف میں سے بعض کے اندر صرف کرنا مقصود ہوتا ہے اس لیے مذکورہ اصناف میں سے بعض کو دینے کا جواز ضروری اور واجب ہوگیا جس طرح فقراء میں سے بعض کو دیناجائز ہے۔ ا س لیے کہ اگر صدقات میں تمام حق ہوتا تو اس صورت میں بعض کو دے دینا اور بعض کو محروم رکھنا جائز نہ ہوتا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ حضرت سلمہ بن صخر نے جب اپنی بیوی سے ظہار کرلیا اور کفارہ کے طور پر مساکین کو کھلانے کے لیے کوئی بندوبست نہ ہوسکا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بنی زریق سے صدقات وصول کرنے والے کے پاس جانے کے لیے کہا تا کہ ان سے صدقات کی رقم لے کر کفارہ میں مساکین کے طعام کا انتظام کرسکیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی زریق کے صدقات کو حضر ت سلمہ (رض) کے حوالے کردینے کی اجازت دے دی حالانکہ یہ صرف ایک ہی صنف تھے۔ اسی طرح عبید اللہ بن عدی بن الخیار کی روایت میں ذکر ہے کہ دو آدمیوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صدقہ مانگا آپ نے انہیں تندرست و توانا اور مضبوط جسموں والے پا کر فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں ۔ آپ نے ان دونوں سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا کس صنف سے تعلق ہے تا کہ ان دونوں کا اسی صنف سے شمار ہوجاتا۔ صدقات کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول دلالت کرتا ہے امرت ن اخذ الصدقۃ میں اغیب کم واردھا فی فقراء کم مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے دولت مندوں سے صدقات وصول کر کے تمہارے فقراء کی طرف لوٹا دوں ۔ آپ ؐ نے حضرت معاذ (رض) کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں یہ ہدایت دی تھی ۔ اہل یمن کو یہ بتلا دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اموال میں ایک حق فرض کردیا ہے یہ حق ان کے دولت مندوں سے وصول کیا جائے گا اور ان کے فقراء کی طرف لوٹا دیا جائے گا ۔ آپ نے بتادیا کہ جس سبب کی بنیاد پر تمام اصناف صدقات کے مستحق ہوتے ہیں وہ فقر اور تنگ دستی ہے اس لیے کہ یہ سبب تمام صدقات کو عام ہے۔ پھر آپ نے یہ خبر دی کہ صدقات کو فقراء پر صرف کیا جائے گا یہ لفظ اور اس کے ضمن میں موجود دلالت دونوں اس امر پر دال ہیں کہ جس سبب کی بنیاد پر صدقات کا استحقاق ہوتا ہے وہ فقر ہے ، نیز یہ کہ اس کا عموم تمام صدقات کو فقراء میں تقسیم کردینے کے جواز کا مقتضی ہے یہاں تک کہ فقراء کے سوا کسی اور کو کچھ نہ دیا جائے بلکہ حدیث کا ظاہر لفظ اس کے ایجاب کا مقتضی ہے اس لیے کہ آپ نے فرمایا ہے امرت مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ صدقات وصول کرنے والا ان کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس میں فقر کا سبب نہیں پایا جاتا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ عاملین صدقات جو رقمیں لیتے ہیں وہ صدقہ کے طور پر نہیں لیتے۔ بلکہ صدقات کی وصولی فقراء کے لیے ہوتی ہے پھر وصولی کا کام کرنے والا یعنی عامل ان صدقات میں سے اپنے عمل اور کام کا معاوضہ وصول کرتا ہے ، صدقہ وصول نہیں کرتا ۔ جس طرح کسی فقیر کو کوئی رقم بطور صدقہ دے دی جائے اور وہ فقیر کسی سے اپنا کام کرائے اور یہی رقم اسے مزدوری اور معاوضہ میں دے دے یا جس طرح بریرہ (رض) کو بطور صدقہ کوئی چیز دی جاتی اور وہ اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیج دیتیں۔ اس طرح وہ چیز بریزہ (رض) کے لیے صدقہ ہوتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہدیہ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مؤلفہ القلوب صدقات کی رقمیں صدقہ کے طور پر لیتے تھے حالانکہ ان کے اندر آپ کا مذکورہ بالا سبب یعنی فقر نہیں پایا جاتا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مؤلفۃ القلوب صدقہ کے طور پر رقمیں اور اجناس نہیں لیتے تھے بلکہ صدقات فقراء کے لیے جمع کیے جاتے اور ان کا ایک حصہ مولفۃ القلوب کو دے دیا جاتا تاکہ فقراء مسلمین کو ان کی ایذا رسانی سے بچایا جاسکے اور تا کہ یہ مسلمان ہوکر مسلمانوں کے لیے طاقت و قوت کا ذریعہ بن سکیں ۔ اس طرح مؤلفۃ القلوب صدقات کی رقمیں اور اجناس وغیرہ صدقہ کے طور پر نہیں لیتے تھے، بلکہ صدقات کی وصولی کے بعد انہیں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کیا جاتا اس لیے کہ فقراء کے مال کا کچھ حصہ ان کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگا دینا جائز ہے۔ اس لیے کہ امام المسلمین ان سب کا ولی ہوتا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ان کے ہاں میں تصرف کرتا ہے۔ آیت صدقات میں اصناف کا ذکر صرف فقر کے اسباب کے بیان کی خاطرہوا ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مقروض اور ابن السبیل یعنی مسافر اور غازی حاجت مندی اور فقر کی بنا پر ان صدقات کے مستحق ہوتے ہیں ، ان دو اسباب کے سوا ان کے استحقاق کا اور کوئی سبب نہیں ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس سبب کی بنا پر مذکورہ اصناف صدقات کے مستحق قرار پاتے ہیں ہ فقر اور حاجت مندی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ عبد الرحمن بن زیاد بن نعم نے زیاد بن نعیم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے زیاد بن الحارث الصدائی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی قوم پر مامور کیا ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے انکے صدقات میں سے کچھ حصہ دیجئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری استدعا قبول کرتے ہوئے اس سلسلے میں ایک تحریر بھی عطا کی ۔ ایک اور شخص آپ کے پاس آیا اور آپ سے صدقے کی درخواست کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : اللہ تعالیٰ کسی نبی یا غیر نبی کے فیصلے پر راضی نہیں ہوا بلکہ صدقات کے بارے میں آسمان سے خود فیصلہ نازل فرمایا اور صدقات کی آٹھ مدین قائم کردیں ، اگر تم بھی ان میں سے کسی مد کے تحت آتے ہو تو میں تمہیں بھی دے دوں گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث ہمارے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لیے کہ آپ نے فرمایا تھا اگر تم بھی ان میں سے کسی مد کے تحت آتے ہو تو میں تمہیں بھی دے دوں گا ۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدقات پر صرف ان لوگوں کا استحقاق ہوتا ہے جو ان مدات کے تحت آتے ہیں ۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے زیاد بن الحارث الصدائی کے لیے اس کی قوم سے وصول ہونے والے صدقہ کا کچھ حصہ لکھ دیا اور آپ نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ ان کا تعلق کس صنف سے ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صدقات کی آٹھ مدیں مقرر کی ہیں ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تا کہ امام المسلمین اگر مناسب سمجھے تو صدقات کی تمام رقمیں ان میں سے کسی ایک مد میں لگا دے لیکن ان مدات سے باہر کوئی خرچ نہ کرے۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے صدقہ کا استحقاق یا تو نام کی بنا پر ہوتا ہے یا حاجت مند کی بنا پر یا دونوں کی بنا پر اب یہ کہنا تو غلط اور فاسد ہے کہ اس کا استحقا ق صرف اس اسم کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اس کی دو وجہیں ہیں ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس سے پھر ہر مقروض اور ہر مسافر کو صدقہ لینے کا حق ہوجائے گا خواہ وہ مال دار کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ یہ بات سرے سے غلط ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پھر یہ ضروری ہوجاتا کہ جس شخص کے اندر فقر اور مسافرت دونوں کا اجتماع ہوجاتا وہ دو حصوں کا مستحق ہوجاتا ، حالانکہ یہ بات بھی غلط ہے جب ان دونوں وجوہ کا بطلان ہوگیا تو اس سے تیسری بات درست ہوگئی وہ یہ کہ صدقہ کا استحقاق حاجت مندی اور فقر کی بناپر ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری انما الصدقات للفقراء والمساکین تا آخر آیت ، اشتراک کا مقتضی ہے اس لیے کسی ایک صنف کو خارج کرنا جائز نہیں ہوگا جس طرح کوئی شخص اپنے تہائی مال کی زید ، عمرو اور بکر کے نام وصیت کر جائے تو اب ان تینوں میں کسی ایک کو محروم رکھنا جائز نہیں ہوگا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تمام صدقات میں لفظ مقتضی یہی ہے اور ہم بھی اس کے قائل ہیں ۔ اس لیے امام ایک سال کا صدقہ ایک صنف کو دے دے اور دوسرے سال کا صدقہ دوسری کو ، جس طرح اس کی صوابدید ہو اور جس میں اسے مصلحت نظرآئے اسی کے مطابق وہ اقدام کرے۔ ہمارے اور معترضین یعنی شوافع کے درمیان اختلاف جس نکتے پر ہے وہ ایک صدقہ کے متعلق ہے کہ آیا تمام اصناف اس ایک صدقہ کے مستحق ہوں گے۔ آیت میں ایک صدقہ کا حکم بیان نہیں ہوا بلکہ اس میں صدقات کا حکم بیان ہوا ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق تمام صدقات کی اس طرح تقسیم کرلیں جس طرح اوپر بیان ہوا تو ہم آیت کے مقتضی سے عہد ہ برآ ہوجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ جن آیات و آثار نیز اقوال سلف کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے۔ ان سب پر عمل ہوجائے گا ۔ یہ بات ایک صدقہ کی آٹھ اصناف پر تقسیم کو واجب کرنے ، نیز دوسری آیات و سنن کے احکام کو ٹھکرا دینے سے بہتر اور اولیٰ ہے۔ اس مفہوم کی بنیاد پر صدقات کا مسئلہ تہائی مال کی وصیت کے مسئلے جدا ہوگیا ۔ اس لیے کہ وصیت متعین اشخاص کے لیے ہوتی ہے نیز ان کی تعدا د بھی محدود ہوتی ہے دوسری طرف ایک متعین مال میں تہائی بھی متعین ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ جن متعین لوگوں کے لیے وصیت کی گئی ہے وہ مشترکہ طور پر اس وصیت کے مستحق قرار پائیں ۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ صدقات کا استحقاق تمام مستحقین کے لیے مشترکہ طور پر نہیں ہوتا کیونکہ تمام حضرات متفقہ طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ اگر صدقات بعض فقراء کو دے دیے جائیں اور بعض کو ان سے محروم رکھا جائے تو یہ جائز ہے جبکہ اس کے برعکس جن لوگوں کے لیے وصیت کی گئی ہو ان میں سے کسی ایک کو بھی وصیت سے خارج کردینا جائز نہیں ہے ۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ صدقات میں بعض کو بعض سے زائد دے دینا جائز ہے لیکن یہ بات وصیت مطلقہ کی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اسی طرح بعض اصناف کو محروم رکھنا بھی جائز ہے جس طرح بعض فقراء کو محروم رکھناجائز ہے ، اس جہت سے صدقات کا مسئلہ تہائی مال کی وصیت کے مسئلہ سے جدا ہوگیا ۔ ایک اور پہلو سے اسے دیکھے ، صدقہ اللہ کا حق ہے کسی آدمی کا حق نہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی ذات کے لیے اس کے استحقاق کا مطالبہ نہیں کرسکتا ، اس بنا پر صدقہ دینے والا جس صنف میں اس صدقے کو صرف کر دے گا وہ اسے درست مصرف میں خرچ کرنے والا قرار پائے گا ۔ اس کے برعکس متعین اشخاص کے لیے کی جانے والی وصیت پر آدمی کا حق ہوتا ہے ، ان متعین آدمیوں کے سوا کوئی دوسرا شخص اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا اس لیے وصیت کے لیے نامزد تمام آدمی اس وصیت کے حق دار قرار پائیں گے اور اس حق کی وہی حیثیت ہوگی جو انسانوں کے دوسرے تمام حقوق کی ہوتی ہے ۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفارہ میں مساکین کو کھانا کھلانا واجب قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ فقراء کو دے دے تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح صدقات کی آیت میں مساکین کے لیے جو حصہ مقرر کیا گیا ہے اسے فقراء کو دے دینا جائز ہے لیکن وصیت کا معاملہ اس کے برعکس ہے اس لیے کہ اگر کوئی شخص زید کے لیے وصیت کرتا ہے تو وہ وصیت عمرو کو نہیں جاسکتی۔ ۔۔۔۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہتان ہے کہ وہ کانوں کے کچے ہیں قول باری ہے ومنھم الذین یوذون النبی ویقولون ھو اذن قل اذن خیر لکم یومن باللہ ویومن للمومنین ورحمۃ للذین امنوا منکم ۔ ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ کہو۔ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہل ایمان اعتماد کرتا ہے اور سراسررحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) ، قتادہ، مجاہد اور ضحاک کا قول ہے کہ منافقین کہتے ہیں کہ آپ کانوں کے کچے ہیں ہر ایک کی بات پر کان دھرتے ہیں ۔ ایک قول کے مطابق اس کی اصل اذن یاذن ہے جس کے معنی ہیں میں نے سنا شاعرہ کا قول ہے۔ فی سماع یاذن الشیخ لہ وحدیث مثل ماذی مشار سننے کے دوران شیخ کان لگا کر سنتے ہیں اور ایسی گفتگو کے دوران بھی جو اس طرح کی ہو جس کی طرف ابھی اشارہ کیا گیا ہے۔ آیت کا مفہوم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری بھلائی کے لیے تمہاری باتوں پر کا نن دھرتے ہیں ، تمہارے برائی کے لیے وہ ایسا نہیں نہیں کرتے۔ قول باری یومن للمومنین کے متعلق ابن عباس کا قول ہے ۔ نبی اہل ایمان کو سچا سمجھتے ہیں ۔ یہاں حرفف لازم کا دخول اسی طرح ہے جس طرح اس قول باری میں ہے قل عسی ان یکون ردف لکم کہہ دو ، تو تب ہے کہ وہ تمہارے پیچھے ہی آ جانے اس کے معنی ہیں ردفکم ایک قول کے مطابق حرف لازم کا دخول ایمان بمعنی تصدیق اور ایمان بمعنی ایمان کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہوا ہے اس لیے جب یومن للمومنین کہا گیا تو اس سے تصدیق کے سوا اور کوئی معنی سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے قل لا تعتذرولن نومن لکم کہہ دو بہانے مت کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں کریں گے یعنی ہم کبھی تمہیں سچا نہیں سمجھیں گے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے وما انت بمومن من لنا اور تو ہماری بات کی تصدیق نہیں کرے گا ۔ بعض لوگ خبر واحد کو قبول کرلینے پر اس آیت سے استدلال کرتے ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو ان باتوں میں سچا سمجھتے ہیں جنکی وہ آپ کو اطلاع دیتے ہیں ۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ معاملات سے تعلق رکھنے والی خبروں کو قبول کرلیتے تھے اور اس بارے میں اہل ایمان کو سچا سمجھتے تھے ۔ جہاں تک احکام شرع اور دین سے تعلق رکھنے والے معاملات کے بارے میں خبروں کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی کی بات سننے کی قطعا ً ضرورت نہیں تھی اس لیے کہ تمام لوگ دین کے بارے میں باتیں آپ سے ہی اخذ کرتے اور آپ کی ہی پیروی کرتے تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦١) اور ان منافقین میں سے جذام بن خالد، ایاس بن قیس، سماک بن یزید، عبید بن مالک طعن وتشنیع سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور بعض بعض سے کہتے ہیں کہ ہمارے متعلق ہر ایک بات سن لیتے ہیں اور جو بات ہم آپ سے کہتے ہیں اس کی آپ تصدیق کرلیتے ہیں، ہم نے تو آپ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ جو بات تمہارے حق میں بھلی ہو، اسی کو سنتا ہوں اور اسی کی تصدیق کرتا ہوں، جھوٹ بات کی تصدیق نہیں کرتا یا یہ کہ خوش خلقی کی وجہ سے میرا تمہاری باتوں کو سن لینا بھی تمہارے حق میں بہتر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ارشاد خداوندی کی تصدیق کرلیتے ہیں، ہم نے تو آپ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کی ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمادیجیے کہ جو بات تمہارے حق میں بھلی ہو، اسی کو سنتا ہوں اور اسی کی تصدیق کرتا ہوں، جھوٹ بات کی تصدیق نہیں کرتا یا یہ کہ خوش خلقی کی وجہ سے میرا تمہاری باتوں کو سن لینا بھی تمہارے حق میں بہتر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ ارشاد خداوندی کی تصدیق کرتے ہیں، اور مومنین مخلصین کی باتوں کا یقین کرتے ہیں اور ان لوگوں کے حق میں جو تم میں سے ظاہر و باطن کے اعتبار سے مومن ہیں، عذاب سے باعث رحمت ہیں اور جو منافق غزوہ تبوک میں نہیں گئے جیسا کہ جلاس بن سوید، سواک بن عمرو، مخشی بن حمیر اور ان کے ساتھی ان کے لیے دنیا و آخرت میں بڑا درد ناک سزا ہے۔ شان نزول : (آیت) ” ومنہم الذین یؤذون النبی “۔ (الخ) ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبتل بن حارث رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں آکر بیٹھتا اور آپ کے ارشادات سن کر پھر ان فرمانات کو منافقین تک پہنچاتا تھا، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ نبی کو ایذائیں پہنچاتے ہیں۔ (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (وَمِنْہُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَ اُذُنٌ ط) یہ تو نرے کان ہی کان ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں اور ہم جو بھی جھوٹا سچا بہانہ بناتے ہیں اسے مان لیتے ہیں ‘ گویا بالکل ہی بےبصیرت ہیں (معاذ اللہ ! ) وہ ایسی باتیں کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کرتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچاتے تھے۔ (قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّکُمْ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَیُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) یہاں پر یُؤْمِنُ کے ساتھ ب اور ل کے استعمال سے معنی کا واضح فرق ملاحظہ ہو۔ آمَنَ ‘ یُؤْمِنُ ’ ب ‘ کے ساتھ ایمان لانے اور ’ ل ‘ کے ساتھ بات ماننے اور یقین کرلینے کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو مگر یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شرافت ‘ نجابت اور مروت ہے کہ تمہاری جھوٹی باتیں سن کر بھی تمہیں یہ نہیں کہتے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ‘ اور سب کچھ جانتے ہوئے بھی تمہارا پول نہیں کھولتے۔ یہ تمہاری حماقت کی انتہا ہے کہ تم اپنے زعم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکہ دے رہے ہو۔ تم لوگوں کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بصیرت کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ‘ جبکہ ایک بندۂ مؤمن کی بصیرت کی بھی کیفیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘ ازروئے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ( اِتَّقُوْ ا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ ) (١)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :69 منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی سن لیتے تھے اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا کرتے تھے ۔ یہ خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی ۔ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانوں کے کچے ہیں ، جس کا جی چاہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاتا ہے جس طرح چاہتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان بھرتا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات مان لیتے ہیں ۔ اس الزام کا چرچا زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ سچے اہل ایمان ان منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگوؤں کا حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفا و معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :70 جواب میں ایک جامع بات ارشاد ہوئی ہے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ فساد اور شر کی باتیں سننے والا آدمی نہیں ہے بلکہ صرف انہی باتوں پر توجہ کرتا ہے جن میں خیر اور بھلائی ہے اور جن کی طرف التفات کرنا امت کی بہتری اور دین کی مصلحت کے لئے مفید ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کا ایسا ہونا تمہارے ہی لیے بھلائی ہے ۔ اگر وہ ہر ایک کی سن لینے والا اور ضبط و تحمل سے کام لینے والا آدمی نہ ہوتا تو ایمان کے وہ جھوٹے دعوے اور خیر سگالی کی وہ نمائشی باتیں اور راہِ خدا سے بھاگنے کے لیے وہ عذرات لنگ جو تم کیا کرتے ہو انہیں صبر سے سنے کے بجائے تمہاری خبر لے ڈالتا اور تمہارے لیے مدینہ میں جینا دشوار ہو جاتا ۔ پس اس کی یہ صفت تو تمہارے حق میں اچھی ہے نہ کہ بری ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :71 یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر ایک کی بات پر یقین لے آتا ہے ۔ وہ چاہے سنتا سب کی ہو مگر اعتماد صرف انہی لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں ۔ تمہاری جن شرارتوں کی خبریں اس تک پہنچیں اور اس نے ان پر یقین کیا وہ بداخلاق چغلخوروں کی پہنچائی ہوئی نہ تھیں بلکہ صالح اہل ایمان کی پہنچائی ہوئی تھیں اور اسی قابل تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

55: یہ عربی زبان کے ایک محاورے کا لفظی ترجمہ ہے۔ عربی محاورے میں جب کوئی شخص ہر ایک کی بات سن کر اس پر یقین کرلیتا ہو، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ تو ’’ نرا کان ہے‘‘ یا ’’ سراپا کان ہے‘‘۔ یہ ایسا ہی جیسے اردو میں کہا جاتا ہے کہ ’’ وہ کچے کانوں کا ہے‘‘۔ منافقین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ گستاخانہ جملہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بولا تھا، اور مقصد یہ تھا کہ اگر کبھی ہماری سازش آنحضرت صلی اللہ علیہ پر کھل بھی گئی تو ہم باتیں بنا کر آپ کو راضی کرلیں گے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی بات کا یقین کرلیتے ہیں۔ 56: منافقین کے مذکورہ بالا جملے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ سب سے پہلے کان لگا کر جو بات سنتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو درحقیقت تم سب لوگوں کی بھلائی کے لیے نازل ہوتی ہے۔ دوسرے وہ سچے مومنوں کی بات سن کر اس پر واقعی یقین کرلیتے ہیں، کیونکہ ان کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ تیسرے وہ ان منافقوں کی بات بھی سنتے ہیں جو ظاہری طور پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان سے دھوکا کھا جاتے ہیں، بلکہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفقت اور رحمت کا پیکر بنایا ہے، اس کی وجہ سے حتی الامکان وہ ہر ایک سے رحمت کا معاملہ فرماتے ہیں، چنانچہ منافقین کی باتوں کی تردیدی کے بجائے آپ خاموش رہتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦١۔ اس آیت میں بھی منافقون کی یہ فضیحت بیان کی گئی ہے کہ بعضے منافق ایسے جو اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانے میں اور طرح طرح کی طعن تشنیع کی باتیں کرتے ہیں دلی نفاقق کی راہ سے آپ کا نام کان رکھ چھوڑا ہے جس سے ان منافقوں کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان شخص ان منافقوں کی کچھ باتیں آ کر حضرت سے بیان کردیتا ہے وہ اسے سچ جان لیتے ہیں اور جب یہ لوگ آپ کے سامنے حاضر ہو کر قسمیں کھا کر اس کے خلاف بیان کرتے ہیں تو انہیں سچا جانتے ہیں اللہ پاک نے اس کا یہ جواب دیا کہ انہیں تم کان کہتے ہو اور یہ سمجھتے ہو کہ انہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں ہے یہ تو جھوٹے اور سچے کو خوب پہچانتے ہیں مگر تمہاری طرف سے جو تغافل کرتے ہیں یہ محض تمہاری پردہ پوشی کے خیال سے کرتے ہیں یہ بات نہیں ہے کہ سچ اور جھوٹ میں فرق نہیں کرتے ہیں جو لوگ ایماندار ہیں اور ایمان رکھ کر بات کہتے ہیں ان کی باتوں کو قبول کرتے ہیں اور جو منافق ہیں ان کی باتوں کو اگرچہ دل سے نہیں مانتے لیکن یہ اللہ کے رسول اہل نفاق کے حق میں رحمت ہیں کہ زبان سے کچھ کہہ کر منافقوں کا پردہ فاش نہیں ہونے دیتے پھر فرمایا کہ منافق جو ایسی ایسی باتیں کر کے اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے رہتے ہیں انہیں سخت دردناک عذاب پہنچے گا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کی شان نزول میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ بن حارث حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر بیٹھتا تھا اور آپ کی باتیں سن کر منافقوں سے جا کر بیان کردیا کرتا تھا اور اسی نے یہ بات کہی تھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نرے کان ہی کان ہیں اس کہنے سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کانوں کے ایسے کچے ہیں کہ جو کوئی ان سے کچھ کہہ دیتا ہے وہ مان لیتے ہیں اور تصدیق کرلیتے ہیں صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حنین کے غنیمت کے مال کی تقسیم کے وقت جب منافقوں میں ایک شخص معتب بن قشر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ نے یہی فرمایا اللہ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحمت کرے کہ انہوں نے امت کے لوگوں کے ہاتھ سے اس سے زیادہ ایذا اٹھائی ہے شروع آیت میں یہ جو ذکر تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کی طعن تشنیع کی باتیں سن کر یہاں تک درگزر فرماتے تھے کہ منافقوں نے آپ کا نام کان رکھ دیا تھا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول اپنی ایذا کے موقع پر پچھلے انبیاء کی ایذا کا حال یاد کیا کرتے تھے جس سے اپنی ایذا پر درگزر کا کرنا آپ کو ایک معمولی بات معلوم ہوتی تھی صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے نعمان (رض) بن بشیر کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جس دوزخی شخص پر ہلکا عذاب ہوگا وہ یہ ہے کہ اس شخص کے پیروں میں آگ کی جوتیاں پہنادی جاویں گی جس سے اس کا دماغ کھول جاوے گا آخر آیت میں منافقوں کے عذاب کو دردناک جو فرمایا اس حدیث کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب اس دن ہلکے عذاب والوں پر یہ آفت گزرے گی جس کا ذکر حدیث میں ہے تو دردناک عذاب والوں کی آفت کا پھر کیا ٹھکانا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:61) یؤذون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ایذاء (افعال) مصدر۔ ایذا دیتے ہیں دکھ دیتے ہیں۔ اذن۔ اذن۔ کان۔ مجازا اس شخص کو کہتے ہیں جو کان لگا کر سنے اور سن کر مانے کانوں کو کچا۔ ھواذن۔ مبالغہ کا مفہوم پیدا کرنے کے لئے تمام وجود کو جسم کا ایک حصہ کا نام دیدیا گیا ہے۔ گویا کہ وہ اتنا سنتا ہے کہ صرف کان ہی کان ہے۔ جیسے جاسوس کے لئے عین کا لفظ استعمال کرتے ہیں انگریزی میں محاورہ ہے۔ یعنی وہ اس قدر انہماک سے سن رہا تھا گویا اس کے جسم کا ایک ایک حصہ کان کا کام دے رہا ہے اذن خیر لکم۔ اس کی تقدیر یوں بھی ہوسکتی ہے اذن ذی خیر لکم تمہارے ساتھ بھلائی کرنے والے کا کان۔ یا اس کا مطلب یوں بھی ہوسکتا ہے ھو اذن فی الخیر ولیس باذن فی غیر ذلک۔ وہ صرف تمہاری بھلائی کے لئے سنتا ہے کسی اور غررض کے لئے نہیں سنتا۔ یا اس کا یہ مطلب ہے۔ اس کا تمہاری بات سن لینا اور تم سے اعراض کرنا تمہارے لئے ہی اچھا ہے۔ یعنی تمہاری باتوں کو سن لیتا ہے اور پن چھن نہیں کرتا ورنہ تمہاری منافقت آشکارا ہوجائے۔ یؤمن باللہ۔ یعنی (صرف) اللہ کی باتوں پر یقین و ایمان رکھتا ہے۔ یا یؤمن للمؤمنین مومنوں کی باتوں پر اعتبار کرتا ہے (تمہاری باتیں تو محض سن ہی لیتا ہے یہ مت خیال کرو کہ وہ ان کو سچی بھی سمجھتا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ غلاموں کی آزادی حاصل کرنے میں۔ دی جائے۔ 6 ۔ غارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو اپنے مال سے پوراقرض ادا کریں تو فیقر ہوجائیں۔ صرف جہاد اور غزوہ ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مجاہد کی زکوٰۃ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ ( ابو داؤؤد) ابن السبیل ( مسافر) یعنی اگر اثنائے سرف کیسی حادثہ سے اس کا مال تباہ ہوگیا ہو اور گھر سے سفر خرچ منگوانے کی کوئی صورت نہ وہ تو مال زکوٰۃ سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔ زکو ٰۃ کے ان تمام مصارف میں زکوٰۃ صرف کان واجب نہیں ہے بلکہ حسب اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اجا زت دی ہے۔ ( کتاب اللسوالا بی عبید بروایت حضرت معاذ)4 یعنی کان کا کچا ہے۔ ہر ایک کی بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتا ہے ( از کبیر)5 یعنی ہاں ک تمہاری بات اس حد تک صحیح ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ایک کی بات سن لیتے ہیں مگر یہ الزام صحیح نہیں ہے کہ ہر بات سن کر اس پر اعتبار کرلیتے ہیں۔ اعتبار صرف اس بات کا کرتے ہیں جو سچی اور حقیقی ہوتی ہے جھوٹی با کو سن تو لیتے ہیں مگر اس پر صبر اور در گذر سے کام لیتے ہیں۔ یہ چیز تمہارے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ یہ چھوٹی عذروں کی بنا پر یا تو کبھیکے قتل ہوچکے ہوتے۔ یا مدینہ سے باہر نکال دیے گئے ہوتے ( ازکبیر)6 یہاں ایمان والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں چاہے دل سے ایمان دار نہ ہوں۔ ایسے لوگوں کے سامنے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رازک کھولتے نہیں بلکہ اپنی اصلاح کرلینے کا موقع دیتے ہیں، ( فتح القدیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی ہر زہ سرائی کا ایک اور انداز۔ منافقین اپنی سازشوں اور شرارتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑے رکھتے تھے بالخصوص رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر کے بارے میں یا وہ گوئی کرنے کے لیے نئے سے نیا اور اوچھے سے اوچھا انداز اختیار کرتے تاکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بات میں ان کو سرزنش نہ کرسکیں۔ اگر کوئی مسلمان منافقین کی یا وہ گوئی اور خباثتوں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کرتا تو منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استفسار کرنے سے پہلے ہی پروپیگنڈہ شروع کردیتے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاملہ فہمی سے عاری اور کانوں کا کچا ہے ان کے رد عمل میں رب ذوالجلال نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کے لیے فرمایا کہ ان سے فرما دیجیے کہ کان کھول کر سن لو جس رسول کو کانوں کا کچا کہتے ہو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری باتوں اور حرکتوں پر گرفت کرنے پر آئے تو تمہارا جینا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے انھیں اپنے حق میں بہتر سمجھو۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی بردباری اور حکمت عملی کے تحت تمہارے منہ پر تمہیں جھوٹا نہیں کہتا حالانکہ وہ تمہاری حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے اگر وہ کانوں کا کچا اور نافہم ہوتا تو وہ تمہاری جھوٹی قسموں پر یقین کرلیتا اگر وہ تمہاری یا وہ گوئی کے مطابق کانوں کا کچا ہوتا تو تمہاری چاپلوسی کے فریب میں آجاتا وہ تو اپنے اللہ کے فرامین پر پختہ یقین اور مومنوں کی باتوں پر اعتماد کرنے والا ہے جو بات میں سچے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے سراسر رحمت ہے۔ سن لو جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ قَالَ فَقَرَأَہَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارًا قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ ہُمْ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب غلظ تحیرم اسبال الإزار ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا تین اشخاص ایسے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا نہ ان کو قیامت کے دن دیکھے گا نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ نے اس آیت مبارکہ کو تین مرتبہ پڑھا۔ ابوذر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! وہ برباد ہوگئے انہوں نے نقصان اٹھا یا یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تہبند لٹکا کر چلنے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسمیں کھا کر سودا فروخت کرنے والا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے فرامین پر یقین رکھنے والے اور مومنوں کی باتوں پر اعتماد کرنے والے تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) کے لیے اللہ کی رحمت تھے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینے والے لوگوں کی سز ا : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ (الاحزاب : ٥٣) ٢۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینے والے دنیا میں لعنت اور آخرت میں عذاب ذلیل کے مستحق ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) ٣۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں وہ کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرۃ : ١٠٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زکوۃ و صدقات کے اصول وضع کرنے کے بعد ، اور ان کے مصارف کی نشاندہی کے بعد اب سیاق کلام پھر منافقین کے اعمال و افعال کی طرف مڑ جاتا ہے اور یہاں آیت صدقات کو اس لیے لایا گیا کہ جو لوگ تقسیم صدقات کے سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نکتہ چینی کرتے تھے ان کے موقف کی کمزوری واضح ہوجائے۔ وَمِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ النَّبِيَّ وَيَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ: " ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ " یہ رسول اللہ کے بارے میں سوٗ ادب ، ایک صرح گستاخی ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ گستاخی صدقات کے معاملے کے علاوہ ہے۔ یہ دیکھتے تھے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی باتیں کس قدر سلیقے ، شرافت اور سنجیدگی کے ساتھ سنتے ہیں اور یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شریعت کے قانون کے مطابق لوگوں کی ظاہری حالت کے مطابق ان سے معاملہ کرتے تھے۔ لوگوں کی طرف اچھی طرح متوجہ ہوتے تھے اور ان کے ساتھ دل کھول کر بات فرماتے تھے۔ لیکن ان نکتہ چینی کرنے والوں نے حضور کی اس شائستگی کو آپ کی کمزوری سے تعبیر کیا اور اچھائی کو برائی کہہ دیا۔ کہنے لگے کہ حضور کان کے کچے ہیں۔ یعنی ہر کسی کی بات سنتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ کوئی آپ سے جھوٹ کہے ، دھوکہ دے اور چرب لسانی سے کام نکالے اور آپ بات کو سمجھ نہ سکیں۔ وہ یہ باتیں اپنی اس خام خیالی کی وجہ سے کہتے تھے کہ حضور ان کے معاملے کو کسی طرح کھول سکتے ہیں یا یہ کہ حضور ان کے نفاق کو کس ذریعے سے معلوم کرلیں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان منافقین کے اعمال و اقوال کے بارے میں مخلص مومنین آپ کو جو اطلاعات فراہم کرتے تے اور آپ ان پر یقین کرتے تھے تو یہ لوگ اس صورت حال پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ اس آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں اس قسم کی بعض روایات بھی وارد ہیں۔ یہ دونوں امر یہاں اس آیت کا پس منظفر ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں امر منافقین میں موجود تھے۔ قرآن کریم پہلے ان کا قول نقل کرتا ہے : " یقولون ھو اذن " (کہتے ہیں کہ یہ شخص کان کا کچا ہے ہاں یہ درست ہے لیکن کہو تمہارے بھلائی کے لیے ایسا ہے) کیا اس میں تمہاری بھلائی نہیں ہے کہ وہ غور سے وحی سنتا ہے اور پھر تم تک اسے پہنچاتا ہے جس میں تمہاری بھلائی ہے اور تمہاری اصلاح ہے۔ پھر کان کا کچا ہونا تمہارے لیے یوں بھی بہتر ہے کہ تمہاری بات کو غور سے سنتا ہے اور شرافت سے سنتا ہے اور تمہیں یہ تاثر نہیں دیتا کہ تم و منافق ہو۔ یہ اشارہ بھی نہیں دیتا کہ تم دھوکہ دیتے ہو اور تم اس کے جو ریاکارانہ برتاؤ کرتے ہو جانتے ہوئے بھی وہ تمہاری سرزنش نہیں کرتا۔ یومن باللہ (وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے) اور اللہ تعالیٰ اس کو تمہارے بارے میں جو اطلاع دیتا ہے اس پر اسے پور پورا یقین ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں اس کو جو اطلاع دی جاتی ہے ، اس پر بھی اسے یقین ہے) و یومن للمومنین (اور اہل ایمان پر اعتماد کرتا ہے) وہ پورے اطمینان سے ان کی باتوں کو سچ تسلیم کرتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ سچے مسلمان ہیں اور ان کا ایمان اس قدر مضبوط ہے کہ جھوٹ ، ریاکاری اور بہانہ سازی سے انہیں روکتا ہے۔ ورحمۃ للذین امنوا (اور تم میں سے ایماندار لوگوں کے لیے سراسر رحمت ہے) اس لیے کہ اللہ غیور ہے۔ وہ کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ لوگ اس کے رسول کو اذیت دیں حالانکہ وہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچانے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتے ہیں اور مؤمنین کو راضی کرنے کے لیے قسمیں کھاتے ہیں منافقین چونکہ دل سے مؤمن نہیں تھے اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں نازیبا کلمات بھی کہتے رہتے تھے۔ سامنے آتے تو قسمیں کھا کر کہتے کہ ہم مسلمان ہیں۔ آیت بالا ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو پیچھے بد گوئی کرتے تھے جب ان سے کہا جاتا تھا کہ یہ تو تکلیف دینے والی باتیں ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ جائیں گی تو ان کو تکلیف ہوگی تو اس پر ان میں سے بعض لوگوں نے یوں جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہے ان کو راضی کرنا اور سمجھانا آسان ہے وہ تو بس ” کان “ ہیں۔ یعنی جو کہو سن لیتے ہیں اور باور کرلیتے ہیں اگر کوئی ہماری بات پہنچے گی تو ہم دوسری بات کہہ دیں گے۔ اور وہ اس کو سن کر یقین کرلیں گے۔ روح المعانی میں محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ ایک منافق نبتل بن حارت تھا۔ جو بد صورت بھی تھا۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سن کر منافقین کے پاس لے جاتا تھا۔ اس کا مقصد خیر نہیں تھا بلکہ چغل خوری مقصود تھی اور منافقین کو یہ بتانا تھا کہ دیکھو تمہارے بارے میں ایسے ایسے مشورے ہو رہے ہیں جب اس سے کہا گیا کہ ایسا نہ کر تیرے طرز عمل سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوگی تو اس پر اس نے کہا کہ ان کو سمجھانا آسان ہے وہ تو ہر بات سن لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں ان کی شخصیت تو بس کان ہی کان ہے۔ یعنی وہ نہ تکذیب کرتے ہیں نہ غور و فکر کرتے ہیں۔ اول تو آپ کی مجلس کی باتیں بطور چغل خوری کے نقل کرنا اور پھر اوپر سے آپ کے بارے میں یہ کہنا کہ العیاذ باللہ وہ کچھ غور و فکر نہیں کرتے ہر بات سن لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں اور ہر الزام دینا کہ انہیں اونچ نیچ کی کچھ خبر نہیں اس میں کئی طرح سے تکلیف دینا ہے۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا (قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّکُمْ ) وہ خیر کی بات سنتے ہیں اور جس چیز کے سننے میں اور قبول کرنے میں خیر ہے وہ اس پر کان دھرتے ہیں تم نے یہ جو سمجھا ہے کہ ہم جو بھی بات کہیں گے آپ اس پر یقین لے آئیں گے اور ہماری شرارت کا احساس نہ ہوگا۔ یہ تمہاری سفاہت اور حماقت ہے۔ مزید فرمایا (یُؤْمِنُ باللّٰہِ ) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ (وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) اور ایمان والوں کی بات کا یقین کرتے ہیں، جو مخلص مؤمن ہیں وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کی باتوں کو سنتے اور مانتے ہیں ( اور منافقین کے طور طریق سے بیخبر نہیں ہیں) ارے منافقو ! تم جو یہ سمجھتے ہو کہ ہماری ہر بات سن لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں اور آپ کو حقیقت حال کا پتہ نہیں چلتا یہ تمہارا جھوٹا خیال ہے۔ پھر فرمایا (وَ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ) کہ آپ کی ذات گرامی تم میں سے ان لوگوں کے لیے رحمت ہے جو ایمان لائیں۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ) سے منافقین مراد ہیں۔ مومنین مخلصین مراد نہیں اور مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ ظاہر کردیا کہ ہم مومن ہیں ان کی بات سن لیتے ہیں ان کی تصدیق کی وجہ سے نہیں بلکہ بطور شفقت سن لیتے ہیں پھر ان کے بھید نہیں کھولتے اور پردہ دری نہیں کرتے (لہٰذا منافقوں کو اس دھوکہ میں نہیں رہنا چاہئے کہ چونکہ آپ سب کچھ سن لیتے ہیں اس لیے ہم جو چاہیں گے کہہ دیں گے ہماری شرارت کا پتہ نہ چلے گا) پھر فرمایا (وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌاَلِیْمٌ) (جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے) اس میں عذاب دنیوی یا عذاب اخروی کی قید نہیں ہے دونوں جہاں میں عذاب ہونے کی وعید ہے۔ دنیا میں بھی یہ لوگ عذاب میں مبتلا ہوئے دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذلت کے ساتھ نکالے گئے اور آخرت کا جو عذاب ہے وہ تو ہر کافر کے لیے مقرر ہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:“ وَ مِنْھُمُ الَّذِیْنَ الخ ” یہ منافقین کی ایک شرارت کا ذکر ہے کہ وہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بد زبانی اور طعن وتشنیع سے ایذاء دیتے تھے۔ “ ھُوَ اُذُنٌ ” یہ منافقوں کا قول ہے یعنی یہ نبی تو کان ہے جس طرح کان ہر بات سنتا ہے اسی طرح یہ ہر سنی سنائی بات کو مان لیتا ہے۔ “ قُلْ اُذُنُ خَیْرٌ لَّکُمْ ” اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اس کے جواب میں فرما دیں کہ اللہ کا پیغمبر تو صرف سچی باتوں کو مانتا ہے۔ یعنی صرف اللہ اور مؤمنوں کی باتوں کو۔ اور پیغمبر ایمان والوں کے لیے رحمت ہے جو شخص ایمان کا اظہار کرتا ہے وہ اس کا ایمان قبول کرلیتا ہے۔ اور رحمت و شفقت کی وجہ سے اس کے پوشیدہ راز نہیں کھولتا۔ یا مخلص مومنین مراد ہیں اور ان کے لیے آپ کے رحمت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذریعے ان کو کفر سے نجات ملی اور ہدایت کی راہ ہاتھ لگی۔ جس سے ان کو دین و دنیا کی سعادتیں نصیب ہوئیں۔ “ اي وھو رحمة للذین اٰمنوا منکم اي اظھر والایمان ایھا المنافقون حیث یقبل ایمانکم الظاھر ولا یکشف اسرارکم ولا یفعل بکم ما یفعل بالمشرکین او ھو رحمة للمؤمنین حیث استنقذھم من الکفر الی الایمان ویشفع لھم فی الاخرة بایمانھم فی الدنیا ” (مدارک ج 2 ص 102) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

61 اور ان منافقوں میں سے بعضے لوگ وہ ہیں جو نبی کو ایذائیں پہنچاتے اور تکلیف دیتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ یہ شخص تو محض کان ہے اور محض کان رکھتا ہے آپ کہہ دیجئے وہ محض کان رکھتا ہے اور صرف کان رکھتا ہے تو تمہارے بھلے کو وہ نبی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور مخلص مسلمانوں کا یقین کرتا ہے اور تم میں سے جو لوگ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں ان کے ساتھ مہربانی کا برتائو کرتا ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذاء پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ کہتے ہیں بعض منافقین نے آپ کو غائبانہ برا کہادوسرے منافق نے روکا کہ ایسا نہ کہو کبھی کوئی آپ سے جاکر کہہ دے اور وہ ہم پر ناراض ہوں براکہنے والے نے کہا کچھ فکر نہ کرو وہ تو محض کان رکھتا ہے جو ہمارا مخالف کہے گا اس کا یقین کرلے گا ہم جاکر کہیں گے تو ہمارا یقین کرلے گا یعنی اس کو سمجھ نہیں ہے جیسا کوئی کہتا ہے ویسا ہی سن کر مان لیتا ہے اس کا جواب ہے کہ اس کا کان دیکر بات سن لینا تمہارے لئے خیر ہے یہ سمجھتا سب ہے مگر گرفت نہیں کرتا اور تغافل سے کام لیتا ہے تو سمجھتے ہو کہ ان کو جھوٹ سچ کا پتہ نہیں لگا یہ نہ سمجھو کیونکہ یہ اپنی وسعت اخلاق اور بعض مصالح کے ماتحت وہ تم سے تعارض نہ کریں اور مہربانی سے پیش آئیں تو یہ تمہارے لئے بہتر ہی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں منافق حضرت کو طعن کرتے کہ یہ شخص کان ہی رکھتا ہے حضرت اپنے وقار سے جھوٹ کا جھوٹ پہچانتے تو بھی نہ پکڑتے تغافل کرتے وہ بیوقوف جانتے کہ انہوں نے سمجھا نہیں سو اللہ نے فرمایا یہ خو نبی کی تمہارے حق میں بہتر ہے نہیں تو اول تم پکڑے جائو۔ 12