Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 62

سورة التوبة

یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَکُمۡ لِیُرۡضُوۡکُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَحَقُّ اَنۡ یُّرۡضُوۡہُ اِنۡ کَانُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۶۲﴾ الثلٰثۃ

They swear by Allah to you [Muslims] to satisfy you. But Allah and His Messenger are more worthy for them to satisfy, if they should be believers.

محض تمہیں خوش کرنے کے لئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جاتے ہیں حالانکہ اگر یہ ایمان دار ہوتے تو اللہ اور اس کا رسول رضامند کرنے کے زیادہ مستحق تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites revert to Lies to please People Allah says; يَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُوْمِنِينَ They swear by Allah to you (Muslims) in order to please you, but it is more fitting that they should please Allah and His Messenger, if they are believers. Qatadah said about Allah's statement, يَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ (They swear by Allah to you (Muslims) in order to please you), "A hypocrite man said, `By Allah! They (hypocrites) are our chiefs and masters. If what Muhammad says is true, they are worse than donkeys.' A Muslim man heard him and declared, `By Allah! What Muhammad says is true and you are worse than a donkey!' The Muslim man conveyed what happened to the Prophet who summoned the hypocrite and asked him, مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِي قُلْتَ What made you say what you said? That man invoked curses on himself and swore by Allah that he never said that. Meanwhile, the Muslim man said, `O Allah! Assert the truth of the truthful and expose the lies of the liar.' Allah revealed this Verse."' Allah's statement,

نادان اور کوڑ مغز کون؟ واقعہ یہ ہوا تھا کہ منافقوں میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ہمارے سردار اور رئیس بڑے ہی عقل مند دانا اور تجربہ کار ہیں اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی باتیں حق ہوتیں تو یہ کیا ایسے بیوقوف تھے کہ انہیں نہ مانتے؟ یہ بات ایک سچے مسلمان صحابی نے سن لی اور اس نے کہا واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں بالکل سچ ہیں اور نہ ماننے والوں کی بیوقوفی اور کوڑ مغز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ جب یہ صحابی دربار نبوت میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ بیان کیا کہ آپ نے اس شخص کو بلوا بھیجا لیکن وہ سخت قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بات کہی ہی نہیں یہ تو مجھ پر تہمت باندھتا ہے اس صحابی نے دعا کی کہ پروردگار تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دکھا اس پر یہ آیت شریف نازل ہوئی ۔ کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ اور رسول کے مخالف ابدی اور جہنمی ہیں ۔ ذلت و رسوائی عذاب دوزخ بھگتنے والے ہیں اس سے بڑھ کر شومی طالع اس سے زیادہ رسوائی اس سے بڑھکر شقاوت اور کیا ہو گی؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] منافقوں کی جب بھی کوئی سازش یا دغا بازی پکڑی جاتی تو فوراً اس سے مکر جاتے اور اپنے جھوٹے بیان پر قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو مطمئن اور راضی کرنے کی کوشش کیا کرتے۔ حالانکہ یہی بات ان کی منافقت کو مزید تقویت پہنچا دیتی تھی۔ اس کے بجائے اب بھی اگر وہ اللہ سے ڈر جاتے اور اپنی غلطیوں اور گناہوں کا اعتراف کر کے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے کی کوشش کرتے تو یہ فی الواقع ان کے اللہ پر یقین رکھنے کی دلیل بن سکتی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَحْلِفُوْنَ باللّٰهِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ : منافقین جب الگ مجلسوں میں بیٹھتے یا کہیں اکیلے ہوتے تو مسلمانوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھبتیاں کستے۔ مسلمانوں کو یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر کبھی ان کی اطلاع ہوجاتی تو وہ قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پروا نہ کرتے۔ اس آیت میں منافقین کی اس حرکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَحْلِفُوْنَ بِاللہِ لَكُمْ لِيُرْضُوْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ يُّرْضُوْہُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝ ٦٢ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف : إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

رضا الٰہی رضائے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متضمن ہے قول باری ہے واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ ان کانوا مومنین اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسول اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں ایک قول کے مطابق یرضوہ میں ضمیر واحد مذکور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کو متضمن ہوتی ہے اس لیے کہ ہر وہ کام جس سے اللہ راضی ہوتا ہے اس سے رسول بھی راضی ہوتا ہے۔ اس لیے دلالت حال کی بنا پر رسول کے لیے ضمیر کا ذکر ترک کردیا گیا ۔ ایک قول کے مطابق کنایہ کے اندر اللہ کا اسم کسی اور اسم کے ساتھ یک جا نہیں ہوتا ۔ تنہا ذکر باری میں اس کی عظمت کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتا ہے وہ ہدایت پا لیتا ہے اور جو شخص ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے وہ گمراہ ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر آپ نے اس سے فرمایا چلئے جائو ، تم بہت برے خطیب ہو ۔ آپ نے اس کی یہ بات ناپسند فرمائی کہ اس نے کنایہ میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کے نام کو یکجا کردیا تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے غیر اللہ کے اسم کو اللہ کے اسم کے ساتھ جمع کرنے سے منع فرمایا ہے آپ کا ارشاد ہے لا تقولو ان شاء اللہ وشاء فلان ولکن قولوا ان شاء اللہ ثم شاء فلان یہ نہ کہو کہ اگر اللہ چاہے اور فلاں چاہے ، بلکہ یوں کہو اگر اللہ چاہے اور پھر فلاں چاہے۔ قول باری ہے یحذر المنافقون ان تنزل علیھم سورة تنبئھم بما فی قلوبھم و منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں ان پر کوئی ایسی سورت نازل نہ ہوء جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے ۔ حسن اور مجاہد کا قول ہے کہ منافقین ڈرتے رہتے تھے ، ان دونوں حضرت نے فقرے کو اس معنی پر محمول کیا ہے کہ ان کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے کہ وہ ڈر رہے ہیں ۔ ان کے سوا دوسرے حضرات کا قول ہے کہ فقرے کی صورت تو جملہ خبر یہ کی ہے لیکن یہ امر کے معنوں میں ہے۔ اصل عبارت اس طرح ہے لیحذر المنافقوں منافقین کا ڈرنا چاہیے۔ قول باری ہے ان اللہ مخرج ما تحذرون اللہ تعالیٰ اس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھل جانے سے تم ڈرتے ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی جا رہی ہے کہ دل میں پوشیدہ بدی کو کھول دیا جائے گا اور اسے ظاہر کر کے بدی رکھنے والے شخص کو پوری طرح عیاں کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں اس کا پول کھل جائے گا اور اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ خبر منافقین کے بارے میں دی جا رہی ہے اور دوسرے لوگوں کو جو اپنے دلوں میں بدی چھپائے ہوئے ہیں تنبیہ کی جا رہی ہے یہ قول باری اس قول واللہ مخرج ما کنتم تکتمون اور اللہ تعالیٰ اس چیز کو کھو ل دیئے والا ہے جس کو تم چھپاتے ہو کے ہم معنی ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) یہ لوگ جہاد میں نہ شریک ہو کر پھر اپنی صفائی کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ آپ کو مطمئن کریں اگر یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ ج) اس مہم کی تیاری کے دوران منافقین کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جھوٹے بہانے بنا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رخصت لے لیتے ‘ اور پھر قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو بھی یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ ہم آپ کے مخلص ساتھی ہیں ‘ آپ لوگ ہم پر شک نہ کریں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٢۔ ٦٣۔ اس آیت میں اللہ پاک نے منافقوں کے پوشیدہ راز کو کھول دیا کہ یہ لوگ خلوتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں پر طعن کی باتیں کرتے ہیں اور جب وہ خبر حضرت کو پہنچ جاتی ہے تو حاضر ہو کر خدا کی قسمیں کھا کر کہنے لگتے ہیں کہ یہ بات ہم نے نہیں کہی ہے اور اس جھوٹی قسم سے ان کا منشا یہ ہوتا ہے کہ حضرت اور مومنین ان سے راضی رہیں اس لئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ خدا سے ڈر کر اور ایمان لاکر باتیں کرتے اور نفاق چھوڑ دیتے تو بیشک خدا اور اس کا رسول ان سے راضی ہوتا کیا انہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ جو خدا اور رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کا ٹھکانا ہمیشہ ہمیشہ کو دوزخ میں ہے جو رسوائی کی بات ہے تفسیر سدی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جو قتادہ کا قول ہے اس میں قتادہ اس آیت کی شان نزول میں یہ کہتے ہیں کہ ایک منافق نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لوگ یوں تو صاحب عقل اور بہت شریف ہیں لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہتے ہیں اگر یہ اس کو سچ جانتے ہیں تو یہ لوگ گدھے سے بھی بدتر ہیں بعض روایتوں میں یوں ہے کہ اس منافق جلاس بن سویدنے یہ کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کہتے ہیں اگر وہ سچ ہے تو ہم لوگ کیا گدھے ہیں جو ہماری سمجھ میں وہ حق بات نہیں آتی عامر بن قیس نے یہ بات سنی اور کہا کہ واللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں حق کہتے ہیں اور تو گذھے سے بھی بدتر ہے یہ خبر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچ گئی آپ نے اس منافق کو بلا کر پوچھا تو نے یہ بات کس لئے کہی تھی وہ قسمیں کھانے لگا کہ میں نے ہر گزیہ بات نہیں کہی ہے مسلمان نے کہا یا اللہ تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دے اس پر یہ آیت اتری عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ ایک بات کو سن کر کوئی شخص بھول جاوے تو ایسے موقع پر الم یعلم کہہ کر اس کو وہ بات یاد دلائی جاتی ہے اس آیت سے پہلے بہت سی آیتیں منافقوں کے عذاب عقبیٰ کے باب میں نازل ہوچکی تھیں اس لئے الم یعلموا فرما کر نہیں وہ عذاب کی آیتیں یاد دلائیں صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی یہ حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اپنی دغا بازی کی عادت کے موافق قیامت کے دن جب منافق لوگ اپنے عملوں سے انکار کریں گے تو ان کے ہاتھ پیر ان کے عملوں کی گواہی دے کر انہیں رسوا کریں گے آیت میں منافقوں کی رسوائی کا جو ذکر ہے اس حدیث کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:62) لیرضوکم۔ یرضوا۔ ارضی یرضی ارضاء (افعال) سے مضارع جمع مذکر غائب۔ اصل میں یرضیون تھا۔ ی پر ضمہ ثقیل ہونے کی بنا پر ماقبل کو دیا۔ پھر ی اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی۔ نون اعرابی بوجہ عمل لام گرگیا یرضوا رہ گیا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تاکہ تمہیں وہ راضی کرلیں۔ واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ۔ یرضوہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب لائی گئی ہے۔ حالانکہ اس کے مرجع دو ہیں اللہ اور اس کا رسول۔ اور قاعدہ کے مطابق ضمیر تثنیہ کی ہونی چاہیے تھی۔ واحد کی ضمیر اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی رضا ایک ہی ہے۔ یا کلام تقدیر یوں ہے واللہ احق ان یرضوہ ورسولہ کذلک۔ یعنی اللہ زیادہ حق دار ہے کہ وہ اسے راضی کریں اور اسی طرح اس کا رسول بھی زیادہ حق دار ہے کہ وہ اسے راضی کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 منافقین اپنی خلوتوں اور تنہا ئیوں میں مسلمانوں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھتبیاں کستے۔ یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر ان کی اطلاع ہوجاتی ہے وہ قسمیں کھاکھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے اور اللہ و رسول کی پروا نہ کرتے۔ منافقین کی اسی حرکت کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے کردار اور گفتار کا بیان جاری ہے۔ منافق محض اپنی چرب لسانی سے مومنوں کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے تھا۔ اگر اللہ اور اس کا رسول راضی ہوجاتا ہے تو مومن خود بخود راضی ہوجاتے لیکن اے منافقو ! تمہاری حالت یہ ہے کہ جو کچھ بھی کر رہے ہو وہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مقابلہ کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھو تمہیں دنیا میں مہلت دی جا رہی ہے لیکن بالآخر تم نے ہمیشہ جہنم میں جلنا ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور تکلیف اور رسوائی نہیں ہوسکتی۔ منافق کو منافق اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوہرے کردار اور گفتار کا مالک ہوتا ہے۔ منافقین جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کسی گستاخی کا ارتکاب کرتے تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کے سامنے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہتے کہ ہماری بات کا فلاں شخص نے غلط مفہوم لیا ہے ہم تو اللہ کے رسول کے بارے میں کسی گستاخی کا تصور نہیں کرسکتے۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے اس پر انھیں سمجھایا گیا کہ اگر تم سچا ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو راضی کرو کیونکہ اللہ اور اس کا رسول تم پر راضی ہوں گے۔ تو صحابہ کرام (رض) خود بخود راضی ہوجائیں گے یہاں ضمیر تثنیہ کی آنی چاہیے تھی۔ لیکن ضمیر واحد کی لا کر ثابت کیا ہے کہ اصل رضا مندی اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے رسول تو اپنے رب کی رضا کا پابند ہوتا ہے اور مومن رسول کے تابع ہوتے ہیں اس لیے اسی سورة کی آیت ٩٦ میں وضاحت فرمائی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر منافقوں پر کسی وجہ سے راضی ہو بھی جائیں تو اللہ ان پر ہرگز راضی نہ ہوگا۔ جہنم کی سزا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیز ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰکہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی قَوْلِہٖ وَیُسْقٰی مِنْ مَّاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہٗ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہٗ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہٗ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہٖ وَإِذَا شَرِبَہٗ قَطَّعَ أَمْعَاءَ ہٗ حَتَّی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہٖ ) [ رواہ احمد ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنمیوں کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا وہ ان کو جلا دے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ان کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو ناپسند کرے گا جونہی وہ اس کے قریب ہوگا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اور اس کے سر کے بال بھی گرجائیں گے اور جب وہ پیے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی یہاں تک کہ وہ پانی اس کی پشت سے نکل جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی رضا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کی رضا ہے۔ ٢۔ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھا کر تم کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور منافقین کا ہر دور میں یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ کہتے کچھ ین اور کرتے کچھ ہیں۔ سامنے ان کا رویہ اور ہوتا ہے اور پیٹھ پیچھے ان کا رویہ اور ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ مومنین صادقین کے ساتھ آنکھیں بھی نہیں ملا سکتے۔ نہ ان کے ساتھ بات کرسکتے ہیں چناچہ پھر وہ قسموں کا سہارا لے کر چاپلوسی اور ذلت اختیار کرکے لوگوں کی رضامندی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ، اگر یہ سچے مومن ہیں تو اللہ و رسول اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔ کیونکہ لوگوں کا مقام ہی کیا ہے ؟ لوگوں کی حیثیت ہی کیا ہے ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان نہیں لاتا اور اس کے سامنے نہیں جھکتا ، وہ لوگوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے جیسے انسان سے ڈرتا ہے۔ ان کے لیے بہتر تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کے سامنے سرنگوں ہوتے جو سب کا خدا ہے۔ اس میں ان کے لیے کوئی ذلت نہیں ہے۔ ذلت تو اس میں ہے کہ کوئی اپنے جیسے انسان کے سامنے جھکے جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے۔ وہ جھوٹا نہیں ہوتا بلکہ جو شخص اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتا ہے وہ جھوٹا ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر منافقین کی ایک عادت بد کا تذکرہ فرمایا (یَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ ) (وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں) منافقین کا یہ طریقہ تھا کہ طرح طرح کی باتیں کرتے اور اپنی باتوں سے منحرف ہوجاتے تھے۔ پھر چونکہ زیادہ تر واسطہ عامۃ المسلمین سے پڑتا تھا اس لیے انہیں راضی رکھنے کے لیے بار بار قسمیں کھا کر ان سے اپنا تعلق ظاہر کرتے تھے تاکہ یہ لوگ انہیں اپنے سے جدا نہ سمجھیں۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) (اور اللہ اور اللہ کا رسول اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو راضی کیا جائے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:“ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ الخ ”“ لَکُمْ ” اور “ لِیُرْضُوْکُمْ ” میں ضمیر خطاب مؤمنین سے کنایہ ہے۔ منافقین، مومنین کے سامنے قسمیں کھا کھا کر اپنی براءت کتے اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے اللہ نے فرمایا اگر واقعی وہ مومن ہوتے تو ان کا فرض تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ایسا انہوں نے کیا نہیں تو صرف مسلمانوں کو خوش کرنے سے کیا حاصل۔ “ اَلَمْ یَعْلَمُوْا الخ ” یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 یہ منافق تم مسلمانوں کے روبرو خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش اور راضی کرلیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان کو راضی کیا جائے اگر یہ واقعی سچے مسلمان ہیں تو ان کو راضی کریں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کسی وقت حضرت ان کی دغا بازی پکڑتے تو مسلمانوں کے روبرو قسمیں کھاتے کہ ہمارے دل میں بری نیت نہ تھی تا ان کو راضی کرکے اپنی طرف کریں نہ جانا کہ یہ فریب بازی خدا تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کام نہیں آتی۔ 12