Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 63

سورة التوبة

اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّہٗ مَنۡ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الۡخِزۡیُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۶۳﴾

Do they not know that whoever opposes Allah and His Messenger - that for him is the fire of Hell, wherein he will abide eternally? That is the great disgrace.

کیا یہ نہیں جانتے کہ جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لئے یقیناً دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والا ہے یہ زبردست رسوائی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَلَمْ يَعْلَمُواْ أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللّهَ وَرَسُولَهُ ... Know they not that whoever opposes and shows hostility to Allah and His Messenger, means, have they not come to know and realize that those who defy, oppose, wage war and reject Allah, thus becoming on one side while Allah and His Messenger on another side, ... فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ... certainly for him will be the fire of Hell to abide therein, in a humiliating torment, ... ذَلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ That is the extreme disgrace. that is the greatest disgrace and the tremendous misery.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] منافقوں کی رسوائی کیسے ؟ یعنی ایک رسوائی تو اس وقت ہوتی ہے جب ان کی کوئی سازش اور دغا بازی سب لوگوں کے سامنے آجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کو مزید جھوٹی باتیں بنا کر اور قسمیں کھا کر اپنی طرف سے مسلمانوں کو اپنی صفائی کی یقین دہانی کرانا پڑتی ہے اور یہ رسوائی اس رسوائی کے مقابلہ میں بہت ہلکی ہے جو انہیں قیامت کے دن سب کے سامنے اٹھانا پڑے گی۔ جب ان کی یہ سب شرارتیں کھل کر سامنے آجائیں گی اور معذرتوں کا بھی موقع نہ ہوگا پھر انہیں جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّهٗ مَنْ يُّحَادِدِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ :” يُّحَادِدِ “ یہ ” حَدٌّ“ سے مشتق ہے جس کا معنی ” جانب “ ہے۔ باب مفاعلہ عموماً مقابلے کے لیے آتا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول ایک جانب ہوں اور یہ اس کے مقابلے میں دوسری جانب ہوں۔ آگے سوال کے طور پر ان کا انجام ذکر فرمایا کہ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ؟ سوال کا مقصد پوچھنا نہیں بلکہ بتانا ہے کہ یہ بات اتنی واضح ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے مقابلے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّہٗ مَنْ يُّحَادِدِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِيْہَا۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيْمُ۝ ٦٣ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ حدَّ الحدّ : الحاجز بين الشيئين الذي يمنع اختلاط أحدهما بالآخر، يقال : حَدَدْتُ كذا : جعلت له حدّا يميّز، وحَدُّ الدار : ما تتمیز به عن غيرها، وحَدُّ الشیء : الوصف المحیط بمعناه المميّز له عن غيره، وحَدُّ الزنا والخمر سمّي به لکونه مانعا لمتعاطيه من معاودة مثله، ومانعا لغیره أن يسلک مسلکه، قال اللہ تعالی: وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] ، وقال تعالی: تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] ، وقال : الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] ، أي : أحكامه، وقیل : حقائق معانيه، و جمیع حدود اللہ علی أربعة أوجه : - إمّا شيء لا يجوز أن يتعدّى بالزیادة عليه ولا القصور عنه، كأعداد رکعات صلاة الفرض . - وإمّا شيء تجوز الزیادة عليه ولا تجوز النقصان عنه - وإمّا شيء يجوز النقصان عنه ولا تجوز الزیادة عليه . - وإمّا شيء يجوز کلاهماوقوله تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] ، أي : يمانعون، فذلک إمّا اعتبارا بالممانعة وإمّا باستعمال الحدید . ( ح د د ) الحد جو دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو ان کو با ہم ملنے سے روک دے حدرت کذا میں نے فلاں چیز کے لئے ھڈ ممیز مقرر کردی ۔ حدالداد مکان کی حد جس کی وجہ سے وہ دوسرے مکان سے ممیز ہوتا ہے ۔ حد الشیء کسی چیز کا وہ وصف جو دوسروں سے اسے ممتاز کردے اور زنا و شراب کی سزا کو بھی حد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا دوبارہ ارتکاب کرنے سے انسان کو روکتی ہے ۔ اور دوسروں کو بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک دیتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ [ الطلاق/ 1] اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدود سے تجاوز کرے گا ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوها [ البقرة/ 229] یہ خدا کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ان سے تجاوز مت کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ الْأَعْرابُ أَشَدُّ كُفْراً وَنِفاقاً وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ التوبة/ 97] دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں کہ یہ جو احکام ( شریعت ) خدا نے نازل فرمائے ہیں ان سے واقف ( ہی ) نہ ہوں ۔ میں بعض نے حدود کے معنی احکام کئے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ حقائق و معانی مراد ہیں ۔ جملہ حدود الہی چار قسم پر ہیں ۔ ( ا) ایسے حکم جن میں نقص و زیادہ دونوں جائز ہوتے ہیں جیسے فرض نمازوں میں تعداد رکعات کو جو شارع (علیہ السلام) نے مقرر کردی ہیں ان میں کمی بیشی قطعا جائز نہیں ہے (2) وہ احکام جن میں اضافہ تو جائز ہو لیکن کمی جائز نہ ہو (3) وہ احکام جو اس دوسری صورت کے برعکس ہیں یعنی ان کمی تو جائز ہے لیکن ان پر اضافہ جائز نہیں ہے ۔ (4) اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المجادلة/ 5] جو لوگ خدا اور اسکے رسول کی مخالفت کرتے ہیں ۔ یحادون کے معنی اللہ رسول کی مخالفت کے ہیں اور اس مخالف کو یحدون کہنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے اور یا الحدید کے استعمال یعنی جنگ کی وجہ سے نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ خزی خَزِيَ الرّجل : لحقه انکسار، إمّا من نفسه، وإمّا من غيره . فالذي يلحقه من نفسه هو الحیاء المفرط، ومصدره الخَزَايَة ورجل خَزْيَان، وامرأة خَزْيَى وجمعه خَزَايَا . وفي الحدیث :«اللهمّ احشرنا غير خزایا ولا نادمین» والذي يلحقه من غيره يقال : هو ضرب من الاستخفاف، ومصدره الخِزْي، ورجل خز . قال تعالی: ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] ، ( خ ز ی ) خزی ( س ) الرجل رسوا ہونا ۔ خواہ وہ رسوائی انسان کو خود اس کی ذات سے لاحق ہو یا غیر کی طرف سے پھر رسوائی اپنی جانب سے لاحق ہوتی ہے اسے حیائے مفرط کہاجاتا ہے اور اس کا مصدر خزابۃ ہے ۔ اس سے صیغہ صفت مذکر خزبان اور مونث خزلی خزابا ۔ حدیث میں ہے (110) اللھم احشرنا غیر خزایا و الاناد میں اے خدا ہمیں اس حالت میں زندہ نہ کرنا ہم شرم اور ندامت محسوس کرنیوالے ہوں ۔ اور جو رسوائی دوسروں کی طرف سے لاحق ہوتی ہے وہ ذلت کی ایک قسم ہے ۔ اور اس کا مصدر خزی ہے ۔ اور رجل خزی کے معنی ذلیل آدمی کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا [ المائدة/ 33] دنیا میں انکی سوائی ہے ۔ کہ رسوائی اور برائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٣) منافقوں کو اس بات کا پتہ نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے بہت سخت عذاب ہے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:63) یحادد۔ مضارع واحد مذکر غائب اصل میں یحادد تھا۔ بوجہ عمل من مجزوم ہوا۔ اور وصل کی وجہ سے مکسور کردیا گیا۔ محاددۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ مخالفت کرتا ہے حد۔ ہر چیز کی انتہاء حد فاصل ۔ تیزی ۔ بہادری ۔ کبھی حد بمعنی گناہ۔ اور سزائے گناہ کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے حدیث میں آیا ہے انی اصبت حداً فاقمہ علی میں نے ایک حد کو پالیا ہے تو اب وہ حد مجھ پر قائم کیجئے۔ یعنی مجھ سے گناہ ہوگیا ہے اس کی سزا دیدیجئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 64 تا 66 یحذر (ڈرتا ہے) تنبی (مطلع کر دے) استھزء وا (مذاق اڑا لو) مخرج (نکالنے والا) نخوض (ہم دل لگی کر رہے ہیں) نلعب (ہم کھیل کر رہے ہیں) لاتعتذروا (تم معذرت نہ کرو) ان نعف (اگر ہم معاف کردیں) تشریح : آیت نمبر 64 تا 66 ان آیات میں مسلسل منافقین کی بدکرداریوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اسی میں یہ بھی تھا کہ منافین اپنی نجی محفلوں میں بیٹھ کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان لوگوں کا مذاق اڑانے، طعن وطنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے ۔ وہ اہل ایمان جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہوتے ان کی ہر طرح ہمت شکنی کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی یہ بات کوئی مومن سن لیتا اور پوچھتا کہ تم کیا کہہ رہے تھے تو اپنی منافقت اور گری ہوئی ذہنیت کو چھپاتے ہوئے کہتے کہ ہم تو پوں ہی کچھ مذاق میں کہہ رہے تھے ہمارا قصد کوئی برائی کا نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک ہی سوال کیا اور وہ یہ کہ کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمہارے نزدیک یہی حیثیت ہے کہ تم ان کے متعلق کوئی بات ہنسی مذاق میں کر جائو۔ اور سمجھتے رہو کہ کوئی بات نہیں ہے حالانکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے حق دار ہیں کہ ادب و احترام کا ہر پہلو محلوظ رکھا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس لئے نہیں ہیں کہ کوئی شخص ان کو یا ان کی باتوں کو تضحیک کا نشانہ بنائے۔ فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے بھی ایسا کیا ہے یا سوچا ہے درحققیت انہوں نے ایمان لانے کے بعد کافرانہ حرکت کی ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ اب یہ تو اللہ کی شان کریمی ہے کہ وہ ان منافقین میں سے جس کو چاہے معاف کر دے اور جس کو چاہے عذاب دے کیونکہ یہ سب کے سب اللہ کے مجرم ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ استفہام انکار ہے اور مخاطبین کو جھڑکنا اور متنبہ کرنا مطلوب ہے کہ یہ لوگ دعائے ایمان کرتے ہیں اور پھر بھی اللہ اور رسول اللہ کے ساتھ محاربت اور جنگ کرتے ہیں۔ لہذا انہیں معلوم ہونا چاہی کہ اللہ اور رسول اللہ کے ساتھ جنگ کرنا ایک عظیم گناہ ہے اور جو شخص اللہ اور رسول اللہ کے ساتھ دشنی رکھتا ہے ، جہنم اس کے انتظار میں ہے۔ اور ان کے اس غرور اور سرکشی کے بدلے انہیں ذلت اور رسوائی کی سزا دی جائے گی۔ اگر وہ سچے مومن ہیں جیسا کہ وہ دعوائے ایمان کرتے ہیں تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس حقیقت سے بیخبر ہوں۔ یہ اللہ کے بندوں سے تو ڈرتے ہیں اور ڈر کر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ ان کو راضی کریں اور ان خبروں کی تردید کریں جو ان بندوں تک ان کی بابت پہنچ رہی ہیں۔ لیکن یہ بات حیرت انگیز ہے کہ وہ خالق کائنات سے نہیں ڈرتے کہ اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اور اس کے دین کی دشمنی کرتے ہیں۔ گویا وہ اللہ سے لڑتے ہیں اور اس کی طاقت اس قدر برتر ہے کہ اس سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ بلکہ وہ شرمناک گناہ کا ارتکاب کرتے اور یہ ایک عظیم غلطی ہے جو یہ کر رہے ہیں اور یہ بات ان کے لیے بہت ہی خطرناک ہے کہ وہ دین کے خلاف سازشیں کریں اور رسول اللہ کو اذیت دیں۔ یہ لوگ بزدل اس قدر ہیں کہ یہ دین اور اہل دین اور رسول اللہ کے مقابلے میں کھل کر نہیں آسکتے۔ پھر یہ اس سے بھی ڈرتے ہیں کہ اللہ ان کے راز اہل ایمان پر بھی کھول نہ دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم کو ان کی خفیہ نیتوں سے مطلع نہ کردیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ظاہری طور پر بندوں کو راضی کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ اگر واقعی مومن ہوتے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کرتے ان کی نافرمانی سے بچتے۔ ایسا کرنے سے اہل ایمان بھی راضی ہوجاتے۔ لیکن چونکہ دنیا کے طالب ہیں اس لیے مسلمانوں سے ظاہری میل ملاپ اور رکھ رکھاؤ کے لیے قسمیں کھا جاتے ہیں اور اندر جو کفر اور نفاق بھرا ہوا ہے اسے نہیں چھوڑتے پھر بطور زجر اور توبیخ کے فرمایا (اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّہٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ ) (الآیۃ) (کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ عذاب بڑی رسوائی ہے) یہ لوگ دنیاوی رسوائی سے بچتے ہیں اور انہیں آخرت کی رسوائی سے بچنے کا دھیان نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

63 کیا ان کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے گا تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ پڑا رہے گا اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ یعنی جو شخص اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے اور ان کا مقابلہ کرے وہ یہ سمجھ لے کہ وہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنے کا کام کررہا ہے۔